جمعرات، 25 ستمبر، 2025

Trump, the Middle East, and the UN’s Crisis of Credibility




Trump, the Middle East, and the UN’s Crisis of Credibility

The Middle East, a land burdened with wars and unresolved disputes, has long been a testing ground for international diplomacy. Palestine and Kashmir stand out as symbols of the United Nations’ repeated failures. Into this troubled stage stepped Donald Trump — a president with a showman’s flair, a businessman’s bargaining instincts, and an eye fixed firmly on both domestic politics and his own place in history.

Trump often spoke of “ending endless wars.” Behind that rhetoric was a personal desire for the Nobel Peace Prize, a trophy that would elevate him into the league of great statesmen. He wanted to be remembered as the man who brought peace where others had failed. Yet his actions painted a different picture. His administration denied entry to New York for Mahmoud Abbas, the President of the Palestinian Authority, blocking him from attending a UN General Assembly session on Palestine. Silencing the voice of Palestine while amplifying Israel’s narrative told the world where Washington’s loyalties lay.

That loyalty was not accidental. At home, Trump’s survival in politics depended on safeguarding Israel and aligning with the powerful Zionist lobbies that shape America’s Congress, media, and think tanks. Criticizing the U.S. president, the Senate, or even religion may be tolerated in America, but to question Israel remains the one unforgivable sin in public discourse. Netanyahu’s frequent diatribes against Muslims and liberals found an echo in Trump’s speeches, a clear demonstration of how closely the U.S. president followed the Israeli prime minister’s script.

Trump’s international conduct was equally controversial. In his UNGA addresses, he mocked London’s Mayor Sadiq Khan and earlier singled out Zohran Mumdani, a Muslim politician in New York. During his London visit, Sadiq Khan was deliberately excluded from the state dinner. These actions revealed more than personal grudges — they reflected a worldview shaped by suspicion of Muslims and amplified by Israel’s agenda.

But perhaps the most telling aspect of Trump’s UN narrative was not what he said, but what he ridiculed. He complained about the malfunctioning teleprompter and even the elevators at the UN headquarters, while ignoring the organization’s far deeper malfunctions. The UN has consistently failed to resolve the Palestinian and Kashmiri crises, not because of broken machines, but because of a broken system — the veto power.

Here lies the heart of the problem. Time and again, when the majority of the UN General Assembly stood united against Israeli actions, the United States used its veto in the Security Council to shield its ally. Democracy within the UN collapses at the stroke of a single veto. This flaw mirrors the collapse of the League of Nations and threatens to turn the UN into nothing more than a debating club. If Trump was serious about restructuring the UN, then the first and most urgent reform must be a reconsideration of the veto power. Without it, the dream of a peaceful world will remain empty rhetoric.

Funding has also become a weapon. The U.S. is the largest contributor to the UN, but Trump cut funding significantly, holding the institution hostage to Washington’s political will. This raised serious questions: should the UN remain in New York, under constant U.S. pressure? Or should it be moved to Europe, to a more neutral ground? And why should the financial lifeline of global governance depend on one country alone? A more balanced system — where each nation contributes according to its GDP — could finally give the UN the independence it desperately needs.

In the end, Trump’s Middle East policy was a mixture of ambition, bias, and political expediency. Pressured by Muslim leaders, urged by Europeans, and tempted by the lure of a Nobel Peace Prize, he still chose the path of one-sided loyalty to Israel. His speeches and actions revealed the depth of Zionist influence in American politics and the weakness of the UN in confronting it.

The tragedy is not Trump alone. The tragedy is an international order where peace is blocked not by the will of nations, but by the veto of one. Unless the UN reforms this structural flaw, it will remain a stage for speeches — not solutions — and the people of Palestine, Kashmir, and beyond will continue to pay the price.



بدھ، 24 ستمبر، 2025

ٹیلی پرامپٹر



ٹیلی پرامپٹر

اقوامِ متحدہ کی حالیہ نشست کے دوران ٹیلی پرامپٹر کی خرابی نے صرف ایک تکنیکی ناکامی ہی نہیں دکھائی بلکہ اس ادارے کی انتظامی صلاحیت پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا۔ جب دنیا کے بڑے رہنما سب سے اہم عالمی مسائل پر بات کرنے کے لیے جمع ہوں اور اس دوران اس طرح کی ناکامیاں سامنے آئیں تو یہ اقوامِ متحدہ کی اہلیت پر منفی تاثر ڈالتی ہیں۔ وہ ادارہ جو دنیا میں امن و انصاف کا محافظ سمجھا جاتا ہے، خود اپنی کارکردگی اور ساکھ میں کمزور دکھائی دیتا ہے۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی عمارت کے بوسیدہ ڈھانچے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی مرمت پر تقریباً 500 ملین ڈالر درکار ہوں گے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ایک آزاد فریق نے یہی کام محض 200 ملین ڈالر میں مکمل کر دکھایا۔ یہ مثال اقوامِ متحدہ کے غیر شفاف اور غیر مؤثر انتظام کی عکاسی کرتی ہے۔ بظاہر ٹیلی پرامپٹر کی خرابی دراصل اس ادارے کی مجموعی ناکامی کی علامت ہے۔

جس اجلاس میں یہ واقعہ پیش آیا، وہ فلسطینیوں پر غزہ میں جاری نسل کشی کو روکنے کے لیے بلایا گیا تھا۔ لیکن یکجہتی کے بجائے اختلافات نمایاں ہو گئے۔ آج اسرائیل عالمی سطح پر تنہا دکھائی دیتا ہے اور صرف امریکا ہی اس کا مستقل حامی ہے۔ یہ صورتحال عالمی برادری کے اندر اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف بڑھتی ہوئی ناراضی کی علامت ہے۔

ٹرمپ کے ماضی کے بیانات اس تصویر کو مزید واضح کرتے ہیں۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ "پاکستانی مشرقِ وسطیٰ کو ہم سے بہتر سمجھتے ہیں"۔ یہ بات آج اور بھی اہم ہو چکی ہے، کیونکہ ستمبر میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بعد پاکستان کو خطے کے معاملات میں ایک نمایاں حیثیت مل گئی ہے۔ برسوں سے سعودی عرب کو مسلم دنیا کا محور مانا جاتا رہا ہے، لیکن پاکستان کی شمولیت نے اس توازن کو نئے رخ دیے ہیں۔

تاہم جب مسلم رہنماؤں نے ٹرمپ سے ملاقات کی تو امریکا کا سخت مؤقف واضح ہو گیا۔ ٹرمپ نے صاف کہا کہ اسرائیل کبھی بھی مسلم ممالک کی افواج کی موجودگی کو قبول نہیں کرے گا۔ امریکا خود اب اس پوزیشن میں نہیں رہا کہ بڑی تعداد میں اپنی افواج غزہ یا دیگر محاذوں پر تعینات کر سکے، جبکہ یورپی ممالک نہ تو اس صلاحیت کے حامل ہیں اور نہ ہی اس خواہش کے۔ نتیجتاً یہ بحران ایک خطرناک خلا میں جا رہا ہے، جہاں طاقت کے زور پر ہی سب کچھ طے ہو رہا ہے۔

دوسری جانب اسرائیل نے حماس کے خاتمے کا عزم ظاہر کیا ہے اور مغربی کنارے کے مزید علاقوں کو ضبط کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اسرائیل کے اندر ایک خوف موجود ہے۔ اصل خدشہ اسے ان نئے اتحادوں سے ہے جو مشرقِ وسطیٰ میں تشکیل پا رہے ہیں اور مستقبل میں اس کی جارحانہ پالیسیوں کو چیلنج کر سکتے ہیں۔

ٹرمپ اور مسلم رہنماؤں کی ملاقات کے بعد کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہ ہو سکا، جو اس باہمی بداعتمادی کو ظاہر کرتا ہے۔ آخرکار ٹرمپ کے فیصلے بھی اسرائیلی قیادت، خاص طور پر وزیرِاعظم نیتن یاہو کی منظوری کے محتاج تھے۔ اسی لیے دنیا بھر میں یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ آخر سپر پاور امریکا ہے یا اصل طاقت اسرائیل کے ہاتھ میں ہے؟

یوں اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں ٹیلی پرامپٹر کی خرابی محض ایک تکنیکی حادثہ نہیں تھا۔ یہ اس سے کہیں بڑھ کر ایک علامت تھی — اقوامِ متحدہ کے ناقص انتظام کی، عالمی طاقتوں کے درمیان اتفاقِ رائے کی کمی کی، اور ایک ایسے نظام کی جو غزہ میں ہونے والے مظالم کو روکنے سے قاصر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ناکام صرف ٹیلی پرامپٹر نہیں بلکہ پورا نظام ہے، اور دنیا انصاف کی تلاش میں سرگرداں ہے جہاں طاقت اصولوں پر غالب آ گئی ہے۔


منگل، 23 ستمبر، 2025

فیلڈ مارشل سے فیلڈ مارشل تک






فیلڈ مارشل 

 ایوب خان کے دور میں پاکستان نے سعودی عرب کے ساتھ دفاعی تعلقات کی پہلی اینٹ رکھی۔ پاکستانی افسران نے سعودی کیڈٹس کو تربیت دینا شروع کیا اور پاک فضائیہ کے پائلٹ سعودی ایوی ایشن میں مددگار ثابت ہوئے۔
یہ ابتدائی اعتماد وہ بیج تھا جس نے آگے چل کر دونوں ممالک کو باہمی دفاعی معاہدہ کرنے کے قابل بنایا۔

انیس سو ستر کی دہائی: دوستی سے عسکری تعاون تک
انیس سو اکہتر کی جنگ کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کو مالی اور سیاسی سہارا دیا، جبکہ پاکستان نے سعودی عرب کے لیے تربیتی مشنز بڑھائے۔
شاہ فیصل کی پاکستان سے قریبی وابستگی نے اس بات کو یقینی بنایا کہ دفاعی تعلقات ہمیشہ مرکزی حیثیت میں رہیں۔


انیس سو اناسی کے ایرانی انقلاب اور افغانستان پر سوویت حملے کے بعد سعودی عرب نے پاکستانی مہارت پر زیادہ انحصار کیا، جو بالآخر 2025 میں معاہدے کی صورت میں سامنے آیا۔

1980 کی دہائی: سعودی سرزمین پر پاکستانی فوج
انیس سو بیاسی میں ایک دفاعی پروٹوکول کے تحت پاکستان نے ایک ڈویژن پر مشتمل فوج سعودی عرب میں تعینات کی۔
پاکستانی فوجی اور فضائیہ کے پائلٹ سعودی عرب کی سرحدوں اور سلامتی کے محافظ بنے۔
یہ تعیناتی اس اصول کی جھلک تھی جو 2025 کے معاہدے میں تحریری طور پر شامل ہوا: پاکستان سعودی دفاع کے لیے عملی طور پر ہمیشہ تیار ہے۔

1990 کی دہائی: خلیجی جنگ اور اسٹریٹجک چھتری
نوے اکانوے میں کی خلیجی جنگ کے دوران 11 ہزار سے زائد پاکستانی فوجی سعودی عرب اور مقدس مقامات کے محافظ بنے۔
انیس سو اٹھانوے میں جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو سعودی عرب نے فوری طور پر پاکستان کو مالی و تیل کی سہولت دی۔ یہ عمل اس بات کی علامت تھا کہ سعودی عرب پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو ایک ممکنہ ڈھال سمجھتا ہے۔
ان دونوں واقعات نے یہ ثابت کیا کہ سعودی عرب اپنی سلامتی کے لیے پاکستان پر اعتماد کرتا ہے — اور یہی اعتماد 2025 میں معاہدے کی شکل اختیار کر گیا۔

2000 کی دہائی: تعاون کا ادارہ جاتی ڈھانچہ
جنرل مشرف کے دور میں دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ دفاعی کمیٹیاں اور تربیتی سلسلے مضبوط ہوئے۔
نائن الیون کے بعد انسدادِ دہشت گردی کے میدان میں بھی تعاون بڑھا۔
ان اقدامات نے یہ دکھایا کہ دفاعی تعلقات کو مستقل بنیادوں پر ڈھانچے کی ضرورت ہے — جسے بعد میں 2025 کے معاہدے نے پورا کیا۔

دوہزار دس کی دہائی: سرحد کی وضاحت، عزم کی تجدید
2015 میں یمن جنگ کے لیے پاکستان نے فوج بھیجنے سے انکار کیا، لیکن واضح اعلان کیا کہ اگر سعودی عرب کی سرزمین کو خطرہ ہوا تو پاکستان اس کا دفاع کرے گا۔
یہ وہ ریڈ لائن تھی جو 2025 کے معاہدے میں باضابطہ طور پر شامل ہوگئی۔

دو ہزار بیس کی دہائی: تعلقات کا قانونی روپ
اگرچہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات بہتر بنانے میں پاکستان نے ثالثی کی، لیکن سعودی عرب کے ساتھ دفاعی تعاون کمزور نہیں ہوا۔


سترہ ستمبر 2025 — ریاض میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان باہمی دفاعی معاہدہ طے پایا۔
معاہدے میں کہا گیا: “کسی ایک پر حملہ، دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔”

جو رشتہ ایوب خان کے دور میں تربیت اور نیک نیتی سے شروع ہوا تھا، جو تعیناتیوں، جنگوں اور ایٹمی اعتماد سے گزرا، وہ بالآخر ایک تحریری دفاعی معاہدے میں ڈھل گیا۔

 غیر رسمی اتحاد → باضابطہ دفاعی معاہدہ
تقریباً سات دہائیوں میں پاکستان نے بار بار یہ ثابت کیا — چاہے وہ تربیتی اکیڈمیاں ہوں، سعودی اڈے، جنگی حالات یا اسٹریٹجک بحران — کہ وہ سعودی عرب کے دفاع میں ساتھ کھڑا ہے۔ 2025 کا باہمی دفاعی معاہدہ اچانک نہیں آیا، بلکہ ایک طویل عسکری سفر کا فطری انجام تھا، جس نے روایت کو معاہدے میں بدل دیا۔

پیر، 22 ستمبر، 2025

اسرائیل کا منقسم ڈھانچہ

اسرائیل کا منقسم ڈھانچہ
اسرائیل بے شک ایک ملک ہے ۔ مگر اس کے شہری گروہوں میں منقسم لوگ ہیں نہ کہ ایک قوم ۔ اسرائیلی معاشرہ سیاسی، مذہبی، معاشی ، معاشرتی اور لسانی گروہ میں بٹا ہوا ایک ملک ہے ۔ ۔ اسرائیل میں مقامی پیدا ہونے والے یہودی تقریباً 35 سے 40 فیصد ہیں۔ یورپ اور امریکہ سے آنے والے، جنہیں آشکنازی کہا جاتا ہے، تقریباً ایک تہائی ہیں۔ سابق سوویت یونین سے آنے والے قریب 15 فیصد ہیں۔مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ (یعنی مزراحی یا سفاردی یہودی) تقریباً 40 سے 45 فیصد ہیں۔ایتھوپیا سے آنے والے یہودی تقریباً دو فیصد کے قریب ہیں۔
یہ لوگ کہاں اور کیسے آباد ہوتے ہیں
ابتدا میں حکومت نے نئے آنے والوں کو مخصوص بستیوں اور شہروں میں آباد کیا، اس وجہ سے ایک ہی خطے سے آنے والے لوگ اکٹھے رہنے لگے۔ بعد میں زبان اور ثقافت کی بنیاد پر بھی محلّے اور ہمسایہ داریاں بن گئیں۔
مختلف خطوں کے لوگ کیسے ہیں
سوویت یونین سے آنے والے زیادہ تر تعلیم یافتہ اور فنی مہارت رکھنے والے تھے، وقت کے ساتھ انہوں نے اچھی ترقی کی۔یورپ اور امریکہ سے آنے والے نسبتاً خوشحال اور آزاد خیال لوگ ہیں۔مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے آنے والے لوگ زیادہ روایتی ہیں، خاندان اور مذہبی اقدار کو اہمیت دیتے ہیں۔
ایتھوپیا سے آنے والے لوگ کم وسائل کے باوجود اپنی ثقافت اور زبان کو گھروں میں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
گھروں میں کون سی زبان بولی جاتی ہے
روسی بولنے والے اپنے گھروں میں روسی بولتے ہیں۔ایتھوپیا سے آنے والے امہاری یا تیگرینیا بولتے ہیں۔عرب اور دروز گھرانوں میں عربی رائج ہے۔
لیکن باہر کے معاملات، تعلیم اور ملازمت میں عبرانی ہی سب سے زیادہ بولی جاتی ہے۔
اسرائیل میں کس کو برتر سمجھا جاتا ہے
اسرائیل کے شروع کے زمانے میں یورپ اور امریکہ سے آنے والے یہودی، یعنی آشکنازی، تعلیم اور حکومت کے بڑے عہدوں پر زیادہ نظر آتے تھے۔ اس وجہ سے انہیں برتر طبقہ سمجھا گیا۔ وقت کے ساتھ دوسرے گروہ بھی اوپر آئے، لیکن معاشی اور تعلیمی فرق وقت کے ساتھ بڑھا ہے۔
سیاست میں کس گروہ کا زور ہے
ابتدا میں یورپی نژاد یہودی سیاست میں سب سے آگے تھے اور زیادہ تر بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ جڑے رہے۔ بعد میں مشرقی اور شمالی افریقہ کے یہودیوں نے دائیں بازو کی جماعتوں کو اپنی طاقت بنایا اور سیاست میں بڑی قوت حاصل کی۔ آج سیاست میں مختلف گروہ شریک ہیں لیکن مزراحی یہودی ووٹوں کی بڑی طاقت سمجھے جاتے ہیں۔اس ؑعنصر نے معاشرے میں انمٹ مسابقت پیدا کر دی ہے
فوج میں زیادہ کون ہیں
اسرائیل میں یہودی نوجوانوں کے لیے فوجی خدمت لازمی ہے، اس لیے سب سے زیادہ نمائندگی یہودیوں کی ہی ہے۔ اس کے علاوہ دروز کمیونٹی کے مرد سب سے زیادہ فوج میں شامل ہوتے ہیں اور اونچے عہدوں تک پہنچے ہیں۔ بدو بھی بعض خاص یونٹوں میں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ الٹرا آرتھوڈوکس یہودی فوج میں کم شریک ہوتے ہیں۔دروز عنصر البتہ اس قدر غالب ہے کہ فوج کے اندر ان کی رضامندی لازمی مانی جاتی ہے
کس گروہ کی معیشت مضبوط ہے
یورپی اور امریکی نژاد یہودی شروع سے ہی تعلیم اور سرمایہ رکھنے کی وجہ سے زیادہ خوشحال ہیں۔ امریکہ اور یورپ سے آنے والے بہت سے خاندان معاشی طور پر جلدی اوپر چلے گئے۔ سوویت یونین سے آنے والے ابتدا میں مشکل میں تھے مگر وقت کے ساتھ بہتر ہو گئے۔ مشرقی اور شمالی افریقہ کے لوگ اور ایتھوپین یہودی معاشی لحاظ سے اب بھی پچھڑے ہوئے سمجھے جاتے ہیں۔
اسرائیل کہنے کو یہودی مزہبی ملک ہے مگر اندر سے ملک سیاسی، معاشرتی، معاشی، اخلاقی ہی نہیں سیاسی طور پر پر بھی ایک منقسم معاشرہ ہے ۔ جس کو پرپیگنڈے، سرمائے اور ظلم نے جوڑ کے رکھا ہوا ہے۔

صغیرہ کبیہرہ

 

حضرت موسی علیہ السلام نے ایک مرتبہ اللہ تعالی سے پوچھا
یا اللہ میری امت کا سب سے بدترین شخص کون سا ھے؟
اللہ تعالی نے فرمایا !
کل صبح جو شخص تمھیں سب سے پہلے نظر آئے وہ آپ کی امت کا بد ترین انسان ھے
حضرت موسی علیہ السلام صبح جیسے ہی گھر سے باہر تشریف لائے
ایک شخص اپنے بیٹے کو کندھے پر بٹھائے ھوئے گزرا
حضرت موسی علیہ السلام نے دل میں سوچا
اچھا تو یہ ھے میری امت کا سب سے برا انسان
پھر آپ اللہ تعالی سے مخاطب ھوئے اور کہا
یا اللہ !
میری امت کا سب سے اچھا انسان کون سا ھے اسے دکھائیں
اللہ تعالی نے فرمایا !
شام کو جو شخص سب سے پہلے آپ سے ملے وہ آپکی امت کا سب سے بہترین انسان ھے
حضرت موسی علیہ السلام شام کو انتظار کرنے لگے کہ
اچانک انکی نظر صبح والے بد ترین انسان پر پڑی
یہ وہی شخص جو صبح ملا تھا
حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ سے کلام کیا
یا اللہ یا رب کریم
یہ کیا ماجرہ ھے
جو شخص بدترین تھا وہی سب سے بہترین
کیسے ھوسکتا ھے ؟
اللہ تعالی نے فرمایا !
صبح جب یہ شخص اپنے بیٹے کو کندھے پر بٹھائے جنگل کی طرف نکلا تو اس کے بیٹے نے اس سے پوچھا
ابا کیا اس جنگل سے بڑی کوئی چیز ھے
اس نے کہا
ہاں بیٹا
یہ پہاڑ جنگل سے بھی بڑے ہیں
بیٹا بولا
ابا ان پہاڑوں سے بھی بڑی کوئی شئے ھے
وہ بولا
ہاں بیا
یہ آسمان پہاڑوں سے بھی بہت بڑا بہت وسیع و عریض ھے
بیٹے نے کہا
ابا اس آسمان سے بڑی بھی کوئی چیز ھے
باپ نے ایک سرد آہ بھری اور دکھ بھری آواز میں بولا
ہاں بیٹا اس آسمان سے بھی بڑے تیرے باپ کے گناہ ہیں
بیٹے نے کہا
ابا ! تیرے گناہ سے بڑی بھی کوئی چیز ھے
باپ کے چہرے پر ایک چمک سی اگئی اور بولا
ہاں بیٹا
تیرے باپ کے گناھوں سے بہت بہت بڑی
میرے رب کی رحمت اور اسکی مغفرت ھے
اللہ رب العزت نے فرمایا
اے موسی ! مجھے اس شخص کا اعتراف گناہ اور ندامت اس قدر پسند آیا کہ
میں نے اس بدترین شخص کو تیری امت کا بہترین انسان بنا دیا
میں نے اسکے تمام گناہ ناصرف معاف کر دئیے بلکہ
گناھوں کو نیکیوں سے بدل دیا