جمعرات، 8 فروری، 2018

میں خوف زدہ ہوں

میں قرآن پا ک میں اللہ کے احکام پڑھ کر ، کتابوں میں انسانوں کی تاریخ یاد کر کے اور اپنی آنکھوں سے ان 
ہونی کو ہوتا دیکھ کر خوف زدہ ہوں۔

جنگوں اور کھیلوں میں کچھ نعرے ہوتے ہیں ، اور کچھ نشان ہوتے ہیں، ملکوں اور قوموں کے بھی کچھ نعرے ہوتے ہیں اور کچھ نشانات ہوتے ہیں۔ایسا ہی ایک نشان ْ مسجد اقصیٰ ْ ہے ۔ د و نشان اور بھی ہیں جو محمد ﷺ کے پیروکاروں کے نشان ہیں ان کو ہم حرمین شریفین کے نام سے جانتے ہیں اور ایک قابل عزت اور محترم ہستی جناب ملک سلمان بن عبدالعزیز السعود بطور خادمین شریفین ، دنیا بھر کے ایک عرب ستر کروڑ لوگوں کے ایمان و ایقان سے قوت کشید کر کے خود کو صاحب جلال کی مسند پر براجمان فرماتے ہیں۔

مجھے رسول اللہ ﷺ کی نصیحت پہنچی  ہے اورتین مساجد میری عقیدتوں کا محور ہیں، ایک مکہ میں مسجد الحرام جہاں میرے رسول ﷺ کی بعثت ہوئی تھی، دوسری مدینہ المنورہ  میں جہاں میرے نبی ﷺ ے زندگی گزاری او آسودہ استراحت ہیں اور تیسری مسجد اقصی جو القدس میں مرکز عقیدت ہے۔

مکہ اور القدس میں جہاں اور کئی اشتراک ہیں ایک مشترک میرے نبی الامی ﷺ کا سفر اسرہ و معراج ہے ، مکہ سے اسرہ کاسفر شروع ہوتا ہے تو القدس الشریف سے معراج مبارک کی ابتدا ہوتی ہے۔ القدس شریف کی مسجد الاقصیٰ میں وہ مبارک محراب آج بھی اس مقام کی نشاندہی کے لیے موجود ہے جہاں نبی ختم المرسلین ﷺ نے تمام انبیاء و رسل کی امامت فرمائی۔وہ چٹان بھی موجود ہے جس پر میرے ہادی و رہنماء ﷺ کے قدموں کے نشان ہیں ۔اس کھونٹے کا نشان بھی موجود ہے جس کے ساتھ انبیاء اپنی سواری باندہا 
کرتے تھے اور میرے نبی ﷺ نے اپنا براق بھی اسی کھونٹے سے باندہا تھا۔

مجھے اسلام اور مسلمانوں کے ان دشمنوں سے گلہ نہیں بلکہ عداوت ہے جو مسلمانوں کے ایک ایسے دینی نشان کو چھین لینا چاہتے ہیں جس کی دوسرے مذاہب کی عقیدتوں کا مسلمانوں نے ہر دور میں احترام کیا ہے۔ مجھے ان سے بھی گلہ نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ اسلام ایک کینسر ہے جو ایک ارب ستر کروڑ لوگوں کو متاثر کر رہی ہے۔ مجھے گلہ اپنے ان مسلمان صاحبان علم و اقتدار کی اس نصیحت پر ہے کہ یہ مسلمانوں پر حملہ نہیں بلکہ براہ راست اسلام پر حملہ ہے اور اسلام کی حفاظت خود اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے ۔ اور یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ یہ ایسا ہی واقعہ ہے جیسا مکہ میں موجود بیت اللہ کو ابرہہ نامی بد بخت نے نابود کرنا چاہا تو خود اللہ نے آگے بڑھ کر اپنے لشکروں سے اسے نابود کر دیا۔ہمیں تو اپنے اونٹوں سے دلچسپی ہونی چائیے۔ 
انیس نسلیں پہلے میرے جس راجپوت ہندوپڑ دادا نے یہ دین قبول کیا تھا وہ مرنے سے قبل اس دین کے بارے میں موٹی موٹی باتیں ہمیں بتا گیا تھا۔ پھر اگلی نسلوں نے چھوٹی چھوٹی باتیں بھی سیکھ لیں۔ ان موٹی اور چھوٹی باتوں میں بطور یاد ہانی ایک بات عرض ہے اور یہ بات پتہ نہیں چھوٹی ہے کہ بڑی مگر اللہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ ایک قوم کی جگہ دوسری قوم کو لے آئے۔ اللہ کے اس حکم کے بعد میرے دل کی گہرائیوں سے ْ مسلمانوں کے حکمرانوں ْ (حکمران ضرور بہ ضرور
مسلمانوں سے مختلف ہیں )کے لئے دعا نکلتی ہے ، صرف میں ہی نہیں ، میرے محلے کی مسجد کا امام ہی نہیں ،اسلام آباد کی فیصل مسجد کے محترم امام ہی نہیں، مسجد الحرام کے امام بھی اس دعا کے ساتھ ہاتھ پھیلاتے ہیں کہ اے اللہْ مسلمانوں حکمرانوں ْ کواپنی حفظ و ایمان میں رکھ۔ مدینہ المنورہ میں تو میں نے اپنے کانوں سے لوگوں کا گریہ سنا اور اپنی آنکھوں سے امام سمیت نمازیوں کی آنکھوں سے وہ موتے گرتے دیکھے جن کی شہادت کو قبولت بتایا جاتا ہے ۔ شائد ہم گناہ گار بے سہارا عوام نے ہی ْ مسلمان حکمرانوں ْ کو بچایا ہوا ہے مگر ذاتی طور پربخدا میں اپنے ْ ملک کے حکمرانوںْ کے بارے میں فکر مند رہتا ہوں، میں ْ مسلمان ملکوں کے حکمرانوں ْ کے متعلق فکر مند رہتا ہوں،
 میں ْ خادم الحرمین الشریفین ْ کی ذات کے بارے میں کسی متوقع یا غیر متوقع امرربی کے نزول کے بارے میں فکرمند رہتا ہوں کہ اللہ کا ایک واضح حکم ہے، تاریخ کی کتابوں کی شہادت ہے اور میرا ذاتی تجربہ ہے کہ اللہ تعالی جس کا کلام پڑہنے سے پہلے ہم اس کے تین با برکت ناموں اللہ ،الرحمن اور الرحیم پر مشتمل کلمے کو یاد کرتے ہیں اس کی پکڑ بڑی سخت ہے، وہ خوشحال لمحات میں پاوں کے نیچے سے زمین کھینچ لیتا ہے، میں نے زندگی میں کروڑ پتی کو اسلام آباد میں پیرودہائی کے بسوں کے اڈے پر ْ لہور اے لہوراے ْ کی آوازیں لگاتے سنا ہے ۔ میں ملک کے باعزت ترین شخص کو بے آبرو ہونے پر اشک بہاتے دیکھ چکا ہوں، میں ایک باعزت خود دار کو چار سو کلومیٹر کے پیدل سفر پر مجبور ہوتا دیکھ چکا ہوں،میں نے ایک خوشحال اور صاحب عزت شخص کو پرائے دیس میں اس حالت میں دیکھا کہ اس کا پاسپوٹ اور ویزے کی میعاد ختم ہو چکی ہے ، رات گزارنے کے لیے چھت کا انتظام ہے نہ جیب ہی کچھ باقی ہے ۔ میں ایسے واقعات کا شائد ہوں جن کو عقل اور منطق تسلیم ہی نہیں کرتی۔ میں نے یہ معجزہ بھی دیکھا کہ پھٹے جوتے والا اور اس دور میں پیوند لگی صاف اور اجلی قمیض میں ملبوس ایک قلاش جرگے میں داخل ہوتا ہے تو تینوں گاوں کے سارے بچے نوجوان، جوان اور بزرگ اس کے احترام میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور علاقے کا امیر ترین شخص اپنے سر سے شملے والی پگڑی اتار کر اس کے لیے بچھاتا ہے ۔ میں جو کچھ اللہ تعالیٰ کے قرآن میں پڑہتا ہوں ،اپنی کھلی آنکھوں سے اس کی تفسیر کا زمین پر شاہد ہوں۔



میں نے اپنی نوجوانی میں ابن خلدون کو پڑہا تھا مگر اب میں اسکے کلام کی حقیقت پا چکا ہوں کہ ْ اسلام غریبوں کا مذہب ہے ْ بلکہ حقیقت یہ کہ غریب ہی در اصل موجودہ دور کے مسلمان ہیں اور جو مالدار لوگ اسلام پر عمل پیرا ہیں ان کا مقام اولیاء سے بڑھ کر ہے ۔ البتہ میں قرآن پا ک میں اللہ کے احکام پڑھ کر ، کتابوں میں انسانوں کی تاریخ یاد کر کے اور اپنی آنکھوں سے ان ہونی کو ہوتا دیکھ کر خوف زدہ ہوں۔




لیلا کا مجنوں



 مجنوں کا نام ، قیس بن الملوح بن مزاحم بن عدس بن ربیعہ بن جعدہ بن کعب بن ربیعہ بن عامر تھا۔ حضرت پیر علاء الدین صدیقی مرحوم (چانسلر محی الدین اسلامی یونیورسٹی نیاریاں شریف کشمیر)نے ایک بار اپنے درس میں فرمایا تھا کہ مجنوں ، حضرت امام حسن بن علی بن ابو طالب کا رضاعی بھائی تھا۔اور انھوں نے ہی قیس کو مجنوں کہا تھا۔ راویوں اور تاریخ دانوں نے اس کا سال پیدائش اور وفات 
645 - 688
شمار کیا ہے۔
جامع الازہر کے پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم نے لکھا ہے کہ لیلا بنت مہدی بن سعد ، قیس کی رشتے دار تھی۔ وہ انتہائی خوبصورت اور حسین ہونے کے ساتھ ایک شاعرہ بھی تھی ، قیس کی محبت کا دم بھرتی تھی ، اور قیس کے قصیدیوں پر شعروں میں جواب دیتی تھی۔ قیس نے لیلا کے لیے کہا 
ْ وہ ایک چاند ہے جو سرد رات میں آسمان کے وسط میں چمک رہا ہے۔وہ نہائت حسین ہے ، اس کی آنکھیں اس قدر سیاہ ہیں کہ انھیں سرمے کی ضرورت ہی نہیں ْ تو لیلا نے اپنی ایک سہیلی سے پوچھا کیا میں واقعی ایسی ہوں ؟ تو اس کی سہیلی نے کہا ْ وہ جھوٹی تعریف نہیں کرتا، تم ایسی ہی صاحب جمال ہو جیسا کہ قیس کہتا ہےْ 
دونوں کی اس محبت نے قبیلہ میں شہرت پائی تو سب سے پہلے قیس کے والد نے اس رشتے سے انکار کیا کیونکہ قیس کے والد کا اپنے عزیزسے میراث پر جھگڑا تھا۔ قیس نے گھر والوں کی مرضی کے خلاف اپنے چچا سے لیلا کا رشتہ مانگا ، اس نے مہر کے لیے پچاس سرخ اونٹ اور ایک بڑی رقم بھی جمع کر لی تھی مگر لیلہ کے والد نے قبیلہ میں اپنی بدنامی کے ڈر سے اس رشتے سے انکار کر دیا اور لیلا کی شادی طائف کے علاقے کے قبیلہ الثقیف میں ایک نوجوان ورد سے کر کے اسے طائف بجھوا دیا،تو قیس اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا اور صحرا میں دشت نوردی شروع کر دی وہ شام، نجد اور حجاز کے علاقے میں ویرانوں کی خاک چھانتے چھانتے لیلا کے گھر شہر طائف جا پہنچا اور لیلا کے خاوند کے سامنے شعر پڑہے۔ جن کا مطلب یوں ہے
ْ تجھے رب کا واسطہ کیا تو نے صبح ہونے سے پہلے لیلا کو آغوش میں لیایا اس کا منہ چومایا اس کی شبنمی زلفیں تجھ پر نازک پھولوں کی طرح لہراہیں ۔ جیسے کہ خوشبو ہوْ 
ورد نے کہا جب تم نے رب کا واسطہ دے ہی دیا ہے تو میرا جواب ہاں میں ہے ۔ یہ سن کر قیس بے ہوش ہو گیا۔
 قبیلے کے لوگوں نے قیس کے والد کو مشورہ دیا کہ وہ قیس کو مکہ بیت اللہ کی زیارت کے لئے لے جائے اور قیس کو کہے کہ وہ کعبے کے پردے کو پکڑ کر لیلا کو بھول جانے کی دعا کرے۔ قیس کا والد اسے مکہ لے گیا قیس نے کعبے کے پردے کو پکڑ کر دعا کی 
ْ اے اللہ مجھے لیلا اور اس کی قربت عطا فرما ْ قیس کا باپ الملوح اسے واپس لے آیا۔
ادہر لیلا کو قیس کی حالت معلوم ہوئی تو اس کو بخار ہونا شروع ہو گیا۔اور بیماری ہی کی حالت میں فوت ہو گئی۔ کہا جاتا ہے قیس لیلا کی قبر کے گردا گرد ہی رہتا ۔ اس نے قبر کے نزدیک ایک چٹان پر کچھ شعر کنندہ کر دیے تھے۔اس کی موت بھی لیلا کی قبر کے پاس ہی ہوئی تھی کہ اس کے گھر والوں نے اس کی میت لیلا کی قبر کے پاس پتھروں سے اٹھائی تھی۔
Yemen Times 16 October 2014
نے سعودی عرب کی ایک بائیس سالہ ھدیٰ نامی لڑکی کی داستان چھاپی تھی جو ایک یمنی نوجوان عرفات ،جو سعودیہ میں ملازمت کرتا تھا ،کی محبت میں گرفتار ہو گئی تھی ، عرفات کی درخواست پر ھدی ٰ کے والد نے یہ رشتہ نامنظور کر دیاتو محبت کی ماری ھدیٰ سعودیہ سے بھاگ کر یمن جا پہنچی تھی۔ یمن کی سرحدی انتطامیہ نے اسے غیر قانونی طور پر ملک میں داخلے پر جیل میں ڈال دیا تو عرفات نام کے مجنوں نے جیل سے جانے سے انکار کردیا۔
  لیلہ کے والد نے بھی ھدی کے والد کی طرح , اپنی بیٹی کی شادی اس کی مرضی سے کرنے سے انکار کر دیا  تھا ۔ اور یہ واقعہ ساتویں صدی عیسوی کا ہے جو پدری برتری کا تھا مگر اکیسویں صدی میں بھی یہ برتری قائم و دائم ہے ۔ صرف چودہ صدیاں ہی بدلی ہیں 

بدھ، 7 فروری، 2018

گوگل کا لٹکا ہوا منہ


دنیا اگر گلوبل ویلیج ہے تو اس گاوں کے ایک محلے کا نام پاکستان ہے جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اور بعض اوقات سوشل میڈیا پر ایسے دوست بھی موجود ہوتے ہیں جو اس عالمی گاوں کے کسی اور محلے میں رہتے ہیں اور ان کی زبان بھی مختلف ہوتی ہے مگر بھلا ہو ٹیکنالوجی کا کہ ہم دوسری زبان میں لکھی گئی بات کو اپنی پسند کی زبان میں پڑھ یا سن لیتے ہیں۔ ترجمے کا یہ کام مشینی ذہانت انجام دیتی ہے۔ یہ ذہانت ابھی بچپن کے دور سے گذر رہی ہے اس لئے بعض ثقیل الفاظ اور محاوروں پر اس کا منہ لٹک جاتا ہے ۔ مگر ہم اس کا لٹکا ہوا منہ دیکھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں کہ ابھی تاثرات کو ویڈیو میں ڈھالنا باقی ہے مگر یار لوگ ہاتھ دھونا ملتوی کر کے اس مشکل کام کو آسان بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔
ہر کلام بشمول کسی معصوم کا گریہ ، عدالت میں فریاد ، جرنیل کا حکم، عالم کا وعظ یا باپ کی نصیحت ، سب کا مقصد سامع میں کسی عمل کی تحریک کا پیدا کرنا ہوتا ہے۔ دوسرے کو کسی کام سے روکنا بھی دراصل کام کے متضاد کی تحریک ہی پیدا کرنے کا نام ہے۔ 
جب ایک حکمران دوسرے حکمران کو سندیسہ بھیجتا ہے تو لکھے ہوئے خط کے ساتھ ایک خوش کلام و ذی شعور سفیر کو بھی بھیجتا ہے جو اس کو خط پڑھ کر سناتا ہے۔ خط کے الفاظ کے اثرات ہوتے ہیں تو سفیر کی زبان اور اس کے جسم کے اعضاء کی حرکات کے بھی اثرات ہوتے ہیں اور حکمران کے مشیران و مددگار سفیر کی باڈی لینگویج کو بھی نوٹ کر رہے ہوتے ہیں ۔
عزیر و دوست کے خط کو آدہی ملاقات کہا جاتا ہے تو ویڈیوکال بھی اس تشنگی کو دور نہیں کر پاتے جو روبرو ہو کر بات کرنے سے دور ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ْ بے شک ہم نے اسے عربی قرآن اتارا کہ تم سمجھو ْ (سورۃ الیوسف:۲) ۔ بنی اللہ اسماعیل جو مکہ میں بس گئے تھے ان کی زبان عربی تھی تو اللہ تعالیٰ نے جب چاہا کہ ان کی اولادکے لوگوں سے انسانوں کی امامت کا کام لیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لیے عربی میں کتاب اتاری تاکہ وہ لوگ پیغام کو سمجھ سکیں ۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے حکمران قوی کے احکامات کو اپنی زبان مبارک سے پڑھ کر سنایا اور سننے والوں نے ان کے لہجے اور ان کے جسمانی اعمال کو دیکھ کر پرکھا ۔ جب رسول اللہ کی محترم زوجہ صاحبہ سے نبی اکرم ﷺ کے اخلاقات بارے سوال کیا گیا تو انھوں نے سوال کرنے والوں کو جواب دیا تھا کہ کی�آپ قرآن نہیں پڑہتے۔
قران پیغام ہے جو انسانوں کے نام ہے۔ اور انسانوں میں بیٹھ کر قران کا درس دینے والی ہستی بھی مرسل ہے۔
دورنبوت میں ، انسانوں میں سے ہر سطح کے علماء، شعراء ، سرداروں اور معاشرے کی رہنمائی کرنے والے لوگوں نے ان سے ملاقات کی ، ان پر سوالات کیے، اپنے دل کی تسلی کے لیے مطالبات پیش کیے ، اور مطمن ہوئے ۔ ان افراد کا اطمینان اس درجے کا تھا کہ اپنے ایمانی اعتماد کے بل بوتے پر رسول اللہ ﷺ کی معیت میں اولین رہنماء دستے کا حصہ بنے۔ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ سے رو برو ہو کر قران سنا کرتے تھے۔ عظیم ہستی کے روبرو ان کی زبان مبارک سے اپنی بولی میں سن کر سمجھنے ہی کا اعجاز تھا کہ وہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے دست وبازو بنے۔
مشینی ذہانت کے اس دور میں ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرتے ہوئے بعض اوقات ترجمہ کرنے والے سوفٹ ویر کا نتیجہ عجیب منظر پیش کررہا ہوتا ہے ۔جیسے قران پاک جیسے پر حکمت کلام کی بعض عبارتوں کی ترجمانی کے دوران گوگل کا لٹکا ہوا منہ 

منگل، 6 فروری، 2018

سبق


وہ پیدا ہوا تو اس کو سونے کے چمچے سے گھٹی پلائی گئی تھی،اور ماہر ڈاکٹروں کے مشورے پر شہد میں ایسے اجزاء شامل کئے گئے تھے جن کی بدولت وہ اپنی زندگی میں بیماریوں سے محفوظ ہو گیا تھا۔ بیماری سے بچاو کے لیے اس کے والدین نے دنیا کے ماہر ڈاکٹروں کے مشورہ پر عمل کیا تھا۔ بیماری کے علاوہ کسی بھی قسم کا خوف اس بچے کے والدین کو نہ تھا۔ جدہ میں جب یہ پیدا ہوا تو اس کا باپ طلال سعودی عرب کے بادشاہ کا وزیر مالیات تھاوالدہ لبنان کے وزیراعظم اول کی صاحبزادی تھی۔بچے کے دادے کا نام عبدالعزیزالسعود تھا ، جو نجد کا لڑاکا حکمران تھا اور اس نے
45
سال کی عمر میں آرمینیاء سے لائی ہوئی ایک
 12 
سالہ خوبصورت لڑکی سے شادی کر کے اس سے اپنا بیسواں بیٹا طلال پیدا کیا تھا۔بعد میں نجد کا حکمران ، سعودی عرب کا بادشاہ بنا تو سعودی عرب کی زمین نے زر بشکل تیل اگلنا شروع کیا جو قران میں بیان کی گئی پیشن گوئیوں کے عین مطابق تھا ۔
دولت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے دشمن خود پیدا کرتی ہے۔ طلال کی بڑہتی ہوئی دولت نے جب سعودی عرب میں اس کے دشمنوں میں اضافہ کر دیا تو وہ امریکہ منتقل ہو گیا ۔ اس کے پاس اس قدر دولت تھی کہ وہ ہر ْ خواہش ْ خرید سکتا تھا مگر قدرت کا کوڑا اس کے گھر پر برسا ، خاندان ٹوٹ گیا، طلال کی بیوی اپنے ۷ سالہ بیٹے ولید کو لے کر لبنان آ گئی۔
ولید نے امریکہ کی سیراکیوس یونیورسٹی سے ماسٹر کیا تو سعودی عرب کے بادشاہ نے اپنے اس بھتیجے کو
1960 

میں وزیر مالیات بنا لیا۔مگر خاندانی اندرونی رقابتیں رنگین تر ہوئیں تو امریکہ جا کر کاروباری 
سرگرمیوں کا اغاز کیا۔باپ کی بے پناہ دولت میں ایسی برکت تھی کہ وہ مٹی میں ہاتھ ڈالتا تو سونا بن جاتی۔ولید کے بنے سونے میں وقت کے ساتھ ساتھ زبردست اضافہ ہوتا گیا۔جولائی
 2015
میں اس کی معلوم شدہ دولت کا اندازہ فوربز نامی ادارے نے
 32
بلین ڈالر لگایا تھا۔ نامعلوم دولت کا کسی کو کوئی اندازہ نہ تھا ۔ 
4
نومبر
 2017
 میں قدرت کا کوڑا پھر حرکت میں آیا تو یہ سعودی عرب کے نوجوان ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان کے ہاتھ میں تھا۔ ولی عہد نے اس کوڑے سے سیکڑوں ْ سونے کے چمچے ْ سے شہد پی کر دنیا میں آمد گان کوہانکا تو ولید بن طلال کو بھی اس کے ذاتی بوہنگ
 747
سے اتار کر اس ہانکے میں شامل کر لیا۔ تفتیش کامیدان ریاض کا ْ رٹز کارلٹن ہوٹلْ بنا ۔ ایمان کانٹے سے امانت کو ناپا گیا ، کمی کوتائی کو سکہ رائج الوقت سے پورا کر کے اونچی پرواز سے مانوس شہبازوں کو امین ہونے کے سرٹیفیکیٹ کے ساتھ دوبارہ اونچی چوٹیوں پر بسیرا کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔
ریاض کے رٹز انٹرنیشنل ہوٹل میں لگا انصاف کا میلہ اجڑ چکا ہے۔ واقت نے ثابت کیا ہے شہبازوں کو اونچی اڑانوں سے باز رکھنا ممکن نہیں ہے، بلند چوٹیاں امریکہ میں ہیں، اور سکہ رائج الوقت کا نام ڈالر ہے اور ایمان کانٹا کو ْ کوڑے ْ کی طاقت سے ہی برابر رکھا جا سکتا ہے، امانت کا سرٹیفیکیٹ فوربز نامی ادارہ جاری کرتا ہے اور وقت کا حکمران زمین پر ْ ظل الہی ْ ہوتا ہے اور قدرت کا کوڑا ْ قدرت کے سائے ْ کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔خدا کو انسانی آنکھ دینے سے قاصر ہونے کے باوجود خدا کا سایہ اس کے وجود کا یقین دلانے کے لیے کافی ہے ۔ ان کھلی نشانیوں کے بعد بھی منکرین خدا کے ذہن و سوچ پر ماتم کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے۔
ٓالبتہ ایک عربی اخبار کے مطابق ولید بن طلال کی نا معلوم دولت میں
 118
ملین ڈالر کم ہو گئے ہیں اور ْ فوربز ْ کی رپورٹ کے مطابق ولید
 17
 بلین ڈالر ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تر ہیں ۔
ہر کہانی کے آخر میں اخلاقی سبق لکھ دینے کی روائت کو نبھاتے ہوئے عرض ہے کہ ْ سبق سکھایا جاتا ہے ْ 

پیر، 5 فروری، 2018

عورت کی آزادی کا سفر


ہندوستان کے حالات
برصغیر کے علاقے میں اسلام کی آمد سے قبل ْ مہا بھارت ْ کے مطابق عورت اجناس کی طرح ایک جنس شمار ہوتی تھی۔ لوگ جوئے میں اپنی عورتوں اور بیٹیوں اور بہنوں کو داو پر لگاتے تھے۔اور خاندان کے مردوں کی رضامندی سے ایک عورت کے کئی کئی شوہر ہوتے تھے۔بیوہ عورت زندگی کی ہر سہولت سے محروم کر دی جاتی تھی ۔لباس تو کجا اس کے لیے نہانا اور منہ دہونا بھی جرم بنا دیا جاتا تھا۔ جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے وہ بیوگی کی زندگی پر عائد پابندیوں کے تصور سے ہی کانپ جاتی تھا۔ اس کے لئے زندہ آگ میں جل کر ستی ہو جانا زندہ رہنے کی نسبت آسان دکھائی دیتا تھا یہی سبب تھا کہ بیوہ ہونے کے بعد عورت ستی کی رسم کو اپنا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا کرتی تھی۔لڑائی عورتوں پر بہت بڑی مصیبت لاتی تھی ۔ اگر ان کے مرد لڑائی میں ہار جاتے تو مخالف ان کو اپنی رکھیل بنا کر ہر قسم کے حقوق سے محروم کر دیتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ شکست خوردہ سب سے پہلے اپنی عورتوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کر دیا کرتے تھے۔مرد کی بیویوں کی تعداد پر کوئی پابندی نہ تھی۔ امیر لوگوں کی درجنوں اور حکمرانوں کی سیکٹروں بیویاں ہوتی تھیں۔البتہ ان کو تعلیم سے دور رکھنا ایک سماجی فرض تھا۔ آر سی دت کی ْ ہندوستان قدیم ْ کے مطابق عورتوں کو محکوم مانا جاتا تھا اور مرد کی غلام جانا جاتا تھا۔ذات پات میں بٹے معاشرے میں اونچی ذات کے کسی مرد کا نیچ ذات کی کسی عورت کے ساتھ زیادتی کو جرم شمار نہیں کیا جاتا تھا البتہ کسی بدھ مت کی راہبہ کی عصمت دری کی سزا معمولی جرمانہ کافی سمجھی جاتی تھی۔
عربوں کے حالات
عرب میں عورتوں کی باقاعدہ منڈی ہوا کرتی تھی جہاں سے کوئی بھی مرد اپنی پسند کی عورت کو خرید سکتا تھا۔عربی مرد جتنی چاہے شادیاں کر سکتا تھا ۔ اور اگر اس کو مالی آسودگی حاصل ہے تو لونڈی کے نام پر جتنی چاہے عورتیں اپنے حرم میں جمع کر سکتا تھا۔اور اس کے اس عمل کو معاشرتی تحفظ حاصل تھا۔ہمسائیوں کی عورتوں سے جنسی تعلقات رکھنے پر مرد کو مورد الزام نہ ٹھہرایا جاتا مگر عورت اسی ہی کی زوجیت میں دے دیا جاتا تھا۔شادی کے وقت لڑکی کا والد عورت سے مہر وصول کرتا۔مرد کے فوت جانے کے بعد اس کی تمام بیویاں ( سواے نسبی ماں ) اور لونڈیاں خود بخود بیٹے کی ملکیت میں آ جاتیں تھیںْ۔ مرد اگر عورت کو گھر سے نکال دے تو بھی اس کی مرضی تھی کہ وہ طلاق نہ دے تاکہ کسی دوسرے مرد سے اس کی شادی نہ ہو سکے۔دشمنوں کی عورتوں کو کی میدان جنگ میں ہی بے حرمتی کر دی جاتی تھی۔ حج کی مذہبی رسم کے دوران بھی عورت کا ننگا ہونا مذہبی فریضہ شمار ہوتا تھا۔امیر لوگ اپنی لونڈیوں کو مجبور کرتے کہ وہ بدکاری کے ذریعے ان کے لیے پیسے کما کر لائیں۔ سود خور اپنے مدیون کی عورتوں پر باآسانی تصرف حاصل کر لیتے۔قرض کی ضمانت میں عورت کو گروی رکھنا برا نہ سمجھا جاتا تھا۔ڈاکو اپنے ڈاکے میں مال وزر کے ساتھ عورتوں کو بھی لے جاتے تھے ۔عرب جنسی بے راہ روی میں دنیا بھر میں آگے ہیں ان کی جنسی ہوس عورت کیا پورا کرے گی اس آگ کو تو جنات بھی ٹھنڈا نہ کرسکے ۔ عمرو بن یربوع نامی ایک عرب نے سعلاۃ (مونث جن) سے شادی کر رکھی تھی اور اس سے اس کی اولاد بھی تھی۔ عربوں کا یقین ہے کہ یمن کی ملکہ سباء جس کا قصہ قران پاک میں بیان ہوا ہے سعلاۃ ہی کی اولاد تھی۔
ڈاکو، چور، شرابی مرد مگر اپنی لونڈی سے ایمانی داری کی توقع رکھتے کرتے تھے اور بے ایمانی کی صورت میں عورت کو گھوڑے کی دم سے باندھ کر گھوڑے کو اس وقت تک دوڑاتے جب تک عورت کے جسم کے لوتھڑے جسم سے علیحدہ ہو گر نہ جاتے۔ بیوہ ہو جانے والی عورت سے شادی کرنا معاشرتی عیب شمار ہوتا تھا۔ بیوہ عورتوں کے اچھا لباس پہننے کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔
عربوں میں شراب و کباب کے ساتھ عورت کا ساتھ لازمی سمجھا جاتا تھا۔لونڈی، رقاصہ معاشرتی ثروت کے نشان گردانے جاتے تھے ۔اور شام کے وقت کی محفلوں میں مرد عورت کے گریبان کے شگاف اور رانوں کے لباس کی باریکی کا ذکر اپنے شعروں میں فخر سے کیا کرتے تھے۔عورت کا شاعری میں ذکر ایران اور ہندوستان میں بھی ہوتا تھا مگر عربوں کی شاعری عمل کا اظہار ہوا کرتی تھی ۔مرد اپنی منکوحہ بیوی کے ساتھ تنہائی میں گذارے لمحات کی روداد اپنے دوستوں کی محفل میں سناتا تو بعض اوقات اس کے کہے ہوئے اشعار عورت کے والد کے لیے تازیانہ بن جاتے۔ اور یہ عمل اس قدر عام ہوا کہ بیٹی کا باپ ہونا مردکی غیرت کے خلاف طعنہ بن کیااور والد کے دل سخت ہونا شروع ہو گئے اور یہ سنگ دلی اس قدر بڑہی کہ قران پاک کی زبان میں ْ انکے دل پتھروں کی مانند بلکہ ان سے بھی بڑھ کر ہیں ْ البقرہ:۴۷ اور ایک مرد نے خود اپنے ہاتھ سے آٹھ بچیوں کو زندہ درگور کیا تھا ۔ قران پاک نے عربوں کی اس حالت کو بیان کیا ہے ْ اور ان میں سے کسی کو لڑکی کی پیدائش کی خبر خوش خبری سنائی جاتی ہے تو اس کا منہ کالا پڑ جاتا ہے اور غصہ کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے اور اس خبر کے رنج سے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ ذلت کے ساتھ اسکو قبول کر لے یا زندہ زمین میں دفن کردے ْ سورۃ النحل: ۸۵،۹۵
انقلابی عملی اقدامات
ان حالات میں نبی رحمت ﷺ نے ایک بیوہ کے ساتھ شادی کی۔ اپنی بیٹی فاطمہ کو مثالی عزت دے کر فرمایا کہ جو باپ بیٹیوں کی کفالت کرے گا اس کو جنت میںخود ان کا ساتھ ملے گاْ۔ بچپن میں دودھ پلانے والی دائی کی آمد پر ان کا احترام کر کے دکھایا اور دودھ شریک بہن کی جھولی ان کی فرمائش کو پورا کر کے بھر دی۔ اور سرعام کہا کہ میں عائشہ سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہوں ۔ جنت کو ماں کے قدموں تلے ہونے کا شرف آپ ہی نے بخشا۔ اور حج کے موقع پر بھی عورت کی عزت کرنے کی تاکید کو نہ بھولے۔ اور عورت کو اس کے مہر پر حق کو تسلیم کر کے اور ترکے میں حصہ دار بنا کر عورت کی معاشی آزادی کی بنیاد فراہم کی۔