ہفتہ، 13 ستمبر، 2025

ملتانی عامل سے انوکھی ملاقات



جنات اور ان کی طویل العمری صدیوں سے انسانی تجسس کا حصہ رہی ہے۔ قرآنِ کریم میں جنات کی تخلیق اور ان کی پوشیدہ زندگی کا ذکر تو ہے، مگر ان کی عمروں کی حد بندی کے بارے میں کوئی صریح بات نہیں ملتی۔ البتہ عوامی قصوں، صوفی حلقوں اور بزرگوں کی محفلوں میں جنات کی ہزاروں سالہ عمروں کے قصے اکثر سننے کو ملتے ہیں۔
انہی حکایات میں ابلیس کی نسل سے تعلق رکھنے والے ہامہ بن ہیم بن لاقیس بن ابلیس کا ذکر بھی ملتا ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت نوح علیہ السلام کے دور میں زندہ تھا، کئی انبیائے کرام کی صحبت میں شامل رہا، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں اس نے بارگاہِ رسالت میں سلام پیش کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ البتہ ان باتوں کی کوئی شرعی یا تاریخی حیثیت نہیں، یہ محض صوفیانہ روایات اور عوامی قصے ہیں۔
ایسا ہی ایک دلچسپ قصہ چند دن پہلے ہمارے ساتھ بھی پیش آیا، جو کسی حکایت سے کم نہ تھا۔
راولپنڈی صدر کا علاقہ ویسے جدید طرز کی عمارتوں اور ماڈرن دکانوں سے بھرا ہوا ہے، لیکن اسی صدر میں ایک صاف ستھرا، جدید طرز کا کافی شاپ نما چائے خانہ بھی ہے، جس کا ماحول کسی بڑے شہر کی کافی شاپ جیسا تھا۔ شیشے کی بڑی بڑی کھڑکیاں، سفید اور گہرے سرمئی رنگ کی جدید فرنیچر، ایل ای ڈی لائٹس کی مدھم روشنی، میز پر رکھے خوبصورت مینو کارڈز، اور پیش خدمت عملہ انتہائی مہذب اور یونیفارم میں ملبوس۔ یہاں بیٹھ کر چائے پینا کسی پنج ستارہ ہوٹل کی کیفے میں بیٹھنے کا احساس دلاتا ہے۔
میں اور میرا بچپن کا دوست ناضر اس ہوٹل میں اکثر گپ شپ کے لیے بیٹھتے ہیں۔ اس دن بھی ہم حسبِ معمول چائے اور بسکٹ منگوا کر ملکی سیاست سے لے کر راولپنڈی کی پرانی کہانیوں تک ہر موضوع پر بات کر رہے تھے کہ اچانک دروازے سے ایک شخص داخل ہوا۔
لمبا قد، دبلا پتلا جسم، صاف ستھرا لباس، کندھے پر سفید چادر، ہاتھ میں سیاہ رنگ کی نفیس تسبیح، اور آنکھوں میں عجیب سا ٹھہراؤ اور گہرا اعتماد۔ انداز ایسا جیسے کوئی پڑھا لکھا، سلجھا ہوا صوفی ہو۔
اس نے خاموشی سے بھرے ہوئے ہال کا جاہزہ لیا۔ ہماری میز پر دو کرسیاں خالی تھیں ۔ ناصر کو سلام کر کے اور بیٹھنے کی اجازت لے کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر خاموش رہا، پھر ناضر نے خود ہی پہل کی، "جناب، آپ کا تعلق بھی ملتان سے ہے؟ لہجہ کچھ ایسا لگ رہا ہے۔"
وہ مسکرایا، تسبیح کے دانے آہستہ آہستہ گھماتے ہوئے بولا، "جی، میرا تعلق ملتان سے ہے۔ بس راولپنڈی کے ٹنچ بھاٹہ جا رہا ہوں۔ کسی پر جن کا سایہ ہے، علاج کرنا ہے۔"
ناضر کے چہرے پر دلچسپی بڑھ گئی۔ میں بھی چونکا، کیونکہ ٹنچ بھاٹہ کی ایسی کہانیاں ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں۔
بات چیت آگے بڑھی تو ملتانی عامل نے بڑے سکون اور اعتماد سے کہا، "میرے قبضے میں ایک ایسا جن ہے جس کی عمر دو ہزار سال سے زیادہ ہے۔"
ناضر نے جھٹ سے سوال داغ دیا، "دو ہزار سال؟ واہ بھئی! اتنی عمر میں تو اس نے آدھی دنیا گھوم لی ہو گی۔ بتاؤ، اس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی ہے یا نہیں؟"
ملتانی عامل نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، "اس جن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ضرور سنا تھا، مگر اس وقت مسلمان نہیں ہوا تھا، اور نہ ہی ملاقات ہوئی تھی۔ بعد میں ایمان لایا۔ اب میرا مددگار ہے، جہاں بلاؤں، آ جاتا ہے۔"
ہم دونوں چند لمحوں کے لیے خاموش ہو گئے۔ ماحول میں ایک عجب سنجیدگی چھا گئی تھی۔ سچ جھوٹ اپنی جگہ، مگر ملتانی عامل کے انداز میں اتنا وقار اور ٹھہراؤ تھا کہ بات کو مذاق میں اڑا دینا مشکل لگ رہا تھا۔
چائے ختم ہوئی، ملتانی عامل اٹھا، شائستگی سے سلام کیا اور دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ باہر کی ہوا کے ساتھ اس کی سفید چادر لہرا رہی تھی۔ ناضر نے میری طرف دیکھ کر آہستہ سے کہا، "یار، بندہ سچا تھا یا جھوٹا، مگر کہانی زبردست ہے!"
میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، "پنڈی صدر میں نہ بیٹھو تو زندگی کی رنگینیوں کا اندازہ نہیں ہوتا۔ اب جن کا علاج بھی ٹنچ بھاٹہ میں ہوتا ہے۔"
چائے کی خالی پیالیوں کے درمیان، ملتانی عامل کی باتیں اور جنات کی طویل العمری کی حکایتیں، سب ذہن میں گردش کرنے لگیں۔ اصل حقیقت کیا ہے، کون جانے؟ بس یہی سمجھ آیا کہ قصہ ہو یا حقیقت، عقیدے اور کہانی کے درمیان فرق رکھنا ہی دانشمندی ہے۔

خاموش خطرہ




خاموش خطرہ:

بھارتی برادری کو دنیا کی سب سے بڑی اور محنتی کمیونٹی مانا جاتا ہے، جس نے خلیجی ممالک کی تعمیر، ٹیکنالوجی، تجارت اور سکیورٹی جیسے شعبوں میں دہائیوں تک نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ سعودی عرب اور عمان کی مزدوری منڈی ہو یا متحدہ عرب امارات اور قطر کی ٹیکنالوجی و مالیاتی صنعت، بھارتی کارکن ہمیشہ ترقی اور استحکام کا حصہ رہے ہیں۔ مگر اس تعاون کے ساتھ ایک پوشیدہ خطرہ بھی جنم لے رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ کمیونٹی سیاسی یا نظریاتی طور پر استعمال ہو جائے تو کیا یہ میزبان معاشروں کے لیے مسائل کھڑے کر سکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس کا جواب اب زیادہ تر اثبات میں دیا جا رہا ہے۔

بھارت کی موجودہ حکومت اور اس کی نظریاتی تنظیمیں ہندو قوم پرستی کو شدت پسندی کی شکل میں دنیا بھر میں پھیلا رہی ہیں۔ اس کا اثر خلیج میں مقیم بھارتی برادری پر بھی پڑ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر اسلام مخالف اور اسرائیل نواز بیانیہ پھیلانا اسی رجحان کا مظہر ہے۔ 2020 میں متحدہ عرب امارات نے ایسے کئی بھارتی شہری ملک بدر کیے جنہوں نے مسلمانوں اور عربوں کے خلاف نفرت انگیز مواد شائع کیا تھا۔ کچھ بھارتی ڈاکٹر اور انجینئر بھی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ رویہ نہ صرف خلیجی معاشروں کی مذہبی حساسیت کے خلاف ہے بلکہ فلسطین کے مسئلے پر خلیج کے تاریخی موقف کو بھی متاثر کرنے کی کوشش ہے۔

خطرہ صرف فرقہ وارانہ مواد تک محدود نہیں۔ خلیج میں بھارتی کمیونٹی کے کچھ افراد حساس اداروں میں ملازمت کرتے ہیں، جیسے بندرگاہوں، سکیورٹی یا آئی ٹی کے شعبے۔ خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ افراد معلومات نئی دہلی یا اس کے اتحادیوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ ایران نے اس حوالے سے پہلے ہی شکوک ظاہر کیے تھے، اور خلیجی ریاستوں میں بھی ایسے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ یہ رویہ براہِ راست میزبان ملک کی خودمختاری اور داخلی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر بھارتی برادری کے بعض افراد کا کردار بھی تشویشناک ہے۔ غزہ پر اسرائیلی حملوں کے دوران دبئی اور دوحہ میں مقیم بھارتی صارفین نے پرو اسرائیل بیانیہ پھیلایا جس پر عوامی سطح پر سخت ردعمل سامنے آیا۔ اس طرح کے اقدامات خلیجی ممالک کی متوازن خارجہ پالیسی اور داخلی ہم آہنگی کو متاثر کر سکتے ہیں۔

آنے والے دنوں میں یہ خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔ فلسطین کے حق میں کھڑے ممالک جیسے کویت اور قطر زیادہ دباؤ میں آ سکتے ہیں، ایران اور اسرائیل کی کشیدگی میں بھارتی کارکن مشکوک یا ہدف بن سکتے ہیں، اور اگر خلیجی ممالک نے اسلام مخالف رویوں کے خلاف سخت قوانین بنائے تو سب سے زیادہ اثر بھارتی کمیونٹی پر پڑے گا۔

بھارتی برادری نے ہمیشہ خلیجی ممالک کے لیے ترقی اور تنوع کا ذریعہ فراہم کیا ہے۔ لیکن اگر ہندوتوا نظریہ اور خفیہ سرگرمیاں بے قابو ہو گئیں تو یہی برادری استحکام کے بجائے عدم استحکام کا سبب بن سکتی ہے۔ خلیجی ممالک کو چاہیے کہ وہ بھارتی کارکنوں کی محنت سے ضرور فائدہ اٹھائیں مگر سیاسی، فرقہ وارانہ اور جاسوسی سرگرمیوں پر سخت پابندیاں لگائیں۔ بھارت کو بھی سمجھنا ہوگا کہ تارکینِ وطن کی سفارت کاری کو انتہا ۔پسندی کا آلہ نہیں بنایا جا سکتا

جمعہ، 12 ستمبر، 2025

اقتدار کی کرسی کا ٹوٹا پایہ




اقتدار کی کرسی کا ٹوٹا پایہ
ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت ابتدا ہی سے تنازعات اور غیر یقینی کیفیت کا شکار رہی ہے۔ ان کی غیر روایتی سیاست، جارحانہ بیانات اور غیر متوازن فیصلوں نے نہ صرف امریکی داخلی سیاست کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا بلکہ عالمی سطح پر بھی بے چینی پیدا کی۔ بالخصوص مشرقِ وسطیٰ کے بدلتے حالات نے اس سوال کو مزید اہم بنا دیا ہے کہ آیا ٹرمپ اپنی مدتِ صدارت مکمل کر سکیں گے یا نہیں۔ اسرائیل کی حالیہ جارحانہ کارروائیاں، قطر کی جانب سے امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنرشپ پر نظرثانی کا عندیہ، اور قطر میں عرب و اسلامی ممالک کی متوقع کانفرنس وہ عوامل ہیں جو براہِ راست امریکی خارجہ پالیسی اور ٹرمپ کی صدارت پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
پاکستانی صحافیوں کی بصیرت اور تجزیاتی صلاحیت اس موقع پر خاص طور پر توجہ کی مستحق ہے۔ مرحوم ارشاد حقانی نے ایک کالم میں، محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی شادی کے فوراً بعد، یہ پیشن گوئی کی تھی کہ "زرداری ایک دن پاکستان کے صدر بن سکتے ہیں"۔ وقت نے ان کی اس بات کو درست ثابت کیا اور یوں ان کی صحافتی گہرائی ہمیشہ یادگار بن گئی۔ اسی طرح موجودہ دور میں صحافی اور وی لاگر رضوان رضی عرف رضی دادا نے بھی ٹرمپ کے الیکشن جیتنے کے فوراً بعد اپنے وی لاگ میں کہا تھا کہ ٹرمپ اپنی صدارت کی مدت مکمل نہیں کر سکیں گے۔ آج جب عالمی سیاست نئے موڑ پر کھڑی ہے تو یہ تجزیات ایک بار پھر معنی خیز دکھائی دیتے ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا، قانونی ماہرین اور بعض نجومی بھی اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی بڑھی اور امریکہ کے اتحادی اس سے لاتعلق یا مخالفانہ رویہ اختیار کر گئے تو ٹرمپ کو شدید دباؤ کا سامنا ہوگا۔ قانونی ماہرین کے مطابق اگر صدر کے فیصلے امریکی قومی مفاد کے منافی ثابت ہوئے یا کانگریس نے ان پر اعتماد کھو دیا تو مواخذے
کی کارروائی بعید از قیاس نہیں۔ ان کے خیال میں ٹرمپ کی غیر متوازن اور جارحانہ پالیسیوں نے ان کے خلاف شواہد جمع کرنا پہلے سے زیادہ آسان بنا دیا ہے، جو مستقبل میں ان کی صدارت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہو سکتا ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ کی صدارت کا تسلسل محض داخلی سیاست کا محتاج نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ کی پیچیدہ صورتحال، عالمی طاقتوں کے فیصلے اور قانونی چیلنجز پر بھی انحصار کرتا ہے۔ صحافیوں کی بصیرت، نجومیوں کی پیشن گوئیاں اور قانونی ماہرین کی رائے مل کر ایک ہی نقشہ پیش کرتی ہیں:
مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی حالات واشنگٹن کے اوول آفس میں موجود اقتدارکی کرسی کا چوتھا پایہ ہیں، اور یہ پایہ کاٹنے والی آری اُن ظالم و بے رحم صیہونیت کے پجاریوں کے ہاتھ میں ہے جن کے نزدیک نہ اخلاق کی کوئی قیمت ہے، نہ انسانیت کا کوئی وقار، اور نہ ہی مذہب کی کوئی حرمت۔

بے قابو اثدھا



اسرائیل گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ طرزِ عمل اختیار کیے ہوئے ہے کہ وہ مذاکرات اور سفارت کاری کے بجائے طاقت اور عسکری کارروائی کو ترجیح دیتا ہے۔ حالیہ واقعے میں، جب مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن اور حماس کے زیرِ حراست یرغمالیوں کی رہائی پر بات چیت جاری تھی، اسرائیلی حملے نے نہ صرف مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کیا بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین اور سفارتی آداب کو خاطر میں نہیں لاتا۔
قطر جیسا ملک، جو امریکہ اور طالبان کے درمیان مفاہمت کرا کے عالمی سطح پر ایک معتبر ثالث کے طور پر ابھرا تھا، اس حملے سے براہِ راست متاثر ہوا۔ یہ کارروائی نہ صرف قطر بلکہ پورے خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) کے ممالک کے لیے باعثِ تشویش بنی۔ اس واقعے کو سفارتی روایات اور امن قائم کرنے کی کوششوں پر ایک براہِ راست حملہ سمجھا جا رہا ہے۔
یہ واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا نہیں ہے۔ ماضی میں بھی اسرائیل نے اپنی سرحدوں سے باہر متعدد مواقع پر فلسطینی رہنماؤں اور اُن کے حامیوں کو نشانہ بنایا۔ 1972میں فلسطینی ادیب اور رہنما غسان کنعانی کو بیروت میں شیہد کیا - 1979 میں بلیک ستمبر کے رہنما علی حسن سلامہ کو
میں بیعت میں شہید کر دیا گیا -1988 میں تیونس میں ابو جہاد (خلیل الوزیر)، جو یاسر عرفات کے قریبی ساتھی تھے، اسرائیلی کمانڈوز کے حملے میں تیونس میں مارے گئے۔ 1992 میں اسرائیل نے حزب اللہ کے سربراہ عباس موسوی کو بیروت میں شہید کیا - 1995 میں مالٹا میں اسلامی جہاد کے بانی فتحی شقاقی کو شہید کیا۔ 2010 میں حماس کے کمانڈر محمود المبحوح کو دوبئی میں شہید کیا - 2023 میں حماس کے نائب سربراہ صالح العاروری کو اسرائیل نے بیروت میں مار دیا
اس کے علاوہ متعدد مواقع پر ایران اور شام میں بھی فلسطینی مزاحمتی رہنماؤں اور کارکنان کو خفیہ کارروائیوں میں نشانہ بنایا گیا۔
یہ تمام واقعات اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ اسرائیل نہ صرف مقبوضہ علاقوں بلکہ دنیا بھر میں مخالفین کو ختم کرنے کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے۔ تازہ حملہ اس بات کا عکاس ہے کہ اسرائیل امن عمل اور مذاکرات کو اپنی عسکری حکمت عملی سے الگ نہیں دیکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ قطر سمیت جی سی سی ممالک میں شدید اضطراب پایا جا رہا ہے۔
اسرائیل کی یہ روش عالمی اداروں، اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کے اختیارات کے لیے ایک چیلنج ہے۔ وہ کسی قانون یا ضابطے کو ماننے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتا۔ قطر پر حالیہ حملہ دراصل اس ڈھٹائی کا اظہار ہے کہ فلسطینوں کی سر زمین ٓپر قابض اسرائیل فلسطینیوں کو دنیا کے کسی بھی کونے میں دہشت گرد قرار دے کر نشانہ بنا سکتا ہے۔

بدھ، 10 ستمبر، 2025

انقلاب — زندہ باد



انقلاب — زندہ باد
انقلاب ہمیشہ انسانی تاریخ کا وہ موڑ رہا ہے جو تہذیبوں کو بدل دیتا ہے۔ جب حالات ناقابلِ برداشت ہو جائیں، جب بھوک اور ناانصافی کا بوجھ حد سے بڑھ جائے، اور جب عوام کو اپنی آواز سنانے کا کوئی راستہ نہ ملے تو بغاوت جنم لیتی ہے۔ یہی بغاوت جب اجتماعی شعور کے ساتھ ابھرتی ہے تو انقلاب کہلاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انقلاب سے اصل فائدہ عوام کو ہوتا ہے یا نئے حکمرانوں کو؟

1789  فرانسیسی انقلاب دنیا کے بڑے سیاسی واقعات میں شمار ہوتا ہے۔ عوام بھوک، مہنگائی اور شاہی فضول خرچی سے تنگ تھے۔ انہوں نے قلعہ باستیل پر دھاوا بولا، جاگیرداروں کے خلاف بغاوت کی، اور شاہی خاندان کے اقتدار کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ یہ انقلاب "آزادی، مساوات اور بھائی چارے" کے نعرے سے دنیا بھر میں مشہور ہوا۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ قربانیاں عوام نے دیں اور فائدہ بورژوا طبقے  نے اٹھایا۔ یوں ایک ظالم طبقہ ختم ہوا لیکن طاقت اور وسائل ایک نئے طبقے کے ہاتھ میں چلے گئے۔

1949 چینی انقلاب بھی کسانوں اور مزدوروں کی قربانیوں کا نتیجہ تھا۔ جاگیرداری نظام اور غیر ملکی قبضے نے عوام کو غلام بنا رکھا تھا۔ ماؤ زے تنگ اور کمیونسٹ پارٹی نے اس بغاوت کو قیادت دی اور جاگیرداروں و سرمایہ داروں کا خاتمہ کیا۔ ابتدا میں زمینوں کی تقسیم، تعلیم اور صحت کی سہولتوں نے عوام کو ریلیف دیا، مگر جلد ہی اقتدار مکمل طور پر پارٹی اور نئی بیوروکریسی کے ہاتھ میں آگیا۔ عوام کی قربانیوں کا ثمر انہیں سیاسی آزادی کی صورت میں نہ مل سکا، بلکہ سخت ریاستی کنٹرول ان کا مقدر بنا۔

آج کے دور میں انقلاب کا تصور سوشل میڈیا کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ فیس بک، ٹویٹر اور دیگر پلیٹ فارمز عوامی ذہن سازی کے سب سے بڑے ہتھیار بن چکے ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جدید انقلابات اکثر ملک کے اندر سے نہیں بلکہ باہر سے پلان کیے جاتے ہیں۔
ذہن سازی کے لیے بیرونی ایجنسیاں اور تھنک ٹینک سرگرم رہتے ہیں۔
مخصوص گروہوں کو وسائل اور سرمایہ فراہم کیا جاتا ہے۔
پھر جلاؤ گھیراؤ، خونریزی اور خانہ جنگی کے ذریعے ایک ملک کو عدم استحکام کا شکار کر دیا جاتا ہے۔

چند سال قبل "عرب بہار" کے نام سے تحریکیں مشرقِ وسطیٰ میں چلیں۔ تیونس، مصر، یمن، شام اور لیبیا اس کے بڑے مراکز تھے۔ سب سے بڑا اور ڈرامائی انقلاب لیبیا میں آیا، جہاں معمر قذافی کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا۔ قذافی کو ایک "ڈکٹیٹر" کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن حقائق یہ ہیں کہ اس کے دور میں:
بچہ پیدا ہوتا تو حکومت اس کا وظیفہ مقرر کرتی تھی۔
صحت اور تعلیم بالکل مفت تھیں۔
شادی، مکان اور کاروبار کے لیے حکومتی امداد دستیاب تھی۔
لیکن قذافی کے جانے کے بعد لیبیا میں نہ صرف خانہ جنگی نے جنم لیا بلکہ ملک ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ آج لیبیا کا کوئی بھی شہری بتا سکتا ہے کہ "انقلاب" کے نام پر اسے کیا ملا؟ تباہ شدہ ادارے، برباد معیشت اور گرتا ہوا سماجی ڈھانچہ۔

اسی طرز کے انقلابات کی تازہ جھلکیاں نیپال اور بنگلہ دیش میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں، جہاں سڑکوں پر عوامی ہجوم تو موجود ہوتا ہے مگر اصل کھیل کہیں اور کھیلا جاتا ہے۔ نتیجہ وہاں بھی وہی نکلتا ہے جو عرب دنیا میں نکلا — عوام کا خون، ٹوٹے ادارے اور کمزور معیشت۔
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ انقلاب عوام کے نام پر آتا ہے، عوام ہی قربانیاں دیتے ہیں، لیکن اقتدار اور فائدہ ہمیشہ کسی اور کے حصے میں جاتا ہے۔
پرانے انقلابات (فرانس اور چین) عوامی طاقت پر کھڑے تھے، مگر آخرکار نئے حکمرانوں کو فائدہ ہوا۔
جدید انقلابات زیادہ تر بیرونی منصوبہ بندی کے تحت ہوتے ہیں، اور ان کا انجام خانہ جنگی اور معاشی بربادی کی صورت میں نکلتا ہے۔
عوام ہر دور میں ایک ہی سوال کرتے ہیں:
"انقلاب کے نام پر ہمیں کیا ملا؟"
اور اکثر جواب یہی ملتا ہے:
"لاشیں، بربادی، تقسیم اور نئے حکمرانوں کی طاقت۔"