پیر، 26 نومبر، 2018

تبلیغ

جناب پروفیسرڈاکٹر محمود علی انجم صاحب نے اپنی کتاب ْ نور عرفانْ میں یہ واقعہ تحریر فرمایا ہے کہ ایک بار مسلم لیگ اور کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں کچھ شر پسند عناصر نے ہنگامہ برپا کر دیا، ہر طرف شور شرابہ برپا ہو گیا۔ جلسے میں مسلم لیگ اور کانگریس کے چوٹی کے رہنماء موجود تھے۔رہنماوں نے سامعین کو چپ کرانے کی کوشش کی حتی ٰ کہ نہرو اور گاندہی بھی سامعین کو چپ کرانے میں ناکام رہے۔ جب سب رہنماء ناکام ہو گئے تو قائد اعظم محمد علی جناح سٹیج پر کھڑے ہوئے ، انھوں نے مجمع میں موجود سامعین پر طائرانہ نظر ڈالی اور اپنی شہادت والی انگلی بلند کر کے تحکمانہ لہجے میں بلند آواز سے کہا Silence
مجمع میں ہر طرف خاموشی چھا گئی ۔

مجھے زندگی میں لا تعداد سیاسی رہنماوں، مذہبی مبلغین ، روحانی شخصیات ، سیلز کی دنیا کے ماہرین کو سننے کے مواقع ملے ہیں ان میں چند ہی لوگ ہیں جن کی باتیں اثر انگیز رہیں۔ ایک درگاہ کے باہر بیٹھا ملنگ ، جو سیف الملوک اس محویت سے پڑہا کرتا تھاکہ راہ چلتے لوگ اس کی ٓواز سن کر کھنچے چلے آتے تھے اس کی آواز میں خداد سحر کے ساتھ یہ بھی حقیقت تھی کہ ملنگ میاں محمد بخش کی شخصیت میں کھو کران کی ذات کا تعارف حاصل کر چکا تھا۔
عوام میں ذات کا تعارف شخصیت کا وہ پہلو ہوتا ہے جو انسان کے اعمال کے بل بوتے پر بنتا ہے ۔ سیرت البنی ﷺ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک ماں نے حاضر ہو کر عرض کی کہ میرا بیٹا گڑ کھانے کا رسیا ہے اس کو نصیحت فرما دیں ۔ ارشاد ہوا کل بیٹے کو لانا۔ مان دوسرے دن بیٹے کو لے کر حاضر خدمت ہوئی تو نبی اکرم ﷺ نے اسے گڑ نہ کھانے کی نصیحت کی تو ماں نے عرض کیا یہی بات آپ کل کہہ دیتے تو ارشاد ہوا کل خود میں نے گڑ کھایا ہوا تھا۔
نصیحت وہی کارگر ہوتی ہے جو ناصح کے یقین کا پرتو ہو۔اصل یہ ہے کہ تبلیغ وہی موثر ہوتی ہے جس پر مبلغ خود بھی عمل پیرا ہو۔عمل سے پہلے کے زینے کا نام ارادہ ہے ۔ ارادے کو عمل کی بنیاد اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ارادہ مضبوط ہو گا تب ہی عمل کا روپ دھارے گا۔ارادے سے بھی پہلے خیال نام کا زینہ آتا ہے۔ دل میں پیدا ہونے والا خیال ارادہ تب ہی بنے گاجب اراد پختہ ہو گا۔ارادے کا اظہار زبان کا مرہون منت ہوتا ہے۔ صادق زبان سے نکلے الفاظ کی ہیبت ہوتی ہے جو جلسوں میں شر پسندوں کو مرعوب کرتی ہے۔ صادق و امین زبان سے نکلے الفاظ قلوب کو متاثر کرتے ہیں۔ کسی کی ذات میں کھو جانے کے لیے اس ذات کا ملنگ بننا پڑتا ہے ۔ ناصح کی زبان کی زبان اثر پذیر ہونے کے لیے عمل میں استقامت کی متقاضی رہتی ہے۔ تبلیغ کے لیے مبلغ کو عمل کی سیف میان سے نکال کے رکھنا لازم ہے۔ 
شاعر نے اس حقیقت کو اپنے شعر میں بیان کیا ہے ۔
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے         (علامہ اقبال : جوب شکوہ)

اتوار، 25 نومبر، 2018

ہمارا بیانیہ

ہم ہی اعلی و ارفع ہیں کیلئے تصویری نتیجہ                                     
شجو فرینیا ایک بیماری کا نام ہے جس کا مریض اپنے ذہن میں ایک خیالی دنیا آباد کر لیتا ہے اس مرض کے شکار عام طور پر 15 سے 25 سال کی عمر کے نوجوان ہوتے ہیںیہ بیماری فرد سے جب معاشرے میں سرائت کر جائے تو اس کے اثرات تباہ کن ہوا کرتے ہیں۔
ہٹلر کے جرمنی میں گوئبلز نام کا ایک فرد ہوا کرتا تھاجو عام طور پر ناقابل یقین خبر یا واقعے کو افراد کے ذہن میں ڈالتا اور پھر اس خبر کو اس حد تک اچھالنے کا انتطام کرتا کہ لوگ اس پر گفتگو کرنے پر مجبور ہو جاتے۔ گوئبلز نے جرمنی اور ہٹلر کے بارے میں لوگوں میں ایسی ایسی داستانیں پھیلا رکھی تھیں جو بعد میں جھوٹ ثابت ہوئیں۔البتہ اس عمل کو فن مانا گیا اور سیاست میں اس کا چلن چل نکلا۔اور اس کے شکار ہمیشہ نوجوان ہی رہے۔
پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کے بارے میں، جب وہ انتخابات میں حصہ لے رہے تھے تو عوام کو بڑی شد ومد کے ساتھ یہ  بتایا جاتا تھا کہ یہ شخص بھارتی ایجنسی "را" کا ایجنٹ اور ہندو ہے اور اس کا اصل نام گھنسی رام ہے اور پاکستان کے ایک سرکردہ صحافی کا یہ دعویٰ ریکارڈ پر موجود ہے۔
بھارت کے شہر ممبی میں مشہور زمانہ دہشت گردی کے ایک واقعے میں اجمل قصاب نامی دہشت گرد کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس کے بارے میں بھارت سے ہی یہ خبر چلی تھی کہ اس کا تعلق پاکستانی پنجاب سے ہے اور پھر پاکستان میں اس کا گاوں اور خاندان بھی دریافت ہو گیا مگر اب بھارت ہی سے خبریں آ رہی ہیں کہ ان کا تعلق پاکستان سے نہیں بلکہ بھارت سے ہے۔اس واقعے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ دور میں میڈیا کا کردار لوگوں کی ذہن سازی میں کس قدرموثر ہے۔اس واقعے سے ذہن سازی کے لیے میڈیا کے کردار کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ہمارے وفاقی وزیر اطلاعات نے ٹی وی کے ایک پروگرام جرگہ میں کہا ْ عمران خان کو وزیر اعظم بنانے میں میڈیا کابڑا کردار ہے ْ 
پاکستان میں عمران خان کے وزیر اعظم بننے تک ، ٹی وی کھولتے تھے تو مخصوص وقت کے بعد طویل مدت کے اشتہارات چلا کرتے تھے۔ یہ اشتہار بین الاقوامی کمپنیوں کے مقبول عام برانڈ کے ہوا کرتے تھے ۔ وہ برانڈ اور اشیاء ا ب بھی موجود ہیں، کنزیومر بھی وہی ہیں مگر چند ماہ سے ٹی وی پر اشتہار غائب ہیں۔
ٹی وی کی آمدن کا بڑا ذریعہ اشتہارات ہی ہوا کرتے ہیں۔ ہمارے وزیر اطلاعات کے مطابق ْ ہماری میڈیا انڈسٹری جو 10 بلین روپے کی تھی اس کو35 بلین تک لے جایا گیا ْ پاکستان میں اشتہارات کے پیسے کو سیاست کے رخ کی تبدیلی کے لیے استعمال کیا گیا۔ اور اس حقیقت سے ملک کی سیاسی جماعتیں، الیکشن کمیشن ۔ ریاستی ایجنسیاں اور خود ٹی وی کی انتظامیہ بھی باخبر تھی۔ مگر بہتی گنگا سے استفادہ نہ کرنا کسی کو بھی گوارا نہ ہوا۔عمران خان کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد میڈیا سے پچیس بلین روپے کی یہ آمدن یکایک رک جانے کے بعد ہمارے اکثر میڈیا ہاوس مالی بد حالی کا شکار ہو گئے اور بہت سے نام ور اینکر پرسن اور تجزیہ کار میڈیا سے فارغ کیے جا رہے ہیں۔جس ذہن سازی کے لیے ایک بڑی رقم میڈیا انڈسٹری میں انڈیلی گئی تھی ۔ اپنے مقصد میں کامیابی کے بعد اس سرمایہ کاری کو بند کر دیا گیاتو میڈیا انڈسٹری اپنی اصل اوقات پر آجانے کے بعدحکومت کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی ہے ان آنکھوں میں موجود سوال کو حکومت اچھی طرح سمجھتی ہے مگر ان کو میڈیا مینجمنٹ کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ میڈیا ہاوسز کو زندہ رہنے کے لیے خود کو نا پسندیدہ عناصر سے پاک کرنا ہوگا۔
ایک چاہت حکومت کی ہوتی ہے اور ایک چاہت عوام کی ہوتی ہے، پاکستان میں دونوں چاہتیں متوازی چلتی ہیں۔ البتہ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ دونوں چاہتیں ساتھ ساتھ چلیں۔مگر ایسا بوجہ ہو نہیں پا رہا۔اور اس کے اسباب میں بڑا سبب ہمارے معاشرے میں موجود تقسیم شدہ رجحانات اور سوچ ہیں۔اکہتر سالوں میں جب عوام کو موقع ملتا ہے وہ پارلیمان اور وزیر اعظم لے آتے ہیں۔ جب مقتدر اداروں کو موقع ملتا ہے وہ صدارتی نظام کی بساط کی بچھا کر کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ 
ہماری نوجوان نسل جس کو بتایا گیا ہے ساٹھ کے عشرے میں پاکستان جرمنی کو قرض دیا کرتا تھا۔ پینسٹھ کی جنگ میں لاالہ الااللہ نے ہمیں فتح مبین سے ہمکنار کیا تھا۔ اکہتر میں ادہر ہم اور ادہر تم کے سیاسی نعرے نے ہمیں بے دست و پا کر دیا تھا۔ ورنہ ہم نے تو اقوام متحدہ کے ایوانوں میں قراں پاک کی تلاوت کو سربلند کر دیا تھا۔ ہمارا مقام یہ ہے کہ کعبہ میں نماز کے لیے کھڑے ہوں تو امام کعبہ ہمارے لیے اپنا مصلیٰ چھوڑ دیں۔ روس کو افغانستان میں شکست دینے والے ہم ہی ہیں۔امریکہ کو تگنی کا ناچ ہم ہی نچا رہے ہیں۔ ہم اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہیں وغیرہ وغیرہ
شجو فرینیا ایک بیماری کا نام ہے جس کا مریض اپنے ذہن میں ایک خیالی دنیا آباد کر لیتا ہے اور اپنے ایقان کی آخری حد تک اس کو حقیقت سمجھ بیٹھتا ہے۔ یہ بیماری فرد سے جب معاشرے میں سرائت کر جائے تو اس کے اثرات تباہ کن ہوا کرتے ہیں۔یہ بیماری عوام میں ہوا کرتی تھی مگر اب لگتا ہے حکمران بھی اس کا شکار ہو چکے ہیں۔ 

ہفتہ، 24 نومبر، 2018

اردو کالم اور مضامین: سماع و وجد

اردو کالم اور مضامین: سماع و وجد: پتھر لوہے سے ٹکراتا ہے تو آگ جنم لیتی ہے جو ان میں پہلے ہی سے پوشیدہ تھی ۔ دل میں موجود عشق جب سماع و ذکر سے ٹکراتا ہے تو وجد کی حرارت پ...

سماع و وجد


پتھر لوہے سے ٹکراتا ہے تو آگ جنم لیتی ہے جو ان میں پہلے ہی سے پوشیدہ تھی ۔ دل میں موجود عشق جب سماع و ذکر سے ٹکراتا ہے تو وجد کی حرارت پیدا ہوتی ہے ۔ عشق نبی اور ذکر اللہ کی حرارت آگ کی مانند ہے اور اس کے شعلوں کا نام وجد و حال ہے ۔ جب عاشق حقیقی کے سامنے محبت و دوستی کا ذکرہوتا ہےتو اس کے اندر ذکر کی گرمی اسے لطف دیتی ہے جب جب ذکر بڑہتا ہے شعلہ بلند بوتا جاتا ہے ۔ کیف و سرور جب برداشت سے بڑہ جاتا ہے تو گرمی عشق بصورت وجد ظاہر ہوتی ہے ۔ دودھ کو مخصوص مقدار سے زبادہ حرارت دی جائے تو وہ ابلتا اور چھلکتا ہے ۔ فرمان نبی اکرم ہے کہ برتن سے وہی کچھ ٹپکے گا جو کچھ اس میں ہو گا ۔ عاشق کا عشق جب ابلتا اور چھلکتا ہے تواس کو وجد کا نام دیا جاتا ہے ۔ حضرت سخی سلطان باہو رحمۃ اللہ نے ققنس نام کے ایک پرندے کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ لکڑیاں اکٹھی کر کے اپنا گھر بناتا ہے اور جب اس کا گھر مکمل ہو جاتا ہے تو وہ ان قلعہ نما گھر میں مقید ہو کر بیٹھ جاتا ہے اور ذکر شروع کرتا ہے ۔ اس کے ذکر کی گرمی سے حرارت پیدا ہوتی ہے جو اس کو مست کر دیتی ہے ۔ جوں جوں کیف و مستی میں اضافہ ہوتا ہے توںتوں ذکر کی گرمی بھی بڑہتی ہے ۔ پھر اس حرارت سے آگ پیدا ہوتی ہے جو اس کے قلعے کو جلا دیتی ہے ۔ گھر کے ساتھ یہ خود بھی جل کرراکھ ہو جاتا ہے ۔ اس راکھ پر جب بارش برستی ہے تو اس سے انڑہ پیدا ہوتا ہے پھر اس سے بچہ پیدا ہوتا ہے اور جب بچہ جوان ہو جاتا ہے تو وہ بھی اپنے باپ کی طرح لکڑیاں اکٹھی کرتا ہے اور اسی انجام سے دوچار ہوتا ہے ۔ عاشق لوگ اپنے دل کے ہاتھوں معذور گردانے جاتے ہیں ۔ کبھی غور تو کرو محفل میں کچھ لوگ کیف و مستی کی صراحیاں پی جاتے ہیں اور وہ اپنے صحو کو قائم رکھتے ہیں اور کسی کو ذکر کے چند جام ہی بے خودی میں دھکیل دیتے ہیں ۔ اپنا اپنا ظرف ، مقام اور وقت ہوتا ہے ۔ سالک کا دل کھیت کی مانند ہوتا ہے ۔ کسان بیج کو مٹی میں چھپا دیتا ہے ۔ نظروں سے غائب بیچ کو موافق ماحول میں رطوبت ملتی ہے تو پودا بننا شروع ہو جاتا ہے . جس نے کسی رہنما کی سرپرتی میں راہ سلوک میں قدم رکھ لیا تو بیج اس کے دل میں پیوستہ کر دیا گیا ۔ جب اس بیج کو موافق ماحول میں روحانیت کی رطوبت ملتی ہے تو اس بیج کی بڑہوتی شروع ہو جاتی ہے ۔ 'ا اللہ چنبھے دی بوٹی ' میں صاحب کلام نے اسی حقیقت کو بیان کیا ہے ۔ ادراک و ورود دو مختلف کیفیات ہیں ۔ ایک کا تعلق کتابوں سے ہے جبکہ دوسری کا تعلق صحبت سے ہے ۔ ایک شاعر نے کہا ہے کہ پیالے سے ناپنا ایک ہنر ہے مگر کیف و مستی اور سرور پیالہ پینے کے بعد ملتا ہے ۔ نقل ہے کہ ایک سالک بازار سے گذر رہا تھا کسی نے آواز لگائی ایک کی دس ککڑیآں ۔ سالک پر وجد طاری ہو گیا ۔ لوگوں نے کہا یہ کیسا حال ہے ۔ اس نے کہا جب دس نیک لوگوں کی قیمت ایک ہے تو گناہگار کی قیمت کیا ہو گی ۔ کوہستانی علاقوں میں ساربان اونٹوں پر ثقیل بوجھ لاد کر انھیں 'ھدی' سناتے ہیں تو زیربار اونٹ وجد کی مستی سے بھاگ پڑتے ہیں ۔ صوت داودی وجد ہی تو پیدا کرتی تھی ۔ ذکر سے دل میں قرار اور دماغ پر خفقانی اثرات غالب ہو جانے ہیں  اور جب اضطراب قوت برداشت سے باہر ہو جاتا ہے تو رسم و ادب اٹھ باتا ہے ۔ اس وقت یہ خفقانی حرکات نہ مکر ہوتا ہے نہ اچھل کود بلکہ اضطنرابی کیفیت کا عالم ہوتا ہے اور انتہائی بھاری لمحات ہوتے ہیں ۔ اگر اس کیفیت کی تشریح محال ہے تو اس کا انکار بھی ناممکن ہے ۔ اور حرکات اگر اضطراب کے باعث ہیں تو امام غزالی کا سماع کے رقص کے بارے میں یہ قول یاد رکھنا چاہیے ' رقص کا حکم اس کے محرک پر محمول ہے اگر محرک محمرد ہے تو رقص بھی محمود ہے ' اور وجد کا سبب اگر ذکر ہے تو ذکر محمود ہی نہیں سعید پھی ہے ۔ شیخ عبد الرحمن نے اپنی کتاب السماع میں لکھا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہہ سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس تھے کہ حضرت جبریل تشریف لائے اور کہا یا رسول اللہ آپ کو بشارت ہو کہ آپ کی امت کے درویش و فقیر، امیروں کے اعتبار سے پانچ سو برس پیشتر جنت میں داخل ہوں گے ' ۔ یہ خوش خبری سن کر نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم خوش ہو گئے اور فرمایا کوئی ہے جو شعر سناے ۔ ایک بدوی نے کہا ہاں ہے یا رسول اللہ ۔ آپ نے فرمایا آو آو اس نے شعر پڑہے ۔ ' میرے کلیجے پر محبت کے سانپ نے ڈس لیا ہے ، اس کے لیے طبیب ہے نہ کوئی جھاڑ پھونک والا ۔ مگر ہاں وہ محبوب جو مہربانی فرماے ، اس کے پاس ان کا تریاق اور منتر ہے " یہ سن کر نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تواجد فرمایا اور جتنے اصحاب وہاں موجود تھے سب وجد کرنے لگے ۔ یہاں تک کہ آپ کی رداے مبارک دوش مبارک سے گر پڑی ۔ جب اس حال سے فارغ ہوے معاویہ بن ابی سفیان نے کہا ۔ ' کتنی اچھی ہے آپ کی یہ بازی یا رسول اللہ ' آپ نے فرمایا ' دور ہو اے معاویہ وہ شخص کریم نہیں ہے جو دوست کا ذکر سنے اور جھوم نہ اٹھے ' پھر رسول اللہ کی ردا میارک کے چار سو ٹکڑے کر کے حاضرین میں تقسیم کر دیے گے ۔حضرت ابو سعید ابو الخیررحمۃاللہ سے منقول ہے کہ جب فقیر ہاتھ پر ہاتھ مارتا ہے تو شہوت اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے ۔ جب زمین پر پاوں مارتا ہے تو پاوں سے شہوت نکل جاتی ہے ۔ جب نعرہ مارتا ہے باطن کی شہوت نکل جاتی ہے ۔ روایات میں ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے وعظ کے دوران کسی نے نعرہ مارا ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا ۔ آللہ تعالی نے فرمایا ۔ وہ میری محبت میں نعرہ مارتے ہیں ۔ میری محبت میں روتے چلاتے ہیں اور میرے قرب سے راحت پاتے ہیں ۔ تم ان کو مت جھڑکا کرو۔ جو لوگ مقام و ادب کا خیال رکھنے کی تاکید کرتے ہیں وہ یہ حقیقت کیوں بھول حاتے ہیں کہ جب برتن کو ابالا جائے گا تو اس کا ٹپکنا لازم ہے ۔ جہاں تک بدعت کا تعلق ہے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ نے فرمایا ہے جو عمل سنت کی جگہ لے وہ بدعت ہے ۔ بدعت کا ثمر یہ ہے کہ وہ سنت سے محروم کر دیا جاتا ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ کے بقول نماز تراویح با جماعت کی ابتداء حضرت عمر رضی اللہ عنہہ نے کی ۔ اس سے اہل علم کوئی سنت ٹوٹتی نہیں پاتے ۔ اصحاب رسول ، نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آمد پر کھڑے نہ ہوتے تھے مگر جب حضرت فضل دین کلیامی نے اپنے جنازے کے امام حضرت قبلہ پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ کا کھڑے ہو کر استقبال کیا تھا تو کون سی سنت ٹوٹی تھی ۔ سماع و وجد وہ پر خطر راہ ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ نے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی ۔ مگر سکر کی کیفیت سے انکار ممکن نہیں ہے ۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ مقام قریہ بلا ہے اور امان صرف بصیر کے زیر بصارت رہنے ہی میں ممکن ہے ۔

بدھ، 21 نومبر، 2018

تبلیغی جماعت کے امیر


بزرگان دین نے ان مناظر کو زندہ رکھنے کی شعوری کوشش کی ہے جو اسلام کی اصل تصویر پیش کرتے ہیں۔ ان مناطر میں بنیادی اور اہم ترین منظر تنظیم کو قائم رکھنا ہے۔ یہ عمل جس قدر اہم ہے اسی بقدر فراست و ایثار کا متقاضی ہے۔ اسلام کی بنیادی تعلیم میں شامل ہے کہ کائنات کا خالق ہی اس کا مالک و مختار ہے۔ سیاسی طور پر کہا جاتا ہے کہ اقتدار اعلیٰ اسی کا حق و ملکیت ہے۔ اس کے اس حق کو انسان اسی کانمائندہ بن کراستعمال کرتا ہے۔ یہ اتنا بڑا کام ہے جو کہ سرانجام دینا نبی کے بعد کسی اکیلے انسان کے بس کا کام نہیں ہے۔ اس کے لیے زمین پر اللہ کا ظل اللہ یا نائب یا خلیفہ یا امیر یا بادشاہ یا صدر یا جو بھی لقب اختیار کر لیا جائے ۔ عوام میں سے چنا جاتا ہے ۔ ایک جماعت شوریٰ کی شکل میں اس کو مدد و نصرت مہیا کرتی ہے۔ اور شوریٰ کے سربراہ کا کیا ہوا فیصلہ قابل تعمیل ہوتا ہے۔اسلامی تاریخ میں سیاسی اتحا د کے بکھر جانے کے بعد بھی علماء اسلام نے اس منظر کو اپنے طور پر اپنی بساط کے مطابق زندہ رکھنے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔ 
18 
نومبر 2018 کو مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم تبلیغی جماعت کے امیر حاجی محمد عبدالوہاب ؒ کی رحلت کے بعد نئے امیر کے چناو کے موقع پر نوجوان نسل کووہ عمل دیکھنے کا موقع ملا جو تنظیم کو قائم رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے یعنی مجلس شوریٰ کے نئے امیر کا انتخاب۔
تبلیغی جماعت کا شعار دائرہ اسلام سے باہر لوگوں کو دائرہ اسلام میں لانا اور دائرۃ اسلام کے اندر مسلمانوں کو بہتر مسلمان بنانا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جس فرد کی قربانی اور ایثار سب سے بڑھ کر ہو تا ہے اسی کو امیر منتخب کیا جاتا ہے۔ تعلیم و تصنیف، خاندان و معاشرتی وجاہت ، زہد و عبادت ، بدنی طاقت و ایمانی قوت کے اعتراف کے باوجود میرٹ صرف اور صرف عملی اخلاص ہی بنتا ہے۔اس کے لیے اہل مشورہ کا امیر کے چناو سے بہت عرصہ پہلے ذہن بن چکا ہوتا ہے۔ اور وقت آنے پر اس کا صرف رسمی اعلان ہی کرنا ہوتا ہے۔ 
تبلیغی جماعت کے نئے امیر مولانا نذرالرحمان اطول اللہ عمرہ کے بارے میں شوریٰ اور تبلیغ سے جڑے بزرگوں کا ذہن پہلے ہی بنا ہوا تھاکہ ان کے ایثار کا دوسرا نعم البدل تھا ہی نہیں۔ انھوں نے اپنی ساری زندگی تبلیغ کی نذر کی ۔ ان کی علمی استعداد کے بارے میں یہ ہی کافی ہے کہ وہ مولانا طارق جمیل اور مولانا جمشید جیسی شخصیات کے استاد ہیں۔عام طور پر ذہن میں آتا ہے کہ استاد اس کو کہا جاتا ہے جو مخصوص اوقات میں مخصوص موضوع پر تعلیم دیتا ہے مگر یہ ایسے استاد ہیں جو اپنے شاگردوں کی علمی پیاس بجھانے کے ساتھ ساتھ ان میں روحانی عطش پید ا کر کے اسے سیراب بھی کرتے ہیں۔ خود اپنی ذات کو مثال بنا کر پیش کرتے ہیں۔ باعزت صحافی شہزاد فاروقی نے تبلیغی جماعت کے سابق امیر جناب حاجی عبد الوہاب ؒ کے بارے میں ایک ذاتی مشاہدہ رقم کیا تھاکہ انھوں نے خود حاجی صاحب کو رات کے آخری پہر لوٹا اور جھاڑو ہاتھ میں لیے صفائی کرتے دیکھا تھا۔انسانیت اپنے معراج پر خدمت ہی سے پہنچتی ہے۔ اورخدمت ہی دوسروں کے قلوب کو مغلوب کرتی ہے۔ علم انسان میں دو ہی خصوصیات پیدا کرتا ہے خدمت کا جذبہ یا محسن کی بغاوت، علم نافع وہی ہے جس سے خالق کی مخلوق کو نفع حاصل ہو۔ اور نو منتخب امیر پانچ دہائیوں سے رائے ونڈ میں دینی، تنطیمی، روحانی اور لوگوں کی اجتماعی خدمت کے لیے خود کو وقف کیے ہوئے ہیں۔ ان کی عمر 85 سال سے زائد ہے اور ان کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور رائے ونڈ منتقلی سے قبل وہ راولپنڈی کے تبلییغی مرکز ذکریا مسجد میں خدمات انجام دے چکے ہیں ۔ ان کے صاحبزادے مولانا عبد الرحمن صاحب مسجد ذکریا مسجد کی امامت و خطابت کو فریضہ انھام دے رہے ہیں تو دوسرے صاحبزادے مولانا عثمان صاحب فیصل آباد مرکز کے ذمہ دار ہیں۔ ان کے پوتے بھی رائے ونڈ کے مدرسہ العربیہ میں درس و تدریس ہی میں مصروف ہیں۔ گویا ان کی تین نسلیں دین و انسانیت کی خدمت کر رہی ہیں۔ روحانی طور پر وہ کندیاں والے مولانا خان محمد صاحب کے خلیفہ مجاز ہیں اور ان کے عقیدت مندوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔تبلیغی جماعت میں امیر تکریم کے اعلیٰ ترین منصب پر ہوتے ہیں تو یہ بھی حقیقت ہے اور یہی اس مضمون کا مقصد ہے کہ یہاں فرد کی بجائے اصول و نظریے کی پیروی کی جاتی ہے۔ امیر سے لے کر نووارد تک سب کے پیش نظر ایسی "محنت و کوشش" ہوتی ہے جو تبلیغ کے اہداف کو حاصل کرنے میں معاون و مدد گار ہوں۔ اور ہدف ایک ہی ہے انسان کو بہتر روحانی طرز زندگی کی طرف مائل کرنااور یہ عمل جس قدر اہم ہے اسی بقدر فراست و ایثار کا متقاضی ہے