اتوار، 1 جون، 2025

شیوَنگی سنگھ کی کہانی



 شیوَنگی سنگھ کی کہانی

چھ اور سات

 مئی 2025 کی شب سے بھارتی فضائیہ کی واحد خاتون رافیل پائلٹ، اسکواڈرن لیڈر شیوَنگی سنگھ، اپنی سرکاری اور عوامی نظر سے غائب ہیں۔ یہ وہی دن تھا جب پاک فضائیہ نے بھارتی طیاروں کو تباہ  کیے، جن میں جدید رافیل طیارے بھی شامل تھے۔ پاکستان کی جانب سے کئی بار واضح کیا گیا ہے کہ ان کی تحویل میں کوئی خاتون پائلٹ نہیں، اور جنگی قیدیوں کے حقوق کا احترام کیا جاتا ہے۔

پاکستان کی عسکری اور سول انتظامیہ نے جو شفاف رویہ اختیار کیا ہے، وہ بین الاقوامی معیاروں کے عین مطابق ہے۔ جنگی قیدیوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کے انسانی ہمدردانہ سلوک کی یقین دہانی، پاکستان کو ایک ذمہ دار عالمی کھلاڑی کے طور پر پیش کرتی ہے۔

 ISPR

 کی جانب سے جو وضاحت سامنے آئی، اس نے عالمی برادری کو پیغام دیا کہ پاکستان کسی قسم کی افواہوں پر عمل نہیں کرتا اور حقائق کی بنیاد پر بات کرتا ہے۔

یہ شفافیت، خاص طور پر ایسے حساس اور پیچیدہ حالات میں، پاکستان کی اخلاقی برتری کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کے برعکس، بھارت کی جانب سے مسلسل خاموشی نے شبہات کو جنم دیا ہے کہ کہیں وہ سچائی چھپانے کی کوشش تو نہیں کر رہا۔

عام طور پر، بھارت اپنی دفاعی کامیابیوں کو بڑے جوش و خروش سے میڈیا میں پیش کرتا ہے، خاص طور پر جب بات خواتین پائلٹس کی ہو، جنہیں قومی فخر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ شیوَنگی سنگھ کی اچانک گمشدگی اور اس پر سرکاری اور میڈیا کا مکمل سکوت، کئی سوالات کو جنم دیتا ہے:

  • کیا بھارت اپنے ایک ایسے واقعہ کو چھپانا چاہتا ہے جسے عوام کی نظر میں ایک طاقتور علامت سمجھا جاتا ہے؟

  • کیا یہ خاموشی ممکنہ طور پر بھارت کی فوجی یا سیاسی ناکامی کو چھپانے کی کوشش ہے؟

  • اگر شیوَنگی سنگھ محفوظ ہیں تو انہیں فوراً عوام کے سامنے لایا جائے تاکہ قیاس آرائیوں کا خاتمہ ہو؟

یہ خاموشی ایک ایسا دھندلا پردہ ہے جو بھارتی حکومت کے موقف اور داخلی چیلنجز کو چھپانے کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔

یہ واقعہ صرف دو ملکوں کے درمیان عسکری جھڑپ کا موضوع نہیں ہے بلکہ عالمی قوانین، انسانی حقوق، اور جنگی ضوابط کے تناظر میں بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ عالمی برادری اس معاملے پر پاکستانی موقف کو سراہ رہی ہے، جس نے شفافیت اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ دوسری طرف، بھارت کی غیر واضح پوزیشن اور خاموشی اس کے سفارتی تشخص کو متاثر کر رہی ہے۔

اگر بھارت نے شیوَنگی سنگھ کی موجودگی یا حالات پر روشنی نہیں ڈالی تو یہ عالمی سطح پر بھارت کے خلاف منفی تاثر پیدا کرے گا، خاص طور پر اس وقت جب عالمی ادارے اور انسانی حقوق کے گروپ ایسے معاملات پر سخت نگرانی کر رہے ہیں۔

شیوَنگی سنگھ بھارت کی فضائیہ کی واحد خاتون رافیل پائلٹ تھیں، جو نہ صرف فوجی تکنیکی مہارت کی علامت تھیں بلکہ خواتین کی عسکری خدمات میں ایک نئے باب کا آغاز تھیں۔ ان کا اچانک غائب ہونا بھارت کے فوجی سٹیٹس اور خواتین کے لیے سرکاری حفاظت دونوں کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔

  •  بھارت میں میڈیا عموماً دفاعی معاملات پر سخت حساس ہوتا ہے، مگر اس معاملے میں خاموشی نے سوالیہ نشان لگا دیا ہے کہ کہیں میڈیا کو بھی دباؤ میں تو نہیں رکھا گیا؟

  •  اس معاملے کی غیر یقینی صورتحال بھارتی عوام میں بے چینی پیدا کر چکی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب بھارت اندرونی اور بیرونی دباؤ کا شکار ہے۔

  • پاکستان نے اس معاملے میں جو شفافیت اور احتیاط برتی ہے، وہ نہ صرف جنگی ضوابط کی پاسداری کا ثبوت ہے بلکہ انسانی ہمدردی اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعاون کی دلیل بھی ہے۔ دوسری جانب، بھارت کی یہ غیر معمولی خاموشی تشویش ناک اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔ بھارت کو چاہیے کہ وہ عوام اور عالمی برادری کو حقائق سے آگاہ کرے اور شیوَنگی سنگھ کے بارے میں اپنے موقف کو واضح کرے۔

یہ مسئلہ صرف ایک پائلٹ کی گمشدگی کا نہیں بلکہ دونوں ممالک کے تعلقات، عالمی قانون، اور انسانی حقوق کی پاسداری کا بھی معاملہ ہے۔ بھارتی حکومت کی خاموشی کو عالمی برادری مسترد کر رہی ہے اور یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ جلد از جلد اس معاملے کی شفاف اور مکمل وضاحت دے گی۔

پاکستان نے شفافیت کے ذریعے ایک مثالی رویہ اپنایا ہے، جبکہ بھارت کی خاموشی سوالات اور شبہات کو جنم  دے رہی ہے۔ عالمی برادری اور بھارتی عوام دونوں کو حقائق جاننے کا پورا حق ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ بھارت اس صورتحال سے پردہ اٹھائے اور سچ کو سامنے لائے۔


چالیس بلائیں جن سے نبی کریم ﷺ نے اللہ کی پناہ مانگی


چالیس بلائیں جن سے نبی کریم ﷺ نے اللہ کی پناہ مانگی

اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ…
اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں:


عجز (کمزوری)
کاہلی
بزدلی
بخل
بڑھاپے سے
دل کی سختی سے
غفلت سے
تنگدستی سے
ذلت سے
محتاجی سے
فقر (غربت) سے
کفر سے
شرک سے
فسق (نافرمانی) سے
شقاق (اختلاف و تفرقہ) سے
نفاق (منافقت) سے
سُمعہ (نام کمانے کی طلب) سے
ریا (دکھاوا) سے
بہرا پن
گونگا پن
دیوانگی (پاگل پن)
کوڑھ
برص (سفید داغ)
بری بیماریوں سے
قرض کے غلبے سے
لوگوں کے ظلم و قہر سے
گناہوں میں مبتلا ہونے سے
دھوکے اور مالی بوجھ سے
تیری نعمتوں کے زوال سے
تیری عطا کردہ عافیت کے چھن جانے سے
اچانک تیری گرفت یا سزا سے
تیری ہر طرح کی ناراضی سے
سخت آزمائش سے
بدبختی کے لاحق ہونے سے
بُرے فیصلے سے
دشمنوں کی خوشی سے (میرے مصائب پر)
ڈوبنے سے
جلنے سے
برے اخلاق سے
ایسی عورت سے جو مجھے بڑھاپے سے پہلے ہی بوڑھا کر دے

زنجیر سے بندھا گلاس






زنجیر سے بندھا گلاس

واٹر کولر کے ساتھ زنجیر سے بندھا اسٹیل کا گلاس ہمارے معاشرے میں کئی برسوں سے بحث کا موضوع ہے۔ یہ ایک معمولی سی چیز ہے، مگر کچھ افراد نے اسے اخلاقی، تہذیبی اور معاشرتی زوال کی علامت بنا رکھا ہے۔ آئے دن بیرونِ ملک مقیم ’’باشعور‘‘ پاکستانیوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر اس گلاس کے سہارے پورے معاشرے پر تنقید کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ تازہ ترین تنقید ایک صاحب نے فرمائی، جنہوں نے صرف پاکستانیوں کو نہیں، مسلمانوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور معاشرتی زوال پر خوب دل کا غبار نکالا۔

یہ رویہ نیا نہیں۔ ہمارے ہاں ایک مکتبہ فکر ہمیشہ سے موجود رہا ہے جسے میں ’’ملامتی پاکستانی‘‘ کہوں گا۔ یہ لوگ اپنی شناخت پر شرمندہ ہوتے ہیں، پاکستانی ہونے پر خود کو ملامت کرتے ہیں، اور دوسروں کو بھی اس احساسِ جرم میں شریک کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ ہم میں کوئی خوبی نہیں، ہم بحیثیت قوم ناقابلِ اصلاح ہیں، اور جو کچھ بھی ہمیں میسر ہے، وہ کسی ’’اتفاقی حادثے‘‘ کا نتیجہ ہے، ہماری محنت کا نہیں۔

ایسا نہیں کہ پاکستان خامیوں سے پاک ملک ہے۔ ہر باشعور شہری اصلاحِ احوال کا خواہش مند ہوتا ہے۔ لیکن مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب تنقید کا انداز تعمیری نہیں، محض تحقیر آمیز ہو۔ ایسے ناقدین کی سوچ یہیں ختم نہیں ہوتی؛ یہ کسی فلاحی عمل کو بھی طنز کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔


میرے علاقے کا ایک واقعہ اس رویے کی واضح مثال ہے۔ ایک صاحب نے اپنے گھر کے باہر واٹر کولر نصب کیا۔ ساتھ ایک اسٹیل کا گلاس زنجیر سے باندھ دیا تاکہ وہ گم نہ ہو۔ دوسرے با شعور ہمسائے نے گلاس کی زنجیر کو دیکھ کر تبصرہ فرمایا:
"یہ ہے ہمارا پاکستان جہاں گلاس کو بھی زنجیر سے باندھ کر رکھنا پرتا ہے ۔ دنیا کے کسی اور ملک میں تو ایسا
نہیں ہوتا"
مجھے معلوم تھا اس نے دنیا تو کیا کراچی بھی نہیں دیکھا ہوا

کولر لگانے والے نے بڑی نرمی سے کہا دن کے وقت کولر کے اوپر دھوپ آ جاتی ہے ، کوئی خدا کا بندہ اس پر سایہ ہی کر دے
تنقید کرنے والے کے چہرے پر خاموشی چھا گئی، مگر اگلے ہفتے کولر والے صاحب نے خود ہی ایک سایہ دار درخت لا کر لگا دیا۔ واٹر کولر اب دھوپ سے محفوظ ہے، گلاس محفوظ ہے، اور پیاسوں کی دعائیں اُس نیک دل کو نصیب ہو رہی ہیں۔

یہ وہ فرق ہے جو تنقید اور عمل کے درمیان ہوتا ہے۔ ملامتی پاکستانی صرف زبان سے ملامت کرتے ہیں، مگر جو واقعی بہتری چاہتے ہیں وہ خاموشی سے عمل کرتے ہیں۔ ایسے لوگ تعداد میں کم ہوں گے، لیکن اثر میں بہت بڑے ہیں۔

ایسا نہیں کہ پاکستان صرف تنقید کا مستحق ہے۔ یہاں بے شمار لوگ ہیں جو اپنی حیثیت سے بڑھ کر دوسروں کی خدمت کرتے ہیں۔

کہیں لنگر بانٹنے والے ہاتھ ہیں
کہیں خون عطیہ کرنے والے
کہیں تعلیم دینے والی انجمنیں
اور کہیں چھوٹے چھوٹے فلاحی پروجیکٹس
ہمیں اپنی توجہ ان لوگوں پر مرکوز رکھنی چاہیے۔ جو روز کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں—بنا شور، بنا شہرت۔


 آخر میں، میں بس یہی عرض کروں گا کہ
زنجیر سے بندھا گلاس اگر آپ کو پریشان کرتا ہے تو زنجیر کھولنے کا عملی حل بھی پیش کیجیے۔ تنقید کیجیے مگر تعمیری، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے اندر سے یہ ملامت کا زہر نکالیے۔
یہ ملک ایک نعمت ہے، اور یہاں کے لوگ—جی ہاں، یہی پاکستانی—اصل میں بڑے رحمدل اور جفاکش ہیں۔ ضرورت صرف مثبت سوچ اور مسلسل عمل کی ہے، نہ کہ مسلسل شکایت کی۔

ہفتہ، 31 مئی، 2025

The Science of Floating

"The Science of Floating"

Investigating Life in High-Salinity Waters

Imagine walking into a sea and finding yourself unable to sink. No effort, no swimming skills—just your body calmly resting on the surface. While it may sound like science fiction, this is the everyday reality of high-salinity waters like the Dead Sea. But what really happens when salt levels in water skyrocket? What are the effects on the human body, the environment, and even entire ecosystems? I went searching for answers—and found some fascinating truths hidden in the salt.

The Buoyancy Paradox: Why We Float

In normal freshwater, humans float with some effort. But in high-salinity water, something remarkable happens. The density of the water increases drastically due to the dissolved salts. According to Archimedes’ principle, the more dense the fluid, the more buoyant force it exerts. In hyper-saline environments, the buoyant force becomes so strong that it easily counteracts the weight of a human body—making it nearly impossible to sink.

To test this, I prepared a series of saltwater solutions at increasing concentrations. A simple egg, which sank in freshwater, floated at a 20% salt concentration. At 30%, it bobbed like a cork. Now imagine that egg is you.

The Body in Salt: Friend or Foe?

While floating in salty water may seem relaxing—and many seek it for therapeutic benefits—there's a darker side too. Extended exposure to high-salinity water can lead to skin irritation, dehydration, and eye damage. The salt pulls moisture out of the skin and mucous membranes. When I immersed my hand in a 35% salt solution for 10 minutes, the sensation was tight and stinging—my skin felt like dried paper.

Moreover, accidentally swallowing such water could lead to severe internal dehydration and nausea. The same water that lifts you effortlessly could harm you subtly.

The Environmental Cost

Beyond human experience, high-salinity waters are challenging ecosystems. Very few organisms can survive in such environments. The Dead Sea, for instance, supports only extremophiles—microorganisms adapted to thrive in harsh conditions. As salinity levels increase in lakes due to climate change or water mismanagement, biodiversity collapses.

In Pakistan, for example, some salt mines have adjacent lakes with salinity levels rising year after year. Local fish species have vanished, and villagers report skin issues after coming into contact with the water.

Conclusion: A Double-Edged Float

The wonder of high-salinity waters lies in their paradox: they protect and punish at once. Floating becomes effortless, but survival—not so much. As we continue to explore and even commercialize salt-rich environments (think float therapy spas and saltwater resorts), we must do so with knowledge and caution.

In the end, salt may preserve—but too much of it could drown more than just dreams.

جمعہ، 30 مئی، 2025

جب علم بے ضمیر ہو جائے


جب علم بے ضمیر ہو جائے
جرمنی کے جوزف مینگلے، جو ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر تھا، نے بچوں پر تجربات کیے۔ شام کا بشار الاسد، جو لندن کا تربیت یافتہ آنکھوں کا معالج تھا، نے آنکھیں بند کر کے اپنے ہی شہریوں پر بم برسائے۔ ہارورڈ سے تعلیم یافتہ ہنری کیسنجر نے بنگلہ دیش، کمبوڈیا اور ویتنام کے لاکھوں افراد کی لاشوں پر عالمی پالیسی لکھی۔
صیہونی رہنماؤں نے فلسفے، قانون اور سیاست کے علم کو فلسطینی بچوں، عورتوں اور بزرگوں کی لاشوں میں دفن کر دیا۔ ہسپتال، اسکول اور مہاجر کیمپ تک نشانے پر رہے۔ غزہ آج خون کی زمین ہے، اور دنیا کا تعلیم یافتہ طبقہ تماشائی۔
ہم نے یہ مان لیا ہے کہ تعلیم سب کچھ بدل دیتی ہے، لیکن تاریخ یہ چیخ چیخ کر بتاتی ہے کہ جب تعلیم ضمیر سے خالی ہو جائے تو وہ بم بن جاتی ہے، جھوٹا بیانیہ بن جاتی ہے، جیل کی کوٹھڑی بن جاتی ہے۔
علم کو کتابوں تک محدود کر دینا ظلم ہے، اور اسے ضمیر سے کاٹ دینا بربادی۔
آج کا سوال:
ہم اپنے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں؟
ڈگری، شہرت، چندہ، اور تقریر؟
یا رحم، سچ، برداشت، اور انصاف؟
یاد رکھیں، ڈاکٹر بن جانا بڑا کام نہیں، دل کا انسان بننا اصل علم ہے۔ اسپتال بنانا بڑا کارنامہ نہیں، مظلوم
کے لیے آواز بلند کرنا اصل خیرات ہے۔
کبھی سوچا ہے، ایک انسان آکسفورڈ جیسی عظیم درسگاہ سے تعلیم حاصل کرے، دنیا کے سب سے مقبول خیراتی اسپتال کا بانی ہو، لاکھوں دلوں کی دھڑکن ہو، لیکن پھر ایک دن وہی انسان سچائی کا گلا گھونٹ دے، انسانیت کو روند ڈالے، اور اقتدار کی ہوس میں اپنے یئ ملک کی عساکر پر حملہ آور ہو جائے؟
یہ سوال صرف پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم عمران خان تک محدود نہیں۔ دنیا کی تاریخ میں علم و تعلیم کے تاج پہنے وہ چہرے بھی موجود ہیں جنہوں نے انسانیت کو رسوا کیا، اخلاقیات کو جوتے کی نوک پر رکھا، اور خود کو خدا سمجھ بیٹھے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں تعلیم، شہرت اور مقبولیت کی چادر تار تار ہو جاتی ہے۔ عمران خان، بشار الاسد، ہنری کیسنجر، نیتن یاہو، اسامہ بن لادن . تریندرا مودی سب ایک ہی صف میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں: تعلیم یافتہ، بااثر، اور بے ضمیر۔
دنیا کو آج صرف تعلیم نہیں، بلکہ وہ لوگ چاہییں جو تعلیم کے ساتھ انسان بھی ہوں۔