بدھ، 14 جنوری، 2015

کتا کی وفاداری کی تعریف


کتا کی وفاداری کی تعریف
۔ بلاشبہ وفاداری ایک خوبی ہے، جو کتے میں پائی جاتی ہے (اور جس سے سب سے پہلے خود انسان کو عبرت پکڑنی چاہئے تھی )
مذمتی خصوصیات
۔ کتے کی سب سے بُری صفت یہ ہے کہ وہ اپنی برادری یعنی کتوں سے نفرت کرتا ہے، اسی وجہ سے جب ایک کتا دُوسرے کتے کے سامنے سے گزرتا ہے وہ ایک دُوسرے پر بھونکنا شروع کردیتے ہیں،
کتا کلچرکی مذمت
جن چیزوں کو آدمی خوراک کے طور پر استعمال کرتا ہے، ان کے اثرات اس کے بدن میں منتقل ہوتے ہیں، خنزیر کی بے حیائی اور کتے کی نجاست خوری ایک ضرب المثل چیز ہے۔ جو قوم ان گندی چیزوں کو خوراک کے طور پر استعمال کرے گی اس میں نجاست اور بے حیائی کے اثرات سرایت کریں گے، جن کا مشاہدہ آج کی سوسائٹی میں کھلی آنکھوں کیا جاسکتا ہے ۔ موجودہ دور میں اگر دیکھا جائے تو اقوامِ دُنیا میں سب سے زیادہ کتوں سے محبت کرنے والے لوگ ھی لوگوں کے دشمن ھیں ۔
کتوں کے لیے ٹرسٹ
اہلِ یورپ کی کتوں سے محبت کا اندازہ اس واقعے سے خوب لگایا جاسکتا ہے کہ جب انگلستان کی مشہور خاتون ”مسز ایم سی وہیل“ بیمار ہوئی تو اس نے وصیت کی کہ اس کی تمام املاک اور جائیداد کتوں کو دے دی جائے۔ خاتون کے مرنے کے بعد اس کی وصیت کے مطابق اب اس کی تمام جائیداد کے وارث کتے ہیں، اس جائیداد سے کتوں کی پروَرِش، افزائشِ نسل ایک ٹرسٹ کے تحت جاری ہے۔ ف
رشتہ کتے والے گھر میں داخل نہیں ہوتا۔
مشکوٰة صفحہ:۳۸۵ میں صحیح مسلم کے حوالے سے اُمّ الموٴمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ: ایک دن صبح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی افسردہ اور غمگین تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: آج رات جبرائیل علیہ السلام نے مجھ سے ملاقات کا وعدہ کیا تھا مگر وہ آئے نہیں، (اس کا کوئی سبب ہوگا ورنہ) بخدا! انہوں نے مجھ سے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی۔ پھر یکایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کتے کے پلے کا خیال آیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تخت کے نیچے بیٹھا تھا۔ چنانچہ وہ وہاں سے نکالا گیا، پھر جگہ صاف کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے دستِ مبارک سے وہاں پانی چھڑکا۔ شام ہوئی تو جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شکایت فرمائی کہ آپ نے گزشتہ شب آنے کا وعدہ کیا تھا (مگر آپ آئے نہیں)، انہوں نے فرمایا: ہاں! وعدہ تو تھا مگر ہم ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا ہو یا تصویر ہو۔
کتا پالنے کی اجازت
شکار کے لئے، یا غلہ اور کھیتی کے پہرے کے لئے یا ریوڑ کے پہرے کے لئے،اگر مکان غیرمحفوظ ہو تو اس کی حفاظت کے لئے کتا پالنا علما کے نزدیک صحیح ھے۔
کتا نجس ہے
اس کے جھوٹے برتن کو سات دفعہ دھونے اور ایک دفعہ مانجھنے کا حکم دیا گیا ہے، حالانکہ نجس برتن تو تین دفعہ دھونے سے شرعاً پاک ہوجاتا ہے۔
پیاسا کتا اور جنت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ایک شخص نے ایک کتا دیکھا جو پیاس کے مارے گیلی مٹی چاٹ رہا تھا اُس نے اپنا موزہ اتارا اور اس میں پانی بھر کر اس کو پلانا شروع کیا یہاں تک کہ وہ سیر ہوگیا اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو اس کے بدلے جنت میں داخل کر دیا
کتے کا احادیث بخاری میں ذکر
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی ﷺ سے( کتے کے شکار کے بارے میں) پُوچھا تو آپﷺ نے فرمایا جب تو اپنا سدھایا ہوا ( شکاری) کتا چھوڑے وہ شکار کو مار دے تو اس کو کھالو، اور اگر وہ اس میں سےکچھ کھالے تو تم مت کھاؤ، اس لیے کہ یہ اس نے اپنے لیے پکڑا ہے، میں نے عرض کی بسا اوقات میں اپنا کتا چھوڑتا ہوں اور اس کے ساتھ کوئی اور کتا بھی شریک ہوجاتا ہے آپﷺ نے فرمایا: ایسا شکار مت کھاؤ کیوں کہ آپ نے اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھی تھی نہ کہ اس پر۔
کتا کس مٹی سے بنایا گیا
بعض معاشروں میں مشہور ھے کا کتا اسے مٹی سے بنا جس مٹی سے آدم کو بنایا کیا تھا .اللہ تعالی نے جب انسان کو بنایا تو اس کی ناف میں جو گڑھا ہے وہاں سے مٹی نکال کر پھینک دی تو اس مٹی میں شیطان نے اپنا لعاب دہن ملا دیا بھر اس مٹی سے کتا بنایا گیا۔اسی لئے کتے میں وفاداری اور صفات لاجواب ہیں . یہ غلط ہے اور محض من گھڑت قصے ھیں ۔
سیاست میں کتے کا ذکر
کتے کی ذات کا سیاسی استعمال پاکستان میں پہلی بار جنرل پرویز مشرف نے کیا ۔ایک کالم نگار نے سیاسی حالات پر تبصرہ کرتے ھوے لکھا کہ نواز شریف کا کتا ، کتا اورعمران کا کتا شیرو
کتے کا لعاب
کتے کے لعاب میں ایک خاص قسم کا زہر ہے جس سے بچنا ضروری ہے، اور یہی وہ زہر ہے جو کتے کے کاٹنے سے آدمی کے بدن میں سرایت کرجاتا ہے سائنسی تحقیقات کے مطابق کتے کے جراثیم بے حد مہلک ہوتے ہیں، اور اس کا زہر اگر آدمی کے بدن میں سرایت کرجائے تو اس سے جاں بر ہونا اَزبس مشکل ہوجاتا ہے۔
امریکی کتا
طالبان نے دسمبر2013 میں اتحادی افواج کا ایک کتا پکڑا تو معلوم ھوا وہ کرنل ھے ۔
اصحاب کہف اور کتا
شیخ شنقیطی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہيں : اللہ سبحانہ وتعالی کا اپنی کتاب میں اصحاب کھف کی شان بیان کرتےہوۓ اس کتے کا ذکر کرنا اور اس کا غارکی چوکھٹ پرپاؤں پھیلاۓ ہوۓ ہونا اس بات پردلالت کرتا ہے کہ اچھے لوگوں کی صحبت کا بہت عظیم فائدہ ہے ۔ ابن کثیررحمہ اللہ تعالی اس آيت کی تفسیر بیان کرتےہوۓ کہتے ہيں : ان کا کتا بھی اس برکت میں شامل ہوا اس حالت میں انہیں جونیند آئ اس کتے کوبھی اسی طرح نیندحاصل ہوئ ، اوراچھے لوگوں کی صحبت کا یہی فائدہ ہے ، جس کی بناپراس کتے کا بھی ان لوگوں ساتھ ذکراور شان ومقام ہوا ۔اھـ اوراسی معنی پر انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی دلالت کرتا ہے آپ نے اس شخص فرمایا جس نے یہ کہا تھا کہ میں اللہ تعالی اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں ، تو فرمایا ، تواس کے ساتھ ہی ہوگا جس سے محبت کرتا ہے ۔ بخاری و
مسلم ۔

کتے کی دس صفات 

حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں.
کہ کتے کے اندر دس صفات ایسی ہوتی ہیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی انسان کہ اندر پیدا ھو جائے تو وہ ولی اللہ بن سکتا ھے. فرماتے ہیں کہ
1: کتے کے اندر قناعت ہوتی ھے. جو مل جائے اسی پر قناعت کر لیتا ھے. راضی ہو جاتا ھے. یہ قانعین یا صابرین کی علامت ھے.
2: کتا اکثر بھوکا رہتا ھے. یہ صالحین کی نشانی ھے.
3: کوئی اس پر زور کی وجہ سے غالب آجائے تو یہ اپنی جگہ چھڑ کر دوسری جگہ چلا جاتا ھے. یہ راضیین کی علامت ھے.
4: اس کا مالک اسے مارے بھی سہی تو یہ مالک کو چھوڑ کر نہیں جاتا. یہ مریدان صادقین کی نشانی ھے.
5: اگر اس کا مالک کھانا کھا رھا ہو تو باوجود طاقت اور قوت کے یہ اس کھانا نہیں چھینتا،دور سے ہی بیتھ کر دیکھتا رہتا ھے. یہ مساکین کی علامت ھے.
6: جب مالک اپنے گھر میں ہو تویہ دور جوتے کے پاس بیٹھہ جاتا ھے. ادنٰی جگہ پہ راضی ہو جاتا ھے. یہ متواضعین کی علامت ھے.
7: اگر اس کا مالک اسے مارے اور تھوڑی دیر کے لیے چلا جا ئے اور پھر مالک دوبارہ اسے ٹکٹرا ڈال دے تو دوبارہ آکر کھا لیتا ھے اس سے ناراض نہیں ہوتا. یہ کاشعین کی علامت ھے.
8: دنیا میں رہنے کے لئے اس کا اپنا کوئی گھر نہیں ہوتا. یہ متوکلین کی علامت ھے.
9: رات کو بہت کم سوتا ہے. یہ محبین کی علامت ھے.
10: جب مرتا ھے تو اس کی کوئی میراث نہیں ہوتی.یہ زاہدین کی علامت ھے.
غور کریں کہ کیا ان صفات میں سے کئی صفت ھم میں بھی موجود ھے!

پیر، 12 جنوری، 2015

جن کا قصہ


جن اور انسان اللہ تعالی کی دو ایسی مخلوق ہیں جو باقی مخلوق سے مختلف اور برتر ہیں ۔ انسان خاکی ہے تو جنات آتشی مخلوق ہے ۔ ایک خاک کا پتلا ہے تو دوسرا آگ کا شعلہ ۔ لیکن انسان ساری مخلوق سے ،حتی کہ جنات سے بھی برتر ہے ۔ محمدعربی رسول اللہ کی بعثت سے قبل عوب معاشرہ جنوں کو تابع کرنے اور ان سے کام لینے میں شہرت رکھتا تھا ۔ بھارت کے بعض ہندو جنوں کے پجاری ہیں اور بعض انھیں تابع رکھنے اور ان سے کام لینے کا دعوی بھی رکھتے ہیں ۔ مگر جنات کے معاملہ میں عرب ہنود سے بیت آگے تھے ۔ عربوں میں جنات کو تابع کرنے اور ان سے کام لینے کے عمل نے باقاعدہ ایک پیشہ کی شکل اختیار کر لی تھی ۔ بعض اوقات عامل مونث جنات سے شادی بھی کر لیتے تھے ۔عربوں کے مطابق جو جنات جنگلوں اور صحراوں میں رہتے تھے اور بھیس بدل کر انسانوں کو دہوکہ دیتے تھے ان کا نام انھوں نے غول رکھا ہوا تھا ۔ اور اس کے مونث کو سعلہ کہتے تھے ۔ عمرو بن یربوع نامی عامل نے ایک سعلہ سے شادی بھی کر رکھی تھی ۔اور اس سے اس کی اولاد بھی ہوئی تھی ۔‍ قرآن مجید میں جس ملکہ بلقیس کا ذکر ہے اس کے بارے میں یمنیوں اور عربوں کا اعتفاد تھا کہ وہ ایک سعلہ ہی کے پیٹ سے تھی ۔ عربوں کے اعتقاد کے مطابق جنوں کے کی کئی اقسام اور قبیلے تھے ۔ ابسے جنات جو انسانوں کے ساتھ مل جل کر رہتے تھے ان کا نام عامر تھا ۔ جو جنات لوگوں کو ڈراتے اور خوفزدہ کرتے تھے ان کا نام انھوں نے روح رکھا ہوا تھا ۔ شریر جنات کو شیطان کے نام سے یاد کیا جاتا تھا ۔ جو جن بالکل قابو میں نہ آ سکے اور انسان کے مقابلے پر آمادہ ہو اس کو عفریت کا نام دیتے تھے ۔ حضرت علی کے والد ابوطالب کے بڑے بیٹے کا نام طالب تھا ۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بچپن میں انھیں جن اٹھا کر لے گئے تھے اور پھر ان کا کوئی پتہ نہ چل سکا ۔ جنات کو تابع کرنے کے عمل میں بعض اوقات جنات عاملین پر حاوی ہو جاتے اوربعض اوقات عامل جنات کو مار بھی دیا کرتے تھے ۔ مشہور ہے کہ طہوی نامی عامل نے ایک بھوت کو جان سے مار دیا تھا ۔ پیشہ ور عاملین کاہن کہلاتے تھے اس کا دعوی تھا کہ جنات ان کے تابع ہیں جو ان کو غائب کی خبریں مہیا کرتے ہیں ۔ ان کا معاشرتی اور معاشی معیار عام لوگوں کے مقابلے میں بہت بلند ہوتا تھا ۔ ماخوذ ازکتاب ' الحیوان جاحظ '

منگل، 2 دسمبر، 2014

وحشی کا قصہ


حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رسول اللہ کے سگے چچا تھے ۔ بہادر اور دبنگ شخصيت کے مالک ، خوش شکل ، خوش اطوار ، زبان کے پکے اور خطرہ کے وقت ثابت قدم رھنے والے ۔ نسبی وجاھت اس کے علاوہ تھی ۔ ايک جنگ کے دوران ان کی تلوار نے اوروں کے ساتھ ايک ايسے سورماء کو بھی کاٹ گرايا جو اپنے قبيلے کا سردار بھی تھا ۔ بدلہ لينے کے ليے قبيلے نے ايک اور جنگ کی تياری شروع کر دی ليکن يہ عام آدمی کا بدلہ نہ تھا ۔ اس کے خاندان کی ايک عورت نے حضرت حمزہ کا کليجہ چبانے کی قسم کھائی اور اس مقصد کے ليے وحشی نامی ايک غلام کو دولت کے لالچ ميں تيار کيا ۔ ياد رھے اس وقت جنگ سورماء اور بہادر جنگجو لوگوں کے درميان ھوا کرتی تھی اور وحشی جيسے غلام کو جس طرح استعمال کيا وہ جنگی روايات کے خلاف اور دھوکہ تھا ۔ جناب امير حمزہ عين جنگ کے گمسان کے وقت جب بہادری کے جوھر دکھا رھے تھے اس وقت وحشی نے انھيں دھوکہ سے شہيد کر ديا ۔ اور اپنی کاميابی کی قيمت وصول کرنے جب مکہ پہنچا تو اس کو سوائے مايوسی کے کچھ حاصل نہ ھوا ۔ اور دولت بھرے وعدے کی ايفا سے انکار کر ديا گيا ۔ وحشی نے اپنے دل ميں کہا کہ ميں حضرت حمزہ کو تو زندہ کر نہيں سکتا ، کيوں نہ اپنی آخرت ھی سنواروں ۔
وہ ايک آدمی کے واسطے سے نبی اکرم سے معافی کا خواستگار ھوا ۔ اپنے جرم کی سنگينی کا بھی احساس تھا ، پوچھا کيا در گذر اور معافی کی گنجائش نکل سکتی ھے ۔ رحمت العالمين کی طرف سے جواب آياھاں
' اگر تو توبہ کر لے تو ضرور گنجائش ھے ۔
وحشی نے پھر کہلوايا کہ ميں ضمانت چاھتا ھوں ۔
حضور اکرم نے فرمايا ميں ضمانت ديتا ھوں ۔
وحشی کا خوف کم نہ ھوا پھر کہلوا بھيجا کہ آپ کے خدا کا يہ فرمان ھے کہ آپ کو خود کسی امر کا اختيار نہيں ھے ۔ ضمانت تو اس کی چاھيے جس کے اختيار ميں کچھ ھو ۔اس پر فرشتے نے رب العالمين کا حکم پہنچايا کہ
جس نے شرک نہ کيا اس کی بخشش اللہ کی مشيت پر ھے
  وحشی کا خوف پھر بھی دور نہ ھوا اور کہلا بھيحا کہ
بخشش کا حال اس کی مرضی پر ھے ، مجھے نہيں معلوم کہ وہ مجھے بخشے گا کہ نہيں لہذا اس سے بہتر شرط چاھتا ھوں تاکہ آپ کی اتباعت ميں آ جاوں، اس پر حکم نازل ھوا کہ
وہ لوگ جنھوں نے کسی دوسرے معبود کو نہ پکارا، کسی شخص کو بلا جرم اور گناہ قتل نہ کيا اور زنا کے مرتکب نہ ھوے ۔ وحشی کا خوف بڑھ گيا اور کہلا بھيجا کہ ميں تو تينوں کا مرتکب ھوں وہ مجھے نہيں بخشے گا ۔ اس سے بہتر کوئی شرط ھو تو ميں حاضر ھوتا ھوں ۔
 جواب آيا مگر جس نے توبہ کی اور عمل صالح کيا ۔ خوف زدہ کا خوف دور نہ ھوا ۔ کہلا بھيجا کہ ايمان تو لے آوں گا مگر عمل صالح کی شرط پوری نہ کر سکوں گا ۔ اس سے بہتر شرط ھو تو حاضر ھوتا ھوں ۔
اس پر قرآنی فرمان آيا ' کہدو، اے ميرے بندے ، جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کيا ھے ، رب کی رحمت سے مايوس نہ ھونا ، اللہ تمام گناھوں کو معاف کر دے گا ۔ بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحمت کرنے والا ھے' ۔
اس پر وحشی مطمن ھو گيا اور دربار نبی ميں حاضر ھو کر مسلمان ھو گيا۔ بعد میں وحشی نے جنگ یمامہ میں خالد بن ولید کے زیرکمان  مسیلمہ کذاب کوقتل کر کے اھل ایمان کے دلوں کو راحت پہنچائی ۔
اے اللہ ، اے محمد کے رب ، اے وحشی کو معاف کرنے والے کريم ، اگر تو نے ھم سے بڑے کسی گناہگار کو معاف کيا ھے تو ھميں بھی بخش دينا اور محشر کے دن ذلت اور ندامت سے محفوظ رکھنا اور چشمہ کوثر سے سيراب کرنا ۔ امين

زندگی کی دوڑ


کچھوے اور خرگوش کی دوڑ کا قصہ پرانا اور معروف ھے ، اس قصہ میں تیز رفتار خرگوش ، سست رفتار کچھوے سے مات کھا تا ھے اور یہ ایسا بار نہیں بلکہ دو بار ھوتا ھے ۔ خرگوش کی پہلی ناکامی کے دو اسباب تھے تو دوسری بار کی ناکامی کے اسباب بھی دو ھی تھے ۔ قصہ یہ ھے کہ دونوں میں دوڑ کا مقابلہ ھوا ۔ خرگوش اپنی تیز رفتاری کے باعث بہت آگے نکل گیا اور راستے میں سو گیا اور سو کر اٹھا تو کچھوا دوڑ جیت چکا تھا ۔ اس کی ناکامی کا پہلا سبب حد سے بڑھی ھوئی خوداعتمادی اور دوسرا سبب اپنے اصل کام سے توجہ مبذول کر کے دوسرے کام میں مشغول ھو جانا تھا ۔ دوسری بار وہ ایسے راستے پر دوڑ لگانے کے لیے آمادہ ھو گیا جس راستے پر ندی پڑتی تھی اور پانی میں تیرنے کی بنیادی صلاحیت کے عدم ھونے کے باعث وہ یہ مقابلہ بھی ھار گیا ۔ اس بار اس کی ناکامی کا پہلا سبب زمینی حقائق کا ادراک نہ کرنا اور دوسرا سبب اپنی فطری بے صلاحیتی سے عدم واقفیت تھا ۔ زندگی کی دوڑ میں جو لوگ پیچھے رہ جاتے ھیں ۔ انھیں ذرا سانس لے کر اپنے رویے پر دوبارہ غور کرنا چاھیے کہ کہیں ان کی ھار کا سبب ضرورت سے زیادہ اعتماد تو نہیں ھے یا پھر ایسی دوڑ میں تو شامل نہیں ھو چکے جس کا راستہ عبور کرنے کی بنیادی صلاحیت ھی نہیں رکھتے ۔ آج کل کے مسابقتی دور میں ھر شخص کا حق ھے کہ وہ اپنی بنیادی صلاحبتوں کا کھوج لگائے اور یہ بھی دیکھے کہ وہ اپنی بنیادی صلاحیتوں کو بروے کار لانے کے لیے کتنا با عزم ھے ۔ یہ جو کہا جاتا ھے کہ پتھر نشان راہ بن جاتے ھیں، یہ مستقل مزاجی کی طرف کھلا اشارہ ھے۔ بنیادی صلاحیت کے کھوج کے بعد ، مستقل مزاجی کامیابی کا زینہ ثابت ھوتی ھے ۔ انسان کو ھر اس دوڑ میں شرکت سے گریز کرنا چاھیے جس کی خود میں بنیادی صلاحیت موجود نہ پاتا ھو ۔ ایک اچھا بولنے والا اچھا مقرر اور خطیب تو بن سکتا ھے لیکن اس صلاحیت کے بل بوتے پر مصور بن جانا یا کمپیوٹر پر گرافکس کے ماھر کا اچھا سیلزمین بن جانا زمینی حقائق کے منافی ھے ۔ اپنے آپ سے واقفیت حاصل کریں ۔ اپنی صلاحیتوں کا ادراک کریں اور پھر مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کو بروے کار لا کر زندگی کی دوڑ میں شامل ھو جائیے، من‍زل پر کامیابی کو اپنا منتظر پائیں گے ۔

زبان


انسان اپنی زبان سے پہچانا جاتا ھے، انسان جب بولتا ھے تو پرت در پرت اپنی شخصیت کو کھولتا ھے ۔ انٹرویو کے دوران زبان کا سلیقہ ھی دیکھاجاتا ھے۔ انسان کی زبان سے نکلے ھوے الفاظ اسے احترام کی بلندیوں پر پہنچاتے ھیں اور زبان پستی کے گڑھے میں بھی گرا سکتی ھے ۔ مضبوط دلائل اور ثابت شدہ سچائیاں زبان ھی سے بیان ھوتی ھیں ۔ زبان اظہارکا ذریعہ ھے اور ایک زبان تمام زبانوں کی ماں بھی ھوتی ھے۔ زبان خلق کو نقارہ خدا بھی کہتے ھیں ۔ زبان ھی سے نکاح کے وقت ایجاب و قبول ھوتا ھے اور زبان کی تلوار سے ھی رشتے قطع ھوتے ھیں ۔ زبان میٹھی ، ترش ، نرم ، سخت اور دراز بھی ھوتی ھے ۔ زبان کا پکا ھونا اعلی اخلاقی صفت ھے ۔ بعض باتیں زبان زد عام ھوتی ھیں ۔ بعض لوگ پیٹ کے ھلکے بتائے جاتے ھیں حالانکہ وہ زبان کے ھلکے ھوتے ھیں ۔ بعض لوگوں کی زبان کالی ھوتی ھے ۔ زبان سے پھول بھی جھڑ سکتے ھیں ۔ زبان سے کلنٹے بکھیرنا ایک فن ھے ۔ آسمان پر پیوند زبان ھی سے لگایا جاتا ھے ۔ کبھی کبھار زبان تالو سے بھی لگ جاتی ھے ۔ منہ میں گونگنیاں زبان ھی کو چھپانے کے لیے ڈالی جاتی ھیں ۔ کبھی کبھی زبان ذائقہ ھی کھو دیتی ھے ۔ زبان کو قابو میں بھی رکھ سکتے ھیں ۔ زبانی باتوں کی اھمیت کم ھوتی ھے ۔ زبان سے نکلی ھوئی باتیں ھی سنی سنائی ھوتی ھیں ۔ جولوگ گفتار کے غازی بتائے جاتے ھیں حقیقت میں وہ زبان کے غازی ھوتے ھیں ۔ گفتار کے شیر بھی زبان ھی کے شیر ھوتے ھیں ۔ لیڈراور رھنما زبان ھی کے زور سے بنا جاتا ھے ۔ زبان لہو گرانے کے کام بھی آتی ھے ۔ اپنی بات کو زبان سےبیان کرنا ایک فن ھے ۔ زبان کا کرشمہ ھی ھے کہ لوگ زبان نہ سمجھنے کے باوجود سامع بن جاتے ھیں ۔ رھنما کا اثاثہ لوگوں کا اعتماد ھوتا ھو جو زبان سے حاصل کیا جاتا ھے ۔ زبان پر یقین نہ ھونا شخصیت پر بے یقینی کا نام ھے ۔ ساکھ بنانے میں زبان کا عمل دخل ھوتا ھے ۔ زبان خوابیدہ جذبات کو جگا بھی سکتی ھے ۔ زبان سے دل جیتے کا کام بھی لیا جا سکتا ھے ۔ زبان جسم انسانی کے ان دس اعضاء میں سے ایک ھے جن کے بارے میں کہا جاتا ھے کہ جب ایک چلتی تو باقی خوف زدہ رہتے ھیں اوردوسرے نو یہ ھیں ۔ دو کان ، دو آنکھیں ، ایک ناک ، دو ھاتھ اور دو پاوں ۔