جمعہ، 3 اکتوبر، 2025

شادی کے ساتھ جڑی ہوئی معاشی ذمہ داریاں

 اسلامی اور معاشرتی تعلیمات میں شادی کو ایک پاکیزہ رشتہ اور ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ جب لڑکا یا لڑکی 18 سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو وہ بالغ ہوتے ہیں اور نکاح کے قابل سمجھے جاتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ صرف بالغ ہونا کافی نہیں، شادی کے ساتھ جڑی ہوئی معاشی ذمہ داریاں بھی اہمیت رکھتی ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں یہ بات عام ہے کہ شادی کے بعد مرد پر بیوی اور اولاد کی کفالت کی ذمہ داری ڈالی جاتی ہے۔ لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو 22 سال کی عمر تک پہنچنے والے اکثر لڑکے تعلیم یا ہنر حاصل کرنے کے مراحل میں ہوتے ہیں اور مالی طور پر کمزور سمجھے جاتے ہیں۔ ایسے میں فوری شادی کر دینا نہ صرف لڑکے کے لیے بلکہ لڑکی کے لیے بھی مشکلات پیدا کرتا ہے۔

غریب گھرانوں کے لڑکے جو والدین اور بہن بھائیوں کی کفالت کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے شادی کی جلدی عمر مناسب نہیں ہوتی۔ ایسے لڑکوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ پہلے اپنی آمدن مستحکم کریں اور پھر شادی کریں، جو اکثر 24 سے 26 سال کی عمر میں ممکن ہو پاتا ہے۔

پاکستان میں بدلتا ہوا رویہ

پاکستانی معاشرے میں عمومی رویہ بدل رہا ہے۔ اب نہ صرف لڑکے بلکہ لڑکیاں بھی عملی زندگی میں قدم رکھ کر ذاتی آمدن حاصل کر رہی ہیں۔ یہ رجحان اس بات کی علامت ہے کہ شادی شدہ زندگی میں کامیابی صرف اسی وقت ممکن ہے جب جوڑا عملی سوچ رکھنے والا ہو۔ اگر مرد کمانے والا ہو لیکن عورت بالکل انحصار کرنے والی ہو تو بعض اوقات معاشی دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ مرد کے ساتھ ساتھ عورت بھی آمدنی حاصل کرنے والی ہو تاکہ دونوں مل کر زندگی کی ذمہ داریوں کو آسانی سے نبھا سکیں۔

عورت کا روزگار اور اسلامی تعلیمات

اسلامی تعلیمات اور پاکستانی معاشرے کی ضرورت کے مطابق لڑکیوں کے لیے تدریس، صحت اور آئی ٹی جیسے شعبے نہ صرف موزوں ہیں بلکہ ان میں کام کرنے والی خواتین کو عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایک خود انحصار عورت نہ صرف اپنے شوہر کا سہارا بنتی ہے بلکہ والدین اور خاندان کے لیے بھی فخر کا باعث ہوتی ہے۔

عملی حل

  1. شادی کے فیصلے میں صرف عمر نہیں بلکہ معاشی حالات کو بھی مدِنظر رکھا جائے۔

  2. لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کو بھی تعلیم اور ہنر کے ذریعے خود انحصاری کی طرف لایا جائے۔

  3. شادی کے اخراجات میں سادگی کو فروغ دیا جائے تاکہ نوجوان جوڑے بوجھ سے آزاد رہیں۔

  4. والدین اپنے بچوں کو اس سوچ کے ساتھ تیار کریں کہ دونوں مل کر ایک کامیاب اور متوازن زندگی گزار سکیں۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ آج کے دور میں کامیاب ازدواجی زندگی صرف اس صورت میں ممکن ہے جب شادی بالغ ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی خودمختاری اور عملی منصوبہ بندی کو سامنے رکھ کر کی جائے۔

شادی کی عمر



شادی کی عمر
پاکستانی معاشرے میں شادی کی عمر ہمیشہ سے ایک اہم موضوع رہا ہے۔ اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر شادی کے لیے صحیح عمر کون سی ہے؟ کیا صرف جسمانی بلوغت ہی کافی ہے یا ذہنی اور جذباتی پختگی بھی ضروری ہے؟ یہ سوال نہ صرف مذہبی پہلو رکھتا ہے بلکہ سائنسی، سماجی اور قانونی حوالوں سے بھی اس پر غور کیا جانا چاہیے۔

اسلام کا نقطۂ نظر
اسلام شادی کو محض ایک رسم یا ذاتی خواہش نہیں بلکہ ذمہ داری قرار دیتا ہے۔ قرآن مجید میں "بلوغ النکاح" یعنی ازدواجی بلوغت اور "رشد" یعنی سمجھ بوجھ کو لازمی شرط قرار دیا گیا ہے (سورۃ النساء، آیت 6)۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف جسمانی طور پر بالغ ہونا کافی نہیں بلکہ عقل و شعور کے ساتھ ازدواجی زندگی کی ذمہ داری اٹھانے کے قابل ہونا بھی ضروری ہے۔
احادیث میں اس بات کی ترغیب ملتی ہے کہ جو نوجوان شادی کی ذمہ داری نبھانے کے قابل ہوں، وہ جلد نکاح کریں تاکہ وہ اپنی زندگی کو پاکیزگی اور سکون کے ساتھ گزار سکیں۔ (صحیح بخاری و مسلم)۔

سائنسی حقیقت
جدید سائنس بھی یہی کہتی ہے کہ انسان 18 سال کی عمر کے بعد جذباتی اور نفسیاتی طور پر پختگی حاصل کرتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے مطابق کم عمری کی شادی ماؤں اور بچوں کی صحت کے لیے خطرناک ہے۔ یونیسیف (UNICEF) کے اعداد و شمار کے مطابق 18 سال سے پہلے کی گئی شادیاں زیادہ تر گھریلو مسائل، تعلیم میں رکاوٹ اور صحت کی خرابی کا باعث بنتی ہیں۔

پاکستان میں صورتحال
ہمارے ہاں قانون بھی اس مسئلے پر یکساں نہیں۔ سندھ میں شادی کی کم از کم عمر 18 سال رکھی گئی ہے، لیکن پنجاب اور وفاقی سطح پر لڑکیوں کے لیے یہ عمر 16 سال اور لڑکوں کے لیے 18 سال ہے۔ اس تضاد کے باعث عدالتوں میں مقدمات اور معاشرے میں الجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔ صرف پنجاب میں 2020 سے 2023 تک کم عمری کی شادی کے دو ہزار سے زیادہ کیس درج ہوئے، جو اس مسئلے کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں۔

دیہی اور شہری فرق
شہری علاقوں میں عموماً شادی 20 سے 25 سال کی عمر میں کی جاتی ہے اور یہ شادیاں زیادہ پائیدار اور خوشگوار ثابت ہوتی ہیں، کیونکہ تعلیم مکمل ہو چکی ہوتی ہے اور ذہنی پختگی بھی آ چکی ہوتی ہے۔ دیہی علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کے باعث اکثر لڑکیاں تعلیم چھوڑ دیتی ہیں اور گھریلو جھگڑوں کا سامنا کرتی ہیں۔

بحث 
یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اسلام ہو یا جدید سائنس، دونوں کا زور پختگی اور ذمہ داری پر ہے۔ کم عمری کی شادی نہ صرف ایک فرد بلکہ پورے خاندان اور معاشرے پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ شادی کو زندگی کا ایک سنجیدہ فیصلہ سمجھ کر کرنا چاہیے، نہ کہ صرف روایت یا رسم کے طور پر۔

جمعرات، 25 ستمبر، 2025

Trump, the Middle East, and the UN’s Crisis of Credibility




Trump, the Middle East, and the UN’s Crisis of Credibility

The Middle East, a land burdened with wars and unresolved disputes, has long been a testing ground for international diplomacy. Palestine and Kashmir stand out as symbols of the United Nations’ repeated failures. Into this troubled stage stepped Donald Trump — a president with a showman’s flair, a businessman’s bargaining instincts, and an eye fixed firmly on both domestic politics and his own place in history.

Trump often spoke of “ending endless wars.” Behind that rhetoric was a personal desire for the Nobel Peace Prize, a trophy that would elevate him into the league of great statesmen. He wanted to be remembered as the man who brought peace where others had failed. Yet his actions painted a different picture. His administration denied entry to New York for Mahmoud Abbas, the President of the Palestinian Authority, blocking him from attending a UN General Assembly session on Palestine. Silencing the voice of Palestine while amplifying Israel’s narrative told the world where Washington’s loyalties lay.

That loyalty was not accidental. At home, Trump’s survival in politics depended on safeguarding Israel and aligning with the powerful Zionist lobbies that shape America’s Congress, media, and think tanks. Criticizing the U.S. president, the Senate, or even religion may be tolerated in America, but to question Israel remains the one unforgivable sin in public discourse. Netanyahu’s frequent diatribes against Muslims and liberals found an echo in Trump’s speeches, a clear demonstration of how closely the U.S. president followed the Israeli prime minister’s script.

Trump’s international conduct was equally controversial. In his UNGA addresses, he mocked London’s Mayor Sadiq Khan and earlier singled out Zohran Mumdani, a Muslim politician in New York. During his London visit, Sadiq Khan was deliberately excluded from the state dinner. These actions revealed more than personal grudges — they reflected a worldview shaped by suspicion of Muslims and amplified by Israel’s agenda.

But perhaps the most telling aspect of Trump’s UN narrative was not what he said, but what he ridiculed. He complained about the malfunctioning teleprompter and even the elevators at the UN headquarters, while ignoring the organization’s far deeper malfunctions. The UN has consistently failed to resolve the Palestinian and Kashmiri crises, not because of broken machines, but because of a broken system — the veto power.

Here lies the heart of the problem. Time and again, when the majority of the UN General Assembly stood united against Israeli actions, the United States used its veto in the Security Council to shield its ally. Democracy within the UN collapses at the stroke of a single veto. This flaw mirrors the collapse of the League of Nations and threatens to turn the UN into nothing more than a debating club. If Trump was serious about restructuring the UN, then the first and most urgent reform must be a reconsideration of the veto power. Without it, the dream of a peaceful world will remain empty rhetoric.

Funding has also become a weapon. The U.S. is the largest contributor to the UN, but Trump cut funding significantly, holding the institution hostage to Washington’s political will. This raised serious questions: should the UN remain in New York, under constant U.S. pressure? Or should it be moved to Europe, to a more neutral ground? And why should the financial lifeline of global governance depend on one country alone? A more balanced system — where each nation contributes according to its GDP — could finally give the UN the independence it desperately needs.

In the end, Trump’s Middle East policy was a mixture of ambition, bias, and political expediency. Pressured by Muslim leaders, urged by Europeans, and tempted by the lure of a Nobel Peace Prize, he still chose the path of one-sided loyalty to Israel. His speeches and actions revealed the depth of Zionist influence in American politics and the weakness of the UN in confronting it.

The tragedy is not Trump alone. The tragedy is an international order where peace is blocked not by the will of nations, but by the veto of one. Unless the UN reforms this structural flaw, it will remain a stage for speeches — not solutions — and the people of Palestine, Kashmir, and beyond will continue to pay the price.



بدھ، 24 ستمبر، 2025

ٹیلی پرامپٹر



ٹیلی پرامپٹر

اقوامِ متحدہ کی حالیہ نشست کے دوران ٹیلی پرامپٹر کی خرابی نے صرف ایک تکنیکی ناکامی ہی نہیں دکھائی بلکہ اس ادارے کی انتظامی صلاحیت پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا۔ جب دنیا کے بڑے رہنما سب سے اہم عالمی مسائل پر بات کرنے کے لیے جمع ہوں اور اس دوران اس طرح کی ناکامیاں سامنے آئیں تو یہ اقوامِ متحدہ کی اہلیت پر منفی تاثر ڈالتی ہیں۔ وہ ادارہ جو دنیا میں امن و انصاف کا محافظ سمجھا جاتا ہے، خود اپنی کارکردگی اور ساکھ میں کمزور دکھائی دیتا ہے۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی عمارت کے بوسیدہ ڈھانچے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی مرمت پر تقریباً 500 ملین ڈالر درکار ہوں گے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ایک آزاد فریق نے یہی کام محض 200 ملین ڈالر میں مکمل کر دکھایا۔ یہ مثال اقوامِ متحدہ کے غیر شفاف اور غیر مؤثر انتظام کی عکاسی کرتی ہے۔ بظاہر ٹیلی پرامپٹر کی خرابی دراصل اس ادارے کی مجموعی ناکامی کی علامت ہے۔

جس اجلاس میں یہ واقعہ پیش آیا، وہ فلسطینیوں پر غزہ میں جاری نسل کشی کو روکنے کے لیے بلایا گیا تھا۔ لیکن یکجہتی کے بجائے اختلافات نمایاں ہو گئے۔ آج اسرائیل عالمی سطح پر تنہا دکھائی دیتا ہے اور صرف امریکا ہی اس کا مستقل حامی ہے۔ یہ صورتحال عالمی برادری کے اندر اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف بڑھتی ہوئی ناراضی کی علامت ہے۔

ٹرمپ کے ماضی کے بیانات اس تصویر کو مزید واضح کرتے ہیں۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ "پاکستانی مشرقِ وسطیٰ کو ہم سے بہتر سمجھتے ہیں"۔ یہ بات آج اور بھی اہم ہو چکی ہے، کیونکہ ستمبر میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بعد پاکستان کو خطے کے معاملات میں ایک نمایاں حیثیت مل گئی ہے۔ برسوں سے سعودی عرب کو مسلم دنیا کا محور مانا جاتا رہا ہے، لیکن پاکستان کی شمولیت نے اس توازن کو نئے رخ دیے ہیں۔

تاہم جب مسلم رہنماؤں نے ٹرمپ سے ملاقات کی تو امریکا کا سخت مؤقف واضح ہو گیا۔ ٹرمپ نے صاف کہا کہ اسرائیل کبھی بھی مسلم ممالک کی افواج کی موجودگی کو قبول نہیں کرے گا۔ امریکا خود اب اس پوزیشن میں نہیں رہا کہ بڑی تعداد میں اپنی افواج غزہ یا دیگر محاذوں پر تعینات کر سکے، جبکہ یورپی ممالک نہ تو اس صلاحیت کے حامل ہیں اور نہ ہی اس خواہش کے۔ نتیجتاً یہ بحران ایک خطرناک خلا میں جا رہا ہے، جہاں طاقت کے زور پر ہی سب کچھ طے ہو رہا ہے۔

دوسری جانب اسرائیل نے حماس کے خاتمے کا عزم ظاہر کیا ہے اور مغربی کنارے کے مزید علاقوں کو ضبط کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اسرائیل کے اندر ایک خوف موجود ہے۔ اصل خدشہ اسے ان نئے اتحادوں سے ہے جو مشرقِ وسطیٰ میں تشکیل پا رہے ہیں اور مستقبل میں اس کی جارحانہ پالیسیوں کو چیلنج کر سکتے ہیں۔

ٹرمپ اور مسلم رہنماؤں کی ملاقات کے بعد کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہ ہو سکا، جو اس باہمی بداعتمادی کو ظاہر کرتا ہے۔ آخرکار ٹرمپ کے فیصلے بھی اسرائیلی قیادت، خاص طور پر وزیرِاعظم نیتن یاہو کی منظوری کے محتاج تھے۔ اسی لیے دنیا بھر میں یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ آخر سپر پاور امریکا ہے یا اصل طاقت اسرائیل کے ہاتھ میں ہے؟

یوں اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں ٹیلی پرامپٹر کی خرابی محض ایک تکنیکی حادثہ نہیں تھا۔ یہ اس سے کہیں بڑھ کر ایک علامت تھی — اقوامِ متحدہ کے ناقص انتظام کی، عالمی طاقتوں کے درمیان اتفاقِ رائے کی کمی کی، اور ایک ایسے نظام کی جو غزہ میں ہونے والے مظالم کو روکنے سے قاصر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ناکام صرف ٹیلی پرامپٹر نہیں بلکہ پورا نظام ہے، اور دنیا انصاف کی تلاش میں سرگرداں ہے جہاں طاقت اصولوں پر غالب آ گئی ہے۔


منگل، 23 ستمبر، 2025

فیلڈ مارشل سے فیلڈ مارشل تک






فیلڈ مارشل 

 ایوب خان کے دور میں پاکستان نے سعودی عرب کے ساتھ دفاعی تعلقات کی پہلی اینٹ رکھی۔ پاکستانی افسران نے سعودی کیڈٹس کو تربیت دینا شروع کیا اور پاک فضائیہ کے پائلٹ سعودی ایوی ایشن میں مددگار ثابت ہوئے۔
یہ ابتدائی اعتماد وہ بیج تھا جس نے آگے چل کر دونوں ممالک کو باہمی دفاعی معاہدہ کرنے کے قابل بنایا۔

انیس سو ستر کی دہائی: دوستی سے عسکری تعاون تک
انیس سو اکہتر کی جنگ کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کو مالی اور سیاسی سہارا دیا، جبکہ پاکستان نے سعودی عرب کے لیے تربیتی مشنز بڑھائے۔
شاہ فیصل کی پاکستان سے قریبی وابستگی نے اس بات کو یقینی بنایا کہ دفاعی تعلقات ہمیشہ مرکزی حیثیت میں رہیں۔


انیس سو اناسی کے ایرانی انقلاب اور افغانستان پر سوویت حملے کے بعد سعودی عرب نے پاکستانی مہارت پر زیادہ انحصار کیا، جو بالآخر 2025 میں معاہدے کی صورت میں سامنے آیا۔

1980 کی دہائی: سعودی سرزمین پر پاکستانی فوج
انیس سو بیاسی میں ایک دفاعی پروٹوکول کے تحت پاکستان نے ایک ڈویژن پر مشتمل فوج سعودی عرب میں تعینات کی۔
پاکستانی فوجی اور فضائیہ کے پائلٹ سعودی عرب کی سرحدوں اور سلامتی کے محافظ بنے۔
یہ تعیناتی اس اصول کی جھلک تھی جو 2025 کے معاہدے میں تحریری طور پر شامل ہوا: پاکستان سعودی دفاع کے لیے عملی طور پر ہمیشہ تیار ہے۔

1990 کی دہائی: خلیجی جنگ اور اسٹریٹجک چھتری
نوے اکانوے میں کی خلیجی جنگ کے دوران 11 ہزار سے زائد پاکستانی فوجی سعودی عرب اور مقدس مقامات کے محافظ بنے۔
انیس سو اٹھانوے میں جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو سعودی عرب نے فوری طور پر پاکستان کو مالی و تیل کی سہولت دی۔ یہ عمل اس بات کی علامت تھا کہ سعودی عرب پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو ایک ممکنہ ڈھال سمجھتا ہے۔
ان دونوں واقعات نے یہ ثابت کیا کہ سعودی عرب اپنی سلامتی کے لیے پاکستان پر اعتماد کرتا ہے — اور یہی اعتماد 2025 میں معاہدے کی شکل اختیار کر گیا۔

2000 کی دہائی: تعاون کا ادارہ جاتی ڈھانچہ
جنرل مشرف کے دور میں دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ دفاعی کمیٹیاں اور تربیتی سلسلے مضبوط ہوئے۔
نائن الیون کے بعد انسدادِ دہشت گردی کے میدان میں بھی تعاون بڑھا۔
ان اقدامات نے یہ دکھایا کہ دفاعی تعلقات کو مستقل بنیادوں پر ڈھانچے کی ضرورت ہے — جسے بعد میں 2025 کے معاہدے نے پورا کیا۔

دوہزار دس کی دہائی: سرحد کی وضاحت، عزم کی تجدید
2015 میں یمن جنگ کے لیے پاکستان نے فوج بھیجنے سے انکار کیا، لیکن واضح اعلان کیا کہ اگر سعودی عرب کی سرزمین کو خطرہ ہوا تو پاکستان اس کا دفاع کرے گا۔
یہ وہ ریڈ لائن تھی جو 2025 کے معاہدے میں باضابطہ طور پر شامل ہوگئی۔

دو ہزار بیس کی دہائی: تعلقات کا قانونی روپ
اگرچہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات بہتر بنانے میں پاکستان نے ثالثی کی، لیکن سعودی عرب کے ساتھ دفاعی تعاون کمزور نہیں ہوا۔


سترہ ستمبر 2025 — ریاض میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی دفاعی معاہدہ طے پایا۔
معاہدے میں کہا گیا: “کسی ایک پر حملہ، دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔”

جو رشتہ ایوب خان کے دور میں تربیت اور نیک نیتی سے شروع ہوا تھا، جو تعیناتیوں، جنگوں اور ایٹمی اعتماد سے گزرا، وہ بالآخر ایک تحریری دفاعی معاہدے میں ڈھل گیا۔

 غیر رسمی اتحاد → باضابطہ دفاعی معاہدہ
تقریباً سات دہائیوں میں پاکستان نے بار بار یہ ثابت کیا — چاہے وہ تربیتی اکیڈمیاں ہوں، سعودی اڈے، جنگی حالات یا اسٹریٹجک بحران — کہ وہ سعودی عرب کے دفاع میں ساتھ کھڑا ہے۔ 2025 کا باہمی دفاعی معاہدہ اچانک نہیں آیا، بلکہ ایک طویل عسکری سفر کا فطری انجام تھا، جس نے روایت کو معاہدے میں بدل دیا۔