جمعہ، 12 ستمبر، 2025

اقتدار کی کرسی کا ٹوٹا پایہ




اقتدار کی کرسی کا ٹوٹا پایہ
ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت ابتدا ہی سے تنازعات اور غیر یقینی کیفیت کا شکار رہی ہے۔ ان کی غیر روایتی سیاست، جارحانہ بیانات اور غیر متوازن فیصلوں نے نہ صرف امریکی داخلی سیاست کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا بلکہ عالمی سطح پر بھی بے چینی پیدا کی۔ بالخصوص مشرقِ وسطیٰ کے بدلتے حالات نے اس سوال کو مزید اہم بنا دیا ہے کہ آیا ٹرمپ اپنی مدتِ صدارت مکمل کر سکیں گے یا نہیں۔ اسرائیل کی حالیہ جارحانہ کارروائیاں، قطر کی جانب سے امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنرشپ پر نظرثانی کا عندیہ، اور قطر میں عرب و اسلامی ممالک کی متوقع کانفرنس وہ عوامل ہیں جو براہِ راست امریکی خارجہ پالیسی اور ٹرمپ کی صدارت پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
پاکستانی صحافیوں کی بصیرت اور تجزیاتی صلاحیت اس موقع پر خاص طور پر توجہ کی مستحق ہے۔ مرحوم ارشاد حقانی نے ایک کالم میں، محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی شادی کے فوراً بعد، یہ پیشن گوئی کی تھی کہ "زرداری ایک دن پاکستان کے صدر بن سکتے ہیں"۔ وقت نے ان کی اس بات کو درست ثابت کیا اور یوں ان کی صحافتی گہرائی ہمیشہ یادگار بن گئی۔ اسی طرح موجودہ دور میں صحافی اور وی لاگر رضوان رضی عرف رضی دادا نے بھی ٹرمپ کے الیکشن جیتنے کے فوراً بعد اپنے وی لاگ میں کہا تھا کہ ٹرمپ اپنی صدارت کی مدت مکمل نہیں کر سکیں گے۔ آج جب عالمی سیاست نئے موڑ پر کھڑی ہے تو یہ تجزیات ایک بار پھر معنی خیز دکھائی دیتے ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا، قانونی ماہرین اور بعض نجومی بھی اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی بڑھی اور امریکہ کے اتحادی اس سے لاتعلق یا مخالفانہ رویہ اختیار کر گئے تو ٹرمپ کو شدید دباؤ کا سامنا ہوگا۔ قانونی ماہرین کے مطابق اگر صدر کے فیصلے امریکی قومی مفاد کے منافی ثابت ہوئے یا کانگریس نے ان پر اعتماد کھو دیا تو مواخذے
کی کارروائی بعید از قیاس نہیں۔ ان کے خیال میں ٹرمپ کی غیر متوازن اور جارحانہ پالیسیوں نے ان کے خلاف شواہد جمع کرنا پہلے سے زیادہ آسان بنا دیا ہے، جو مستقبل میں ان کی صدارت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہو سکتا ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ کی صدارت کا تسلسل محض داخلی سیاست کا محتاج نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ کی پیچیدہ صورتحال، عالمی طاقتوں کے فیصلے اور قانونی چیلنجز پر بھی انحصار کرتا ہے۔ صحافیوں کی بصیرت، نجومیوں کی پیشن گوئیاں اور قانونی ماہرین کی رائے مل کر ایک ہی نقشہ پیش کرتی ہیں:
مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی حالات واشنگٹن کے اوول آفس میں موجود اقتدارکی کرسی کا چوتھا پایہ ہیں، اور یہ پایہ کاٹنے والی آری اُن ظالم و بے رحم صیہونیت کے پجاریوں کے ہاتھ میں ہے جن کے نزدیک نہ اخلاق کی کوئی قیمت ہے، نہ انسانیت کا کوئی وقار، اور نہ ہی مذہب کی کوئی حرمت۔

بے قابو اثدھا



اسرائیل گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ طرزِ عمل اختیار کیے ہوئے ہے کہ وہ مذاکرات اور سفارت کاری کے بجائے طاقت اور عسکری کارروائی کو ترجیح دیتا ہے۔ حالیہ واقعے میں، جب مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن اور حماس کے زیرِ حراست یرغمالیوں کی رہائی پر بات چیت جاری تھی، اسرائیلی حملے نے نہ صرف مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کیا بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین اور سفارتی آداب کو خاطر میں نہیں لاتا۔
قطر جیسا ملک، جو امریکہ اور طالبان کے درمیان مفاہمت کرا کے عالمی سطح پر ایک معتبر ثالث کے طور پر ابھرا تھا، اس حملے سے براہِ راست متاثر ہوا۔ یہ کارروائی نہ صرف قطر بلکہ پورے خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) کے ممالک کے لیے باعثِ تشویش بنی۔ اس واقعے کو سفارتی روایات اور امن قائم کرنے کی کوششوں پر ایک براہِ راست حملہ سمجھا جا رہا ہے۔
یہ واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا نہیں ہے۔ ماضی میں بھی اسرائیل نے اپنی سرحدوں سے باہر متعدد مواقع پر فلسطینی رہنماؤں اور اُن کے حامیوں کو نشانہ بنایا۔ 1972میں فلسطینی ادیب اور رہنما غسان کنعانی کو بیروت میں شیہد کیا - 1979 میں بلیک ستمبر کے رہنما علی حسن سلامہ کو
میں بیعت میں شہید کر دیا گیا -1988 میں تیونس میں ابو جہاد (خلیل الوزیر)، جو یاسر عرفات کے قریبی ساتھی تھے، اسرائیلی کمانڈوز کے حملے میں تیونس میں مارے گئے۔ 1992 میں اسرائیل نے حزب اللہ کے سربراہ عباس موسوی کو بیروت میں شہید کیا - 1995 میں مالٹا میں اسلامی جہاد کے بانی فتحی شقاقی کو شہید کیا۔ 2010 میں حماس کے کمانڈر محمود المبحوح کو دوبئی میں شہید کیا - 2023 میں حماس کے نائب سربراہ صالح العاروری کو اسرائیل نے بیروت میں مار دیا
اس کے علاوہ متعدد مواقع پر ایران اور شام میں بھی فلسطینی مزاحمتی رہنماؤں اور کارکنان کو خفیہ کارروائیوں میں نشانہ بنایا گیا۔
یہ تمام واقعات اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ اسرائیل نہ صرف مقبوضہ علاقوں بلکہ دنیا بھر میں مخالفین کو ختم کرنے کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے۔ تازہ حملہ اس بات کا عکاس ہے کہ اسرائیل امن عمل اور مذاکرات کو اپنی عسکری حکمت عملی سے الگ نہیں دیکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ قطر سمیت جی سی سی ممالک میں شدید اضطراب پایا جا رہا ہے۔
اسرائیل کی یہ روش عالمی اداروں، اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کے اختیارات کے لیے ایک چیلنج ہے۔ وہ کسی قانون یا ضابطے کو ماننے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتا۔ قطر پر حالیہ حملہ دراصل اس ڈھٹائی کا اظہار ہے کہ فلسطینوں کی سر زمین ٓپر قابض اسرائیل فلسطینیوں کو دنیا کے کسی بھی کونے میں دہشت گرد قرار دے کر نشانہ بنا سکتا ہے۔

بدھ، 10 ستمبر، 2025

انقلاب — زندہ باد



انقلاب — زندہ باد
انقلاب ہمیشہ انسانی تاریخ کا وہ موڑ رہا ہے جو تہذیبوں کو بدل دیتا ہے۔ جب حالات ناقابلِ برداشت ہو جائیں، جب بھوک اور ناانصافی کا بوجھ حد سے بڑھ جائے، اور جب عوام کو اپنی آواز سنانے کا کوئی راستہ نہ ملے تو بغاوت جنم لیتی ہے۔ یہی بغاوت جب اجتماعی شعور کے ساتھ ابھرتی ہے تو انقلاب کہلاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انقلاب سے اصل فائدہ عوام کو ہوتا ہے یا نئے حکمرانوں کو؟

1789  فرانسیسی انقلاب دنیا کے بڑے سیاسی واقعات میں شمار ہوتا ہے۔ عوام بھوک، مہنگائی اور شاہی فضول خرچی سے تنگ تھے۔ انہوں نے قلعہ باستیل پر دھاوا بولا، جاگیرداروں کے خلاف بغاوت کی، اور شاہی خاندان کے اقتدار کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ یہ انقلاب "آزادی، مساوات اور بھائی چارے" کے نعرے سے دنیا بھر میں مشہور ہوا۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ قربانیاں عوام نے دیں اور فائدہ بورژوا طبقے  نے اٹھایا۔ یوں ایک ظالم طبقہ ختم ہوا لیکن طاقت اور وسائل ایک نئے طبقے کے ہاتھ میں چلے گئے۔

1949 چینی انقلاب بھی کسانوں اور مزدوروں کی قربانیوں کا نتیجہ تھا۔ جاگیرداری نظام اور غیر ملکی قبضے نے عوام کو غلام بنا رکھا تھا۔ ماؤ زے تنگ اور کمیونسٹ پارٹی نے اس بغاوت کو قیادت دی اور جاگیرداروں و سرمایہ داروں کا خاتمہ کیا۔ ابتدا میں زمینوں کی تقسیم، تعلیم اور صحت کی سہولتوں نے عوام کو ریلیف دیا، مگر جلد ہی اقتدار مکمل طور پر پارٹی اور نئی بیوروکریسی کے ہاتھ میں آگیا۔ عوام کی قربانیوں کا ثمر انہیں سیاسی آزادی کی صورت میں نہ مل سکا، بلکہ سخت ریاستی کنٹرول ان کا مقدر بنا۔

آج کے دور میں انقلاب کا تصور سوشل میڈیا کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ فیس بک، ٹویٹر اور دیگر پلیٹ فارمز عوامی ذہن سازی کے سب سے بڑے ہتھیار بن چکے ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جدید انقلابات اکثر ملک کے اندر سے نہیں بلکہ باہر سے پلان کیے جاتے ہیں۔
ذہن سازی کے لیے بیرونی ایجنسیاں اور تھنک ٹینک سرگرم رہتے ہیں۔
مخصوص گروہوں کو وسائل اور سرمایہ فراہم کیا جاتا ہے۔
پھر جلاؤ گھیراؤ، خونریزی اور خانہ جنگی کے ذریعے ایک ملک کو عدم استحکام کا شکار کر دیا جاتا ہے۔

چند سال قبل "عرب بہار" کے نام سے تحریکیں مشرقِ وسطیٰ میں چلیں۔ تیونس، مصر، یمن، شام اور لیبیا اس کے بڑے مراکز تھے۔ سب سے بڑا اور ڈرامائی انقلاب لیبیا میں آیا، جہاں معمر قذافی کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا۔ قذافی کو ایک "ڈکٹیٹر" کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن حقائق یہ ہیں کہ اس کے دور میں:
بچہ پیدا ہوتا تو حکومت اس کا وظیفہ مقرر کرتی تھی۔
صحت اور تعلیم بالکل مفت تھیں۔
شادی، مکان اور کاروبار کے لیے حکومتی امداد دستیاب تھی۔
لیکن قذافی کے جانے کے بعد لیبیا میں نہ صرف خانہ جنگی نے جنم لیا بلکہ ملک ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ آج لیبیا کا کوئی بھی شہری بتا سکتا ہے کہ "انقلاب" کے نام پر اسے کیا ملا؟ تباہ شدہ ادارے، برباد معیشت اور گرتا ہوا سماجی ڈھانچہ۔

اسی طرز کے انقلابات کی تازہ جھلکیاں نیپال اور بنگلہ دیش میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں، جہاں سڑکوں پر عوامی ہجوم تو موجود ہوتا ہے مگر اصل کھیل کہیں اور کھیلا جاتا ہے۔ نتیجہ وہاں بھی وہی نکلتا ہے جو عرب دنیا میں نکلا — عوام کا خون، ٹوٹے ادارے اور کمزور معیشت۔
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ انقلاب عوام کے نام پر آتا ہے، عوام ہی قربانیاں دیتے ہیں، لیکن اقتدار اور فائدہ ہمیشہ کسی اور کے حصے میں جاتا ہے۔
پرانے انقلابات (فرانس اور چین) عوامی طاقت پر کھڑے تھے، مگر آخرکار نئے حکمرانوں کو فائدہ ہوا۔
جدید انقلابات زیادہ تر بیرونی منصوبہ بندی کے تحت ہوتے ہیں، اور ان کا انجام خانہ جنگی اور معاشی بربادی کی صورت میں نکلتا ہے۔
عوام ہر دور میں ایک ہی سوال کرتے ہیں:
"انقلاب کے نام پر ہمیں کیا ملا؟"
اور اکثر جواب یہی ملتا ہے:
"لاشیں، بربادی، تقسیم اور نئے حکمرانوں کی طاقت۔"



منگل، 9 ستمبر، 2025

خوف زدہ حکمران


خوف زدہ حکمران

انیس سو چوراسی کا واقعہ ہے۔ ایک مذہبی فرقے کے عمائدین اپنے گاؤں سے راولپنڈی میں اپنے بڑے فرقہ باز مولانا کے پاس پہنچے۔ انہوں نے مولانا کو بتایا کہ مخالف فرقے کے لوگ ان کی نو تعمیر شدہ مسجد پر قبضہ کرنے کی نیت رکھتے ہیں۔ مولانا نے ان کی بات تحمل سے سنی اور پوچھا: “تم لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہو؟”
آنے والوں نے کہا کہ ہمیں عملی مدد درکار ہے۔ ہمارے فرقے کے لوگ تعداد میں کم ہیں اور دوسرے زیادہ ہیں۔ اس لیے کچھ لوگ بھیجے جائیں جو ہماری مسجد میں درسِ قرآن منعقد کریں اور ڈنڈے سوٹوں کے ساتھ اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں، کیونکہ گاؤں کے لوگ اجتماع روکنے کی کوشش کریں گے اور جھگڑا ہونا لازمی ہے۔
مولانا نے ان کی بات سنی اور کہا: “ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اگر جھگڑا ہوا تو ہمارے لوگ تمہارے دفاع میں شامل ہوں گے اور ان کی تعداد تمہاری توقع سے بھی زیادہ ہوگی۔ لیکن بنیادی شرط یہ ہے کہ پہلا مقابلہ تم لوگ خود کرو گے۔ میرے آدمی تمہاری مدد کے لیے ہوں گے، مگر لڑائی کا بوجھ مقامی لوگوں کو ہی اٹھانا ہوگا۔”

یہ بات صرف ایک فرقے کی کہانی نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا المیہ ہے۔ آج بھی اصل سوال یہی ہے: پہلا قدم کون اٹھائے گا؟
جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو اس کا دفاع خود ایرانیوں نے کیا۔ ان کے دوست اور اتحادی بھی مدد کو آئے، مگر عملی مزاحمت کا آغاز خود ایران نے کیا تھا۔ ایران نے محض بیانات پر اکتفا نہیں کیا بلکہ عملی جواب دیا۔ اس کے برعکس لبنان اور شام کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں عملی جواب نہ دینے کی وجہ سے تباہی کے سائے گہرے سے گہرے ہوتے چلے گئے۔
فلسطینی تو نہتے ہیں، لیکن دنیا کی سیاست بدل کر رکھ دی۔ وجہ صرف ایک ہے — وہ کھڑے ہیں، اپنے دفاع میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ قطر کے سامنے بھی یہی سوال ہے کہ کیا صرف زبانی احتجاج کرنا ہے یا عملی قدم بھی اٹھانا ہے۔ قطر کا رقبہ، وسائل اور اسلحہ بہرحال فلسطینیوں سے بہتر ہے۔ لیکن مشکل فیصلہ یہی ہے کہ کیا قطر کھڑا ہوگا یا نہیں؟

تاریخ گواہ ہے کہ برا وقت آئے تو دوست ساتھ آ ہی جاتے ہیں۔ لیکن شرط یہی ہے کہ سب سے پہلے مقامی لوگ کھڑے ہوں۔ آج مسلمان حکمرانوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ خدا سے ڈرنے والے ہیں یا خدا سے نہ ڈرنے والے  ظالموں سے خوفزدہ ہیں۔

فیصلہ بہرحال قطر نے خود کرنا ہے۔ لیکن کیا فیصلہ ہوگا؟ قارئین کرام اندازہ کر سکتے ہیں 

فرانسیسی وزیرِاعظم کی سبکدوشی اور فلسطین


فرانسیسی وزیرِاعظم کی سبکدوشی اور فلسطین

فرانسیسی سیاست ایک بار پھر ہلچل کا شکار ہے۔ وزیرِاعظم کے اچانک استعفے نے صدر ایمانوئل میکرون کو نہ صرف اندرونی دباؤ کا سامنا کروا دیا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ان کے فیصلوں کی اہمیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ یہ استعفیٰ ایسے وقت میں آیا ہے جب میکرون نے ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے—ایک ایسا اعلان جو مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں زلزلے کے مترادف ہے۔

میکرون کے نزدیک دو ریاستی حل ہی اسرائیل-فلسطین تنازع کا واحد راستہ ہے۔ وہ اسے صرف انصاف نہیں بلکہ اسرائیل کے لیے سلامتی کا راستہ بھی قرار دیتے ہیں۔ درحقیقت، یہ اعلان یورپ کی خودمختاری کو اجاگر کرتا ہے، گویا فرانس یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ امریکی پالیسی کا محض پیروکار نہیں رہا۔

اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو نے اس فیصلے کو سختی سے رد کر دیا ہے۔ ان کے مطابق فلسطینی ’’ساتھ رہنے نہیں بلکہ جگہ لینے‘‘ کے خواہاں ہیں۔ اس مؤقف کے پیچھے اسرائیلی لابی کا وہ دباؤ ہے جو یورپ اور امریکہ دونوں میں موجود ہے اور ہر اُس ملک کے خلاف استعمال ہوتا ہے جو فلسطینی ریاست کی حمایت کرے۔
امریکہ اور برطانیہ دونوں زبانی طور پر دو ریاستی حل کے حامی ہیں، مگر عملی سیاست میں اسرائیل ہی کو فوقیت دیتے ہیں۔ امریکہ اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ میں اپنا سب سے بڑا اتحادی سمجھتا ہے جبکہ برطانیہ واشنگٹن کے ساتھ قدم ملانے میں ہی عافیت جانتا ہے۔ اس تناظر میں فرانس کا اعلان ایک جرات مندانہ قدم ہے جس نے یورپی صفوں میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے برسوں سے واضح کر رکھا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل سے تعلقات ممکن نہیں۔ یہ موقف جزوی طور پر کامیاب ہوا ہے، کیونکہ اب اسرائیل پر سفارتی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ تاہم، حتمی کامیابی ابھی باقی ہے کیونکہ اسرائیل کی ضد اور مغربی طاقتوں کی مصلحت پسندی اس راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔

وزیرِاعظم کے استعفے نے میکرون کے لیے اندرونی مشکلات ضرور پیدا کر دی ہیں۔ اپوزیشن اور اسرائیل نواز حلقے اس موقع کو استعمال کر کے میکرون کے فیصلے کو کمزور کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن دوسری جانب، میکرون اپنی خارجہ پالیسی کو سیاسی سرمایہ بنانے کی کوشش میں ہیں۔ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا نہ صرف اخلاقی فیصلہ ہے بلکہ انہیں یورپ کا قائد اور عالمی سیاست کا فعال کھلاڑی بھی بنا سکتا ہے۔

اگر میکرون ڈٹ گئے تو فرانس یورپ میں ایک نئی قیادت کا کردار ادا کرے گا اور مزید ممالک فلسطین کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔
اگر میکرون دباؤ کے آگے جھک گئے تو یہ فیصلہ محض ایک سیاسی نعرہ بن کر رہ جائے گا اور اسرائیل کو سفارتی برتری حاصل ہو گی۔
اگر یورپ متحد ہو گیا تو امریکہ اور برطانیہ پر دباؤ بڑھے گا اور اسرائیل عالمی سطح پر مزید تنہا ہو سکتا ہے۔
اگر عرب دنیا نے سخت مؤقف اپنایا تو اسرائیل کے ساتھ تعلقات مزید تاخیر کا شکار ہوں گے اور مغربی طاقتوں کو اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔

یہ مرحلہ صرف فرانس کے لیے نہیں بلکہ عالمی سیاست کے لیے ایک کڑا امتحان ہے۔ اب دنیا دیکھے گی کہ میکرون داخلی دباؤ اور خارجی مزاحمت کے باوجود تاریخ کا درست فیصلہ کر پاتے ہیں یا نہیں۔