جمہوریت بہترین انتقام
بے نظیر بھٹو کا نعرہ تھا کہ "جمہوریت بہترین انتقام ہے" — اور وقت نے ثابت کیا کہ بھٹو کی بیٹی کا یہ نعرہ محض الفاظ نہیں، بلکہ ایک ایسی فکری سمت تھی جس نے فرد کی جگہ نظام کو طاقت دی، ذاتی انتقام کی بجائے قومی سیاست کو مضبوط کیا، اور پاکستان میں عوامی شعور کو ایک نئی جہت بخشی۔
آج جب ہم آزاد کشمیر اور پاکستان کی سیاست کا جائزہ لیتے ہیں تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس نعرے کی روح کچھ سیاستدانوں کے ذاتی مفادات کی نذر ہو چکی ہے۔
دوسری طرف تحریک انصاف، جو ایک اصولی سیاسی تحریک کے طور پر سامنے آئی تھی، وقت گزرنے کے ساتھ محض افراد کے خلاف مزاحمت میں الجھ کر رہ گئی۔
عمران خان کی گرفتاری نے پارٹی کو ذاتی انتقام کے راستے پر ڈال دیا، مگر اصولی جدوجہد کا وہ معیار نظر نہیں آیا جس سے تحریک مضبوط ہوتی۔
نتیجہ سب کے سامنے ہے — نہ پارٹی کو فائدہ ہوا، نہ عمران خان کو۔
آزاد کشمیر اسمبلی کے ممبر جاوید بٹ اس وقت اسی سیاسی موقع پرستی کی جیتی جاگتی مثال بن چکے ہیں۔
کل تک عمران خان کے خود ساختہ "ٹائیگر" تھے، ان کی ہر تقریر میں عمران خان کے گن گاتے، ان کے جلسوں میں پیش پیش نظر آتے۔
مگر جب عمران خان قید ہوئے، آزمائش کا وقت آیا، تو سب سے پہلے چھلانگ لگانے والوں میں جاوید بٹ کا نام شامل ہو گیا۔
مسلم لیگ ن نے اصولی موقف اپنایا اور جاوید بٹ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، شاید ان کی ذاتی زندگی اور سیاسی داغدار ماضی کو دیکھتے ہوئے۔
آخرکار پیپلز پارٹی نے، سیاسی وزن بڑھانے کی خواہش میں، جاوید بٹ کو اپنے قافلے میں شامل کر لیا۔
پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس فیصلے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے:
کیا یاسی بوری کا وزن کھوٹے سکوں سے بڑھایا جا سکتا ہے؟
کیا ایسے متنازع افراد کی شمولیت سے عوام میں اعتماد پیدا ہوگا یا نظریاتی کارکنان بدظن ہوں گے؟
جاوید بٹ جیسے شخص کے لیے جیالوں کی جماعت میں لمبے عرصے تک قدم جمانا شاید اتنا آسان نہ ہو جتنا بظاہر لگتا ہے۔
جاوید بٹ کی سیاسی اڑان درحقیقت راولپنڈی کے سیاسی مافیا اور شیخ رشید کی سرپرستی کا نتیجہ تھی۔
آزاد کشمیر اسمبلی کی مخصوص نشست پر کامیابی میں شیخ رشید کی پسِ پردہ سپورٹ کوئی راز نہیں۔
حلقے میں ترقیاتی فنڈز کے نام پر دولت کی ریل پیل، سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال اور عوامی پیسوں سے سیاسی سرمایہ کاری ان کی پہچان بن چکی ہے۔
جاوید بٹ کا ذاتی کردار بھی عوام میں زیرِ بحث رہا ہے:
مختلف خواتین کے ساتھ مبینہ تعلقات، جو راولپنڈی اور اسلام آباد کی سیاسی و سماجی محفلوں میں زبان زدِ عام ہیں۔
ایک معروف خاتون کے ساتھ ان کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں۔
سیاسی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ جاوید بٹ نے ان تعلقات کو سیاسی مقاصد اور مالی فوائد کے لیے استعمال کیا۔
جاوید بٹ کا لندن کا "مطالعہ دورہ" درحقیقت ایک خاندانی تفریحی ٹرپ تھا، جس پر آزاد کشمیر کے خزانے سے 50 ملین روپے خرچ کیے گئے
عوام اور اپوزیشن کی جانب سے سخت تنقید کے باوجود نہ کوئی احتساب ہوا، نہ کوئی شرمندگی نظر آئی۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر سے مبینہ روابط
جاوید بٹ کی مہاجر حیثیت پر سوالیہ نشان تب اور گہرا ہو گیا جب ان کے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں مقیم افراد سے ذاتی اور مالی روابط کی خبریں منظرِ عام پر آئیں۔
سابق ڈپٹی کمشنر میرپور کی رپورٹ کے مطابق ان کی مہاجر حیثیت کا کوئی قانونی ثبوت دستیاب نہیں۔
یہ معاملہ آزاد کشمیر میں قومی سلامتی اور سیاسی شفافیت پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
جاوید بٹ کی سیاسی کہانی درحقیقت پاکستان اور آزاد کشمیر میں جاری اس سیاسی سرکس کی عکاسی ہے جہاں:
نظریات کی جگہ مفادات نے لے لی ہے۔
اصول پسندی کے بجائے موقع پرستی کو ترجیح دی جا رہی ہے۔
عوامی پیسہ ذاتی عیاشیوں پر لٹایا جا رہا ہے۔
بدعنوانی، تعلقات اور اثر و رسوخ کے بل پر اقتدار کے سنگھاسن سجائے جا رہے ہیں۔
نتیجہ — عوامی بیداری ہی واحد امید
عوام کے پاس اب ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ وہ شخصیات اور پارٹی جھنڈوں سے بالاتر ہو کر صرف کردار، کارکردگی اور سیاسی اصولوں کی بنیاد پر فیصلہ کریں۔ ورنہ جاوید بٹ جیسے کردارجو کل عمران خان کے ٹائیگر بن کر عوام کو سبز باغ دکھاتے تھے ،آج کی جھنڈی تھام کر ان ہی عوام کودوبارہ بے وقوف بنائیں گے۔