اتوار، 1 جون، 2025

دو راستے

دو راستے

آڈیالہ جیل ابھی زیرِ تعمیر تھی، اور راولپنڈی کی ضلعی جیل اُس مقام پر واقع تھی جہاں آج جوڈیشل کمپلیکس اور جناح پارک آباد ہیں۔ ہم ایک ادارے کے لیے قیدیوں سے سوالات کر رہے تھے، جب ایک دن ایک قیدی سے ملاقات ہوئی—جوان، ذہین، پڑھا لکھا، اور بظاہر معزز۔

یہ شخص ایک بینک میں ملازم تھا، لیکن اپنے ہی بینک میں ایک جعلی اکاؤنٹ کھول کر تین سال تک لاکھوں روپے کی جعلی لین دین کرتا رہا۔ اسّی کی دہائی تھی، جب "لاکھ" بولنا بھی بڑا ہوا کرتا تھا۔ ایک دن اچانک اس اکاؤنٹ میں آٹھ لاکھ پچاسی ہزار روپے جمع ہوئے اور فوراً نکلوا لیے گئے۔ لیکن وہ دن، اس کی چالاکیوں کا آخری دن ثابت ہوا۔

گرفتاری، تفتیش، مقدمہ—سب کچھ بجلی کی رفتار سے ہوا۔ بینک نے اپنی رقم واپس حاصل کر لی۔ قانون نے انصاف کر دیا۔ مگر جو سب سے زیادہ زخمی ہوا، وہ اس شخص کا دل تھا۔

وہ بار بار ایک ہی جملہ دہرا رہا تھا:
"میرے اپنے ہی میرے ساتھ نہیں… کسی نے وکیل تک نہیں کیا!"

نہ بیوی، نہ بہن بھائی، نہ دوست، نہ کوئی خیرخواہ—جیسے سب نے اس کی ذات سے منہ موڑ لیا ہو۔ وہ شخص جو کل تک لاکھوں کا مالک تھا، آج تنہا تھا۔ جرم نے اسے صرف جیل کی دیواروں میں نہیں، بلکہ معاشرتی بےرخی، جذباتی تنہائی اور روحانی سناٹے میں بھی قید کر دیا تھا۔

اسی پس منظر میں ایک اور کہانی میرے ذہن میں اُبھر آئی۔

سال 1992 کی بات ہے۔ میری ایک شناسائی ایک سادہ سے ڈرائیور، فاروق، سے ہوئی۔ اس کی زندگی کہانی نہیں، جدوجہد کا ایک نوحہ تھی۔ اس کا اپنا بھائی، اس کی آبائی زمین جعلی کاغذات پر بیچ چکا تھا۔ مقدمہ چلا، جائیداد بکی، کیس ہارا گیا۔ فاروق کی زندگی جیسے خاک میں مل گئی۔

لیکن اس نے ہار نہیں مانی۔

فاروق دن بھر محنت کرتا، گاڑیاں چلاتا، کرایہ دیتا، بجلی کے بل ادا کرتا اور بچوں کو تعلیم دلوانے کی کوشش کرتا۔ اس کی بیوی ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھاتی تھی۔ ان کی بیٹی نے پرائمری میں میرٹ پر اسکالرشپ حاصل کی، اور اب ماسٹرز کر رہی تھی۔ وہ ماں کے نقشِ قدم پر چل کر محلے کے بچوں کو ٹیوشن بھی دیتی تھی۔ باقی بچے بھی پڑھائی میں نمایاں تھے۔

پھر وقت گزر گیا، زندگی نے مجھے اور فاروق کو مختلف راہوں پر ڈال دیا۔

لیکن اس عید پر، دروازہ بجا۔ سامنے فاروق کھڑا تھا، چہرے پر اطمینان، آواز میں محبت۔ اس کے ساتھ اس کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا، جو گھر بیٹھے فری لانسر کے طور پر کام کر رہا تھا۔ فاروق نے بتایا کہ بیٹے کی آمدن اتنی ہے کہ اسلام آباد میں ایک بنگلہ ماں کے نام اور نئی ہونڈا گاڑی باپ کے نام ہو چکی ہے۔

بیٹی اب لیکچرار ہے، باقی تینوں بیٹے بھی کامیاب، خوشحال اور والدین کے شکر گزار۔

دو زندگیاں، دو راستے… اور دو الگ انجام۔

ایک نے دھوکہ دیا، جھوٹ بولا، شارٹ کٹ اپنایا، اور آخرکار تنہا رہ گیا—اپنوں سے دور، سماج سے بیزار، اپنے ہی ضمیر کا قیدی۔

دوسرے نے سچائی کو پکڑا، محنت کو اوڑھنا بچھونا بنایا، صبر سے دن کاٹے، اور آج اس کا ہر دن خوشی کا پیغام لے کر آتا ہے۔

فراڈ وقتی فائدہ ضرور دیتا ہے، لیکن دل کا سکون، اپنوں کا ساتھ، معاشرے کی عزت… سب چھین لیتا ہے۔

جبکہ محنت—کٹھن سہی، لیکن آخرکار عزت، سکون، اور کامیابی کی شاہراہ پر لے جاتی ہے۔

جرم صرف قانون شکنی نہیں ہوتا، یہ رشتوں کی بنیادیں بھی ہلا دیتا ہے۔

اور دیانت داری صرف عبادت نہیں، یہ نسلوں کے مستقبل کا چراغ بھی ہے۔

یاد رکھیں،
جھوٹ کی دوڑ چھوٹی ہوتی ہے،
اور سچ کا سفر طویل، مگر بامراد۔


مراکش ، پاکستان کا بھائی



سال تھا 1952ء۔

پاکستان ابھی نو عمر تھا—ایک تازہ آزاد ریاست جو خود اپنی بنیادوں کو مستحکم کرنے کی تگ و دو میں مصروف تھی۔ وسائل محدود تھے، ادارے ناتجربہ کار، لیکن دل وسیع، ارادے بلند، اور نظریہ مضبوط تھا۔

اسی سال، شمالی افریقہ کا خوبصورت مگر غلام ملک مراکش فرانسیسی تسلط میں جکڑا ہوا تھا۔ آزادی کی تحریک زوروں پر تھی۔ سلطان محمد پنجم نے آزادی کا مقدمہ عالمی فورم پر اٹھانے کے لیے معروف رہنما احمد بالفریج کو اقوامِ متحدہ بھیجا۔ مگر وہاں فرانسیسی وفد نے ان کے خطاب پر اعتراض کر دیا۔ دلیل یہ دی گئی کہ چونکہ مراکش فرانس کا "زیرِ انتظام علاقہ" ہے، اس لیے بالفریج کو بات کرنے کا حق حاصل نہیں۔

آواز دبانے کی یہ چال ناکام نہ ہوتی—اگر پاکستان درمیان میں نہ آتا۔

حکومتِ پاکستان نے راتوں رات نیویارک میں پاکستانی سفارتخانہ کھولا، احمد بالفریج کو پاکستانی شہریت اور سفارتی پاسپورٹ جاری کیا، اور یوں وہ اگلے دن اقوام متحدہ کے اجلاس میں بطور پاکستانی نمائندہ کھڑے ہو کر مراکش کی آزادی کی صدا بلند کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

یہ ایک ایسا لمحہ تھا جس نے مراکشی تحریک آزادی کو بین الاقوامی پذیرائی دلائی—اور یہ وہ بنیاد بنی جس پر دونوں ملکوں کی دوستی کا روشن مینار آج بھی ایستادہ ہے۔

بعد ازاں، مراکش آزاد ہوا۔ سلطان محمد پنجم نے احمد بالفریج کو وزیرِ اعظم مقرر کیا۔ انہوں نے پاکستانی سفارتی پاسپورٹ کو فریم کر کے اپنے دفتر میں آویزاں کیا۔ ہر آنے والے کو فخر سے دکھاتے اور کہتے:

"جب دنیا نے ہمارا ساتھ چھوڑا، پاکستان نے ہمیں پہچان دی۔"

یہ صرف ایک سفارتی اقدام نہیں تھا، بلکہ ایک نظریاتی، اخوت پر مبنی تعلق کی بنیاد تھی—دو ایسی قوموں کے درمیان، جنہیں اسلام، استقامت، اور انصاف سے محبت ہے۔

پاکستان آج بھی معاشی چیلنجز کا شکار ہے، قرضوں کا بوجھ، مہنگائی، سیاسی کشمکش—سب کچھ ہے۔ لیکن قلبی تعلقات میں پاکستان ہمیشہ امیر رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے بہت سے "دوست ممالک" آج بھی اس کا نام احترام، محبت اور اعتماد سے لیتے ہیں۔ مراکش ان میں سے نمایاں ترین مثال ہے۔

پاکستان اور مراکش کے تعلقات محض ایک پاسپورٹ یا ایک تقریر تک محدود نہیں رہے۔ وقت کے ساتھ یہ تعلقات:

  • سیاسی اعتماد میں بدلے؛ دونوں ممالک نے اقوام متحدہ اور او آئی سی جیسے فورمز پر ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔

  • ثقافتی میل جول میں ڈھلے؛ مراکشی علما، فنکار اور طلبہ پاکستان آئے، پاکستانی علما اور اسکالر مراکش گئے۔

  • معاشی شراکت داری کی طرف بڑھے؛ دو طرفہ تجارتی معاہدے، مشترکہ بزنس کونسلز اور سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کیے گئے۔

مراکش نے کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی تائید کی، اور پاکستان نے فلسطین سمیت تمام مسلم ممالک کے عوامی حقوق کی حمایت میں مراکش کا ساتھ دیا۔

دنیا میں عزت صرف دولت سے نہیں، کردار سے حاصل ہوتی ہے۔

پاکستان شاید معاشی طور پر کمزور ہو،
مگر اس کے کردار کی دولت نے اسے دلوں کا فاتح بنایا ہے۔

جب مراکش تنہا تھا، پاکستان نے اس کا ہاتھ تھاما۔
آج جب پاکستان تنہا ہو،
تو مراکش وہی ہاتھ تھامنے کو تیار نظر آتا ہے۔

یہی تعلقات کی اصل خوبصورتی ہے 

ترقی کا بنیادی فلسفہ


 

ترقی کا بنیادی فلسفہ

دنیا کی تاریخ میں آج تک کوئی ایسی مثال موجود نہیں کہ کوئی ملک اپنے ہمسایوں کو غربت، جنگ اور بدامنی کے اندھیروں میں دھکیل کر خود روشنی میں تنہا ترقی کی منازل طے کر گیا ہو۔ ترقی ایک اجتماعی سفر ہے، تنہا پرواز نہیں۔ یہ ایک سادہ مگر پائیدار حقیقت ہے کہ خوشحالی کی ضمانت صرف داخلی استحکام نہیں، بلکہ خارجی ماحول کی ہم آہنگی بھی ہے۔

بھارت آج دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے، جس کا حجم 600 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ لیکن یہ معاشی بلندی ایک نازک توازن کی مرہون منت ہے۔ اتنی بڑی معیشت کو برقرار رکھنے کے لیے امن بنیادی شرط ہے۔ تجارت، سیاحت، سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی — یہ سب کچھ تبھی پھلتا پھولتا ہے جب خطے میں استحکام ہو، ہمسایوں سے تناؤ نہ ہو، اور داخلی و خارجی محاذ پر امن ہو۔

یہ خام خیالی ہے کہ بھارت چاند پر کمندیں ڈالے، اور پاکستان کے آسمان پر بدامنی اور دہشت گردی کے اندھیرے چھائے رہیں۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ افغانستان میں عورتوں کو ملازمت سے محروم رکھا جائے، بچیوں کو اسکول جانے کی اجازت نہ ہو، اور پاکستان کی خواتین سکون سے پائلٹ بن کر جہاز اڑائیں۔ خطے میں ایک کی آگ دوسرے کی دیواروں کو سیاہ ضرور کرتی ہے۔

دنیا کے کامیاب ترین خطے — جیسا کہ اسکینڈے نیویا، یورپی یونین، یا مشرقی ایشیا — ہمیں یہی سبق دیتے ہیں کہ ترقی صرف باہمی تعاون، مشترکہ مفادات، اور متوازن پالیسیاں اختیار کرنے سے ہی ممکن ہوتی ہے۔ ڈنمارک، سویڈن اور ناروے نے مل کر صحت، تعلیم، ماحول، اور معیشت کے شعبوں میں ایسا اتحاد قائم کیا کہ نہ صرف انفرادی ممالک مستحکم ہوئے بلکہ پورا خطہ عالمی ترقی کا ماڈل بن گیا۔

جنوبی ایشیا میں، بدقسمتی سے، ہم نے یہ سبق ابھی تک پوری طرح نہیں سیکھا۔ بھارت، پاکستان اور افغانستان — تینوں ممالک کے اندرونی حالات، سیاسی فیصلے اور خارجی تعلقات ایسے جڑے ہوئے ہیں کہ ایک کی خرابی دوسرے کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔

اگر بھارت اپنی معاشی ترقی کو برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اسے پاکستان کے ساتھ امن، افغانستان میں استحکام، اور پورے خطے میں پائیدار تعلقات کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ دوسری طرف، پاکستان اور افغانستان کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ داخلی اصلاحات اور ہمسایوں کے ساتھ تعمیری تعلقات کے بغیر ترقی کا خواب صرف نعرہ ہی رہے گا۔

محلے کی گلی کو ایک گھر کا چراغ روشن نہیں کر سکتا ۔ سارے محلے کے گھروں سے روشتی پھوٹنی ہے تب جا کر گلئ روشن ہوتی ہے۔ سفر جاری رکھنے کے لیے گلی کا روشن ہونا ہی ضمانت نہیں ہے ۔ امن بھی ہونا چاہیے ۔

دعوے سے عمل تک







دعوے سے عمل تک

"نیا پاکستان بنانے کا دعویٰ کسی اور نے کیا تھا
لیکن
 نیا پاکستان بنا کے دکھایا شہباز شریف نے۔"


آج پاکستان نہ صرف سفارتی محاذ پر باوقار انداز میں سامنے آ رہا ہے، بلکہ معاشی اور انتظامی میدان میں بھی واضح پیش رفت دکھائی دے رہی ہے۔ جو مخالفین کل تک صرف تنقید کرتے تھے، آج وہ بھی خاموشی سے انجوائے کر رہے ہیں — چاہے وہ آدھے بل ہوں، سستی سبزیاں ہوں یا عالمی سطح پر پاکستان کا اُبھرتا ہوا امیج۔
اب یہ ماننا پڑے گا کہ ملک سنبھل رہا ہے، اور قیادت اگر سنجیدہ، محنتی اور باصلاحیت ہو تو خواب حقیقت بن جاتے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان کی سفارتکاری ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ اب ہم امداد کے طلبگار نہیں بلکہ اعتماد کے ساتھ معاہدے کرنے والے فریق بن چکے ہیں:
روس، جو ماضی میں بھارت کا قریبی اتحادی سمجھا جاتا رہا، آج پاکستان میں 2.6 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر آمادہ ہے۔
آذربائیجان نہ صرف 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا بلکہ 4.25 ارب ڈالر کے پاکستانی جہاز خریدنے پر بھی آمادہ ہے۔
ڈنمارک سے 2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی خبر ایک نئے تعلقات کا اشارہ ہے۔
سعودی عرب 56 ارب روپے کے موٹروے منصوبے میں 76 فیصد سرمایہ دے رہا ہے (مانسہرہ تا مظفرآباد موٹروے)۔
یہ سرمایہ کاری صرف رقوم کا تبادلہ نہیں، بلکہ پاکستان کے نوجوانوں کے لیے نوکریاں، چھوٹے تاجروں کے لیے مواقع اور عام شہری کے لیے خوشحال مستقبل کا دروازہ ہے۔
جہاں پاکستان عالمی سطح پر آگے بڑھ رہا ہے، وہیں بھارت کی کوششیں مسلسل ناکامی سے دوچار ہو رہی ہیں۔
حالیہ مثال ڈنمارک کی ہے، جہاں مودی کا قریبی حواری روی شنکر پاکستان کے خلاف لابنگ کرنے پہنچا تھا، لیکن اوورسیز پاکستانیوں نے ایسا جواب دیا کہ اسے تقریب ادھوری چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔
یہ محض واقعہ نہیں بلکہ ثبوت ہے کہ دنیا کے کونے کونے میں پاکستانیوں کا نکتہ نظر بدلا ہے — اب ہم دفاعی نہیں، جارحانہ سفارتکاری پر یقین رکھتے ہیں۔
ورلڈ بینک نے پاکستان کے لیے 2026 سے 2035 تک کی مدت میں 40 ارب ڈالر کی تاریخی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔
یہ اعلان دراصل عالمی اداروں کے اس اعتماد کا مظہر ہے جو شہباز شریف کی حکومت کی پالیسیوں پر کر رہے ہیں۔
جہاں ایک وقت میں پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی قسط بھی مشروط ہوتی تھی، آج وہاں ہمیں 10 سال کا اقتصادی روڈمیپ مل رہا ہے۔
یہ تبدیلی صرف بیانات تک محدود نہیں۔ عوام کی زندگی میں عملی تبدیلی آ رہی ہے:
باجوہ، فیض، ثاقب نثار، جاوید اقبال، طاہر القادری، پرویز الٰہی، ملک ریاض اور یہاں تک کہ "طارق جمیل" جیسے کردار — سب بے نقاب ہو رہے ہیں۔
شہباز شریف نے مشکل ترین حالات میں ریاست کو کمزور ہونے نہیں دیا، اداروں سے ٹکر نہیں لی، بلکہ نظام کو بچایا۔
حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران شہباز شریف کا طرزِ عمل ایک سنجیدہ سٹیٹس مین کی جھلک دیتا ہے۔
جب جنگی ماحول گرم تھا، وہ تب بھی محتاط، متوازن اور قومی مفاد میں سوچتے دکھائی دیے۔
لیکن آج کا پاکستان، شہباز شریف کی قیادت میں، وہ ملک ہے جس نے بھارت جیسے بڑے دشمن کو 6 گھنٹے میں خاموشی پر مجبور کر دیا۔
پاکستان آگے بڑھ رہا ہے — آہستہ، مگر مضبوطی سے۔
ایسے میں ہمیں چاہیے کہ انتشار پھیلانے والے بیانیے کو رد کریں، اور ترقی و استحکام کے سفر میں شریک ہوں۔
پاکستان اس وقت سنجیدہ طبقے سے متقاضی ہے کہ سیاسی ؐمخالفت کو جاری رکھیں مگر پاکستان کے لیے کیا بہتر ہے اس کا ادراک کریں

Charm, Diplomacy, and Whispered Myths: Jacqueline Kennedy and Ayub Khan



In the annals of Cold War diplomacy, few visits stirred as much fascination—and rumor—as Jacqueline Kennedy’s 1962 tour of Pakistan. The elegant First Lady of the United States, adored globally for her poise and grace, arrived in South Asia on a goodwill mission. By the time she left, tongues were wagging—not just about the intricacies of U.S.-Pakistan relations, but about her visible chemistry with Pakistan’s then-President, Field Marshal Ayub Khan.

Their interactions, especially a now-iconic horse ride in Lahore, were widely publicized. Ayub Khan, known for his Westernized outlook and commanding presence, seemed at ease beside the world’s most photographed woman. To the public eye, their connection was warm, perhaps even unusually so for a diplomatic engagement.

It didn’t take long for rumor mills to stir. Whispers emerged of Ayub Khan’s admiration for Jacqueline—some going so far as to suggest he harbored romantic interest, and even outlandish claims of a marriage proposal following President Kennedy’s assassination. These tales were never substantiated. In fact, they likely say more about public fascination with glamour and power than they do about historical truth.

What is real, however, is the context. The 1960s were a pivotal time. Pakistan and the U.S. were strategic allies. Ayub Khan had already received a red-carpet welcome in Washington in 1959 and developed a strong working relationship with John F. Kennedy. Jacqueline’s 1962 tour was designed to strengthen soft diplomacy, and she carried it out with her trademark charm and elegance.

Both Ayub and Jacqueline were symbols of modern leadership in their respective countries—he, the military ruler with Western leanings; she, the cultural icon reshaping the image of First Ladies. Their cordiality made for captivating images and headlines, but not necessarily for scandal.

Ayub Khan, in his memoir Friends Not Masters, spoke fondly of the Kennedys but made no reference to any personal feelings toward Jacqueline. She, too, maintained her characteristic grace, never fueling or addressing the rumors.

In the end, what we’re left with is a snapshot in history: two influential figures sharing a brief moment in time, woven into the fabric of diplomatic history, then wrapped in speculation. But behind the headlines and whispers, the reality remains grounded—built on politics, respect, and the soft power of charm.

As is often the case, the myths may be more tantalizing than the truth. But the truth itself was more than enough to make history.