ہفتہ، 17 نومبر، 2018
اردو کالم اور مضامین: تین ماہ کی حکومت کا ناقدانہ جائزہ
اردو کالم اور مضامین: تین ماہ کی حکومت کا ناقدانہ جائزہ: کولہو ہمارے زرعی معاشرے کا ایک اہم اثاثہ ہوا کرتا تھا۔ اس میں اردو محاورے والا بیل، صبح کے وقت آنکھوں پر پٹی باندھ کر لمبے سفر پر روانہ...
جمعہ، 16 نومبر، 2018
تین ماہ کی حکومت کا ناقدانہ جائزہ
کولہو ہمارے زرعی معاشرے کا ایک اہم اثاثہ ہوا کرتا تھا۔ اس میں اردو محاورے والا بیل، صبح کے وقت آنکھوں پر پٹی باندھ کر لمبے سفر پر روانہ کر دیا جاتا تھا، دسیوں کلو میٹرکا سفر طے کرنے کے بعدشام کو جب اس کی آنکھوں سے پٹی کھلتی تھی تو وہ اسی جگہ موجود ہوتا جہاں صبح تھا۔اس کا سفر مگر بے مقصد نہیں ہوتا تھاتیل اور کھل اس لمبے سفر کا ثمر ہوتے تھے۔ تیل کسان کے جبکہ کھل بیل کے حصے میں آتی تھی۔سفر با مقصد ہو تو رائیگان نہیں جاتا بے شک دائرے ہی میں ہو۔
معاشر ے کی منزل کا تعین، راہ کا ادراک اور اجتماعی سعی کو کامیابی میں بدل دینے والے کو رہنماء کہا جاتا ہے۔رہنمائی کی اہلیت ہر فرد میں ہوتی ہے۔اپنی ذات میں اس اہلیت کو تلاش کر کے اپنی ذات ، خاندان اور معاشرے کے لیے مثبت طور پر استعمال کرنا ہر اس فرد کے لیے ممکن ہے جو اس کی جستجو رکھتا ہے۔فطرت انسان کی ہر چاہت کو پورا کرنے اور ہر سوال کا جوب دینے کی استعداد رکھتی ہے۔البتہ چاہنا اور سوال کرنا لازمی ہے ۔ کوئی جواب بنا سوال اٹھائے نہیں دیا جاتانہ بلا چاہت کوئی خواہش پوری کی جاتی ہے۔سوال اٹھانے اور چاہت کے اظہار کے لیے بنیادی علم انسان کو مہیا کیا جاتا ہے۔ ہم درسگاہوں میں دراصل اس علم کے استعمال کا سلیقہ سیکھتے ہیں۔کسان کے علم کا سلیقہ ہے کہ وہ بیل کو مدد گار بنا کر استفادہ حاصل کرتا ہے۔ ابن رشد نے لوگوں کو زمین ماپنے کا گر بتایا تھاحالانکہ اس نے کسی سے سیکھا نہ تھا۔خالد بن ولید کے پاس جنگی مہارت خداداد تھی۔عمر بن عبدالعزیز کے پاس محبت و رواری کا علم ذاتی تھا۔ معاشرے میں ادیب ، موسیقار ، خطیب، سیاسی رہنماء ، طبیب اور سپہ سالار بن جانے والوں کے پاس علم خداداد ہوتا ہے۔
سیاسی جماعتوں کے کارکن اپنے اپنے علم سے لیس ہوتے ہیں ، جماعت ان کے علم کو
Channellize
کرتی ہے۔ایک فرداگر وزیر اعظم بنا دیا جاتا ہے تو ہو سکتا ہے اسی جماعت میں اس سے زیادہ علم والا موجود ہو۔ حکمرانوں پر تنقید کا بنیادی مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ سیاسی جماعت خود احتسابی کے عمل سے گذر کر بہتر سے بہترین افراد کو سامنے لائے۔ تنقید ی علم بھی خداد اد ہوتا ہے البتہ سلیقہ سیکھنا پڑتا ہے ۔اور تنقید کو برداشت کرنا بھی سلیقہ کا متقاضی ہوتا ہے۔
2014
کے دھرنے کے دوران حکمرانوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ درجنوں غلط الزام لگائے گئے۔ ان کی ذات اور خاندان کو تضحیک کا نشانہ ہی نہیں بنایا گیا بلکہ عوام کے لیے رستے بند کر کے سیاسی مخالفین کے لیے قبریں بھی کھود لی گئی تھیں۔اجتماعات میں ان پر جوتے پھینکے گئے، منہ کالے کیے گئے ، سر پھاڑے گئے اور گولیاں تک چلائی گئیں مگر حکمرانوں کے پاس تنقید کو برداشت کرنے کا سلیقہ تھا۔موجودہ حکمرانوں کی خامیوں میں سر فہرست تنقید برداشت کرنے کے سلیقے کا فقدان ہے۔ زبانی تنقید کے بدلے گالی دی جاتی ہیں، اخبار تنقید کرے تو اس کے مدیر کو لا پتہ کر دیا جاتا ہے۔ماوراے قانوں مقدمے اورصحافیوں کو چن چن کر ملازمت سے نکالنا ثابت کرتا ہے کہ یہ لوگ علم کے استعمال کے سلیقے ہی سے نا بلد نہیں بلکہ ان میں وہ خدا داد علمی استعداد ہی مفقود ہے۔
امن بنیادی انسانی ضرورت ہے ۔حکومت افراد اور معاشرے کی پاسبان ہوا کرتی ہے۔مگر اس حکومت کے دور میں معاشرے کا پاسبان سمجھی جانی والی پولیس کا ایک افسر ملک کے درالحکومت سے سورج کی روشنی میں اور کھلے بازار سے اغوا کر لیا جاتا ہے۔ جگہ جگہ لگے پولیس کے ناکوں کو عبور کر کے ملکی سرحد پر موجود چیتا نظر وطن کے رکھوالوں کی نظروں سے چھپا کر اسے دوسرے ملک لے جایا جاتا ہے اور وہاں سے اس کی تشدد زدہ لاش واپس بھیجی جاتی ہے۔اور وفاقی وزیر مملکت براے داخلہ اس خبر ہی کو غلط بتاتے ہیں پھر دلیل ختم ہو جانے کے بعد سارے معاملے کو حساس بتا کر چپ کا روزہ رکھ لیتے ہیں۔ موت سے بڑی حساسیت کیا ہوتی ہے ۔ وزیر باتدبیر کے پاس اس کا جواب نہیں ہے ۔ کیا حکمران پارٹی میں قابلیت کی یہی انتہا ہے یا کوئی بہتر علم والا موجود ہے۔ یہ عوام کا وہ سوال ہے جس کا جواب حکمرانوں پر قرض ہے ۔ یاد رکھنا چاہیے کہ قرض اور فرض ایسے واجبات ہوتے ہیں کہ ان سے انکار انسان کو معاشرے میں بے وقعت کر دیتا ہے۔
دولت مند اور حکمران ہمسایہ غریبوں کے لیے سایہ دار درخت کی مانند ہوتے ہیں ۔ میٹھا پھل نہ بھی کھائیں سائے سے مستفید ہوتے ہیں۔ مگر اس حکومت میں شامل دولت مند حکمران طاقت کے نشے میں ایسے سرشار ہیں کہ وہ انسان کی عظمت، احسان کی خصلت ، اپنے وقار اور حکومت کی ساکھ ہی کو بھول چکے ہیں۔ مہاجر اور غریب ہمسائے کی گائے کے اعمال پر ان کو اس قدر غصہ آتا ہے کہ گائے کوہی اپنے گھر میں باندھ لیتے ہیں مگر ان کا غصہ سرد نہیں ہوتا۔ غریب ہمسائے کے گھر کی پردہ دار خواتین کو جیل بجھواتے ہیں مگر غصہ پھر بھی نہیں اترتا ۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کو اس علاقے ہی سے اٹھا کر ان کی نظروں سے دور بھیج دیا جائے۔ ایسا واقعہ تو کتابوں میں پڑہا نہ دانشمندوں کی زبانی سنا۔اگر حکمران ایسے نہیں ہوا کرتے تھے توجان لیں اب ہمارے موجودہ حکمران ایسے ہی ہیں۔
حکومت کے جن وزیروں اور مشیروں کا کام عوام کو خبروں کی فراہمی میں مدد کرنا ہے۔ وہ اپنے فرض منصبی کو چھوڑ کر با باعزت شہریوں کی پگڑیاں اچھالنا خود پر فرض کیے ہوئے ہیں۔ پارلیمان میں اپنی بد زبانی پر معافی مانگ کر دروازے سے نکل کر گلا پھاڑ کر پھر وہی الفاظ استعمال کرتے ہیں اور اپنی اس غیر اخلاقی جرات پر خود ہی نازان ہوتے ہیں۔مخالفین کو گالی دینا۔ ان کے نام بگاڑنا، بے بنیاد الزام لگانا اور اس پر مصر ہونا ان کے نزدیک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ایسی سطحی سوچ پر کوئی ٹوک دے تو اس کو ریاست کی طاقت سے ڈرا کر اطمینان پاتے ہیں۔واقعات اور اطلاعات کو عوام سے چھپانا اور غلط اطلاعات فراہم کرنا ان کا شیوہ ہے۔ اگر کوئی صحافی ایسی بات لکھ دے جو ان کے خوشامدی من کو پسند نہ آئے تو ایسے صحافی کو ریاستی طاقت کے بل بوتے پر اٹھا لینا اور غائب کر دینا ان لوگوں کا وطیرہ ہے۔ لوگ قانون اور قاعدے کی بات کریں تو اس صحافی کو لوہے کی مقفل زنجیروں میں جکڑ کر اس کی تصاویر اخباروں میں چھپوا کر اپنے من کے رانجھے کو راضی کرتے ہیں۔ اتنی بڑی حکمران پارٹی کے پاس علم سے لیس بس یہی چند دانے ہیں ۔ عوام اس بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ عوام کا حق ہے کہ ان پر مسلط ہی کرنا ہے تو ایسا آدمی مسلط کریں ۔ جو کم از کم پارٹی کے ساتھ مخلص ہوْ۔پارٹی سے عوام کو متنفر کرنے والوں کو کون پارٹی کا ہمدرد مانے گا۔
معیشت کا شعبہ زیادہ سنجیدہ شمار ہوتا ہے۔ مگر اسی شعبے کو غیر سنجیدہ لوگوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔اس شعبے کو چلانے والے ایک صاحب ٹی وی پر بیٹھ کر بتاتے ہیں کہ ان کی وزارت میں تنخواہوں کی ادائیگی کے بعد صرف تیس روپے بچے ہیں۔غربت کا جتنا ڈھندورا اس حکومت کے دور میں پیٹا گیا ہے وہ ملکی ہی نہیں عالمی ریکارڈ کی حیثیت رکھتا ہے۔ کشکول توڑنے اور خود داری کا راگ الاپنے والوں نے ملکوں ملکوں پھر کر بتایا ہے کہ ہمارے پاس قرض کی قسط ادا کرنے کے لیے رقم نہیں ہے۔ حالانکہ ملک میں سرکاری ملازمیں 48 سے 56 گھنٹے ہفتے میں کام کرتے ہیں اور پرائیویٹ سیکٹر میں لوگ ستر ستر گھنٹے تک کام کرتے ہیں ۔ ملک میں غریب اور متوسط طبقہ گھڑی کو دیکھے بغیر محنت میں جتا ہوا ہے۔ عوام کی طرف سے صحت و تعلیم کے لیے کوئی دباو ہے نہ مہنگائی کے خلاف کوئی آواز بلند کرتا ہے۔ بلند ہے تو صرف حکمرانوں کے اخراجات کا تخمینہ۔ اس کے باوجو د عرب و چین تک ہماری نااہلی اور غربت کے چرچے ہیں ۔ ہم ایسی ایٹمی طاقت ہیں جو طالب علموں اور موبائل کے صارفین سے چندے مانگتے ہیں ۔ ریل کے مسافروں سے زبردستی چندہ وصول کیا جاتا ہے مگر ہوائی جہاز کے مسافر اس سے مستثنیٰ ہیں۔جنرل سیلزٹیکس کے خاتمے کا ْ لارا ْ لگا کر عوام کو کرپشن کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔ملک میں اپنے ذاتی سرمائے سے کاروبار کرنے والے سیاسی مخالفین کو چن چن کر انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔بیرون ملک سے دولت کما کر ملک کے اندر سرمایہ کاری کرنے والوں کو نشان عبرت بنایا جا رہا ہے۔اور ملک کے اندر اپنی محنت اور ذہانت سے آگے بڑہنے والوں کو یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ صرف انھوں ہی نے کیوں ترقی کی ہے۔ ان جیسے دوسرے کیوں ان سے پیچھے ہیں ۔کیا قابلیت کا یہی موسی ہے یا معاشرے کو معیشت کے کوہ طور تک پہنچانے کے لیے کوئی صاحب علم بھی موجود ہے۔
قانون کی حکمرانی کا جھنڈا بلند کرتے ہوے ہم فلیگ پوسٹ ہی کو گرا بیٹھے ہیں۔وزیر اعظم صاحب سپریم کورٹ کی بار بار کی تلقین کے باوجود اپنا گھر ریگولائز کرانے پر راضی نہیں ہیں۔وزیر اور مشیر عدالت کے سمن ہی وصول نہیں کرتے یا عدالت کے بلانے پر عدالت ہی نہیں جاتے۔کابینہ کی میٹنگز میں نیب زدہ، بنک زدہ اور غیر ملکی شہریت کے لوگ دھڑلے سے بیٹھتے ہیں۔ البتہ ان کو عدالت سے یہ گلہ ہے کہ ان کے سیاسی مخالفین کو قانونی رعائت کیوں دی جاتی ہے۔صدر مملکت اور وزیر اعظم صاحب خود عدالتی استثناء کی چھتری تلے براجمان ہیں۔ ملک کے تحقیقاتی اداروں کو کرپشن کے وہ کیس ثابت کرنے کے لیے فارغ کر دیا گیا ہے جو عشروں قبل ثابت نہ ہو کر بند ہو چکے ہیں۔ٖغریب دوکان داروں، گھوم پھر کو پھل سبزی فروخت کرنے والوں پر قانون کو نافذ کیا جاتا ہے۔ وزیروں کے اقرباء البتہ قانون سے بالا ہیں۔
تعلیم کا حشر نشر کر دیا گیا ہے کے پی کے اور پنجاب میں سینکڑوں سکولوں کو بند کر دیا گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور استادوں کو بلا وجہ حراساں کرنا اسی دور حکومت میں ممکن ہوا۔ خاص طور پر پنجاب میں تو تعلیم دشمنی جیسا رویہ اختیار کیا گیا۔ پچاس لاکھ گھر بنا کر دینے کی ٹھوس پالیسی سامنے نہیں آئی۔نوکریاں دینے کی بنیاد رکھنے میں بھی ناکامی ہی کا سامنا ہے۔تعلیم یافتہ بے روزگار مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔زراعت مشکلات کا شکار ہے اور کسان پر حکومتی سرمایہ کاری بند کر دی گئی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں امید کے دیے بجھ رہے ہیں۔ حکمرانوں کی البتہ پانچوں دیسی گھی میں اور سر درآمد کردہ کڑاہی میں ہے۔
کولہو کے بیل کا گول دائرے میں سفر نتیجہ خیز ہوتا ہے ۔پاکستانی عوام کی حالت اکہتر سال کے سفر کے بعد ہی کولہوکے بیل سے بھی بدتر ہے۔ اکہتر سالوں سے امید کے ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ہانپ چلے ہیں۔ اب تو لوگ مرنے سے بھی خوف زدہ ہیں کہ شہر خموشاں میں پلاٹ صرف نقد ادائیگی پر ہی ملتا ہے۔ حکومت سے گذارش ہے کہ مفلس اور بے وسیلہ لوگوں کے مر جانے پر میت کو دفنانے کے علاوہ کوئی اور سستا اور قانونی طریقہ نکالے کہ مرنا توآسان ہو سکے
بدھ، 14 نومبر، 2018
زندگی اور موت
زندگی ، خالہ جی کے گھر بيٹھ کر لقمہ شيريں کھانے کاہ نام نہيں، بلکہ زندہ رھنے کے ليے محنت و کوشش، مقابلہ و کشمکش، سعی و محنت اور خوف و تفکرات سے ہر لمحہ نبردآزما رھنا پڑتا ھے ، اور یہ مہينوں اور سالوں کا معاملہ نہيں بلکہ انسان کی ساری زندگی ھی اس جينے کی نزر ھو جاتی ھے ۔ اور مشکل تريں لمحہ وہ ھوتا ھے جس کا نام موت ھے ۔ زندگی مشکل ھے تو موت مشکل تر ۔ ليکن ان دو حقيقتوں سے چھٹکارا نہيں کيونکہ کوئی اور
Option
موجود ھی نہيں ھے ۔
نسل انسانی نے اپنے طويل تجربہ کے بعد اپنی مشکلات کو کم کرنے کا کچھ ادراک حاصل کر ليا ھے ۔ اہل علم اور عقل مندوں کی نصائع کارگر رھيں ، اور ابن آدم کی خاکساری پر ترس کھا کر مالک کائنات نے بھی کچھ
Hints
عطا فرما ديے، جن پر عمل پيرا ھو کر زندگی ميں امن و سکون اور اطمينان حاصل کر کے موت کی سختی سے بھی بچا جا سکتا ھے ۔
جب انسان اپنی ذاتی زندگی ميں سچائی، شفافيت اور سادگی پر عمل پيرا ھونے کا فيصلہ کر ليتا ھے تو اس کی زندگی آسان ھونا شروع ھو جاتی ھے، سچائی 'حق' کی حقيقت کو اجاگر کرتی ھے اور ذھن کے بند دريچے کھولتی ھے، اشياء و کلمات و اعمال کی حقيقت اجاگر ھونا شروع ھو جاتی ھے ۔ انسان صيح وغلط، حق و باطل کو ' تاڑ' ليتا ھے [اسی کو فراست کہا جاتا ھے] ۔ فراست حاصل ھونے کے بعد ذاتی زندگی ميں دوڑدھوپ اور محنت و کوشش کی موجودگی ميں ھی ايثار و قربانی کے جذبات خوف و تفکرات کو کم کرنا شروع کر ديتے ھيں ۔ گويا زندگی کے بھنور ميں سکون آ جاتا ھے ۔ اس عمل [سچائی کو اپنی ذات پر لاگو کرنا ] کی ابتدا متوجہ ھونے اور نيت کرنے سے ھوتی ھے ، نيت یا ارادہ کرنا سہل ترين عمل ھے ،جبکہ نيت ھی عمل کی بنياد بنتی ھے کيونکہ ''اعمال کا دارومدار نيتوں پر ھے'' اور اسی کا نام توبہ ھے ۔ اور اللہ کا حکم ھے ''اللہ توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ھے''۔[البقرہ:222] توبہ خود کو بدلنے کا ايسا ارادہ ھے جس کو بار بار کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ھے۔ ايک بزرگ عالم لکھتے ھيں کہ انھوں نے 40 بار توبہ کی اور ہر بار استقامت حاصل ھونے ميں ناکام رھے آخر کار 41 ويں بار توبہ پر استقامت حاصل ھوئی ۔ 'مکہ جانے کے عمل کی ابتداء مکہ جانے کی نيت ھی سے ھوتی ھے '' ۔
سمندر ميں موجود متلاطم امواج کو اللہ ھی سکون ديتا ھے مگر ذاتی زندگی ميں سکون و اطمينان پيدا کرنا خود انسان کے ذمہ ھے اور یہ حقيقت ان قرآنی احکام ميں پنہاں ھے ''بےشک اللہ کا ذکر ھی دلوں ميں اطمينان کا باعث ھے'' اور '' اللہ ذکر کرنے والوں کو محبوب رکھتا ھے'' ۔ اللہ کو ہر لمحہ ہر موقع پر ياد رکھنا کہ وہ مالک و خالق ھے، اس کے عائد کردہ فرائض ادا کر کے اس کی رضامندی و مشيت کے آگے سر خم اطاعت کر دينے کا نام ذکر ھے ۔ ذاکر انسان کوسکون و اطمينان عطا کرنے کا وعدہ خود مالک دو جہان نے کر رکھا ھے ۔ يہ دوسرا آزمودہ اور تير بہدف نسخہ ھے ۔
زندگی ميں توبہ پر عمل پيرا ھو کر ، ذکر کےعمل سے ليس ھو جانا ، اورخدمت خلق کے ليے کوشاں رھنا موت کو آسان کر ديتا ھے ۔
''آسانی کی موت چاھتے ھو تو دوسروں کی زندگيوں ميں آسانی پيدا کرتے رھو''
پیر، 12 نومبر، 2018
دیتے ہیں پہرہ ملک سرکار کے روضے پر
ان کی وجہ شہرت تو ان کی فتوحات، بہادری، عدل ، غریب پروری اور خاندانی وجاہت ہے۔ ان کے بارے میں مشہور مورخ ابن اثیر نے لکھا ہے ْ میں نے اسلامی عہد کے حکمرانوں سے لے کر اس وقت تک کے تمام حکمرانوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے مگر خلفائے راشدین اور عمر بن عبد العزیزکے بعد نورالدین سے بہترکوئی حکمران میری نظر سے نہیں گذرا ْ
نور الدین زنگی کا زیر نظر واقعہ اسلامی تاریخ میں محبان رسول اللہ ﷺ کے قلوب کو حرارت حب النبی سے گرماتا ہے۔ اس واقعہ کو مشہور عالم حضرت شیخ محمد عبدالحق محدث دہلوی نے اپنی کتاب ْ تاریخ مدینہْ میں نقل فرمایا ہے۔
ہجری 557 میں عیسائیوں نے مراکش میں یہ سازش کی کہ مدینہ المنورہ کی مسجد نبوی میں موجود قبر رسول اللہ ﷺ سے جسد مبارک کو چوری کیا جائے۔ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے دو آدمیوں نے خود کو مختص کیا اور سازش کی تکمیل کے لیے حجاج کے ساتھ مراکش سے مکہ آئے۔ رسوم حج کی مکہ میں تکمیل کے بعد وہ دونوں مدینہ المنورہ آئے اور مسجد نبوی کے جنوب مغرب میں مسجد کی دیوار سے متصل ایک مکان لے کر رہائش رکھ لی۔مکان کے فرش سے انھوں نے قبر مبارک تک سرنگ کھودکر جسد انور ﷺ تک پہنچنا تھا۔ وہ حب النبی کا لبادہ اوڑھ کر اپنے کام میں مشغول ہو گئے۔ سرنگ کی کھدائی سے جو مٹی نکلتی اسے تھیلوں میں ڈال کر شام کے وقت جنت البقیع میں موجود قبور پر بکھیر دیتے۔ وہ اپنے منصوبے پر عمل پیرا تھے۔ مدینے میں کسی کو ان پر شک تک نہ ہوا ۔ مدینہ المنورہ اس وقت دمشق میں موجود سلطان نورالدین زنگی کی سلطنت میں شامل تھا۔ 558 ہجری میں سلطان اپنے گھر میں سو رہا تھا کہ اسے خواب میں دو اشخاص دکھا کر حکم دیا گیا
ْ ہمیں ان کے شر سے بچاو ْ
سلطان نے بیدار ہو کر وضو کیا ۔ دو رکعت ادا کی اور اپنے مشیر خاص جمال الدین اصفہانی کو بلایا ۔ اصفہانی سے مشورے کے بعد اس نے اسی وقت بیس آدمی منتخب کیے اور مدینہ المنورہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ اس نے اس تیز رفتاری سے سفر کیا کہ 25 دنوں کا سفر 16 دنوں میں طے کر کے شام سے پہلے مدینہ المنورہ پہنچ کر مسجد البنوی میں نماز ادا کی اور زیارت قبر مبارک سے فارغ ہو کر حاکم مدینہ کے ذریعے اعلان کرایا کہ مدینے میں موجود تمام بیرونی زائرین آ کر وقت کے سلطان کی طرف سے اپنا اپنا تحفہ وصول کر یں۔ لوگ آتے گئے اور تحائف وصول کرتے رہے حتیٰ کہ سب لوگ تحفہ وصول کر چکے۔ مگر سلطان کو وہ دو شخص نظر نہ آئے جو خواب میں دکھاٗے گئے تھے، سلطان نے پوچھا
ْ کیا مدینہ کا ہر شخص مجھ سے مل چکا ْ
جواب ہاں مین پا کر سلطان نے دوبارہ پوچھا
ْ کیا ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے ْ حاکم مدینہ نے کہا ْ سوائے دو آدمیوں کےْ
دو آدمی ۔۔۔ ْ وہ کون ہیں اور تحفہ لینے کیوں نہیں آئے ْ
مراکش کے دو متقی ہیں، درود پڑہتے ہیں اور ہر ہفتے مسجد قبا جاتے ہیں ، فیاض اور مہمان نواز ہیں ، کسی کا دیا نہیں لیتے ْ
سلطان نے کہا ْ سبحان اللہ ْ اور تحفہ لینے انھیں بلا بھیجا
ْ الحمداللہ ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور ہمیں کسی سے تحفہ یا خیر خیرات لینے کی ضرورت نہیں ْ
جب سلطان تک یہ جواب پہنچا تو بردبار سلطان اپنے ادمیوں کے ساتھ ان کے مکان پر جا پہنچا۔ان کو دیکھتے ہی سلطان نے انھیں پہچان لیا
تم کون ہو اور کیوں آئے ہوْ
ہم مراکش کے رہنے والے ہیں۔ حج کے لیے آئے تھے، اب روضہ رسول کے سائے میں زندگی گذارنا چاہتے ہیںْ
سلطان نے کہا ْ تم نے جھوٹ بولنے کی قسم کھا رکھی ہےْ
سلطان کی عقابی نگاہ فرش پر بچھی جائے نماز کے نیچے بچھی چٹائی پر جم کر رہ گئی۔ چٹائی ہٹانے کا حکم ہوا۔ چٹائی کے نیچے بڑا پتھر ظاہر ہوا ۔ پتھر کو ہٹایا گیا تو وہ سرنگ ظاہر ہو گئی جو فرش میں کھودی گئی تھی اور اس کا رخ قبر مبارک کی طرف تھا۔ سلطان کے آدمی نے سرنگ میں اتر کودیکھا اورحقیقت حا ل سے سلطان کو آگاہ کیا۔سلطان غصے مین لرز رہا تھا۔ مگر اس کی زبان سے صرف اتنا نکلا
ْ کیا اب بھی سچ نہ بولو گے ْ
سچ بولنے کے سوا چارہ ہی نہیں تھا۔ سازش بے نقاب ہو چکی تھی۔ وہ فرمانروا جس کا نام سن کر حکمرانوں کے دل دہل جاتے تھے ۔ دونوں کے مکان میں طیش بھرے جذبات کے ساتھ موجود تھا۔ اپنے جرم کی سنگینی کا بھی انھیں ادراک تھا، انھوں نے اقرار کیا کہ وہ مسیحی ہیں، اور مراکش میں تیار کی گئی اس سازش کا حصہ ہیں جس کا مقصد رسول اللہ ﷺ کے جسد مبارک کو سرنگ لگا کر چرانا تھا۔سلطان جس سرعت سے دمشق سے مدینہ پہنچا تھا ۔ اس سے زیادہ سرعت کے ساتھ اس مقدمہ کا فیصلہ ہوا۔ دونوں مجرمین کے سر تن سے جدا کر دیے گئے۔ اس موقع پر سلطان نورالدین زنگی نے بلند آواز میں کہا ْ میرا نصیب ! پوری دنیا میں اس خدمت کے لیے اس غلام کو چنا گیا ْ
سلطان نورالدین زنگی نے 15 مئی 1174 کو 58 سال کی عمر میں وفات پائی۔ اس نے 1146 سے 1174 تک 28 سال حکمرانی کی۔ 1977 میں شام کے شہر حمص میں مجھے اس نامور اور معزز حکمران سلطان نورالدین زنگی کی قبر پر حاضری اور فا تحہ خوانی کا شرف حاصل ہوا۔سفید سنگ مرمر کی قبر کے نیچے محو استراحت اس عظیم حکمران کی کامرانیاں تاریخ کی کتابون میں رقم ہیں مگر یہ منفرد واقعہ اہل ایمان کے دلوں پر رقم ہے۔
نور الدین زنگی کا زیر نظر واقعہ اسلامی تاریخ میں محبان رسول اللہ ﷺ کے قلوب کو حرارت حب النبی سے گرماتا ہے۔ اس واقعہ کو مشہور عالم حضرت شیخ محمد عبدالحق محدث دہلوی نے اپنی کتاب ْ تاریخ مدینہْ میں نقل فرمایا ہے۔
ہجری 557 میں عیسائیوں نے مراکش میں یہ سازش کی کہ مدینہ المنورہ کی مسجد نبوی میں موجود قبر رسول اللہ ﷺ سے جسد مبارک کو چوری کیا جائے۔ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے دو آدمیوں نے خود کو مختص کیا اور سازش کی تکمیل کے لیے حجاج کے ساتھ مراکش سے مکہ آئے۔ رسوم حج کی مکہ میں تکمیل کے بعد وہ دونوں مدینہ المنورہ آئے اور مسجد نبوی کے جنوب مغرب میں مسجد کی دیوار سے متصل ایک مکان لے کر رہائش رکھ لی۔مکان کے فرش سے انھوں نے قبر مبارک تک سرنگ کھودکر جسد انور ﷺ تک پہنچنا تھا۔ وہ حب النبی کا لبادہ اوڑھ کر اپنے کام میں مشغول ہو گئے۔ سرنگ کی کھدائی سے جو مٹی نکلتی اسے تھیلوں میں ڈال کر شام کے وقت جنت البقیع میں موجود قبور پر بکھیر دیتے۔ وہ اپنے منصوبے پر عمل پیرا تھے۔ مدینے میں کسی کو ان پر شک تک نہ ہوا ۔ مدینہ المنورہ اس وقت دمشق میں موجود سلطان نورالدین زنگی کی سلطنت میں شامل تھا۔ 558 ہجری میں سلطان اپنے گھر میں سو رہا تھا کہ اسے خواب میں دو اشخاص دکھا کر حکم دیا گیا
ْ ہمیں ان کے شر سے بچاو ْ
سلطان نے بیدار ہو کر وضو کیا ۔ دو رکعت ادا کی اور اپنے مشیر خاص جمال الدین اصفہانی کو بلایا ۔ اصفہانی سے مشورے کے بعد اس نے اسی وقت بیس آدمی منتخب کیے اور مدینہ المنورہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ اس نے اس تیز رفتاری سے سفر کیا کہ 25 دنوں کا سفر 16 دنوں میں طے کر کے شام سے پہلے مدینہ المنورہ پہنچ کر مسجد البنوی میں نماز ادا کی اور زیارت قبر مبارک سے فارغ ہو کر حاکم مدینہ کے ذریعے اعلان کرایا کہ مدینے میں موجود تمام بیرونی زائرین آ کر وقت کے سلطان کی طرف سے اپنا اپنا تحفہ وصول کر یں۔ لوگ آتے گئے اور تحائف وصول کرتے رہے حتیٰ کہ سب لوگ تحفہ وصول کر چکے۔ مگر سلطان کو وہ دو شخص نظر نہ آئے جو خواب میں دکھاٗے گئے تھے، سلطان نے پوچھا
ْ کیا مدینہ کا ہر شخص مجھ سے مل چکا ْ
جواب ہاں مین پا کر سلطان نے دوبارہ پوچھا
ْ کیا ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے ْ حاکم مدینہ نے کہا ْ سوائے دو آدمیوں کےْ
دو آدمی ۔۔۔ ْ وہ کون ہیں اور تحفہ لینے کیوں نہیں آئے ْ
مراکش کے دو متقی ہیں، درود پڑہتے ہیں اور ہر ہفتے مسجد قبا جاتے ہیں ، فیاض اور مہمان نواز ہیں ، کسی کا دیا نہیں لیتے ْ
سلطان نے کہا ْ سبحان اللہ ْ اور تحفہ لینے انھیں بلا بھیجا
ْ الحمداللہ ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور ہمیں کسی سے تحفہ یا خیر خیرات لینے کی ضرورت نہیں ْ
جب سلطان تک یہ جواب پہنچا تو بردبار سلطان اپنے ادمیوں کے ساتھ ان کے مکان پر جا پہنچا۔ان کو دیکھتے ہی سلطان نے انھیں پہچان لیا
تم کون ہو اور کیوں آئے ہوْ
ہم مراکش کے رہنے والے ہیں۔ حج کے لیے آئے تھے، اب روضہ رسول کے سائے میں زندگی گذارنا چاہتے ہیںْ
سلطان نے کہا ْ تم نے جھوٹ بولنے کی قسم کھا رکھی ہےْ
سلطان کی عقابی نگاہ فرش پر بچھی جائے نماز کے نیچے بچھی چٹائی پر جم کر رہ گئی۔ چٹائی ہٹانے کا حکم ہوا۔ چٹائی کے نیچے بڑا پتھر ظاہر ہوا ۔ پتھر کو ہٹایا گیا تو وہ سرنگ ظاہر ہو گئی جو فرش میں کھودی گئی تھی اور اس کا رخ قبر مبارک کی طرف تھا۔ سلطان کے آدمی نے سرنگ میں اتر کودیکھا اورحقیقت حا ل سے سلطان کو آگاہ کیا۔سلطان غصے مین لرز رہا تھا۔ مگر اس کی زبان سے صرف اتنا نکلا
ْ کیا اب بھی سچ نہ بولو گے ْ
سچ بولنے کے سوا چارہ ہی نہیں تھا۔ سازش بے نقاب ہو چکی تھی۔ وہ فرمانروا جس کا نام سن کر حکمرانوں کے دل دہل جاتے تھے ۔ دونوں کے مکان میں طیش بھرے جذبات کے ساتھ موجود تھا۔ اپنے جرم کی سنگینی کا بھی انھیں ادراک تھا، انھوں نے اقرار کیا کہ وہ مسیحی ہیں، اور مراکش میں تیار کی گئی اس سازش کا حصہ ہیں جس کا مقصد رسول اللہ ﷺ کے جسد مبارک کو سرنگ لگا کر چرانا تھا۔سلطان جس سرعت سے دمشق سے مدینہ پہنچا تھا ۔ اس سے زیادہ سرعت کے ساتھ اس مقدمہ کا فیصلہ ہوا۔ دونوں مجرمین کے سر تن سے جدا کر دیے گئے۔ اس موقع پر سلطان نورالدین زنگی نے بلند آواز میں کہا ْ میرا نصیب ! پوری دنیا میں اس خدمت کے لیے اس غلام کو چنا گیا ْ
سلطان نورالدین زنگی نے 15 مئی 1174 کو 58 سال کی عمر میں وفات پائی۔ اس نے 1146 سے 1174 تک 28 سال حکمرانی کی۔ 1977 میں شام کے شہر حمص میں مجھے اس نامور اور معزز حکمران سلطان نورالدین زنگی کی قبر پر حاضری اور فا تحہ خوانی کا شرف حاصل ہوا۔سفید سنگ مرمر کی قبر کے نیچے محو استراحت اس عظیم حکمران کی کامرانیاں تاریخ کی کتابون میں رقم ہیں مگر یہ منفرد واقعہ اہل ایمان کے دلوں پر رقم ہے۔
آنکھین ، کان اور دماغ
پاکستان کی عمر کے لحاظ سے پاکستانیوں نے کچھ زیادہ ہی حکومتیں بگھتائی ہیں ۔ اس کا سبب کھوجتے کھوجتے لوگوں نے
موٹی موٹی کتابیں تخلیق کیں ۔ مقالے لکھے اور لیکچردیے. حالانکہ حل ہمیشہ سادہ سا ہوتا ہے۔ گھر کے سربراہ کو اپنا مقام قائم رکھنے کے لیے اپنی اولاد اور ان کی اولاد کے خیالات کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے ورنہ نوجوان سوچ دادا یا نانا کو اوقات دکھا دیتی ہے ۔ بات ایک ہی ہے اور اٹل ہے “ مان لو یا منا لو “ بات چیت ، مکالمہ اسی کو کہا جاتا ہے۔میں ایک ایسے شخص کو جانتاہوں جس نے اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک بجھوایا ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ بیٹی نے فون پر ماں کو بتایا کہ وہ اپنے ایک کلاس فیلو پاکستانی سے شادی کا فیصلہ کر چکی ہے ۔ ماں نے رات کو اپنے خاوند کو بتایا ۔ باپ صاحب فرست ہی نہیں جہان دیدہ بھی تھا اس کا جواب تھا کہ جب بیٹی کو یونیورسٹی میں داخل کرا رہےتھے تو ہمارا مقصد تعلیم کے ساتھ اسے خود اعتمادی دلانا بھی تھا۔ اس وقت وہ تعلیم کے لحاظ سے ہم دونوں سے آگے ہے ، زندگی اس کی اپنی ہے مگر ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں کچھ روایات ہیں ۔ بیٹی کو بتاو ہمیں اس کی پسند پر بھروسہ ہے مگر لڑکے کو چاہیے اپنے والدین کو ہمارے پاس رشتہ مانگنے بھیجے ۔ دوسرے دن ماں نے لڑکی تک بات پہچائی جو شادی تین دن بعد بدیسمیں ہونے والی تھی ملتوی ہو ئی ۔ اب لڑکی اپنی ماں سے بات کرتی تو لڑکا بھی اپنی ہونے والی ساس سے بات کرتا۔اور یہ بات لڑکے نی اپنی ہونے والی ساس کو بتائی کہ وہ دوماہ بعد پاکستان آکر شادی کریں گے۔میں اس شادی میں موجود تھا دونوں خاندان شیر و شکر تھے، دلہا اور دلہن فرحان تھے ۔ ایک باپ کی فراست نے دو خاندانوں کو جوڑ دیا تھا۔ ایسے شادیوں کے بعد جان لینے اور دینے کے واقعات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
ملک بھی گھر ہی کی طرح ہوتے ہیں ، حکمرانی اور رہنمائی میں وہی فرق ہے جو موت اور حیات میں ہوتا ہے۔
پاکستان میں جناب عمران خان صاحب کی حکومت ہے ، ان کے مشیر ان و وزراء ان کے کان اور آنکھیں ہیں۔ انسان کانوں سے سنتاہے اور آنکھون سے دیکھتا ہے مگر فیصلہ دماغ کرتا ہے۔ خان صاحب اگر فیصلہ کرنے والا دماغ ہیں تو ان کے کان اور آنکھیں دو مناطر پیس کر رہی ہیں ۔ دونوں مناظر پیش کرنے والے ان کے اپنے ہی ہیں ۔ ان کی مدد گار ٹیم دو گروہوں مین بٹی ہوئی ہے ۔ ایک گروہ خاموشی سے عوام کی خدمت کا راہ دکھا رہا ہے ۔ دوسرا بے چین گروہ ہے جو ہر مخالف کو لٹکا دینے کا مبلغ ہے ۔اکہتر سالہ پاکستان ، قرضوں میں جکڑا، انصاف کے لیے عدالتوں کی چھوکٹوں پر دھکے کھاتا ہوا ، بچوں کی تعلیم کو ترستا ، تعلیم یافتہ اولاد کے لیے نوکریوں کا سوالی، تقسیم در تقسیم معاشرے میں دشمنیوں سے اکتایا ہوا، رہنے کے لیے اپنی چھت کو ترسا ہوا، اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے امن اور خود داری کی آس لگائے وزیر اعطم ہاوس کی طرف دیکھ رہا ہے ۔یہ فیصلہ عمران خان نے کرنا ہے کہ وہ حکمران بنیں گے یا رہنماء ۔ رہنماء صاحب فراست ہو تو دشمنی کی دہلیز پر کھڑے دو خاندانوں کو شیر و شکر کر دیتا ہے ۔ پاکستان کی عمر کے لحاظ سے پاکستانیوں نے کچھ زیادہ ہی حکومتیں بگھتائی ہیں ۔ کوئی تو ہو جو فراست کی راہ چنے کان اور آنکھیں دو مختلف مناطردکھا رہی ہیں فیصلہ مگر دماغ نے کرناہے ۔ اور حکومت کا دماغ وزیر اعظم ہی ہیں
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)