بدھ، 14 مارچ، 2018

مسکراتے لیڈر

 

فاٹا، بلوچستان اور کراچی میں لوگ خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔ سول ادارے اور پولیس ان کو جان کا تحفظ دینے میں ناکام ہوئی ہے اور عسکری اداروں نے دہشت اور خوف کو قابو کر کے کامیابی کو اپنے قدم چومنے پر مجبور کیا ہوا ہے ۔ آسمان ابھی تک صاف نہیں ہے ،دہشت کے سائے اور خوف کے کالے بادل ختم نہیں ہوئے ہیں۔ انسانی جان کو اپنے تحفظ کا یقین نہیں ہے۔ جب انسان کی جان پر بنی ہوتو اس کی بھوک مفقود اورنیند عنقا ہو جایا کرتی ہے۔ ذائقے اور نرم بسترے بھی اسی وقت راحت بخشتے ہیں جب انسانی جان کو تحفظ دستیاب ہو۔متذکرہ علاقوں سے عسکری چھتری کو ہٹا کر حالات کا تصور کریں تو انسانی خون سڑکوں پر بہتا دکھائی دیتا ہے۔ ان حالات میں جمہوری تسلسل کو بحال رکھنے کے لئے موجودہ سینٹ کے انتخاب کے نتائج کو دیکھیں تو ان علاقوں سے منتخب ہونے والے افراد ، ان کا کردار ، جان کی خوف کا ڈر اور جان کے تحفظ کی قیمت کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ اوپر بیان کی گئی حالت کو اگر یوں بیان کیا جائے کہ انسان کی جان کو خطرہ لاحق ہو جائے تو وہ بہت سی آسائشوں کو قربان کرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ حکمرانی ایسا نشہ ہے کہ اس کو پورا کرنے کے لیے اپنے شہریوں کو فروخت کرنے کا ذکر ہمارے سابقہ نہ ڈرنے والے حکمران کی کتاب میں موجود ہے۔انسانوں کو عمارتوں کے اندر بند کر کے جلا دینا، جسم کو جلا دینے والے بارود سے بے ضرر بچیوں کو بھون دینا حکمرانی کے کھیل گردانے جاتے ہیں۔ دنیا میں آنکھوں پر پٹی صرف دو لوگوں کی آنکھوں پر بندھی دکھائی دیتی ہے ایک طاقت کی طمع کے حریص حکمران اور دوسرے انصاف کا میزان برابر رکھتے جج۔مگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے حکمران کئی آنکھوں سے دیکھتا اور کئی کانوں سے سن رہا ہوتا ہے تو یہی حال جج کا ہوتا ہے کو ایک قاتل کو پھانسی پر لٹکانے سے پہلے کئی آنکھوں سے واقعات کو دیکھتا اور کئی کانوں سے حالات کو سنتا ہے۔
حکمرانی کو قائم رکھنے طریقے دو ہیں ایک طریقہ وہ ہے جو عمر بن خطاب نے اختیار کیا تھا مگر وہ مشکل اور کانٹوں بھری راہ ہے ۔ صرف کفار ہی اس کو اپنانے میں اپنی بقا پاتے ہیں۔ دوسرا طریقہ وہ ہے جو پاکستان میں ستر سالوں سے کامیابی سے جاری و ساری ہے ۔ اس طریقہ کو اپنانے کے لیے راکٹ سائنس کا ماہر ہونا لازمی نہیں ہے ۔ سادہ سا فارمولا ہے اور فارمولا بھی ایسا کہ مساوات کے دائیں رکھو یا بائیں نتیجہ ایک ہی رہتا ہے۔ اور فارمولا یہ ہے کہ عوام کو تعلیم سے دور رکھو۔
جان کا خطرہ درٓمدی اورنیا ہے مگر کارگر ہے۔ فاٹا و بلوچستان میں ہی نہیں کراچی میں بھی کامیاب ہوا ہے۔ جمہوریت کے متوالوں کو جان کی امان پا کر کرسی پر براجمان مسکراتے رہنماء مبارک ہوں ۔ 

اتوار، 11 مارچ، 2018

میاں رضا ربانی

                                   

گومیاں رضا ربانی نے لاہورمیں ارائیں خاندان میں ۱۹۵۳ میں انکھ کھولی تھی مگر ان کی پرورش اورتعلیم کراچی ہی میں ہوئی۔ اور انھوں نے قانون کی ڈگری جیل میں رہ کر حاصل کی۔ انھوں نے بطور وکیل پریکٹس کی مگر ان کا اصلی کام سوشلزم پر مقالہ ہے۔پیپلز پارٹی کے گہرے وفادار او ر اصولوں کے پکے رضا ربانی کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں نامزد کیا گیا تھا مگر انھوں آمر سے حلف لینے سے انکار کر دیا۔بے نظیر بھٹو نے انھیں پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنایا اور وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر، وزیر مملکت ، وفاقی وزیر اور وزیر اعظم کے مشیر کے عہدوں سے ہوتے ہوئے ۲۰۰۵ میں سینٹ کے بلا مقابلہ چیرمین منتخب ہوئے۔
بطور چیرمین سینت انھوں نے چیف جسٹس جمالی صاحب کو ہاوس میں بلایا اور پاکستان کے طاقتور آرمی چیف کو ہاوس میں خوش آمدید کہنے والے پہلے چیرمین سینٹ ہیں۔ انھوں نے اپنی الوداعی تقریر میں خود کو درویش بتایا۔ کرشنا کوہلی کو سینیٹر بنوانے میں اسی درویش کا ہاتھ تھاتوآغاز حقوق بلوچستان میں بھی اس درویش نے اپنا حصہ اپنے جثے سے بڑھ کر ڈالا۔ بے نظیر کے چہیتے رضا ربانی کو بلاول بھٹو زرداری ہی نہیں تمام پاکستانی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس سے بڑا خراج تحسین کیا ہو سکتا ہے کہ قانونی طور پر نااہل اور عوامی طور پر مقبول نواز شریف نے کہا کہ اگر میاں رضا ربانی کو ان کی پارٹی دوبارہ چیرمین کے عہدے کے لیے نامزد کرے تو وہ ان کی حمائت کریں گے ۔پاکستان کی سیاست میں ایسی عزت آج تک کسی دوسرے سیاستدان کے حصے میں نہیں آئی ہے۔ہلال امتیاز جیسا تمغہ قوم پہلے ہی ان کے گلے میں ڈال چکی ہے۔
ان کی شخصیت میں ٹھہراو، سوچ میں گہرائی، کردار کی بلندی اور صلاحیتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے حکومت کے خلاف ۷۳ رولنگ پاس کرائیں مگر انفرادی عزت اور سینٹ کے وقار پر کسی کو لب کھولنے کی جرات نہ ہوئی۔۔انھوں نے کسی پر لعنت ملامت کرنے کی بجائے جمہوریت کے استحکام کے لیے اپنی توانیوں کو استعمال کیا۔ان پر ایران کے ساتھ خفیہ تعلقات رکھنے کا الزام نادیدہ قوتوں کی طرف سے لگایا گیا ، ان کے شیعہ ہونے پر پھبتی کسی گئی، کچھ لوگوں نے بے دین ہونے کا طعنہ دیا ، کسی نے ان کو فوج کا دشمن بتایا ۔ مگر انھوں نے پاکستان کے سب سے اونچے جمہوری ادارے میں جنرل باجوہ کا استقبال کر کے ان تما م سطحی الزامات لگانے والوں کو خاموش ہو جانے پر مجبور کر دیا۔
اپنی ماں کی تعریف کرنا عجب بات نہیں ہے مگر جب انھوں نے اپنی الوداعی تقریر میں بے نظیر بھٹو کو سیاسی ماں کہا تو ہاوس میں تالیاں بجانے والوں میں بے نظیر کے مخالفین بھی شامل تھے۔ یہ ان کی ذات کا سحر ہے جو ایوان بالا میں سر چڑھ کر بولتا رہا۔ ان کا یہ جملہ دیر تک یاد رہے گا کہ ْ کردار اور اصول باقی رہتے ہیں ْ
انھوں نے اپنا تجربہ بھی بیان کیا اور آنے والے چیرمین کو کچھ مشورے بھی دیے ۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ آنے والے چیرمین کو پاکستان کے چیف جسٹس سے مکالمہ کرنا چاہیے۔
ہمارے ہاں سیاسی شخصیات کے الوداع کے موقع پر کلمہ خیر کہنے کی ابتداء ہو چکی ہے۔ پیپلز پارٹی کی ازلی حریف جماعت اسلامی کے امیر نے بہرحال اس روائت کی بنیا د رکھی ہے کہ ان کے الفاظ ہیں ْ میاں رضا ربانی نے اپنے اسلوب اور بہتر کارکردگی سے سب کو متاثر کیا ہے اور پارٹی وابستگی سے بالا تر ہو کر ملک و قوم کی خدمت کا اچھا نمونہ پیش کیا ہے ْ
ان کی رخصتی صرف بطور چیرمین سینٹ ہو رہی ہے۔ ساتویں مرتبہ سینٹ کے ممبر منتخب ہونے والے , عطا ربانی  ( قائد اعظم کے اے ڈی سی ) کے بیٹے ،  رضا ربانی اس وقت کامیابی کا استعارہ ہیں۔

جمعہ، 9 مارچ، 2018

خاکہ

1970
 کے الیکشن کا زمانہ تھا ۔ لاہور سے اٹھی پیپلز پارٹی کے لاڑکانہ کے سپوت ذولفقار علی بھٹو کا پورے ملک میں طوطی بولتا تھا۔نعرہ ان کا ْ روٹی، کپڑا اور مکان ْ کا تھا ۔ بھوک ، نا انصافی، جاگیرداروں اور غاصب حکمرانوں سے مایوس عوام نے سکھ کا سانس لیا۔بھٹو نے حلقے میں کھمبے کو ووٹ دینے کا کہا تو لوگوں نے دیا۔کھمباکیا ہوتا ہے؟ راولپنڈی کی ضلع کچہری میں خورشید حسن میر نام کے ایک وکیل ہوا کرتے تھے، مقدمہ ان کے پاس کوئی نہیں،بھٹو کی پارٹی جائن کی اور ایم این اے بن گئے۔پہلے وزیر بے محکمہ پھر ریلوے کے وزیر بنا دئے گئے۔پہلی بار ہم نے اخباروں میں پڑہا کہ ریلوے کا پورا انجن کیسے غائب ہوتا ہے۔بھٹو البتہ امین تھے۔کیا سیاستدان صادق ہو سکتا ہے ۔ اس موضوع پر فتویٰ لال حویلی ولے شیخ کا حق ہے۔
بھٹو کی مقبولیت کم نہیں ہوئی تھی۔ دوسرا الیکشن بھی جیت گئے تھے۔ چاند صورت ،بھٹو کے خلاف پہلے نو ،پھر گیارہ ستارے چنے گئے۔ اصغر خان بھٹو کے مخالف تھے، جیسے عمران خان نواز شریف کے مخالف ہیں۔عوام نے روز روز کے جلوسوں سے تنگ آ کر راولپنڈی میں بینر لگایا ْ خلقت مٹ جائے گی تو انصاف کرو گے ْ ۔ عوام کے ساتھ انصاف ہوا ۔بھٹو پھانسی کے پھندے پرجھول گئے۔عوام کے نصیب میں جنرل ضیا ء آئے۔کسی نے انھیں بطل اسلام کہا، کسی نے امیر المومنین جانا،کسی نے فلم سٹار کی آنکھوں کو لے کر ان پر طنز کیا مگر تقدیر کے سامنے سب ہار گئے اور ان کی باقیات فیصل مسجد کے باہر صحن میں دفن ہیں۔
بھٹو کی بیٹی بے نظیر آئی، نواز شریف نے ان کی ٹانگ کھینچی، شور شرابہ ہوا اور نوز شریف حکمران چن لیے گئے۔ان کو ایک اور بطل نڈر جنرل مشرف نے چلتا کیا۔
عرض یہ کرنا ہے کہ جس دن جنرل مشرف نے پیارے ہم وطنوں کو مخاطب کیاتو دوسرے دن نوجوان گل محمد مسکراتا میرے پاس آیا
ْ آپ نے تقریر سنی ْ 
میری بد قسمتی کہ میں تقریر نہ سن پایا تھا۔نوجوان کی خوشی دیکھ کر میں نے اسے کریدا 
ْ اب ہمیں صیح آدمی ملا ہے ْ 
جنرل مشرف کے صیح یا غلط ہونے پر صفحات بھرے پڑے ہیں۔مگر یہ سچ ہے کہ ہماری تلاش ْ صیح آدمیْ کی ہے۔مطلوب صیح آدمی کی جو صفات ہمارے ذہن میں رچ بس گئی ہیں وہ یہ ہیں کہ عمر بن خطاب کی طرح اپنے کرتے میں سترہ پیوند سجائے ہو، یقین اس کا ابوبکر کی طرح مضبوط ہو، شجاع علی المرتضی جیسا ہو، حق گوئی میں حسین ابن علی کے ہم پلہ ہو، خالدبن ولید جیسا فاتح ہو، رات کو عبادت میں کھڑا ہو یا عوام کی پہرے داری کرے اور دن کو انصاف کا بول بالا کرے۔
ہم چند دوست مل کر اپنے مطلوب رہنماء کا خاکہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس مشق میں سالوں بیت گئے مگر خاکہ بن نہیں پا رہا۔ ایک دوست نے خاکہ بنایا تھا بالکل قائداعظم کی طرح تھامگر دوسرے دوست نے اس خاکے کو شلوار قیض پہنا دی، تیسرے نے داڑھی بنا دی وغیرہ وغیرہ ۔۔۔
ہم پانچ لوگ کسی خاکے پر متفق نہیں ہو پارہے ہیں۔ آپ کو بھی دعوت ہے کہ آپ بھی ایک خاکہ بنائیں ، اپنے دوستوں کی رائے لیں ۔ اگر آپ پانچ لوگ بھی کسی خاکے پر متفق ہو جاتے ہیں تو آپ مبارک باد کے مستحق ہیں۔

منگل، 6 مارچ، 2018

حقائق اور میزان

 2007
تین نومبر  کو جنرل مشرف نے ایمرجنسی کا اعلان کر کے آئین کو بالکل ہی معطل کر دیا ، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کوہدائت کی کہ کہ وہ پی سی او کے تحت دوبارہ حلف لیں۔ سو کے قریب ججوں نے اس غیر قانونی حکم کو ماننے سے انکار کیاتو جنرل نے ان سب کو نظربند کرکے ڈوگر کو نیا چیف جسٹس بنا لیا۔
نظر بندی سے پہلے مگر سات جج فیصلہ دے چکے تھے کہ مشرف کا عمل غیر قانونی ہے اور اس پر عمل کرنے وا لے لاقانونیت کے مرتکب ہوں گے۔مگر طاقت جیت گئی اور قانون ہار گیا۔

2009
 میں زمینی حقائق تبدیل ہو گئے ۔ صدر آصف علی زرداری کے زیر سایہ، پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران عدالت نے مشرف کی حکومت کے دوران سات ججوں کا جاری کردہ فیصلہ نافذ کر دیا. پی سی او کے تحت بننے والی ڈوگر عدالت غیر قانونی قرار پائی۔
زمینی حقائق
پاکستانی عدلیہ کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عدالتوں میں قانونی تواتر کی بجائے زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر فیصلے کیے جاتے رہے ہیں۔ ان حقائق پر انفرادی جذبات و تعصبات اور خواہشات حاوی ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔نا دیدہ قوتوں کو بھی عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتا بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کے پہلے چیف جسٹس سر عبد الرشید کی ریٹائر منٹ کے وقت چیف جسٹس بننے کی باری ابو صالح محمد اکرم  کی تھی جو ڈھاکہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے ۔ایک سوچی سمجھی رائے کے بعد گورنر جنرل غلام محمد نے کہا کہ جسٹس سر عبدالرشید کی ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت ایک برطانوی قانون دان کو پاکستان کا چیف جسٹس بنانے کا ارادہ رکھتی ہے کیونکہ پاکستان کی بیورو کریسی سمیت عدلیہ جسٹس اکرم کوبطور چیف جسٹس قبول نہیں کرے گی۔اس پر جسٹس اکرم نے کہا کہ اگر انھیں اس قابل نہیں سمجھا گیا تو بھی کسی برطانوی کی بجائے پاکستانی چیف جسٹس بنایا جائے تو ان کو قبو ل ہو گا۔گورنر جنرل نے جسٹس منیر کو چار ججوں کو بائی پاس کر کے پاکستان کا چیف جسٹس مقرر کر دیا۔

کہا جاتا ہے ایک ہاتھ دوسرے کو دھوتا ہے۔ جسٹس منیر نے 1954 میں تحلیل شدہ اسمبلی کی بحالی سے انکار کر کے احسان اتار دیا۔نظریہ ضرورت اور کامیاب انقلاب جیسی اصطلاحیں خودعدالت ہی کی اختراع ہیں۔لیکن زمین حقائق نے ایک اور کروٹ لی اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے ہی بنائے ہوئے آئین میں ترامیم کیں۔ ایک ترمیم کے نتیجے میں جسٹس مولوی مشتاق پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نہ بن سکے۔جنرل ضیاء کے مارشل لاء کو رستہ دینے کی باری آئی تو چیف جسٹس انوارالحق کو معلوم ہوا کہ ان کی جگہ جسٹس یعقوب علی کو چیف بنایا جا رہا ہے۔اسی دن جنرل ضیاء کے قانونی مشیر جناب اے کے بروہی صاحب کی موجودگی میں جسٹس انوار نے انقلاب کو رستہ ہی نہ دیا جنرل صاحب کو آئین میں ترمیم کا حق بھی دے دیا۔عدلیہ اور عسکری اداروں میں صلاح مشورہ کی باز گشت موجودہ دور میں اس وقت سنی گئی جب پاکستان کے معروف ہوئے جج محمد بشیر کی عدالت بارے اخباروں نے لکھا کہ ایک ادارے کے افسر نے جج کے چمبر میں تنہائی میں ملاقات کی ہے۔
اگر عدالتوں میں فیصلے قانونی تواتر کی بجائے زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر کیے جاتے ہیں تو تسلیم کرنا ہو گا کہ زمینی حقائق کا تغیر پذیر ہونا وقت کا مرہون منت ہوتا ہے۔ 


پیر، 5 مارچ، 2018

بھٹو زندہ ہے


سینٹ کے انتخابات کا نتیجہ عوام اور مبصرین کی توقع کے مطابق ہی آیا ہے۔ پنجاب سے چوہدری سرور کی کامیابی بہر حال پی ٹی آٗئی کی بجائے ذاتی کہی جائے تو شائد مبالغہ نہ ہو۔ ایک کامیابی بعض اوقات بہت سی ناکامیوں کا پیش خیمہ بن جایا کرتی ہے۔ چوہدری سرور برطانوی شہریت کے باوجود پنجاب کی سیاست کو اپنے لیڈر سے بہتر منظم کرنے میں ہی کامیاب نہیں رہے بلکہ وہ ارائیں ازم کی بنیاد رکھنے کی سعادت حاصل کر چکے۔ جادو کی نسبت سائنس معجزہ ثابت ہو چکی۔ کپتان نے ثابت کیا ہے کہ وہ ابھی تک اپنا پروگرام اور بیانیہ دینے میں ناکام ہیں اگر یہ کہا جائے کہ ان کے ساتھ ْ بے ووٹ ْ ہجوم ہے تو غلط نہ ہو گا۔ بھانت متی کے کنبے کے افراد عمران خان کا گھیراو کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ عمران خان کو ، حالانکہ وقت گذر چکا ہے ، سوچنا چاہیے کہ اس کے نظریاتی کارکنوں کو آخر شکوہ کیا ہے ۔ جرنیل سپاہیوں کے بل بوتے پر جنگ جیتتا ہے ۔ اور سپاہیوں کا یہ گلہ بے جا نہیں ہے کہ ْ چوری کھانے والے رانجھے ْ جسم کا ماس کاٹ کر نہیں دیا کرتے۔ مولانا سمیع الحق بارے کپتان کا فیصلہ اس کی پارٹی نے نا پسند کیا ہے اور پارٹی کے اجتماعی فیصلے کو عوام نے تحسین کی نظر سے دیکھا ہے۔
بلوچستان میں سیاسی پارٹیوں کو عوام میں اپنا مقام بنانے کے لیے اگلے پانچ سالوں میں محنت کرنا ہو گی۔ سینٹ کے الیکشن سے فوری قبل نادیدہ قوتوں اور مہروں کا کردار عوام کو پسند آیا نہ جمہوریت ہی کو اس سے کوئی فائدہ ہوا۔
کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے سب یہ کوشش تھی کہ کمر کے درد کا مریض تین تلوار پر کھڑا ہو کر مکہ لہرا کر کہہ سکے کہ میں ڈرتا نہیں ہوں۔ حالانکہ ایم کیو ایم نے جو سفر طے کیا ہے اس میں خونی قربانیاں شامل ہیں۔ قربانی قبولیت کا مقام نہ بھی حاصل کرے مگر قربانی کا اپنا ایک تقدس ہوتا ہے۔مکہ بازکی بیماری ختم ہوتی نظر نہیں ٓتی۔
اس الیکشن کے بعد ثابت ہو گیا ہے کہ نواز شریف کا پیر مذکر ہی نہیں جادو کی کاٹ کا بھی ماہر ہے۔ حالانکہ نواز شریف وزیراعظم ہاوس میں اونٹوں کی قربانی کرنے میں ناکام ہوئے تھے ۔نواز شریف کے بیانیے کو عوام نے سہارا دیا ہے۔ کل وقتی قائد مسلم لیگ کو نواز کر کس کو کیا حاصل ہوا ہے ۔ کوئی جواب نہیں دے پا رہا۔ بیان باز بابے بھی انگشت بدنداں کی کیفیت میں ہیں۔ مگر شہباز شریف کو چوہدری سرور واقعی لوہے کے چنے چبوا سکتے ہیں۔
زرداری کی پیپلز پارٹی نے کرامت یہ دکھائی ہے کہ ایک غریب ، عورت، ہندو کو سینٹ کا ممبر بنوایا ہے ۔ لگتا ہے بلاول بھٹو زرداری میں بھٹو متحرک ہوا ہے یا واقعی ذولفقار علی بھٹو زندہ ہے۔ سنا کرتے تھے کہ جن لوگوں کو ناحق قتل کیا جاتا ہے ان کی روح زمین پر ہی بھٹکتی رہتی ہے۔کیا بھٹو واقعی زندہ ہے ؟