عقائد کا اختلاف تو دنیا میں ہمیشہ رہا ہے اور رہے گا۔ انسان اس بارے میں کلیتاََ آزاد ہے کہ اپنے دلی یقین کے مطابق جو عقیدہ چاہیے اپنائے اور اپنی نجات جن نظریات پر چاہیے تصور کرے مگر یہ حق کسی کو نہیں دیا جاسکتا کہ اپنے عقائد کو جبراََ کسی پر ٹھونسنے کی کوشش کر ے یا ایسے عقائد کے مطابق عمل پیرا ہو جو ظلم و تعدی کی تعلیم دیتے ہیں۔ اختلافات معقول حد تک دور کرنے یا سچائیوں کو پھیلانے کا صرف ایک طریق ہے کہ امن و سلامتی کے ماحول میں ہر تعصب سے پاک ہو کر ایک دوسرے کے خیالات اور نقطہء نظر کو دیانتداری سے سنا جائے اور جو بات ہمارے نزدیک درست نہ ہو بڑے احترام کے ساتھ اس سے اختلاف کیا جائے۔ مضبوط دلائل سے اپنے مذہب کی حقانیت واضح کی جائے اور دوسرے کے کے نقطہ نظر یا عقیدہ کے نقائص کو ہمدردانہ انداز میں سامنے لایا جائے۔ بےجا الزامات سے گریز کرتے ہوئے ایسا انداز اختیار نہ کریں جس سے نفرت بڑھے۔ ہم میں سے کوئی نہیں چاہتا کہ ہمارے نظریات اور محترم شخصیات کو بُرا بھلا کہا جائے، ہمیں بھی دوسروں کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنا چا ہیے۔
ہفتہ، 23 دسمبر، 2017
جمعرات، 21 دسمبر، 2017
خوف اور غصہ
1984
کاذکر ہے ، حکومت کویت اپنے اداروں میں کمپیوٹر کو متعارف کرارہی تھی۔ اس کام کا ٹھیکہ امریکی نیوی کے ایک کنٹریکٹر کے پاس تھا ۔ اس ٹیم میں ہم دو پاکستانی اور چند بھارتی بھی بطور معاون ساتھ تھے
ایکوپمنٹ اور ماہرین سب امریکی تھے ۔میرا زندگی میں امریکیوں کے ساتھ کام کرنے کا پہلا تجربہ تھا ۔مگر بچپن کی سنی یہ بات سچ لگی کہ بعض اقوام کی سوچ بعض اقوام سے دس سال اور بعض سے پچاس سال آگے کی ہوتی ہے۔ایک پسماندہ ملک کے نوجوان کا ترقی یافتہ ملک کے تجربہ کار فرد سے متاثر ہونااور وہ بھی اپنے باس سے ، معمول کی بات ہے ۔ مگر اس کی باتیں حقیقت کی ترجمان ہوتی تھیں، ایک باراس نے وزارت ک ایک انتظامی نوٹس پر کہا تھا ْ عرب وہ ریوڑ ہے جس نے اپنے جاہل غلہ بان سے امید لگا رکھی ہےْ
زندگی میں ملنے والے لوگوں کو انسان بھول جاتا ہے مگر کچھ باتیں بھلائے نہیں بھولتیں مثال کے طور پر
1977
میں عراق میں میرا ایک لولیگ دمشق کا یہودی تھا اور جب اس نے نصیحت بھرے لہجے میں بتایا کہ عرب اسرائیل کا مقابلہ اس لیے نہیں کر سکتے کہ اسرائیلیوں کے اعمال ان کی سو سالہ سوچ بچار سے کشید ہوکر
نکلتے ہیں
ٓآج آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں ایک گاڑی راہ چلتے لوگوں پر چڑھ دوڑی تو میرا پہلا رد عمل یہ ہوا کہ
معلوم کروں ڈرائیور مسلمان تو نہیں ؟
بد قسمتی سے
32
سالہ ڈرائیور گو آسٹریلین ہے مگر پتہ لگا لیا گیا ہے کہ وہ افغان الاصل ہے اور اس نے داڑہی بھی رکھی ہوئی ہے۔اس کا ساتھی جو اس واقعے کی فلم بنا رہا تھا بتایا گیا ہے کہ اس کی تلاشی کے دوران اس کے بیگ سے تین خنجر بر آمد ہوئے ہیں
میرے ذہن میں خوف تو لاکھوں لوگوں کے ذہن میں ( غلط ہی سہی) غصہ ہے ، اور خبر پڑہنے والوں کے فوری رد عمل میں سے ایک جملہ میرے ذہن میں اٹک کر رہ گیا ہے
ْ مجرموں کو ڈرائیونگ کا کوئی حق نہیں ہے ْ
کیا پے در پے راہ گیروں کو کچلنے کا عمل ایک دن ْ مجرموں ْ سے گاڑی ڈرائیو کرنے کا حق چھین لے گا۔
بدھ، 20 دسمبر، 2017
ٹھنڈ
آج دفتر ْ ٹھنڈا ٹھارْ ہے ، گل خان نے دودھ والی چائے کا کپ میز پر رکھتے ہوئے سردی کی شدت پر تبصرہ
کیا۔چائے میری طرح گل خان کی بھی کمزوری ہے ، وہ جتنی اچھی چائے بناتا ہے اس سے بھی اچھا قہوہ بناتا ہے ۔ راولپنڈی چھاونی کے علاقے میں میرے دفتر میں صبح سے ہی دوستوں کی رونق لگ جاتی ہے ، اس رونق کو گل خان کے ماہر ہاتھوں کا بنا قہوہ بہت تقویت پہنچاتا ہے ۔آج مگر دفتر میں رونق کی عدم موجودگی نے گل خان کو ہی نہیں مجھے بھی احساس دلایا کہ ْ ٹھنڈ ْ زیادہ ہے
میرے دفتر میں رونق لگانے والے ایک گروپ کو گل خان ْ نادیدہ قوت ْ کا نام دیتا ہے ۔ اس گروپ میں زیادہ لوگ
پردیس پلٹ ہیں اور عام طور پر ْ زائد العمرْ کم لوگ عسکری اداروں کے پنشن یافتہ ، اس سے بھی کم علمائے دین جو اس عمر میں لکھنے لکھانے کی بجائے زبانی جہاد کا فریضہ ادا کرتے ہیں اور بالکل کم تعداد ایسے تاجروں کی ہے جو تجارت میں خسارہ سہہ چکے مگر مشورہ دینے میں خود کو صف اول میں رکھتے ہیں۔
اس گروپ کے تمام ممبران میں کچھ باتیں مشترک ہیں مثلا ان پر کوئی گھریلو مالی ذمہ داری نہیں ہے ، زندگی جیسے بھی گذری مگر اس وقت ان کی پانچوں دیسی گھی میں اور سر ائر کنڈیشنڈ کمروں میں نرم تکئے پر ہے۔ان کے پسندیدہ موضوع مذہب اور سیاست ہے۔ مذہب پربات کے دوران ان ک منہ سے دلیل اور تاریخی حوالوں کی گردان نئے سامع کو ان کی علمی رفعت کا گرویدہ بنا دیتی ہے پرانے سامعین البتہ دوران گفتگو پہلو بدلتے رہتے ہیں۔فیض آباد دھرنے کے دوران ڈنڈے اٹھائے لفافے وصولتے نوجوان ان کے اصلی جانباز اور حرمت مقدسین کے محافظین ہیں۔اور کرسی کے نیچے سے کفن نکال کر سر پر باندھ لینا ایسا واقعہ ہے کہ کربلا کی یاد تازہ کرتا ہے۔
سیاسی میدان میں ، اسلام آباد میں دھرنہ نمبر ۱ کے دوران پارلیمنٹ کے احاطے میں قبریں کھودنا اور کفن بیچنا پسندیدہ عمل بتاتے ہیں ۔ اور موجود حکومت سے شہیدوں کے قصاص کی وصولی ایسا عمل بتاتے ہیں کو اسرائیل کوفتح کرنے جیسا ہے کہ موجودہ حکمرانوں اور اسرائیلیوں میں تفریق کرنا اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے وطن سے غداری جیسا عمل ہے۔
ان کی ذاتی کاوشوں میں افواہ سازی اور اس کو پھیلانا، بے بنیاد خبروں کی تراش ، لمبی خواہشات کی طلب ، اور ماہریں کی حکومت کی خواہش شامل ْ حالْ ہے
آرمی چیف کے سینٹ کے دورے کے بعد ْ نا دیدہ گروپ ْ کے ایک دوست کو فون کیا تو معلوم ہوا کہ کل سے ان کا گلہ خراب ہے اور ٹھنڈ کی بھی شکائت ہے ۔دوسرے ، تیسرے حتیٰ پورے سات لوگوں سے فون پر رابطہ کیا ۔ سب پر ٹھنڈ ہی پڑی ہوئی ہے۔ آخری فون کر کے میں نے گل خان کو مخاطب کیا ْ ٹھنڈ ْ واقعی
زیادہ ہے
منگل، 19 دسمبر، 2017
16 دسمبر کے حوالے سے آصف محمود کی فریاد
مکتی باہنی ، ہم اور وہ
آصف محمود
یہ ستمبر 2006کی بات ہے۔ دکھی دل کے ساتھ میں نے چند سطریں لکھیں اور بنگلہ دیش میں قائم پاکستانی ہائی کمیشن کو ای میل کر دیں۔آج گیارہ سال ہونے کو آئے ہیں ،کسی نے جواب دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
آصف محمود
یہ ستمبر 2006کی بات ہے۔ دکھی دل کے ساتھ میں نے چند سطریں لکھیں اور بنگلہ دیش میں قائم پاکستانی ہائی کمیشن کو ای میل کر دیں۔آج گیارہ سال ہونے کو آئے ہیں ،کسی نے جواب دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
یہ ای میل بھیجنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ، یہ بھی ایک داستان ہے۔یہ پرویز مشرف کے دور اقتدار کی بات ہے۔جون 2006 میں مطیع الرحمن کی قبر کشائی کر کے اس کی میت مشرف نے بنگلہ دیش کے حوالے کی۔یہ وہی مطیع الرحمن ہے جس نے غداری کی اور راشد منہاس کا جہاز ہائی جیک کرکے بھارت لے جانے کی کوشش میں مارا گیا۔راشد منہاس کو نشان حیدر دیا گیا۔ بنگلہ دیش حکومت پینتیس سال کوشش کرتی رہی کہ اس کی لاش کراچی کے قبرستان سے نکال کر ڈھاکہ لے جائی جائے لیکن پاکستان نے بنگلہ دیش کی یہ درخواست قبول نہیں کی۔مشرف حکومت نے ایک دن خاموشی سے یہ فیصلہ کر لیا جس غدار کی وجہ سے راشد منہاس شہید ہوئے اس غدار کی میت بنگلہ دیش کے حوالے کر دی جائے۔ بنگلہ دیش سے ایک ٹیم کراچی پہنچی، مطیع الرحمن کی قبر کشائی ہوئی ، اس کی لاش بنگلہ دیش کے پر چم میں لپیٹ کر ڈھاکہ پہنچا دی گئی۔ڈھاکہ میں اسے غیر معمولی پروٹوکول کے ساتھ میر پور کے علاقے میں دفن کر دیا گیا۔
بنگلہ دیش نے سرکاری طور پر بتایا کہ مطیع الرحمن کی خدمات صرف یہ نہیں کہ پاک فضائیہ کا ایک جہاز اس نے اغواء کرنے کی کوشش کی بلکہ دوران سروس جب وہ کراچی سے چھٹیوں پر مشرقی پاکستان گیا تو رائے پور کے علاقے رام نگر میں اس نے ایک کیمپ قائم کیا جہاں وہ مکتی باہنی کے مسلح نوجوانوں کی تربیت بھی کرتا رہا۔یہ کام نواز شریف یا بے نظیر کے دور حکومت میں ہوا ہوتا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوتا لیکن چونکہ آمروں کو یہ ایک اضافی فائدہ میسر رہا ہے کہ وہ ملک توڑیں یا آئین ان کی حب الوطنی ہر حال میں سلامت رہتی ہے اور اس پر کوئی آنچ نہیں آتی اس لیے مشرف دور میں جب یہ کام ہوا تو نہ کوئی آواز اٹھی نہ شور مچا نہ کسی نے احتجاج کیا۔پرویز مشرف نے نہ صرف مکتی باہنی کے اس غدار کی میت بنگلہ دیش کے حوالے کی بلکہ اس سے قبل جب انہوں نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا تو مکتی باہنی کے قاتلوں کے لیے قائم کردہ یادگار پر بھی حاضری دے آئے اور معذرت بھی فرما آئے۔
یہ خبر پڑھی تو دکھ ہوا اور میں نے بنگلہ دیش میں پاکستانی ہائی کمیشن کو ای میل بھیجی اور چند سوالات پوچھے:
1 ۔چند سال قبل پر ویز مشرف مکتی باہنی کے غداروں کی یادگار پر تو تشریف لے گئے کیا انہیں اس بات کی بھی توفیق ہوئی کہ 5 دسمبر 1971 کو دیناج پور میں ہلی کے مقام پر شہید ہونے والے میجر اکرم شہید نشان حیدر کی قبر پر بھی حاضری دیں ؟
2۔ میجر اکرم راجشاہی ڈویژن کے ضلع بوگرہ میں کہیں دفن ہیں۔کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ میجر اکرم شہید کی قبر کس حال میں ہے؟کیا ان کے یوم شہادت پر سفارت خانے کی طرف سے ان کی قبر پر چند پھول رکھے جاتے ہیں یا جناب سفیر محترم کو بھی علم نہیں کہ قبر کہاں ہے اور کس حال میں ہے؟
3۔ مجھے ان کی قبر کی کچھ تصاویر چاہییں ، کیا میں توقع رکھوں کہ سفارت خانہ مجھے میجر اکرم شہید نشان حیدر کی قبر کی چند تصاویر بھیج سکے؟
4۔میں یہ بھی جاننا چاہوں گا کہ کیا میجر اکرم شہید نشان حیدر کی قبر وہاں ابھی موجود ہے یا مکتی باہنی نے بنگلہ دیش کے قیام کے بعد اس کے نشان مٹا دیے ہیں؟
5۔ بنگلہ دیش اپنے مطیع الرحمن کی لاش لے جا سکتا ہے تو کیا آپ میجر اکرم شہید نشان حیدر کے جسد خاکی کو پاکستان لانے کی کوئی کوشش نہیں کر سکتے؟
5۔ بنگلہ دیش اپنے مطیع الرحمن کی لاش لے جا سکتا ہے تو کیا آپ میجر اکرم شہید نشان حیدر کے جسد خاکی کو پاکستان لانے کی کوئی کوشش نہیں کر سکتے؟
وہ دن اور آج کا دن سفارت خانے نے جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔آج بنگلہ دیش میں ’ البدر‘ کے شہداء کو ایک ایک کر کے دی جانے والی پھانسیوں نے ان سوالات کا درد ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے۔
بنگلہ دیش اپنے غداروں اور قاتلوں کو عزت دے رہا ہے اور ہم اپنے مظلوم اور بہادر سپاہیوں کو بھول گئے۔ وہ مکتی باہنی کے انسٹرکٹر مطیع الرحمن کی میت پینتیس سال بعد بھی لے جاتا ہے اور پورے اعزاز کے ساتھ دفناتا ہے اور ہم اپنے مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی پر نہ احتجاج کر سکتے ہیں نہ بنگلہ دیش سے یہ مطالبہ کر سکتے ہیں کہ پاکستان کا شہید تھا ااس کی میت پاکستان کے حوالے کر دی جائے ہم اسے پورے اعزاز کے ساتھ دفن کرنا چاہتے ہیں۔ مکتی باہنی کے مطیع الرحمن سے البدر کے مطیع الرحمان تک ، نام ایک ہے مگر کہانیاں دو ہیں۔یہ کہانیاں بتاتی ہیں قومیں جب اپنی اساس سے بے نیاز ہو جائیں تو خزاں کے پتوں کی طرح ہو جاتی ہیں۔ہم جیسے طالب علموں کو تو کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ ہمارے میجر اکرم شہید کی قبر کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔شہید کو واپس لانا اور پورے اعزاز کے ساتھ تدفین کرنا تو دور کی بات ہے ہمیں تو کوئی خبر نہیں جہاں شہید دفن ہوئے وہ مقام کس حال میں ہے۔
بنگلہ دیش نے مکتی باہنی کو یاد رکھا ، ان کے لیے وظائف مقرر کیے ، ان کی یادگار بنائی، ان کے جرائم کی پردہ پوشی کی، باقاعدہ ایک قانون بنا دیا کہ مکتی باہنی نے جو بھی کیا اس سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی اور اس کے اراکین کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں ہو گی۔لیکن ہم نے کیا کیا؟ ہم اپنے شہداء کو بھول گئے۔ہمیں اپنی’ البدر ‘یاد رہی نہ خاکی وردی میں جان سے گزر جانے والے شہداء یاد رہے۔آج آپ کو حکمرانوں اور ان کے طفیلیوں کے نام پر بہت کچھ ملتا ہے۔ آدھے ادارے بھٹو سے منسوب ہو گئے ا ور آدھے شریفوں سے لیکن البدر کے شہداء کے نام پر نہ کوئی یاد گار ہے نہ کسی سڑک یا چوراہے کو ان سے منسوب کرنے کی کسی نے ضرورت محسوس کی۔دنیا میں آج تک یکطرفہ پروپیگنڈہ جاری ہے کہ پاکستان نے بہت ظلم کیے لیکن ہم آج تک دنیا کے سامنے حقائق نہیں رکھ سکے کہ مکتی باہنی نے کیا کیا؟
ہمارے نصاب میں نہ بھارت کے کردار کا ذکر ہے نہ مکتی باہنی کی درندگی کا ، نہ ہی ہم نے نصاب میں بچوں کو پڑھانے کی کوشش کی کہ البدر کیا تھی ۔حد تو یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے لوگوں نے نجی سکول قائم کیے اور تو نصاب میں ترکی کے سلطان مراد پر تو سبق شامل کر لیے جو بغیر نکاح کے حرم آباد رکھتا تھا اور بعض مورخین کے نزدیک ہم جنس پرست بھی تھا لیکن انہیں بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ملا عبد القادر سے لے کر مطیع الرحمن نظامی تک کسی ایک شہید کا تذکرہ نصاب میں شامل کر دیتے کہ یہ بوڑھے آج پچاس سال بعد بھی پاکستان کے نام پر ہنستے ہوئے قربان ہو رہے ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟
قوم کے ساتھ یہ کھلواڑ بند کیجیے۔ نئی نسل کو بتائیے کیا ہوا تھا اور سچ کیا تھا۔اسے اندھیرے میں رکھنے کا ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ دشمن کے
پروپیگنڈے کے سامنے شعوری طور پر پسپا ہونے لگتی ہے۔ اور یہ حادثہ لمحہ لمحہ ہو رہا ہے۔فکر کی دنیا میں اس ملامتی تصوف کو پھیلنے سے روکنا ہے تو قوم کو اعتماد دینا ہو گا۔پورے قد سے کھڑے ہو کر بات کرنا سیکھیے۔
پروپیگنڈے کے سامنے شعوری طور پر پسپا ہونے لگتی ہے۔ اور یہ حادثہ لمحہ لمحہ ہو رہا ہے۔فکر کی دنیا میں اس ملامتی تصوف کو پھیلنے سے روکنا ہے تو قوم کو اعتماد دینا ہو گا۔پورے قد سے کھڑے ہو کر بات کرنا سیکھیے۔
جمہوریت
ملک میں پہلامارشل لاء نافذہواتو پہلا پتھر جس ادارے کے صحن میں آکر گراوہ پاکستانی عدلیہ تھی ۔ ریکارڈ پر ہے کچھ ہمدردوں نے اس کو عدلیہ کی بے توقیری کا پہلا پتھر قرار دیا ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم ْ دوسروں کی نہ سننے مگر اپنی ہانکنے ْ والے لوگ ہیں۔ ملک پر یحییٰ خان اینڈ فرینڈز نے قبضہ کیا تو عدلیہ کے صحن کی بجائے کھڑکی پر پتھر برسے ۔ جب جنرل مشرف کا مارشل لاء فضاوں سے نازل ہوا تو عدلیہ کے دروازے پر پتھر مارے گئے اور نواز شریف اور جہانگیر ترین کے مقدمات کے فیصلوں کے بعد حالت یہ ہو گئی ہے کہ پر امن عدالت کی با عزت کرسی پر بیٹھنے والے عادل ْ بابے ْ اور کچھ کے نزدیک ْ بابے رحمتے ْ کی چارپائی پر آ بیٹھے ہیں۔
ادارتی بے توقیری ایک ہی لمحے میں نازل نہیں ہوتی مگر ادارے چلانے والوں کے مکافات عمل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ پاکستانی عدلیہ البتہ وہی کاٹ رہی ہے جو کچھ اس نے بویا تھا۔آج عزت ماب چیف جسٹس عوام سے عزت کے طلب گار ہیں اور لوگوں نے جوابی بیانئے کے سنگریزے پھینک کر جواب دیا ہے۔اور حالت ْ این جا رسید ْ کہ لوگ مشورے دے رہے ہیں کہ ْ بابے رحمتے ْ کو اب کیا کرنا چاہئے۔مگر پاکستانی عوام اپنی عدلیہ کی اس بے توقیری پر رنجیدہ ہے۔
عوام کو پولیس کے ادارے سے بھی بہت گلہ ہے مگر جس دن دھرنا نمبر ۱ میں پولیس والوں کو ْ پھینٹی ْ لگوائی گئی اس دن عوام کے دل دکھے تھے ایک نوجوان نے کہا تھا ْ ان کرپٹ پولیس والوں ْ سے بدلہ لیتے لیتے ہم نے ایک ادارے پر ظلم کیا ہے ۔ اور فیض آباد کے دھرنے کے ڈراپ سین والے دن لوگوں نے کہا ہم اپنے ایک ادار ے کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کر رہے ہیں۔
جمہوریت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عوام اور حکمران اپنے خود مختار اداروں کے ذریعے اپنی ذمہ داریاں تقسیم کر لیتے ہیں اور اپی خود مختاری کو قائم رکھتے ہوئے دوسروں اداروں کو عزت دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں گو جمہوریت ابھی نو زائیدہ ہی کی طرح ہے مگرہمارے عزائم اور رویے البتہ جمہوری نہیں ہیں۔ حکمرانوں کا رویہ نہ ہی عوام کی سوچ جمہوری ہے۔ اداروں کا ایک دوسرے سے طرز عمل بھی غیر جمہوری ہے۔
ہمارے اس طرز عمل نے عوام کو فائدہ پہنچایا ہے نہ اداروں کو۔ ایک ایک کر کے ہم اپنے اداروں کو خود کمزور اور بے بس کر رہے ہیں ۔ عدلیہ کی بے بسی کا اظہار جو منصف اعلیٰ کی طرف سے ہوا ہے ۔ اسی کا مظہر ہے۔
پاکستان اپنے جغرافیائی وقوع اور دستیاب وسائل کے با وصف ، پاکستانی عوام ہر حال میں جینے کی راہ تلاش کر لینے کی قابلیت کے با وصف ، موجود ادارے اپنے تجربات کی بدولت ، افواج پاکستان اپنے پیشہ ورانہ عزم کی بدولت وہ نعمتیں ہیں جو اس وقت موجود ہ ہیں۔ ضرورت اور شدید ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی سوچ اور طرز عمل کو جمہوری سوچ کے مطابق کر لیں ۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی اور آپشن باقی بچا ہی نہیں ہے۔
ادارتی بے توقیری ایک ہی لمحے میں نازل نہیں ہوتی مگر ادارے چلانے والوں کے مکافات عمل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ پاکستانی عدلیہ البتہ وہی کاٹ رہی ہے جو کچھ اس نے بویا تھا۔آج عزت ماب چیف جسٹس عوام سے عزت کے طلب گار ہیں اور لوگوں نے جوابی بیانئے کے سنگریزے پھینک کر جواب دیا ہے۔اور حالت ْ این جا رسید ْ کہ لوگ مشورے دے رہے ہیں کہ ْ بابے رحمتے ْ کو اب کیا کرنا چاہئے۔مگر پاکستانی عوام اپنی عدلیہ کی اس بے توقیری پر رنجیدہ ہے۔
عوام کو پولیس کے ادارے سے بھی بہت گلہ ہے مگر جس دن دھرنا نمبر ۱ میں پولیس والوں کو ْ پھینٹی ْ لگوائی گئی اس دن عوام کے دل دکھے تھے ایک نوجوان نے کہا تھا ْ ان کرپٹ پولیس والوں ْ سے بدلہ لیتے لیتے ہم نے ایک ادارے پر ظلم کیا ہے ۔ اور فیض آباد کے دھرنے کے ڈراپ سین والے دن لوگوں نے کہا ہم اپنے ایک ادار ے کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کر رہے ہیں۔
جمہوریت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عوام اور حکمران اپنے خود مختار اداروں کے ذریعے اپنی ذمہ داریاں تقسیم کر لیتے ہیں اور اپی خود مختاری کو قائم رکھتے ہوئے دوسروں اداروں کو عزت دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں گو جمہوریت ابھی نو زائیدہ ہی کی طرح ہے مگرہمارے عزائم اور رویے البتہ جمہوری نہیں ہیں۔ حکمرانوں کا رویہ نہ ہی عوام کی سوچ جمہوری ہے۔ اداروں کا ایک دوسرے سے طرز عمل بھی غیر جمہوری ہے۔
ہمارے اس طرز عمل نے عوام کو فائدہ پہنچایا ہے نہ اداروں کو۔ ایک ایک کر کے ہم اپنے اداروں کو خود کمزور اور بے بس کر رہے ہیں ۔ عدلیہ کی بے بسی کا اظہار جو منصف اعلیٰ کی طرف سے ہوا ہے ۔ اسی کا مظہر ہے۔
پاکستان اپنے جغرافیائی وقوع اور دستیاب وسائل کے با وصف ، پاکستانی عوام ہر حال میں جینے کی راہ تلاش کر لینے کی قابلیت کے با وصف ، موجود ادارے اپنے تجربات کی بدولت ، افواج پاکستان اپنے پیشہ ورانہ عزم کی بدولت وہ نعمتیں ہیں جو اس وقت موجود ہ ہیں۔ ضرورت اور شدید ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی سوچ اور طرز عمل کو جمہوری سوچ کے مطابق کر لیں ۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی اور آپشن باقی بچا ہی نہیں ہے۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)