ہفتہ، 10 مئی، 2025

مذہبی منافرت کا خطرناک انجام


 

"نریندر مودی کی مذہبی منافرت اور برتری کے خمار کا خطرناک انجام"

حال ہی میں ایک بھارتی تجزیہ کار کی جانب سے ترکی کو "جہنم میں بدل دینے" کی دھمکی اور اس کے جواب میں ترک تجزیہ نگار کا سخت اور مذہبی جذبات سے لبریز ردعمل سامنے آیا۔

ترک تجزیہ نگار نے کہا:
"ہم سات شراکت دار برادر ملکوں کے ساتھ آئیں گے، اس گائے کو ذبح کر کے کھائیں گے جسے تم خدا سمجھ کر پوجتے ہو، ہمیں زیادہ تنگ نہ کرو!"

یہ محض ایک ذاتی رائے نہیں بلکہ ایک گہرے، وسیع اور دیرینہ رجحان کا مظہر ہے — ایک ایسا رجحان جو نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کی داخلی اور خارجی پالیسی کا ستون بنتا جا رہا ہے: مذہبی منافرت، اقلیت دشمنی، اور ہمسایہ ممالک کو نیچا دکھانے کی پالیسی۔

مذہبی اقلیتوں کے خلاف زہر آلود فضا

مودی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں، دلتوں، اور دیگر اقلیتوں کے خلاف جو فضا پیدا کی گئی ہے، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ گؤ رکھشا کے نام پر بے گناہ مسلمانوں کا قتل، مساجد پر حملے، مدارس اور علماء کے خلاف مہم، اور مسلم تاجروں و فنکاروں کا سماجی بائیکاٹ، سب کچھ ایک منظم پالیسی کے تحت کیا جا رہا ہے۔

یہ داخلی پالیسی اب بھارت کی خارجہ حکمت عملی میں بھی جھلکنے لگی ہے، جہاں ہر ہمسایہ ملک — چاہے وہ پاکستان ہو، چین ہو، نیپال ہو,بنگلہ دیسش ہو یا ترکی — کو دشمن کے طور پر پیش کر کے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹائی جاتی ہے۔

ترک ردعمل: ایک مذہبی و تہذیبی پیغام

ترک تجزیہ نگار کا ردعمل، اگرچہ سخت تھا، لیکن اسے جذباتی نہیں بلکہ علامتی جواب سمجھنا چاہیے۔ گائے، جسے ہندو عقیدہ میں مقدس مانا جاتا ہے، کا ذبح کرنا ایک مذہبی علامت کے طور پر استعمال ہوا — یہ ردعمل اس نفرت انگیز بیانیے کے خلاف آیا جو بھارت کی ریاستی سرپرستی میں اقلیتوں پر مسلط کیا جا رہا ہے۔

یہ جواب صرف ترکی کی طرف سے نہیں تھا، بلکہ مسلم دنیا کے اجتماعی احساسات کی ترجمانی بھی کرتا ہے — ایک ایسا ردعمل جو مودی حکومت کی پالیسیوں کے باعث پروان چڑھ رہا ہے۔

سفارتی خطرہ یا خود ساختہ دشمنی؟

بھارت کی موجودہ قیادت نے پڑوسیوں کے ساتھ برابری، احترام، اور باہمی مفاد کے اصولوں کے بجائے، برتری، دھمکی، اور ثقافتی بالادستی کے اصول اپنا لیے ہیں۔ اس رویے نے بھارت کو خطے میں تنہائی کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا ہے۔
چاہے وہ پاکستان سے کشیدگی ہو، چین کے ساتھ سرحدی تنازع، نیپال و بنگلہ دیش کی ناراضگی، یا ترکی سے لفظی جنگ — یہ سب اسی خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہیں جس کا مقصد بھارت کو "ہندو راشٹرا" کے طور پر مستحکم کرنا ہے، خواہ اس کی قیمت کچھ بھی ہو۔

نتیجہ: منافرت کی فصل کبھی امن نہیں اگاتی

مودی حکومت کو سوچنا ہو گا کہ وہ بھارت کو کس سمت لے جا رہی ہے۔ اگر ملک کی شناخت کو صرف اکثریتی مذہب سے جوڑ دیا جائے، اور اقلیتوں کے جذبات کو بار بار روندا جائے، تو ردعمل صرف اندرون ملک نہیں بلکہ بیرونی دنیا سے بھی آئے گا — اور وہ ہمیشہ نرم نہیں ہوگا۔

بھارت کو چاہیے کہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے، اپنی مذہبی اقلیتوں کو برابر کا شہری تسلیم کرے، اور ہمسایہ ممالک سے برابری کی بنیاد پر بات کرے، ورنہ وہ وقت دور نہیں جب اس برتری کے زعم میں بھارت سفارتی، اخلاقی، اور ثقافتی طور پر تنہا رہ جائے گا۔

جنگ کے بعد



آخرکار، 10 مئی 2025 کی سہ پہر وہ اعلان ہوا جس نے توپوں کی گرج کو خاموش کر دیا، سرحدوں پر سکوت طاری ہو گیا، اور یوں محسوس ہوا جیسے خود وقت نے بھی سانس روک لی ہو۔ جنگ بندی کا اعلان ہو چکا تھا۔ مگر یہ خاموشی راحت کا پیغام نہیں، بلکہ سوالوں سے بھرا ایک نوحہ تھی۔

یہ جنگ کوئی دفاعی مجبوری نہ تھی۔ نہ یہ اصولوں کی لڑائی تھی، نہ نظریات کی۔
یہ محض انا کا ٹکراؤ تھا — ایک شخص کی ضد، ایک قوم کی جھوٹی برتری کا خواب، اور ہندوتوا کے بگولےکی وہ آگ جس نے دو ارب انسانوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیا 
پاکستان نے کئی بار، بار بار، کھلے دل سے کہا:

"ہم جنگ نہیں چاہتے، ہماری معیشت کمزور ہے، ہمیں سنبھلنے دیں۔"

مگر ہماری بات کو کمزوری سمجھا گیا۔ برداشت کو بزدلی جانا گیا۔
اور پھر حد ہو گئی — جب پاکستان کے دل پر وار کیا گیا۔
بے گناہ بچے، معصوم خواتین — سب خون میں نہلا دیے گئے۔

جب ظلم حد سے بڑھتا ہے، تو ردِعمل لازم ہو جاتا ہے۔
پاکستان خاموش ضرور تھا، کمزور نہیں۔
اور پھر وہی ہوا — آپریشن بنیان مرصوص "۔
ہمارے جوان، ہمارے پائلٹ، ہمارے افسر — سب نے وہ کر دکھایا جو قومیں صدیوں تک یاد رکھتی ہیں۔

ہمارے ہوا بازوں نے آسمان پر وہ مہارت دکھائی کہ دشمن کے ریڈار بھی تھرّا اٹھے۔
ہمارے سپاہیوں نے زمین پر وہ حوصلہ دکھایا کہ بندوقیں بھی فخر سے جھک گئیں۔

مگر پھر بھی، یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے:
کیا یہ سب روکا نہیں جا سکتا تھا؟
کیا دہشتگردی کے جھوٹے الزام، پہاگام جیسے واقعے کو بنیاد بنا کر ایک پوری قوم کو سزا دینا درست تھا؟
کیا "ثبوت نہیں، بس الزام کافی ہے" کا اصول اپنایا جا سکتا ہے؟

پاکستان نے جنگ جیتی، میدان بھی، وقار بھی۔
مگر ہم جیتنے کے لیے نہیں لڑے تھے —
ہم تو امن چاہتے تھے۔

اب تاریخ بھارتی قیادت سے سوال کرے گی:
کیا اب بھی آنکھیں کھولو گے؟
یا اگلی جنگ تک یہی کھیل جاری رکھو گے؟

بنیان مرصوص



"بنیان مرصوص"

جب کوئی قوم اپنی سالمیت، نظریات اور مقدس مقاصد کے تحفظ کے لیے اٹھ کھڑی ہو، تو اس کی صفوں میں جو نظم، اخلاص اور اتحاد پیدا ہوتا ہے، وہ صرف عسکری طاقت نہیں بلکہ ایک روحانی طاقت کی علامت ہوتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے کسی فوجی یا نظریاتی کاروائی کو "بنیان مرصوص" کا نام دینا کوئی محض اتفاق نہیں، بلکہ اس کے پیچھے ایک گہرا قرآنی تصور اور اسلامی فکری اساس موجود ہے۔

"بنیان مرصوص" کا ذکر قرآن مجید کی سورۃ الصف میں آیا ہے:

"إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنيَانٌ مَّرْصُوصٌ"
(الصف: 4)

"بیشک اللہ اُن لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف باندھ کر ایسے لڑتے ہیں جیسے وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں۔"

یہ آیت صرف ایک فوجی نظم کی تصویر نہیں، بلکہ ایمانی یکجہتی، مقصدِ واحد، اور قربانی کے اس جذبے کا آئینہ ہے جو کسی قوم کو ناقابلِ شکست بنا دیتا ہے۔

حدیثِ نبوی ﷺ:

نبی اکرم ﷺ نے مومنوں کی باہمی وحدت کو یوں بیان فرمایا:

"المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضًا"
(بخاری و مسلم)

"مومن، مومن کے لیے ایسے ہیں جیسے ایک عمارت، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔"

یہ حدیث اس بات کو مزید واضح کرتی ہے کہ "بنیان مرصوص" صرف ظاہری نظم نہیں بلکہ باطنی اخلاص، یکجہتی اور باہم اعتماد کا نام ہے۔

نام کی اہمیت

پاکستان کی مسلح افواج صرف دفاعی طاقت نہیں، بلکہ قومی نظریات کی محافظ بھی ہیں۔ جب ریاست کسی مہم یا کاروائی کو "بنیان مرصوص" کا نام دیتی ہے، تو یہ چند اہم پیغامات دیتا ہے:

1. قرآنی بنیاد پر عمل:

یہ نام براہِ راست قرآن سے ماخوذ ہے، جو مہم کو دینی و اخلاقی جواز فراہم کرتا ہے۔ یہ اعلان ہے کہ یہ عمل محض سیاسی یا جغرافیائی نہیں بلکہ ایمانی تقاضا بھی ہے۔

2. اتحاد کی دعوت:

ایسا نام پوری امت کو اتحاد، یکجہتی اور جذبۂ قربانی کے تحت جمع ہونے کا پیغام دیتا ہے۔ ہر فرد اس "بنیان" کا حصہ بن جاتا ہے۔

3. دشمن کے لیے نفسیاتی پیغام:

جب دشمن کو یہ سننے کو ملتا ہے کہ  قوم "سیسہ پلائی دیوار" کی طرح کھڑی ہے، تو یہ ایک طاقتور نفسیاتی دباؤ پیدا کرتا ہے۔

4. اخلاقی برتری کی علامت:

یہ نام ظاہر کرتا ہے کہ ہماری جنگ صرف دفاع کی نہیں، بلکہ سچ، امن، اور مظلوموں کے حق کی جنگ ہے — فی سبیل اللہ۔

"بنیان مرصوص" کوئی فوجی کوڈ یا خفیہ منصوبہ نہیں، بلکہ ایک فکری اور روحانی علامت ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ جب تک ہم اللہ کے راستے میں صف باندھ کر، اخلاص سے متحد رہیں گے، دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔

پاکستان کا ہر سپاہی، ہر شہری، ہر کارکن اسی عمارت کا حصہ ہے — جس کی بنیاد ایمان ہے، دیوار اتحاد ہے، اور چھت قربانی سے ڈھکی ہے۔

 اللہ ہمیں حقیقی "بنیان مرصوص" بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ 

جمعہ، 9 مئی، 2025

مودی امن کے لیے خظرہ

 

گزشتہ چند برسوں میں بھارت کا اندرونی و بیرونی طرزِ عمل نہ صرف تشویش ناک ہو چکا ہے بلکہ اب کھل کر ظاہر ہو رہا ہے کہ مودی سرکار کا اصل ایجنڈا خطے میں عدم استحکام اور اقلیتوں کو کچلنے پر مبنی ہے۔

ہندوستان میں مسلمانوں کو مساجد سے بے دخل کیا جا رہا ہے، تاریخی عبادت گاہوں کو مندر قرار دے کر نہ صرف اقلیتوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا جا رہا ہے بلکہ ان کی مذہبی شناخت بھی مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بابری مسجد کے سانحے سے شروع ہونے والا سلسلہ گیان واپی اور دیگر مساجد تک پہنچ چکا ہے۔ آج ہندوستان کا مسلمان خوف، تنہائی اور بے بسی کی حالت میں جینے پر مجبور ہے۔

دوسری طرف سکھ برادری کو بھی "خالصتانی" اور "غدار" جیسے الزامات کی آڑ میں ریاستی مشینری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے بعد تو یہ بات عالمی سطح پر بھی تسلیم کی گئی کہ ہندوستان اپنی سرحدوں سے باہر جا کر بھی ناقد آوازوں کو خاموش کروا رہا ہے۔

کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ گھروں کو بارود سے اڑایا جا رہا ہے، بچوں کو قید کیا جا رہا ہے، اور لوگوں کو ان کے ہی وطن میں اجنبی بنا دیا گیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ عالمی ضمیر اس ظلم پر یا تو خاموش ہے یا پھر سیاسی و تجارتی مفادات کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔

ادھر پاکستان نے کئی بار کے پی کے اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت اور دہشت گردی کے ناقابلِ تردید ثبوت نہ صرف دوست ممالک بلکہ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے ساتھ شیئر کیے ہیں۔ بھارت، جو بظاہر ایک "سب سے بڑا جمہوری ملک" ہونے کا دعویدار ہے، درحقیقت اپنے ہمسایہ ممالک کے اندر دہشت گرد نیٹ ورک قائم کر کے خطے میں بدامنی پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے۔

اب اگر ہندوستان نے پاکستان کی سرحدوں پر جنگی جنون مسلط کرنے کی کوشش کی، یا پاکستانی شہروں میں عام شہریوں کو نشانہ بنانے کی ناپاک حرکت دہرائی، تو پاکستان بھی کسی غلط فہمی میں نہیں ہے۔ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ جواب صرف فوری نہیں بلکہ فیصلہ کن ہوگا۔ یہ کوئی جذباتی انتقامی ردِعمل نہیں ہوگا، بلکہ ایک مکمل حکمتِ عملی، وقت کے تقاضوں اور قومی سلامتی کے اصولوں پر مبنی جواب ہوگا۔

دنیا کو اب یہ ماننا ہوگا کہ پاکستان کا مؤقف صرف دفاعی نہیں بلکہ اصولی بھی ہے۔ اگر بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا گیا تو اس کا مقصد صرف بدلہ لینا نہیں بلکہ آئندہ کے لیے ایک مستقل روک پیدا کرنا ہوگا۔ بھارت کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان نہ کمزور ہے، نہ غافل، اور نہ ہی مجبور۔

اب وقت آ چکا ہے کہ عالمی طاقتیں محض تماشائی بننے کے بجائے اپنا کردار ادا کریں۔ ورنہ خطے کا امن، جس کی بنیاد پر دنیا میں تجارتی و معاشی مفادات قائم ہیں، کسی بھی لمحے لرز اٹھ سکتا ہے۔

ماتمی کالم