



کچھ الفاظ اس قدر بدنام ہو جاتے ہیں کہ اپنا اثر کھو دتے ہیں۔ لفظ (پروپیگنڈہ) مدت سے استعمال ہو رہا ہے۔ یہ لفظ جب تک بادشاہوں اور مذہبی پیشواووں کی خدمت کرتا رہا متبرک رہا مگر پہلی جنگ عظیم میں جس ذہن سازی کے لیے استعمال ہوا۔
یا سویت یونین میں اس نے چالیس سال تک حکمرانوں کی جو خدمت کی۔یا کوریا میں قوم کو متحد کرنے میں جو کردار ادا کیا اور جرمنی میں ہٹلر نے اس لفظ کو جن معنوں میں استعمال کیا۔ اس کے استعمال نے اس کے معنی ہے بدل دیے۔ آج عام آدمی سمجھتا ہے یہ لفظ جھوٹ کا مترادف ہے۔
آپ تصور کریں جن ممالک میں بادشاہت ہے۔ کیا ان ممالک کی سڑکوں میں گڑھے ہیں یا وہاں کے پل گزرنے والی گاڑیوں کا وزن نہیں برداشت کر پاتے یا وہاں کے ائر پورٹ پر کسی جدید طیارے کا اترنا ناممکن ہوتا ہے یا وہاں کی عدالت انصاف نہیں کر پاتی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ وہاں عوام خوراک کو ترس رہی ہو یا پانی کے لیے بلبلا رہی ہو۔حقیقت یہ ہے ڈنمارک میں صدیوں سے بادشاہت ہے مگر وہ دنیا میں امن و امان اور قانون کی حکمرانی کے لحاظ سے گنتی میں پہلے نمبر پر ہے۔ حالانکہ تاریخ میں (پروپیگنڈہ) کے زیر اثر مگر کئی ممالک میں بادشاہوں کے تاج عوام نے ا چھال دیے۔ حالات مگر اس معاشرے میں ہی بدلے جہاں لوگوں نے (پروپیگنڈہ) سے متاثر ہونے کی بجائے سوچ سمجھ کرحالات کو تبدیل کرنے کی راہ اپنائی۔
حقیقت یہ ہے کہ طاقتورحکمران اپنی کامیابی کے حصول کے لیے الفاظ کے مطلب ہی بدل دیتا ہے۔ امریکی سیاست میں جب لفظ (تبدیلی) کا نعرہ بلند ہوا تو گویا ہر سو شادیانے بجنے لگے۔ مگر جب اس تبدیلی کے مجاہدوں نے سرکاری املاک پر حملے کیے تو امریکیوں پر انکشاف ہو ا کہ یہ سوشل میڈیا پر (پروپیگنڈہ) کا جادو تھا جو امریکیوں کے سر پر سوار ہو گیا تھا۔
(پروپیگنڈہ) ایسا ہتھیا ر ہے جو انسان کو دوسرے انسان کی جان لینے پر آمادہ کر لیتا ہے۔ خودکش حملہ آور ہمارے سامنے کی مثال ہے۔
حالیہ تاریخ میں (پروپیگنڈہ) جان بچانے کے لیے بھی استعمال ہوتا رہا ہے بھارتی (رام رحیم) کے پیروکارہوں یا امریکہ کے ڈیوڈ قریش کے ماننے والے جب ڈنڈے اور سوٹے لے کر پولیس کے ساتھ مقابلہ کے لیے نکلے تو سبب (پروپیگنڈہ) ہی
تھا۔
امریکی کانگرس کی ایک ممبر علیان عمر نے ایوان میں اپنی تقریر میں کہا ہے کہ اس ایوان کے ممبران نے یک زبان ہو کر اسرائیل پر ہونے والے ان (مظالم) کی مذمت کی ہے جو حماس نامی تنظیم نے اسرائیلیوں پر ڈھائے ہیں۔ مگر محض چند نے ہی ان مظالم کی مذمت کی ہے جو غزہ میں رہنے والوں کی زمین چھین کر، گھروں سے بے دخل کر کے، ان پر ڈھائے جا رہے ہیں اور یہ ایک دن، ہفتے یا مہینے کی بات نہیں ہے بلکہ عشروں سے ان کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ نسل کشی کرنے والا اسرائیل ہے۔ جو نہتے شہریوں پرآسمان سے آ گ برسا رہا ہے۔ بچے حتی کہ نومولود بھی اس کے نشانہ پر ہیں، معصوم بچوں کے والدین کو بخشا جا رہا ہے نہ بے بس اور بوڑہے دادا، دادی اور نانا، نانی کو ہی زندہ رہنے دیا جاتا ہے۔ علیان نے انکشاف کیا کہ اسرائیل نے غزہ جیسی تنگ پٹی پر دس دنوں میں جتنے بم برسائے ہیں وہ مقدار اور ہلاکت خیزی میں ان بموں سے زیادہ ہیں جو امریکہ نے پورے سال میں افغانستان پر پھینکے تھے۔ ایک برطانوی صحافی خاتون نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا امریکہ بیس سالوں میں افغانیوں کو نابود کر دینے میں کامیا ب ہوا ہے؟
سوشل میڈیا کی ایپ ٹویئٹر پر ایک باخبر شخص نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل اس مظالم کو مذہبی جنگ کے نام طور پر لیتا ہے اور امریکی کانگریس میں کھڑے ہو کر ایک ممبر اعلان کرتا ہے کہ ہم اسرائیل پر ڈھائے جانے والے ظلم کا ذمہ دار دنیا بھر کے مسلمانوں کو سمجھتے ہیں۔ مگر(پروپیگنڈہ) کے تمام آلے دنیا کو بتاتے ہیں کہ اسرائیل مسلمانوں کی نفرت کا شکار ہے۔
یہ (پروپیگنڈہ) ہی تو ہے کہ اسرائیل کا وزیر اعظم فلموں کے ٹکڑے کاٹ کر، پرانی تصویریں دکھا کر نہتے اور مظلوم فلسطینیوں کو حیوان کہتا ہے ۔ اس کا جنرل فلسطینیوں کا نام تک مٹا دینے کی بات کرتا ہے اور اپنے اس قول کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مسلح فوجیوں سے معصوم بچوں پر ایسے مظالم ڈھا رہا ہے کہ انسانیت کی روح کانپ کانپ جاتی ہے۔ علیان عمر نے مگر سوال اٹھایا ہے کہ آپ کی انسانیت کہاں ہے۔ اس سوال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ صابرہ اورشتیلہ کے پناہ گزیں کیمپوں کو دہشت گردی کا نعرہ لگا کر بارود برسا کر انسانوں کو آگ کا ایندھن بنایا گیا تھا۔ اس وقت کے ایک اسرائیلی وزیر نے اپنے مذہب میں پناہ لی تھی۔ یہ کیسا مکروہ کھیل ہے۔ یہ کیسا غلیظ (پروپیگنڈہ) ہے۔ جو مذہب کے نام پر کیا جا رہا ہے۔
ہٹلر ظالم تھا مگر اسرائیل ظالم تر ہے۔ دنیا بھر میں مظلوم ترین طبقہ غزہ میں بسنے والے بائیس لاکھ انسان ہیں۔ ظالم ترین حکو مت اسرائیل کی ہے جو بچوں اور عورتوں پر ایسے ظلم کر رہی ہے جو انسانی تاریخ میں نہیں ہوئے۔ نیتن ہاہو ہٹلر سے بڑا ظالم ہے۔
اور (پروپیگنڈہ) نامی ہتھیارسب سے ظالم ہتھیار ہے۔ اس وقت یہ ظالم ہتھیار تاریخ کے سب سے بڑے ظالم اسرائیلی حکومت کے ہاتھ میں ہے اور وہ اسے انسانیت نابود کرنے اور بے گناہ معصوموں کو مارنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
قادیانیوں نے 1925 میں شام میں اپنا مرکز بنایا تو شامی مسلمانوں نے انھیں بھی اسلام کے فرقوں میں سے ایک فرقہ سمجھامگر شام پر قابض فرانسیسیوں کے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ چند درجن، نووارد افراد نے قلیل مدت میں ہی اعلی سرکاری افسران سے سماجی تعلقات استوار کر لیے تھے۔ ان کی تنظیم اور مالی خوشحالی نے بھی حکمرانوں کو چونکا دیا۔ ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جانے لگی اور سترہ مارچ 1928 کو فرانس نے اس گروہ کوچوبیس گھنٹوں میں ان کی حکمرانی کی حدود سے نکل جانے کا حکم دیا۔ہندوستان کے شہر لدھیانہ سے تعلق رکھنے والے مربی کی سربراہی میں یہ لوگ شام سے برطانیہ کے زیر تسلط فلسطین کی بندرگاہ حیفا پر اترے۔ جہاں سے انھیں جبل الکرمل پر واقع قصبے الکبابیر میں لے جا کر بسا دیا گیا۔
یہ وہ دور تھا جب مقامی فلسطینی اپنے مخدوش مالی و سیاسی حالات کی وجہ سے اپنی زمینیں فروخت کر رہے تھے۔ لدھیانہ کی ہدایت اور تعاون سے اس جماعت نے فلسطینوں میں یہ مہم چلائی کہ زمین یہودیوں کی بجائے انھیں فروخت کی جائے۔ پراپرٹی فلسطینوں سے خرید کر یہودیوں کو فرخت کرنے کا دہندہ ایسا منافع بخش ثابت ہواکہ ہندوستان میں لدھیانہ کے مرکز کی دولت میں اضافے کے ساتھ ساتھ خود یہ مرکز مالی طور پر خوشحال ہوا۔ اپنی عبادت گاہ اور اسکول بھی بنا لیا۔ 1935 تک ان کا اپنا پرنٹنگ پریس قائم ہو چکا تھا اور ان کا تبلیغی رسالہ البشری بھی باقاعدگی سے پرنٹ ہونا شروع ہو گیاجو اس وقت اسرائیل میں موجود بائیس دوسرے مراکز کے ذریعے پورے اسرائیل میں تقسیم کیا جاتا تھا۔
1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد یہ مرکز اس قدر مضبوط ہو چکا تھا کہ اسرائیل کے ہمسائیہ ممالک میں موجود مراکز کو کنٹرول کرتا تھا۔ حتی کہ دمشق مرکز بھی اسی کا مرہون منت تھا۔ یہاں سے ارد گرد کی مذہبی، سماجی، سیاسی اور معاشی سرگرمیوں کو کنٹرول کیا جاتا تھا۔
عربوں کی کہاوت ہے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو دھوتا ہے۔ 1974 میں نیو یارک سے شائع ہونے والی ایک کتاب میں انکشاف کیا گیا کہ ابتر دور میں اس مرکز نے اسرائیل کو اپنے 600 لوگ فوج میں بھرتی ہونے کے لیے دیے(1975 میں یہ تعداد 800 تھی)۔ اسرائیل نے ملک بھر میں اذان سمیت اسلامی شعائر پر پابندی لگا دی مگر اس مرکز کو (اپنی اذان) جاری رکھنی کی اجازت تھی۔
2008 میں امریکی صدر بش نے جب حیفا کا دورہ کیا تو اس مرکز کے سربراہ سے ملاقات کی۔ جس کے بعد اسرائیلی صدر شمعون پریز نے اپنے حیفا کے دورے کے دوران اس مرکز میں منعقدہ اجتماع میں خصوصی شرکت کی۔ ان دو ملاقاتوں کے بعد اس مرکز کی سرگرمیوں کوتل ابیب میں سرکاری سطح پر اجاگر کر کے دکھایا جانے لگا۔واشنگٹن اور تل ابیب میں اہمیت حاصل کرنے کے بعد اس مرکز نے سفارتی میدان کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا شروع کیا تو اس کے سرپرستوں اور بڑوں نے اس کو موقع فراہم کیا۔
اسلام آباد میں عمران خان کی حکوت قائم ہو چکی تھی۔ بتایا جاتا تھا ملک کی طاقتوربیوروکریسی اور عدلیہ عمران خان کے ساتھ ایک پیج پر ہے۔ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی ایک ممبر نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات بھی کی۔ مدینہ میں رسول اللہ ﷺ کے یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کرنے کی مثال پیش کی۔ عمران خان کی کابینہ کے ممبران نے عوام میں پرچار بھی کیا۔ رائے عامہ ہموار کرنے والے لکھاریوں کو میدان میں اتارا گیا۔ بحث چل نکلی تواکتوبر 2018 میں ایک نجی طیارہ تل ابیب سے براستہ عمان اسلام آباد آیا۔یہ مذکورہ مرکز کا پہلا ٹیسٹ کیس تھا۔ عوامی رد عمل اس قدر سخت تھا کہ صدر عارف علوی تردیدی بیان جاری کرنے پر مجبور ہوئے۔
معاشی طور پر مقروض، سماجی طور پر کرپٹ ہونے کے باوجود یہاں کے صحافی اس قابل ہیں کہ آصف علی زرداری اور شہید بی بی کے نکاح کے موقع پر جنت مکین ارشاد حقانی نے پیشن گوئی کی کہ آصف ملک کے صدر بن سکتے ہیں۔ اور جب اوسامہ بن لادن کا کھوج لگانے کے لیے دنیا بھر کی ایجنسیاں جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس سرگرم عمل تھیں تو حامد میر نے اس کاانٹرویو کرکے دنیا بھر کو حیران کر ڈالا۔ اسی دیس کے صحافیوں نے حیفا میں موجود اس مرکز کے رابطے ہی نہیں اس کے سرپرستوں اور مالکان کو بھی کھوج نکالا۔ اس مرکز کے سرپرستوں، ہمدردوں اور مقامی سہولت کاروں کو بھی بے نقاب کرنا شروع کر دیا۔عمران خان کے غیر ملکی فنڈنگ، تحریک انصاف میں قادیانیوں کے کردار، ریاستی اداروں میں قادیانی کی خفیہ موجودگی کے انکشاف نے ریاست کو حکومت سے دور کرنے میں بنیادی کردار ادا گیا۔ 2022 میں قومی اسمبلی سے عدم اعتماد کے بعد عمران خان کے ساتھیوں نے ان سے دوری اختیار کرنا شروع کی تو عمران خان کا رد عمل سیاسی سے مزاحمتی ہونا شروع ہو گیا۔ ان پر نااہلی، اقرباء پروری ، مالی خیانت ، اور اخلاق باختی کے الزام لگنا شروع ہوئے تو رد عمل بھی سخت ہوتا گیا۔ لاہور اور اسلام آباد میں درجنوں پولیس اہلکاروں کو کامیابی سے زخمی کرنے اور کچھ کو جان سے مار دینے پر قانون کی خاموشی سے شہہ پاکر 9 مئی 2023 کو افواج پاکستان کی دو سو زیادہ تنصیبات پر بیک وقت حملہ کر کے سوشل میڈیا پر یہ بیانیہ بنایا کہ مقابلے میں ایک آرمی چیف اور اس کے ساتھی چار جرنیل ہیں۔اور یہ کہ عدلیہ، فوج اور پولیس سمیت عوام میرے ساتھ ہے۔ سوشل میڈیا پرمتحرک ان کی ٹیموں نے تین سو سے زیادہ چاٹ بوٹس کے بل بوتے پر چند ساعتوں میں یہ بیانہ دنیا بھر میں پھیلا دیا۔مگر عوام میں یہ بیانیہ مقبول نہ ہو سکا۔ تازہ ترین واقعہ
اقوام متحدہ میں اسرائیلی مندوب کی پاکستان میں انسانی حقوق پر تبصرہ ہے۔تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر متحرک مجاہدین اس بیان کو بین الاقوامی تنقید بتا کر عمران خان کی کامیابی بتا رہے ہیں جبکہ عوام برطرف وزیر اعظم عمران خان کے قادیانی جماعت سے اور قادیانی جماعت کے اسرائیل سے تعلقات کی نوعیت پر بحث کر رہے ہیں۔
حیفا میں موجود قادیانی مرکز کی سفارت کاری کے بعد جو جہاز اسلام آباد ہو کر واپس گیا تھاس کی واپسی شائد اب عشروں تک ممکن نہ ہو۔
پاکستان میں دو قسم کے انقلاب آتے رہے ہیں۔ پہلی قسم کو ظاہری اور دوسری کو خفی کہا جا سکتا ہے ۔ ظاہری انقلابوں میں پہلا جنرل ایوب خان نے 1958 میں برپا کیا تھا۔ دوسرا انقلاب جنرل یخیی خان نے 1969 لایا۔ پھر1977 میں جنرل ضیاء نے اسلامی انقلاب کی بنیاد رکھی۔ اسلامی روایات میں تین کا عدداہمیت کا حامل ہے ۔ چوتھی بار دروازے پر دستک دینے سے بھی احترازکی نصیحت موجود ہے ۔ جنرل پرویز مشرف نے مگر چوتھا انقلاب 1999 میں مسلط کر دیا۔ ان انقلابات کا سبب سیاست دانوں کی ﴿کرپشن﴾ بتایا گیا۔ کرپشن کے خلاف مگر خفیہ انقلابات بھی برپا کیے جاتے رہے ۔ ﴿کرپشن﴾ ایسا شیطانی دھندہ ہے جوپاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا ۔ اسی لیے ( Public Representation Office Disqualification Act ) پروڈا نامی انقلابی ایکٹ جاری تو 1949 میں ہوا مگر اسے نافذ اگست 1947 سے کیا گیا تھا ۔ بات مگر بنی نہیں تو ﴿Public Office Disqualification Order ﴾ پوڈو ۔۔۔ سے لے کر موجودہ نیب ترمیم تک خفی انقلابوں کی لمبی داستان ہے ۔ ہر انقلاب سے پہلے ایک تقریر سنائی جانے کی روائت کو برقرار رکھا گیا۔ تازہ ترین تقریر دس جولائی 2023 کو اسلام آباد میں وزیر اعظم کی موجودگی میں پاکستان کے سپہ سالار نے کی ہے ۔خوشخبری یہ ہے کہ پاکستان ایک سال میں اپنی معاشی کسمپرسی پر قابو پالے گا ۔
اسی تقریب میں ﴿مقر ر ﴾ زرعی انقلاب کی نوید بھی سنائی گئی ہے ۔ حالانکہ جنرل ایوب کے دور میں زرعی انقلاب بھی برپا کر لیا گیا تھا۔ جس کے چند سال بعد ہی ملک میں قحط پڑ گیا تھا۔ ہم کچھ نیا کرنے کی بجائے تجدید کر کے خوش ہوتے ہیں ۔ 1971 میں مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہو جانے پر ہم نے نیا پاکستان بھی بنا لیا تھا مگر 2018 میں دوبارہ نیا پاکستان بنا ڈالا جو اپریل 2022 سے ہمارے گلے پڑا ہوا ہے ۔
تازہ ترین سبز انقلاب کی خوشی میں میڈیا پر بحث جاری ہے اور تقریب میں موجود سامعین کا کہنا ہے ۔ تقریر کے دوران ماحول جذباتی ہو گیا اور لوگوں نے کھڑے ہو کر ﴿ نعرہ تکبیر ﴾ بھی بلند کیا۔
غیر جذباتی مبصرین البتہ اس انقلاب کو ملک کا آخری انقلاب بتاتے ہیں ۔ ہم ان تمام مایوسی کے شکار مبصرین پر چار حروف بھیجتے ہیں ۔ ہمارے بس میں اور ہے بھی کیا؟