منگل، 6 مارچ، 2018

حقائق اور میزان

 2007
تین نومبر  کو جنرل مشرف نے ایمرجنسی کا اعلان کر کے آئین کو بالکل ہی معطل کر دیا ، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کوہدائت کی کہ کہ وہ پی سی او کے تحت دوبارہ حلف لیں۔ سو کے قریب ججوں نے اس غیر قانونی حکم کو ماننے سے انکار کیاتو جنرل نے ان سب کو نظربند کرکے ڈوگر کو نیا چیف جسٹس بنا لیا۔
نظر بندی سے پہلے مگر سات جج فیصلہ دے چکے تھے کہ مشرف کا عمل غیر قانونی ہے اور اس پر عمل کرنے وا لے لاقانونیت کے مرتکب ہوں گے۔مگر طاقت جیت گئی اور قانون ہار گیا۔

2009
 میں زمینی حقائق تبدیل ہو گئے ۔ صدر آصف علی زرداری کے زیر سایہ، پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران عدالت نے مشرف کی حکومت کے دوران سات ججوں کا جاری کردہ فیصلہ نافذ کر دیا. پی سی او کے تحت بننے والی ڈوگر عدالت غیر قانونی قرار پائی۔
زمینی حقائق
پاکستانی عدلیہ کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عدالتوں میں قانونی تواتر کی بجائے زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر فیصلے کیے جاتے رہے ہیں۔ ان حقائق پر انفرادی جذبات و تعصبات اور خواہشات حاوی ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔نا دیدہ قوتوں کو بھی عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتا بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان کے پہلے چیف جسٹس سر عبد الرشید کی ریٹائر منٹ کے وقت چیف جسٹس بننے کی باری ابو صالح محمد اکرم  کی تھی جو ڈھاکہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے ۔ایک سوچی سمجھی رائے کے بعد گورنر جنرل غلام محمد نے کہا کہ جسٹس سر عبدالرشید کی ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت ایک برطانوی قانون دان کو پاکستان کا چیف جسٹس بنانے کا ارادہ رکھتی ہے کیونکہ پاکستان کی بیورو کریسی سمیت عدلیہ جسٹس اکرم کوبطور چیف جسٹس قبول نہیں کرے گی۔اس پر جسٹس اکرم نے کہا کہ اگر انھیں اس قابل نہیں سمجھا گیا تو بھی کسی برطانوی کی بجائے پاکستانی چیف جسٹس بنایا جائے تو ان کو قبو ل ہو گا۔گورنر جنرل نے جسٹس منیر کو چار ججوں کو بائی پاس کر کے پاکستان کا چیف جسٹس مقرر کر دیا۔

کہا جاتا ہے ایک ہاتھ دوسرے کو دھوتا ہے۔ جسٹس منیر نے 1954 میں تحلیل شدہ اسمبلی کی بحالی سے انکار کر کے احسان اتار دیا۔نظریہ ضرورت اور کامیاب انقلاب جیسی اصطلاحیں خودعدالت ہی کی اختراع ہیں۔لیکن زمین حقائق نے ایک اور کروٹ لی اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے ہی بنائے ہوئے آئین میں ترامیم کیں۔ ایک ترمیم کے نتیجے میں جسٹس مولوی مشتاق پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نہ بن سکے۔جنرل ضیاء کے مارشل لاء کو رستہ دینے کی باری آئی تو چیف جسٹس انوارالحق کو معلوم ہوا کہ ان کی جگہ جسٹس یعقوب علی کو چیف بنایا جا رہا ہے۔اسی دن جنرل ضیاء کے قانونی مشیر جناب اے کے بروہی صاحب کی موجودگی میں جسٹس انوار نے انقلاب کو رستہ ہی نہ دیا جنرل صاحب کو آئین میں ترمیم کا حق بھی دے دیا۔عدلیہ اور عسکری اداروں میں صلاح مشورہ کی باز گشت موجودہ دور میں اس وقت سنی گئی جب پاکستان کے معروف ہوئے جج محمد بشیر کی عدالت بارے اخباروں نے لکھا کہ ایک ادارے کے افسر نے جج کے چمبر میں تنہائی میں ملاقات کی ہے۔
اگر عدالتوں میں فیصلے قانونی تواتر کی بجائے زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر کیے جاتے ہیں تو تسلیم کرنا ہو گا کہ زمینی حقائق کا تغیر پذیر ہونا وقت کا مرہون منت ہوتا ہے۔ 


پیر، 5 مارچ، 2018

بھٹو زندہ ہے


سینٹ کے انتخابات کا نتیجہ عوام اور مبصرین کی توقع کے مطابق ہی آیا ہے۔ پنجاب سے چوہدری سرور کی کامیابی بہر حال پی ٹی آٗئی کی بجائے ذاتی کہی جائے تو شائد مبالغہ نہ ہو۔ ایک کامیابی بعض اوقات بہت سی ناکامیوں کا پیش خیمہ بن جایا کرتی ہے۔ چوہدری سرور برطانوی شہریت کے باوجود پنجاب کی سیاست کو اپنے لیڈر سے بہتر منظم کرنے میں ہی کامیاب نہیں رہے بلکہ وہ ارائیں ازم کی بنیاد رکھنے کی سعادت حاصل کر چکے۔ جادو کی نسبت سائنس معجزہ ثابت ہو چکی۔ کپتان نے ثابت کیا ہے کہ وہ ابھی تک اپنا پروگرام اور بیانیہ دینے میں ناکام ہیں اگر یہ کہا جائے کہ ان کے ساتھ ْ بے ووٹ ْ ہجوم ہے تو غلط نہ ہو گا۔ بھانت متی کے کنبے کے افراد عمران خان کا گھیراو کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ عمران خان کو ، حالانکہ وقت گذر چکا ہے ، سوچنا چاہیے کہ اس کے نظریاتی کارکنوں کو آخر شکوہ کیا ہے ۔ جرنیل سپاہیوں کے بل بوتے پر جنگ جیتتا ہے ۔ اور سپاہیوں کا یہ گلہ بے جا نہیں ہے کہ ْ چوری کھانے والے رانجھے ْ جسم کا ماس کاٹ کر نہیں دیا کرتے۔ مولانا سمیع الحق بارے کپتان کا فیصلہ اس کی پارٹی نے نا پسند کیا ہے اور پارٹی کے اجتماعی فیصلے کو عوام نے تحسین کی نظر سے دیکھا ہے۔
بلوچستان میں سیاسی پارٹیوں کو عوام میں اپنا مقام بنانے کے لیے اگلے پانچ سالوں میں محنت کرنا ہو گی۔ سینٹ کے الیکشن سے فوری قبل نادیدہ قوتوں اور مہروں کا کردار عوام کو پسند آیا نہ جمہوریت ہی کو اس سے کوئی فائدہ ہوا۔
کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے سب یہ کوشش تھی کہ کمر کے درد کا مریض تین تلوار پر کھڑا ہو کر مکہ لہرا کر کہہ سکے کہ میں ڈرتا نہیں ہوں۔ حالانکہ ایم کیو ایم نے جو سفر طے کیا ہے اس میں خونی قربانیاں شامل ہیں۔ قربانی قبولیت کا مقام نہ بھی حاصل کرے مگر قربانی کا اپنا ایک تقدس ہوتا ہے۔مکہ بازکی بیماری ختم ہوتی نظر نہیں ٓتی۔
اس الیکشن کے بعد ثابت ہو گیا ہے کہ نواز شریف کا پیر مذکر ہی نہیں جادو کی کاٹ کا بھی ماہر ہے۔ حالانکہ نواز شریف وزیراعظم ہاوس میں اونٹوں کی قربانی کرنے میں ناکام ہوئے تھے ۔نواز شریف کے بیانیے کو عوام نے سہارا دیا ہے۔ کل وقتی قائد مسلم لیگ کو نواز کر کس کو کیا حاصل ہوا ہے ۔ کوئی جواب نہیں دے پا رہا۔ بیان باز بابے بھی انگشت بدنداں کی کیفیت میں ہیں۔ مگر شہباز شریف کو چوہدری سرور واقعی لوہے کے چنے چبوا سکتے ہیں۔
زرداری کی پیپلز پارٹی نے کرامت یہ دکھائی ہے کہ ایک غریب ، عورت، ہندو کو سینٹ کا ممبر بنوایا ہے ۔ لگتا ہے بلاول بھٹو زرداری میں بھٹو متحرک ہوا ہے یا واقعی ذولفقار علی بھٹو زندہ ہے۔ سنا کرتے تھے کہ جن لوگوں کو ناحق قتل کیا جاتا ہے ان کی روح زمین پر ہی بھٹکتی رہتی ہے۔کیا بھٹو واقعی زندہ ہے ؟

بدھ، 28 فروری، 2018

جگاڑ


گل خان نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایف اے کا امتحان پاس کیا ، سند مجھے دکھائی اور جلیبی بھی کھلائی ۔ میں نے ویسے ہی پوچھا لیا ْ جگاڑ ْ کیا ہوتا ہے۔ گل خان نے میری طرف عالمانہ انداز میں دیکھا ۔گلا صاف کیا
ْ ْ جگاڑ در اصل ایک ایسا عمل ہوتاہے جس کو مقامی حالات کے مطابق ڈھال کر اس پر اخراجات کو انتہائی حد تک کم کر کے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جاتا ہے معاشرتی رویے ایک طرح سے انفرادی اعمال کے اچھا یا برا ہونے کی سند ہوتے ہیں۔ جگاڑ کو ہمارا معاشرہ تحسین کی نظر سے دیکھتا ہے اور اسے سند قبولیت عطا کرتا ہے۔
بہت خوب ، کو ئی مثال بیان کر سکتے ہو
ْ دھرنا ْ 
وہ کیسے 
ْ دھرنا دینابھی معاشرتی عمل ہے اس کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کی توجہ ایک مسئلہ کی طرف مبذول کر ا کر اس کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے ْ 
اس میں جگاڑ کہا ں ہے
ْ سر جی جگاڑ یہ ہے کہ پانچ سو بندے لے کر دھرنے کے کنٹینڑ پر چڑھ کر ہر آتے جاتے راہگیر سے کلمہ شہادت سنا جائے جس کو نہ آتا ہو، جس کا تلفظ ٹھیک نہ ہو ، جس کے مخرج اپنے ،مقام سے نہ نکلتے ہوں ۔۔۔
ٹھیک ہے ٹھیک ہے

اگر کوئی آپ کو منع کرے تو مائیک پر اہل پاکستان کو بتائیں کہ اسلامی ملک میں اسلام کتنا مظلوم ہے۔کوئی زبردستی کنٹینر سے اتارنے کی کوشش کرئے تو آپ کرسی کے نیچے سے کفن نکال کر باندھ لیں اور اسلام کے نام پر شہید ہونے کا اعلان کر دیں
میں نے جیب سے نوٹ نکال کر کہا گل خان جلیبی بہت مزے کی تھی اور لے آو ۔ گل خان نے منہ بنایا مگر جلیبی لینے چل دیا۔

منگل، 27 فروری، 2018

جذبے


ٓ یہ حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان میں اسلام صرف نعرہ تھا مگر پاکستان میں اسلام عملی حقیقت ہے، پاکستان کے ابتدائی دنو ں میں گھوڑوں پر سفر کرنے والے آج ہائی ویز پر ہائی برڈ گاڑیاں دوڑاتے ہیں ۔گھریلو اور انفرادی آسائشوں نے ہماری معاشرت کو آسان تر کر دیاہے۔سیاسی طور پر ہم آگے ہی بڑھے ہیں ، دفاع میں ہم نے معجزے دکھائے ہیں۔۔۔گذشتہ ستر سالوں پر نظر ڈالیں تو ہم نے معاشی ، سیاسی،دفاعی، معاشرتی، مذہبی ہی نہیں بلکہ تعلیمی سطح پر ترقی کی ہے۔
ہمارے دیہاتی معاشرے میں دیکھا گیا ہے کہ کمزور اور پسماندہ طبقات نے تعلیم میں پناہ لے کرخود کو خود کفیل کرنے کی طرف کامیابی سے قدم بڑھائے ہیں۔یعنی تعلیم وہ جادو ہے جس سے انسان مستفید ہو کر معاشرے میں اپنی اگلی نسل کو بہتر معاشرتی مقام پر کھڑا کر سکتا ہے۔
نئے تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں بن رہی ہیں۔ مگرقابل تشویش یہ ہے کہ ہماری تعلیم افراد میں یہ ادراک نہ پیدا کر پارہی کہ ْ جس کا کام اس کو ساجھے ْ آج ایک فرد فزکس کا پرفیسر ہے تو وہ ہمیں معاشرت سکھا رہا ہے، کھلاڑی ہے تو وہ معاشیات کو بہتر کرنے کے درپے ہے، سوشل سائنسز والا مکان بنا نے میں مصروف ہے ، وغیرہ وغیرہ
تعلیم کی اہمیت تسلیم، عالم ہمارے سر کا تاج، مگر ہمیں اپنے موجودہ تعلیمی سلیبس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے تعلیمی نصاب سے اس ْ جذبےْ کو نکالنے کی ضرورت ہے جو انسان کو ہر فن مولا بناتا ہے مگر اپنے کام کا نہیں رہنے دیتا۔

اتوار، 25 فروری، 2018

شیطان پر لعنت


اس زمانے میں ہم ْ ٹاٹ ْ پر بیٹھ کر فارسی پڑہا کرتے تھے، فارسی تو بھول بھال گئی البتہ ایک جملہ اب بھی یاد ہے
ْ خانہ خالی را دیو می گیردْ ۔ مطلب اس کا استاد نے یہ بتایا تھا۔ اجڑے گھر میں دیو بسیرا بنا لیتے ہیں۔ یا ۔ زیادہ دستیاب وقت ذہن کو پراگندہ کر دیتا ہے ۔ یا ۔ بے کار ذہن منفی سوچ کی آماجگاہ بن جاتے ہیں ۔ یا ۔ بے کار لوگ ، بھوک سے تلملا کر مجرم بن جاتے ہیں۔ 
بھلا ہو رائے ونڈ والی تبلیغی جماعت کا ، اور سبز عمامے والے مولانا الیاس کا، جنھوں نے بے کار نوجوانوں کو کسی کام پر لگا لیا ہوا ہے ۔ اس کام میں منہاج القرن نے بھی اپنا حصہ ڈالا توڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا کام
Quality wise
دوسروں سے منفرد رہا ۔ کہ پنڈلیوں سے اٹھتی شلوار اور سبز عماموں کی جگہ پتلون عصر حاضر کی ضرورت بتائی گئی۔اور دین کو ہم عصر کرنا علامہ صاحب کا ایسا کارنامہ ہے جس کی تعریف علامہ صا حب کو حوصلہ بخشتی ہے۔
دین کی تبلیغ اور اسلام کی خدمت بہت اچھا اور پسندیدہ عمل ہے بلکہ بقول علامہ قادری صاحب اصل جہاد ہی یہی ہے , مگر شیطان مردود کہ ابدی لعنتی ہے ، دین کے ان مجاہدوں کے کمزور مقامات پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اور ان کے عقیدت مندوں کو ان سے متنفر کرتا ہے۔ اب فرید ملت ہسپتال کے نام پر اکٹھا کیے گئے چند ٹکوں کے عوض میزان میں ان کی تصنیفات کو رکھیں جس کی تعداد ہزاروں میں ہے تو یقین ہے کہ تصانیف کا وزن گراں ہی نکلے گا۔اور وہ لوگ دین کے ازلی دشمن ہیں جو نبی اکرم ﷺ کے نام سے منسوب کی گئی جگہ پر ماضی کے ایک معمولی سے قبضہ کرنے کے عمل کو بڑہا چڑہا کر پیش کرتے ہیں۔پاکستان کے کسی بھی تعلیمی ادارے کی نسبت قادری صاحب کے تعلیمی اداروں میں تنظیم کا معیار بہت اعلیٰ ہے۔ ان اداروں میں جنسی بے راہ روی کا الزام محض ان کی دینی خدمات کو بدنام کرنے کے مترادف ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ غیر مسلم ممالک میں بسنے والے چند حاسدین معمولی واقعات کو بڑہا چڑہا کر پیش کرتے ہیں۔ واویلا کرنے والوں کو قادری صاحب کایہ قول یاد رکھنا چاہیے کہ شیطان مردود انسان کا ازلی دشمن ہے اور بہترین تعوذ یہ ہے کہ مخالفین کی تحریریں پڑہی ہی نہ جائیں ۔ اور پڑھ لی جائیں تو ان پر یقین نہ کیا جائے ۔