منگل، 17 جون، 2025

ایران میں بچوں کے ہسپتال پر حملہ







جنگ کی اپنی ہی زبان ہوتی ہے۔ بارود، تباہی، لاشیں، اور جلتے ہوئے خواب۔ لیکن جب جنگ کی زد میں ہسپتال آ جائیں، جب مریضوں اور بچوں کی چیخیں میزائلوں کی آوازوں میں دب جائیں، تو یہ محض جنگ نہیں رہتی، بلکہ انسانیت کا قتل عام بن جاتی ہے۔

ایسا ہی ایک افسوسناک واقعہ حالیہ دنوں ایران کے دارالحکومت تہران میں پیش آیا، جہاں "حکیم چلڈرن ہسپتال" کو اسرائیلی حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ اس ہسپتال میں صرف بیمار بچے زیرِ علاج تھے۔ ان کے ہاتھوں میں بندوقیں نہیں تھیں، ان کے سروں پر جنگی ہیلمٹ نہیں تھے۔ وہ بچے تھے، کمزور، بیمار، اور معصوم۔ مگر شاید جدید جنگوں میں معصومیت سب سے بڑا جرم بن چکا ہے۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق ہسپتال کی عمارت کے باہر میزائل یا ڈرون حملہ کیا گیا۔ اگرچہ عمارت کے اندر براہ راست کوئی جانی نقصان رپورٹ نہیں ہوا، مگر خوف، دہشت، اور سراسیمگی کا جو ماحول پیدا ہوا، وہ کسی زخمی یا مقتول سے کم نہیں۔ بچوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا، طبی عملہ ہڑبڑا گیا، اور ماں باپ کے چہروں پر خوف نے ڈیرے ڈال دیے۔

ایران نے اس حملے کو جنگی جرم قرار دیا ہے اور عالمی برادری سے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ، عالمی ادارہ صحت (WHO)، اور دیگر بین الاقوامی ادارے حسبِ معمول "تشویش" کا اظہار کرتے نظر آئے، مگر عملی اقدامات کہیں دکھائی نہیں دیے۔ طبی ادارے بین الاقوامی قانون کے تحت خصوصی تحفظ رکھتے ہیں۔ ان پر حملہ، کسی بھی قانون اور ضمیر کے مطابق، ناقابلِ قبول جرم ہے۔

لیکن یہاں سوال صرف اسرائیل یا ایران کا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا واقعی دو طبقات میں تقسیم ہو چکی ہے؟ ایک وہ جو طاقتور ہیں اور کچھ بھی کر گزریں تو دنیا صرف "مذمت" کرتی ہے، اور دوسرے وہ جو کمزور ہیں اور اگر سانس بھی اونچی لیں تو دہشت گرد قرار پاتے ہیں۔

جب بچوں کے ہسپتال پر حملہ ہو، اور دنیا خاموشی سے تماشہ دیکھتی رہے، تو سمجھ لیجیے کہ انسانیت کا جنازہ پڑھا جا چکا ہے۔ اسرائیل اور ایران کی اس کشیدگی میں اگر عالمی ضمیر نے اب بھی آنکھیں نہ کھولیں تو اگلا نشانہ کوئی اور ملک، کوئی اور شہر، یا کوئی اور بچہ ہو سکتا

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے

فلسطین میں معصوم بچوں کو منطم طریقے سے مارنے پر اسرائیل کا ہاتھ کسی نے نہیں پکڑا۔ اب یہ اس کی جنگی حکمت عملی بن گئی ہے کہ مخالفین کے بچوں کو مارڈالو

پیر، 16 جون، 2025

دنیا کے میلے کم نہ ہون گے




آج ہم امریکہ کو دنیا کی سب سے بڑی قوت مانتے ہیں۔ اس کے پاس طاقتور فوج ہے، عالمی کرنسی ہے، ٹیکنالوجی، میڈیا اور سیاسی اثر و رسوخ ہے۔مگر وقت کبھی رکتا نہیں — اور نہ ہی کسی کے لیے وفادار رہتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں ایک سپر پاور ہوتی ہے۔ اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ کوئی اور اس کی جگہ لے لیتا ہے — خاموشی سے، بغیر اعلان کے۔
کبھی برطانیہ تھا، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس کی سلطنت میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا۔آج وہی سلطنت ایک جزیرے میں سمٹ چکی ہے۔عظمت باقی ہے، مگر اختیار نہیں۔
کبھی فرانس یورپ کی آنکھوں کا تارا تھا۔ نپولین کا نام ہیرو اور ہیبت کا امتزاج تھا۔مگر واٹرلو کے بعد وہ بھی پچھلی صفوں میں جا بیٹھا۔
کبھی اسپین تھا، جو لاطینی امریکہ سے فلپائن تک سونا، چاندی اور اختیار سمیٹے بیٹھا تھا۔مگر مسلسل جنگوں، دیوالیہ پن اور وقت کے تھپیڑوں نے اسے بھی پیچھے کر دیا۔
کبھی منگول تھے، جو برق رفتاری سے چین، ایران اور یورپ تک چھا گئے۔مگر فتوحات کو سنبھال نہ سکے، اور چند نسلوں میں بکھر گئے۔اسی طرح بغداد کی عباسی خلافت نے علم، فلسفہ، طب اور حکمرانی میں دنیا کو روشنی دی
مگر ایک دن منگول آئے، اور چراغ بجھ گیا۔
لوگ رومن سلطنت کا نام احترام سے لیتے ہیں۔ ان کا قانون، عمارتیں، راستے، حکمرانی کے اصول — سب کچھ مثالی تھا۔مگر وہ بھی گِر پڑے۔اندرونی کرپشن، بیرونی حملے، اور تاریخی تھکن نے اس "ابدیت" کو مٹا دیا۔
چین کی تانگ و سونگ سلطنتیں، ایران کے ہخامنشی و ساسانی شاہان، یونان کے فلسفی بادشاہ، عثمانی خلافت، مغلیہ شان و شوکت
ہر ایک نے سمجھا تھا کہ دنیا انہیں ہی مرکز مانتی رہے گی۔مگر دنیا کسی کے لیے نہیں رُکتی۔نہ کبھی رُکی ہے۔وقت بدلتا ہے، طاقت منتقل ہوتی ہے، اور اقتدار کا ہالہ بادل کی طرح چھٹ جاتا ہے۔
آج اگر امریکہ ہے، تو کل کوئی اور ہوگا۔شاید چین؟ شاید کسی اور اتحاد کی شکل میں؟یہ کہنا مشکل ہےمگر یہ کہنا آسان ہے کہ "کبھی کوئی ہمیشہ نہیں رہتا۔"طاقت اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک وہ خدمت، انصاف اور تدبر سے حاصل کی جائے۔جیسے ہی وہ طاقت غرور، استحصال اور خودفریبی میں بدلتی ہےوقت اپنا رُخ موڑ لیتا ہے۔دنیا کو روکنے کی خواہش رکھنے والے،دنیا کے دھارے میں ڈوب جاتے ہیں۔
"دنیا کے میلے کم نہ ہوں گے، کاش ہم نہ ہوں گے" ایک پاکستنی فلم زرقا (1959) کا نغمہ ہے  قتیل شفائی کے لکھے ہوئے اس نغمے کو مہدی حسن نے گایا تھا اور موسیقی نثار بزمی نے ترتیب دی تھی یہ سب نام اب کہاں ہیں؟
جیسے ہر انسان کو فنا ہے ایسے ہی ہر سورج جو طلوع ہوتا ہے غروب ہونا اس کے مقدر میں لکھا ہوتا ہے ۔ 
  


    

"امن کے لیے اصل خطرہ کون؟ اسرائیل یا ایران"





"امن کے لیے اصل خطرہ کون؟ اسرائیل یا ایران"

دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی اور ان کا پھیلاؤ ہمیشہ سے عالمی امن کے لیے ایک اہم تشویش کا باعث رہا ہے۔ اس حوالے سے اکثر ایران کو عالمی طاقتوں کی جانب سے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جب کہ اسرائیل کی ایٹمی پالیسی کو خاموشی اور مصلحت کے پردے میں چھپایا جاتا ہے۔ مگر اگر ہم خالصتاً حقائق اور بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں جائزہ لیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ امن کے لیے اصل خطرہ اسرائیل ہے، نہ کہ ایران۔
ایران نے 1968 میں عالمی ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے 
(NPT) پر دستخط کیے اور اسے
 1970
 میں توثیق بھی کر دی۔ یہ معاہدہ دنیا کے تمام غیر ایٹمی ریاستوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار نہ بنائیں، نہ حاصل کریں، اور پرامن مقاصد کے لیے جوہری توانائی کے استعمال میں شفافیت کو یقینی بنائیں۔ ایران نے نہ صرف یہ معاہدہ تسلیم کیا بلکہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی
 (IAEA)
 کو اپنی جوہری تنصیبات کے معائنے کی باقاعدہ اجازت بھی دی۔
ایرانی جوہری پروگرام پر کئی دہائیوں سے عالمی انسپکٹرز کی کڑی نگرانی رہی ہے۔ 2015 کے جوہری معاہدے (JCPOA) 
کے تحت ایران نے اپنے یورینیم کی افزودگی کو محدود کرنے، سینٹری فیوجز کی تعداد کم کرنے، اور خفیہ تنصیبات کو بند کرنے جیسے اہم اقدامات کیے۔ اگرچہ امریکہ نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کی، ایران نے کئی ماہ تک اس کی پاسداری جاری رکھی۔
اس کے برعکس اسرائیل نے نہ
 NPT
 پر دستخط کیے اور نہ ہی کبھی 
IAEA 
کو اپنی جوہری تنصیبات کا معائنہ کرنے دیا۔ دنیا بھر میں یہ بات تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اسرائیل کے پاس 80 سے 200 کے درمیان ایٹمی وار ہیڈز موجود ہیں، جو کہ اس نے خفیہ طور پر ڈیولپ کیے۔ اسرائیل کی ایٹمی پالیسی ہمیشہ مبہم رہی ہے — نہ اس نے ان کی موجودگی کا اعتراف کیا، نہ انکار۔
اسرائیل کا نیگیف ریسرچ سینٹر 
(Dimona)
 کئی دہائیوں سے عالمی معاہدوں اور معائنہ جات سے باہر ہے، جو خود اس کے عدم شفاف رویے کا ثبوت ہے۔ سب سے تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ اسرائیلی حکام، بشمول وزراء، کئی بار کھلے عام ایسی دھمکیاں دے چکے ہیں جو ایٹمی دہشتگردی کے زمرے میں آتی ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایک اسرائیلی وزیر نے واضح طور پر کہا کہ "غزہ پر ایٹم بم گرا دینا چاہئے"، جو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی اور عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایران، جو عالمی قوانین کا پابند ہے اور شفاف رویہ اپنائے ہوئے ہے، اُسے مسلسل دھمکایا جاتا ہے، جب کہ اسرائیل، جو کسی بھی قانونی دائرے میں نہیں آتا، اُسے مکمل استثنیٰ حاصل ہے۔ کیا عالمی برادری کا یہ رویہ امن کی خدمت ہے یا طاقت کے اصول پر مبنی کھلی منافقت؟
دنیا کو سوچنا ہوگا کہ جس ملک نے ایٹمی معاہدوں کی پاسداری کی، انسپکٹرز کو رسائی دی، اور کبھی ایٹمی حملے کی دھمکی نہیں دی، اُس کے خلاف اقدامات کا جواز کیا ہے؟ اور جو ملک خاموشی سے جوہری ہتھیار رکھتا ہے، معائنوں سے انکاری ہے، اور شہری علاقوں پر ایٹم بم کے استعمال کی بات کرتا ہے، اُسے مہذب دنیا میں کھلی چھوٹ کیوں دی گئی ہے؟
تاریخی حقائق، قانونی دستاویزات، اور حالیہ بیانات واضح کرتے ہیں کہ:
ایران نے
 NPT
 پر دستخط کیے، اسرائیل نے نہیں۔
ایران نے 
IAEA
 کو معائنہ کی اجازت دی، اسرائیل نے انکار کیا۔
ایران نے کبھی ایٹمی حملے کی دھمکی نہیں دی، اسرائیل دے چکا ہے۔
پس، اگر امن کو لاحق حقیقی خطرے کی نشان دہی کرنی ہے تو انگلی ایران کی جانب نہیں، بلکہ اسرائیل کی جانب اٹھنی چاہیے۔

کراچی کراچی ہے





کراچی کو صرف شہر کہنا ناانصافی ہوگی۔ یہ دراصل ایک مکمل انسائیکلوپیڈیا ہے جس میں ہر صفحہ کسی محلے، ہر جملہ کسی چورنگی اور ہر حرف کسی دلچسپ نام پر مشتمل ہے۔ ایک دفعہ میں نے سوچا کہ کراچی کے تمام علاقوں کی سیر کی جائے، لیکن اس "معصوم" خیال نے مجھے ایسے ایسے ناموں اور جگہوں تک پہنچا دیا جہاں پہنچ کر ہنسی، حیرت، الجھن اور کبھی کبھار افسوس — سب ایک ساتھ محسوس ہونے لگے۔

سفر کا آغاز "پاپوش نگر" سے کیا۔ نام سن کر یہی گمان ہوا کہ شاید جوتے یا چپلوں کا کوئی مشہور بازار ہو گا۔ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ "انڈا موڑ" آ گیا۔ لگا شاید ناشتہ مفت ملے گا، لیکن وہاں صرف دھوپ اور دھوئیں کا تڑکا تھا۔ اس کے فوراً بعد "کریلا موڑ" کا بورڈ نظر آیا اور مجھے لگا کہ کراچی نے اب میرے میٹھے خوابوں پر کڑوا سچ انڈیل دیا ہے۔

راستے میں "بھائ جان چوک" آیا۔ میں نے ایک رکشے والے سے پوچھا کہ یہاں کوئی مشہور بھائ جان رہتے ہیں؟ بولا: "یہاں سب بھائ جان ہی ہیں، نام رکھ کے کیا فرق پڑتا ہے؟" پھر "چیل چوک" پہنچا تو آسمان پر چیلیں ایسے گھوم رہی تھیں جیسے کوئی انتخابی مہم ہو اور وہ امیدوار ہوں!

"مچھر کالونی" کا نام سنتے ہی جسم پر خارش ہونے لگی، گویا وہاں کے مچھر صرف خون نہیں چوستے، اعصاب بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ "بھینس کالونی" میں جا کر لگا کہ شہر میں سب سے زیادہ آسودہ زندگی شاید وہی گزار رہی ہیں۔ پھر ایک مقام آیا "ناگن چورنگی"، میں نے فوراً فون پر امی کو کال کر کے کہا: "اگر میں واپس نہ آ سکوں تو ناگن نے آ لیا ہوگا۔"

شہر میں کچھ جگہیں وقت کے ساتھ مزاحیہ بن گئی ہیں۔ "دو منٹ چورنگی" پر میں 35 منٹ رُکا رہا اور آخرکار سمجھ گیا کہ یہاں ’دو منٹ‘ کا مطلب عام وقت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ "خاموش کالونی" میں سناٹا ایسا کہ لگا جیسے سب لوگ قید ہیں یا قسم کھائی ہو کہ نہ بولیں گے نہ ہنسیں گے۔ "فیوچر کالونی" میں داخل ہوا تو امیدیں باندھیں، لیکن "گٹر باغیچہ" کی بدبو نے واپس ماضی میں دھکیل دیا۔

جب میں "خدا کی بستی" پہنچا تو لگا شاید یہاں کچھ سکون ملے گا، لیکن کچھ فاصلے پر ہی "رنچھوڑ لائن" آ گئی، تو سوچا، شاید یہاں کے لوگ جنگ سے پہلے ہی ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ "چمڑا چورنگی"، "مرغی خانہ"، "دنبہ گوٹھ" اور "بوتل گلی" جیسے ناموں نے میرے تصور کو اس قدر مشغول رکھا کہ مجھے لگا جیسے میں کسی مزاحیہ کہانی کا مرکزی کردار ہوں۔

پھر "بےروزگار چوک" آیا۔ وہاں ایک بینچ پر بیٹھا لڑکا بولا: "بھائی! نوکری نہیں، تو یہاں آ کے وقت گزار لو۔ کم از کم شہر سچ بولتا ہے۔" اور واقعی، کراچی جھوٹ نہیں بولتا۔ یہ شہر جیسا ہے، ویسا ہی نام رکھتا ہے۔

"پریشان چوک" پر پہنچتے ہی دل بھی پریشان ہو گیا اور میں نے خدا سے دعا مانگی — وہ دعا جو "دعا چوک" تک پہنچ کر شاید سنی گئی۔ کیونکہ اگلی سڑک تھی "اللہ والا ٹاؤن"… اور وہاں پہنچ کر لگا کہ کسی نے کہا ہو: "بیٹا، اب واپس چلے جاؤ۔ جتنا دیکھا، کافی ہے۔"

کراچی کے یہ نام صرف الفاظ نہیں، بلکہ ایک تہذیب، ایک مذاق، ایک سچائی اور ایک تلخ حقیقت ہیں۔ ان میں ہنسی بھی چھپی ہے، بے بسی بھی، اور وہ رنگ بھی جو صرف کراچی جیسے شہر میں پنپ سکتے ہیں۔

اگر آپ کراچی کو صرف بحریہ، ڈیفنس یا گلشن کے زاویے سے دیکھتے ہیں، تو یقین جانئے، آپ نے اصل کراچی کو ابھی چھوا بھی نہیں۔

کراچی کا ہر علاقہ، ہر چوراہا، ہر کالونی — اپنی ایک پوری فلم ہے۔ بس آپ کو کردار بننے کی ہمت ہونی چاہیے۔

نوٹ: اگر آپ کبھی "اچانک چوک" جائیں، تو خبردار رہیں۔ وہاں کچھ بھی، کبھی بھی، اچانک ہو سکتا ہے!

گائے کو پوجنے کی وجوہات



ہندو مذہب میں گائے کو "گاؤ ماتا" (ماں گائے) کہا جاتا ہے کیونکہ:
وہ دودھ دیتی ہے، جو بچوں، بزرگوں اور بیماروں کے لیے غذا ہے۔
دودھ سے دہی، مکھن، گھی، پنیر، وغیرہ بنتے ہیں، جو ہندو رسوم میں استعمال ہوتے ہیں۔
ویدوں
 (Rigveda، Yajurveda 
وغیرہ)
 میں گائے کا ذکر "آہمسہ" (عدم تشدد) اور "دھرم" (واجبی ذمہ داری) کے طور پر کیا گیا ہے۔
گائے کو "کام دھینو" (ایک ایسی مقدس گائے جو سب کچھ عطا کرتی ہے) کہا گیا ہے۔
گائے کے گھی سے یجن (ہندو مذہبی آگ میں قربانی) ہوتا ہے۔
گائے کے گوبر اور پیشاب کو بھی کچھ ہندو "پاک" سمجھتے ہیں اور ان کا استعمال صفائی اور روحانی تطہیر کے لیے کرتے ہیں۔
ہندو دیوتا بھگوان کرشن کو "گوپال" (گایوں کا پالنے والا) اور "گووند" کہا جاتا ہے۔ وہ گائے چراتے تھے اور ان سے محبت کرتے تھے۔
کرشن کی زندگی گایوں سے جڑی ہوئی ہے، اس لیے گائے کو ان کی یاد میں مقدس سمجھا جاتا ہے۔
ہندو فلسفہ میں زندہ مخلوق کو تکلیف دینا گناہ سمجھا جاتا ہے۔
گائے کو مارنے یا کھانے سے پرہیز کرنے کو نیکی سمجھا جاتا ہے۔
قدیم ہندوستان ایک زرعی ملک تھا۔ گائے سے ہل چلاتے تھے، گوبر کھاد کے طور پر استعمال ہوتا تھا، اور گائے ایک "کام کی چیز" تھی۔
اس لیے اسے "دھرتی ماں" کے برابر درجہ دیا گیا۔
 تمام ہندو گائے کو "پوجا" نہیں کرتے، لیکن زیادہ تر اسے مقدس اور قابلِ احترام ضرور سمجھتے ہیں۔ کچھ ہندو فرقے اسے دیوی مانتے ہیں، کچھ صرف ماں جیسا درجہ دیتے ہیں۔
اسلام میں تمام جانور اللہ کی مخلوق ہیں، اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم ہے۔ لیکن:
صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت جائز ہے۔
کسی بھی مخلوق، چاہے وہ گائے ہو یا سورج، کو پوجنا شرک میں آتا ہے۔
گائے کو بطور غذا استعمال کرنا اسلام میں جائز ہے، بشرطیکہ اسلامی طریقے سے ذبح کی جائے۔