منگل، 25 دسمبر، 2018

سیاسی بھنڈی


جب دارلخلافہ کراچی سے اسلام آباد منتقل ہو رہا تھا تو اسلام آباد میں کہا جاتا تھا ۔ شہر بستے بستے بستا ہے۔ ہماری سمجھ میں یہ آیا تھا کہ شہر بسانے کے لیے جو انفرا سٹرکچر اور باسیوں کے رہنے کے لیے کو مکانات درکار ہوتے ہیں ، ان کو مکمل ہونے میں وقت لگتا ہے۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے اس محنتی قوم نے اسلام آباد کو بسا لیا۔پاکستان کی بہترین شاہرائیں اور عمدہ عمارتیں تیار ہو گئیں اور نفیس سرکاری ملازمین اس شہر کی رونق ہو چکے۔البتہ ترقی کا عمل جاری و ساری ہے میٹرو کی شکل میں بین الاقوامی معیار کے ذرائع آمد رفت مہیا ہو گئے ۔ ہوائی اڈہ چھوٹا پڑ گیا تو کھلے مقام پر وسیع اور جدید سہولیات سے آراستہ ہوائی اڈہ آپریشنل ہو گیا۔ سر سبز اسلام آباد میں مزید شجر کاری کر کے مزید شاداب بنا دیا گیا۔ تاریخ بیان کرتی یادگار بھی عوام نے دیکھ لی۔ بچوں کے لیے رنگ برنگے چڑیا گھر تو باسیوں کے لیے باغات اور پارک بھی موجود ہیں۔ دوکانیں ائر کنڈیشنڈ اور آسائش زندگی سے بھری ہوئی ہیں۔ اس شہر کے بارے جو خواب بنانے والوں نے دیکھا تھا شہری اس کی تعبیر پا رہے ہیں۔ اس شہر میں ایسی کشش ہے کہ اندرون اور بیرون ملک سے لوگ آ کر یہاں بس گئے ہیں۔ اس شہر کو دیکھنے باہر سے آیا ہوا شخص سار ا شہر گھوم کر ہوٹل کی بالکونی میں پڑا انگریزی کا اخبار پڑھ کر فرحت سی محسوس کرتا ہے۔ اس شہر میں زیادہ لوگ اردو کا اخبار پڑہتے ہیں ۔کچھ لوگ شام کا اخبار شوق سے پڑہتے ہیں۔اردو کے اخبار سے پتا چلتا ہے کہ اس شہر میں ایک صنعتی علاقہ بھی ہے جس میں کام کرنے والے مہینوں اپنی تنخواہ کا انتظار کرتے ہیں۔ ایک سبزی منڈی بھی ہے جہان سنگل دیہاڑی سولہ گھنٹے کی ہوتی ہے۔ ان پر شکوہ رہائشی عمارتوں میں گھریلو ملازمین بھی بستے ہیں۔ جو چوبیس گھنٹے کے ملازم ہوتے ہیں۔ ہر سیکٹر میں ایک تھانہ بھی پایا جاتا ہے، جس میں حوالات بھی ہوتی ہے اورحوالاتیون کی کہانیاں دل چیرتی ہیں۔ ایک ڈی چوک بھی ہے جہاں ہر قسم کی زبان درازی ، اظہار رائے کے نام پر کی جاتی ہے۔شام کے اردو اخبار کے قارئین کی دنیا اسلام آباد میں ہونے کے باوجود وکھری ہی ہے۔ اس وکھری دنیا میں بھی سبزی منڈی کا اپنا ہی حسن ہے۔ یہاں دیر کا عبدالخبیر ، خیر پور کا محمد اسلم، مظفر گڑھ کا کرم الہی، نواب شاہ سے آیا مکھوبھی ہے۔ یہاں آپ پاکستان کی کوئی بھی زبان بولیںآپ کو بات کرنے والا لازمی مل جائے گا۔ منڈی میں زندگی ظہر کے بعد انگڑائی لیتی ہے۔ رات کو دن ہوتا ہے اور سورج سوا نیزے پر آ جائے تو مزدور کی دیہاڑی پوری ہوتی ہے۔ ان کے پاس گرمیوں میں ایک چادر اور سردیوں میں ایک رضائی ہوتی ہے۔ ان کی زندگی کی ضرورت دیہاڑی اور مجبوری نیند ہوتی ہے۔ یہ کبھی شاہرہ دستور پر چڑھے ہیں نہ قصر صدارت سے انھیں کوئی سروکار ہے۔ وزیر اعظم ہاوس کو دیکھنے کے متمنی ہیں نہ پارلیمان کو۔ حوالات سے وہ پناہ مانگتے ہیں۔ انصاف سے وہ مایوس ہی نہیں بلکہ دور بھاگتے ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیوں کو وہ حسرت اور نفرت سے نہیں دیکھتے اونچی عمارتوں سے انھیں کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ 

سبزی منڈی میں پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ مزدوری کے لیے آنے کا نام بدل دیا جاتا ہے ۔بوڑھا معراج دین ْ باباماجھا ْ ۔ محمد اسلم ، اسلو ۔ جاوید خان ، جیدا کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ یہان عزت صرف گاہک پاتا ہے اور صاحب کہہ کر پکارا جاتا ہے ۔ گاہک کے علاوہ بھی بہت لوگ یہاں آتے ہیں ، نام ان کے بھی بدل جاتے ہیں ۔ جیسے ڈنڈا، مکھی ، بجلی ، شرمن ٹینک ۔۔۔
یہاں اخبارات شام ہی کے مقبول ہیں ، ایک پڑہتا ہے ، سننے والے سر دھنتے ہیں ۔ سیاسی بیانات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی البتہ بیان بازوں کے نام انھوں نے اپنے ہی رکھے ہوئے ہیں ۔ کوئی ٹماٹر ہے تو کوئی بینگن، کسی کانام کریلا رکھا ہوا ہے تو کسی کا آلو۔ میں نے پہلی بار سنا کوئی بھنڈی بھی ہے ۔ ذہن پر بہت زور دیا۔ آخر پوچھ ہی بیٹھا،یہ بھنڈی کون ہے ؟ ْ نئے سیزن کی تازہ پیداوار ہے ْ سمجھ نہ پایا ۔ اچھا اتنا ہی بتا دو مذکر ہے کہ مونث ۔۔۔ ْ مذکر اور مونث کا تو پتہ نہیں لیکن ہے لیس دارْ 

جمعرات، 20 دسمبر، 2018

لندن کا مہاجر


سال 1979سے قبل مسلمانوں کا یہ بیانیہ بہت مضبوط تھاکہ اسلام مسلمانوں کے علم و عمل اور سیرت وکردار کے بل بوتے پرپھیلا۔ اولین دور میں جب مکہ فتح ہوا تو دینا نے دیکھا کہ فاتح لشکر کی تلواریں نیاموں میں ہیں اور اعلان کرنے والے اعلان کر رہے ہیں کہ بچوں اور عورتوں کو امان ہے ۔ غیر مسلح شہریوں کو امان ہے۔ اپنے اپنے علاقے کے سرداروں کے گھروں میں پناہ گزین ہو جانے والوں کو امان ہے۔ بات آگے بڑھی ، طاقت زیادہ ہو گئی تو اعلان ہوا ، جو علاقہ فتح ہو گا وہاں درخت اور فصلیں کو گزند نہ پہنچنے گا۔ طاقت مزید بڑہی تو غیروں نے آ کر دعوت دی کہ ہم اپنوں سے بیزار ہیں تشریف لائیے اور ہمارے حکمران بن جائیے۔ بات مزید آگے بڑہی تو متکلم نے دوسرے معاشروں میں جا کر اسلام کی دعوت پیش کرتے اور جماعتوں کی صورت میں جاہلوں کو اسلام کے مہذب معاشرے میں شامل کرتے ۔ بات اور آگے بڑہی ۔ اہل علوم نے کتابیں تصنیف کیں لوگوں نے اس کتابوں کے دوسری زبانوں مین تراجم کیے۔ انجان اور دور دراز علاقوں کے با صلاحیت نوجوان ان ترجم کو پڑہتے اور ان کی زندگی بدل جاتی۔ سال 1915 میں لندن کے ایک زمیندار مسیحی گھرانے میں
 John Gilbert Lennard
 کے نام سے پرورش پانے والے ایک نوجوان نے حضرت علی بن عثمان ہجویریؓ کی کتاب ْ کشف المجوب ْ کا انگریزی میں ترجمہ پڑہنا شروع کیا ۔ نوجوان جوں جوں ترجمہ پڑہتا گیا اس کا من روشن ہوتا گیا۔ جب کتاب مکمل پڑھ چکا تو اس نے خود جا کر اس معاشرے کا مطالعہ کرنے کی ٹھانی جس معاشرے کے باسی نے یہ کتاب لکھی تھی۔ وہ حیدر آباد میں حضرت سید محمد ذوقی شاہؓ کی خانقاہ میں پہنچا تو شاہ جی نے اس کو اپنا مرید بنا کر اس کا نام شہیداللہ رکھا ۔ جو بعد میں شہید اللہ فریدی کے نام سے معروف ہوا۔ سید محمد ذوقی شاہ کے پاس پہنچ کر شہید اللہ کو ادراک ہو ا کہ یہ طرز ندگی اس کی پڑہی ہو ئی کتاب کی عملی تجربہ گاہ ہے۔ 
کہا جاتا ہے کہ جس عمل پر انسان کا وقت، مال اور محنت صرف ہو ، اس انسان کے لیے وہ عمل قیمتی بن جاتا ہے۔ اہل تصوف کے آستانوں میں نوجوانوں سے وقت کا مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ کچھ وقت اپنے پیر و مرشد کے آستانے پر گذاریں۔ عام تجربہ ہے کہ جو مرید مہینہ میں ایک بار اپنے پیر کے آستانے پر حاضری دیتا ہے اس کی نسبت وہ سالک جلد ترقی کی منزلین طے کرتا ہے جو ہر ہفتے اپنی حاضری یقینی بناتا ہے۔ اس سے تیز رفتار ترقی اس کی ہوتی ہے جو روزانہ اپنے پیر کے آستانے پر حاضر ہوتا ہے۔ شہیداللہ تو دن رات سید ذوقی شاہ کی صحبت میں تھا۔مطالعہ انسان کے ذہن کے بند دریچوں کو وا کرتا ہے تو عملی تربیت قلب و ذہن میں پیدا ہونے والی تحریک کو عمل میں ڈہالتی ہے۔ شہید اللہ کے خیالات اپنے مرشد کی زیر نگرانی بہت جلدی اعمال میں ڈہلنا شروع ہو گئے۔ ہوا یہ کہ جو منازل علم و عمل برسوں میں طے کراتا ہے وہ ساری منازل شہیداللہ کے مرشد نے نظروں میں طے کرا دیں۔ 
اینٹیں بنانے والے بھٹے پر جب مٹی کو گوندھ کر اس سے اینٹیں بنائی جاتی ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے دہوپ میں رکھ دیا جاتا ہے تو اس دوران بارش آ جائے تو اس پر ترپال ڈال کر ان اینٹوں کو بارش سے بچایا جاتا ہے کہ وہ بھیگ کر دوبارہ گارا نہ بن جائیں۔ مگر ان کچی اینٹوں کو جب بھٹے کی آگ میں پکا کر نکالا جاتا ہے تو پھر ان پر ترپال ڈال کرموسموں کے تغیرات سے بچانے کی ضرورت نہیں رہتی۔اہل تصوف کے آستانے کچی اینٹوں کو پکانے کے بھٹے ہوتے ہیں۔سید ذوقی شاہ کے بھٹے میں شہیداللہ فریدی نام کی اینٹ تیار ہو چکی تو انھیں کراچی بھیج دیا گیا۔ ہجرت ایسا عمل ہے جو ہر صوفی کرتا ہے کہ یہ مکہ سے مدینہ ہنتقل ہونے والی ہستی ﷺ کی سنت ہے ۔شہید اللہ نے کراچی میں 30 سال وہی کام کیا جو ہر صوفی کرتا ہے یعنی ْ خدمت خلق ْ ۔ خدمت خلق کی ابتدا محبت ہے تو اس کی انتہا بھی محبت ہی ہے۔ حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی ؒ کا فرمان ہے ْ محبت ایک نشہ ہے جو ہوش ختم کر دیتا ہے ْ ۔ شہید اللہ فریدی نے محبت کے نشے میں ڈوب کر جو کتابیں لکھیں ان میں سب سے مشہور ہونے والی کتاب کا نام : Inner Aspects of Faith ہے۔
اس کے علاوہ ان کی تصانیف کے عنوان یہ ہیں ۔ 
Every day Practice in Islam انگریزی
Vision for Speakers of the Truth انگریزی
Spirtuality in Religion انگریزی
Ciencia Y Creencia اسپانوی
Dagling Praksis ڈینش
Vigleding for Muslims ڈینش
ان کی وفات 1978 میں کراچی میں ہوئی اور کراچی کے قبرستان سخی حسن میں محو استراحت ہیں۔ 


منگل، 18 دسمبر، 2018

اسکندر مرزا کون تھا

اسکندر مرزا
------------                                                                         
مشرقی پاکستان ملک کا سب سے بڑا صوبہ تھا، جس کی آبادی ، مغربی حصے میں شامل چاروں صوبوں کی آبادی سے زیادہ تھی ۔ علیحدگی کے وقت ملک کی آبادی کا 56٪ مشرقی پاکستان میں تھا۔اصل طاقت بیورو کریسی کے پاس تھی ۔ جب 1958 میں جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا اس وقت اسکندر مرزا پاکستان کے صدر تھے۔ اسکندر مرزا آزادی سے قبل انگریز گورنمنٹ کے ڈیفنس سیکریٹری تھے۔ پاکستان میں بھی وہ اس پوسٹ پر قائم رہے ۔ رائل ملٹری کالج سینڈہرسٹ، لندن کے گریجویٹ میجر جنرل اسکندر مرزا کے برطانوی بیوروکریسی اور برطانوی فوج کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ ان کے انڈین پولیٹیکل سروس کے منتخب ہونے میں بھی انگریز کا ان اعتماد شامل تھا ۔وہ اسسٹنٹ کمشنر سے ترقی کرتے ہوئے ملک کے سب سے بڑے عہدے پر پہنچے تھے ۔ ان کو جہاں انگریز کا اعتماد حاصل تھا وہین مقامی سرکاری عہدے داروں میں بھی ان کا اثر و رسوخ تھا اسکندر مرزا کی ایک بیوی ’ناہید‘ ابراہیم مرزا امیر تیموری کلالی کی بیٹی تھی اور ناہید کی ماں ایرانی حکمراں رضا شاہ پہلوی کی بھتیجی تھی۔ اس کے بیٹے ہمایوں مرزا کی شادی اُس وقت کے امریکی سفیر کی بیٹی سے ہوئی تھی۔کراچی مین امریکہ سفارت خانہ ان دنوں سیاسی جوڑ توڑ اور علاقائی سفارتی اور سیاسی سرگمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ایران کے شہنشاہ علاقے میں مغربی طاقتوں کے سب سے بڑے حلیف ہوا کرتے تھے۔لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جب بنگال سے تعلق رکھنے والے خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم بنے تو سکندرمرزا کو پاکستان کا گورنر جنرل بنا دیا گیا۔پھر اس عہرے کو صدر سے بدل دیا گیا۔ حتمی اختیارات صدر ہی کے پاس ہوا کرتے تھے ۔اسکندر مرزا کا خیال تھا کہ اب وہ ساری عمر صدر کے عہدے پر فائز رہیں گے۔انھوں نے جوڑ توڑ اور سیاسی عہدوں کو اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔ ملک کے اکثریتی صوبے کے سیاسی رہنماوں کو اس نے مہرے سمجھا ۔ بنگالیوں سے حسین شہید سہروردی کی برطرفی ہضم نہ ہو سکی ۔ بنگالیوں کے ذہنوں میں شکوک پیدا کر دیے گئے اور مغربی پاکستان کے لوگوں کے خلاف کے خلاف ایسے بیج بوئے جو وقت کے ساتھ ساتھ نفرت مین تبدیل ہو گئے۔مشرقی پاکستان میں کہیں بھی جاگیر داری نہ تھی ۔ بنگالی غریب اور نڈر تھے ۔ وڈیرہ شاہی انھیں مرعوب نہ کر سکی۔ مغربی پاکستان میں مجیب کو منشی کا بیٹا کہا جاتا تھا تو مشرقی پاکستان میں اس بات پر ناز کیا جاتا تھا کہ ان کا لیڈر ان ہی مین سے ہے۔بنگال کے بارے میں قائد اعظم نے ایک بار کہا تھا کہ وہ خود اپنی ذات میں ایک بر اعظم ہے۔ مگر قائد جیسا رہنمااب پاکستان میں کوئی بھی نہ تھا۔ قائد نے تو اپنا تن ، من دھن سب کچھ ہی اپنی قوم پر نچھاور کر دیا تھا۔ بنگالیوں میں سیاسی ادراک علاقے کے دوسروے لوگوں سے بڑھ کر تھا۔ یہی سبب تھا جب قائد نے ڈھاکہ میں اعلان کیا کہ بنگلہ اور اردو کی بجائے صرف اردو پاکستان کی زبان ہو گئی تو بھی قائد اعظم زندہ باد ہی کا نعرہ بلند ہوا تھا۔ قائد اعظم کے بعد 1971 تک جو بھی آیا حکمران ہی بن کر آیا۔ عوام رہنما اور حکمران کے فرق کو خوب سمجھتی ہے ۔ اسکندر مرزا اول دن سےحکمران تھا۔ اس کو دھکا دے کر اس کی کرسی پر براجمان ہونے والا ایوب خان بھی حکمران تھا۔عوام کو نظر آتا تھاسہروردی نے پاکستان اٹامک کمیشن کی بنیاد رکھی ۔ عوام جانتے تھے چین کا پہلا دورہ کس نے اور کیون کیا ہے۔عوام کو نظر آتا تھا کہ وقت کے جبر کےہاتھوں معتوب ہو کر جیل جانے والا کون ہے اور کرسی چھن جانے پر لندن چلے جانے والا کون ہے۔ اسکندر مرزا اور سہروردی مین فرق عوام کو نظر آتا تھا۔اسکندر مرزاکا وارث جنرل ایوب بنا تو عوام نے سہروردی کا وارث مجیب الرحمن کو بنا لیا۔
سال 1958 میں جنرل ایوب نے اسکندر مرزا کی کرسی پر قبضہ کر لیا تو اسکندر مرزا کو احساس ہوا کہ اس سے بنیادی غلطی یہ ہو گئی ہے کہ بیورو کریٹ ہمیشہ طاقت ور سے بنا کر رکھتا ہے ۔یہ اصول نواب سراج الدولہ کے بیورو کریٹ میر جعفر کو تو یاد تھا مگر اس کے ہونہار پڑپوتے کو یاد نہ رہا۔البتہ انگریز کو داد دینی پڑے گی کہ اس نے میر جعفر کے احسان کو یاد رکھا ہوا تھا اور جب اسکندر مرزا لندن پہنچا تو اس کی رہائش کے سارے اخراجات تا عمرانگریز نے برداشت کیے ۔ 1969میں اس کی موت پر ایران کے شہنشاہ نے برطانیہ کے کہنے پر اسکندر مرزا کی میت خصوصی طیارے سے لندن سے تہران منگائی اور تہران میں سرکاری اعزاز ک ساتھ دفن کیا۔ تہران میں اس قبر کو اس وقت سے سرکاری تحفظ حاصل ہےجب سے اس کو اکھاڑنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ اسکندر مرزا کے ہاتھون معتوب ہونے والے سید حسین شہید سہروردی کی قبر پر اج بھی بنگالی ہی نہیں پاکستانی بھی پھول چڑھاتے ہیں۔ 

پیر، 17 دسمبر، 2018

ڈھاکہ سے ڈھاکہ تک ۔۔۔ 4



ڈھاکہ ہائی کورٹ کے احاطے میں ایک مقبرہ ہے جس میں پاکستان سے جڑی تین شخصیات کی قبریں ہیں ایک مولوی فصل الحق دوسرے خواجہ ناظم الدین الدین اور تیسرے حسین شہید سہروردی جن کی موت بیروت میں جلا وطنی میں ہوئی تھی ۔ ان کے فوت ہونے کے بعد ان کا جسد خاکی کراچی لایا گیا 21 توپوں کی سلامی دی گئی پاکستان کا پرچم سر نگوں کر دیا گیا اور پھر ان کی میّت کو ڈھاکہ لے جایا گیا جہاں لاکھوں سوگواروں کی موجودگی میں انہیں ڈھاکہ ہائی کورٹ کے صحن میں دفن کر دیا گیا
مشرقی پاکستان کے دورے کے دوران 1968 میں ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ان کے خیال میں سہروردی کے منہ پر تکیہ رکھ کر دبا دیا گیا تھا یہاں تک کہ ان کا سانس رُک گیا اور وہ فوت ہو گئے
حسین شہید سہروردی قیام پاکستان سے قبل ہی سیاست میں ایک نمایاں مقام حاصل کرچکے تھے۔
1918 میں لندن کے "گریز ان" سے تعلیم مکمل کر بنگال لوٹ کر آنے والے سہروردی نے 1946 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد آزاد اراکان کو ساتھ ملا کر کامیابی پلیٹ میں رکھ کر قائد اعظم کو پیش کی تھی۔ وہ جناح صاحب کی توقعات پر پورا اترے۔قائد نے انھیں بنگال کاوزیراعلیٰ نامزد کردیاتھا۔ قائد اعظم کے ہاتھ میں حسین شہید سہروردی کی شبانہ روز محنت سے حاصل کی گئی وہ مسلم لیگی حکومت تھی جس نے کانگریس کو ملک کی تقسیم پر مجبور کر دیا تھا
ان کے بارے میں ایک کالم نگار نے لکھا تھا حسین شہید سہروردی ہماری تاریخ کا وہ ہیرو ہے جسے شاید ہم نے بنگالی ہونے کی بناء پر وہ مقام عطا نہیں کیا جس کے وہ حقدار تھے۔قابلیت وہ ہوتی ہے جس کا مخالفین بھی اعتراف کریں گاندھی کے الفاظ ہیں کہ جناح صاحب ایک حقیقی اسٹیٹس مین، لیاقت علی خان ایک سیاست دان اور سہروردی ایک لیڈر ہے
لاہور میں کچھ صحافیوں کے ساتھ بات چیت کے دوارن ایک صحافی نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کے ساتھ ہونے زیادتیوں کے حوالے سے سہروردی صاحب سے پوچھا کہ بابا! مشرقی اور مغربی پاکستان کو کونسی طاقت متحد رکھے ہوئے ہے؟ تو انہوں نے برجستہ جواب دیا کہ تین طاقتیں ہیں ً انگریزی زبان ً ً پی آئی اے ً اور ًحسین شہید سہروردی ً
وہ پاکستان کی وحدت کے سخت حامی تھےصدر ایوب خاں کو اپنی معذولی کے بعد ایک خط لکھا جس میں یہ بھی کہا کہ مشرقی پاکستان الگ ہو کر زندہ نہیں رہ سکتا۔ وہ ایک بھارتی پولیس ایکشن کی مار ہےان کی خواہش تھی کہ ان کی اندگی میںمشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان ایک constitutional settlement ہو جائے،
انھوں نے جنرل ایوب کو کہلوایا تھا "میں ایوب خاں کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ میں پاکستان میں نہ رہوں تو اس کے بعد جب تک ایوب خاں صدر ہوں میں ملک سے باہر چلے جانے کے لیے بھی تیار ہوں‘
ورنہ میرے بعد کوئی ایسی شخصیت نہیں ہو گی جو یہ خدمت انجام دے سکے۔
جنرل ایوب نہیں چاہتے تھے کہ سہروردی پاکستان میں رہیں ۔

گوادر اج جو ترقی کی امید کا محور ہے۔ اس کے حصول کی ابتدا قائد ملت لیاقت علی خان کے دور میں ہو چکی تھی ۔ سہروردی نے اپنے دور میں اس کو آگے بڑہایا اور فیروز خان نون کے دور میں پاکستان اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔

امریکہ نواز خارجہ پالیسی تو انہیں ورثے میں ملی تھی مگر بھارت اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے دوستانہ تعلقات کو وہ پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ سمجھتے تھے کیونکہ بھارت سے کسی بھی چپقلش کی صورت میں انہیں امریکہ سے کسی قسم کی امداد کی امید نہیں تھی جبکہ اپنے معاہدوں کے مطابق روس بھارت کے ساتھ کھڑا تھا اس لئے اس وقت انہوں نے دیانتداری سے محسو س کیا تھا کہ پاکستان کیلئے اب چین سے دوستانہ تعلقات پیدا کرنا ہماری علاقائی اور دفاعی ضرورت بن گیا ہے
میں جنرل یحییٰ خان کے زمانے میں امریکی صدر نکسن پہلی مرتبہ 1969 پاکستان سے پی آئی اے کی پرواز پر چین گئے تھے. جس کے بعد چین امریکہ تعلقات کا دور شروع ہوا تھا۔
سہروردی وزیراعظم کے عہدے پر متمکن ہوئےتو انہوں نے عہد کیا کہ وہ توانائی کا بحران دور کریں گے اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان معاشی تفاوت کا خاتمہ کریں گے۔ انہوںنے پاکستانی فوج کی تنظیم نو کابھی عہد کیا۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے انہوں نے سب سے پہلے امریکہ کے ساتھ ایسی شراکت داری کی بنیاد رکھی جس کے تحت ایک خاص مقصد اور مفاد( ایٹمی توانائی ) کو حاصل کیا جانا تھا۔ایوب خان نے یہ کہہ کر اس منصوبے کو ترک کر دیا تھا کہ ہم غریب قوم ہیں ۔ ان اخراجات کے متحمل نہیں ہو سکتے

جنرل ایوب خان نے مارشل لالگانے کے بعد سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات لگائے اور عدالت نے یاستدانوں کو نااہل فرار دے دیا۔ سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی پر بھی کرپشن کا کیس بنا۔ جو ایک فوجی عدالت میں چلا ۔ اس کیس کی روداد منیر احمد منیر نے لکھی ہے “ گیارہ برس قبل قائداعظمؒ کی عظیم الشان قیادت میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی اور اُس طرح پانچویں بڑی مملکت قائم کر دکھائی تھی۔ تقریباً یہ تمام سیاستدان 8 برس کے لیے نااہل قرار پائے۔ مارشل لا والوں کی باریک بینی اور تو کچھ نہ ڈھونڈ سکی، چاولوں کے ایک پرمٹ کو سامنے لے آئی‘ کہ جب سہرودیؒ وزیر اعظم تھے، انہوں نے اپنے اختیارات کے غلط استعمال میں ایک شخص سیٹھ نور علی کو چاولوں کا پرمٹ دیا تھا۔ پنجاب اسمبلی میں ملٹری کورٹ کے سامنے یہ مقدمہ چلا۔ سہروردی صاحبؒ نے اپنے بیان صفائی میں کہا ''میں وزیر اعظم تھا۔ میں نے یہ پرمٹ جاری کیا۔ میں سیٹھ نور علی کو جانتا تک نہیں۔ مجھے اس کے لیے سفارش دو افراد نے کی تھی۔ ایک تو اس وقت ملک بدر ہے۔ دوسرا یہیں ہے۔ جو ملک سے جا چکا، اس کا نام ہے سکندر مرزا۔ اس نے بہ حیثیت صدرِ پاکستان مجھ سے اس پرمٹ کے لیے سفارش کی‘ لیکن سیٹھ نور علی کا دوسرا سفارشی یہیں ہے۔ وہ اس وقت کمانڈر انچیف تھا۔ اس کا نام ہے، جنرل محمد ایوب خاں‘‘۔ صدر پاکستان اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خاں کے بارے میں سہروردی صاحبؒ کے اس اظہار پر عدالت ہُو کے عالم میں آ گئی۔ عدالت کو پریزائیڈ ایک کرنل کر رہا تھا۔ جنرل ایوب خاں کے حوالے سے کرنل نے سہروردی صاحبؒ سے پوچھا: ''کیا انہوں نے آپ کو اس کا حکم دیا تھا؟‘‘ اس استفسار پر سہروردی صاحبؒ طیش میں آ کر گرجے: ''وہ کیسے مجھے حکم دے سکتا تھا۔ میں وزیر دفاع اور وزیر اعظم تھا۔ اس نے عاجزی کے ساتھ مجھ سے request کی تھی‘‘

بیرسٹر ظہور بٹ لندن۔ جو سہروردی کے بہت قریب تھےنے لکھا ہے
جنرل ایوب خان ایک عرصہ دراز تک اقتدار میں رہنا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے
( Elective Bodies Disqualification Odrinnance 1960)
کے نام سے مارشل لاء کا ایک ضابطہ جاری کیا جسے ایبڈو (EBDO)بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد ایسے تمام سیاستدانوں کو ناہل قرار دلوانا تھا جو جنرل ایوب خان کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کر سکتے تھے اس مقصد کیلئے ایک ٹریبونل بنایا گیا جس کے چیئر مین جسٹس اے آر چنگیز تھے جو پنجاب ہائی کورٹ کے جج بھی تھے دوسرے دو ممبروں میں ایک فوجی کرنل محمد اکرم تھے اور دوسرے ایک سینئر بیوروکریٹ۔
ٹریبونل میں پیش ہو کر سہروردی صاحبؒ کہا ’’میں نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں لگائے جانیوالے بد عنوانیوں کے ان الزامات کو نفرت اور حقارت کیساتھ پڑھا ہے کیونکہ یہ سب جھوٹے اور من گھڑت ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ تمام دنیا جانتی ہے کہ کلکتہ میں وہ کتنی بڑی جائیداد کے مالک تھے جس کے عوض وہ بھی پاکستان میں متروکہ املاک پر قبضہ کرکے حقوق ملکیت حاصل کر سکتے تھے مگر انکی غیرت نے ایسا کرناگوارا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی پورے پاکستان میں ان کا کوئی ذاتی گھر نہیں ہے ڈھاکہ میں وہ اپنے دوست اور روزنامہ اتفاق کے مالک مانک میاں کے ہاں ٹھہرتے ہیں۔ کراچی میں اپنی بیٹی بیگم اختر سلیمان کی کوٹھی لکھم ہاؤس میں ہوتے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ اب جا کر کہیں ڈھاکہ میں انہوں نے ایک بیگھہ زمین خریدی ہے جس پر ایک ٹھکیدار مکان تعمیر کر رہا ہے جس کی ادائیگی وہ ماہوار قسطوں میں کر رہے ہیں جس مہینے میں قسط رُک جاتی ہے‘ اس مہینے مکان کی تعمیر بھی رُک جاتی ہے‘بہر حال یہ مکان ان کی موت تک بھی مکمل نہ ہو سکا۔ ’پھر ٹریبونل کے ممبران سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ گدو بیراج اور سکھر بیراج میں ہزاروں ایکڑوں کے حساب سے تقسیم کی جانیوالی زمینیں انہوں نے اپنے نام نہیں لکھوائیں بلکہ جنرل ایوب خان اور انکے دیگر تمام جرنیلوں نے اپنے ناموں پہ لکھوائی ہیں جن میں جنرل اعظم خان سے لیکر جنرل پیرزادہ تک سبھی ملوث ہیں یہ اور بات ہے کہ انکے کرتوتوں کا علم لوگوں کو کئی سالوں بعد ہو گا خود ان جرنیلوں کا اپنا تو یہ حال ہے اور بدعنوانی کے الزامات یہ مجھ پر لگا رہے ہیں۔

کلکتہ کی عدالتوں میں جس وکیل کا نام عزت سے لیا جاتا تھاجب وہ پاکستان کی وزارت عظمی سے برخاست کیا گیا تو 1۔ دیال سنگھ مینشن مال روڈ لاہور پر اپنا دفترپر ان کااپنا وکالت کا دفتر موجود تھا ۔حکومت نے انھیں معاشی طور پر محتاج کرنے کے لیے اپنی سازشوں میں اضافہ کر دیا۔ ملک کی عدالتوں کی بار کونسلوں کو یہ ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ وکیل کی حیثیت سے انھیں رجسٹر نہ کریں۔ منٹگمری کی ایک عدالت نے حسین شہید سہروردی کو وکیل کی حیثیت سے قبول کیا۔“

منیر احمد منیر نے " ان کہی سیاست " میں لکھا ہے کہ اس وقت کے امریکی صدر ۔ امریکہ آئزن ہاور بڈابیر (پشاور) میں مواصلاتی اڈا کھولنا چاہتے تھے۔ وزیر اعظم سہروردی نے شرط رکھی، میں اڈا کھولنے کی اجازت دے دیتا ہوں۔ اس کے عوض میں مجھے کشمیر لے دیں۔جب ان سے برظرفی کے کاغذات پر دستخط کرائے جا رہے تھے تو ان کی آنکھوں مین انسو تھے ۔ کسی نے پوچھا یہ انسو وزارت عظمی کے چھن جانے پر ہیں تو انھوں نے فولادی لہجے میں جواب دیا ۔ مجھے وزارت عظمی کے چھن جانے کا ذرا بھی دکھ نہیں ہے یہ آنسو تو اس لیے ہیں کہ ہم نے کشمیر ہمیشہ کے لیے کھو دیا

کشمیر کے لیے انسو بہاتے ، پاکستان کے اس سابقہ وزیر اعظم کو71 سال کی عمر مین جنوری کی یخ بستہ صبح 5 بجے گرفتار کیا گیا تو ان پر گاندہی سے ہاتھ ملانے کاالزام تھا جو ملک سے سنگیں غداری تھی .ان پر غداری کا مقدمہ چلا چیل بھیجے گئے ۔ مشرقی پاکستان میں ان کی رہائی کے لیے مظاہرے شروع ہونے کے خوف سے ان کو جیل سے نکال کر ملک بدر کر دیا گیا

اردو کالم اور مضامین: پاکستان 1962ء میں ٹوٹ گیا تھا

اردو کالم اور مضامین: پاکستان 1962ء میں ٹوٹ گیا تھا:   کیا آپ یقین کریں گے کہ پاکستان کے ایک وفاقی وزیر قانون نے 1962ء میں اپنی ڈائری میں لکھ دیا تھا کہ پاکستان ٹوٹ گیا ہے؟ جی ہاں! جنرل ایوب...