منگل، 22 جولائی، 2025

بزدلی کی حکمتِ عملی





بزدلی کی حکمتِ عملی — موساد کے بیرونِ ملک خفیہ آپریشنز
 اسرائیل کی خفیہ ایجنسی "موساد" ایک ماہر اور طاقتور ادارہ تصور کی جاتی ہے، جس کے خفیہ آپریشنز کو مغربی میڈیا میں بہادری، ذہانت اور کامیابی کے استعارے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ موساد کے اکثر بیرونِ ملک کیے گئے آپریشنز  بزدلی، بدمعاشی اور عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی کا 
نمونہ ہیں۔

موساد کا سفارتی چہرہ
موساد نے دنیا کے مختلف ممالک میں درجنوں ایسے آپریشنز کیے ہیں جن میں اغواء، سیاسی مخالفین کا قتل، پاسپورٹس کی جعلسازی، خود ساختہ جھوٹے جواز اور غیر قانونی طریقوں سے شہریوں کو اٹھا کر اسرائیل لے جایا گیا۔ یہ تمام کارروائیاں اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
بیرونِ ملک اغواء کے مشہور واقعات
 ایڈولف آئخ مین کا اغواء (ارجنٹینا، 1960)
نازی جنگی مجرم ایڈولف آئخ مین کو موساد نے ارجنٹینا سے اغواء کر کے اسرائیل پہنچایا۔ اس کو پکڑنے کے لیے کسی قانونی یا سفارتی راستے کا انتخاب نہیں کیا گیا۔ اس کا اغواء، زبردستی منشیات دینا اور خفیہ پرواز کے ذریعے اسرائیل لانا ایک مثال بن گیا کہ موساد بین الاقوامی قوانین کو کیسے روندتا ہے۔

 مردخائی وانونو (اٹلی، 1986)
وانونو، اسرائیل کے نیوکلیئر راز فاش کرنے والا سابق سائنسدان، روم (اٹلی) میں ایک موساد ایجنٹ خاتون کے ذریعے پھنسا کر اغواء کیا گیا۔ اسے بے ہوش کر کے اسرائیل پہنچایا گیا جہاں اسے بغیر کسی کھلے ٹرائل کے قید کر دیا گیا۔

 فلسطینی مزاحمتی رہنما
موساد نے لبنان، تیونس، شام اور دیگر ممالک میں درجنوں فلسطینی سیاسی و عسکری رہنماؤں کو یا تو اغواء کیا یا قتل کر دیا۔ بعض اوقات ان افراد کا جرم صرف اسرائیلی پالیسیوں پر تنقید کرنا ہوتا تھا۔

 دبئی میں محمود المبحوح کا قتل (2010)
حماس کے رہنما محمود المبحوح کو دبئی کے ایک ہوٹل میں زہر دے کر قتل کیا گیا۔ موساد کے ایجنٹ جعلی آئرش، برطانوی اور آسٹریلوی پاسپورٹس استعمال کر کے داخل ہوئے اور واردات کے بعد فرار ہو گئے۔ یہ بین الاقوامی اعتماد اور سفارت کاری پر حملہ تھا۔

 ایرانی سائنسدانوں کا قتل
2010 
سے 2020 کے درمیان ایران کے متعدد نیوکلیئر سائنسدانوں کو مختلف طریقوں سے قتل کیا گیا — بم، ریموٹ کنٹرول ہتھیار، یا زہر۔ ان تمام کارروائیوں کے پیچھے موساد کا ہاتھ مانا جاتا ہے، اگرچہ اسرائیل نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔

 امریکہ میں قتل کی منصوبہ بندی
2021
 میں امریکی خبر رساں ادارے 
Politico
 نے انکشاف کیا کہ اسرائیل نے ممکنہ طور پر ایرانی افراد کو امریکی سرزمین پر قتل کرنے کے منصوبے بنائے۔ یہ دعویٰ امریکہ جیسے قریبی اتحادی کے لیے نہ صرف شرمندگی کا باعث تھا بلکہ ثابت کرتا ہے کہ موساد کسی ملک کی خودمختاری کو خاطر میں نہیں لاتا۔

نفسیاتی جنگ، سائبر حملے، اور جعلی پرچار
موساد صرف جسمانی کارروائیوں تک محدود نہیں۔ 
Stuxnet
 جیسے سائبر وائرس کے ذریعے ایران کے نیوکلیئر سسٹم پر حملہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ موساد آن لائن مہمات، کردار کشی، اور جھوٹی معلومات کے پھیلاؤ کے ذریعے اپنے ناقدین کو بدنام کرتا ہے۔ یہ وہ میدان ہے جہاں بزدلی ٹیکنالوجی کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے۔

موساد —بزدلی کی علامت
دنیا کی کوئی بھی خفیہ ایجنسی اپنی ریاست کے دفاع کے لیے اقدامات کرتی ہے، مگر موساد کی کارکردگی دہشت گرد تنظیموں سے مشابہت رکھتی ہے۔ کسی کے بھی خلاف کارروائی کے لیے قانون، انصاف یا شفافیت کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی — بس طاقت، سازش اور دھوکہ۔
موساد کی کارروائیاں  خوفزدہ ذہنیت کی عکاسی کرتی ہیں۔ وہ ذہنیت جو دشمن سے مکالمہ یا عدالت میں مقدمہ لڑنے کی بجائے پیچھے سے وار کرنا بہتر سمجھتی ہے۔

سازش کی راہ پر گامزن ملک
اسرائیلی حکومت موساد کی بزدلانہ حکمتِ عملی کی مکمل پشت پناہی کرتی ہے بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنا تو دور کی بات ہے وہ قانون کو جوتے کی نوک پر رکھتی ہے اور دنیا کو سازشوں، اغواء، قتل اور نفسیاتی حملوں سے زیر کرنا چاہتی ہے جبکہ    انصاف، مکالمے اور سفارتی اخلاقیات سے اپنی بات منوانا اصل راہ ہے


اسرائیل ۔۔۔ الہامی پیشگوئی یا صیہونی منصوبہ؟




اسرائیل ۔۔۔ الہامی پیشگوئی  یا صیہونی منصوبہ؟


یہ سوال آج بھی مشرقِ وسطیٰ کی سیاست، مذہب اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے: "کیا اسرائیل کا قیام کسی الہامی کتاب میں پیش گوئی کیا گیا تھا یا یہ صرف صیہونیت کا سیاسی منصوبہ ہے؟"
یہودی روایات، صیہونی بیانیہ اور اسلامی عقائد—تینوں اس سوال پر مختلف زاویہ نظر رکھتے ہیں، لیکن تاریخی شواہد اور دینی متون کا گہرا مطالعہ بتاتا ہے کہ حقیقت محض ایک مذہبی وعدے سے کہیں بڑھ کر ہے۔

تورات اور "سرزمین موعود" کا تصور
یہودیوں کی مذہبی کتاب "تورات" میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منسوب ایک وعدے کا ذکر آتا ہے:
"اس روز خداوند نے ابرام (ابراہیم) سے عہد باندھا، کہ تیری نسل کو میں یہ زمین دیتا ہوں، مصر کی ندی سے لے کر عظیم دریا فرات تک۔"
صیہونی تحریک نے انہی آیات کو بنیاد بنا کر دعویٰ کیا کہ فلسطین ان کا "مقدس حق" ہے۔ لیکن یہ دعویٰ کئی حوالوں سے سوالات کی زد میں ہے۔

 مذہب کے  پردے میں سیاسی تحریک
صیہونیت ایک جدید سیاسی تحریک ہے جو 19ویں صدی کے آخر میں تھیوڈور ہرزل کی قیادت میں ابھری۔ ہرزل بذاتِ خود سیکولر یہودی تھا اور اس کا مقصد یہودیوں کے لیے ایک محفوظ قومی ریاست قائم کرنا تھا، نہ کہ کسی الہامی وعدے کو پورا کرنا۔
اس تحریک نے مذہب کو صرف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ اسرائیل کا قیام خدا کی مرضی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود کئی یہودی مذہبی گروہ — جیسے نیٹری کارتا — آج بھی اسرائیل کے قیام کو مذہبی طور پر ناجائز سمجھتے ہیں۔

قرآن کا موقف
قرآن میں بنی اسرائیل کے تذکرے موجود ہیں، لیکن ان کے لیے "دائمی حق" کا کوئی تصور نہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں بتا دیا تھا کہ تم دو بار زمین میں فساد کرو گے..."
(سورہ بنی اسرائیل: 4)
ایک اور آیت میں فرمایا گیا:
"اے میری قوم! اس مقدس زمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھی ہے..."
(سورہ المائدہ: 21)
علمائے اسلام کے مطابق، یہاں "لکھی ہے" کا مطلب مخصوص وقت اور شرط کے تحت ہے، دائمی قبضے کا جواز نہیں۔ اسلام میں زمین کا حق نسل یا نسل پرستی پر نہیں بلکہ تقویٰ، عدل اور فرمانبرداری پر منحصر ہے۔

  ایک سامراجی منصوبہ
1917
 میں بالفور اعلامیہ کے ذریعے برطانوی سامراج نے یہودیوں کو فلسطین میں "قومی گھر" کا وعدہ کیا۔
1948
 میں برطانیہ کے انخلا اور اقوامِ متحدہ کی منظوری سے اسرائیل کا قیام عمل میں آیا—جبکہ وہاں پہلے ہی لاکھوں فلسطینی آباد تھے۔
یہ قیام طاقت، سازش، اور مغربی حمایت کی پیداوار تھا، نہ کہ کسی الہامی پیشگوئی کا ظہور۔

 مذہب یا مفاد پرستی؟
کئی یہودی علماء اس بات پر زور دیتے ہیں کہ
خدا کی دی ہوئی زمین صرف نیک قوم کا حق ہے۔
موجودہ اسرائیل کا کردار توراتی تعلیمات کے منافی ہے۔
قتل و غارت، نسلی امتیاز اور قبضہ گیری "سرزمین موعود" کی علامت نہیں ہو سکتیں۔
لہٰذا، اسرائیل کو "خدا کا وعدہ" قرار دینا ایک سیاسی پراپیگنڈہ ہے جو مذہبی حوالوں کو چن چن کر توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے۔

اسرائیل کا قیام
مذہبی تعلیمات کی اصل روح کے خلاف ہے؛
عالمی انصاف اور انسانی حقوق کے منہ پر طمانچہ ہے؛
اور ایک ایسی تحریک کا نتیجہ ہے جس نے مذہب کو سیاسی مفادات کی چادر اوڑھا دی۔
مذہب کی اصل روح عدل، تقویٰ اور انسان دوستی ہے—نہ کہ زمین پر قبضہ، قتل و غارت، یا کسی قوم کی بے دخلی۔
ایسا "الہامی وعدہ" جو مظلوموں کے آنسوؤں پر قائم ہو، صرف وعدہ نہیں، ظلم کی ایک دستاویز ہے۔
"مذہب کو سیاست کی چھتری بنا کر اگر ظلم کیا جائے، تو نہ مذہب بچتا ہے، نہ انسانیت۔"


پیر، 21 جولائی، 2025

منفی سوچ




منفی سوچ

ہماری روزمرہ زندگی میں بہت سی ناکامیاں اور رشتوں کی شکست و ریخت ایسی ہوتی ہیں، جن کا ذمہ دار کوئی اور نہیں، خود ہم ہوتے ہیں۔ ہماری "ضد"، "انا پرستی" اور "منفی سوچ" وہ خاموش دشمن ہیں، جو ہمارے عزائم، خواب اور صلاحیتوں کو بے دردی سے نگل جاتے ہیں۔
یہ بات صرف اخلاقی نصیحت نہیں، بلکہ تاریخ اور حالیہ زندگی کی حقیقت بھی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ حقیقی زندگی میں یہ عوامل کیسے انسان کو بربادی کی طرف لے جاتے ہیں۔
 ضد — فیصلہ کن تباہی کا پہلا قدم
ضد وہ رویہ ہے جو انسان کو حقائق سے آنکھیں بند کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ چاہے سب کچھ تباہ ہو جائے، مگر ضدی انسان اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹتا۔
 مثال
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی کے کئی ادوار میں ضد نے ٹیم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ورلڈ کپ 2011 کے بعد اُنہوں نے کھلاڑیوں کے ساتھ ضد کی بنیاد پر اختلافات بڑھائے، خود فیصلے کیے، اور ٹیم کی باہمی ہم آہنگی ختم کر دی۔ نتیجتاً وہ نہ صرف کپتانی سے محروم ہوئے بلکہ ٹیم کے اندرونی تنازعات کا شکار ہو گئے۔
 انا پرستی — خودفریبی کی بلند دیوار
انا پرستی وہ بیماری ہے جس میں انسان اپنے آپ کو سب سے برتر سمجھتا ہے اور دوسروں کی رائے کو اپنے وقار کے خلاف مانتا ہے۔
 مثال
پاکستانی سیاستدان چوہدری شجاعت حسین کی مثال لیجیے۔ اُن کی جماعت مسلم لیگ (ق) نے 2008 کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد کے کئی مواقع گنوائے، محض اس لیے کہ قیادت پر سمجھوتہ ان کی انا کو گوارا نہ تھا۔ نتیجتاً پارٹی تنزلی کا شکار ہوئی اور آج صرف علامتی حیثیت رکھتی ہے۔

قابل غور
"انا وہ پردہ ہے جو سچائی کو چھپا دیتا ہے۔"
"جھکنے والے پہاڑ بھی عبور کر لیتے ہیں، اَڑنے والے راستے کھو بیٹھتے ہیں۔"
 منفی سوچ — کامیابی کی راہ کا کانٹا
منفی سوچ وہ نظریہ ہے جو ہر موقع میں خطرہ دیکھتا ہے، ہر امید میں ناکامی اور ہر تبدیلی میں بگاڑ۔
 مثال
مشہور بھارتی مصنفہ ارُندھتی رائے نے 1990 کی دہائی میں جب ناول 
"The God of Small Things"
 پر کام شروع کیا تو اُنہیں ہر طرف سے یہ کہا گیا کہ لوگ ایسے منفرد اسلوب کو نہیں سمجھیں گے۔ اُنہیں بارہا مایوسی کی خبریں سنائی گئیں۔ مگر اُنہوں نے منفی سوچ کو پسِ پشت ڈال کر تخلیقی سفر جاری رکھا، اور نتیجتاً اُنہیں بُکر پرائز ملا۔
دوسری طرف، پاکستان میں بے شمار باصلاحیت نوجوان صرف اس لیے میدان سے باہر ہو گئے کہ اُنہیں بچپن سے ہی یہ سکھایا گیا کہ "یہ نظام تمہیں کچھ نہیں دے گا"۔

قابل غور
"مایوس انسان وہ ہوتا ہے جس نے ہارنے سے پہلے کوشش چھوڑ دی ہو۔"
"مثبت سوچ نہ صرف راستہ دکھاتی ہے بلکہ منزل کا دروازہ بھی کھولتی ہے۔"

خود احتسابی کا عمل شروع کریں
ہر روز خود سے پوچھیں، کیا میرے فیصلے میں ضد یا انا شامل ہے؟ کیا میں صرف منفی پہلو سوچ کر پیچھے ہٹ رہا ہوں؟
مشورے کو دل سے سنیں
قائداعظم محمد علی جناح جیسا عظیم لیڈر بھی اپنی کابینہ سے مشورہ لیتا تھا، تو ہم کیوں نہ سیکھیں؟
معافی کو عظمت سمجھیں
برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم نے اپنی ایک تقریر میں شہزادی ڈیانا کے معاملے پر عوام سے معذرت کی، حالانکہ وہ دنیا کی سب سے طاقتور خاتون تھیں۔ یہ معافی نہیں، بلکہ حکمت اور عاجزی کی مثال تھی۔
مثبت لوگوں سے تعلق رکھیں
نیلسن منڈیلا، جنہوں نے تنقید، مایوسی اور مخالفت کے ماحول میں بھی مثبت سوچ کو نہیں چھوڑا۔
قابل غور
ضد، انا اور منفی سوچ انسان کو صرف اندر سے کھوکھلا نہیں کرتیں، بلکہ اُس کی صلاحیتوں، خوابوں، اور رشتوں کو بھی دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہیں۔ کامیابی اُس شخص کی ہم سفر بنتی ہے جو اپنی ضد کو دلیل سے بدلتا ہے، انا کو عاجزی سے توڑتا ہے، اور مایوسی کو امید سے بدل دیتا ہے۔
قرآن کا فرمان ہے
"اللہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا"
نبی کریم ﷺ نے فرمایا
"مایوسی کفر ہے، اور عاجزی عظمت کی نشانی"
آئیے — ہم خود سے یہ عہد کریں کہ ضد، انا اور منفی سوچ کو پیچھے چھوڑ کر عقل، عاجزی اور مثبت طرزِ  آفکر کے ساتھ زندگی گزاریں

ہفتہ، 19 جولائی، 2025

تاثر کی جنگ





مشہور مصری فلم ساز مصطفیٰ العقاد کی ہالی وڈ میں بنائی گئی شہرہ آفاق فلم "The Message" 
 اسلامی تاریخ پر مبنی ایک شاہکار ہے۔ اس فلم میں ایک نہایت پُراثر مکالمہ ہے، جو آج بھی عالمی سیاست کی روح کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔ مکالمہ کچھ یوں ہے:
"کیا ہم واقعی غلط تھے؟ ہم تو ہمیشہ یہی سمجھتے رہے کہ طاقت ہمیشہ حق پر ہوتی ہے…"
یہ الفاظ ابو سفیان کی بیوی ہند اپنے شوہر سے کہتی ہے۔ سوال سادہ ہے مگر معنویت میں گہرا —
کیا صرف طاقتور ہونا حق پر ہونے کی دلیل ہے؟
آج بھی یہی سوال دنیا کے کونے کونے میں گونج رہا ہے۔
کیا وہی قوم حق پر ہے جس کے پاس جدید ہتھیار، اتحادی طاقتیں اور میڈیا کا کنٹرول ہے؟
یا وہ جو مظلوم ہے مگر ثابت قدم، بےسروسامان مگر بااصول ہے؟
اسرائیل اور طاقت کا زعم
گزشتہ برسوں میں اسرائیل نے غزہ پر جو قیامت ڈھائی ہے، وہ دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ ہزاروں بچوں کو شہید کیا گیا، لاکھوں افراد لاپتہ یا معذور ہو چکے، اور اسپتالوں، اسکولوں و پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔
یہ سب کچھ کرنے کے باوجود اسرائیل دنیا کے سامنے مظلوم بننے کی اداکاری کرتا ہے، اور الٹا دوسرے ممالک کو دھمکاتا ہے۔
کیوں؟
کیونکہ اس کے پیچھے ایک تاثر ہے — ناقابلِ شکست ہونے کا تاثر۔
مگر جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا اور ایران نے منہ توڑ جواب دیا، تو طاقت کے اس تاثر میں دراڑ پڑ گئی۔
دنیا نے دیکھا کہ وہ ایران جسے برسوں سے تنہا کرنے کی کوششیں جاری تھیں، پوری خوداعتمادی سے جواب دے رہا ہے — اور تاثر کی بساط پلٹ رہا ہے۔
بھارت کا بھرم کیسے ٹوٹا؟
بھارت جنوبی ایشیا میں اپنی عسکری طاقت، خلائی پروگرام اور سفارتی اثر و رسوخ پر فخر کرتا ہے۔
لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی طاقت کے زعم میں وہ پاکستان کے خلاف قدم بڑھاتا ہے، اسے منہ کی کھانی پڑتی ہے۔
10
 مئی 1998 کو پاکستان نے کامیاب جوابی ایٹمی دھماکے کیے اور بھارت کا "تنہا ایٹمی طاقت" ہونے کا تاثر ریزہ ریزہ ہو گیا۔
پھر 27 فروری 2019 کو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا، تو پاکستان نے دو بھارتی طیارے مار گرائے اور ایک پائلٹ کو گرفتار کر کے دنیا کو دکھا دیا کہ تاثر اور حقیقت کا فرق کیا ہوتا ہے۔
طاقت صرف ہتھیاروں کا نام نہیں — اعصاب، حکمت اور اصول بھی طاقت ہوتے ہیں۔
امریکہ کی "عالمی طاقت" کا زوال
پچھلی صدی میں امریکہ نے ویت نام، افغانستان، عراق اور دیگر کئی ممالک پر حملے کیے۔ ہر بار نتیجہ وہی نکلا:
ویت نام: دنیا کی مہنگی ترین جنگ، مگر شرمناک پسپائی
افغانستان: 20 سال کی لڑائی کے بعد طالبان دوبارہ اقتدار میں
عراق: تباہی، خانہ جنگی، داعش کی پیدائش اور خطے میں عدم استحکام
دنیا نے تسلیم کر لیا:
امریکہ جنگ چھیڑ سکتا ہے، مگر امن قائم نہیں رکھ سکتا۔
نئی امید: ایران اور پاکستان
آج اسلامی دنیا دو ایسے ممالک کو دیکھ رہی ہے جو کم وسائل، اندرونی مسائل اور عالمی دباؤ کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں — ایران اور پاکستان۔
جب پاکستان نے کہا:
"ایران سو سال تک جنگ لڑ سکتا ہے"
تو یہ صرف اظہارِ یکجہتی نہیں، بلکہ امتِ مسلمہ کے حوصلے کی نئی علامت بن گیا۔
ایران کی مجلسِ شوریٰ میں پاکستان کے حق میں "تشکر" کا نعرہ لگا —
یہ محض سفارتی کلمات نہیں، بلکہ اس نئے تاثر کا اعلان تھا کہ:
"بھارت معاہدے کر کے پیچھے ہٹ جاتا ہے، جبکہ پاکستان مشکل وقت میں ساتھ کھڑا رہتا ہے۔"
تاثر سازی کی اصل جنگ
دنیا آج تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ اب صرف ہتھیار نہیں، بلکہ بیانیہ اور تاثر قوموں کی طاقت کی پہچان بن رہا ہے۔
طاقت کا زعم ٹوٹ رہا ہے
سچائی کی بازگشت بلند ہو رہی ہے
اور مظلوم اقوام سر اٹھا کر بات کر رہی ہیں۔
اب وہی طاقتور ہے:
جو حق پر ہو
جو صبر سے جواب دے
جو اتحاد و انصاف کا علمبردار ہو
اور یہی کردار آج ایران و پاکستان ادا کر رہے ہیں۔
یہ صرف دشمن کو چیلنج نہیں کر رہے، بلکہ امت مسلمہ کو نئے اتحاد، نئے شعور اور نئی امید کا پیغام دے رہے ہیں۔

خوبصورت آنکھوں والی خواتین

 خوبصورت آنکھیں عورت کی شخصیت اور حسن کا سب سے مؤثر پہلو سمجھی جاتی ہیں۔ دنیا کی فلمی، ادبی اور ثقافتی تاریخ میں کئی ایسی خواتین گزری ہیں جن کی آنکھیں ان کی پہچان بن گئیں — چاہے وہ رنگ، گہرائی، تاثرات یا کشش کے اعتبار سے ہوں۔

یہ رہی کچھ معروف خواتین کی فہرست جنہیں خوبصورت آنکھوں والی خواتین کے طور پر جانا جاتا ہے:


🌟 خوبصورت آنکھوں والی خواتین کی فہرست

1. ایشوریا رائے بچن (Aishwarya Rai Bachchan) — بھارت

  • نیلی سبز آنکھیں

  • 1994 میں "مس ورلڈ" کا تاج

  • بالی ووڈ میں "خوبصورتی کی دیوی" کہی جاتی ہیں

2. ایلیزبتھ ٹیلر (Elizabeth Taylor) — امریکہ

  • نایاب جامنی آنکھیں (Violet Eyes)

  • ہالی وڈ کی مشہور ترین خوبصورتی

3. انجلینا جولی (Angelina Jolie) — امریکہ

  • گہری، پرکشش اور پراثر آنکھیں

  • ان کی آنکھوں نے ان کے کرداروں میں جذبات بھر دیے

4. کترینہ کیف (Katrina Kaif) — بھارت

  • بھوری اور بڑی آنکھیں

  • نرم اور دلکش تاثر رکھنے والی

5. ڈیبورا این وول (Deborah Ann Woll) — امریکہ

  • نیلی، شفاف اور روشن آنکھیں

  • ان کی آنکھیں ان کی شخصیت کا مرکزی پہلو ہیں

6. زینت امان — بھارت

  • ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ان کی آنکھوں کی گہرائی نے سب کو دیوانہ بنایا

7. پریانکا چوپڑا — بھارت

  • بڑی، سیاہ اور گہری آنکھیں

  • آنکھوں کے ذریعے جذبات ادا کرنے میں ماہر

8. سعاد حسنی (Soad Hosny) — مصر

  • عربی دنیا کی مشہور اداکارہ

  • دلکش، معصوم اور پراثر آنکھیں

9. لیزا ری (Lisa Ray) — کینیڈا/بھارت

  • ہیزل (hazel) آنکھوں والی ماڈل و اداکارہ

  • آنکھوں کی چمک اور پرکشش نگاہوں کی وجہ سے معروف

10. مہوش حیات — پاکستان

  • پاکستانی اداکارہ، بڑی اور جاذب نظر آنکھوں والی


🧕 قدیم اور روایتی مثالیں:

حضرت یوسف علیہ السلام کی تعریف کرنے والی مصری خواتین

"فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ" — سورہ یوسف
ان عورتوں کی خوبصورتی بھی مصری دربار میں مشہور تھی، خاص طور پر زلیخا، جن کی آنکھوں کی کشش روایات میں بیان کی گئی ہے۔


📌 نوٹ:

خوبصورت آنکھیں صرف رنگ یا سائز کا نام نہیں، بلکہ تاثر، گہرائی، معصومیت، شرارت، جذبات اور روح کی جھلک بھی آنکھوں سے ظاہر ہوتی ہے۔

اگر آپ چاہیں تو مخصوص ملک، دور یا شعبے (مثلاً پاکستانی فلم انڈسٹری، ترک ڈرامے، یا شاعری) کی خوبصورت آنکھوں والی خواتین کی الگ فہرست بھی دی جا سکتی ہے۔