جمعرات، 31 جولائی، 2025

سورہ الحدید ایت 25

لوہا زمین پر کہاں سے آیا؟
انسانی تاریخ اگر کسی دھات کے ساتھ سب سے زیادہ جڑی ہوئی ہے، تو وہ "لوہا" ہے۔ پتھروں کے دور سے لے کر خلائی دور تک، لوہے نے انسان کی ترقی، طاقت، تحفظ، معیشت، سائنس اور دفاع — ہر شعبے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ لوہا زمین کے اندر پیدا نہیں ہوا، بلکہ یہ آسمان سے اترا خزانہ ہے؟
لوہے کا ماخذ : سائنس کے مطابق، لوہا زمین پر ابتدائی طور پر موجود نہیں تھا۔ یہ ایک ایسا بھاری عنصر ہے جو صرف بہت بڑے ستاروں کے اندر "نیوکلئیر فیوژن" (Nuclear Fusion) کے عمل سے بنتا ہے۔ جب یہ ستارے اپنی زندگی کے اختتام پر "سپرنووا" کے ذریعے پھٹتے ہیں، تو وہ بھاری دھاتیں خلا میں بکھیرتے ہیں۔ انہی دھاتوں میں لوہا بھی شامل ہوتا ہے۔
بعد ازاں، جب زمین کی تخلیق ہوئی تو وہی لوہا خلا سے آ کر زمین کی سطح اور گہرائیوں میں جذب ہو گیا۔ آج زمین کا مرکز (core) زیادہ تر لوہے اور نکل پر مشتمل ہے۔
قرآن کریم سورۃ الحدید (آیت 25) میں ارشاد ہوتا ہے: "اور ہم نے لوہا اتارا جس میں سخت ہیبت (قوت) ہے اور لوگوں کے لیے فائدے ہیں۔"
یہاں "أنزلنا" کا مطلب جسمانی طور پر نازل کرنا بھی ہو سکتا ہے — اور جدید سائنس اس کی تائید کرتی ہے۔ قرآن صدیوں پہلے بتا چکا تھا کہ لوہا زمین پر "اتارا گیا"، اور آج کی فلکیاتی تحقیق بھی یہی کہتی ہے۔
انسان نے لوہے کو کس طرح اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوہے میں "بأس شدید" (زبردست طاقت) اور "منافع للناس" (انسانوں کے لیے فائدے) ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ انسان نے واقعی اسے ہر میدان میں استعمال کیا
دفاعی طاقت میں: انسان نے لوہے سے تلواریں، نیزے، ڈھالیں، بکتر بند لباس بنائے۔ آج کے دور میں ٹینک، ہوائی جہاز، آبدوزیں، میزائل — سب میں فولادی حصے لازمی ہیں۔
تعمیرات میں: پل، عمارتیں، ریل کی پٹریاں، ڈیم، کارخانے — ان سب میں لوہا بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ جدید شہروں کا انفراسٹرکچر لوہے کے بغیر ممکن نہیں۔
معیشت میں: صنعت و حرفت میں لوہے نے انقلاب برپا کیا۔انڈسٹریل ایج
کا آغاز ہی لوہے اور اسٹیل کی بدولت ہوا۔
طب میں: انسانی جسم کو بھی لوہے کی ضرورت ہے۔ خون میں موجود ہیموگلوبن آکسیجن کو جسم کے مختلف حصوں تک پہنچانے میں لوہے کی مدد سے کام کرتا ہے۔ آئرن کی گولیاں آج بھی خون کی کمی
کے علاج میں استعمال ہوتی ہیں۔
ٹیکنالوجی میں: الیکٹرانک اشیاء، گاڑیاں، مشینری — ہر جگہ لوہے کے بغیر ترقی ناممکن ہے۔
خلا میں بھی مصنوعی سیارے اور راکٹ لوہے اور اسٹیل سے ہی تیار کیے جاتے ہیں۔
لوہے کی علامتی حیثیت: انسان نے نہ صرف لوہے کو استعمال کیا بلکہ اسے طاقت، عزم، اور استقلال کی علامت بھی بنا دیا
لوہا محض ایک دھات نہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے انسان کے لیے ایک نعمت ہے۔ سائنس اسے خلا سے آیا ہوا قیمتی خزانہ مانتی ہے، اور قرآن اسے نازل کردہ منافع بخش چیز کہتا ہے۔
انسان نے اس نعمت کو پہچانا، اسے ڈھالا، اور اسے اپنی دنیا کی تعمیر میں استعمال کیا۔
اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اسے تخریب کے لیے استعمال کریں یا تعمیر کے لیے۔

قید میں سسکتی انسانیت



قید میں سسکتی انسانیت
کبھی سوچا ہے، وہ قیدی کیسا جیتا ہو گا جس پر کوئی مقدمہ نہیں؟
وہ بچہ کیسا سوتا ہو گا جو صرف احتجاج کی پاداش میں جیل میں ڈال دیا گیا ہو؟
وہ ماں کیسی تڑپتی ہو گی جس کا بیٹا برسوں سے کسی اذیت گاہ میں لاپتہ ہے؟
اگر آپ نے کبھی یہ سوال نہیں سوچے، تو شاید آپ بھی اس دنیا کی اس خاموش اکثریت میں شامل ہیں جو ظلم دیکھتی ہے، مگر آنکھیں پھیر لیتی ہے۔
آج اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی انسان صرف قیدی نہیں، وہ مظلوم انسانیت کی زندہ مثالیں ہیں — مگر افسوس، دنیا کے کانوں تک ان کی چیخیں نہیں پہنچتیں۔
جولائی 2025 تک اسرائیل کی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی تعداد 11,000 سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان میں شامل ہیں:
350 سے زائد بچے 21 خواتین اور 3,400 سے زیادہ قیدی جنہیں بغیر فردِ جرم یا عدالتی کارروائی کے صرف شک کی بنیاد پر میں رکھا گیا ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جن پر نہ الزام ثابت ہوا، نہ مقدمہ چلا، نہ رہائی ملی — بس قید ہے، اندھی قید۔
انتظامی حراست کا مطلب ہے کسی کو بغیر مقدمے کے، صرف خفیہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر جیل میں ڈال دینا۔ اس قانون کا سہارا لے کر اسرائیل ہزاروں فلسطینیوں کو برسوں تک جیل میں بند رکھتا ہے، بغیر کسی عدالت، وکیل یا صفائی کے حق کے۔
یہ انصاف کا نہیں، انصاف کے نام پر استبداد کا بدترین نمونہ ہے۔
اکتوبر 2023 سے جون 2025 تک 73 فلسطینی قیدی اسرائیلی جیلوں میں زندگی کی جنگ ہار چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر وہ تھے جو بیمار تھے، مگر انہیں دوا نہ ملی۔
کئی وہ تھے جنہوں نے بھوک ہڑتال کی — مگر ان کی فریاد سننے والا کوئی نہ تھا۔
خضر عدنان نے 87 دن بھوک ہڑتال کی، انصاف مانگا — جواب میں اسرائیل نے انہیں موت دے دی۔
یہ وہ موت ہے جو خاموش ہوتی ہے، مگر اندر سے پوری انسانیت کو کھا جاتی ہے۔
جنوبی اسرائیل کا Sde Teiman کیمپ قیدیوں کے لیے جیل نہیں، اذیت گاہ ہے۔ وہاں قیدیوں کو:
برہنہ کر کے جانوروں کی طرح باندھا جاتا ہے زخموں پر نمک چھڑکا جاتا ہے
کھانے کے بجائے گالیاں دی جاتی ہیں اور انسان کے بجائے صرف ایک سیریل نمبر سمجھا جاتا ہے یہ کیمپ انسانیت کے چہرے پر وہ داغ ہے جو شاید صدیوں تک نہ مٹے۔
اسرائیلی جیلوں میں اس وقت 350 سے زائد بچے قید ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جنہوں نے نہ بندوق چھوئی، نہ بم دیکھا — ان کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ فلسطینی ہیں۔
انہیں تنہائی میں رکھا جاتا ہے والدین سے ملاقات کا حق چھین لیا جاتا ہے
اور ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے یہ وہ بچپن ہے جو قید میں جوان ہو رہا ہے، اور شاید قید میں ہی دفن ہو جائے۔
اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں، بین الاقوامی میڈیا — سب کو علم ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں کیا ہو رہا ہے۔لیکن سب خاموش ہیں۔ کیوں؟
کیوں کہ اسرائیل ایک طاقتور ریاست ہے۔
کیوں کہ مظلوم کا نام "فلسطینی" ہے۔
کیوں کہ دنیا کے ضمیر پر سیاسی مصلحتوں کی دبیز چادر پڑ چکی ہے۔
اتنا بھی نہیں کہا جاتاکہ
اگر قیدی مجرم ہیں، تو مقدمہ کیوں نہیں؟
اگر بے گناہ ہیں، تو رہا کیوں نہیں؟
اور اگر انسان ہیں، تو انسانوں جیسا سلوک کیوں نہیں؟
فلسطینی قیدیوں کی حالت دیکھ کر جو سب سے زیادہ اذیت ناک چیز محسوس ہوتی ہے، وہ قید نہیں — بلکہ دنیا کی خاموشی ہے۔
یہ وہ خاموشی ہے جو ظالم کے ہاتھ مضبوط کرتی ہے اور مظلوم کی آواز دبا دیتی ہے۔
قید اگر جسم کی ہو تو روح آزاد رہتی ہے، مگر جب ضمیر قید ہو جائے، تو پوری انسانیت مر جاتی ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم بولیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم لکھیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم دنیا کو جھنجھوڑیں —
یہ وہی اسرائیلی ہیں جو ہٹلر کے یہودیوں پر ڈھائے گئے ظلم کے نام پر دنیا بھر سے ہمدردی سیٹتے ہیں مگر ان کا خود کا کردار ہٹلر کے کردار سے بڑھ کر ظالمانہ ہے ۔ فلسطین میں انسانیت سسک رہی ہے، بھوک ، اذیت اورطلم ہے مگر اج کا مہذب انسان سب دیکھ کر بھی ،سن کر، پڑھ کر بھی خا،وش ہے کیا یہ خاموشی طلم نہیں

منگل، 29 جولائی، 2025

انسانیت کی بے بسی کا نوحہ




انسانیت کی بے بسی کا نوحہ

غزہ… ایک نام، جو آج صرف ایک علاقے کا نہیں، بلکہ انسانیت کے اجتماعی ضمیر پر لگے بدنما داغ کا استعارہ بن چکا ہے۔ یہ زمین کا وہ ٹکڑا ہے جسے دنیا نے تین سو پچاس مربع کلومیٹر میں قید کر رکھا ہے، مگر یہاں بستے اکیس لاکھ انسانوں کو زندگی کی تمام بنیادی سہولتوں سے محروم کر کے دنیا نے گویا کھلی جیل میں ڈال دیا ہے — ایسی جیل جس میں قیدیوں کو بھی جینیوا کنونشن کے تحت دی جانے والی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں، مگر غزہ کے باسیوں کے لیے یہ سہولتیں خواب بن چکی ہیں۔

دو مارچ 2025 سے غزہ میں خوراک اور ادویات کی فراہمی بند ہے۔ بازار ویران ہیں، اسپتال راکھ کا ڈھیر ہیں، اسکولوں کی جگہ قبریں بن چکی ہیں اور گھروں کی چھتیں ملبے میں دفن ہو چکی ہیں۔ اس سنگین محاصرے کے نتیجے میں نو لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ان میں ستر ہزار ایسے معصوم ہیں جنہیں اب طبی امداد بھی نہیں دی جا سکتی — جیسے وہ زندگی کی دوڑ سے نکال دیے گئے ہوں۔

خوراک کی تقسیم کے مراکز، جو کبھی امید کے چراغ ہوا کرتے تھے، آج موت کی گلیاں بن چکے ہیں۔ ایک ہزار پچاس افراد کو انہی مراکز پر شہید کر دیا گیا، جب کہ چھ ہزار پانچ سو گیارہ افراد شدید زخمی ہو چکے ہیں۔ یہ وہ اعداد نہیں جنہیں پڑھ کر بھلا دیا جائے، یہ وہ کہانیاں ہیں جن کے پیچھے ٹوٹے خواب، اجڑی گودیں، سسکتی مائیں، اور انتظار کرتی نگاہیں چھپی ہوئی ہیں۔

غزہ آج ایسی جیل بن چکا ہے جہاں انسانوں کو جانوروں سے بھی بدتر حالات میں رکھا گیا ہے۔ دنیا بھر میں اگر کوئی پالتو جانور بھوک سے مر جائے تو قانون حرکت میں آتا ہے، مجرم کو سزا دی جاتی ہے، انصاف مانگا جاتا ہے۔ لیکن غزہ کے انسان — وہ انسان جو ہمارے جیسے خواب دیکھتے ہیں، جن کے سینے میں بھی دل دھڑکتا ہے — ان کے لیے دنیا کے ضمیر میں کوئی جنبش تک پیدا نہیں ہوتی۔

آٹھ ارب انسانوں کی اس زمین پر، دو سو سے زائد ملکوں کی موجودگی کے باوجود غزہ کے لیے کوئی آواز بلند نہیں ہوتی۔ عالمی ادارے خاموش، انسانی حقوق کی تنظیمیں مفلوج، اور مسلم دنیا کی قیادت بے حس ہو چکی ہے۔

یہ وقت ہے کہ ہم صرف اعداد و شمار نہ گنیں، بلکہ ان کے پیچھے چھپی انسانیت کو پہچانیں۔ ہم آنکھیں بند کر کے یہ نہ سمجھیں کہ یہ مسئلہ صرف فلسطین کا ہے۔ یہ انسانیت کا امتحان ہے — اور اگر آج ہم اس میں ناکام ہوئے، تو کل یہ آگ ہمارے اپنے آنگن تک آ سکتی ہے۔

غزہ چیخ رہا ہے، فریاد کر رہا ہے، رو رہا ہے۔ ہمیں اس کی آواز سننی ہے، اس کے درد کو محسوس کرنا ہے، اور ظالم کے خلاف بولنا ہے — ورنہ ہماری خاموشی بھی ایک دن ظلم کا ہتھیار بن جائے گی۔

غزہ صرف ایک قید خانہ نہیں — یہ انسانیت کی بے بسی کا نوحہ ہے۔

پیر، 28 جولائی، 2025

ہیکلِ سلیمانی کو دوبارہ تعمیر




صیہونی ہیکلِ سلیمانی کو دوبارہ کیوں تعمیر کرنا چاہتے ہیں؟


ہیکلِ سلیمانی کی تعمیرِ نو صیہونی تحریک کے اُن بنیادی اہداف میں سے ایک ہے، جو بظاہر مذہبی نظر آتا ہے، مگر درحقیقت یہ ایک گہری سیاسی، نظریاتی اور عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ یہ منصوبہ محض ایک عبادت گاہ کی تعمیر نہیں، بلکہ "عظیم اسرائیل"  کے خواب، مذہبی تسلط، اور عالمی طاقت پر قبضے کی ایک چال ہے۔ سوال یہ ہے کہ صیہونی اس قدیم ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے اتنے بےتاب کیوں ہیں؟ آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
 مذہبی عقیدہ اور مسیحی-یہودی پیشگوئیاں
یہودی روایات میں ہیکل سلیمانی کو خدائی قربت کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق
تین ہیکل تعمیر ہونے ہیں
پہلا ہیکل — حضرت سلیمان علیہ السلام کا
دوسرا ہیکل — زروبابل اور ہیرودیس کا
تیسرا ہیکل — جو "مسیح"
 کی آمد سے پہلے تعمیر ہونا ضروری ہے
کئی صیہونی یہودی گروہ اور عسکریت پسند تنظیمیں جیسے 
Temple Institute 
اور 
 Faithful
 اس عقیدے پر کام کر رہی ہیں کہ مسجد اقصیٰ کی جگہ تیسرا ہیکل تعمیر کر کے "موعودہ نجات دہندہ" (Messiah)
 کی راہ ہموار کی جائے۔
یہی نظریہ بعض عیسائی بنیاد پرست فرقوں
 (Christian Zionists)
 میں بھی مقبول ہے، جو سمجھتے ہیں کہ تیسرا ہیکل بننے سے دنیا کے آخری دور
 (End Times)
 کا آغاز ہوگا۔
 صیہونی سیاسی ایجنڈا: مذہب کے پردے میں قبضے کی چال
صیہونیت صرف ایک مذہبی عقیدہ نہیں بلکہ ایک سیاسی نظریہ ہے جس کا ہدف 
"Greater Israel"
 کا قیام ہے — یعنی نیل سے فرات تک ایک صیہونی ریاست۔ ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر:
مسلمانوں کے قبلہ اول (مسجد اقصیٰ) کی جگہ پر ہو گی
فلسطینیوں کے مذہبی، تاریخی اور سیاسی وجود کو مٹانے کی علامت ہو گی
دنیا بھر میں یہودی طاقت کے غلبے کا نفسیاتی اظہار ہو گی
یہ تعمیر اُن صیہونی نظریات کو تقویت دے گی جو بیت المقدس کو نہ صرف اسرائیل کا دارالحکومت بلکہ "یہودیوں کا عالمی روحانی مرکز" بنانے کے درپے ہیں۔
 مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے کی کوششیں
ہیکل کی جگہ کو خالی کرنے کے لیے انتہا پسند یہودی مسلسل مسجد اقصیٰ کے نیچے سرنگیں کھود رہے ہیں۔
اس کے مقاصد میں شامل ہیں
مسجد کی بنیادوں کو کمزور کرنا
مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو اشتعال دلانا
عالمی ردِ عمل سے فائدہ اٹھا کر یہ ثابت کرنا کہ "یہ جگہ متنازع ہے"
پھر ایک عالمی تنازع کھڑا کر کے کسی موقع پر مسجد کو شہید کرنا
یہ سب ایک گہری سازش کا حصہ ہے، جس کا مقصد الاقصیٰ کے تقدس کو مٹا کر، یہودی روحانیت کا نیا مرکز قائم کرنا ہے۔
 صیہونیت اور دجالی نظام
کئی اسلامی مفکرین، محققین اور مفسرین اس نظریے کو "دجالی نظام" سے جوڑتے ہیں۔ ان کے مطابق
تیسرا ہیکل ایک دجالی عالمی حکومت کے آغاز کی بنیاد ہو گا
عالمی معیشت، میڈیا، اور سیاست پہلے ہی صیہونی اثر میں ہے
اب مذہبی مرکز پر قبضہ کرنا باقی ہے — جس کے لیے ہیکلِ سلیمانی ایک علامت بنے گا
یعنی یہ منصوبہ نہ صرف مذہب بلکہ انسانیت کے خلاف ایک روحانی، سیاسی اور نظریاتی حملہ ہے۔
 عالمی مسیحی حمایت: "ایوانجیلیکل کرسچینز" کا کردار
امریکہ اور یورپ میں موجود کچھ مسیحی گروہ، خاص طور پر 
Evangelicals
، ہیکل کی تعمیر کو حضرت عیسیٰؑ کی دوبارہ آمد سے جوڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ
امریکی حکومتیں اکثر اسرائیل کے مذہبی عزائم کی حمایت کرتی آئی ہیں
ٹرمپ کے سابقہ دورمیں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا
اس حمایت کے پیچھے سیاسی فائدہ اور عقیدہ دونوں شامل ہیں
 مسلمانوں کے نزدیک
مسجد اقصیٰ محض ایک مسجد نہیں بلکہ اسلامی تاریخ، روحانیت، اور اتحاد کی علامت ہے۔ اس پر حملہ
امت مسلمہ کے قبلہ اول پر حملہ ہے
فلسطینی مزاحمت کی بنیاد کو ختم کرنے کی کوشش ہے
ایک عالمی مذہبی جنگ کو دعوت دینے کے مترادف ہے
صیہونی ہیکلِ سلیمانی کو دوبارہ اس لیے تعمیر کرنا چاہتے ہیں کہ وہ مذہب کے نام پر ایک عالمی نظریاتی، روحانی اور سیاسی غلبہ چاہتے ہیں۔ اس ہیکل کی تعمیر صرف ایک عبادت گاہ کی بازیابی نہیں بلکہ اسلام، مسیحیت، اور پوری انسانیت پر صیہونی ایجنڈے کی فوقیت کا اعلان ہو گا۔



سچ کا محاصرہ



سچ کا محاصرہ

دنیا کی ہر جنگ صرف میدان میں نہیں لڑی جاتی، ایک جنگ شعور، بیانیے، اور خبروں کی بھی ہوتی ہے — اور اس جنگ کا سب سے بڑا ہتھیار ہے: میڈیا۔
صیہونیت کو جب اپنی بقا کے لیے زمین، اسلحہ اور اتحادیوں کی ضرورت تھی، تو اسے مغربی استعمار نے دیا۔اور جب صیہونیت کو اپنی حقیقت چھپانے اور مظالم کو “دفاع” کہنے کے لیے ایک پردہ درکار تھا، تو وہ پردہ مغربی میڈیا نے مہیا کیا۔
مغربی میڈیا فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کو رپورٹ کرنے کا جو انداز اپناتا ہے، وہ سادہ قارئین کو بھی گمراہ کر دیتا ہے۔
مثالیں ملاحظہ ہوں:
فلسطینی شہید ہوتا ہے:
"A Palestinian dies in a clash"
اسرائیلی فوجی زخمی ہوتا ہے:
"An Israeli soldier was brutally attacked by militants"
گویا فلسطینی خود بخود مر جاتے ہیں، جبکہ اسرائیلی زخمی ہونے پر “brutally” کا لفظ شامل ہو جاتا ہے۔
مغربی میڈیا نے ہمیشہ فلسطینی مزاحمت کو دہشت گردی کے لیبل سے پیش کیا، خواہ وہ مزاحمت ایک پتھر ہو یا ایک آواز۔ حماس یا دیگر تنظیموں کو "Militants" یا "Islamist Extremists" کہا جاتا ہے۔ جبکہ اسرائیلی فوج کے لیے ہمیشہ "Israel Defense Forces" یعنی دفاعی فوج کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے — حالانکہ دفاع سے زیادہ یہ "جارحیت" کی علامت بن چکی ہے۔
بی بی سی، سی این این اور فاکس نیوز کی پالیسی
بی بی سی: نسبتاً "غیر جانب دار" سمجھی جاتی ہے، لیکن فلسطین کے حوالے سے اس کی زبان اکثر غیر متوازن ہوتی ہے۔
بی بی سی ہمیشہ "Clashes" یا "Violence between Israelis and Palestinians" جیسے مبہم الفاظ استعمال کرتی ہے — حالانکہ حقیقت میں یہ یک طرفہ ظلم ہوتا ہے۔
سی این این:
امریکہ کی نمائندہ نیوز ایجنسی — اور امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی۔سی این این نے متعدد بار فلسطینی مزاحمت کو "Hamas-led terrorism" کہا، جبکہ اسرائیلی بمباری کو "response to rocket fire" کے تحت ہضم کیا۔
فاکس نیوز:انتہائی دائیں بازو کی صیہونی نواز میڈیا، جو اسرائیل کو “ایک روشن جمہوریت” اور فلسطینیوں کو “شدت پسند اسلامی گروہ” کہنے میں پیش پیش ہے۔
تصویر کا فریب: جب اسرائیل غزہ پر بمباری کرتا ہے اور سیکڑوں بچے جاں بحق ہوتے ہیں، تو مغربی میڈیا ان تصویروں کو یا تو دکھاتا ہی نہیں، یا صرف یہ لکھ کر گزارا کرتا ہے:
"Palestinian casualties reported amid escalating conflict"
لیکن جب اسرائیل پر راکٹ گرتا ہے، تو متاثرہ گھر، روتے ہوئے یہودی بچے، اور زیر زمین پناہ گاہیں ہیڈ لائن بن جاتی ہیں۔
صیہونیت کے میڈیا نیٹ ورک: پیچھے کون ہے؟
دنیا کے بڑے میڈیا ہاؤسز کے پیچھے موجود افراد اور سرمایہ کاروں میں صیہونی حمایت یافتہ شخصیات شامل ہیں:
Rupert Murdoch (فاکس نیوز): کھلا صیہونی حمایتی
Jeff Zucker (سابق صدر سی این این): اسرائیل نواز موقف رکھتے ہیں
New York Times کا ادارتی عملہ اور کئی سینئر صحافی یہودی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں
اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہر یہودی صحافی بددیانت ہے، لیکن ادارتی پالیسی اکثر صیہونیت کے حق میں ہوتی ہے۔
فلسطینی صحافیوں کی جدوجہد: اسرائیل نے درجنوں فلسطینی صحافیوں کو شہید یا گرفتار کیا۔ معروف رپورٹر شیرین ابو عاقلہ کو اسرائیلی فوج نے گولی مار کر قتل کیا، اور مغربی میڈیا کئی روز اس قتل کو بھی "disputed death" کہتا رہا ۔ یہ واقعہ دنیا کے سامنے واضح ثبوت تھا کہ سچ صرف بولنے کا نہیں، سہنے کا نام بھی ہے
سوشل میڈیا: ایک نیا محاذ: جب روایتی میڈیا اسرائیل کا دفاع کرتا ہے، تو فلسطینی عوام نے سوشل میڈیا کو اپنا ہتھیار بنایا۔انسٹاگرام، ٹوئٹر (X)، فیس بک پر لاکھوں افراد نے فلسطینی مظالم کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کیں
مگر Meta اور دیگر پلیٹ فارمز نے بھی کئی بار "community guidelines" کے نام پر فلسطینی مواد ہٹا دیا
گویا یہ جنگ صرف ٹینکوں کی نہیں، الفاظ، تصاویر اور الگورتھم کی بھی ہے
صیہونیت اور مغربی میڈیا کا رشتہ صرف ہمدردی کا نہیں، بلکہ مفادات، پراپیگنڈہ، اور بیانیہ سازی کا رشتہ ہے۔ جب ایک ریاست ظلم کرے اور میڈیا اسے امن کہے، تو سمجھ لیجیے کہ سچ کا محاصرہ کر لیا گیا ہے ۔

خطرناک گٹھ جوڑ




دنیا بھر کی سیاست، معیشت، ابلاغ، حتیٰ کہ سائنسی و فکری حلقوں میں ایک طاقتور، منظم اور بااثر گروہ کی موجودگی کئی دہائیوں سے موضوع بحث ہے — یہ گروہ ہے صیہونی لابی۔ اس کا نیٹ ورک اتنا مضبوط اور منظم ہے کہ یہ نہ صرف مشرق وسطیٰ کی سیاست بلکہ اقوامِ متحدہ، امریکی کانگریس، یورپی یونین اور عالمی میڈیا پر بھی گہرے اثرات ڈال رہا ہے۔
صیہونیت صرف ایک یہودی نظریہ نہیں، بلکہ ایک سیاسی منصوبہ تھا جس کا آغاز انیسویں صدی کے اواخر میں "تھیوڈور ہرزل" نے کیا۔ اس کا مقصد دنیا بھر کے یہودیوں کو جمع کر کے فلسطین کی سرزمین پر ایک علیحدہ قومی ریاست قائم کرنا تھا۔ یہ تحریک مذہب سے زیادہ قوم پرستی پر مبنی تھی۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد، صیہونی تحریک نے اپنے ایجنڈے کو عالمی سطح پر پھیلانے کے لیے لابیئنگ اور خفیہ تعلقات کے جال کو استعمال کیا۔
امریکہ میں صیہونی لابی کی سب سے نمایاں تنظیم AIPAC (American Israel Public Affairs
ہے، جو امریکی سیاست پر اثر انداز ہونے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرتی ہے۔ ہر امریکی صدارتی انتخاب میں یہ لابی فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ بہت سے امریکی سینیٹرز اور کانگریس مین اسرائیل کی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتے۔
ریاستہائے متحدہ کی خارجہ پالیسی میں فلسطین مخالف فیصلے، ایران کے خلاف پابندیاں، شام میں مداخلت، اور حزب اللہ و حماس کو دہشت گرد قرار دینا — یہ سب صیہونی اثرات کی جھلکیاں ہیں۔
یورپی ممالک، خاص طور پر برطانیہ، فرانس، اور جرمنی میں صیہونی لابی مضبوط بنیاد رکھتی ہے۔ ہولوکاسٹ کے احساس جرم کو بطور ہتھیار استعمال کر کے ان حکومتوں کو اسرائیل کی غیر مشروط حمایت پر مجبور کیا جاتا ہے۔ میڈیا، اکیڈمیا، اور مالیاتی اداروں میں صیہونیوں کی موجودگی اس اثر کو مزید گہرا کرتی ہے۔
صیہونی لابی کا سب سے مؤثر ہتھیار عالمی میڈیا ہے۔ CNN، BBC، Fox News، New York Times، Washington Post
اور دیگر بڑے ادارے فلسطینی بیانیے کو دبانے اور اسرائیلی مظالم کو چھپانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر فلسطینیوں کی آواز کو دبانا، اکاؤنٹس بند کرنا، اور پوسٹس ڈیلیٹ کرنا معمول بن چکا ہے۔
جب بھی غزہ پر بمباری ہوتی ہے، تو اسے "دفاعی کارروائی" کہہ کر پیش کیا جاتا ہے، اور جب فلسطینی مزاحمت کرتے ہیں، تو اسے "دہشت گردی" کہا جاتا ہے۔ یہی صیہونی پروپیگنڈہ ہے جو دنیا کو حقیقت سے دور رکھتا ہے۔
بینکاری، وال اسٹریٹ، اور عالمی مالیاتی ادارے جیسے IMF اور World Bank
پر صیہونی اثرات کوئی راز نہیں۔ مشہور صیہونی بینکار خاندان، جیسے
Rothschilds
، کئی صدیوں سے یورپ اور امریکہ کی معیشت پر اثر انداز رہے ہیں۔ اسرائیل کو ہر سال اربوں ڈالر کی امداد صرف اسی مالیاتی دباؤ کی بدولت ملتی ہے۔
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف متعدد قراردادیں منظور ہوئیں، مگر عملی اقدامات شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ جیسے ویٹو پاور رکھنے والے ممالک اسرائیل کے محافظ کے طور پر کھڑے ہوتے ہیں۔ یہی صیہونی لابی کا کمال ہے کہ وہ انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی مخصوص دائرے میں محدود رکھتی ہے۔
صیہونی لابی صرف ایک قوم یا ریاست کی بقا کی جنگ نہیں لڑ رہی، بلکہ ایک ایسے عالمی نظام کی تشکیل چاہتی ہے جو صرف اسرائیلی مفادات کے گرد گھومے۔ یہ لابی آزادی اظہار، انسانی حقوق، اور جمہوریت جیسے نعروں کو اپنے ایجنڈے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

وہ جو چیخ نہ سکے، مر گئے




عنوان: غزہ میں بھوک، پیاس اور دوا کی کمی سے مرتے بچے اور انسانیت کا سویا ہوا ضمیر

دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی، انسان کے چاند اور مریخ پر پہنچنے کے دعوے، اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر، اور عالمی عدالتِ انصاف کے موجود ہونے کے باوجود اگر کہیں بچے بھوک، پیاس اور دوا کی کمی سے مر رہے ہوں، تو یہ پوری انسانیت کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ غزہ، جہاں کے بچوں کے پیٹ میں نوالہ نہیں، زخموں پر مرہم نہیں اور پیاس بجھانے کے لیے پانی تک نہیں، وہاں انسانی زندگی کی تذلیل نے انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے بجائے سلادیا ہے۔

غزہ پٹی کو اکثر "دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل" کہا جاتا ہے۔ ایک طرف اسرائیلی ناکہ بندی، دوسری طرف مصر کی سرحدی بندش، اور تیسری طرف خاموش عالمی برادری۔ یہاں کی آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ بچے ہیں، جن کے لیے تعلیم، غذا، دوا اور صاف پانی جیسی بنیادی ضروریات خواب بن چکی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے ادارے UNICEF اور WHO
 کی رپورٹس کے مطابق
2024
 کے اختتام تک غزہ کے 95 فیصد پانی کے ذرائع آلودہ ہو چکے تھے۔
غذائی قلت کی وجہ سے ہر دوسرا بچہ جسمانی اور دماغی طور پر متاثر ہو رہا ہے۔
طبی سہولیات کی تباہی نے زچگی، بچوں کی ویکسینیشن اور عام بیماریوں کے علاج کو ناممکن بنا دیا ہے۔

بھوک، پیاس اور دوا کی قلت سے مرنے والے بچے نہ تو کسی جنگی محاذ پر ہیں، نہ انہوں نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ فلسطینی ماں کے بطن سے پیدا ہوئے، ایک ایسی سرزمین پر جہاں زمین سے زیادہ قبرستان آباد ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی افواج کی جانب سے اسپتالوں، ایمبولینسوں اور طبی مراکز کو نشانہ بنانا کسی حادثے کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک منظم نسل کشی کی کوشش ہے۔ خوراک کی ترسیل کو روکا گیا، فلاحی اداروں کے قافلوں پر حملے کیے گئے، اور بجلی و ایندھن کی بندش نے اسپتالوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

غزہ میں دوا نہ ہونا صرف بیماریوں کا نہ علاج ہونا نہیں، بلکہ موت کی باقاعدہ اجازت ہے۔ نیو بارن یونٹ میں آکسیجن ختم ہو جائے تو وہ نومولود جو ماں کی آغوش میں کھیلنے سے پہلے دنیا کو الوداع کہہ دے، وہ انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ کینسر، گردے کی بیماری، شوگر، ہارٹ اور دیگر لاعلاج مریض دم توڑ رہے ہیں، کیونکہ یا تو دوا نہیں، یا ڈاکٹر مار دیے گئے۔

جب ایک بچہ بھوک سے بلک بلک کر دم توڑتا ہے اور دنیا صرف سوشل میڈیا پر تصویریں شیئر کر کے جذباتی ہو کر خاموش ہو جاتی ہے، تو یہ ضمیر کی نیند کی دلیل ہے۔ اقوامِ متحدہ، عالمی عدالتِ انصاف، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اسلامی دنیا کی حکومتیں، سب کے سب صرف مذمتی بیانات سے آگے نہیں بڑھے۔ انسانیت کے علمبردار ممالک نے اس ظلم کے خلاف نہ تو کوئی ٹھوس اقدام اٹھایا اور نہ ہی اسرائیل پر کوئی پابندیاں لگائیں۔
"جو ظلم کو دیکھ کر خاموش رہے، وہ بھی ظالم کے جرم میں شریک ہوتا ہے۔"

غزہ کا یہ ظلم آنے والی نسلوں کے لیے انسانی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہوگا۔ یہ وہ وقت ہے جب دنیا دو طبقوں میں بٹ گئی ہے: ایک وہ جو ظالم کے ساتھ ہے، اور دوسرا وہ جو مظلوم کا ساتھ دینے کی جرات نہیں رکھتا۔ تیسرا طبقہ، جو واقعی بیدار اور باعمل ہے، نہایت کمزور اور بےاثر بنا دیا گیا ہے۔

"وہ جو چیخ نہ سکے، مر گئے
ہم جو سن نہ سکے، زندہ ہیں؟"


اتوار، 27 جولائی، 2025

تابوتِ سکینہ



تابوتِ سکینہ
(Ark of the Covenant)
تینوں آسمانی مذاہب — یہودیت، عیسائیت، اور اسلام — میں ایک نہایت محترم اور پراسرار شے سمجھا جاتا ہے۔ یہ صرف ایک صندوق نہیں، بلکہ ایک روحانی علامت، مذہبی میراث، اور الٰہی طاقت کی نشانی تھا جسے بنی اسرائیل کی روایات کے مطابق ، انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے جانشینوں کے دور میں خدا کے حکم سے محفوظ کیا تھا۔
لیکن تابوتِ سکینہ کہاں ہے؟ کیا یہ حقیقتاً موجود تھا؟ اگر تھا، تو اب کہاں غائب ہے؟ ان سوالات نے صدیوں سے محققین، مؤرخین، مہم جوؤں، اور مذہبی عقائد کے ماننے والوں کو متجسس رکھا ہے۔
تابوتِ سکینہ کیا تھا؟
تابوتِ سکینہ ایک مقدس لکڑی کا صندوق تھا جو تقریباً ساڑھے تین فٹ لمبا، ڈھائی فٹ چوڑا اور ڈھائی فٹ اونچا تھا، اور خالص سونے سے منقش تھا۔ تورات کے مطابق، اس میں درجِ ذیل مقدس اشیاء رکھی گئی تھیں
الواحِ موسوی (تختیاں جن پر دس احکام درج تھے) ، حضرت ہارونؑ کا عصا
منّ و سلویٰ کا نمونہ، کچھ دیگر مقدس یادگاریں
یہودی عقیدے کے مطابق، تابوت سکینہ میں خدا کی موجودگی کا عکس تھا، اور جب بنی اسرائیل کسی جنگ پر جاتے تو وہ اسے آگے لے کر چلتے، اور یہی ان کے لیے فتح کی علامت ہوتا۔
قرآنِ کریم میں تابوتِ سکینہ کا ذکر سورہ البقرہ، آیت 248 میں موجود ہے:
"اور ان کے نبی نے ان سے کہا: اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس تابوت آئے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے سکون و اطمینان اور کچھ باقی ماندہ چیزیں ہوں گی جو آلِ موسیٰ اور آلِ ہارون نے چھوڑیں، اور اسے فرشتے اٹھائے ہوں گے۔"
اس آیت کے مطابق، تابوت سکینہ صرف مادی صندوق نہیں بلکہ روحانی سکون اور ربانی تسکین کا مرکز بھی تھا، اور یہ حضرت طالوت علیہ السلام کی بادشاہی کی علامت بنا۔
تابوت سکینہ کا آخری مصدقہ تاریخی ذکر تقریباً 586 قبل مسیح میں آتا ہے، جب بابل کے بادشاہ نبوکدنضر نے یروشلم پر حملہ کیا اور ہیکلِ سلیمانی کو تباہ کر دیا۔ اس کے بعد یہ صندوق اچانک تاریخ سے غائب ہو گیا۔
مورخین کے مطابق، تابوت:
تباہ کر دیا گیا،
چھپا دیا گیا
فرشتوں کے ذریعے آسمان پر اٹھا لیا گیا
بحرِ مردار یا غاروں میں دفن کر دیا گیا
تاہم ان میں سے کوئی نظریہ قطعی ثبوت کے ساتھ ثابت نہیں ہو سکا۔
تابوت سکینہ کی تلاش: جدید کوششیں اور نظریات
تابوتِ سکینہ کو تلاش کرنے کی کوششیں آج بھی جاری ہیں، جن میں مذہبی علماء، آثارِ قدیمہ کے ماہرین، حتیٰ کہ خفیہ ایجنسیاں اور مغربی صیہونی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ چند مشہور نظریات درج ذیل ہیں:
ایتھوپیا کا دعویٰ:
ایتھوپیا کی ایک قدیم چرچ کا دعویٰ ہے کہ تابوت ان کے پاس ہے اور اسے "آکسوم" (Axum)
شہر میں انتہائی حفاظت سے رکھا گیا ہے، لیکن کسی کو دیکھنے کی اجازت نہیں۔
بحرِ مردار کے غار:
کچھ محققین کا خیال ہے کہ تابوت کو بنی اسرائیل کے کچھ نیک افراد نے بحرِ مردار
(Dead Sea)
کے قریبی غاروں میں چھپا دیا۔
یہودا کے پہاڑ:
کچھ اسرائیلی مؤرخین کا دعویٰ ہے کہ تابوت ہیکل کے نیچے تہہ خانوں میں دفن ہے، اور اسی بنیاد پر وہ مسجد اقصیٰ کے نیچے کھدائیاں کر رہے ہیں۔
آسمانی مقام:
اسلامی روایات میں بھی ایک رائے یہ ہے کہ تابوت کو فرشتے اٹھا لے گئے اور وہ قیامت سے پہلے واپس آئے گا۔
تابوتِ سکینہ اور جدید سیاست
تابوتِ سکینہ اب صرف ایک مذہبی یا تاریخی معاملہ نہیں رہا، بلکہ یہ صیہونی سیاست کا ایک کلیدی عنصر بن چکا ہے۔ بعض یہودی تنظیمیں تابوت کو مسجد اقصیٰ کے نیچے موجود مانتی ہیں، اور اسی بنیاد پر الاقصیٰ کو شہید کر کے ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ ایک نہایت خطرناک تصور ہے کیونکہ مسجد اقصیٰ کا مقام مسلمانوں کے لیے مکہ اور مدینہ کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے، اور اس کے خلاف کوئی بھی کارروائی پوری امت مسلمہ کے جذبات کو بھڑکا سکتی ہے۔
تابوتِ سکینہ تاریخ، عقیدہ اور روحانیت کا ایک نادر امتزاج ہے۔ اس کی حقیقت کے بارے میں آج بھی مکمل یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن اس پر عقیدے کی شدت اور سیاسی مقاصد کی آمیزش نے اسے ایک پرخطر بحث بنا دیا ہے۔

نیتن یاہو کے بارے میں پیشگوئیاں





 نیتن یاہو کے بارے میں یہودی، مسیحی اور سیاسی پیشگوئیاں

نیتن یاہو، اسرائیل کی سیاست کا سب سے نمایاں اور متنازع ترین کردار، صرف ایک سیاستدان نہیں بلکہ ایک خاص "صیہونی ایجنڈے" کی علامت بھی بن چکا ہے۔ بعض یہودی انتہاپسند، عیسائی ایوینجلسٹ اور سیاسی مبصرین اسے آخری زمانے کی پیشگوئیوں سے منسلک کرتے ہیں۔ یہ مضمون انہی دعووں کا تحقیقی جائزہ پیش کرتا ہے،
یہودی روایات میں نیتن یاہو کا مقام: یہودی عقائد میں "مشیح" (Messiah)
کے ظہور کی دو بڑی اقسام بیان کی گئی ہیں: i. مشیح بن یوسف (Mashiach ben Yosef): جس کے متعلق توراتی روایات میں ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے دشمنوں کے خلاف جنگ کرے گا اور شہید ہوگا۔ اس کا ذکر تلمود میں آتا ہے:
"The Messiah son of Joseph will come first, fight the wars of the Lord, and die in battle"
بعض شدت پسند یہودی حلقے نیتن یاہو کو اسی مشیح بن یوسف کے طور پر دیکھتے ہیں جو ہیکل کی دوبارہ تعمیر اور دجالی دور کی راہ ہموار کرے گا۔
ii. یہودی تنظیم “Temple Institute” کا مؤقف: Temple Institute نے 2018 میں دعویٰ کیا کہ وہ ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کے لیے "تیار" ہیں، اور ان کے مطابق نیتن یاہو جیسے مضبوط لیڈر اس منصوبے کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔
عیسائی ایوینجلسٹ پیشگوئیاں: ایوینجلسٹ عیسائی عقیدہ رکھتے ہیں کہ
اسرائیل کی مضبوطی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی واپسی کی علامت ہے۔
تیسرا ہیکل (Third Temple)
کی تعمیر لازمی ہے۔
نیتن یاہو اس راہ کے "منتخب رہنما" ہیں۔
حوالہ:
پادری John Hagee ، جو "Christians United for Israel" کے بانی ہیں، نے کہا: "Netanyahu is fulfilling biblical prophecy — he is God's chosen defender of Israel before the Messiah comes again."
(Source: CUFI Annual Conference, 2019)
دیگر پیشگوئیاں:
ایوینجلسٹ مصنف Hal Lindsey نے اپنی کتاب The Late Great Planet Earth (1970)
میں دعویٰ کیا کہ: "The reestablishment of Israel and the leadership of bold men will lead to Armageddon."
یہ دعویٰ نیتن یاہو کی موجودگی سے جوڑا جا رہا ہے۔
نیتن یاہو اور “Greater Israel” کا نظریہ:
نیتن یاہو کے بیانات میں بارہا یہودا اور سامریہ (West Bank) کو اسرائیل کا ابدی حصہ قرار دیا گیا ہے۔
"We will never uproot another settlement. It is time to apply Israeli sovereignty."
(Netanyahu speech, Ma'ale Adumim, 2017)
Thomas Friedman (NYT columnist)
لکھتے ہیں:
“Netanyahu is not merely a political leader — he’s a messianic nationalist.”
(NYT, March 2019)
سیاسی مقاصد:
ایران کا مقابلہ
عرب ممالک سے تعلقات (Abraham Accords)
مسجد اقصیٰ پر قبضہ کی راہ ہموار کرنا
اسلامی نقطۂ نظر اور نیتن یاہو: اسلامی تعلیمات میں نیتن یاہو جیسے کرداروں کو باطل کے سپاہی اور دجال کے ایجنڈے کے کارندے کہا گیا ہے:
قرآن سے استدلال: "وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا"
(البقرہ: 217)
"یہ لوگ تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے تاکہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں اگر وہ ایسا کر سکیں۔"
علامہ اقبال کی پیشگوئی: "یہودی دماغ، عیسائی تلوار، اور ہنڈی زبان کا امتزاج دنیا کی سب سے خطرناک سازش ہے۔"
(اقبال نامہ، حصہ دوم)
5. نیتن یاہو کا مستقبل اور عالمی تباہی کا خطرہ: نیتن یاہو کے ادوارِ حکومت:
1996–1999, 2009–2021 , 2022 تا حال
بار بار اقتدار میں واپس آنا نیتن یاہو کی ذاتی تشہیر کرنے والے اس کو ما فوق الفطرت واقعہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسرائیلی تجزیہ نگار Ben Caspit لکھتے ہیں:
"Netanyahu is addicted to power because he believes he has a divine mission."
(Book: The Netanyahu Years, 2017)
نیتن یاہو کی ذاتی تشہیر کرنے والے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ :
نیتن یاہو محض ایک سیاسی شخصیت نہیں بلکہ یہودی پیشگوئیوں کا ممکنہ کردار، عیسائی ایوینجلسٹ عقائد کا مرکز ، صیہونی منصوبوں کا ترجمان ہے
جبکہ دنیا بھر کے لوگوں کا ماننا ہے کہ نیتن یاہو باطل نظام کا نمائندہ بن چکا ہے۔ دنیا بھر کے مذہبی علماء ، سیاسی پنڈت ، تاریخ دان اور حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والے بتاتے ہیں کہ ایک طرف پروپیگنڈہ کی بھرمار ہے اور دوسری طرف مکافات عمل کی دنیا ہے ۔ فلسطین سے باہر پیدا ہونے والے ، اپنی اصلی شناخت کو چھپا کر نیتن یاہو کا نام استعمال کرنے والے ، معصوم بچوں کے قاتل ، مظلوموں کا پانی اور خوراک بند کرنے والے ، اور سر عام قانون کی دھجیاں آڑانے والے کا انجام دنیا کے سامنے آنے والے ہے ۔ چراغ سحر کی لو بجھنے سے پہلے زیادہ ہو جاتی ہے ۔ بیمار موت سے فوری پہلے تندرست ہو جاتا ہے ۔ اور ظالم انجام سے قبل ظلم کی انتہاوں کو چھونے کی کوشش کرتا ہے ۔ یہی تاریخ کا سبق ہے اور یہی دیوار بخت پر تحریر ہے ۔

اسرائیل کی تباہی کی پیشگوئیاں





اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی دنیا کے مختلف مذہبی، سیاسی اور فکری حلقوں میں اس کے انجام کے بارے میں بحث شروع ہو گئی۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اسرائیل کا وجود دائمی ہے یا اس کے زوال اور تباہی کے متعلق کچھ پیشگوئیاں موجود ہیں؟ کیا مذہبی کتب، اسلامی احادیث، اور عالمی واقعات کی روشنی میں اسرائیل کے انجام کا کوئی خاکہ موجود ہے؟ اس تحقیقی مضمون میں ان تمام پہلوؤں کا غیر جانبدارانہ اور جامع جائزہ لیا گیا ہے۔
 اسلامی پیشگوئیاں اور احادیث
 قرآنِ کریم میں بنی اسرائیل کا انجام
سورۃ بنی اسرائیل (الاسراء) آیت 4-7:
"ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں خبردار کر دیا تھا کہ تم زمین میں دو بار فساد برپا کرو گے اور بہت بڑی سرکشی کرو گے۔"
علمائے تفسیر کے مطابق
پہلی مرتبہ فساد: حضرت داؤدؑ اور سلیمانؑ کے بعد، ان کی نافرمانیوں کی صورت میں۔
دوسری مرتبہ فساد: قیامت کے قریب، جب وہ فلسطین میں دوبارہ اکٹھے ہوں گے۔
قرآن ان دونوں فسادات کے بعد سزا اور تباہی کا ذکر کرتا ہے۔
 حدیثِ نبویﷺ: "یہودیوں کے خلاف آخری جنگ"
مشہور حدیث
"قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک مسلمان یہودیوں سے نہ لڑیں۔ مسلمان یہودی کو قتل کرے گا، یہاں تک کہ یہودی درخت یا پتھر کے پیچھے چھپے گا، اور وہ درخت یا پتھر کہے گا: اے مسلمان! اے عبداللہ! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہے، آ کر اسے قتل کر."
— (صحیح مسلم: 2922)
یہ حدیث اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ یہود کا زوال ایک فیصلہ کن جنگ کے ذریعے ہوگا، اور مسلمان اس جنگ میں کامیاب ہوں گے۔ کئی مفسرین اس کو فلسطین میں آخری معرکے (ملحمہ) سے جوڑتے ہیں۔
 یہودی روایات میں اسرائیل کا زوال
یہودیوں کی اپنی کتابوں میں بھی اسرائیل کے زوال کے اشارے ملتے ہیں
تلمود اور زہوَر (Kabbalistic کتابیں) 
میں بیان ہے کہ
"اگر بنی اسرائیل خدا کے احکام سے روگردانی کریں گے، تو سرزمین انہیں قید و تباہی کا مزہ چکھائے گی۔"
کچھ یہودی علما، خاص طور پر نتورے کارتا
 (Neturei Karta)
 جیسے گروہ، اسرائیل کے قیام کو "الہی لعنت" قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق:
"بغیر مسیح
 (Messiah)
 کی آمد کے اسرائیل کا قیام خدا کی نافرمانی ہے۔"
 عیسائی پیشگوئیاں اور ایوانجیلیکل نظریہ
کچھ عیسائی فرقے، خاص طور پر
 Evangelicals
، مانتے ہیں کہ
اسرائیل کا قیام آخری زمانے کی ایک "علامت" ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کو قائم ہونا ہے تاکہ آخرکار دجال کا خروج ہو، اور پھر حضرت عیسیٰؑ واپس آ کر دجال کو شکست دیں۔
اس نظریے کے مطابق اسرائیل کی تباہی حضرت عیسیٰؑ کی آمد ثانی کے بعد ہو گی۔
 صیہونی منصوبہ اور خود اسرائیلی تشویش
صیہونی خود جانتے ہیں کہ اسرائیل کا قیام مصنوعی، غیر فطری اور مسلسل خطرات سے گھرا ہوا ہے۔
اسرائیلی ماہرین خود کہتے ہیں کہ
"اگر اسرائیل اگلی 50 سالوں تک عالمی طاقتوں کی مدد کے بغیر زندہ رہتا ہے، تو یہ ایک معجزہ ہو گا۔"
اسرائیلی دانشور یُوال نواح حراری 
(Yuval Noah Harari)
 کا قول
"اسرائیل کی بقا صرف طاقت پر ہے، جیسے ہی یہ طاقت کمزور ہو گی، وجود بھی خطرے میں ہو گا۔"
 عالمی جغرافیائی حقائق اور اسرائیل کی ناپائیداری
اسرائیل جغرافیائی لحاظ سے نہایت محدود، محصور اور دشمنوں سے گھرا ہوا ہے۔
اس کی داخلی آبادی میں مذہبی، لبرل، روسی، افریقی، اور عرب یہودیوں کے درمیان شدید اختلافات ہیں۔
فلسطینی مزاحمت، ایران، حزب اللہ، اور دیگر مزاحمتی تحریکیں اسرائیل کے وجود کو ہر وقت چیلنج کرتی ہیں۔
حالیہ عالمی رجحانات اور اسرائیل کا زوال
عالمی سطح پر اسرائیل کی مخالفت بڑھ رہی ہے 
(BDS Movement
یورپ میں احتجاج، اقوام متحدہ کی رپورٹس)۔
نوجوان یہودی بھی اسرائیل کی پالیسیوں سے متنفر ہو رہے ہیں۔
امریکی حمایت کمزور ہو رہی ہے، اور مستقبل میں اسرائیل کو تنہا کیے جانے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
نتیجہ: کیا اسرائیل کا زوال یقینی ہے؟
 اسلامی نکتہ نظر سے:
اسرائیل کا انجام تباہی ہے، جیسا کہ قرآن اور احادیث میں ذکر ہے۔
 یہودی مذہبی نکتہ نظر سے:
بغیر مسیح کے قیام کو لعنت سمجھا جاتا ہے، اور زوال کا اندیشہ موجود ہے۔
 عالمی سیاسی منظرنامے سے
اسرائیل ایک ناپائیدار ریاست ہے جو عسکری قوت اور بیرونی امداد پر قائم ہے — جیسے ہی یہ سہارے چھنے، زوال قریب ہو گا۔
مسلمانوں کو جذبات سے ہٹ کر علم، اتحاد، سفارت، میڈیا اور عسکری سطح پر بیداری لانا ہو گی۔ اسرائیل کا زوال دعاؤں اور انتظار سے نہیں، بلکہ دانائی اور حکمت پر مبنی جدوجہد سے ممکن ہے۔ کیونکہ اللہ کی سنت یہ ہے:
"إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ"
(الرعد: 11)