منگل، 26 دسمبر، 2017

اخلاق کا شکستہ ترازو



عظیم مصلح شیخ فریدالدین عطّار رحمہ اللہ فرماتے ہیں

اے پیارے بھائی! اگر تم کامل عقل رکھتے ہو تو لوگوں سے نرم اور شیریں گفتگو کیا کرو۔ کیونکہ جو شخص ترش رو اور سخت بات کہنے کا عادی ہو تو دوست بھی اس سے دور بھاگ جاتے ہیں

آج اکثر و بیشتر مسلمانوں میں خوش خلقی، خندہ روئی، کشادہ پیشانی اور فراخ دلی جیسی عمدہ صفات ناپیدہوتی جارہی ہیں۔ حالانکہ ہمارے مذہب اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حسن اخلاق کی بہت زیادہ اہمیت بتلائی ہے 

حضرت ابوالدردا رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن مومن کے ترازو میں اچھے اخلاق سے بڑھ کر کوئی چیز بھاری نہیں ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ فحش بکنے والے بدگو کو مبغوض رکھتے ہیں۔
  
ہم اپنی زبان کو شیریں کر کے اپنے ارد گرد خوشیوں میں اضافہ  کر سکتے ہیں

پیر، 25 دسمبر، 2017

ایمان کانٹا




گل خان کی نوکری چھن گئی ۔ آدمی با عزم تھا ۔ سحری کے وقت منڈی گیا ،پھول گوبھی کی ایک بوری خریدی ، سڑک پر وہی بوری بچھائی اور شام تک ساری گوبھی بیچ کر فارغ ہو گیا مگر کچھ آوازیں اس کا پیچھا کر رہی تھیں
ْ تم بغیر ترازو گوبھی بیچ رہے ہوْ 
ْ تمھارے پاس ترازونہیں ہے ْ 
ْ گوبھی بیچنی ہے تو ترازو رکھو ْ 
ْ ترازو کے بغیر سودا بیچنا حرام ہے ْ 
اگلے دن بازار گیا ، ترازو کی دوکان ڈھونڈی۔
اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی بازار میں ایسی ترازو بک رہی تھیں جو کم تولتی ہیں ، زیادہ تولنے والی ترازو بھی موجود تھی ۔
صیح ترازو بھی رکھی ہوئی تھی ۔ایمان کانٹا کا لیبل چسپاں تھا، دوکاندار کے بقول اس کے گاہک بہت ہی کم ہوتے ہیں۔
ایمان کانٹا کا لیبل مگر سب پر چسپاں تھا۔

ابھی کرنے کا کام



تبلیغی جماعت کے مولانا طارق جمیل صاحب نے ، اور میں موجود تھا قریب 30 منٹ کا وعظ فرمایا اور آخر 
میں انھوں بات کو سمیٹتے ہوئے کہاکہ ْ ابھی کرنے کا کام ْ یہ ہے کہ ہم توبہ کریں 

پاکستان میں سیاسی ، معاشی، معاشرتی،عدلی،علمی اور مذہبی بد عنوانیوں کو لے کر بہت سارے مسائل ہیں جو ستر سالوں میں پیدا ہوئے ہیں ان کا ازالہ یا درستگی سات دنوں میں ممکن نہیں ہے ۔ مگر ایک کام ہم آج ہی کر سکتے ہیں 

ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم اللہ کو مانتے ہیں، اپنے نبی ﷺ پر جان نچھاور کرنے کے لئے مستعد ہیں، بزرگوں کا احترام ہمارے دل میں ہے،مظلوم کی مدد کو ہمار دل تڑپتا ہے ۔ہم توہر طرح سے اچھے ہیں مگر ہمارے لیڈر اچھے نہیں ہیں، ہم تو انصاف پسند ہیں مگر ہمارے منصف بدعنوان ہیں، مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتے ہیں مگر پولیس کرپٹ ہے، روادار ہیں مگر محلے کا مولوی فرقہ پست ہے۔ ہماری مسجدوں م امام باگاہوں، کلیساوں اور دوسرے معبدوں میں جو مارا ماری ہوتی ہے اور خون انسانی کی ارزانی ہے وہ ہمارا عمل نہیں ہے ۔ دشمن ملکوں اور ایجنسیوں کے لوگ ہیں ۔ یہ ہے وہ بیانیہ جو ہر تیسرے شخص کی زبان پر ہے ۔ 

میں نے ایک بار گھروالوں کو ، کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ عروج پر تھی ، نصیحت کی کہ جب کمرہ میں کوئی نہ ہو تو لائٹ اور پنکھا بند رکھا جائے۔ اسی دن رات کو دیر سے گھر واپس آیا تو دیکھا کہ سب لوگ سو رہے ہیں مگرایک کمرے میں ٹی وی چل رہا ہے، پنکھا اور بلب بھی آن ہے۔ دوسرے دن میں نے سب سے چھوٹے بیٹے سے اپنی نصیحت کے بارے میں پوچھا جو اس یاد تھی ، بڑے بیٹے سے پوچھا کہ میرے نصیحت پر عمل کیوں نہیں ہوا ۔ بحث چل نکلی اور معلوم ہوا کہ ہر ٓدمی کے کرنے کا کام کوئی بھی نہیں کرتا ۔

معاشرتی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں اپنے حصہ کا فرض ادا کئے بغیر دوسروں سے توقع رکھنا یا یہ شرط رکھنا ، چونکہ سارا معاشرہ غیر ذمہ دار ہے اس لئے میں بھی غیر ذمہ دار ہوں انتہائی بودی دلیل ہے ۔

ہمارا فوری اور ممکن کام یہ ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے حصے کا فرض ادا کریں ۔ تعلیم یافتہ لوگوں کا فرض ہے 



کہ وہ معاشرے کو تعلیم دیں ۔ معاشرتی تعلیم عمل سے ہی ممکن ہے۔ ذاتی بے عملی کے باوجود تنقیدی ذہن ، اپنا فرض پورا کئے بغیر تنقیدی زبان اور قلم ۔ وہ معاشرتی برائی ہے جس نے سوشل میڈیا ، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔ 

ہے کوئی مرد مجاہد جو اپنی ذات سے جہاد شروع کرے۔اور یہی ْ ابھی کرنے کا کام ہے ْ ْ ٓ

تقسیم کی دیوار


آج 25 دسمبر 2017 کے دن ہم پاکستان میں ہم کرسمس منا رہے ہیں اور قائداعظم کا یوم پیدائش بھی ، اسی ہفتے پاکستان میں قتل کے ایک مقدمے میں ملوث ایک امیر زادے کی رہائی پر پاکستان کے قانون عدل پر تبصرے موجود ہیں ، اسی ماہ ایک ایسی عورت کی عدالت میں بے گناہی ثابت ہوئی جو اپنی جوانی جیل کی نظر کر چکی ہے۔ اسی ماہ کوئٹہ کے ایک چرچ پر حملہ ہوا اور کرسمس کے منتظر پاکستانی افسردہ ہو کر رہ گئے۔دسمبر ہی میں امریکی صدر نے اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ القدس منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس اعلان پر فلسطینیوں کے پر امن احتجاج پر اسرائیل کے ظلم کے ایسے مظاہر منظر عام پر آئے ہیں کہ انسانیت پر نم ہو گئی ہے۔آسٹریلیا کے ایک شہر میں ایک نوجوان نے تیز رفتار گاڑی راہ گیروں پر چڑہا دی اور اس کے اس عمل پر مختلف زاویوں سے بحث جاری ہے۔ اسی مہینے میں دنیا بھر کی اسلامی ریاستوں کا ترکی میں اجتماع ہوا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ایک اسلامی ملک کے وزیر خارجہ نے عثمانی ترک خلیفہ پر چور ہونے کا الزام لگایا ۔اسی مہینے میں اسرائیل کے وزیر اعظم نے یورپی ممالک کا دورہ کیا مگر ان کی متوقع طور پر گرم جوشی سے مہمان نوازی نہ ہوئی۔ اور اسی ماہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں امریکی صدر کے فیصلے کے خلاف ایک قرار داد پر امریکہ بالکل تنہا نظر آیا مگر ااپنی ویٹو کی طاقت کے بل بوتے پر بچ نکلا۔ مگر اسی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرار دادمنظور کی جس نے امریکہ اور اسرائیل کو باقی دنیا سے الگ تھلگ کر دیا۔یہ صرف دسمبر کے مہینے کے نمائندہ واقعات ہیں ۔ پورا سال انسانیت پر نم ہی رہی ، امن عنقاء ہی رہا ۔ ظلم کے ہاتھ لمبے رہے اور ظالم کی سنگ دلی میں اضافہ ہی ہوا ۔ یہ حقیقت ہے انسانیت تقسیم ہے ، ظالم کے ہاتھ میں وسائل کا ڈندا ہے اور مظلوم بے وسیلہ ہے۔ معاشی ، معاشرتی، قانونی اور اخلاقی پابندیوں میں جکڑا انسان دیوار کے باہر حیران و پریشان ہے تو دیوار کے دوسری طرف اندرخانے میں بسنے والا انسان سائنسی ترقی سے لیس اکیسویں صدی کی ایجادات سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ 
نفرت کی دیوار کے پار جو اندرون خانہ ہے اس میں رنگ و نسل کی تقسیم ہے نہ مذہب و فرقے کی، نہ معاشرتی پس منظر پر سوال اٹھتا ہے نہ اخلاق پر۔ صرف ایک قدرہے جو سب کو متحد کئے ہوئے ہے اوراس کا نام ہے ْ ظلم ْ 
آج کے دن ہمیں اللہ کے نبی عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی تعلیمات کا اس زاویہ سے مطالعہ کرنا چاہئے کہ کہیں ہم ان کی بتائی ہوئی راہ کے برعکس ظالم ٹولے کا حصہ تو نہیں ہیں۔


قائد اعظم کا حق ہے کہ اہل پاکستان ان کی انسان دوستی، رواداری ، قانون کی حکمرانی کی حمائت ، اور عدل اجتماعی بارے ان کی تعلیمات کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیں اور فیصلہ کریں کہ کہیں ہم ظلم کی دیوار کے پار ظالموں کا آلہ کار تو نہیں ہیں

ہفتہ، 23 دسمبر، 2017

غلام ابن غلام


میرے یہاں آنے کا مقصد اس قبر پر فاتحہ پڑہنے اور روحانی فیض حاصل کرنے کا تھا جس میں بلال بن رباح نامی ایک صحابی محو استراحت ہیں۔   مگر یہاں پہنچ کر اس قبر کے پاوں کی جانب کھڑے ہو کرمیرے دعا گو ہاتھ توبلند ہو گئے اور سورۃ الفاتحہ کی قرات بھی کر لی مگر میری آنکھوں کے سامنے حجاز کے شہر مکہ کا وہ منظر گھوم رہا ہے جو صحابی رسول حضرت حسان بن ثابت نے بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ

 میں زمانہ جاہلیت میں حج کے لیے گیا تو دیکھا کہ بلال کو اوباش لڑکوں نے ایک رسے کیساتھ باندہا ہوا ہے 
اور انھیں ادہر ادہر گھسیٹ رہے ہیں مگر بلال مسلسل یہ بات دہراتے جا رہے ہیں میں لات ، عزیٰ ، سہل ، نائلہ ، بوانہ اور اساف تمام بتوں کی تکذیب کرتا ہوں ْ

کتابوں میں درج ہے کہ یہ پچاس گز لمبا موٹا سا رسہ اونٹ کے بالوں سے بنایا گیا تھا اس رسے کی سختی بلال کا گلہ زخمی کیے ہوئے تھِی اور اس سے خون رس رہا تھا، مگر لڑکوں کے لیے کھیل اور بڑوں کے لیے عام معمول کہ جب ایک غلام اپنے آقا کی منشاء کے خلاف سوچے تو ایسے غلام کو سبق سکھانا معمول کی بات تھی ۔شام ڈھلے اس غلام کو بھوک و پیاس کی حالت میں اس کے آقا کے حوالے کر دیا گیا جس نے اسے ایک تاریک کوٹھڑی میں بند کر دیا اور سورج غروب ہونے کے بعد اس کو برہنہ کر کے اس پر چمڑے سے بنے کوڑے سے اتنا تشدد کیا گیا کہ اس کی سانسیں اکھڑنے لگیں،تو اذیت دینے والوں کے ہاتھ رک گئے وہ جانتے تھے بنی جمہ کی ملکیت یہ غلام ان کے ہاتھوں جان بحق ہو گیا تو ان کی بھی خیر نہیں۔
یہ ایک دن یا ایک رات کا واقعہ نہیں تھا بلکہ امیہ کا یہ زرخرید غلام دن رات اس عذاب میں مبتلاء تھا
حضرت عمرو بن العاص فرماتے ہیں کہ خود حضرت بلالؓ نے ایک جنگ کے دوران امیہ کی طرف اشارہ کرکے بتا یا کہ 
ْ اس امیہ نے ایک روز گرمی کے دنوں میں باندھ کر ساری رات اسی حالت میں رکھا اور پھر دوپہر کے وقت مجھے ننگا کر کے سنگریزوں پر لٹا دیا اور گرم پتھر لا کر میرے سینے پر رکھ دیے ۔ میں بے ہوش ہو گیا ، معلوم نہیں کس نے میرے سینے سے پتھر ہٹائے ، جب مجھے ہوش آیا شام کا وقت تھا، میں نے اللہ کا شکر ادا کیا ْ 
حضرت
بلال  کے باپ کا نام رباح اور والدہ کا نام حمامہ تھا۔ حمامہ اباسینا نامی ایک بستی کی رہائشی تھی جو موجودہ اتھوپیا میں ایک قصبہ ہے ۔ حمامہ کا تعلق ایک باعزت خاندان سے تھا مگر وہ اپنے گھر سے اغوا ہوئی اور عام الفیل والے سال میں بطور کنیز مختلف ہاتھوں میں فروخت ہوتی ہوئی مکہ پہنچی ، غلامی ہی کی حالت میں اس کی شادی رباح نامی ایک عرب غلام سے ہوئی ۔ان کے ہاں  بلال پیدا ہوئے ، یعنی پیدائشی غلام۔ جب بلال جوان ہوئے تو ان کو غلامی کی منڈی میں لایا گیا جہان امیہ بن خلف نے انھیں خرید لیا۔ بلال  انتہائی محنتی ، مالک کے ساتھ مخلص ، راست گو ، منکسر المزاج ، دوسروں کا احترام کرنے والے اور خش گلو تھے۔ ان کی محنت کا یہ عالم تھا کہ دن بھر مالک کی بکریا ں چراتے اور رات کو پوری بوری غلے کی پیس ڈالتے، ۔ مگر وہ انسانی تقسیم میں بٹے معاشرے میں اپنی ذاتی خوبیوں کے باوجود ابھر نہ سکے البتہ ان کی ایمانداری اور راست بازی کے سبب عربوں کے بت خانے کی چابیاں ان کے پاس ہوا کرتی تھیں اور ان کی سریلی اور حیرت انگیز آواز نے ان کو جاہلوں کے دلوں میں ممتاز ضرور کیا تھا۔اور امیہ بن خلف کے بارہ  غلاموں میں مالک کے سب سے زیادہ فرمانبرداراور قابل اعتماد تھے۔ 

مگر اسلام قبول کرنے کے بعد ان کو ایسی درد بھری اذیتیں دی گئی کہ پڑھ کر انسان افسردہ اور انسانیت شرمندہ ہو جاتی ہے مگر مکہ کے اس دور جاہلیت میں مظلوم حضرت بلا ل کو گرمیوں کی کڑکتی دوپہر میں اذیت خانے سے نکالا جاتا، پیا سے ، زخمی، بے یار و مدد گار مظلوم کو گرم ریت پر نوکیلے سنگریزے بچھا کر برہنہ حالت میں منہ کے بل لٹا دیا جاتا اور ان کی پشت اتنی بھاری چٹان رکھی جاتی جس کو کئی لوگ مل کر اٹھاتے ۔ اور اس دن تو مکہ کی عورتوں نے اپنے مکانوں کی کھڑکیاں بندکر لیں جس دن بلا ل کو صحرا میں نصب اس کھمبے کے ساتھ باند ھ دیا گیا ۔جس کی تنصیب کا مقصد ہی غلاموں کو اس کے ساتھ باندھ کر ایسی سزا دینا مقصود تھا جس کو دیکھنا عورتوں کے لیے ممنوع تھا۔ 

رسول اللہ ﷺ حضرت بلال کی حالت زار پر بے چین تھے ایک بار انھوں نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے فرمایا 
ْ اگر میرے پاس رقم ہوتی تو میں بلال کو خرید لیتا ْ 
حضرت ابو بکرؓ نے امیہ کے پا س جا کر کہا کہ بے چارے غلام پر اس قدر ظلم نہ کرو اگر وہ اللہ واحد کی عبادت کرتا ہے تو اس میں تمھارا کیا نقصان ہے ۔ اگر تم اس پر مہربانی کرو تو قیامت والے دن تم پر مہربانی کی جائے گی۔ مگروہ قیامت ہی کو کب مانتا تھا۔کہا یہ میرا غلام ہے میں جیسا چاہوں اس کیساتھ سلوک کروں۔
حضرت ابو بکر نے کہا تم طاقت ور ہو جب کہ یہ بچارا بے بس غلام ہے ۔ اس پر ظلم تمھاری شان کے خلاف ہے ۔اور عربوں کی روایات کو داغدار کرنے کے مترادف ہے ۔
اس کے جواب میں امیہ نے کہا او ابو قحافہ کے بیٹے اگر تم اس غلام کے اتنے ہی ہمدرد ہو تو اسے خرید کیوں نہیں لیتے۔
حضرت ابوبکر سے پوچھا کیا قیمت لو گے 
امیہ نے کہا تمھارے پاس جو فسطاط نامی رومی غلام ہے وہ مجھے دے دو اور اس کو لے جاو۔ حضرت ابو بکر راضی ہو گئے تو امیہ کے اندر کا تاجر جاگ اٹھا اس نے کہا فسطاط کے ساتھ اس کی بیوی اور بیٹی بھی ہو اور چالیس اوقیہ چاندی بھی۔ ابو بکر نے سودا منظور کیا ۔ بلال کو اٹھایا اپنی چادر سے ان کا بدن صاف کیا۔ نیا لباس پہنایا اور رسول اللہ کی خدمت میں پیش کر دیا۔
جب بلال رسول اللہ کے پاس لائے گئے ، انھیں دیکھ کر رسول اللہ کی انکھیں بھر آئیں، حضرت علیؓ جو اس وقت کم سن تھے بولے آپ انھیں دیکھ کر رو کیو رہے ہیں ، رسول اللہ نے فرمایا ْ علی یہ وہ شخص ہے جسے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوئی ہےْ 
رسول اللہ نے بلال کو گلے سے لگایا اور فرمایا ْ بلال جب تک دنیا قائم ہے یہ بات یاد رکھی جائے گی کہ اسلام کی راہ میں اذیت برداشت کرنے والے اول شخص تم ہوْ 
حضرت ابو بکر نے عرض کیا اے اللہ کے رسول گواہ رہئے گا میں نے بلال کو آزاد کیا۔اللہ کے رسول نے صدیقؓ کے حق میں دعا فرمائی۔

ایک مغربی تاریخ دان نے لکھا ہے کہ محمد نے بلال کواپنا فنانس سیکرٹری مقر ر کر دیا تھا۔ لیکن حقیقت تو  یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے پاس فنانس نام کی کوئی شے موجود ہی نہ تھی ۔
نبی اکرم ﷺ کی ہدائت پر بلال نے ایک مفلوک الحال بھائی کو غلہ، کمبل اور کپڑے ادہار لے کر دئے اور اپنی ذات کو یہودی کے پاس رہن رکھ دیا ۔

 حضرت بلال رسول اللہ کا  نیزہ اٹھا کر رسول اللہ کے ساتھ چلا کرتے تھے۔ اور جب رسول اللہ نماز کے لیے قیام 
فرماتے تو بلال اپنا نیزہ سامنے گاڑ دیا کرتے تھے۔ جب رسول اللہ قباء تشریف لے جاتے تو بلال کی اذان سے مسلمانوں کو رسول اللہ کی آمد کی خبر ہو جاتی۔ اذان بلالی گویا نبی اکرم ﷺ کے موجود ہونے کا نشان بن گئی تھی ، اور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد جب بلال دمشق سے زیارت کے لئے مدینہ تشریف لائے تو صبح کے وقت اہل مدینہ نے وہ اذان سنی جو رسول اللہ ﷺ کی موجودگی کی خبر دیا کرتی تھی تو اہل مدینہ آنسو بہاتے  
ہوئے گھروں سے مسجد کی طرف دوڑ پڑے تھے ۔ 
 حضرت بلال نے خلیفہ دوئم سیدنا عمر بن خطاب کے دور میں بیت المقدس میں بھی اذان دی تھی
حضرت بلال نے یمن میں ہندنامی عورت سے نکاح کا پیغام بھجوایا تو ھند کے گھر والوں نے رسول اللہ ﷺ سے تصدیق چاہی تو انھیں جواب ملا ْ تمھیں یہ حق کس نے دیا ہے کہ تم ایک جنتی شخص کو اس کی حیثیت سےکم خیال کرو ْ 
حضرت بلال نے عدی بن کعب کے خاندان میں بھی شادی کی تھی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی ہمشیرہ ان کے نکاح میں تھیں۔ بنو زہرہ میں بھی ان کی زوجہ تھی۔ حضرت ابو درداء کے خاندان کی ایک عورت ان کی زوجہ بنیں۔ اور حضرت ابو بکر کی صاحبزادی کے ساتھ بلال کا نکاح خود رسول اللہ ﷺ نے کرایا تھا۔ 

تاریخ انسانیت اور روسائے مکہ نے فتح مکہ والے دن اپنی آنکھون سے دیکھ لیا کہ  ایک غلام ابن غلام ، غربت میں پسا ہوا، رنگ دار بلال  " اللہ تعالی کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ تقوی والا ہے " کی عملی تفسیر بن کر مقام ابراہیم اور حجر اسود سے بلند تر ، مقدس ترین بیت اللہ ، کی چھت پر کھڑا ہے ۔ 
  اور اپنی   دلپذیر آواز میں بر ملا پکار پکار کر کہہ رہا  ہے
اللہ اکبر اللہ اکبر