جمعہ، 1 اگست، 2025

مذہبی صیہونیت: نظریاتی بنیاد




مذہبی صیہونیت: نظریاتی بنیاد

اسرائیل کو دنیا کے نقشے پر ایک یہودی ریاست کے طور پر قائم ہوئے 75 برس سے زائد ہو چکے ہیں، لیکن یہ ریاست اپنے اندر ایک عجیب و غریب تضاد کے ساتھ زندہ ہے — یہودی مذہب کی روحانی تعبیر اور جدید قومی ریاست کے آئینی ڈھانچے کا ایسا تصادم، جو وقت کے ساتھ مزید شدت اختیار کر رہا ہے۔ اس داخلی کشمکش کی سب سے نمایاں شکل "مذہبی صیہونیت" اور "اسرائیلی سیکولر آئین" کے درمیان تنازع ہے، جو نہ صرف اسرائیلی معاشرے کو تقسیم کر رہا ہے بلکہ پوری دنیا میں یہودی شناخت اور سیاسی مستقبل پر بھی اثرانداز ہو رہا ہے۔

مذہبی صیہونیت: نظریاتی بنیاد
صیہونیت کی ابتدا ایک سیاسی تحریک کے طور پر ہوئی، جس کا مقصد یہودیوں کو دنیا بھر سے لا کر فلسطین کی سرزمین پر ایک قومی وطن قائم کرنا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ تحریک صرف سیاسی نہیں رہی بلکہ مذہبی صیہونیت کی ایک نئی جہت بھی سامنے آئی۔ مذہبی صیہونی یہودی مذہب کی اس تشریح پر یقین رکھتے ہیں کہ خدا نے سرزمینِ اسرائیل یہودیوں کو بطور "وعدہ شدہ سرزمین" عطا کی ہے، اور یہ سرزمین کسی طور بھی غیر یہودیوں کے ساتھ تقسیم نہیں کی جا سکتی۔

یہ سوچ "توریت" کے ان حوالوں سے ماخوذ ہے جن میں ارضِ مقدس پر بنی اسرائیل کے حقِ ملکیت کو خدائی وعدے کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جیسے
"اور میں تیری نسل کو یہ ملک دوں گا، جو مصر کی ندی سے لے کر عظیم دریا فرات تک ہے۔"
ایسی مذہبی بنیاد پرستی کے تحت، یہودی بستیوں کی تعمیر، مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکلِ سلیمانی کی بحالی، اور فلسطینی سرزمین پر قبضہ محض سیاسی فیصلے نہیں، بلکہ "مقدس فریضہ" بن جاتے ہیں۔

اسرائیلی آئین: ایک سیکولر ریاست کا خاکہ
دوسری جانب، اسرائیل کا آئینی ڈھانچہ خود کو ایک "جمہوری" اور "سیکولر" ریاست کے طور پر پیش کرتا ہے، جہاں تمام شہریوں کو برابری کا حق حاصل ہے، خواہ وہ یہودی ہوں، مسلمان، عیسائی یا دروز۔ اگرچہ اسرائیل کے پاس مکمل تحریری آئین نہیں ہے، تاہم اس کی "بنیادی قوانین"  جمہوریت، انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔
اسی سیکولر فریم ورک کے تحت اسرائیلی عدالتیں، میڈیا اور بعض سیاسی جماعتیں مذہبی جنونیت کو خطرہ سمجھتی ہیں، کیونکہ اس سے نہ صرف فلسطینیوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں بلکہ خود اسرائیل کے اندر اقلیتوں اور آزاد خیال یہودیوں کی زندگی دشوار ہو جاتی ہے۔

ٹکراؤ کی عملی شکلیں
یہ نظریاتی تصادم وقتاً فوقتاً اسرائیلی سیاست میں شدت سے ابھرتا ہے
عدالتی اصلاحات کا بحران: 2023–2024 میں اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کی حکومت نے عدالتِ عظمیٰ کے اختیارات محدود کرنے کی کوشش کی، جسے لاکھوں اسرائیلی شہریوں نے "مذہبی آمریت" کی طرف قدم قرار دیا۔ ان مظاہروں نے اسرائیل کے سیکولر اور مذہبی حلقوں میں خلیج کو واضح کر دیا۔

مسجد اقصیٰ کا تنازع:
 مذہبی صیہونی گروہ بارہا مسجد اقصیٰ میں داخل ہو کر وہاں یہودی عبادت کی کوشش کرتے ہیں، جب کہ اسرائیلی حکومت بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے رسمی طور پر اس عمل سے گریز کرتی ہے۔
حریدی (الٹرا آرتھوڈوکس) یہودیوں کی الگ حیثیت
 ان کے مدارس (یشیوا) کے طلبہ کو فوجی سروس سے استثنیٰ حاصل ہے، جو سیکولر نوجوانوں میں غصے کا باعث بنتا ہے۔ یہ مسئلہ بھی ریاست اور مذہب کی کشمکش کو ہوا دیتا ہے۔

عالمی اثرات
اسرائیل کے اندر اس تضاد کا اثر صرف داخلی سیاست تک محدود نہیں۔ چونکہ اسرائیل خود کو دنیا بھر کے یہودیوں کا نمائندہ سمجھتا ہے، اس لیے مذہبی صیہونیت کے انتہا پسندانہ اقدامات عالمی یہودی شناخت پر سوالیہ نشان بناتے ہیں۔ بہت سے آزاد خیال یہودی، خصوصاً امریکہ اور یورپ میں، اسرائیل کی مذہبی پالیسیوں سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں۔

وجود کی کشمکش
اسرائیل آج جس دو راہے پر کھڑا ہے، وہ اس کے وجود کے بنیادی سوال کو دوبارہ سامنے لاتا ہے: کیا اسرائیل ایک "یہودی مذہبی ریاست" ہے یا ایک "جمہوری قومی ریاست"؟ اگر اسرائیل مذہبی صیہونیت کی طرف جھکتا ہے تو یہ سیکولر آئینی نظام اور عالمی انسانی حقوق سے ٹکرا جائے گا۔ اور اگر وہ سیکولر رہتا ہے تو مذہبی صیہونیوں کے غصے اور بغاوت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ کشمکش جلد اسرائیل کی داخلی استحکام، علاقائی امن، اور دنیا بھر میں یہودی تشخص کے لیے فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔

نو مسلم کا سوال



نو مسلم کا سوال
حضرت صعصعہ بن ناجیہؓ ایک دن رسول اللہ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا۔ کلمہ پڑھنے کے بعد ادب و احترام سے عرض گزار ہوئے:
"یا رسول اللہ ﷺ! ایک سوال ہے، اجازت ہو تو پوچھوں؟"
رحمتِ عالم ﷺ نے نرمی سے ارشاد فرمایا: "پوچھو صعصعہ، جو پوچھنا چاہتے ہو۔"
حضرت صعصعہؓ عرض کرنے لگے:
"یارسول اللہ ﷺ! دورِ جاہلیت میں ہم نے جو نیکیاں کیں، کیا اللہ تعالیٰ ان کا بھی ہمیں اجر دے گا؟"
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"پہلے یہ بتاؤ کہ تم نے کیا نیکی کی؟"
صعصعہؓ نے عرض کیا:
"یارسول اللہ ﷺ! میرے دو اونٹ گم ہو گئے تھے۔ میں تیسرے اونٹ پر سوار ہو کر اُن کی تلاش میں نکلا۔ تلاش کرتے کرتے ایک پرانی بستی تک جا پہنچا، جہاں میرے اونٹ چر رہے تھے۔ ایک بوڑھا شخص جانوروں کی نگرانی کر رہا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ یہ میرے اونٹ ہیں، اُس نے تسلیم کر لیا اور کہا: اگر تیرے ہیں تو لے جاؤ۔
اسی دوران اُس نے پانی منگوایا اور کچھ کھجوریں بھی آگئیں۔ میں پانی پی رہا تھا اور کھجوریں کھا رہا تھا کہ ایک بچے کے رونے کی آواز آئی۔ بوڑھے نے پوچھا: بیٹا ہوا ہے یا بیٹی؟"
صعصعہؓ کہتے ہیں:
"میں نے اُس سے پوچھا: اگر بیٹی ہوئی ہو تو کیا کرو گے؟
تو وہ کہنے لگا: اگر بیٹا ہوا تو قبیلے کی شان بڑھے گی، اور اگر بیٹی ہوئی تو اُسے زندہ دفن کر دوں گا۔ میں اپنی گردن کسی داماد کے آگے جھکا نہیں سکتا۔ بیٹی کی پیدائش میرے لیے باعثِ ننگ ہے۔
یہ سن کر میرے دل میں ایک ٹھیس سی اٹھی، دل نرم ہو گیا۔ میں نے کہا: پہلے معلوم تو کرو، بیٹا ہے یا بیٹی؟
اُس نے خبر لی، تو پتہ چلا بیٹی ہے۔ میں نے کہا: کیا واقعی تُو اُسے دفن کر دے گا؟
وہ بولا: ہاں، ابھی۔
میں نے کہا: ایسا نہ کر، اُسے مجھے دے دے۔
وہ کہنے لگا: اگر میں اپنی بچی تمہیں دے دوں، تو تم بدلے میں کیا دو گے؟
میں نے کہا: میرے دو اونٹ لے لو، بچی دے دو۔
اس نے کہا: نہیں، تیسرے اونٹ سمیت تینوں دینے ہوں گے۔
میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ ایک آدمی میرے ساتھ کر دو، تاکہ میں گھر پہنچ جاؤں، پھر اونٹ بھیج دوں گا۔"
حضرت صعصعہؓ کی آنکھیں نم ہو گئیں، کہنے لگے:
"یارسول اللہ ﷺ! میں نے تین اونٹ دے کر ایک بچی کی جان بچائی۔ اُسے گھر لا کر اپنی لونڈی کے حوالے کیا، جو اُسے دودھ پلاتی، اور وہ معصوم بچی میرے داڑھی کے بالوں سے کھیلتی، میرے سینے سے لگتی، اور میرا دل محبت سے بھر جاتا۔
پھر میرے دل میں یہ نیکی مزید راسخ ہو گئی۔ میں قبیلوں میں جا جا کر اُن لوگوں کو تلاش کرنے لگا جو بیٹیوں کو دفن کرتے تھے۔ یارسول اللہ ﷺ! ہر بار میں تین اونٹ دے کر ایک بچی کی جان بچاتا۔ یہاں تک کہ میں نے ۳۶۰ بچیوں کی زندگیاں بچائیں۔ وہ سب میری حویلی میں پلیں۔
یارسول اللہ ﷺ! کیا میرے رب مجھے اس کا اجر دے گا؟"
یہ سن کر نبی کریم ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، رخسار مبارک تر ہو گئے، آپ ﷺ نے صعصعہؓ کو سینے سے لگایا، پیشانی چومی اور فرمایا:
"صعصعہ! تیرا رب تجھے ضرور اجر دے گا، بلکہ اُس نے تجھے دولتِ ایمان عطا کر دی ہے۔ یہ دنیا میں تیرا انعام ہے۔
اور سن لو! تمہارے رسول ﷺ کا تم سے وعدہ ہے کہ قیامت کے دن ربِ کریم تم پر اپنے خزانے کھول دے گا۔"

متکبر سازشی نا فرمان گروہ







یہ کالم بنی اسرائیل کی اسلام دشمنی کے تاریخی، مذہبی، سیاسی اور عسکری پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر اسرائیل کے قیام (1948) اور پھر جدید دور میں بھارت کے ساتھ اسرائیلی اتحاد تک، اس کالم میں قرآن، تاریخی واقعات، سیاسی تجزیے اور عالمی رپورٹس کی روشنی میں یہودی ذہنیت، سازشی طرزِعمل اور اسلام کے خلاف مسلسل منصوبہ بندی کا علمی و دستاویزی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔


بنی اسرائیل کا تذکرہ قرآنِ مجید میں 40 سے زائد بار آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو انبیاء، آسمانی کتابیں اور ہدایت جیسی عظیم نعمتوں سے نوازا، مگر اس کے باوجود انہوں نے نافرمانی، حسد، اور تکبر کے ساتھ ان نعمتوں کا انکار کیا۔ اسلام کی آمد کے بعد بنی اسرائیل نے اسی معاندانہ رویے کے ساتھ اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ یہ کالم اس دشمنی کے اسباب، مراحل، اور موجودہ اثرات کو تاریخی اور 
معروضی تناظر میں بیان کرتا ہے۔

قرآنی تناظر میں بنی اسرائیل کی روش
قرآن کریم بنی اسرائیل کو اللہ کی نعمتوں کی یاد دہانی کراتا ہے
"اے بنی اسرائیل! میری اُس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر کی"
(البقرہ: 40)
لیکن ساتھ ہی ان کی نافرمانیوں کو بھی بے نقاب کرتا ہے
"جب کبھی تمہارے پاس کوئی رسول ایسی چیز لے کر آیا جو تمہارے دلوں کو پسند نہ تھی، تو تم نے ایک گروہ کو جھٹلایا اور دوسرے کو قتل کر ڈالا"
(البقرہ: 87)
قرآن میں یہ بھی ذکر ہے کہ اہل کتاب (خصوصاً یہود) اسلام کے خلاف دل میں حسد رکھتے ہیں
"اہلِ کتاب میں سے بہت سے چاہتے ہیں کہ کاش وہ تمہیں تمہارے ایمان کے بعد پھر کافر بنا دیں، صرف اپنے دلوں کے حسد کی وجہ سے"
(البقرہ: 109)

عہد نبوی میں یہودی قبائل کا طرزِ عمل
نبی کریم ﷺ کے مدینہ تشریف لانے کے بعد وہاں موجود تین بڑے یہودی قبائل — بنو قینقاع، بنو نضیر، اور بنو قریظہ — سے میثاقِ مدینہ کے تحت پرامن بقائے باہمی کا معاہدہ کیا گیا۔ تاہم:
بنو قینقاع (2 ہجری): مسلم خاتون کی بے حرمتی اور مسلمان کے قتل پر ان کا محاصرہ کیا گیا، اور انہیں مدینہ سے جلاوطن کر دیا گیا۔
بنو نضیر (4 ہجری): نبی ﷺ کے قتل کی سازش بے نقاب ہوئی، اور انہیں خیبر کی طرف نکال دیا گیا۔
بنو قریظہ (5 ہجری): غزوہ خندق کے دوران قریش سے ساز باز کر کے غداری کی، جس پر حضرت سعد بن معاذؓ کے فیصلے کے مطابق ان کے مرد قتل اور عورتیں و بچے قید کیے گئے۔
جلاوطن قبائل نے خیبر کو اپنا مرکز بنایا اور وہاں سے مسلسل فتنہ پردازی جاری رکھی۔ 7 ہجری میں نبی ﷺ نے خیبر فتح کیا، اور سیاسی طور پر ان کا زور توڑ دیا گیا۔ حضرت عمرؓ نے آپ ﷺ کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے جزیرۃ العرب سے باقی یہودیوں کو بھی نکال دیا
"دو دین جزیرۃ العرب میں جمع نہیں ہو سکتے"
(سنن ابی داؤد: 3035)

1948 
کے بعد: اسرائیل کا قیام اور مسلم دنیا پر حملے
اسرائیل کی ناجائز ریاست کے قیام کے بعد یہودی قیادت کی اسلام دشمنی نے ریاستی شکل اختیار کی
1. فلسطین
لاکھوں فلسطینی بے دخل، مستقل پناہ گزین
غزہ کی ناکہ بندی، اسکولوں و اسپتالوں پر حملے
اقوام متحدہ (2024): 9 لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار، 70,000 بچے علاج سے محروم
2. لبنان، شام، ایران
حزب اللہ کے خلاف جنگیں (2006، 2014)
شام میں داعش کو خفیہ مدد، فضائی حملے
ایرانی سائنسدان محسن فخری زادہ کا قتل (2020)
3. اردن و مصر میں سیاسی مداخلت

پاکستان کے خلاف اسرائیل–بھارت گٹھ جوڑ
پاکستان کا ایٹمی پروگرام اسرائیل اور بھارت دونوں کے لیے ایک مستقل تشویش کا باعث رہا ہے۔ اسی تناظر میں:
1990 کی دہائی:
اسرائیل–بھارت "پری ایمپٹو سٹرائیک" کی تجویز
پاکستان کی جوہری صلاحیت نے منصوبے کو روک دیا
مئی 2025 کا حملہ:
بھارت نے پاکستان پر محدود حملہ کیا
اسرائیلی ڈرون اور آپریٹرز استعمال ہوئے
کچھ اسرائیلی ماہرین بھارت میں "لاپتہ" ہو گئے
بھارت کا کردار: ایک اسٹریٹیجک آلۂ کار
اسرائیلی ہتھیاروں، سائبر ٹیکنالوجی اور جاسوسی آلات کا خریدار
کشمیر میں اسرائیلی نگرانی ٹیکنالوجی کا استعمال
مسلمانوں کے خلاف نفسیاتی جنگ اور سفارتی محاصرہ میں پیش پیش

یہودی نظریہ برتری: ایک مذہبی و سیاسی ذہنیت
قرآن مجید کے مطابق یہودی اپنے آپ کو "اللہ کے بیٹے اور پیارے" سمجھتے ہیں:
"وہ کہتے ہیں: ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں"
(المائدہ: 18)
ان کی توقع ہے کہ دنیا:
ان کے وجود کا احسان مانے
ان کے ظلم پر خاموش رہے
ہر تنقید کو "یہود دشمنی" قرار دے

نتیجہ: اسلام کا موقف اور موجودہ حکمتِ عملی
اسلام نے کبھی دشمنی کی ابتدا نہیں کی، بلکہ ہمیشہ عدل، صلح، اور دعوت کو ترجیح دی:
"اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی مائل ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسا رکھو"
(الأنفال: 61)
لیکن یہودی قیادت نے ہر دور میں مسلمانوں کے خلاف سازشیں کیں، انبیاء کو جھٹلایا، اور مسلمانوں کو نقصان پہنچایا۔ آج یہ دشمنی ریاستی، عسکری، میڈیا، اور سائبَر سطح پر جاری ہے۔

پاکستان کا مؤقف:
ایٹمی دفاع، انٹیلیجنس صلاحیت، عسکری چوکسی
قومی اتحاد، حب الوطنی اور بیداری ہی سب سے مؤثر جواب

مسلمان دنیا کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ:
یہ دشمنی صرف ماضی کا قصہ نہیں بلکہ آج کا فعال خطرہ ہے



جمعرات، 31 جولائی، 2025

سورہ الحدید ایت 25

لوہا زمین پر کہاں سے آیا؟
انسانی تاریخ اگر کسی دھات کے ساتھ سب سے زیادہ جڑی ہوئی ہے، تو وہ "لوہا" ہے۔ پتھروں کے دور سے لے کر خلائی دور تک، لوہے نے انسان کی ترقی، طاقت، تحفظ، معیشت، سائنس اور دفاع — ہر شعبے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ لوہا زمین کے اندر پیدا نہیں ہوا، بلکہ یہ آسمان سے اترا خزانہ ہے؟
لوہے کا ماخذ : سائنس کے مطابق، لوہا زمین پر ابتدائی طور پر موجود نہیں تھا۔ یہ ایک ایسا بھاری عنصر ہے جو صرف بہت بڑے ستاروں کے اندر "نیوکلئیر فیوژن" (Nuclear Fusion) کے عمل سے بنتا ہے۔ جب یہ ستارے اپنی زندگی کے اختتام پر "سپرنووا" کے ذریعے پھٹتے ہیں، تو وہ بھاری دھاتیں خلا میں بکھیرتے ہیں۔ انہی دھاتوں میں لوہا بھی شامل ہوتا ہے۔
بعد ازاں، جب زمین کی تخلیق ہوئی تو وہی لوہا خلا سے آ کر زمین کی سطح اور گہرائیوں میں جذب ہو گیا۔ آج زمین کا مرکز (core) زیادہ تر لوہے اور نکل پر مشتمل ہے۔
قرآن کریم سورۃ الحدید (آیت 25) میں ارشاد ہوتا ہے: "اور ہم نے لوہا اتارا جس میں سخت ہیبت (قوت) ہے اور لوگوں کے لیے فائدے ہیں۔"
یہاں "أنزلنا" کا مطلب جسمانی طور پر نازل کرنا بھی ہو سکتا ہے — اور جدید سائنس اس کی تائید کرتی ہے۔ قرآن صدیوں پہلے بتا چکا تھا کہ لوہا زمین پر "اتارا گیا"، اور آج کی فلکیاتی تحقیق بھی یہی کہتی ہے۔
انسان نے لوہے کو کس طرح اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوہے میں "بأس شدید" (زبردست طاقت) اور "منافع للناس" (انسانوں کے لیے فائدے) ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ انسان نے واقعی اسے ہر میدان میں استعمال کیا
دفاعی طاقت میں: انسان نے لوہے سے تلواریں، نیزے، ڈھالیں، بکتر بند لباس بنائے۔ آج کے دور میں ٹینک، ہوائی جہاز، آبدوزیں، میزائل — سب میں فولادی حصے لازمی ہیں۔
تعمیرات میں: پل، عمارتیں، ریل کی پٹریاں، ڈیم، کارخانے — ان سب میں لوہا بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ جدید شہروں کا انفراسٹرکچر لوہے کے بغیر ممکن نہیں۔
معیشت میں: صنعت و حرفت میں لوہے نے انقلاب برپا کیا۔انڈسٹریل ایج
کا آغاز ہی لوہے اور اسٹیل کی بدولت ہوا۔
طب میں: انسانی جسم کو بھی لوہے کی ضرورت ہے۔ خون میں موجود ہیموگلوبن آکسیجن کو جسم کے مختلف حصوں تک پہنچانے میں لوہے کی مدد سے کام کرتا ہے۔ آئرن کی گولیاں آج بھی خون کی کمی
کے علاج میں استعمال ہوتی ہیں۔
ٹیکنالوجی میں: الیکٹرانک اشیاء، گاڑیاں، مشینری — ہر جگہ لوہے کے بغیر ترقی ناممکن ہے۔
خلا میں بھی مصنوعی سیارے اور راکٹ لوہے اور اسٹیل سے ہی تیار کیے جاتے ہیں۔
لوہے کی علامتی حیثیت: انسان نے نہ صرف لوہے کو استعمال کیا بلکہ اسے طاقت، عزم، اور استقلال کی علامت بھی بنا دیا
لوہا محض ایک دھات نہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے انسان کے لیے ایک نعمت ہے۔ سائنس اسے خلا سے آیا ہوا قیمتی خزانہ مانتی ہے، اور قرآن اسے نازل کردہ منافع بخش چیز کہتا ہے۔
انسان نے اس نعمت کو پہچانا، اسے ڈھالا، اور اسے اپنی دنیا کی تعمیر میں استعمال کیا۔
اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اسے تخریب کے لیے استعمال کریں یا تعمیر کے لیے۔

قید میں سسکتی انسانیت



قید میں سسکتی انسانیت
کبھی سوچا ہے، وہ قیدی کیسا جیتا ہو گا جس پر کوئی مقدمہ نہیں؟
وہ بچہ کیسا سوتا ہو گا جو صرف احتجاج کی پاداش میں جیل میں ڈال دیا گیا ہو؟
وہ ماں کیسی تڑپتی ہو گی جس کا بیٹا برسوں سے کسی اذیت گاہ میں لاپتہ ہے؟
اگر آپ نے کبھی یہ سوال نہیں سوچے، تو شاید آپ بھی اس دنیا کی اس خاموش اکثریت میں شامل ہیں جو ظلم دیکھتی ہے، مگر آنکھیں پھیر لیتی ہے۔
آج اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی انسان صرف قیدی نہیں، وہ مظلوم انسانیت کی زندہ مثالیں ہیں — مگر افسوس، دنیا کے کانوں تک ان کی چیخیں نہیں پہنچتیں۔
جولائی 2025 تک اسرائیل کی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی تعداد 11,000 سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان میں شامل ہیں:
350 سے زائد بچے 21 خواتین اور 3,400 سے زیادہ قیدی جنہیں بغیر فردِ جرم یا عدالتی کارروائی کے صرف شک کی بنیاد پر میں رکھا گیا ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جن پر نہ الزام ثابت ہوا، نہ مقدمہ چلا، نہ رہائی ملی — بس قید ہے، اندھی قید۔
انتظامی حراست کا مطلب ہے کسی کو بغیر مقدمے کے، صرف خفیہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر جیل میں ڈال دینا۔ اس قانون کا سہارا لے کر اسرائیل ہزاروں فلسطینیوں کو برسوں تک جیل میں بند رکھتا ہے، بغیر کسی عدالت، وکیل یا صفائی کے حق کے۔
یہ انصاف کا نہیں، انصاف کے نام پر استبداد کا بدترین نمونہ ہے۔
اکتوبر 2023 سے جون 2025 تک 73 فلسطینی قیدی اسرائیلی جیلوں میں زندگی کی جنگ ہار چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر وہ تھے جو بیمار تھے، مگر انہیں دوا نہ ملی۔
کئی وہ تھے جنہوں نے بھوک ہڑتال کی — مگر ان کی فریاد سننے والا کوئی نہ تھا۔
خضر عدنان نے 87 دن بھوک ہڑتال کی، انصاف مانگا — جواب میں اسرائیل نے انہیں موت دے دی۔
یہ وہ موت ہے جو خاموش ہوتی ہے، مگر اندر سے پوری انسانیت کو کھا جاتی ہے۔
جنوبی اسرائیل کا Sde Teiman کیمپ قیدیوں کے لیے جیل نہیں، اذیت گاہ ہے۔ وہاں قیدیوں کو:
برہنہ کر کے جانوروں کی طرح باندھا جاتا ہے زخموں پر نمک چھڑکا جاتا ہے
کھانے کے بجائے گالیاں دی جاتی ہیں اور انسان کے بجائے صرف ایک سیریل نمبر سمجھا جاتا ہے یہ کیمپ انسانیت کے چہرے پر وہ داغ ہے جو شاید صدیوں تک نہ مٹے۔
اسرائیلی جیلوں میں اس وقت 350 سے زائد بچے قید ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جنہوں نے نہ بندوق چھوئی، نہ بم دیکھا — ان کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ فلسطینی ہیں۔
انہیں تنہائی میں رکھا جاتا ہے والدین سے ملاقات کا حق چھین لیا جاتا ہے
اور ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے یہ وہ بچپن ہے جو قید میں جوان ہو رہا ہے، اور شاید قید میں ہی دفن ہو جائے۔
اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں، بین الاقوامی میڈیا — سب کو علم ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں کیا ہو رہا ہے۔لیکن سب خاموش ہیں۔ کیوں؟
کیوں کہ اسرائیل ایک طاقتور ریاست ہے۔
کیوں کہ مظلوم کا نام "فلسطینی" ہے۔
کیوں کہ دنیا کے ضمیر پر سیاسی مصلحتوں کی دبیز چادر پڑ چکی ہے۔
اتنا بھی نہیں کہا جاتاکہ
اگر قیدی مجرم ہیں، تو مقدمہ کیوں نہیں؟
اگر بے گناہ ہیں، تو رہا کیوں نہیں؟
اور اگر انسان ہیں، تو انسانوں جیسا سلوک کیوں نہیں؟
فلسطینی قیدیوں کی حالت دیکھ کر جو سب سے زیادہ اذیت ناک چیز محسوس ہوتی ہے، وہ قید نہیں — بلکہ دنیا کی خاموشی ہے۔
یہ وہ خاموشی ہے جو ظالم کے ہاتھ مضبوط کرتی ہے اور مظلوم کی آواز دبا دیتی ہے۔
قید اگر جسم کی ہو تو روح آزاد رہتی ہے، مگر جب ضمیر قید ہو جائے، تو پوری انسانیت مر جاتی ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم بولیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم لکھیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم دنیا کو جھنجھوڑیں —
یہ وہی اسرائیلی ہیں جو ہٹلر کے یہودیوں پر ڈھائے گئے ظلم کے نام پر دنیا بھر سے ہمدردی سیٹتے ہیں مگر ان کا خود کا کردار ہٹلر کے کردار سے بڑھ کر ظالمانہ ہے ۔ فلسطین میں انسانیت سسک رہی ہے، بھوک ، اذیت اورطلم ہے مگر اج کا مہذب انسان سب دیکھ کر بھی ،سن کر، پڑھ کر بھی خا،وش ہے کیا یہ خاموشی طلم نہیں