جمعرات، 18 اکتوبر، 2018

کالا کتا



گاوں کے چوہدری صاحب نے کتا پال رکھا تھا ، کتے کے بارے میں پورے گاوں میں مشہور تھا کہ وہ چور پکڑنے میں ماہر ہے ۔ کتے کی اس ماہرانہ خصلت کا مظاہرہ گاوں والوں نے کئی بار اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ کتا چوہدری صاحب کی ڈنگروں والی حویلی میں ایک کمرے میں بندہا رہتا تھا۔مشکوک چورکا نام چوہدری صاحب کو پیش کیا جاتا، اگر یہ نام کسی اپنے کا ہوتا تو چوہدری صاحب فرماتے بھائی یہ بڑا الزام ہے، کتا تو کتا ہے ، پہلے کچھ انسانوں سے تحقیق کرالویہ نہ ہو بے چارہ بے گناہ مارا جائے۔ان کی انسان دوستی سے متاثر ہو کر معاملہ چوہدری صاحب کی بنائی انصاف پسند پنچایت میں پیش کیا جاتا ، گواہ طلب کیے جاتے ، ثبوت مانگے جاتے۔ گاوں میں اہل گاوں کے خلاف گواہی دینے کا حوصلہ تھوڑے دال والے لوگوں میں کم ہی ہوتا ہے۔ بہر حال چوہدری صاحب خدا کا شکر ادا کرتے کہ ان سے بے انصافی کا گناہ سر زد ہونے سے اللہ نے بچا لیا ہے۔ البتہ مخالفین میں سے کسی پر الزام لگ جاتا تو اتوار کے دن کتے کو میدان میں لایا جاتا۔مشکوک چور کو میدان میں بھاگنے کے لیے کہا جاتا ساتھ ہی کتے کا پٹہ کھول دیا جاتا، کتا تماش بینوں کو نظر انداز کر کے بھاگتے چور کی لنگوٹی اتار لیتا۔
ایک دن، ایک مشکوک پکڑا گیا ، پنچایت میں پیش کیا گیا ، گواہ بھی پیش ہوئے ، ثبوت بہرحال کتے نے پیش کرنا تھا۔ جمعے والے دن مولوی صاحب نے نجس و ناپاک کتے کی مذمت کی اور بتایا کہ چوہدری صاحب اس عمل سے گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ چوہدری صاحب کے کتے کا رنگ کالا ہے اور کالا کتا، کتوں میں بھی نجس ترین ہوتا ہے۔ لوگوں کا ایمان تازہ ہوا ، کالے کتے سے گاوں والوں کو نفرت سی ہو گئی۔
پاکستان کے مایہ ناز ادارے نیب کی پھرتیاں ان دنوں عروج پر ہیں ، جس کو چاہتا ہے الزام لگا کر ہتھکڑی پہنا دیتا ہے، جس کو چاہتا ہے گرفتار کر لیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے اس کے خلاف ثبوت اکٹھے کرنے کے لیے پنچایت بٹھا دیتا ہے۔مگر اج تک اس نے جو بھی اور جس کے خلاف بھی ثبوت اکٹھے کیے بھونڈے ہی نکلے۔سب سے مشہور کیس سابقہ نا اہل وزیر اعظم صاحب کا ہوا، ثبوت موٹے موٹے والیم کی صورت میں ٹرالیوں میں لاد کر عدالت میں لائے گئے۔ عوام کو یقین دلانے کے لیے درجنوں ٹی وی چینل ، اخبارات اور سوشل میڈیا کے ایکٹیوسٹ کے ذریعے وسائل کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔کھوجی دوسرے ملکوں مین دوڑائے گئے، خط و کتابت کے انبار لگ گٗے ، نہ عوام کو یقین آیا نہ عدالت میں کچھ ثابت ہوا۔پنجاب کے سابقہ وزیر اعلیٰ کو آشیانہ کے عنوان سے گرفتار تو کر لیا گیامگر ثبوت کی باری آئی تو نیب نے دانت نکال کے دکھا دیے ۔ نیب کا کردار چوہدری صاحب اور ان کے کالے کتے جیسا ہی ہے

منگل، 16 اکتوبر، 2018

کالم نویسی اور فنکاری


ایک صاحب اخبار میں کالم لکھا کرتے تھے ، پرانے پاکستان میں کہ ہر آدمی اور ہر ادارہ ہی کرپٹ تھا، ایک 
ادارے نے میڈیا والوں میں ریوڑیاں بانٹیں۔ سرکار ی اداروں میں ایک ایک روپے کاحساب ہوتا ہے کہ کہاں سے آیا اور کہاں خرچ ہوا۔ حساب درج رجسٹر ہو گیا ۔ آڈیٹر حساب چیک کرنے آئے جمع تفریق برابردیکھ کر رجسٹر پر آڈیٹڈ کی مہر ماری رجسٹر بند کرنے سے پہلے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر رجسٹر نمبر ، صفحہ نمبر لکھا اوررجسٹر بند کر کے دفتر سے روانہ ہو گیا۔ 
کالم نویسی آج کل قلم گھسیٹنے کا نام ہے ، گھسیٹنے کے مقاصد ہوا کرتے ہیں ، جب کسی کو گھسیٹا جاتا ہے تو عام طور پر بغض کی کہیں جلتی آگ کو ٹھنڈا کیا جا رہا ہوتا ہے، کالم نویس جو حالات کو دیکھ کر مستقبل کی پیشن گوئی کیا کرتے تھے شہر خموشاں میں جا سوٗے یا گم نامی کے اندہیروں میں گم ہیں۔
ایک محفل میں صحافت کی دنیا کے چند بڑے ایک سیاسی شخصیت کی شادی پر تبصرہ کر رہے تھے ، پاس سے گذرتے کالم نویس کو بھی پاس بٹھا لیااور جب اسے تبصرہ کی دعوت دی تو سب حیرت سے کن انکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے لگے ۔ ایک صاحب نے کہاکیا آپ یہ لکھ کر دے سکتے ہیں۔ اسی ہفتے ملک کے سب سے بڑے اخبار میں ایک کالم چھپا اور جناب ارشاد احمد حقانی نے اپنا کہا لکھ کر دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔وہ خود تو اللہ کی جنت میں جا بسے مگر ہم نے دیکھا کہ جناب آصف علی زرداری پاکستان کے صدر ہوئے۔ حرف مگر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک ْ حرف تمنا ْ ہوتا ہے اورثقیل ہوتا ہے، دوسرا حرف قیمت پاتا ہے ۔ جس چیز کی قیمت وصول کر لی جائے انمول نہیں رہتی۔ جب مقتول کا بیٹا خون بہا وصول کر چکا ہوپھر وعدہ خلافی جرم بن جایا کرتی ہے۔ غیرت کا با غیرت لوگ بھی اسی وقت تک ساتھ نبھاتے ہیں جب تک غیرت کو بیچ نہ دیا گیا ہو۔زبان سے نکلا لفط رقم ہو کر ہی قیمتی بنتا ہے ، اس لیے کہ اس پر عمل ہونا ہے ۔ معاہدوں کو تحریر کرنے کا مقصد انھیں پایہ تکمیل تک پہچانا ہوتا ہے۔ کالم نویس کی مثال مبلغ جیسی ہے۔ مبلغ چالیس دن کی تبلیغ میں وہ پیغام ڈیلیور نہیں کر پاتا جو ایک درویش چوبیس گھنٹوں میں کر دکھاتا ہے۔ بے عمل زبان سے معجزے برپا کر دیتا ہے جو اس کو نظر بھی آرہے ہوتے ہیں مگر درویش جانتاہے معجزے برپا کرنا ایک عہد کے بعد ممکن نہیں رہا ۔ صاحب عمل سعی کرتا ہے اور داد لوگ نتیجے کو دیتے ہیں۔
ذکر ریوڑیاں بانٹنے کا شروع کیا تھا، وہ کاغذ کا ٹکڑاایک سیاسی شخصیت کی میز پر رکھا تھا ، اس کو بھی یقین تھا یہ انٹری بوگس ہے مگر اس نے کالم نویس سے کنفرم بھی کر لیا۔ یقین حاصل کرنا ایک چلہ یا تپسیا ہے ، یہ جو ہم سنتے ہیں فلاں بزرگ نے ایک نظر میں زندگی کا رخ بدل دیا، یہ جو ہمیں یقین ہوتا ہے فلاں جو کہہ رہا ہے سچ ہی ہو سکتا ہے، یہ جو فلاں نے لکھ دیا ہے غلط نہیں ہو سکتا ۔ یہ مقام تپسیا کے بعد ہی حاصل ہوتا ہے مگر اس مقام کی حفاظت لگاتار تپسیا کی متقاضی رہتی ہے۔اور اپنے مقام کی حفاظت کرنے والے لوگ رات کے اندھیرے میں معاشرے کے مجرم نہیں چھڑایا کرتے، وہ شخصیت کے سحر سے آزاد ہوا کرتے ہیں۔ وہ اپنی پاک دامنی کے قصیدے خود نہیں لکھا کرتے اور دوسروں پر سنگ باری بھی نہیں کیا کرتے۔لفظوں سے کھیلنا ایک فن ہے ۔طلوع آفتاب سے پہلے ایک ساعت آتی ہے جب فنکاراپنے فن کی داد پاتا ہے۔ البتہ جو فنکار سر شام ہی داد لینے چوکڑی مار کر بیٹھ جائے اسے تو اس کے شعبے کے لوگ بھی فنکار نہیں مانتے ۔ ہم خوبصورت لفظوں والے فنکار کو کالم نویس کیونکر مان لیں۔ 

پیر، 15 اکتوبر، 2018

نام

میرے دوست کے گھر بیٹا پیدا ہوا میں نے مبارکباد کا پیغام بھیجا جوابی پییغا م آ یا اچھے اور اسلامی نام تو بتائیں۔ بچوں کا نام رکھنا بہت آسان کام ہے ، ہفتے کے دنوں پر نام رکھنا برصغیر میں کافی مقبول عمل رہا ہے ۔ منگل سنگھ ایک فلم کا کردار تھا جو کافی مقبول ہوا۔ڈاکٹر جمعہ پاکستان کے ایک مایہ ناز معالج کا نام ہے۔ستاروں پر بھی نام رکھنا معمول ہے ۔ زہرہ کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک خوبصورت دوشیزہ تھی جس نے زہرہ ستارے کا روپ دھار لیا تھا ۔ زہرہ جبین، چندا، قطب الدین وغیرہ۔بعض لوگ پانی پر بھی نام رکھ لیتے ہیں جیسے سمندر سنگھ، دریا خان ۔ میں نے ایک فہرست میں نالی خان نام بھی پڑھا ہے۔کچھ حس لطیف رکھنے والے بوستان ، گل خان، گل لالہ ، گلاب سنگھ، چنبیلی قسم کے نام رکھ کر خوش ہوتے ہیں، جانوروں پر نام رکھنا اپ کو عجیب لگے گا مگر آپ کی ملاقات شیر خان سے بھی ہو سکتی ہے۔پتھرو ں پر بھی نام رکھا جا سکتاہے ۔ میرے ایک جاننے والے کانام ہیرا ہے، موتی اوروں کے علاوہ انسانوں کا نام بھی ہوتا ہے ، زمرد خان ہمارے ایک ہیرو ہیں جنھوں نے اسلام آباد میں ایک اسلحہ بردار کو قابو کیا تھا۔عقیق خان میرے دوستوں میں شامل ہے۔
آپ نے سنا ہو گا عقل مند وہ ہوتا ہے جو دوسروں کے تجربات سے سیکھتا ہے ۔ مستنصر حسین تارڑ کے تجربے سے فائدہ اٹھا کر مشکل نام رکھنے سے پہلے حالات و وقعات پر غور کر لی جئے گا ، میری فرینڈ لسٹ میں عزیٰ نامکی ایک لڑکی تھی ۔ اسے مجھ سے ملاقات کا بڑا شوق تھا چند سال پہلے کراچی میں اس سے ملاقات ہوئی تو وہ بھی مسٹر نکلی۔ چند دن قبل ایک یونیورسٹی کے استا د نے اپنے بیٹے کا نام موسیٰ رکھا میرے پوچھنے پر کہنے لگا عام فہم اور ْ سو بر ْ ہے۔کسی کا نام ٹھن ٹھن گوپال بھی تھا، راے چوپٹ سندھ کے ایک راجے کا نام تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ نام اہم نہیں ہے ، ابراہیم، محمد ، حسین ، احمد خان، علی، رحمت ان ناموں کو شخصیات نے عزت دی ۔ جعفر اور صادق جیسے ناموں کو بدنام بھی شخصیات نے کیا۔ مختصر ، عام فہم ، مانوس سا کوئی بھی نام رکھ لیں۔ انشاء اللہ نام عزت پائے گا ۔ 

سچ


پچیسجولائی کے عام انتخابات کے بعد جب ٹی وی پر غیر رسمی غیر حتمی نتائج دکھائے جا رہے تھے تو حلقہ این اے ۵۷ سے پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم اور نون لیگ کے امیدوار جناب شاہد خاقان عباسی صاحب  جیت چکے تھے اور یہ نتیجہ پی ٹی وی کی سکرین پر دکھا دیا گیا تھا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اقلیت کو معلوم ہے اور اکثریت بھی زیادہ بے خبر نہیں ہے۔تین ماہ میں بہت سا پانی بہہ گیا ہے، زمین بطور حقیقت سامنے ہے۔ جناب شاہد خاقان عباسی کی مقبولیت کی حقیقت این اے ۱۲۴ کے نتیجے کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ تحمل مزاج، بردبار ، پاکستان کے بیٹے نے اپنے حلقے کا نتیجہ بدل دیے جانے کے واقعے کو ہرز جان بنایا نہ کوئی شکوہ زبان پر لائے البتہ لاہور ۱۴ اکتوبر کو ان کی کامیابی پر مبارکباد دینے اکٹھے ہوئے حلقے کے لوگوں سے خطاب کے دوران انھوں نے بردباری سے لیکن اہم واقعہ سنایا کہ انھوں نے ۴۰ سے زیادہ پولنگ کے مراکز کے دورے کے دوران کسی ایک پولنگ کے مرکز پر الیکشن کمیشن کی طرف سے نامزد پریذاڈنگ افسر کومرکز کا انچارچ نہیں پایا ۔ انھوں نے الیکشن کمیشن کے چیرمین کے سامنے ایک سنجیدہ سوال رکھا ہے۔ یہ سوال پاکستان کے عوام کے دل کی آواز ہے۔ البتہ توجہ ان کے بردبار لہجے اور الفاظ کے چناو کی طرف مبذول کرانا مقصود ہے۔ 
یہ ثاثر دیا جاتا ہے کہ نون لیگ مزاحمت کی سیاست کی متحمل ہی نہیں ہو سکتی اس کا جواب بھی لاہور کے حلقہ این اے ۱۳۱ کے ووٹروں نے دے دیا ہے کہ جب خواجہ سعد رفیق نے اپنے پولنگ ایجنٹوں کے ذریعے نتائج حاصل کر لینے کے بعد اپنی جیت کا اعلان کر دیا تو ریٹرنگ آفیسر نے ان کے نتائج روک لیے اور خواجہ سعد رفیق کے بیان کو بتنگڑ بنانا چاہا تو ووٹر آر او کے دفتر پہنچ گئے اور نتیجہ لے کر ہی ٹلے اور ٹی وی کے سٹوڈیوز میں براجمان نام نہاد اینکروں کی قینچی کی طرح چلتی زبانیں بند ہو گئیں۔
حقیقت یہ ہے کہ میاں نواز شریف اور شہید بے نظیر بھٹو نے اپنی اپنی آپ بیتی کے بعد یہ عہد کیا تھا کہ وہ سیاسی مخالف کی ٹانگ پکڑ کر اس کا گھٹنا نہیں توڑیں گے۔ اس مثبت تبدیلی کا مظاہرہ اس دن دیکھنے میں آیا جس دن راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک اندھی گولی نے جمہوریت کی اس شمع کو بجھا دیاتو جیالوں نے میاں نواز شریف کے کندھے سر رکھ کر گریہ کر کے اپنادکھ ہلکا کیا تھا۔اسی سوچ کا نتیجہ یہ ہوا کہ جناب آصف علی زرداری اور جناب نواز شریف صاحبان کے دور میں کسی سیاسی مخالف پر مقدمہ نہیں بنا۔
میاں نواز شریف صاحب کی حکومت بننے کے ایک سال کے اندر ہی لندن پلان پر عمل کر کے اسلام آباد کا معاصرہ کر لیا گیا۔ریاست کی اہم عمارات اور تنصیبات پر قبضہ کر کے قبریں بھی کھود لی گئیں جن میں وزیر اعظم سمیت سیاسی مخالفین کو دفنانا مقصود تھا۔ ریاست کی طاقت کی مظہر پولیس کے ایک لائق اور با کردار نوجوان افسر کو دارلحکومت کی شاہراہ دستور پر پھینٹا لگا دیا گیا۔ مگر میاں نواز شریف صاحب نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ خود ان کی ذات پر ایسی دھول اڑاہی گئی کی ناظرین کے مناظر دھندلا گئے۔ذرائع ابلاغ کے ایک حصے نے لوگوں کو سمجھانے کی مخلصانہ کوشش کی کہ ستر سالہ عوام کی محرومیوں کا ذمہ دار یہی شخص ہے۔
ُ شدید دباو کے باوجو دمیاں صاحب نے تحمل اور بردباری سے پارٹی اور کارکنوں کو سمجھایا کہ ملک اور عوام کی خوشحالی بہتر معیشت میں پوشیدہ ہے۔اور ہمارا جارحانہ رویہ معاشی ترقی کی راہ کو مسدود کر دے گا۔جس حکمت عملی کو اپنا کر ہم نے ملک میں انفرا سٹرکچر کا جال بچھایا ہے اور پاکستان کے لیے جو دن رات کام کیا ہے وہ خواب بکھر جائے گا۔ان کو یقین ہے بے بنیاد، جھوٹے اور گھٹیا الزام اپنی موت آپ مر جائیں گے۔پاکستان کے عوام اپنے برے اور بھلے کی بہتر تمیز کر سکتے ہیں۔دوسری طرف ان کے مخالفین نے اس سوچ کو نون لیگ کی کمزوری جان کر اقتدار کی کرسی چھین لی۔
نئی حکومت کو آئے دو ماہ ہو رہے ہیں،سو دن کا ابتدائی عرصہ پالیسیوں کے بناو سنگھار اور افسران کی تعیناتی ہی مین گذر جاتا ہے مگرتاثر تو یہ دیا گیا تھا کہ ۲۰۰ قابل افراد جیب میں ہیں، توقع یہ تھی بیرون ملک مقیم پاکستانی اس حکومت کے آتے ہی ڈالر روانہ کر دیں گے،بتایا جاتا تھا ہر تعیناتی قابلیت کے بل بوتے پر ہو گی۔توقع یہ تھی کہ کفائت شعاری اپنائی جائے گی۔سنجیدہ دوست کہتے تھے ۲۲ سال کی تیاری ملک کی قسمت بدل کر رکھ دے گی۔بلند بانگ دعووں ۔ زبانی لن ترانیوں اور بے سرو پا اقدامات کے سوا مگر دو مہینوں میں عوام کو کچھ نظر نہیں آیا۔ترقی کا عمل رک چکا ہے۔بقول وزیر خزانہ ان کو ۱۷ ارب ڈالر خزانے میں ملے تھے اس کے باوجود ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ ملکوں ملکوں مفلسی کا ڈھنڈورہ پیٹا گیا۔پی ٹی آئی کا ورکر ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ہانپ چکا ہے۔ اس کو ادراک ہو گیا ہے کہ یہ صرف گرجنے والے بادل ہیں۔اس کا اندازہ ضمنی انتخاب کے نتائج کی صورت میں ہو چکا ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ریوڑیاں بٹ رہی ہیں، سیاسی مخالفین پر تبرہ اونچی اواز میں بھیجا جاتا ہے۔تعلیم اور صحت کے شعبوں سے ماہرین کو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔وہ لوگ جو ذاتی سرمائے کے بل بوتے پر ان شعبوں مین کچھ کر رہے تھے ان کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔پہلے سو دن سورج نکلنے سے پہلے سحر کی طرح ہوتے ہیں مگر لوگ اس سحر کو صادق ماننے پر تیا ر نہیں کہ سحر صادق کے آثار ایسے نہیں ہوتے۔
لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کیا عمران خان بطور وزیر اعظم ناکام ہو گئے ہیں مگر خان صاحب کے مخلصین بتاتے ہیں ناکام نہیں ہوے وہ نا اہل ٹولے میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کیا وزیر اعظم کو اس کا ادراک نہیں ہے؟
ہمیں یاد ہے ایسے سوال محترمہ شہید اور میاں صاحب کے بارے میں بھی پوچھے جاتے تھے۔ مگر ان کے مابین مفاہمت کی دستاویز ان کے ادراک کا اظہار تھا ۔ ہماری دلی خواہش ہے خان صاحب کامیاب ہوں۔ اپوزیشن نے اسمبلیوں میں حلف اٹھا کر اپنے اخلاص کر اظہار کر دیا ہے۔عربوں کی کہاوت ہے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو دھوتا ہے ۔ سیاسی پارٹیاں ملک کا ہاتھ ہوتی ہیں ، ہاتھ کو دھونا یا کاٹنا ہمیشہ حکومتی جماعت کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ایک عاقل نے لکھا ہے ْ سچ تین مرحلوں سے گذرتا ہے ، پہلے مرحلے میں اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں اس کی متشدد طریقے سے مخالفت کی جاتی ہے اور تیسرے مرحلے میں   اس سچائی کو یوں تسلیم کر لیا جاتا ہے جیسے اس سچائی کو کبھی ثبوت کی ضرورت ہی نہ تھی
میاں نواز شریف سچ کے تینوں مرحلوں سے گذر چکے البتہ عمران خان صاحب کے سچ کے پہلے مرحلے کے بارے میں ہی عوام تذبزب کا شکار ہے

ہفتہ، 13 اکتوبر، 2018

تشدد


انسان دو قسم پر ہیں ایک وہ جو اپنے علم و تجربہ کے بل بوتے پر ایک نظریہ قائم کر لیتے ہیں ۔ علم مگر ایک جاری عمل ہے جب انسان علم 
کی ایک سیڑھی طے کر کے دوسری سیڑھی کی طرف بڑھتا ہے تو وہ اپنے سابقہ خیالات اور اعتقادات کے بل بوتے پر ہی نیا ادراک پاتا ہے وہ سابقہ ادراک کی نفی نہیں کر رہا ہوتا بلکہ نیا وسیع ادراک اس کے سابقی محدود ادراک ہی کی ایک بہتر شکل ہوتی ہے۔علم حاصل کرنے اور اس کی بڑہوتی میں اختلافی دلیل کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ 
دوسری قسم کا انسان جب علم کا ایک زینب طے کر کے اس پر قناعت کر لیتا ہےتو وہ سابقہ زینوںکو کم تر سمجھ کر انھینں مردود قراردیتا ہے، اور علوی زینوں سے نا مانوسیت کے سبب ان سے خوفزدہ ہوتا ہے۔ یہ خوفزدہ شخص اپنی لا علمی کے سبب متشدد ہو جاتا ہے ۔ گو تشدد کا سبب خوف ہوتا ہے مگرسبب لا علمی ہی بنتا ہے ۔ یہ وہ عنصر ہے جو معاشرے کو تشدد کی طرف دھکیلتا ہے ۔سوشل میڈیا پر پائی جانے والی بد زبانی لچر پن اور گالی گلوچ بھی تشدد ہی کی ایک قسم ہے