بدھ، 20 اگست، 2025
عمل کے کرشمے
منگل، 19 اگست، 2025
کلاؤڈ برسٹ — فطری آفت یا خدائی تنبیہ
پیر، 18 اگست، 2025
ٹوٹا پھوٹا مسلمان
بدھ، 13 اگست، 2025
پاکستان ہمیشہ زندہ باد
بدھ، 6 اگست، 2025
طاہر القادری کا خواب: مدینہ کی "ٹکٹ" اور روحانی تعبیر
طاہر القادری کا خواب: مدینہ کی "ٹکٹ" اور روحانی تعبیر
تحقیقی و تنقیدی جائزہ
پاکستانی مذہبی و سیاسی منظرنامے میں ڈاکٹر طاہر القادری ایک معروف شخصیت ہیں، جنہوں نے تحریک منہاج القرآن کے ذریعے دین و سیاست کے امتزاج کا بیانیہ پیش کیا۔ ان کی علمی، سیاسی اور روحانی گفتگو میں اکثر ایسے خواب شامل ہوتے ہیں جو وہ خود کو بارگاہِ نبوی ﷺ یا روحانی دنیا سے منسوب کرتے ہیں۔ انہی میں ایک خواب کا تذکرہ انہوں نے کئی مواقع پر کیا، جس میں مدینہ منورہ جانے والی "ٹکٹ" کی ادائیگی کا ذکر کیا گیا ہے۔
خواب کا خلاصہ
ڈاکٹر طاہر القادری کا بیان کردہ خواب کچھ یوں ہے:
"میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک روحانی پرواز مدینہ منورہ کی جانب جا رہی ہے، اور اس پرواز کے تمام مسافروں کا کرایہ کسی کو ادا کرنا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ میں سب کا کرایہ ادا کرتا ہوں۔"
یہ خواب ڈاکٹر طاہر القادری کی تقاریر اور بیانات میں مختلف انداز سے ذکر ہوا ہے اور ان کے ماننے والوں میں اسے ان کی "روحانی حیثیت" کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
تعبیر، تاویل یا تاثر؟
اس خواب کو ان کے حامی ایک "روحانی فیضان" اور دینِ اسلام کی خدمت کی علامت سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر قادری نے نہ صرف علمی و تبلیغی خدمات سرانجام دیں، بلکہ امت کو "مدینہ کی طرف لے جانے والی" ایک فکری و روحانی راہ دکھائی۔
تاہم، ناقدین اس خواب کو محض خودساختہ روحانی برتری کے دعوے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواب ایک ذاتی تجربہ ہوتا ہے، اسے عوامی سطح پر دلیلِ عظمت یا حقانیت کے طور پر پیش کرنا علمی و دینی اعتبار سے ناقابلِ قبول ہے۔
خوابوں کی شرعی حیثیت
اسلامی فقہ اور حدیث کی روشنی میں خواب تین قسموں کے ہوتے ہیں:
-
رحمانی خواب: جو اللہ کی طرف سے خوش خبری یا ہدایت کے طور پر آئے۔
-
نفسیاتی خواب: جو انسان کے خیالات، اضطراب یا روزمرہ کے معمولات پر مبنی ہوں۔
-
شیطانی خواب: جو فتنہ، خوف یا گمراہی پیدا کریں۔
جیسا کہ حدیثِ نبوی ﷺ ہے:
"الرُّؤْيَا ثَلَاثَةٌ: فَرُؤْيَا صَالِحَةٌ بُشْرَى مِنَ اللَّهِ، وَرُؤْيَا تَحْزِينٌ مِنَ الشَّيْطَانِ، وَرُؤْيَا مِمَّا يُحَدِّثُ الْمَرْءَ نَفْسَهُ"
(صحیح مسلم)
یعنی خواب تین طرح کے ہوتے ہیں: نیک خواب جو اللہ کی طرف سے بشارت ہوتے ہیں، غمناک خواب جو شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں، اور وہ خواب جو انسان اپنے خیالات سے بناتا ہے۔
تاریخی تناظر میں "روحانی خوابوں" کا سیاسی استعمال
ہمارے معاشرے میں "خواب" کو بعض اوقات سیاسی یا نظریاتی بیانیے کو تقویت دینے کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ جیسے:
-
مولانا غلام محمد سیالویؒ سے منسوب "شہنشاہ جارج کا تاج" والا خواب
-
اوریا مقبول جان کا خواب کہ "جنرل باجوہ کی تقرری بارگاہِ رسالت سے ہوئی"
-
یا بعض سیاستدانوں کے دعوے کہ انہیں خواب میں "حکم" ملا کہ وہ قیادت کریں
ان تمام خوابوں کا ایک مشترکہ پہلو یہ ہے کہ یہ خواب سنانے والے اپنی رائے، فیصلے یا عمل کو ایک روحانی جواز عطا کرتے ہیں۔ لیکن یہ روش معاشرتی و فکری سطح پر ایک خطرناک رجحان کو جنم دیتی ہے: غیبی دعوے کو دنیوی اختیار کا جواز بنانا۔
نتیجہ
ڈاکٹر طاہر القادری کا خواب ایک ذاتی روحانی تجربہ ہو سکتا ہے، مگر اسے کسی نظریے، تحریک یا شخصیت کی حقانیت کا معیار نہیں بنایا جا سکتا۔ خواب شریعت نہیں، نہ ہی ان سے حتمی فیصلے کیے جا سکتے ہیں۔ یہ دین میں ایمان، علم اور عمل کی جگہ نہیں لے سکتے۔
روحانیت کا اصل مطلب ہے دل کی اصلاح، عمل کی سچائی، اور باطن کی پاکیزگی۔ خواب اگر اس راہ پر استقامت دیں، تو خیر؛ لیکن اگر خواب، اقتدار، شہرت یا اختیار کا وسیلہ بنیں تو پھر ان کی حقیقت کی جانچ ضروری ہو جاتی ہے۔
اگر آپ چاہیں تو میں اس موضوع پر مزید حوالہ جات یا تقابلی جائزہ بھی شامل کر سکتا ہوں، یا اسے ایک کتابی مضمون یا کالم کی شکل میں ترتیب دے سکتا ہوں۔
پیر، 4 اگست، 2025
سورۃ بنی اسرائیل، آیت 34
وعدے کی اہمیت — فلم سے حقیقت تک
برصغیر میں بننے والی شہرۂ آفاق فلم "مغلِ اعظم" کا ایک منظر آج بھی مجھے ذہن میں تازہ ہے۔ بادشاہ محل کی ایک خادمہ کو انگوٹھی انعام میں دیتے ہوئے کہتا ہے:
"تم زندگی میں مجھ سے کچھ بھی مانگو، عطا کیا جائے گا، اگر ہم بھول جائیں تو یہ انگوٹھی ہمارے وعدے کی گواہ ہوگی۔"
وہ وعدہ بادشاہ کے لیے بوجھ بن جاتا ہے، مگر اسے اپنے قول کا پاس رکھنا پڑتا ہے۔ یہ فلمی سین کوئی معمولی منظر نہیں، بلکہ اقتدار، تعلقات اور وعدے کی گہرائی کو خوبصورت انداز میں سمجھانے کی مثال ہے۔
اسی اصول پر اگر ہم اپنی زندگیوں، اپنے سماج اور اپنے حکمرانوں کی کارکردگی کو پرکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وعدے کی پاسداری صرف فرد کی نہیں بلکہ پوری قوم کی عزت و وقار کی بنیاد ہے۔
وعدہ — دینِ اسلام کی روشنی میں
اسلام وعدے کو محض اخلاقی یا سماجی رویہ نہیں بلکہ دینی فریضہ قرار دیتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
"اور عہد کو پورا کرو، بے شک عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔"
(سورۃ بنی اسرائیل، آیت 34)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وعدہ خلافی کو نفاق کی علامت قرار دیتے ہوئے فرمایا:
"جس میں تین باتیں ہوں وہ منافق ہے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، جب امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔"
(بخاری، حدیث نمبر: 33)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل بھی ہمارے لیے سبق ہے۔ جب ان کی وفات قریب آئی تو انہوں نے اپنی بیٹی کے نکاح سے متعلق دیا گیا وعدہ یاد کیا اور فرمایا:
"میں نفاق کی علامت کے ساتھ اللہ کے حضور حاضر نہیں ہونا چاہتا، لہٰذا میں وعدہ پورا کرتا ہوں۔"
صلح حدیبیہ — وعدے کی لازوال مثال
تاریخ اسلام کا ایک درخشاں باب صلح حدیبیہ ہے، جب حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ زخموں سے چور، بیڑیوں میں جکڑے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور مدینہ لے جانے کی درخواست کی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جذبات کی شدت کے باوجود معاہدے کی پابندی کی اور ابو جندل کو اہلِ مکہ کے حوالے کر دیا۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ وعدہ جذبات سے بڑا، تعلقات سے مقدم اور وقتی فائدے سے برتر ہے۔
وعدہ — صرف مذہبی یا سیاسی نہیں، روزمرہ زندگی کی ضرورت
بدقسمتی سے وعدہ خلافی ہمارے معاشرے میں عام ہو چکی ہے۔ نکاح کارڈ پر وقت عصر کے بعد لکھا جاتا ہے، مگر بارات عشاء کے بعد آتی ہے۔ ولیمہ آٹھ بجے کا ہوتا ہے، لیکن کھانے کی ابتدا دس بجے ہوتی ہے۔ چھوٹے بڑے وعدوں کو توڑنا ہماری عادت بنتی جا رہی ہے، اور یہی بے نظمی، بے وقت حاضری، اور بد اعتمادی کی جڑ ہے۔
معاشرتی زوال اور وعدہ خلافی
قوموں کی ترقی صرف سڑکوں، پلوں یا عمارتوں سے نہیں ہوتی، بلکہ اخلاقیات، اعتماد اور قول کی پابندی سے ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے وعدہ توڑا، وہ ٹوٹ گئیں۔ وعدہ خلافی صرف فرد کی بدنامی نہیں، بلکہ پوری قوم کی ساکھ کو برباد کر دیتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اقدس پر آج بھی یہ الفاظ کندہ ہیں:
"محمد الرسول، صادق الوعد، الامین۔"
یہ الفاظ محض تعریفی القابات نہیں بلکہ امت مسلمہ کے لیے عملی نصیحت ہیں کہ وعدہ نبھانا ایمان اور دین کا تقاضا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تو فرمایا کرتے:
"جس میں امانت داری نہیں، اس کا ایمان نہیں، اور جس میں وعدے کی پابندی نہیں، اس کا دین نہیں۔"
(مشکوٰۃ المصابیح)
وعدے کی پاسداری، ترقی کی پہلی سیڑھی
معاشرتی مسائل، انتشار، بد اعتمادی، اور زوال کی اصل جڑ وعدہ خلافی ہے۔ جب ہم چھوٹے وعدے پورے کرنا سیکھیں گے، وقت کی پابندی اپنائیں گے، تعلقات میں سچائی اور معاہدوں میں سنجیدگی لائیں گے، تب ہی ہم ایک بہتر معاشرہ، ایک مضبوط قوم، اور دنیا میں باعزت مقام حاصل کر سکیں گے۔
قوم کی ترقی کا آغاز وعدوں کی پاسداری سے ہوتا ہے، اور زوال کی کہانی وعدہ خلافی سے لکھی جاتی ہے۔ اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم قول کے سچے بن کر تاریخ کا روشن باب بننا چاہتے ہیں یا وعدہ خلافی کی تاریکی میں گم ہو جانا چاہتے ہیں۔