بدھ، 26 جون، 2024

گیٹ نمبر 4

 

راولپنڈی کی لالکرتی کے علاقے میں ایوب ہال ہوا کرتا تھا جہاں قومی اسمبلی کے اجلاس ہوا کرتے تھے ۔ جب قومی اسمبلی اسلام آباد منتقول ہو گئی تو اس عمارت کو نیشنل ڈیفنس کالج بنا دیا گیا ۔ اس عمارت کے گیٹ کے سامنے ایک موچی بیتھا کرتا تھا ۔ جس نے بلیاں پال رکھی بھیں ۔ موچی کی بلیاں فوجی کالج میں آزادانہ گھوما کرتی تھیں ۔کمانڈر تبدیل ہوا نیا کمانڈر کرنل تھا جو حافظ قران بھی تھا ۔ اس نے ایک بلی پکڑی اور چند دنوں بعد وہ موچی بھی پکڑا گیا جو کسی دوسرے ملک کا حاضر سروس کرنل تھا ۔

شائد آپ کو وہ میجر بھی یاد ہو جو دشمن ملک کی خفیہ ایجنسی میں گھس گیا تھا اور انڈیا سے اڑ کر کوئٹہ  پر حملہ کرنے کے  ارادے سے آئے طیارے واپس چلے گئے تھے ۔ وہ میجر بتایا کرتا تھا اس کی پشت پر اس کے حافظ قران والد کی دعائیں ہیں

 خبروں میں رھنا ایک فن ہے ۔ فن کے ماہر کو فنکار کہتے ہیں ۔ سیاست کے فنکار پنڈی کے بھابھڑا بازار کی گلیوں مین پل کر جوان ہونے والے شیخ رشید ہیں ۔ پارٹی بدلنے سے رنگ بدلنے اور موقف بدلنے میں ان کا نمبر دوسرا ہے ۔ 

وہ  گفتگو کرنے کا فن جانتے ہیں اور زبان درازی کے تو پاکستان میں موجد ہیں ۔ "پیلی ٹیکسی" / "بلو رانی" جیسے الفاظ ان ہی کے زرخیز ذہن کی پیداوار ہیں ۔ 


جی ایچ کیو کا گیٹ نمر 4  سیاست میں ایک استعارہ  بن چکا ہے ۔ ایک وقت تھا اس گیٹ سے داخل ہوں تو ایک خانقاہ ہوا کرتی تھی ۔ اس خانقاہ پر ایک مجاور ہوا کرتا تھا ۔ شیخ رشید بھابڑہ بازار سے اسلامی جمیعت طلبا کے دیے ہوئے موٹر سائیکل پر بیٹھ کر اس مجاور سے فیض لیا کرتا .

 کہ میانوالی کے تنومند تھانیدار نے بتا دیا تھا کہ زندگی بھر مجاوری ہی کرے گا ۔ 

جب مومن جنرل نے  مارشل لا لگا دیا تو ۔ "مرد مومن، مرد حق" کا نعرہ ہی مقبول نہیں ہوا بلکہ  نعرے کے خالق شیخ کو بھی قبولیت حاصل ہوئی ۔ 


ایک قبر اور دو مردے والا بیان  اسی شیخ سے دلوایا گیا تھا بیان دلوانے والا گیٹ کے اندر بنی خانقاہ کا مجاور تھا۔ جو تھا تو باوردی 

مگر وردی نہیں پہنتا تھا

موجودہ دور میں گیٹ نمبر 4 والی خانقاہ اجڑ چکی ۔ مجاور آٹھ گیا۔ گیٹ کیپر وہی گاڑی داخل ہونے دیتا ہے جس کی منطوری  اندر سے ہو چکی ہو 

شیخ صاحب نے اڈیالہ جیل کے باہر سڑک پر کھڑے ہو کر فرمایا ہے  "قبر ایک اور مردے تین ہیں

اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوے فرانس میں بس جانے والے ایک پرانے سیاسی کارکن کا تبصرہ ہے

وہ بیان دلوایا گیا تھا ، یہ بیان دیا گیا ہے ، اس بیان کے ہیچھے وردی کی طاقت تھی اس بیان کے پیچھے بے فیض مرشد ہے

میاں محمد بخش نے کہا تھا 

نیچاں دی آشنائی کولوں فیض کسے نہ پایا
کیکر تے انگور چڑھایا تے ہر دانہ زخمایا

کوئی تبصرے نہیں: