پیر، 17 جون، 2024

سفید تل






سفید تل

سفید تل قدیم ترین مصالحوں میں سے ایک ہیں، یہ ہلکے، میٹھے اور گری دار ذائقہ رکھتے ہیں۔ اس میں مختلف غذائی اجزاء جیسے پروٹین، فائبر، کیلشیم، وٹامن بی اور ای کے ساتھ اینٹی آکسیڈنٹس کثرت سے پائے جاتے ہیں جو جسم کو کئی امراض جیسے بلڈ پریشر، چھاتی کا سرطان اور امراض قلب سے تحفظ فراہم کرنے ، فری رڈیکل سے بچاؤ، خون کے سرخ خلیوں کی پیداوار بڑھانے، ہڈیوں کی صحت مند رکھنے، آکسیڈیٹیو تناؤ کو کم کرنے، الزائمر اور ڈیمنشیا جیسے امراض کو روکنے، ہاضمہ بہتر بنانے، توانائی میں اضافہ کرنے کے ساتھ دمہ کو روکنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

تل کے چھوٹے بیج ، تیل سے بھرپور بیج ہیں جو سیسیم پودے پر پھلیوں میں اگتے ہیں۔ یہ غذائیت اور

روغن سے بھرپور غذا بھی ہے، چھوٹے چھوٹے سفید اور کالے رنگ کے بیجوں پر مشتمل تل زمانہ قدیم سے استعمال کیۓ جا رہے ہیں۔

ان کی غذائیت گوشت کے برابر قرار دی جاتی ہے، اس میں گوشت کے تمام خواص پاۓ جاتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ وہ خرابیاں موجود نہیں جو گوشت میں ہوتی ہیں۔ انہیں دوا کا درجہ بھی حاصل ہے۔ ان کی تاثیر گرم ہے ، سردی کے موسم میں ان کا استعمال نہایت مفید ہے۔ تِل بھی خشک میوہ

جات کاحصہ سمجھے جاتے ہیں۔



تل کھانے کا راز۔

تل طاقت حاصل کرنے اور عمر بڑھانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ محنت کشوں کی مضبوطی اور دیہات کے باشندوں کی درازی عمر کا راز تل جیسی معمولی چیز میں پوشیدہ ہے۔ یہ اکثر اوقات گھروں میں سفید اور کالے تل صرف میٹھی غذاؤں اور مخصوص پکوانوں میں ہی استعمال کیے جاتے ہیں، یہ اِن کی افادیت سے لا علمی ہی ہے کہ جو ان کا استعمال شاذو نادر ہی کیا جاتا ہے۔
تل کے غذائی اجزاء۔

بظاہر چھوٹے چھوٹے یہ بیج غذائیت سے بھرپور ہوتے ہیں۔

تِل وٹامنز

منرلز

قدرتی تیل
دیگر نامیاتی مرکبات جیسے۔۔۔

کیلشیئم

آئرن

میگنیشیئم

فاسفورس

میگنیز

کاپر

زنک

فائبر

تھیامن

وٹامن بی سکس

فولیٹ

اور پروٹین سے بھرپور ہوتے ہیں۔
تل کی اقسام اور استعمال۔

اسکی تین اقسام ہوتی ہیں۔ یہ سفید، کالے اور لال رنگ میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں کالے اور سفید تل زیادہ مشہور ہیں،کالے تلوں کا تیل سب سے بہتر اور ادویات کے لئے موزوں ہوتا ہے۔ جبکہ سفید تل کا استعمال مختلف کھانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مٹھائیوں میں بھی بہت ہے۔

سیاہ اور سفید دونوں تلوں کو کولہو میں پیس کر تیل نکالا جاتا ہے جسے عام طور پہ میٹھا تیل کہتے ہیں۔ سیاہ تلوں کا تیل کھانا پکانے‘ مارجرین بنانے کے علاوہ دوائی کے طور پر استعمال ہوتا ہے جبکہ سفید تلوں کا تیل بالوں کی نشوونما کے کام میں لایا جاتا ہے۔
تل کے صحت بخش فوائد۔

اس کے بے شمار فوائد ہیں یہ ذیابیطس، بلڈپریشر، کینسر، ہڈیوں کی کمزوری، جلد کو پہنچنے والے نقصانات، دل کی بیماریوں، منہ کی بیماریوں اور کشیدگی سے بچاتا ہے اور جسم کو ڈیٹاکسیفائی کرتا ہے۔ مزید صحت بخش فوائد درج ذیل ہیں۔
کیلشیئم کی کمی کو پورا کرتا ہے۔

سفید تِل میں کیلشیئم کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ اسی لئے جو کیلشیئم کی کمی کا شکار ہوں انھیں چاہئے کہ وہ سفید تِل کے ذریعے اپنی کیلشیئم کی کمی کو پورا کریں۔ لیکن بہت زیادہ نہ کھائیں۔وہ بھی نقصان دہ ہے۔
بواسیر سے نجات دیتا ہے۔

یہ بواسیر کے مرض میں بھی مفید ہیں۔اس کو پانی کے ساتھ گرائنڈ کر کے خونی بواسیر کے علاج کے لئے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ بواسیر کا خون بند کرنے کا بہترین علاج ہے۔
خون کی کمی کا بہترین علاج ہے۔

جسم کے گلے سڑے خلیوں کی تعمیر اور مرمت میں یہ حیرت انگیز کرشمے دکھاتا ہے۔ خون کی کمی کو دور کرنے کے لئے کالے تِل بہترین ہیں کیونکہ ان میں آئرن کی وافر مقدار ہوتی ہے۔ اگر کالے تل نیم گرم پانی میں بھگو کر گرائنڈ کر کے چھان کر اس میں دودھ ملا کر پیا جائے تو چند روز میں خون کی کمی دور ہوجاتی ہے۔
جسم کو فربہ کرتا ہے۔

جسم کو موٹا ،سرخ و سفید اور طاقتور بنانے کے خواہشمند افراد اس کو بادام اور خشخاش کے ساتھ رات کو سوتے وقت دودھ کے ساتھ کھائیں اور دو تین ہفتے تک کھاتے اس کا استعمال رکھیں۔
مثانے کو قوت دیتا ہے۔

یہ مثانے کو بھی قوت دیتا ہے‘ اسی لیے تلوں والی ریوڑی یا گچک کھانے سے بستر پر پیشاب کرنے کی عادت چھوٹ جاتی ہے اور قطرہ قطرہ پیشاب آنے کی شکایت بھی دور ہوجاتی ہے۔
نمونیہ اور دمہ کے لیے اکسیر۔

تِل اور السی کے بیج ہم وزن تقریبا دوچمچ لے کر ایک چٹکی نمک اور تھوڑا سا شہد ملاکر روزانہ کھانے سے نمونیہ اور دمہ کے مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔
حیض کے مسائل کو حل کرتا ہے۔

آدھا چمچ پسے تِل نیم گر م پانی کے ساتھ دن میں دو بار کھانے سے حیض کے مسائل جیسے شدید درد اور حیض کی کمی وغیرہ دور ہوجاتی ہے۔



نظامِ ہاضمہ کے لئے بہترین دوا۔

یہ نظامِ ہاضمہ کے لئے بہترین ہیں۔ ان میں فائبر پایا جاتا ہے جو قبض کو دور کرتا ہے۔ یہ انرجی اور میٹابولزم کو بڑھاتے ہیں۔



تل کی گوشت کے برابر غذائیت

ماہرین غذائیت کے مطابق تل غذائی اجزاء اور روغن سے بھرپور بیج ہیں۔ چھوٹے چھوٹے سفید اور کالے رنگ کے تل میں گوشت کے برابر غذائیت موجود ہوتی ہے اور انہیں دوا کا درجہ بھی حاصل ہے یہ نہ صرف گرمی اور توانائی پیدا کرتے ہیں بلکہ صحت کے مختلف دیگر فوائد بھی رکھتے ہیں یہ بیج آپ کے بالوں اور جلد کی صحت کے لئے بھی بہت اچھے ہوتے ہیں۔
تل کے بیجوں کے صحت سے بھرپور 8 فوائد

تل کے بیجوں کی صحت سے بھرپور فوائد یہ ہیں۔
خوبصورت بال

تل اومیگا 3 فیٹی ایسڈ سے بھرپور ہوتے ہیں جو آپ کی جلد اور بالوں کے لئے بہت اچھا ہوتا ہے یہ آپ کے بالوں کے گودے کو مضبوط بنانے میں بھی مدد کرتے ہیں جو خراب بالوں کی مرمت اور بالوں کی نشوونما کو فروغ دینے میں مدد کرتے ہیں۔
اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور

یہ اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتے ہیں اور اس سے بڑھاپے کی ابتدائی علامات کو روکنے میں مدد ملتی ہے اس میں موجود تیل آپ کی جلد کو زیادہ نرم اور ملائم بناتا ہے اگر آپ کو سوزش کی وجہ سے جلد پر تکلیف دہ دانے اور سرخی آجاتی ہے تو ان کے علاج میں تل مدد کرسکتے ہیں۔
دانتوں کی صحت کے لئے اچھا

دانتوں کے پلاک کو ہٹانے کے لئے تل کے تیل کا استعمال فائدہ مند ہوتا ہے اور اس کی صحت کو فروغ دینے میں مدد کرتا ہے۔موسم سرما اکثر ہڈیوں اور جوڑوں سے متعلق پریشانیوں کو ساتھ لاتا ہے۔ تل کے بیجوں میں کیلشیم کے مسائل سے لڑنے اور سوزش کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔
ہاضمے کے لئے اچھا

موسم سرما آنتوں سے متعلق کئی مسائل کو ساتھ لاتا ہے اس موسم میں بدہضمی اور تیزابیت زیادہ ہوتی ہے اس میں موجود تیل اور اس میں موجود ریشہ قبض کے علاج میں مدد کرتا ہے۔ تل غیر سیرشدہ فیٹی ایسڈ سے بھرپور ہوتے ہیں جو آپ کی آنتوں کو چکنا کرنے میں مدد کرتے ہیں جو آنتوں کی نقل و حرکت کو آسان بناتا ہے۔
توانائی فراہم کرتا ہے

تل صحت مند چربی کا ایک ذخیرہ ہے جو آپ کو توانائی اور گرمی کے ساتھ لوڈ کرتا ہے اور سردیوں کی سردی سے لڑنے کے لئے جانا جاتا ہے اس میں صحت مند چربی جیسے اومیگا تھری فیٹی ایسڈ اور پولی ان سیچوریٹڈ فیٹی ایسڈ زیادہ ہوتے ہیں جو توانائی فراہم کرنے میں مدد کرتے ہیں اس میں میگنیشیم، فائبر، فاسفورس، کیلشیم اور آئرن بھی توانائی کے ذرائع کے طور پر کام کرتے ہیں۔
بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتا ہے

سردیوں کے موسم میں بلڈ پریشر عام طور پر زیادہ ہوتا ہے کم درجہ حرارت کے نتیجے میں ہائی بلڈ پریشر ہوتا ہے یہ آپ کے بلڈ پریشر کو کم کرنے میں مدد کر سکتا ہے ہائی بلڈ پریشر کے مسائل کے شکار افراد کو اس کا استعمال کرنا چاہئے کیونکہ یہ پولی ان سیچوریٹڈ چربی میگنیشیم سے بھرپور ہوتے ہیں جو بلڈ پریشر کی سطح کو مستحکم کرنے اور ہائپر ٹینشن کو روکنے میں مدد کرتا ہے۔
ہڈیوں کی صحت کو بہتر بنائیں

تل کے بیجوں میں غذائی اجزاء ہوتے ہیں جو کیلشیم سمیت ہڈیوں کی صحت کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں سردیوں میں جوڑوں کمر اور ہڈیوں کا درد بھی عام ہوتا ہے، تل کا استعمال ہڈیوں کی بہتر صحت اور سوزش میں کمی اور اس طرح کے مسائل سے لڑنے میں مدد کرسکتا ہے کمزور ہڈیوں والے شخص میں آسٹیوپوروسس ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے اس قسم کی صورتحال میں فوری ہڈیوں کا ٹیسٹ کروائیں۔

آسٹیوپوروسس ایک ایسی حالت ہے جو نازک ہڈیوں کا سبب بنتی ہے جو ہڈیوں کو ٹوٹنے کے خطرے کو مزید بڑھادیتی ہے۔ 35 سال کی عمر کے بعد ہڈیوں کی کمیت کم ہونا شروع ہو جاتی ہے اور یہ نقصان مینوپاز کے دوران یا اس کے بعد خواتین میں زیادہ اہم ہوتا ہے اس لیے مضبوط ہڈیوں کے لیے کالے تل کا استعمال ضروری ہے۔ تل زنک اور کیلشیم سے بھرپور ہوتے ہیں۔
موسم سرما کے فلو کو دور رکھتا ہے

سردیوں کے موسم کے آغاز کے ساتھ ہی فلو کی بیماری میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا یہ زنک، کوپر، آئرن اور دیگر وٹامنز سے بھرپور ہوتا ہے یہ آپ کو انفیکشن اور وائرس کو دور رکھنے کے لئے ایک مضبوط قوت مدافعت پیدا کرنے میں مدد کر سکتا ہے جس سے زکام کھانسی اور بخار کے خطرات کم ہو جاتے ہیں۔
تل کا استعمال کیسے کریں؟

تل آپ کے جسم میں گرمی اور توانائی پیدا کرنے کے لئے بہت اچھا ہوتا ہے اور اس لئے سردیوں میں تل کا استعمال انتہائی فائدہ مند ہوتا ہے۔ سردیوں کے دوران اس کا استعمال مختلف گھرانوں میں مقبول ہوتا ہے آپ تل کے بیج، تل کے لڈو اور گجک جیسی لذیذ چیزوں کے بغیر سردیوں کا تصور نہیں کرسکتے گڑ کے ساتھ بھنا ہوا بہت مزے دار لگتا ہے۔

آپ اپنے سلاد یا سبزیوں پر اس کے بیجوں کو ٹاپنگ کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں انہیں آپ شیکس اور اسموتھیز میں شامل کر سکتے ہیں آپ اس کے بیجوں کے ساتھ تیار بازار میں دستیاب ناشتے سے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور گھر پر بھی اس سے مزیدار چیزیں بناکر کھاسکتے ہیں۔

یہ بیج دنیا بھر کے بہت سے کھانوں کا لازمی حصہ بھی ہیں۔ آپ نے اکثر انہیں برگر بن کے اوپر دیکھا ہوگا یا کسی موقع پر تل کے بیجوں سے بنی مٹھائیاں بھی کھائی ہوں گی۔

تل ایک طرف تو گری دار میوے اور میٹھے ذائقے کے حامل ہوتے ہیں تو دوسری جانب صحت کے بے شمار فوائد لیے ہوتے ہیں۔

تل فائبر کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے جو خراب کولیسٹرول کی سطح کو کم کرنے، خون میں شکر کی سطح توازن میں رکھنے، سوزش کو کم کرنے، ہڈیوں کی صحت مند رکھنے کے ساتھ خون کے خلیات کی تشکیل میں بھی مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔

آپ سفید تل کو اپنی غذا میں بہت سے طریقوں سے شامل کر سکتے ہیں جیسے سردیوں کے موسم میں تل کے لڈو بناکر، انہیں سلاد، فرائیڈ رائس میں شامل کرکے اور یہاں تک کہ دہی یا اسمودی کے ساتھ بھی لے سکتے ہیں۔

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ نہ صرف یہ آپ کی صحت بلکہ آپ کی جلد کو صحت مند رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرسکتےہیں۔

ان بیجوں کا باقاعدگی سے استعمال آپ کی جلد کوچمکدار بنانے، نمی برقرار رکھنے، شادابی لوٹانے، سوزش دور کرنے، جلد کے انفیکشن کو روکنے اور دھوپ سے جھلسی جلد کے علاج کرنے میں مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق ان چھوٹے چھوٹے بیجوں میں قدرت نے بھر پور صحت کا خزانہ چھپا رکھا ہے، ان کا استعمال خصوصاً خواتین کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے، تِلوں میں متعدد وٹامنز، منرلز، قدرتی روغن اور دیگر اجزاء جیسے کہ کیلشیم، آئرن، میگنیشیم، فاسفورس، میگنیز، کاپر، زنک، فائبر، تھیامن، وٹامن بی6، فولیٹ اور پروٹین پایا جاتا ہے ۔

غذائی ماہرین کے مطابق تِلوں کے استعمال کے نتیجے میں انسان شوگر، بلڈپریشر، کینسر، ہڈیوں کی کمزوری، جلِد کو پہنچنے والے نقصانات، دل کی بیماریوں، منہ کی بیماریوں سے بچ جا تا ہے، اس میں موجود اینٹی آکسیڈنٹ اجزاء انسانی جسم سے مضر صحت مادوں کو بھی نکال دیتے ہیں۔




غذائی ماہرین کے مطابق کیلشیم کی کمی کے شکار افراد کے لیے تلوں کا استعمال نہایت مفید ثابت ہوتا ہے، تلوں میں کیلشیم اور آئرن کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے جو کہ خون کی کمی کو بھی پورا کرتی ہے۔

کالے تل نیم گرم پانی میں بھگو کر گرائنڈ کر کے چھان لیں، اب اس میں دودھ ملا کر پئیں، چند دنوں میں خون کی کمی دور ہو جائے گی۔

تلوں میں مثبت روغن (تیل) پائے جانے کے سبب اس کے استعمال سے ایڑیاں، ہاتھ اور ہونٹ پھٹنے سے بچ جاتے ہیں۔

غذائی ماہرین کے مطابق موٹے ہونے کے خواہشمند افراد کو چاہیے کہ تِلوں کو بادام اور خشخاش کے ساتھ ملا کر کھائیں اور بعد میں دودھ پی لیں۔



بار بار پیشاب آنا
لوگوں کو بار بار پیشاب آنے کا مسئلہ ہوتا ہے۔
پہلے یہ تکلیف بوڑھوں مرد و خواتین میں ہوتی تھی، لیکن اب آجکل یہ نوجوانوں میں بھی عام ہے۔
اس کے علاؤہ کئی دیگر اسباب بھی ہوتے ہیں۔
بار بار پیشاب عموماََ مثانے میں کمزوری کی وجہ سے آتا ہے۔عام طور ہر ڈاکٹروں کے پاس اس کی کوئی دوا نہیں ہوتی لیکن دیسی نسخوں سے اس پر قابو پا یا جاسکتا ہے۔
ایک گھریلو نسخہ جس سے آپکے بار بار پیشاب آنے کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ یہ نسخہ بہت سے لوگو ں نے استعمال کیا ہے اور انہیں اس سے فائدہ بھی ہوا ہے۔
امید ہے کہ آپکو بھی فائدہ ہوگا۔۔
تل کا لڈو : 1 عدد
آپ نے تل والا ایک لڈو لینا ہے اور اسے دن میں کسی بھی وقت کھا سکتے ہیں۔
یہ آپ کسی بھی موسم میں استعمال کرسکتے ہیں۔
اس کا کوئی بھی سائڈ ایفیکٹ نہیں۔ کچھ دن لگاتار تل والا لڈو کھانے سے آپکو بار بار پیشاب آنے والا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ مثانہ کی کمزوری دور ہو جائے گی۔

ایک_دوائی_پانچ_بیماریاں_دور
مزے مزے میں ٹھنڈ لگنا دور اور طاقت بھی بھرپور

گڑ اور تل برابر مقدار میں ملا کر لڈو بنالیں ۔
روزانہ دودھ کے ساتھ ایک لڈو کھائیں۔

1_ہاضمہ درست کرتا ہے
2_ اس سے دل و دماغ کو طاقت ملتی ہے
3_ بار بار پیشاب آنے کی تکلیف ختم ہوجاتی ہے
4_سردی کے مضر اثرات سے حفاظت رہتی ہے
5_ دماغی کمزوری اور تناؤ( ڈپریشن ) بھی دور ہو جاتا ہے
دماغی کام کرنے والوں اور اسٹوڈنٹس کے لئے لاجواب ہے

تل کے فوائد

تل ایک ذائقہ دار اور تیل سے بھر پور غذا ہے ۔
تل میں وٹامن بی، وٹامن ای، پائے جاتے ہیں۔
تل کو اکثر دوسری چیزوں کے ساتھ ملا کر کھایا جاتا ہے۔جیسے کلچہ پر تل، ریوڑیاں، گچک، کیک، بسکٹ، مٹھائیوں، تل اور گڑ کے لڈو، میٹھی اشیاء پر بھی تل کا استعمال کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ کئی کھانوں میں بھی تلوں کا استعمال ہوتا ہے۔تل کی تاثیر گرم تر ہے ۔اس لئے اس کو گرمیوں میں کم استعمال کیا جاتا ہے اور سردی آتے ہی اس کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔
پاکستان میں دیہات میں لوگ تل بڑی وافر مقدار میں کاشت کرتے ہیں اور یہ کسی بھی جنرل سٹور سے بآسانی خریدا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ تل امریکہ،اٹلی ،چین،بھارت اور جاپان میں کاشت کیا جاتا ہے۔
تلوں کو زیادہ دیر تک محفوظ بنانے کے لئے انہیں ہلکا سا بھون کر رکھ لیں اور روزانہ ایک سے دو چمچ شہد ملا کر کھا لیا کریں۔
چھوٹے بچے جو بستر پر پیشاب کر دیتے ہیں
ان کو آدھا چمچ کھلایا جا سکتا ہے۔
پرانے زمانے میں پہلوان لوگ اس کا استعمال کرتے تھے
یعنی وہ اپنی طاقت بڑھانے کے لئے تلوں کا استعمال کرتے تھے۔تل مارکیٹ میں دو قسم کے ملتے ہیں
ایک کا رنگ سفید ہوتا ہے اور دوسرے کا رنگ سیاہ ہوتا ہے۔
ان تلوں کا تیل بھی نکالا جاتا ہے
جسے ہم تلوں کا تیل یا پھر میٹھا تیل بھی کہتے ہیں۔
لیکن ایک تیسری قسم براؤن سرخی رنگ کے تلوں کی ہے
جو مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے
یا پھر اس کی ہمارے ہاں کاشت نہیں کی جاتی۔
طبعی لحاظ سے کالے تل استعمال ہوتے ہیں
سفید تلوں کا تیل زیتون کے تیل کے بعد دوسرا
اچھا تیل تسلیم کیا جاتا ہے
یعنی یہ زیتون کا نعم البدل ہو سکتا ہے۔
سیاہ تلوں سے نکلنے والا تیل کھانے پکانے اور ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ سفید تلوں کے تیل کو سر میں لگانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ تل گوشت جیسی خاصیت کے حامل ہیں اسی لئے یہ طاقت کو بڑھاتے ہیں تو پھر ایسے افراد جو گوشت کھانا پسند نہیں کرتے ان کو تلوں کا استعمال کرنا چاہیئے۔تاکہ گوشت کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔
شاید اسی لئے گاؤں میں رہنے والے لوگ جو تلوں کا استعمال کرتے ہیں ان کی صحت شہر میں رہنے والوں کی نسبت بہتر ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ تل عمر درازی کا بھی ذریعہ بنتے ہیں
یعنی اس میں موجود وٹامن ای چہرے پر جھریاں بننے کے عمل کو آہستہ کر دیتے ہیں
جس انسان جوان جوان لگتا ہے اور جوان رہنا کس کو پسند نہیں ؟
تل کا استعمال انتہائی کم مقدار میں کرنا چایئے
ماہرین طب کے مطابق ۷ ماشہ سے ایک تولہ تک اس کا استعمال مناسب ہے۔
لیکن سردیوں میں اس کا استعمال ضرور کریں
تاکہ یہ آپ کو سردی سے محفوظ رکھے گا اور اس کے
فوائد سے بھی آپ بھر پور فائدہ اٹھا سکیں گے۔تل کے مندرجہ ذیل فوائد ہیں۔
٭ تل جسم کو طاقت فراہم کرتے ہیں۔
٭ تل دماغ کے لئے بھی نہایت مفید ہیں۔
٭ تل کا تیل خواتین کے بالوں کے لئے فائدہ مند ہے۔
بالوں کو لمبا اور سیاہ بناتا ہے۔
٭دبلے پتلے افراد تل کھا کر موٹے اور سرخ و سفید
ہو سکتے ہیں۔
٭تل ہماری جلد کو نرم رکھنے میں مدد گار ہیں۔
٭ تل اندرونی خراشوں کے لئے بھی مفید ہیں۔
٭ تلوں کو بواسیر کے مرض میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
٭تل خون کی کمی کو دور کرتا ہے۔
٭تل شباب کو زیادہ دیر تک برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔
٭تل مثانے کو قوت بخشتا ہے اور قطرہ قطرہ پیشاب آنے کو روکتا ہے۔
٭ قوت باہ کو بڑھاتا ہے۔
٭تل سے خارش ختم ہو جاتی ہے۔
٭تل چہرے کی رنگت کو سرخ و سفید بناتا ہے۔
٭تل کا تیل دانت درد میں آرام پہنچاتا ہے۔
٭تل ذہنی دباؤ کو کم کرنے مین مدد گار ہے۔
٭تل معدے کی جلن کو ختم کرتا ہے۔
٭ تل کھانسی اور گلے کی خراش میں کھانا مفید رہتا ہے۔
٭تل پھیپھڑوں کے لئے بھی فائدہ مند ہے۔
قارئین :
آپ نے دیکھا کہ قدرت کے اس انمول چھوٹے سے بیج میں انسان کے لئے کیا کیا راز پوشیدہ ہیں
ہمیں ہر حال میں اﷲ کا شکر بجا لانا چایئے
جس نے ہمیں اس جیسی اور کئی نعمتیں عطاء
کر رکھی ہیں۔
خدا کی نعمتوں کا شکر بجا لانے کا بہترین ذریعہ
نماز ہے ہم سب کو نماز کا پابند ہونا چایئے۔
ﷲ تعالیٰ ہم سب کو نماز کا پابند بنائے...
✿✿نوٹ
پوسٹ پسند آئے تو ضرور اس کو لائک کریں۔
مفید معلومات، اور معلومات و مفاد عامہ
بتائے گئے طریقے کے مطابق خالص ادویہ خریدیں بنائیں اور مقدار خوراک سے تجاوز نہ کریں۔
بہترین و مجربات نسخے کے لیے پیج کو لائک کریں۔

آپکی صحت ہماری اول ترجیح ہے

سفید تل کی غذائیت گوشت کے برابر قرار دی جاتی ہے، کیونکہ اس میں گوشت کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں اور خاص بات تو یہ ہے کہ اس میں وہ خرابیاں موجود نہیں ہیں جو گوشت میں ہوتی ہیں۔

تل کے چھوٹے بیج ، تیل سے بھرپور ہوتے ہیں، جو سیسیم پودے پر پھلیوں میں اگتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے سفید اور کالے رنگ کے بیجوں پر مشتمل تل زمانہ قدیم سے استعمال کیۓ جا رہے ہیں، انہیں دوا کا درجہ بھی حاصل ہے۔
تل کی غذائی اہمیت اور فائدے

چونکہ ان کی تاثیر گرم ہے ، اسلیئے سردی کے موسم میں ان کا استعمال نہایت مفید ہے۔ سفید تِل میں وٹامنز، منرلز، قدرتی تیل، کیلشیئم، آئرن، میگنیشیئم، فاسفورس، کاپر، زنک، فائبر اور پروٹین سے بھرپور ہوتے ہیں۔ اس کے بے شمار فوائد ہیں یہ ذیابیطس، بلڈپریشر، کینسر، ہڈیوں کی کمزوری، جلد کو پہنچنے والے نقصانات، دل کی بیماریوں، منہ کی بیماریوں اور کشیدگی سے بچاتا ہے اور جسم کو ڈیٹاکسیفائی کرتا ہے۔ مزید صحت بخش فوائد درج ذیل ہیں۔
حیض کے مسائل

آدھا چمچ پسے تِل نیم گرم پانی کے ساتھ دن میں دو بار کھانے سے حیض کے مسائل جیسے شدید درد اور حیض کی کمی وغیرہ دور ہوجاتی ہے۔
کیلشیئم کی مقدار

سفید تِل میں کیلشیئم کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، اسی لئے جو کیلشیئم کی کمی کا شکار ہوں انھیں چاہئے کہ وہ سفید تِل کے ذریعے اپنی کیلشیئم کی کمی کو پورا کریں۔ لیکن بہت زیادہ نہ کھائیں۔وہ بھی نقصان دہ ہے۔
نظامِ ہاضمہ کیلیئے

یہ نظامِ ہاضمہ کے لئے بہترین ہیں، ان میں فائبر پایا جاتا ہے جو قبض کو دور کرتا ہے۔
خون بناتا ہے

خون کی کمی کو دور کرنے کے لئے کالے تِل بہترین ہیں کیونکہ ان میں آئرن کی وافر مقدار ہوتی ہے۔ اگر کالے تل نیم گرم پانی میں بھگو کر گرائنڈ کر کے چھان کر اس میں دودھ ملا کر پیا جائے تو چند روز میں خون کی کمی دور ہوجاتی ہے۔
کمزور جسم کیلیئے

جسم کو موٹا ،سرخ و سفید اور طاقتور بنانے کے خواہشمند افراد اس کو بادام اور خشخاش کے ساتھ رات کو سوتے وقت دودھ کے ساتھ کھائیں اور دو تین ہفتے تک کھاتے اس کا استعمال رکھیں۔
بواسیر کیلیئے

یہ بواسیر کے مرض میں بھی مفید ہیں۔ اس کو پانی کے ساتھ پیس کر خونی بواسیر کے علاج کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہ بواسیر کا خون بند کرنے کا بہترین علاج ہے۔


1

جمعرات، 6 جون، 2024

نامرد


ِجج صاحب اچھے آدمی تھے اُنہوں نے کہا کہ آپ میاں بیوی کو چیمبر میں لے جا کر مصالحت کی کوشش کرلیں
چیمبر میں دونوں میاں بیوی میرے سامنے بیٹھے تھے:-
"ہاں خاتون ۔! آپ کو اپنے شوہر سے کیا مسئلہ ہے"؟
" وکیل صاحب یہ شخص مردانہ طور پر کمزور ہے"۔
میں اُسکی بے باکی پر حیران رہ گیا کہ کیسی عورت ہے ذرا بھی شرم حیا نہیں ہے۔
بہرحال میں نے بھی شرم و حیا کا تقاضا ایک طرف رکھا اور تیز تیز سوال کرنا شُروع کر دیے۔
جب اُس سے پُوچھا :
" کیا آپکا اپنے مرد سے گُزارہ نہیں ہوتا" ؟
تو کہتی کہ:
" ماشاءاللہ دو بچے ہیں ہمارے۔ یہ جسمانی طور پہ تو بالُکل ٹھیک ہیں"۔
" تو بی بی پِھر مردانہ طور پر کمزور کیسے ہُوئے"؟!!
میں نے استفسار کیا۔۔۔
وکیل صاحب! میرے بابا دیہات میں رہتے ہیں اور زمینداری کرتے ہیں ہم دو بہنیں ہیں میرے والد نے ہمیں کبھی"دھی رانی" سے کم بُلایا ہی نہیں جبکہ میرے شوہر مُجھے" کُتی" کہہ کے بُلاتے ہیں"۔
یہ کونسی مردانہ صِفت ہے وکیل صاحب ؟- - ". میرے والد دہہاتی پس منظر رکھتے ہیں اور زیادہ پڑھے لکھے نہی، ان کے گھر آنے سے پہلے بھی میں ایسے ہی گھر میں رہتی تھی اور گاڑی بھی چلاتی تھی مگر اب ان کو میری ڈرائیونگ پر بھی اعتراض ہے اور بار بار مجھے میکے کے طعنے دیتے ہیں ۔ روزانہ کی بنیاد پر گھر میں ہونے والے اخراجات کو بھی گنواتے ہیں ۔ جو شخص بیوی کو کھلائے جانے والے لقمے کا بھی طعنہ دے کیا اسے" نامرد " کہنا غلط ہے۔ ؟؟ مرد تو چہار دیواری کا بادشاہ ہوتا ہے ، جسے وہ خود سینکڑوں گواہیوں میں بیاہ کر لایا ہے ، اسے ملکہ کا درجہ دینے کا ظرف نہ بھی رکھتا ہو تو کیا رعایا کو کھانا کپڑا دینا بھی بادشاہ پر لازم نہیں لیکن ہہ تو مجھے بچوں کی آیا جتنے حقوق بھی نہیں دیتا تو پھر بتائیں اسے کس نام سے پکاروں۔؟؟ بات بات پر گھر سے نکالنے اور بچوں کو الگ کرنے کی دھمکی دے کر اذیت دینے والے کے لئے پھر کوئی نام آپ ہی تجویز کر دیں وکیل صاحب۔ اور پھر نکاح تو وہ واحد معاہدہ ہے جس میں تحریری دستخط کے علاوہ ایک نہیں تین قولی اقرار ہوتے ہیں اور روبرو مجلس ہوتے ہیں ۔ کیا ایسے معاہدے سے مکرنے والے کو مرد کہا جا سکتا ہے؟؟
مُجھ سے کوئی چھوٹی موٹی غلطی ہو جائے تو یہ میرے پُورے میکے کو گالیاں دیتے ہیں۔ آپ ہی بتائیں کہ اِس میں میرے مائیکے کا کیا قصُور ہے ؟۔
یہ مردانہ صِفت تو نہیں نا کہ دُوسروں کی گھر والیوں کو گالی دی جائے۔
وکیل صاحب۔! میرے بابا مُجھے شہزادی کہتے ہیں اور یہ غُصے میں مُجھے " کنجری" کہتے ہیں۔
وکیل صاحب مرد تو وہ ہوتا ہے نا جو کنجری کو بھی اِتنی عزت دے کہ وہ کنجری نہ رہے اور یہ اپنی بیوی کو ہی کنجری کہہ کر پُکارتے ہیں۔
یہ کوئی مردانہ بات تو نہیں ہوئی نا '
وکیل صاحب اب آپ ہی بتائیں کیا یہ مردانہ طور پر کمزور نہیں ہیں" ؟۔
میرا تو سر شرم سے جُھک گیا- اُسکا شوہر اُسکی طرف دیکھ کر بولا " اگر یہی مسئلہ تھا تو تُم مُجھے بتا سکتی تھی نا مُجھ پر اِس قدر ذہنی ٹارچر کرنے کی کیا ضرورت تھی"۔۔؟۔
شوہر منمنایا۔
" آپ کو کیا لگتا ہے آپ جب میری ماں بہن کے ساتھ کِسی ناجائز رِشتے کو جوڑتے ہیں تو میں خُوش ہوتی ہُوں۔۔؟
اِتنے سالوں سے آپکا کیا گیا یہ ذہنی تشدُد برداشت کر رہی ہُوں اِسکا کون حساب دے گا ؟۔
بیوی کا پارہ کِسی طور کم نہیں ہو رہا تھا۔۔
خیر جیسے تیسے مِنت سماجت کر کے سمجھا بُجھا کے اُنکی صُلح کروائی ۔۔
میرے موکل نے وعدہ کیا کہ وہ آئئندہ اب کبھی اپنی بیوی کو گالی نہیں دے گا اور پھر وہ دونوں چلے گئے۔۔۔
میں کافی دیر تک وہیں کھڑے سوچتا رہا کہ گالیاں تو میں نے بھی اُس خاتُون کو اُسکے پہلے جواب پر دِل ہی دِل میں بہت دی تھیں تو شاید میں بھی نامرد ہُوں اور شاید ہمارا مُعاشرہ نامردوں سے بھرا پڑا ہے۔
٭٭٭
عبدالقیوم طاہر صاحب کسی زمانے میں میرے ہمسائے تھے ۔ یہ مضمون ان ہی کا لکھا ہوا ہے اور ان کے شکریے کا ساتھ پوسٹ کر رہا ہوں

جمعہ، 27 اکتوبر، 2023

ایٹم بم سے خطرناک ہتھیار



 کچھ الفاظ اس قدر بدنام ہو جاتے ہیں کہ اپنا اثر کھو دتے ہیں۔  لفظ  (پروپیگنڈہ)  مدت سے استعمال ہو رہا ہے۔ یہ لفظ جب تک بادشاہوں اور مذہبی پیشواووں کی خدمت کرتا رہا  متبرک رہا مگر پہلی جنگ عظیم میں  جس  ذہن سازی کے لیے استعمال ہوا۔ 

یا سویت یونین میں اس نے چالیس سال تک حکمرانوں کی جو  خدمت کی۔یا کوریا میں قوم کو متحد کرنے میں جو کردار ادا کیا اور جرمنی میں ہٹلر نے اس لفظ کو جن  معنوں میں استعمال کیا۔ اس کے استعمال نے اس کے معنی ہے بدل دیے۔ آج عام آدمی سمجھتا ہے یہ لفظ جھوٹ کا مترادف ہے۔  

آپ  تصور کریں جن ممالک میں بادشاہت ہے۔ کیا ان ممالک کی سڑکوں میں گڑھے ہیں  یا وہاں کے پل گزرنے والی گاڑیوں کا وزن نہیں برداشت کر پاتے یا وہاں کے ائر پورٹ پر کسی جدید طیارے کا اترنا ناممکن ہوتا ہے یا وہاں کی عدالت انصاف نہیں کر پاتی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ وہاں عوام خوراک کو ترس رہی ہو یا پانی کے لیے بلبلا رہی ہو۔حقیقت یہ ہے ڈنمارک میں صدیوں سے بادشاہت ہے مگر وہ دنیا میں امن و امان اور قانون کی حکمرانی کے لحاظ سے گنتی میں پہلے نمبر پر ہے۔ حالانکہ  تاریخ میں (پروپیگنڈہ) کے زیر اثر مگر کئی ممالک میں بادشاہوں کے تاج  عوام نے ا چھال دیے۔ حالات مگر اس معاشرے میں ہی بدلے جہاں لوگوں نے  (پروپیگنڈہ)  سے متاثر ہونے کی بجائے سوچ سمجھ کرحالات کو تبدیل کرنے کی راہ اپنائی۔ 

حقیقت یہ ہے کہ طاقتورحکمران اپنی کامیابی کے حصول کے لیے الفاظ کے مطلب ہی بدل دیتا ہے۔ امریکی سیاست میں جب لفظ  (تبدیلی)  کا نعرہ بلند ہوا   تو گویا ہر سو شادیانے بجنے لگے۔ مگر جب اس تبدیلی کے مجاہدوں نے سرکاری املاک پر حملے کیے تو امریکیوں پر انکشاف ہو ا کہ یہ سوشل میڈیا پر  (پروپیگنڈہ)  کا جادو تھا جو امریکیوں کے سر پر سوار ہو گیا تھا۔ 

(پروپیگنڈہ)  ایسا ہتھیا ر ہے جو انسان کو دوسرے انسان کی جان لینے پر آمادہ کر لیتا ہے۔ خودکش حملہ آور ہمارے سامنے کی مثال ہے۔ 

حالیہ تاریخ  میں (پروپیگنڈہ)  جان بچانے کے لیے بھی استعمال  ہوتا رہا ہے بھارتی    (رام رحیم) کے پیروکارہوں یا امریکہ کے ڈیوڈ قریش کے ماننے والے  جب ڈنڈے اور سوٹے لے کر پولیس کے ساتھ مقابلہ کے لیے نکلے تو سبب  (پروپیگنڈہ)  ہی 

تھا۔ 



امریکی کانگرس کی ایک ممبر علیان عمر نے ایوان میں اپنی تقریر میں کہا ہے کہ اس ایوان کے ممبران نے یک زبان ہو کر اسرائیل پر ہونے والے ان  (مظالم) کی مذمت کی ہے  جو حماس نامی تنظیم نے اسرائیلیوں پر ڈھائے ہیں۔ مگر محض چند نے ہی ان مظالم کی مذمت کی ہے جو  غزہ  میں رہنے والوں کی زمین چھین کر،  گھروں سے بے دخل کر کے، ان پر ڈھائے جا رہے ہیں اور یہ ایک دن،  ہفتے یا مہینے کی بات نہیں ہے بلکہ عشروں سے ان کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ نسل کشی کرنے والا اسرائیل ہے۔ جو نہتے شہریوں پرآسمان سے آ گ برسا رہا ہے۔ بچے حتی کہ نومولود بھی اس کے نشانہ پر ہیں،  معصوم بچوں کے والدین کو بخشا جا رہا ہے نہ بے بس اور بوڑہے  دادا، دادی اور نانا، نانی کو ہی زندہ رہنے  دیا جاتا ہے۔ علیان نے انکشاف کیا کہ اسرائیل نے غزہ جیسی تنگ پٹی پر دس دنوں میں جتنے بم برسائے ہیں وہ مقدار اور ہلاکت خیزی میں ان بموں سے زیادہ ہیں جو امریکہ نے پورے سال میں افغانستان پر پھینکے تھے۔ ایک برطانوی صحافی خاتون نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا امریکہ بیس سالوں میں افغانیوں کو نابود کر دینے میں کامیا ب ہوا ہے؟



سوشل میڈیا کی ایپ ٹویئٹر پر ایک باخبر شخص نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل اس مظالم کو مذہبی جنگ کے نام طور پر لیتا ہے اور امریکی کانگریس میں کھڑے ہو کر ایک ممبر اعلان کرتا ہے کہ ہم  اسرائیل پر ڈھائے جانے والے ظلم کا ذمہ دار دنیا بھر کے مسلمانوں کو سمجھتے ہیں۔  مگر(پروپیگنڈہ)  کے تمام آلے دنیا کو بتاتے ہیں کہ اسرائیل مسلمانوں کی نفرت کا شکار ہے۔



 

یہ  (پروپیگنڈہ) ہی تو ہے کہ اسرائیل کا وزیر اعظم  فلموں کے ٹکڑے کاٹ کر، پرانی تصویریں دکھا کر نہتے اور مظلوم فلسطینیوں کو حیوان کہتا ہے ۔ اس کا جنرل  فلسطینیوں کا نام تک مٹا دینے کی بات کرتا ہے اور اپنے اس قول کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مسلح فوجیوں سے معصوم بچوں پر ایسے مظالم ڈھا رہا ہے کہ انسانیت کی روح کانپ کانپ جاتی ہے۔ علیان عمر نے مگر سوال اٹھایا ہے کہ آپ کی انسانیت کہاں ہے۔ اس سوال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ صابرہ اورشتیلہ کے پناہ گزیں کیمپوں کو دہشت گردی کا نعرہ لگا کر بارود برسا کر انسانوں کو آگ کا ایندھن بنایا گیا تھا۔ اس وقت کے ایک اسرائیلی وزیر نے اپنے مذہب میں پناہ لی تھی۔ یہ کیسا مکروہ کھیل ہے۔ یہ کیسا  غلیظ (پروپیگنڈہ)  ہے۔ جو مذہب کے نام پر کیا جا رہا ہے۔



ہٹلر ظالم تھا مگر اسرائیل ظالم تر ہے۔ دنیا بھر میں مظلوم ترین طبقہ غزہ میں بسنے والے بائیس لاکھ  انسان ہیں۔ ظالم ترین  حکو مت اسرائیل کی ہے جو بچوں اور عورتوں پر ایسے ظلم کر رہی ہے جو انسانی تاریخ میں نہیں ہوئے۔ نیتن ہاہو ہٹلر سے بڑا ظالم ہے۔ 

اور  (پروپیگنڈہ)   نامی ہتھیارسب سے ظالم ہتھیار ہے۔  اس وقت یہ ظالم ہتھیار تاریخ کے سب سے بڑے ظالم  اسرائیلی حکومت  کے ہاتھ میں ہے اور وہ اسے انسانیت نابود کرنے اور بے گناہ معصوموں کو مارنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ 


جمعہ، 14 جولائی، 2023

حیفا سے بنی گالہ تک






قادیانیوں نے  1925 میں شام میں اپنا مرکز بنایا تو شامی مسلمانوں نے انھیں بھی اسلام کے فرقوں میں سے ایک فرقہ سمجھامگر شام پر قابض فرانسیسیوں کے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ چند درجن، نووارد  افراد نے قلیل مدت میں ہی اعلی سرکاری افسران سے سماجی تعلقات استوار کر لیے تھے۔ ان کی تنظیم اور مالی خوشحالی نے بھی حکمرانوں کو چونکا دیا۔ ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جانے لگی اور سترہ مارچ  1928 کو فرانس نے اس گروہ کوچوبیس گھنٹوں میں ان کی حکمرانی کی حدود سے نکل جانے کا حکم دیا۔ہندوستان کے شہر لدھیانہ سے تعلق رکھنے والے مربی کی سربراہی میں یہ لوگ شام سے برطانیہ کے زیر تسلط فلسطین کی بندرگاہ حیفا پر اترے۔ جہاں سے انھیں جبل الکرمل پر واقع  قصبے  الکبابیر میں لے جا کر بسا دیا گیا۔

یہ وہ دور تھا جب مقامی فلسطینی اپنے مخدوش مالی و سیاسی حالات کی وجہ سے اپنی زمینیں فروخت کر رہے تھے۔  لدھیانہ کی ہدایت اور تعاون سے اس جماعت نے فلسطینوں میں یہ مہم چلائی کہ زمین یہودیوں کی بجائے انھیں فروخت کی جائے۔ پراپرٹی فلسطینوں سے خرید کر یہودیوں کو فرخت کرنے کا دہندہ ایسا منافع بخش ثابت ہواکہ ہندوستان میں لدھیانہ  کے مرکز کی دولت میں اضافے کے ساتھ ساتھ خود یہ مرکز مالی طور پر خوشحال ہوا۔ اپنی عبادت گاہ اور اسکول بھی بنا لیا۔ 1935  تک ان کا اپنا پرنٹنگ پریس قائم ہو چکا تھا اور ان کا تبلیغی رسالہ  البشری بھی باقاعدگی سے پرنٹ ہونا شروع ہو گیاجو اس وقت اسرائیل میں موجود  بائیس دوسرے مراکز کے ذریعے پورے اسرائیل میں تقسیم  کیا جاتا تھا۔

 1948  میں اسرائیل کے قیام کے بعد یہ مرکز اس قدر مضبوط ہو چکا  تھا کہ اسرائیل کے ہمسائیہ ممالک میں موجود مراکز کو کنٹرول کرتا تھا۔ حتی کہ دمشق مرکز بھی اسی کا مرہون منت تھا۔ یہاں سے ارد گرد کی مذہبی، سماجی، سیاسی اور معاشی سرگرمیوں کو کنٹرول کیا جاتا تھا۔ 

عربوں کی کہاوت ہے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو دھوتا ہے۔ 1974 میں نیو یارک سے شائع ہونے والی ایک کتاب میں انکشاف کیا گیا کہ ابتر دور میں اس مرکز نے اسرائیل کو اپنے  600  لوگ فوج میں بھرتی ہونے کے لیے دیے(1975 میں یہ  تعداد  800  تھی)۔ اسرائیل نے ملک بھر میں اذان سمیت اسلامی شعائر پر پابندی لگا دی مگر اس مرکز کو  (اپنی اذان)  جاری رکھنی کی اجازت تھی۔ 

2008 میں امریکی صدر بش نے جب حیفا کا دورہ کیا تو اس مرکز کے سربراہ سے ملاقات کی۔ جس کے بعد اسرائیلی صدر شمعون پریز نے اپنے حیفا کے دورے کے دوران اس مرکز میں منعقدہ اجتماع میں خصوصی شرکت کی۔ ان دو ملاقاتوں کے بعد اس مرکز کی سرگرمیوں کوتل ابیب میں سرکاری سطح پر اجاگر کر کے دکھایا جانے  لگا۔واشنگٹن اور تل ابیب میں اہمیت حاصل کرنے کے بعد اس مرکز نے سفارتی میدان کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا شروع کیا تو اس کے سرپرستوں اور بڑوں نے اس کو موقع فراہم کیا۔ 

اسلام آباد میں عمران خان کی حکوت قائم ہو چکی تھی۔ بتایا جاتا تھا ملک کی طاقتوربیوروکریسی اور عدلیہ عمران خان کے ساتھ ایک پیج پر ہے۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی ایک ممبر نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات بھی کی۔ مدینہ میں رسول اللہ ﷺ  کے یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کرنے کی مثال  پیش کی۔ عمران خان کی کابینہ کے ممبران نے عوام میں پرچار بھی کیا۔ رائے عامہ ہموار کرنے والے لکھاریوں کو میدان میں اتارا گیا۔ بحث چل نکلی تواکتوبر 2018 میں ایک نجی طیارہ تل ابیب سے براستہ عمان اسلام آباد آیا۔یہ مذکورہ  مرکز کا پہلا ٹیسٹ کیس تھا۔ عوامی رد عمل اس قدر سخت تھا کہ صدر عارف علوی تردیدی بیان جاری کرنے پر مجبور ہوئے۔ 

 معاشی طور پر مقروض، سماجی طور پر کرپٹ  ہونے کے باوجود یہاں کے صحافی اس قابل ہیں کہ آصف علی زرداری اور شہید بی بی کے نکاح کے موقع پر جنت مکین ارشاد حقانی نے پیشن گوئی کی کہ آصف ملک کے صدر بن سکتے ہیں۔ اور جب اوسامہ بن لادن کا کھوج لگانے کے لیے دنیا بھر کی ایجنسیاں جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس سرگرم عمل تھیں تو حامد میر نے اس کاانٹرویو کرکے دنیا بھر کو حیران کر ڈالا۔ اسی دیس کے صحافیوں نے حیفا میں موجود اس مرکز کے رابطے ہی نہیں اس کے سرپرستوں اور مالکان کو بھی کھوج نکالا۔ اس مرکز کے سرپرستوں، ہمدردوں اور مقامی سہولت کاروں کو بھی بے نقاب کرنا شروع کر دیا۔عمران خان کے غیر ملکی فنڈنگ،  تحریک انصاف میں قادیانیوں کے کردار،  ریاستی اداروں میں قادیانی کی خفیہ موجودگی کے انکشاف نے ریاست کو حکومت سے دور کرنے میں بنیادی کردار ادا گیا۔ 2022 میں قومی اسمبلی سے عدم اعتماد کے بعد عمران خان کے ساتھیوں نے ان سے دوری اختیار کرنا شروع کی تو عمران خان کا رد عمل سیاسی سے مزاحمتی ہونا شروع ہو گیا۔ ان پر نااہلی،  اقرباء پروری ،  مالی خیانت ، اور اخلاق باختی کے الزام لگنا شروع ہوئے تو رد عمل بھی سخت ہوتا گیا۔ لاہور اور اسلام آباد میں درجنوں پولیس اہلکاروں کو کامیابی سے زخمی کرنے اور کچھ کو جان سے مار دینے پر قانون کی خاموشی سے شہہ پاکر 9  مئی  2023 کو افواج پاکستان کی دو سو زیادہ تنصیبات پر بیک وقت حملہ کر کے  سوشل میڈیا پر یہ بیانیہ بنایا کہ مقابلے میں ایک آرمی چیف اور اس کے ساتھی چار جرنیل ہیں۔اور یہ کہ عدلیہ، فوج اور پولیس سمیت عوام میرے ساتھ ہے۔ سوشل میڈیا پرمتحرک ان کی ٹیموں نے تین سو سے زیادہ چاٹ بوٹس کے بل بوتے پر چند ساعتوں میں یہ بیانہ دنیا بھر میں پھیلا دیا۔مگر عوام میں یہ بیانیہ مقبول نہ ہو سکا۔ تازہ ترین واقعہ  

 اقوام متحدہ میں اسرائیلی مندوب کی پاکستان میں انسانی حقوق پر تبصرہ ہے۔تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر متحرک  مجاہدین اس بیان کو بین الاقوامی تنقید بتا کر عمران خان کی کامیابی بتا رہے ہیں جبکہ عوام برطرف وزیر اعظم عمران خان کے قادیانی جماعت سے اور قادیانی جماعت کے اسرائیل سے تعلقات کی نوعیت  پر بحث کر رہے ہیں۔

حیفا میں موجود قادیانی مرکز کی سفارت کاری کے بعد جو جہاز اسلام آباد ہو کر واپس گیا تھاس کی واپسی شائد اب عشروں تک ممکن نہ ہو۔


منگل، 11 جولائی، 2023

آخری انقلاب



پاکستان میں دو قسم کے انقلاب آتے رہے ہیں۔ پہلی قسم کو ظاہری اور دوسری کو خفی کہا جا سکتا ہے ۔ ظاہری انقلابوں میں پہلا جنرل ایوب خان نے 1958 میں برپا کیا تھا۔ دوسرا انقلاب جنرل یخیی خان نے 1969 لایا۔ پھر1977 میں جنرل ضیاء نے اسلامی انقلاب کی بنیاد رکھی۔ اسلامی روایات میں تین کا عدداہمیت کا حامل ہے ۔ چوتھی بار دروازے پر دستک دینے سے بھی احترازکی نصیحت موجود ہے ۔ جنرل پرویز مشرف نے مگر چوتھا انقلاب 1999 میں مسلط کر دیا۔ ان انقلابات کا سبب سیاست دانوں کی ﴿کرپشن﴾ بتایا گیا۔ کرپشن کے خلاف مگر خفیہ انقلابات بھی برپا کیے جاتے رہے ۔ ﴿کرپشن﴾ ایسا شیطانی دھندہ ہے جوپاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا ۔ اسی لیے ( Public Representation Office Disqualification Act ) پروڈا نامی انقلابی ایکٹ جاری تو 1949 میں ہوا مگر اسے نافذ اگست 1947 سے کیا گیا تھا ۔ بات مگر بنی نہیں تو ﴿Public Office Disqualification Order ﴾ پوڈو ۔۔۔ سے لے کر موجودہ نیب ترمیم تک خفی انقلابوں کی لمبی داستان ہے ۔ ہر انقلاب سے پہلے ایک تقریر سنائی جانے کی روائت کو برقرار رکھا گیا۔ تازہ ترین تقریر دس جولائی 2023 کو اسلام آباد میں وزیر اعظم کی موجودگی میں پاکستان کے سپہ سالار نے کی ہے ۔خوشخبری یہ ہے کہ پاکستان ایک سال میں اپنی معاشی کسمپرسی پر قابو پالے گا ۔ 

اسی تقریب میں ﴿مقر ر ﴾ زرعی انقلاب کی نوید بھی سنائی گئی ہے ۔ حالانکہ جنرل ایوب کے دور میں زرعی انقلاب بھی برپا کر لیا گیا تھا۔ جس کے چند سال بعد ہی ملک میں قحط پڑ گیا تھا۔ ہم کچھ نیا کرنے کی بجائے تجدید کر کے خوش ہوتے ہیں ۔ 1971 میں مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہو جانے پر ہم نے نیا پاکستان بھی بنا لیا تھا مگر 2018 میں دوبارہ نیا پاکستان بنا ڈالا جو اپریل 2022 سے ہمارے گلے پڑا ہوا ہے ۔

تازہ ترین سبز انقلاب کی خوشی میں میڈیا پر بحث جاری ہے اور تقریب میں موجود سامعین کا کہنا ہے ۔ تقریر کے دوران ماحول جذباتی ہو گیا اور لوگوں نے کھڑے ہو کر ﴿ نعرہ تکبیر ﴾ بھی بلند کیا۔ 

غیر جذباتی مبصرین البتہ اس انقلاب کو ملک کا آخری انقلاب بتاتے ہیں ۔ ہم ان تمام مایوسی کے شکار مبصرین پر چار حروف بھیجتے ہیں ۔ ہمارے بس میں اور ہے بھی کیا؟