جمعہ، 19 جنوری، 2018

علامہ خادم رضوی بقابلہ بیس روپے


اخباروں میں قومی اسمبلی کی رپورٹنگ میں بتایا گیا کی جمعرات والے دن وزیر خارجہ محمد آصف کی تقریر کے دوران پی ٹی ٰئی کے غلام سرور خان کی طرف سے مداخلت پر عابد شہرعلی نے لقمہ دیا
ْ خاموش بیٹھو ، عمران خان نے تجھ پر بھی لعنت بھجوائی ہےْ 
جس پر سرور خان چپ تو ہو گئے مگر ان کے چہرے پر ابھرتی ناگواری نے بہت کچھ کہہ دیا۔ بہت کچھ تو اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے بھی اسمبلی کے فلورپر کہا ہے، اور آصف زرداری کی لاہور میں تقریر کے فوری بعد بلاول کے ٹویٹ نے پارلیمنٹ کے حق میں ٓواز اٹھائی ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں ٹویٹ سے نا قابل توقع قسم کے کام لئے جا رہے ہیں۔ بلاول کا ٹویٹ بروقت اور کارگر رہا جو بے نظیر کی پیپلز پارٹی کے ایسے کارکنوں کو حوصلہ دے گیا جو جمہوریت کے علمبردار ہیں۔پیپلز پارٹی نے اسلام آباد کے تین ماہ پر محیط دھرنے کے دوران جمہوریت اورپارلیمنٹ کے دفاع میں جو موقف اپنایا تھا۔زرداری صاحب کی تقریر کے باوجود عوامی سطح پر بلاول اور پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن لیڈر نے اپنے ذریعہ اظہار کے ذریعے پیپلز پارٹی کے بیانئے کو بر وقت سنبھال لیا۔
قادری صاحب اپنے خطابانہ جوش میں بہت ساری ایسی باتیں فرما جاتے ہیں جو دوسروں کی راہ آسان کرتی ہیں ۔ موجودہ دور میں لفظ ْ لعنت ْ کے استعمال کے بہت ارزاں ہو جانے کے باوجود اس کا ْ جچا تلا ْ استعمال ان ہی کو زیبا رہا۔البتہ عمران خان نے جب لاہور میں اس لفظ کا استعمال پارلیمنٹ کے لئے کیا تو ووٹ کی طاقت کے مبلغین حیرت زدہ ہوئے تو پارلیمنٹ کے اندر ان کے ساتھیوں کی زبانیں بھی گنگ ہو گئیں۔ شیخ رشید نے دریاے سندھ اور دریائے اٹک سے اپنے استعفیٰ کی صورت میں جو نہر نکالنے کی راہ دکھائی ہے، وہ بھی کوئی راہ روشن کرتی دکھائی نہیں دیتی۔
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کس کو کیا جواب دیں اور سرور خان جیسے صحرائے سیاست کے تجربہ کار مسافر کو بھی وقتی طور پر پھبتی کے جواب کے لئے الفاظ نہ مل پائے۔عمران خان کو بقول خود کے دھرنوں کی سیاست کے بعد جو تجربہ حاصل ہو گیا ہے اس تجربے کو پارلیمانی پارٹی کے مشورے کے بغیر چنے گے الفاظ ، پارلیمنٹ میں خود ان کے ساتھیوں کو زچ کر گیا۔
بھرے جلسہ میں خان صاحب نے شیخ رشید کی استعفی ٰ دینے کی آفر پر غور کرنے کا کہہ کر کیا شیخ رشید کے اس دعوے کو سچ کر دیا ہے کہ خان صاحب سیاست کے کھلاڑی اور شیخ صاحب کوچ ہیں۔
سیاسی مبصرین اور اخباروں کے رپورٹر اور چینلوں کے کیمرے لاہور کے اس شو کو ناکام قرار دے دینے کے بعد یوں لگتا ہے کہ نون لیگ نے دفاعی حکمت عملی کے ذریعے بغیر میدان میں اترے کامیابی اپنے نام کر لی ہے۔ بے شک اس کامیابی کے بعد پنجاب حکومت ، قادری صاحب کی طرف سے مزید کسی یلغار کی تشویش سے بھی نکل چکی ہے۔کہ اس جلسے میں مقامی لوگوں کی عدم دلچسپی اور لاہور کی تاجر تنظیموں کی کھلی حوصلہ شکنی نے ، شہباز شریف کی پوزیشن کو سہارا دیا ہے۔
شہباز شریف ،جن کو نون لیگ اپنا مستقبل کا وزیر اعظم مان چکی، مقتدر قوتیں اپنی نیم رضامندی کا خاموش اظہار کر چکیں، کے لئے اب بھی بزرگوں اور روحانی شیوخ سے فیض لینا باقی ہے اور اس کا فیصلہ بھی جلد ہی عوام دیکھ لے گے۔اس کے بعد الیکشن تک سیاسی ہلچل دریائے راوی کا روپ دہار لے گی کہ نہ پانی ہو گا نہ طوفان اٹھے گا ۔ مگر حقیقت یہ نہیں ہے۔ پنجاب کے سیاست کے دریا میں اصل جوار بھاٹہ الیکشن سے پہلے اٹھے گا ۔ عمران خان کا سونامی 
2013 
میں نون لیگ کا نقصان کئے بغیر گذر گیا تھا مگر علامہ خادم حسین رضوی کا طوفانی بگولہ جس جولانی سے اٹھنے کو مچل رہا ہے اس سے نون لیگ کا بچنا کرامت ہو گا مگر اس بارسارے ہی صاحبان کرامات کا فیض علامہ صاحب کے ساتھ ہے ۔
رہ گئی دو روٹی کو ترستی اور بیس روپے میں میٹرو میں سفر کرتی عوام تو اس بار ایک بڑی اکثریت ْ عمر بن خطاب کے معاشی بیانئے ْ اور میٹرو کے ْ بیس روپےْ میں تقسیم ہو جائے گی۔

پیر، 15 جنوری، 2018

گیارہ ستاروں میں قطبی ستارہ


لاہور میں سیاسی اکابرین خواب بھی دیکھتے ہیں اور ان پر عذاب بھی یہیں نازل ہوتا ہے۔ذولفقار علی بھٹو کے خلاف نو ستارے اور گیارہ پارٹیوں کی یاد سترہ جنوری کو پاکستان کے زندہ دلوں کے اسی شہر میں تازہ کی جائے گی۔

نوابزادہ نصراللہ خان کو تانگہ پارٹی کا لقب دیا گیا تھا مگر ان کے سیاسی قد سے انکار ممکن نہیں ہے۔ لال حویلی والے شیخ رشید نے علم نجوم کے ذریعے ٹی وی کے چینلوں کوریٹنگ کے بہت تحفے دیے مگر سیاسی لیڈر جب تک ووٹ نہ جیت سکے اس کو مخالفین کے طعنے ہی مار دیتے ہیں۔اسلا�آباد میں ایک سیاست دان نے سامنے بٹھا کر کہا کہ تمھاری بولتی تمھارے گھر میں آ کر بند کی ہے ۔ مگر موجودہ ٓوازوں میں بلند تر آواز شیخ صاحب ہی کی ہے۔ 

موجودہ گیارہ ستاروں میں قطبی تارہ طاہر القادری کی ذات کی ہے۔ شریفوں کی اتفاق مسجد سے اڑان کے بعد طائر نے پنجاب کا لباس اتار کر عربوں کی ْ توپ ْ اور ترکوں کی "ٹوپی " پہن کر پاکستان کے پاسپورٹ کو بھی خیر آباد کہہ دیا تو برطانیہ میں ان کے مالی معاملات زیر بحث آئے ۔ اور یہ خوف ابھرا کہ پاکستان میں قران کی راہ منور کرنے پر لوگوں کا ایثار مایوسی پا کر چراغوں کو گل بھی کر سکتا ہے مگر عالم کی جب پانچوں گھی میں ہوں اور خوراک مین باداموں کے کشتے بھی شامل ہوں تو علم کا نور منور ہوتا ہے، اور قادری صاحب تو فلسفے اور منطق کے شارح ہیں۔

ہماری امیدوں کے مرکز اور انقلاب کے سرخیل کپتان کا پہلا کارنامہ 
Electables 
کا باسی اچاراکٹھا کرنا ، دوسرا اپنے نظریاتی جانبازوں کو دیوار کے ساتھ لگانا تیسرا نظریات اور جدوجہد کی بجائے تعویزوں اور پہاڑوں کی بلندیوں پہ چلے کاٹنا۔ سیاست کے بابوں کی تنقیدی سوچ کی اقتداء مگر اسد عمر جیسے منظم کی موجودگی میں جلسوں کی افرادی قوت کو ووٹ کی طاقت میں نہ بدل سکنا، اور سب سے بڑھ کر منفی تنقید اور نا مانوس بیانئے نے سنجیدہ ہمدردوں کو مایوسی سے دوچار کیا ہے۔ کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ حلق کی پوری قوت کے ساتھ آپ کے بیانیے کو الیکٹرانک میڈیا اور قلم کی پوری طاقت سے پرنٹ میڈیا میں عوام کو سمجھانے والے آپ سے شاقی ہیں۔ جناب آپ ناکام ٹولے میں گھرکر مخلصین سے روز بروز محروم ہوتے جا رہے ہیں اور آپ کی میڈیا ٹیم کی کار گذاری یہ ہے کہ اس نے نئے پاکستان کے نعرے کے علمبردار کو کرسی کو ترستا شخص بنا دیا ہے ۔ البتہ ضد نے آج تک اور کس کی راہ سہل کی ہے۔
جماعت اسلامی کے امیر محترم صادق اور امین ہونے کے باوجود اپنے روائتی ووٹر سے آگے نہیں بڑھ پائے۔ سیاست قریہ بلا ہے ، قاضی اللہ کو پیارے ہو چکے اور جس طلسم کے لوگ گرویدہ تھے وہ طلسم ٹوٹ چکا مگر جماعت اسلامی محدود سیاسی ووٹ بنک کے باوجود اپنا مقام رکھتی ہے ،کپتان نے جو فیض حاصل کرنا تھا کر چکے۔ اب کے جماعت اپنے اصل کی طرف پلٹے گی مگر مال روڈ پرنکلنے والی بارات میں جماعت کی افرادی قوت محدود ہی رہے گی۔ 
زرداری کی پیپلز پارٹی کو بے نظیر بھٹوکے بیٹے کی پارٹی بننے میں وقت درکار ہے اور فی الحال لاہور میں وہ قحط الرجال کا شکار ہے۔
لاہور میں یہ اجتماع شہباز شریف کی سیاسی زیست کے لیے فیصلہ کن موڑ ثابت ہو سکتا تھا ۔مگر سیاست بڑا بے رحم کھیل ہےْ ۔ بازی گروں نے بازی زبردست بچھائی ہے ۔یہ بازی مگرشطرنج کی ہے ۔ غلط چال کا ادراک کھلاڑیوں کو فروری کے مہینے میں ہوگا ۔ ناکامی کا بوجھ مگراناڑی پر نہیں ، کھلاڑی پر ہی ہوتا ہے۔

لال حویلی سے اٹھایا گیا یہ تاثر اپنا رنگ جمانے میں ناکام رہاہے کہ فوج اور عدلیہ بطور ادارہ کپتان کی پشت پر ہیں۔ اس رنگ بازی نے ان دو اداروں کو جو چونا لگایا ہے اس کے بعد ان اداروں میں اگر کوئی ہمدرد تھا بھی تو اب نہیں ہے۔

اتوار، 14 جنوری، 2018

سماع و وجد


پتھر لوہے سے ٹکراتا ہے تو آگ جنم لیتی ہے جو ان میں پہلے ہی سے پوشیدہ تھی ۔ دل میں موجود عشق جب سماع و ذکر سے ٹکراتا ہے تو وجد کی حرارت پیدا ہوتی ہے ۔ عشق نبی اور ذکر اللہ کی حرارت آگ کی مانند ہے اور اس کے شعلوں کا نام وجد و حال ہے ۔ جب عاشق حقیقی کے سامنے محبت و دوستی کا ذکرہوتا ہےتو اس کے اندر ذکر کی گرمی اسے لطف دیتی ہے جب جب ذکر بڑہتا ہے شعلہ بلند بوتا جاتا ہے ۔ کیف و سرور جب برداشت سے بڑہ جاتا ہے تو گرمی عشق بصورت وجد ظاہر ہوتی ہے ۔ دودھ کو مخصوص مقدار سے زبادہ حرارت دی جائے تو وہ ابلتا اور چھلکتا ہے ۔ فرمان نبی اکرم ہے کہ برتن سے وہی کچھ ٹپکے گا جو کچھ اس میں ہو گا ۔ عاشق کا عشق جب ابلتا اور چھلکتا ہے تواس کو وجد کا نام دیا جاتا ہے ۔ حضرت سخی سلطان باہو رحمۃ اللہ نے ققنس نام کے ایک پرندے کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ لکڑیاں اکٹھی کر کے اپنا گھر بناتا ہے اور جب اس کا گھر مکمل ہو جاتا ہے تو وہ ان قلعہ نما گھر میں مقید ہو کر بیٹھ جاتا ہے اور ذکر شروع کرتا ہے ۔ اس کے ذکر کی گرمی سے حرارت پیدا ہوتی ہے جو اس کو مست کر دیتی ہے ۔ جوں جوں کیف و مستی میں اضافہ ہوتا ہے توںتوں ذکر کی گرمی بھی بڑہتی ہے ۔ پھر اس حرارت سے آگ پیدا ہوتی ہے جو اس کے قلعے کو جلا دیتی ہے ۔ گھر کے ساتھ یہ خود بھی جل کرراکھ ہو جاتا ہے ۔ اس راکھ پر جب بارش برستی ہے تو اس سے انڑہ پیدا ہوتا ہے پھر اس سے بچہ پیدا ہوتا ہے اور جب بچہ جوان ہو جاتا ہے تو وہ بھی اپنے باپ کی طرح لکڑیاں اکٹھی کرتا ہے اور اسی انجام سے دوچار ہوتا ہے ۔ عاشق لوگ اپنے دل کے ہاتھوں معذور گردانے جاتے ہیں ۔ کبھی غور تو کرو محفل میں کچھ لوگ کیف و مستی کی صراحیاں پی جاتے ہیں اور وہ اپنے صحو کو قائم رکھتے ہیں اور کسی کو ذکر کے چند جام ہی بے خودی میں دھکیل دیتے ہیں ۔ اپنا اپنا ظرف ، مقام اور وقت ہوتا ہے ۔ سالک کا دل کھیت کی مانند ہوتا ہے ۔ کسان بیج کو مٹی میں چھپا دیتا ہے ۔ نظروں سے غائب بیچ کو موافق ماحول میں رطوبت ملتی ہے تو پودا بننا شروع ہو جاتا ہے . جس نے کسی رہنما کی سرپرتی میں راہ سلوک میں قدم رکھ لیا تو بیج اس کے دل میں پیوستہ کر دیا گیا ۔ جب اس بیج کو موافق ماحول میں روحانیت کی رطوبت ملتی ہے تو اس بیج کی بڑہوتی شروع ہو جاتی ہے ۔ 'ا اللہ چنبھے دی بوٹی ' میں صاحب کلام نے اسی حقیقت کو بیان کیا ہے ۔ ادراک و ورود دو مختلف کیفیات ہیں ۔ ایک کا تعلق کتابوں سے ہے جبکہ دوسری کا تعلق صحبت سے ہے ۔ ایک شاعر نے کہا ہے کہ پیالے سے ناپنا ایک ہنر ہے مگر کیف و مستی اور سرور پیالہ پینے کے بعد ملتا ہے ۔ نقل ہے کہ ایک سالک بازار سے گذر رہا تھا کسی نے آواز لگائی ایک کی دس ککڑیآں ۔ سالک پر وجد طاری ہو گیا ۔ لوگوں نے کہا یہ کیسا حال ہے ۔ اس نے کہا جب دس نیک لوگوں کی قیمت ایک ہے تو گناہگار کی قیمت کیا ہو گی ۔ کوہستانی علاقوں میں ساربان اونٹوں پر ثقیل بوجھ لاد کر انھیں 'ھدی' سناتے ہیں تو زیربار اونٹ وجد کی مستی سے بھاگ پڑتے ہیں ۔ صوت داودی وجد ہی تو پیدا کرتی تھی ۔ ذکر سے دل میں قرار اور دماغ پر خفقانی اثرات غالب ہو جانے ہیں  اور جب اضطراب قوت برداشت سے باہر ہو جاتا ہے تو رسم و ادب اٹھ باتا ہے ۔ اس وقت یہ خفقانی حرکات نہ مکر ہوتا ہے نہ اچھل کود بلکہ اضطنرابی کیفیت کا عالم ہوتا ہے اور انتہائی بھاری لمحات ہوتے ہیں ۔ اگر اس کیفیت کی تشریح محال ہے تو اس کا انکار بھی ناممکن ہے ۔ اور حرکات اگر اضطراب کے باعث ہیں تو امام غزالی کا سماع کے رقص کے بارے میں یہ قول یاد رکھنا چاہیے ' رقص کا حکم اس کے محرک پر محمول ہے اگر محرک محمرد ہے تو رقص بھی محمود ہے ' اور وجد کا سبب اگر ذکر ہے تو ذکر محمود ہی نہیں سعید پھی ہے ۔ شیخ عبد الرحمن نے اپنی کتاب السماع میں لکھا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہہ سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس تھے کہ حضرت جبریل تشریف لائے اور کہا یا رسول اللہ آپ کو بشارت ہو کہ آپ کی امت کے درویش و فقیر، امیروں کے اعتبار سے پانچ سو برس پیشتر جنت میں داخل ہوں گے ' ۔ یہ خوش خبری سن کر نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم خوش ہو گئے اور فرمایا کوئی ہے جو شعر سناے ۔ ایک بدوی نے کہا ہاں ہے یا رسول اللہ ۔ آپ نے فرمایا آو آو اس نے شعر پڑہے ۔ ' میرے کلیجے پر محبت کے سانپ نے ڈس لیا ہے ، اس کے لیے طبیب ہے نہ کوئی جھاڑ پھونک والا ۔ مگر ہاں وہ محبوب جو مہربانی فرماے ، اس کے پاس ان کا تریاق اور منتر ہے " یہ سن کر نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تواجد فرمایا اور جتنے اصحاب وہاں موجود تھے سب وجد کرنے لگے ۔ یہاں تک کہ آپ کی رداے مبارک دوش مبارک سے گر پڑی ۔ جب اس حال سے فارغ ہوے معاویہ بن ابی سفیان نے کہا ۔ ' کتنی اچھی ہے آپ کی یہ بازی یا رسول اللہ ' آپ نے فرمایا ' دور ہو اے معاویہ وہ شخص کریم نہیں ہے جو دوست کا ذکر سنے اور جھوم نہ اٹھے ' پھر رسول اللہ کی ردا میارک کے چار سو ٹکڑے کر کے حاضرین میں تقسیم کر دیے گے ۔حضرت ابو سعید ابو الخیررحمۃاللہ سے منقول ہے کہ جب فقیر ہاتھ پر ہاتھ مارتا ہے تو شہوت اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے ۔ جب زمین پر پاوں مارتا ہے تو پاوں سے شہوت نکل جاتی ہے ۔ جب نعرہ مارتا ہے باطن کی شہوت نکل جاتی ہے ۔ روایات میں ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے وعظ کے دوران کسی نے نعرہ مارا ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا ۔ آللہ تعالی نے فرمایا ۔ وہ میری محبت میں نعرہ مارتے ہیں ۔ میری محبت میں روتے چلاتے ہیں اور میرے قرب سے راحت پاتے ہیں ۔ تم ان کو مت جھڑکا کرو۔ جو لوگ مقام و ادب کا خیال رکھنے کی تاکید کرتے ہیں وہ یہ حقیقت کیوں بھول حاتے ہیں کہ جب برتن کو ابالا جائے گا تو اس کا ٹپکنا لازم ہے ۔ جہاں تک بدعت کا تعلق ہے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ نے فرمایا ہے جو عمل سنت کی جگہ لے وہ بدعت ہے ۔ بدعت کا ثمر یہ ہے کہ وہ سنت سے محروم کر دیا جاتا ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ کے بقول نماز تراویح با جماعت کی ابتداء حضرت عمر رضی اللہ عنہہ نے کی ۔ اس سے اہل علم کوئی سنت ٹوٹتی نہیں پاتے ۔ اصحاب رسول ، نبی اکرم صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آمد پر کھڑے نہ ہوتے تھے مگر جب حضرت فضل دین کلیامی نے اپنے جنازے کے امام حضرت قبلہ پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ کا کھڑے ہو کر استقبال کیا تھا تو کون سی سنت ٹوٹی تھی ۔ سماع و وجد وہ پر خطر راہ ہے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ نے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی ۔ مگر سکر کی کیفیت سے انکار ممکن نہیں ہے ۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ مقام قریہ بلا ہے اور امان صرف بصیر کے زیر بصارت رہنے ہی میں ممکن ہے ۔

ہفتہ، 13 جنوری، 2018

مضبوط قلعہ کا کمزور مقام


اس زمانے میں ہم ْ ٹاٹ ْ پر بیٹھ کر فارسی پڑہا کرتے تھے، فارسی تو بھول بھال گئی البتہ ایک جملہ اب بھی یاد ہے
ْ خانہ خالی را دیو می گیردْ ۔ 
اجڑے گھر میں دیو بسیرا بنا لیتے ہیں۔ یا ۔ زیادہ دستیاب وقت ذہن کو پراگندہ کر دیتا ہے ۔ یا ۔ بے کار ذہن منفی سوچ کی آماجگاہ بن جاتے ہیں ۔ یا ۔ بے کار لوگ ، بھوک سے تلملا کر مجرم بن جاتے ہیں۔ 
بھلا ہو رائے ونڈ والی تبلیغی جماعت کا ، اور سبز عمامے والے مولانا الیاس کا، جنھوں نے بے کار نوجوانوں کو کسی کام پر لگا لیا ہوا ہے ۔ اس کام میں منہاج القرن نے بھی اپنا حصہ ڈالا تو طاہر القادری صاحب کا کام
Quality wise
دوسروں سے منفرد رہا ۔ کہ پنڈلیوں سے اٹھتی شلوار اور سبز عماموں کی جگہ پتلون عصر حاضر کی ضرورت بتائی گئی۔
بر صغیر میں ایک گروپ قادری صاحب کی سوچ سے بھی تیز تر نکلا ۔ یہ گروپ جو بر صغیر میں ٹائی مگر یورپ پہنچ کر ٹائی اتار کر ٹوپی پہن لیتاہے ۔ 
کتنی بڑی محنت وکوشش وجدو جہد ہے دین کی تبلیغ کی , مگر شیطان مردود کہ ابدی لعنتی ہے ، دین کے ان مجاہدوں کے کمزور مقامات پر حملہ آور ہوتا ہے۔ 
پتلون پوشوں پر پاکستان اور برطانیہ میں لگے جنسی دھبے ,اور ٹائی پوشوں کے برطانیہ میں حالیہ جنسی سکینڈل کے بعد معلوم ہوا دین کے مضبوط قلعے کی کمزور دیوار کا نام جنسی بے راہ روی ہی ہے ۔ 
مذہبی جنسی بے راہ روی کو انگریزی میں سوچیں تو الفاظ بھیانک دکھائی دیتے ہیں۔ 
اللہ کا حکم البتہ یہ ہے کہ اس کے کلام کی تلاوت سے قبل تعوذ کا ورد کر لیا جائے

عقلی میزان بمقابلہ اجتماعی ہاہاکار


سوچنا ، سمجھنا ، عقل کی میزان میں تولنا، فیصلہ کرنا، اور ۔۔۔ فیصلہ ہمارے جذبات سے ٹکرا جائے تو اپنی عقل کے فیصلے ہی کو دیوار کے ساتھ دے مارنا۔ یہ عمل اگر انفرادی طور پر غلط ہے تو اجتماعی طور پر بھی قال قبول نہیں ہو سکتا۔ مگر ہمارے معاشرے میں ایسے عمل کوماہرانہ سعی سے قابل قبول بنا کر اپنے فن کی داد وصول کی جاتی ہے۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انفرادی عقلی میزان میں، ناقابل تسلیم بیانیہ ، اجتماعی ہا ہا کار میں مقبول مطالبہ بن جاتا ہے۔

اور یہ ہمارے معاشرے کا مجموعی چلن بن چکا ہے۔غصے کا تعلق محرومیوں ،معاشرتی نا انصافیوں اور پیٹ کی بھوک سے جوڑا جاتا ہے۔مگر ہم نے بار بار دیکھا ہے کہ ہمارے ماہرین نہائت کامیابی سے اس غصے کا رخ اپنے مخالفین کی جانب موڑ دیتے ہیں۔یہ جو کہا گیا تھا کہ علم معیشت کی نئی راہیں کھولتا ہے تو اب سمجھ آ جانی چاہئے کہ نئی راہیں تخلیق کرنی پڑتی ہیں اور ہر نئی راہ کی ایک منزل بھی ہوا کرتی ہے لیکن اس نئی منزل کی معاشرتی اقدار بھی اب ماہرین ہی طے کیا کریں گے۔

 اپریل 1985 کوکراچی میں بشریٰ زیدی نام کی ایک 20 سالہ لڑکی کو ایک تیز رفتار منی بس نے اسے کچل دیا۔مہاجر گھرانے کی بشریٰ کی موت پر احتجاج شروع ہوا ، مہاجر پشتون کشمکش میں کتنی جانیں گئی کتنے زخمی ہوئے اور کتنا معاشی نقصان ہوا سو ہوا مگر علاقہ میں کرفیو نافذ رہا ۔حتیٰ ناظم آباد کے ہر گھر میں ایک بالٹی پانی ہر وقت موجود رہتا تھا کہ کسی بھی وقت شروع ہو جانے والے آنسو گیس سے بچاو کیا جا سکے۔البتہ عشروں بعد جب بشریٰ کا خاندان بیرون ملک مقیم ہو گیا تو معلوم ہوا بس کا ڈرائیور تو کشمیری تھا۔اور علاقے کے لوگ سیاسی طور پراستعمال ہوئے ہیں۔ یہ واقعہ، ڈھیر میں سے ایک مثال ہے کہ کیسے عام آدمی شاطروں کے منصوبوں کی بھٹی کا ایندہن بن کر خاکستر ہوتا ہے

سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں اور کارکنوں کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا مقصد حاصل کریں گے ۔البتہ مذہبی جماعتیں جو دین کے نام پر قائم ہیں اور اپنا مقصد دین کی ترویج بتاتی ہیں ۔ ان سے منسلک لوگ سیاسی طور پر معصوم مگر دینی پر پر مخلص ہوتے ہیں۔جب ان کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو معاشرہ افراتفری کا شکار ہو جاتا ہے، جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام اور جمیعت علمائے پاکستان ، مثال کے طور پر مذہبی مزاج کی سیاسی جماعتیں ہیں ، ان کی سیاسی سرگرمیوں پر کبھی کوئی معترض نہیں ہوا۔ منہاج القرآن کے ادارے کے سربراہ جناب طاہر القادری صاحب نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر سب کے رو برو سیاست میں حصہ نہ لینے کا حلف اٹھایا تھا ۔ ان کی دینی خدمات کے صلہ میں ، اور سیاست میں حصہ نہ لینے کے اعلان پر یقین کر کے ، مسلمانوں نے ان پر ہن نچھاور کر دیا مگر کچھ سالوں بعد ہی ان کے معاشی اسکینڈل سامنے آنا شروع ہو گئے۔ لوگوں کی شکایات سامنے آئیں کہ ان کی قیمتی زمینوں پر قبضہ کیا گیا ہے اور وہ قادری صاحب کے اثر و رسوخ کے سامنے بے بس ہیں۔ اس پر جب ادارے کے اندر سے آواز بلند ہوئی تو ان کو ادارے میں تنظیم کے نام پر چپ کرایا گیاتو کئی لوگ جو اہم تنظیمی عہدیدار تھے ، انھوں نے شیخ الاسلام صاحب سے دوری اختیار کر لی۔مگر اب قادری صاحب کے پاس وسائل کی کثرت اور تشہیر کا وسیع میدان ہونے کے باعث چند دینی اور شفاف ذہن کے لوگوں کے چلے جانے پر کوئی تشویش نہ تھی۔ 

اسلام آباد میں دھرنے کی مخالف میں مشورہ دینے والوں اور دین کے نام پر حکمران گنجے ٹولے کی قبریں کھودنے کی مخالفت کرنے والوں کو بھی پچھلی صفوں مین بھیج دیا گیا ، کچھ تو جوتے پہن کر گھر جا چکے جو باقی ہیں وہ حیران ہیں کہ بولیں تو کیا اور چپ رہیں تو کیوں؟

قادری صاحب کا یکم جنوری کا طے شدہ مارچ ملتوی ہو ا اور 8 جنوری کی تایخ دی گئی۔ پھر سیاسی بھرم کو قائم رکھنے کے لیے 
17
 جنوری کی تاریخ دی گئی۔ اس دوران قصور والا واقعہ منظر عام پر آگیا ۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پوری  ملک سے جاندار مزاحمتی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں ۔قصور کے محمد امین جو مظلومہ زینب کے والدہیں ، ایک استاد اور شریف النفس انسان ہیں اور قادری صاحب کی پارٹی سے منسلک بھی ہیں، عمرے کی ادائیگی کے سفر کو مختصر کر کے واپس گھر پہنچے تو ، اطلاع کے باوجود کہ وہ رستے میں ہیں قادری صاحب نے جنازہ پڑہا دیا۔ قادری صاحب ،جو پاکستان کے بے مثل خطیب ہیں، نے اپنی طویل دعا کے ذریعے اپنے نوجوان کارکنوں ایسا دینی فیض تقسیم کیا کہ چند گھنٹوں میں قصور کے ڈی سی کے دفتر کا گیٹ ٹوٹ گیا ، دو گاڑیاں جل گئیں ، کئی نجی املاک کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا۔ یاد رہے یہ واقعہ اس شہر میں پیش آّ رہا ہے جو بھارتی سرحد سے صرف
70
  کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔دو دن" میرا سوہنا شہر قصور" آگ کے شعلوں میں جلتا رہا ۔ اور مطالبہ یہ تھا کہ نواز شریف کے بعد اب شہباز شریف اور وزیر قانوں ثنا اللہ مستعفی ہوں ۔ اصل ہدف تو شہباز شریف ہے ثنا اللہ کا نام تو محض قافیہ کا حصہ ہے۔ ہمیں ثنا اللہ سے د لچسپی ہے نہ شہباز شریف سے لگاو کہ اگر ان کے اعمال درست ہوتے تو دن دہاڑے یہ درندگی ممکن ہی نہ تھی۔ البتہ شام کو وضو کے بعد متبرک ہاتھ چہرے پر پھیر کر خود کو غیر سیاسی منوانے کے اصرار پر تعجب کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے۔

دین کے نام پر سیاسی کاز کے لیے اپنے دو کارکن مروا دینے سے شک ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے سینوں میں شاید انسان کا دل ہی نہیں ہے۔ ان کے سیاسی مخالفین جن میں گنجا شہباز شریف اور اس کے چمچے شامل ہیں ۔ ان کی کارکردگی ہمیشہ سوالیہ نشان رہے گی۔اور اس غریب راہ گیر کے خاندان کی اللہ تعالی نصرت فرمائے کہ وہ نہ قادری صاحب کا مرید تھا نہ شہباز کا پٹواری۔ اللہ تعالیٰ قائد کے اس پاکستان میں راہگیروں کو محفوظ رکھے
سوچئے گا ۔ ا نفرادی عقلی میزان میں، ناقابل تسلیم بیانیہ ، اجتماعی ہا ہا کار میں مقبول مطالبہ کیوں بن جاتا ہے