جمعرات، 10 جولائی، 2025

ٹرمپ کا مخالف نوجوان





زوہران ممدانی — موجودہ امریکی صدر کی آنکھ میں کھٹکنے والا نوجوان سیاستدان

آج جب دنیا بھر میں انتہا پسندی، نسل پرستی اور امیگریشن مخالف جذبات کو سیاسی طاقت حاصل ہو رہی ہے، ایسے میں نیویارک شہر سے تعلق رکھنے والے نوجوان سیاستدان زوہران ممدانی ایک توانا اور جرات مند آواز کے طور پر ابھرے ہیں۔ زوہران ممدانی نہ صرف ترقی پسند سیاست کی علامت ہیں بلکہ وہ اس نظام کے خلاف کھڑے ہیں جس کی قیادت فی الوقت خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کر رہے ہیں۔

زوہران ممدانی 30 اپریل 1991 کو یوگنڈا کے شہر کمپالا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد، پروفیسر محمود ممدانی، دنیا بھر میں معروف سیاسی مفکر اور اسکالر ہیں، جن کا تعلق بھارتی نژاد اسماعیلی مسلمان خاندان سے ہے۔ محمود ممدانی نے نو آبادیاتی تاریخ، افریقی سیاست اور شناخت کے موضوعات پر گہری تحقیق کی ہے اور کولمبیا یونیورسٹی نیویارک میں تدریسی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

زوہران کی والدہ، میرا نائر، عالمی شہرت یافتہ بھارتی فلم ساز ہیں، جو بھارت کے صوبے اوڑیسہ کے ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کی فلمیں، جیسے سلام بمبئی، من سون ویڈنگ اور دی نیم سیک، نہ صرف عالمی فلمی میلوں میں سراہا جا چکی ہیں بلکہ ان میں سماجی مسائل، شناخت اور انسانیت کا درد نمایاں نظر آتا ہے۔

زوہران ممدانی نے بچپن سے ہی ایک کثیرالثقافتی اور وسیع سوچ رکھنے والے ماحول میں پرورش پائی۔ وہ مذہبی طور پر خود کو مسلمان کہتے مگرسیکولر سوچ کے حامل ہیں۔ انہیں انگریزی، ہسپانوی، اردو، ہندی اور بنگالی زبانوں پر عبور حاصل ہے، جو انہیں نیویارک جیسے کثیرالثقافتی شہر میں عوام کے قریب تر لے آتی ہے۔

2020
 میں زوہران ممدانی نے نیویارک اسٹیٹ اسمبلی کے حلقہ 36 (آسٹوریا کوئنز) سے انتخابات میں حصہ لیا اور ڈیموکریٹک پارٹی کی پرائمری میں اس وقت کی رکن اسمبلی اراویلا سیموتاس کو شکست دی۔ اراویلا کا تعلق یونانی نژاد آرتھوڈوکس عیسائی کمیونٹی سے تھا اور وہ یونانی کمیونٹی میں خاصی اثر و رسوخ رکھتی تھیں۔

زوہران نے کرایہ داروں کے حقوق، سستی رہائش، مفت صحت کی سہولیات، پولیس اصلاحات اور تارکین وطن کے لیے آواز بلند کی، جس نے انہیں نوجوانوں اور ترقی پسند حلقوں میں بے حد مقبول بنا دیا۔

زوہران ممدانی کے مؤقف خاص طور پر امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ 
(ICE)
 کی چھاپہ مار کارروائیوں کے خلاف سخت موقف نے انہیں موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آنکھ میں کھٹکنے والی شخصیت بنا دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے نہ صرف زوہران کو تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ انہیں کھلے عام گرفتار کرنے کی دھمکی بھی دے دی۔

ٹرمپ نے کہا کہ اگر زوہران ممدانی 
ICE
 کی کارروائیوں کی راہ میں رکاوٹ بنے، تو انہیں گرفتار کیا جائے گا۔ اس دھمکی کے جواب میں زوہران نے سوشل میڈیا پر دو ٹوک الفاظ میں جواب دیتے ہوئے کہا:

"صدر ٹرمپ نے مجھے اس لیے گرفتار کرنے کی دھمکی دی ہے کیونکہ میں قانون توڑ رہا ہوں؟ نہیں! بلکہ اس لیے کہ میں 
ICE
 کو ہمارے شہر میں دہشت پھیلانے سے روکنے کا حوصلہ رکھتا ہوں۔ ان کے بیانات نہ صرف ہماری جمہوریت پر حملہ ہیں بلکہ وہ ہر نیویارکر کے لیے انتباہ ہیں کہ اگر آپ بولیں گے تو وہ آپ کو خاموش کروانے آئیں گے۔ ہم اس دھونس کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔"

زوہران کا یہ جرات مندانہ جواب محض ایک فرد کی طرف سے نہیں بلکہ نیویارک جیسے کثیرالثقافتی شہر کی اجتماعی سوچ اور مزاحمت کی عکاسی ہے، جہاں لاکھوں تارکین وطن رہتے ہیں اور جہاں خوف کی سیاست کو کھلے عام چیلنج کیا جا رہا ہے۔

زوہران ممدانی آج صرف نیویارک کے ایک حلقے کے نمائندے نہیں، بلکہ وہ ان نوجوان ترقی پسند سیاستدانوں میں شامل ہیں جو ٹرمپ کی انتہا پسند، نسل پرست اور امیگریشن مخالف سیاست کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہیں۔ ان کا تعلق بائیں بازو کی اس نئی نسل سے ہے جو سرمایہ دارانہ جبر، نسل پرستی اور خوف کی سیاست کو مسترد کرتے ہیں۔

موجودہ امریکہ جہاں صدر ٹرمپ کی پالیسیاں واضح طور پر امتیازی ہیں، وہاں زوہران ممدانی جیسے نوجوان سیاستدان ایک امید کی کرن ہیں، جو نہ صرف مظلوموں کی آواز بنے ہیں بلکہ جمہوریت، مساوات اور انسان دوستی کی جنگ میں سب سے آگے نظر آتے ہیں۔


اسرائیلی اسلحہ اور امریکہ



عنوان: امریکی ٹیکس دہندگان کی جیب سے اسرائیلی بندوق تک


ایک عام امریکی شہری جب تنخواہ کا چیک وصول کرتا ہے، تو اسے شاید یہ گمان بھی نہیں ہوتا کہ اس کی محنت کی کمائی کا ایک حصہ کہیں مشرق وسطیٰ میں کسی F-35 طیارے، JDAM بم یا آئرن ڈوم میزائل کی صورت میں استعمال ہو رہا ہے — اور وہ بھی ایک ایسی ریاست کے لیے جو دنیا کے ایک حساس ترین خطے میں مسلسل انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔ جی ہاں، بات ہو رہی ہے اسرائیل کی، اور اس کی عسکری طاقت کو سہارا دینے والے سب سے بڑے عالمی مالی مددگار، یعنی امریکہ کی۔
اسرائیل کا قیام اور امریکی آشیرباد

1948
 میں اسرائیل کے قیام کے بعد ہی امریکہ نے اسے تسلیم کیا اور چند ہی برسوں میں اسے معاشی و عسکری امداد دینا شروع کر دی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ امداد ایک "تحفہ" سے بڑھ کر "معاہدہ" بن گئی — ایسا معاہدہ جو ہر امریکی حکومت نے اپنی خارجہ پالیسی کا ستون بنایا۔ اندازہ کریں کہ اب تک امریکہ، اسرائیل کو تقریباً 297 سے 310 ارب ڈالر کی امداد دے چکا ہے، اور یہ رقم امریکی تاریخ کی سب سے بڑی غیر ملکی امداد بن چکی ہے۔
2016
 کا تاریخی دفاعی معاہدہ

اوباما دور میں
 2016
 میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان ایک یادداشتِ
(MoU) 
پر دستخط ہوئے، جس کے تحت امریکہ 2028 تک ہر سال 3.8 ارب ڈالر اسرائیل کو مہیا کرے گا — جس میں 33 ارب ڈالر ہتھیاروں کے لیے اور 5 ارب میزائل ڈیفنس سسٹمز کے لیے مختص ہیں۔ یہ رقم امریکی ٹیکس دہندگان کی جیب سے نکلتی ہے، اور براہ راست اسرائیلی وزارت دفاع کے کام آتی ہے۔
اسرائیلی اسلحے کی امریکی فیکٹری

اسرائیل آج جو جدید عسکری طاقت رکھتا ہے، اس میں امریکہ کا براہ راست کردار ہے۔
 F-35
 اسٹیلتھ طیارے، آئرن ڈوم میزائل دفاعی نظام، ڈیوڈز سلنگ، ایرو میزائل، 
Apache
ہیلی کاپٹرز، اور جدید بم — سب امریکی فنڈنگ سے خریدے یا تیار کیے گئے ہیں۔ صرف آئرن ڈوم کے لیے امریکہ 2.6 ارب ڈالر فراہم کر چکا ہے۔ یہی نہیں، اسرائیل کو دی جانے والی امداد میں سے 26 فیصد رقم وہ اپنے ملک میں خرچ کر سکتا ہے — جس سے اس کی دفاعی صنعت کو فروغ ملتا ہے۔
حالیہ جنگیں، فوری امداد
اکتوبر 2023 میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد سے لے کر جولائی 2025 تک، امریکہ نے اسرائیل کو ہنگامی بنیادوں پر 17.9 ارب ڈالر کی فوجی امداد فراہم کی — جو تاریخ کی سب سے بڑی سالانہ رقم ہے۔ مزید برآں، وائٹ ہاوس نے 2025 میں 8 ارب ڈالر کے اضافی ہتھیاروں کی فراہمی کا نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں میزائل، توپیں، اور Hellfire
میزائل شامل تھے۔

تنقید اور سوالات
امریکی امداد پر سوال اٹھانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ پیسہ ان اسکولوں، اسپتالوں اور بنیادی ضروریات سے چھینا جا رہا ہے جو امریکی عوام کے لیے ناگزیر ہیں۔ مزید یہ کہ یہ امداد ان جنگوں کو طاقت دیتی ہے جن میں ہزاروں معصوم فلسطینی شہری مارے جا چکے ہیں، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور بین الاقوامی میڈیا بارہا اس پر تشویش ظاہر کر چکے ہیں — مگر امریکہ کی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی۔
نتیجہ: بندوق اور ضمیر کا حساب

اسرائیل کو دی جانے والی امریکی امداد، صرف ایک سفارتی یا دفاعی تعلق نہیں، بلکہ یہ اس عالمی ضمیر کا امتحان ہے جو انسانی حقوق، جمہوریت، اور انصاف کی بات کرتا ہے۔ امریکی ٹیکس دہندگان کو یہ سوال ضرور اٹھانا چاہیے کہ ان کی محنت کی کمائی آخر کس کے ہاتھوں میں جا رہی ہے — اور کس کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔

یہ محض اعداد و شمار کا معاملہ نہیں، یہ اخلاقیات، اصولوں اور عالمی امن کی بات ہے۔ بندوق کی نالی سے نکلنے والی ہر گولی کا حساب صرف فائر کرنے والے کے ہاتھوں میں نہیں، بلکہ اس کو خریدنے والے کے ضمیر میں بھی محفوظ ہوتا ہے۔
کیا امریکی عوام کو معلوم ہے کہ ان کا پیسہ اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں استعمال ہو رہا ہے؟
کیا کانگریس نے امداد کے اس بہاؤ پر کبھی جامع آڈٹ کرایا ہے؟
کیا کسی فلسطینی کی موت کا بوجھ امریکی ووٹر پر بھی ہے؟
یہ وہ سوالات ہیں ودنیا بھر میں پوچھے جا رہے ہیں


پیر، 7 جولائی، 2025

جمہوریت بہترین انتقام.




جمہوریت بہترین انتقام

بے نظیر بھٹو کا نعرہ تھا کہ "جمہوریت بہترین انتقام ہے" — اور وقت نے ثابت کیا کہ بھٹو کی بیٹی کا یہ نعرہ محض الفاظ نہیں، بلکہ ایک ایسی فکری سمت تھی جس نے فرد کی جگہ نظام کو طاقت دی، ذاتی انتقام کی بجائے قومی سیاست کو مضبوط کیا، اور پاکستان میں عوامی شعور کو ایک نئی جہت بخشی۔
آج جب ہم آزاد کشمیر اور پاکستان کی سیاست کا جائزہ لیتے ہیں تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس نعرے کی روح کچھ سیاستدانوں کے ذاتی مفادات کی نذر ہو چکی ہے۔
دوسری طرف تحریک انصاف، جو ایک اصولی سیاسی تحریک کے طور پر سامنے آئی تھی، وقت گزرنے کے ساتھ محض افراد کے خلاف مزاحمت میں الجھ کر رہ گئی۔
عمران خان کی گرفتاری نے پارٹی کو ذاتی انتقام کے راستے پر ڈال دیا، مگر اصولی جدوجہد کا وہ معیار نظر نہیں آیا جس سے تحریک مضبوط ہوتی۔
نتیجہ سب کے سامنے ہے — نہ پارٹی کو فائدہ ہوا، نہ عمران خان کو۔
آزاد کشمیر اسمبلی کے ممبر جاوید بٹ اس وقت اسی سیاسی موقع پرستی کی جیتی جاگتی مثال بن چکے ہیں۔
کل تک عمران خان کے خود ساختہ "ٹائیگر" تھے، ان کی ہر تقریر میں عمران خان کے گن گاتے، ان کے جلسوں میں پیش پیش نظر آتے۔
مگر جب عمران خان قید ہوئے، آزمائش کا وقت آیا، تو سب سے پہلے چھلانگ لگانے والوں میں جاوید بٹ کا نام شامل ہو گیا۔
مسلم لیگ ن نے اصولی موقف اپنایا اور جاوید بٹ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، شاید ان کی ذاتی زندگی اور سیاسی داغدار ماضی کو دیکھتے ہوئے۔
آخرکار پیپلز پارٹی نے، سیاسی وزن بڑھانے کی خواہش میں، جاوید بٹ کو اپنے قافلے میں شامل کر لیا۔
پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس فیصلے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے:
کیا یاسی بوری کا وزن کھوٹے سکوں سے بڑھایا جا سکتا ہے؟
کیا ایسے متنازع افراد کی شمولیت سے عوام میں اعتماد پیدا ہوگا یا نظریاتی کارکنان بدظن ہوں گے؟
جاوید بٹ جیسے شخص کے لیے جیالوں کی جماعت میں لمبے عرصے تک قدم جمانا شاید اتنا آسان نہ ہو جتنا بظاہر لگتا ہے۔
جاوید بٹ کی سیاسی اڑان درحقیقت راولپنڈی کے سیاسی مافیا اور شیخ رشید کی سرپرستی کا نتیجہ تھی۔
آزاد کشمیر اسمبلی کی مخصوص نشست پر کامیابی میں شیخ رشید کی پسِ پردہ سپورٹ کوئی راز نہیں۔
حلقے میں ترقیاتی فنڈز کے نام پر دولت کی ریل پیل، سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال اور عوامی پیسوں سے سیاسی سرمایہ کاری ان کی پہچان بن چکی ہے۔
جاوید بٹ کا ذاتی کردار بھی عوام میں زیرِ بحث رہا ہے:
مختلف خواتین کے ساتھ مبینہ تعلقات، جو راولپنڈی اور اسلام آباد کی سیاسی و سماجی محفلوں میں زبان زدِ عام ہیں۔
ایک معروف خاتون کے ساتھ ان کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں۔
سیاسی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ جاوید بٹ نے ان تعلقات کو سیاسی مقاصد اور مالی فوائد کے لیے استعمال کیا۔
جاوید بٹ کا لندن کا "مطالعہ دورہ" درحقیقت ایک خاندانی تفریحی ٹرپ تھا، جس پر آزاد کشمیر کے خزانے سے 50 ملین روپے خرچ کیے گئے 
عوام اور اپوزیشن کی جانب سے سخت تنقید کے باوجود نہ کوئی احتساب ہوا، نہ کوئی شرمندگی نظر آئی۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر سے مبینہ روابط
جاوید بٹ کی مہاجر حیثیت پر سوالیہ نشان تب اور گہرا ہو گیا جب ان کے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں مقیم افراد سے ذاتی اور مالی روابط کی خبریں منظرِ عام پر آئیں۔
سابق ڈپٹی کمشنر میرپور کی رپورٹ کے مطابق ان کی مہاجر حیثیت کا کوئی قانونی ثبوت دستیاب نہیں۔
یہ معاملہ آزاد کشمیر میں قومی سلامتی اور سیاسی شفافیت پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
جاوید بٹ کی سیاسی کہانی درحقیقت پاکستان اور آزاد کشمیر میں جاری اس سیاسی سرکس کی عکاسی ہے جہاں:
نظریات کی جگہ مفادات نے لے لی ہے۔
اصول پسندی کے بجائے موقع پرستی کو ترجیح دی جا رہی ہے۔
عوامی پیسہ ذاتی عیاشیوں پر لٹایا جا رہا ہے۔
بدعنوانی، تعلقات اور اثر و رسوخ کے بل پر اقتدار کے سنگھاسن سجائے جا رہے ہیں۔
نتیجہ — عوامی بیداری ہی واحد امید
عوام کے پاس اب ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ وہ شخصیات اور پارٹی جھنڈوں سے بالاتر ہو کر صرف کردار، کارکردگی اور سیاسی اصولوں کی بنیاد پر فیصلہ کریں۔ ورنہ جاوید بٹ جیسے کردارجو کل عمران خان کے ٹائیگر بن کر عوام کو سبز باغ دکھاتے تھے ،آج کی جھنڈی تھام کر ان ہی  عوام کودوبارہ بے وقوف بنائیں گے۔

صرف یہود نہیں، ہم بھی





صرف یہود نہیں، ہم بھی 

اکثر ہم یہود و نصاریٰ کی مذہبی قیادت پر تنقید کرتے ہیں کہ وہ دین کے نام پر عوام کا مال کھاتے ہیں، ان کی سادگی اور عقیدت کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور دنیا کی آسائشیں سمیٹتے ہیں۔ بلاشبہ یہ حقیقت ہے، لیکن کیا ہم نے کبھی اپنے گریبان میں جھانکا ہے؟

یاد رکھیں، صرف یہود و نصاریٰ ہی اہلِ کتاب نہیں، مسلمان بھی اہلِ کتاب ہیں۔ بدقسمتی سے مسلمانوں میں بھی وہی بیماری سرایت کر چکی ہے جس کی نشان دہی قرآن نے کی تھی۔ آج ہمارے اپنے علما، شیخ، پیر، مبلغ اور دینی رہنما دین کی خدمت اور تبلیغ کے نام پر چندہ، زیور، عطیات اور تحائف اکٹھے کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی لوگ وہ دولت بیرونِ ملک جائیدادیں خریدنے اور اہل و عیال سمیت وہاں مستقل منتقل ہونے پر خرچ کرتے ہیں، پھر بڑے فخر سے خود کو "بین الاقوامی مبلغ" قرار دیتے ہیں۔

یہی نہیں، ان کے بچے مہنگی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، خود قیمتی لباس اور اعلیٰ طرزِ زندگی اختیار کرتے ہیں، جبکہ پیروکاروں کو کفایت شعاری، قناعت اور مالی قربانی کا درس دیتے ہیں۔ ان کے اپنے لیے دنیا، اور عوام کے لیے دین — یہی ان کا اصول بن چکا ہے۔ یہ کھلی منافقت اور دنیا پرستی ہے، جسے دین کا لبادہ اوڑھا دیا گیا ہے۔

ایسے علما اور رہنما حقیقت میں دین کے خادم نہیں، بلکہ دین کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنا چکے ہیں۔ قرآن نے ایسے لوگوں کو سخت تنبیہ کی ہے جو سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ قیامت کے دن یہی مال ان کے لیے عذاب بنے گا، اور ان کی ظاہری دینداری کا پول کھل جائے گا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ظاہری لبادے اور بلند دعووں کے بجائے کردار اور عمل کو دیکھیں۔ جو شخص دین کا سچا خادم ہو، اس کی زندگی میں سادگی، اخلاص اور قربانی نظر آئے گی۔ جو محض دعوے کرے، دنیا کمائے اور عوام کو دھوکہ دے، وہ دین کے نہیں، اپنے مفاد کے لیے کام کرتا ہے۔

مسلمان اگر واقعی دین کے خیر خواہ ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ ایسے فریب کاروں سے ہوشیار رہیں، دین کو دنیا کا کاروبار بنانے والوں کو پہچانیں اور ان سے بچیں۔ دین کی خدمت، قربانی اور تبلیغ صرف زبان سے نہیں، کردار اور عمل سے ظاہر ہوتی ہے۔

سورہ الزمر آیت 53



 بہشتی دروازہ 

 روایت کے مطابق یہ دروازہ سال میں مخصوص ایام میں کھولا جاتا ہے اور لاکھوں افراد اس دروازے سے گزرنے کے لیے دور دور سے یہاں آتے ہیں۔ صدیوں سے یہ عقیدہ عام ہے کہ جو شخص اس دروازے سے گزر جائے، اس کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور وہ جنت کا مستحق قرار پاتا ہے۔

یہ روایت، جو صوفی بزرگ حضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ کی نسبت سے منسوب ہے، برصغیر پاک و ہند کی صوفیانہ تاریخ اور عوامی عقائد میں گہری جڑیں رکھتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دینِ اسلام میں اس نوعیت کی نجات اور مغفرت کی ایسی مخصوص 'زمینی علامت' یا 'مخصوص راستہ' کوئی شرعی بنیاد رکھتا ہے؟ اور اگر نہیں، تو ایسی روایات اور عقائد کا مقام اور دائرہ کار کیا ہونا چاہیے؟

قرآنِ مجید اور احادیثِ نبویہ کی تعلیمات واضح کرتی ہیں کہ گناہوں کی معافی کے لیے توبہ، ندامت، اعمالِ صالحہ، حقوق العباد کی ادائیگی اور اللہ کی رحمت بنیادی ذرائع ہیں۔ سورہ زمر میں ارشاد ہے:
"اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے! اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، بے شک اللہ سب گناہ معاف فرما دیتا ہے۔" (سورۃ الزمر: ۵۳)

یہ آیت ہمیں اس امر کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ مغفرت ایک ذاتی روحانی کیفیت اور رب کی بارگاہ میں انکساری کا نتیجہ ہے، نہ کہ کسی مخصوص دروازے یا علامت کے گزرنے سے حاصل ہوتی ہے۔

بلاشبہ، روحانی مقامات، بزرگانِ دین کی نسبتیں، اور صوفی روایات ہمارے معاشرتی اور روحانی ورثے کا حصہ ہیں، لیکن جب ان روایات کو دین کے بنیادی اصولوں سے بلند کر کے لازمی عقائد یا بخشش کی یقینی ضمانت بنا دیا جاتا ہے تو یہاں سوالات جنم لیتے ہیں۔

مسجد الحرام، مسجد نبوی اور بیت المقدس جیسے مقدس ترین مقامات کے دروازوں میں بھی ایسی کوئی روایت یا عقیدہ موجود نہیں کہ محض ان کے نیچے سے گزرنے سے گناہ معاف ہو جائیں۔ اگر دنیا کے مقدس ترین مقامات پر ایسی سہولت موجود نہیں تو پھر صوفیانہ محبت اور عقیدت کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ایسی باتوں کو مذہب کے مسلمہ اصولوں کا درجہ دینا دین کی سادہ روح کے ساتھ ناانصافی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ بہشتی دروازے پر ہر سال انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوتا ہے۔ ۲۰۲۱ میں پیش آنے والا سانحہ، جس میں ۲۷ افراد اپنی جان سے گئے، اس بات کی عملی مثال ہے کہ جب عقیدہ، غیر ضروری ہجوم، اور حفاظتی تدابیر کی کمی یکجا ہو جائیں تو نتیجہ المیہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

سوال پھر وہی ہے کہ دین اور روایت میں توازن کہاں ہے؟ عقیدت اور عمل میں فرق کیسے واضح کیا جائے؟ اور سب سے بڑھ کر، قوم کو کیسے یہ شعور دیا جائے کہ جنت کسی دروازے یا مخصوص رسم کا محتاج نہیں، بلکہ نیت، تقویٰ، حقوق العباد اور اللہ کی رضا کی طلب سے حاصل ہوتی ہے۔

یہ بحث جذبات سے نہیں، شعور اور علم کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ عقیدت قابلِ احترام ہے، لیکن جب عقیدت عقل پر حاوی ہو جائے تو معاشرہ استحصال، جہالت اور اندھی تقلید کی دلدل میں دھنس جاتا ہے۔