اتوار، 6 اپریل، 2025



جنت میں حوروں کے بارے میں مختلف اسلامی متون اور روایات میں ذکر کیا گیا ہے۔ حوریں جنت میں خوشبو دار، خوبصورت اور خوبصورتی میں بے مثال خواتین ہیں جو جنت کے باشندوں کے لیے انعام کے طور پر اللہ کی جانب سے عطا کی جائیں گی۔ ان کا ذکر قرآن اور حدیث میں مختلف مواقع پر آیا ہے، اور یہ ان خوش نصیب افراد کے لیے مخصوص ہیں جو دنیا میں اللہ کے راستے پر چلتے ہوئے اپنی زندگی گزاریں۔

قرآن کی تعلیمات میں حوروں کا ذکر:

قرآن مجید میں حوروں کا ذکر جنت کی نعمتوں کے طور پر کیا گیا ہے۔ چند آیات میں حوروں کی خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے:

  1. خوبصورت اور سفید رنگت: جنت کی حوریں بے حد خوبصورت اور چمکدار ہوں گی۔ ان کا چہرہ بہت صاف اور روشن ہوگا، اور ان کی جلد دودھ کی طرح سفید اور چمکدار ہو گی۔

    اللہ تعالی نے فرمایا:
    "وہ حوریں، جنہیں ہم نے مخصوص طور پر تیار کیا ہے، ایسے جنتی لوگوں کے لیے جو متقی ہیں۔" (الطور 20)

  2. کمزور لیکن مضبوط: حوریں جسمانی طور پر نرم و نازک ہوں گی، لیکن ان کی تخلیق میں کسی قسم کا عیب نہیں ہوگا، اور وہ جنتی مردوں کے لیے انعام کے طور پر ہوں گی۔

  3. خوبصورتی اور محبت: ان حوروں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے شوہروں کے لیے محبت اور دل سے وابستہ ہوں گی۔

حدیث کی روشنی میں حوروں کی خصوصیات:

حدیث میں بھی حوروں کا ذکر کیا گیا ہے اور ان کی خوبصورتی اور خصوصیات پر مزید روشنی ڈالی گئی ہے۔

  1. خوبصورتی: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
    "جنت میں ایک درخت ہے، اس کے نیچے حوریں ہوں گی جن کی آنکھوں کا رنگ سبز ہوگا، اور ان کا چہرہ چاند سے زیادہ روشن ہوگا۔"

  2. نسبتاً کم عمر: حوریں ہمیشہ جوان اور بے مثال حسین ہوں گی۔ حدیث میں ہے کہ وہ ہمیشہ 33 سال کی عمر کی ہوں گی۔

  3. دولت اور شان: حوروں کی آرائش و زیبائش ایسی ہوگی کہ وہ دنیا کی تمام خوبصورتیوں کو پیچھے چھوڑ دیں گی۔

جنتی حوروں کی خصوصیات:

  1. کامل صفائی: حوریں پاکیزگی اور خوشبو سے معمور ہوں گی۔ ان کا جسم جنت کے مخصوص خوشبو سے معطر ہوگا۔

  2. محبت میں شدت: جنت میں حوریں اپنے شوہروں کے لیے بے حد محبت رکھیں گی۔ قرآن اور حدیث میں ان کے دلوں کی محبت اور وفاداری کو خاص طور پر بیان کیا گیا ہے۔

  3. جوڑوں کی تکمیل: حوریں جنتی مردوں کے لیے انعام کی طرح ہوں گی اور ان کا مقصد ان کی خوشی اور سکون کا باعث بننا ہوگا۔

حوروں کے بارے میں مختصر خیال:

حوریں جنت کی مخصوص مخلوق ہیں جو اللہ کے راستے پر چلنے والے افراد کے لیے انعام کے طور پر دی جائیں گی۔ ان کی صفات بے شمار اور بے نظیر ہیں، اور ان کا ذکر قرآن و حدیث میں جنت کی نعمتوں کے طور پر کیا گیا ہے۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق، حوریں جنت کے رہائشیوں کے لیے ایک عظیم نعمت ہیں اور ان کی خوبصورتی، وفاداری اور محبت جنت کے سکون کا حصہ بنیں گی۔ 

ہفتہ، 5 اپریل، 2025

حضرت علیؓ کی ازواج اور اولاد



حضرت علیؓ کی ازواج اور اولاد

حضرت علیؓ کی ازواج:

تاریخ کی مشہور کتاب "البداية والنهاية" (امام ابن کثیر) کے مطابق حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی نو بیویاں تھیں۔ ان کے نام درج ذیل ہیں:

  1. حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا (بنتِ رسول اللہ ﷺ)

  2. ام البنین بنت حزام

  3. لیلیٰ بنت مسعود

  4. اسماء بنت عمیس

  5. ام حبیبہ بنت زمعہ (یا ربیعہ)

  6. ام سعید بنت عروہ بن مسعود

  7. محیات بنت امرء القیس

  8. امامہ بنت ابی العاص بن الربیع

  9. خولہ بنت جعفر بن قیس

حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہؓ کی حیات میں کسی اور سے نکاح نہیں کیا۔ ان کے انتقال کے بعد آپؓ نے وقتاً فوقتاً نکاح کیے۔ شہادت کے وقت آپؓ کی چار ازواج بقیدِ حیات تھیں۔


حضرت علیؓ کے بیٹے (14):

  1. حسن

  2. حسین

  3. محسن (بچپن میں وفات)

  4. محمد الاکبر (المعروف: محمد حنفیہ)

  5. عبداللہ

  6. ابو بکر

  7. عباس الاکبر

  8. عثمان

  9. جعفر

  10. محمد الاصغر

  11. یحییٰ

  12. عون

  13. محمد اوسط

  14. عمر الاکبر


حضرت علیؓ کی بیٹیاں (18):

  1. زینب الکبریٰ

  2. اُم کلثوم الکبریٰ

  3. رقیہ

  4. ام الحسن

  5. رملہ الکبریٰ

  6. ام ہانی

  7. میمونہ

  8. رملہ الصغریٰ

  9. زینب الصغریٰ

  10. ام کلثوم الصغریٰ

  11. فاطمہ

  12. امامہ

  13. خدیجہ

  14. ام الکرم

  15. ام سلمہ

  16. ام جعفر

  17. جمانہ

  18. تقیہ


بیٹیوں کی شادیاں:

اکثر بیٹیوں کی شادیاں بنو عقیل اور بنو عباس میں ہوئیں۔ چار بیٹیوں کی شادیاں ان کے علاوہ خاندانوں میں ہوئیں:

  1. زینب بنت فاطمہ – عبداللہ بن جعفر طیار کے ساتھ

  2. ام کلثوم بنت فاطمہ – خلیفہ حضرت عمر بن خطابؓ کے ساتھ

  3. ام الحسن – جعفر بن ہبیرہ کے ساتھ

  4. فاطمہ – سعد بن اسود کے ساتھ


نوٹ: یہ معلومات ان کتابوں سے لی گئی ہیں

  1. البداية والنهاية – امام ابن کثیر

  2. الکامل فی التاریخ – امام ابن اثیر

  3. تاریخ طبری – امام ابن جریر طبری

  4. الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب – ابن عبد البر

  5. تاریخ یعقوبی – احمد بن یعقوب یعقوبی

  6. مروج الذہب – مسعودی


بدھ، 26 جون، 2024

ایک قبر کم ہے

ایک قبر کم ہے

  جان نثاروں کی تعداد 258 ہے جبکہ قبریں 257 ہیں ۔ 

راولپنڈی کے سی ایم ایچ کے امرجنسی گیٹ کے سامنے ایک قدیمی قبرستان ہے جس کو گورا قبرستان کہا جاتا ہے ۔ اسی چاردیواری کے اندر 

Rawalpindi War Cemetry 

کے نام سے ایک قبرستان ہے ۔ جہاں عالمی جنگ اول اور جنگ دوم کے  

 یہ قبرستان کامن ویلتھ  کے زیر انتظام ہے اور 

Common Wealth war Graves Commision 

نامی ادارہ دنیا بھر میں ایسے قبرستانوں  کی دیکھ بھال کرنے اور ریکارڈ رکھنے کا زمہ دار ہے 

اس ادارے کے ریکارڈ کے مطابق راولپنڈی کے اس قبرستان میں دفن افراد کی تعداد 358 ہے جبکہ قبروں کی تعداد 357 پے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ایک قبر کم ہے ۔ 

ایک قبر بنگلہ دیش میں میں کھودی گئی تھی۔بتایا گیا تھا کہ اس قبر میں پاک فضائیہ کے ایک سابق پائلٹ مطیع الرحمان کی میت د فنائی جائے گی۔ مطیع الرحمان نے پاک فضائیہ کے ہیرو فلائٹ لیفٹیننٹ راشد منہاس نشان حیدر کا طیارہ اغوا کر کے بھارت لے جانے کی کوشش کی تھی مگر نوجوان منہاس نے اپنی جان کی قربانی دے کر اس سازش کو ناکام بنا دیاتھا۔ پاکستانی قوم نے سب سے معززعسکری ایوارڈ دے کر اپنے شہید کو خراج پیش کیا تھاتو بنگالی بھی اپنے ہیرو کو بھولے نہیں۔ 

مطیع الرحمان کی بیٹی نے  1990 میں کراچی میں اپنے والد کی قبر پر حاضری دی اور واپس جا کر قبر کھدوائی۔اور 2004میں  میت لے جانے میں کامیاب ہو گئ  ۔ 

سری نگر کے مزار شہداء میں  دو قبریں بنی ہوئی ہیں ۔ ایک قبر مقبول بٹ کی ہے اور دسری افضل گرو کی۔ یہ دونوں قبریں فی الحال اپنی میتوں کی منتظر ہیں حالانکہ دونوں کو تہاڑ کی جیل میں پھانسی دے کر دفن کر دیا گیا تھا۔  
 
کہا جاتا ہے قبر اپنے میت کا انتظار کرتی ہے ۔ 
پاکستان کے  مایہ ناز، بہادر، شہید، نشان حیدر کے حامل میجر محمد اکرم کا جسد خاکی بنگلہ دیش کے ضلع دیناج پور میں موجود ہے۔ پاکستانیوں نے مگر کبھی اپنے ہیرو کے لیے قبر کھودی ہی نہیں 
پاکستان میں
ایک قبر کم ہے

گیٹ نمبر 4

 

راولپنڈی کی لالکرتی کے علاقے میں ایوب ہال ہوا کرتا تھا جہاں قومی اسمبلی کے اجلاس ہوا کرتے تھے ۔ جب قومی اسمبلی اسلام آباد منتقول ہو گئی تو اس عمارت کو نیشنل ڈیفنس کالج بنا دیا گیا ۔ اس عمارت کے گیٹ کے سامنے ایک موچی بیتھا کرتا تھا ۔ جس نے بلیاں پال رکھی بھیں ۔ موچی کی بلیاں فوجی کالج میں آزادانہ گھوما کرتی تھیں ۔کمانڈر تبدیل ہوا نیا کمانڈر کرنل تھا جو حافظ قران بھی تھا ۔ اس نے ایک بلی پکڑی اور چند دنوں بعد وہ موچی بھی پکڑا گیا جو کسی دوسرے ملک کا حاضر سروس کرنل تھا ۔

شائد آپ کو وہ میجر بھی یاد ہو جو دشمن ملک کی خفیہ ایجنسی میں گھس گیا تھا اور انڈیا سے اڑ کر کوئٹہ  پر حملہ کرنے کے  ارادے سے آئے طیارے واپس چلے گئے تھے ۔ وہ میجر بتایا کرتا تھا اس کی پشت پر اس کے حافظ قران والد کی دعائیں ہیں

 خبروں میں رھنا ایک فن ہے ۔ فن کے ماہر کو فنکار کہتے ہیں ۔ سیاست کے فنکار پنڈی کے بھابھڑا بازار کی گلیوں مین پل کر جوان ہونے والے شیخ رشید ہیں ۔ پارٹی بدلنے سے رنگ بدلنے اور موقف بدلنے میں ان کا نمبر دوسرا ہے ۔ 

وہ  گفتگو کرنے کا فن جانتے ہیں اور زبان درازی کے تو پاکستان میں موجد ہیں ۔ "پیلی ٹیکسی" / "بلو رانی" جیسے الفاظ ان ہی کے زرخیز ذہن کی پیداوار ہیں ۔ 


جی ایچ کیو کا گیٹ نمر 4  سیاست میں ایک استعارہ  بن چکا ہے ۔ ایک وقت تھا اس گیٹ سے داخل ہوں تو ایک خانقاہ ہوا کرتی تھی ۔ اس خانقاہ پر ایک مجاور ہوا کرتا تھا ۔ شیخ رشید بھابڑہ بازار سے اسلامی جمیعت طلبا کے دیے ہوئے موٹر سائیکل پر بیٹھ کر اس مجاور سے فیض لیا کرتا .

 کہ میانوالی کے تنومند تھانیدار نے بتا دیا تھا کہ زندگی بھر مجاوری ہی کرے گا ۔ 

جب مومن جنرل نے  مارشل لا لگا دیا تو ۔ "مرد مومن، مرد حق" کا نعرہ ہی مقبول نہیں ہوا بلکہ  نعرے کے خالق شیخ کو بھی قبولیت حاصل ہوئی ۔ 


ایک قبر اور دو مردے والا بیان  اسی شیخ سے دلوایا گیا تھا بیان دلوانے والا گیٹ کے اندر بنی خانقاہ کا مجاور تھا۔ جو تھا تو باوردی 

مگر وردی نہیں پہنتا تھا

موجودہ دور میں گیٹ نمبر 4 والی خانقاہ اجڑ چکی ۔ مجاور آٹھ گیا۔ گیٹ کیپر وہی گاڑی داخل ہونے دیتا ہے جس کی منطوری  اندر سے ہو چکی ہو 

شیخ صاحب نے اڈیالہ جیل کے باہر سڑک پر کھڑے ہو کر فرمایا ہے  "قبر ایک اور مردے تین ہیں

اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوے فرانس میں بس جانے والے ایک پرانے سیاسی کارکن کا تبصرہ ہے

وہ بیان دلوایا گیا تھا ، یہ بیان دیا گیا ہے ، اس بیان کے ہیچھے وردی کی طاقت تھی اس بیان کے پیچھے بے فیض مرشد ہے

میاں محمد بخش نے کہا تھا 

نیچاں دی آشنائی کولوں فیض کسے نہ پایا
کیکر تے انگور چڑھایا تے ہر دانہ زخمایا

منگل، 18 جون، 2024

گوجرخان: پوٹھوہار کا دل



گوجرخان، جسے 1974ء میں بلدیہ کا درجہ ملا، پوٹھوہار کا دل ہے۔ شہر کی آبادی تقریباً اڑھائی لاکھ اور رقبہ تقریباً 10 مربع میل ہے۔ یہ شہر سطح سمندر سے 1700 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ گوجرخان کا بیشتر علاقہ ہموار ہے جبکہ شمال کی طرف پہاڑی سلسلہ ہے جو تحصیل کلرسیداں اور تحصیل کہوٹہ کی پہاڑیوں کا آخری حصہ ہے۔

تاریخی اہمیت

گوجرخان پاکستان کا ایک مشہور تاریخی شہر ہے۔ چودھویں صدی میں راجا خانان نے اس بستی کو آباد کیا۔ یہ شہر مختلف حکمرانوں جیسے سکندر اعظم، سلطان محمود غزنوی، شیر شاہ سوری، ظہیر الدین محمد بابر، نادر شاہ، احمد شاہ ابدالی وغیرہ کی گزرگاہ رہا ہے۔ مغلیہ دور میں یہ ایک اہم تجارتی مرکز تھا۔

عہد جدید

1947ء کی آزادی کے بعد یہاں کے اقلیتی ہندو اور سکھ ہندوستان ہجرت کر گئے جبکہ مسلمان مہاجرین یہاں آباد ہوئے۔ برطانوی دور میں تحصیل گوجر خان کی اہمیت میں اضافہ ہوا۔ مولانا امانت علی 1945ء میں پاکستان مسلم لیگ گوجر خان کے صدر بنے اور 1946ء میں قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ ایک اجتماع کی میزبانی کی۔

معاشی اور تجارتی سرگرمیاں

گوجرخان کی معیشت زراعت اور تجارت پر مبنی ہے۔ یہاں کے لوگ آرمی اور دیگر اداروں میں بھی نوکریاں کرتے ہیں۔ گوجرخان میں مونگ پھلی، گندم، جو اور دیگر اجناس کی پیداوار زیادہ ہے۔ یہاں کھویا اور اندرہ بھی مشہور ہیں۔ گوجرخان کی مونگ پھلی پورے ملک میں مشہور ہے۔

تعلیم

گوجرخان میں انگریزوں کے دور میں پرائمری اسکول قائم ہوا اور بعد میں اسلامیہ ہائی اسکول قائم کیا گیا۔ یہاں گورنمنٹ سرور شہید کالج، گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین، اور دیگر تعلیمی ادارے موجود ہیں۔

صنعتی سرگرمیاں

گوجرخان میں کئی کارخانے ہیں، جن میں ملک کی سب سے بڑی تمباکو فیکٹری شامل ہے۔ یہاں پولٹری فارم بھی ہیں۔ 2002ء میں تیل اور گیس کے بڑے ذخائر دریافت ہوئے جنہیں آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ تیار کر رہی ہے۔

انتظامی تقسیم

گوجرخان کا انتظام میونسپل کارپوریشن کے زیرِ انتظام ہے اور تحصیل کو 36 یونین کونسلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہاں قومی اسمبلی کی ایک نشست ہے جبکہ پنجاب صوبائی اسمبلی کے لیے دو حلقے ہیں۔

ٹرانسپورٹ

گوجرخان شہر جی ٹی روڈ (قومی شاہراہ 5) کے ساتھ واقع ہے جو اسے پاکستان کے مختلف حصوں سے ملاتی ہے۔ شہر کے اندر اور اردگرد ٹرانسپورٹ کے لیے بسیں، ویگن، اور رکشے موجود ہیں۔

مشہور شخصیات

گوجرخان کی مشہور شخصیات میں کیپٹن راجہ محمد سرور شہید، سوار محمد حسین شہید، طارق محمود مرزا، سید اختر امام رضوی، راجا محمد ظہیر خان، سید آل عمران، راجا عبد العزیز بھٹی، راجا طارق کیانی، پروفیسر احمد رفیق اختر، طارق شریف بھٹی، ڈاکٹر شہزاد وسیم اور چوہدری خورشید زمان شامل ہیں۔