بدھ، 22 نومبر، 2017

پہلی بار

22
 نومبر 2017 فیض آباد دھرنے کا 17 وان دن، میرے دیکھتے دیکھتے کم از کم 4 باوردی لوگوں کو لہو لہان کر گیا۔لمبے ڈنڈوں سے مسلح جوانوں کا جتھہ اپنی فتح کے نعرے لگاتا ہجوم میں گم ہو گیا۔
اسی اسلام اباد میں قومی اسمبلی کی عمارت میں بھی ایک معرکہ برپا تھا۔ریاستی نصرت سے آراستہ متحدہ اپوزیشن رائے شماری کے نتائج پر حیرت زدہ تھی۔
وزیر قانون کے بیان کو اسمبلی کے اندر اپوزیشن اور فیض آباد میں بیٹھے عوام نے یکساں نا پسندیدگی سے سنا ، اور کڑوا سچ یہ نکلا کہ دھرنے کا باعث سبب بننے والے بل کی منظوری میں اکثر سیاسی جماعتوں سمیت شیخ رشید کا ووٹ بھی شامل تھا۔
پہلی باریہ ہوا کہ فیض آباد دھرنے کے شرکاء نے ہی پولیس والوں پرتشدد کی مذمت اس عزم سے کی کہ کنٹینر کے لاوڈ سپیکر وں سے اس کی توجہیات بیان کی گئیں، دوسری طرف 70 سالوں میں پہلی بار عوام نے قومی اسمبلی میں خود کو ملکی معاملات میں حصہ دار پایا۔
اداروں کے خود ساختہ ترجمان، عدلیہ کو مفت مشوروں سے نوازنے والے، سیاسی رہنماوں کی ٹانگیں کھینچنے والے ، اور ذاتی خواہشات کے اسیران ، اپنی سوچوں کو اسمبلی میں آئین او ر فیض آباد میں قانون کو اپنی راہ بنانے دیں۔
پہلا بیانیہ ہی آخری ثابت ہو گا اور پہلا بیانیہ یہ ہے کہ ْ جس کا کام اسی کو ساجھے ْ 

جمعہ، 17 نومبر، 2017

صبح نور



سعودی عرب کی اہمیت
سعودی عرب اپنے جغرافیائی وجود، دو متبرک شہروں کی موجودگی اور حکمران آل سعود خاندان کی سیاسی بصیرت اور مملکت کے اندر اور باہر اس کے اثر و رسوخ اور سعودی عوام کی دین سے محبت اور عملی جذبے ، مہمان نوازی کی روایات، جوانمردگی اور بہادری کی تاریخ اور اپنے مخصوص قبائلی ہیت کے باعث ہمیشہ سے اہم رہا ہے۔جدید تاریخ میں خدا داد وسائل کی فراوانی نے اسے خطے اور دنیا میں ایک ممتاز کردار کا حامل بنایا ہے، ان سب سے بڑھ کر پوری دنیا کے مسلمان سرزمین سعودیہ کو ، حرمین شریفین سے مذہبی عقیدت کے باعث احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں، مملکت کا جھنڈا وہ وحید علم ہے جو کبھی بھی سر نگون نہیں ہوتا۔
مگر ماضی قریب میں اس مقدس سرزمین کے باسیوں کی کرپشن کی کہانیاں جو مغربی میڈیا میں مزے لے لے کر بیان کی جاتی ہیں ان کہانیوں نے سعودیہ کے ماتھے کو داغدار کیا ہے۔




کرپشن
کرپشن ایک ایسا ناسور ہے جس نے مسلم ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، ہر ملک کی اپنی اپنی داستان ہے جو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہے۔سعودی عرب میں کرپشن کی داستانوں کا طویل عرصہ سے بین الاقوامی میڈیا میں چرچا ہے مگر اس امیج کو درست کرنے کی جانب پہلی بار موثر قدم اٹھایا گیا ہے۔ سعودی انسداد کرپشن کمیٹی نے کرپشن کے منبع پر ہاتھ ڈال کر ایساجرات مندانہ قدم اٹھا یا ہے جس نے مملکت کے اندر اور باہر لوگوں کوحیرت انگیز فرحت سے ہمکنار کیا ہے۔ مملکت کے اندر اس تحریک کو نہ صرف خوش آمدید کہا گیا ہے بلکہ سعودی شہریوں میں یہ قدم حکومت اور خادم حرمین شریفین اور خاص طور پر شہزادہ ولی عہد کی مقبولیت کو نئی بلندیوں پر لے گیا ہے۔ سعودی عوام کا اپنی حکومت پر اعتماد ہی نہیں بڑہا بلکہ اس قدم سے معاشی نا ہمواری کی ٹوٹی پھوٹی راہ کی مرمت کی امید بندہی ہے۔ سعودی نوجوان بجا طور پر امید کرتے ہیں کہ آنے والے وقت میں سعودی معاشرے اور حکومتی اداروں سے رشوت اور کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا۔
سعودی ولی عہد نے کرپشن کے مضبوط اور تناور شجر کی جڑہوں کو کاٹ کر رکھ دیا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ کانٹے دار درخت خود نخود سوکھ کر مرجھا جائے گا۔
اپنے خاندان اور اپنی ہی حکومت کے کرپٹ افراد پر آہنی گرفت نے شہزادہ ولی عہد کو اپنے ملک کے نوجوانوں کو مثبت سوچ کی راہ دکھائی ہے تو بیرون ملک سے سرمایہ کاروں کو نیا حوصلہ میسر آیا ہے۔




سعودی ولی عہد کو جن چیلنج کا سامنا ہے اس میں ایک یہ الزام بھی ہے کہ انھوں نے اپنے حکومتی حریفوں پرہاتھ ڈال کر اپنے بادشاہ بننے کی راہ ہموار کی ہے۔ یہ محض الزام ہی ہے کیونکہ ان کی ولی عہدی کا شاہی فرمان جاری ہونے کے بعد متعلقہ کمیٹی اس کی توثیق کر چکی ہوئی ہے۔ اور انھوں نے تیاری اور ثبوت کے ساتھ صرف کرپشن مین مبتلاء افراد پر ہی ہاتھ ڈالا ہے۔ اور اس میں ان کے اپنے وزیر، مشیر اور خاندان کے لوگ بھی سر فہرست ہیں۔ آنے والے چند ہفتوں میں ہی ناقدین کے منہ بند ہو جائیں گے کہ خادم حرمین شریفین نے عدلیہ میں نئے منصف ، جو قانونی ماہرین ہیں اور غیر جانبداری کی شہرت رکھتے ہیں شامل کر کے اور عدلیہ میں موجود ایماندار اور شفاف کردار کے منصفین کو ترقی دے کر اس بات کا اہتمام کر دیا ہے کہ کسی بے گناہ کے ساتھ زیادتی نہ ہونے پائے۔ اس تحریک کے بالکل ابتدائی مرحلے پر ایسے سات افراد کو رہا کر دیاگیا جو اس پکڑ دھکڑ کا شکار ہو گئے تھے۔
جب مقدمات چلیں گئے اور تحویل میں لئے گئے افراد کی کرپشن کی کہانیاں سامنے آئیں گی تو عوام اور دنیا کا سعودی حکومت اور معاشرے پر یقین بڑہے گا۔



اخوت کی ٹھوس بنیاد
امت مسلمہ آپس میں اشتراک و اتحاد کے لئے مدت سے تگ و دود جاری رکھے ہوئے ہے ، علاقائی اتحادجیسے جی سی سی یا بین الاقوامی اتحاد جیسے اسلامی سربرائی کانفرنس در اصل اسی اتحا د اور اتفاق کے حصول کی کوشش ہے۔ جو وقت کی ضرورت اور اسلام کا بنیادی پیغام ہے۔ قوموں مین اتحاد و یگانگت کے کئی محر ک ہوتے ہیں جیسے یورپی یونین کے اتحاد کی بنیاد معاش بنی۔ کچھ اتحاد علاقائی وحدتوں میں معاشرتی اشتراک بنا ، کہیں مشترک دشمن نے ملکوں کو اتحا د پر مجبور کیا۔مگر دین میں مشترکہ اعتقادات پر مبنی اتحاد ہمیشہ ہی پائیدار ثابت ہوا ہے۔ اسلام میں اللہ تعالیٰ کی ذات وحدانیت ، خاتم المرسلین کی ذات سے محبت، قرآن جیسی آفاقی کتاب کا موجود ہونا ، ایسی حقیقتیں ہیں جو اتحاد کی پائیدار بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔ اسلام وہ مذہب ہے جس نے انسانیت کو ٹھوس اور دور رس تحفے دئے تھے ۔ دور نبوت میں رسول اللہ کا یہ فرمان کہ عورتوں کو بھی ترکے میں حصہ دو حالانکہ کہ اس وقت عورت کو زندہ درگور کر دینا زیادہ معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ علاقی و خاندانی تفرقات کی جائے تقویٰ کی بنیاد پر معاشرے کی بنیاد رکھنا ۔ ایسے انقلاب آفریں اعلانات تھے جس نے معاشرے کو بالکل ہی بدل کر رکھ دیا۔ رواداری، محبت ، عفو و در گزر کے پیغام محمدی کو تو ہم عشروں سے پس پشت ڈالے ہوئے تھے ۔ اب خادم حرمین شریفین نے عید میلاد النبی پر عام تعطیل کا اعلان کر کے یہ راہ دکھائی ہے کہ ْ یا محمدا ْ کی بنیاد اگر ابوبکر کے دور میں نتیجہ خیز تھی تو موجودہ دور میں بھیْ حب النبیْ خیر ہی کا پیغام ثابت ہو گی۔تنقید، انا پرستی، اور مسلکی تفاخر ایسے امراض ہیں کہ جس جس معاشرے میں پھیلے اس معاشرے کو تباہ ہی کیا۔امید رکھنی چاہئے کہ حب النبی کے سایہ دار ، خوشبودار شجر سے اسلام کے باسیوں کو امن و عافیت کا سایہ نصیب ہو گا۔ خادم حرمین شریفین نے ۲۱ ربیع الاول کی اہمیت کو واضح کر کے خطے کے باسیوں کو محبت، دوستی کی راہ دکھائی ہے ۔

منگل، 14 نومبر، 2017

ہمارا مولا






امریکہ کے صدر جناب ٹرمپ صاحب نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کے صدر نے ان کو ْ بڈھا ْ کہہ کر ان کی توہین کی ہے مگر وہ شمالی کوریا کے صدر جناب کم کو ْ ٹھگنا ْ یا ْ موٹا ْ نہیں کہیں گے ۔ 

اس کو کہتے ہیں کچھ بھی نہ کہنے کا دعویٰ اور کہہ بھی دینا ۔ 

الفاظ کا چناو ایک فن ہے ، اور الفاظ چننے میں کچھ لوگ بڑے فنکار ہوتے ہیں ۔بڑ ے لوگ مگر عام طور پر فنکار ہی ہوتے ہیں۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں امریکی صدر بڑے فنکار ہیں۔ یہ بھی غلط نہ ہو گا اگر ہم کہیں فنکار لوگ بڑ ے ہوتے ہیں۔بڑے ہونے کے لیے کسی نہ کسی فن کا کاریگر یا ماہر ہونا لازمی ہے ۔موجودہ دور میں 
خطابت بڑا ْ زر آمدْ فن ہے، اس فن میں کچھ لوگ بغیر پی ایچ ڈی کے ماسٹر ہوتے ہیں جیسے ہمارے
مولانافضل الرحمن صاحب ۔ اس فن میں کوئی دوسرا مولانا، ان کی ہم سری کا دعویٰ نہیں کر سکتا ۔ 

دوسرے کی جیب سے روپیہ نکالنا بھی ایک فن ہے ۔ ہمارے کئی فن کار یہ کام کرتے ہیں اور اس روپے کو عوام کے لئے نفع رسان ادارے بنا کر داد بھی پاتے ہیں۔ایسا ہی ایک فنکار عبدالستار ایدھی بھی تھا ۔ اللہ تعالیٰ اپنی جنت میں ، اس بھیک مانگنے والے اور لوگوں کے ناجائز بچے پالنے والے ، کی روح کو سکون دے اور درجات بلند کرے۔وہ عمر کے آخری حصے تک ْ بڈھا ْ ہوا نہ اس کا قد ْ ٹھگنا ْ تھا ۔ البتہ وہ مولانا ضرور تھا ۔ مولانا عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے
ْ ہمار ا مولا ْ 

فیصلہ اور وقت کا چناو




میں نے 1976 میں کالج کی تعلیم کے بعداپنی عملی زندگی کا آغاز مشرق وسطیٰ سے کیا تھا۔  سادہ، مہمان 
نواز عربوں کے معاشرہ اور انفرادی تبدیلوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے، بہت سی تبدیلیاں مثبت ہیں اور مگر کچھ حقائق سدا بہار ہوتے ہیں ، جیسے صدیوں پرانا یہ قول  ْ دولت اپنا سر اونچا کیے بغیر نہیں رہتی ْ  دولت نے شاہراہوں پہ بھاگتی گاڑیوں کو جس قدر تیز رفتاری عطا کی ہے ، عوامی مشکلات کو حل کرنے والے ادارں کی کارکردگی کو اتنا ہی سست بھی کیا ہے، رویات سے جڑی انسان دوستی کو وطنیت کے افتخار نے پچھاڑ دیا ہے، دین سے جڑی انکساری کوآسائش نے مات دے دی ہوئی ہے۔ اور سوچ کا یہ انداز غالب ہے کہ  ْ زر سے سب کام ممکن ہیں ْ اور جب زر ہی کار گر ہے تو پھر کا ر (محنت )کیوں کیا جائے۔ ترقی کا معیار عمارت کا جاذب نظر اور بلند تر ہونا ہے ، فرد اور معاشرہ مغرب  سے متاثر ہو چکا ہے ، مشاورت امریکہ کی مقبول ہے ، اور بن سلیمان کی آنکھوں کوخیرہ کیا ہے متحدہ امارات میں جاری کاروباری سرگرمیوں ، تفریحی مراکز ، چکاچوند کر دینے والے نظاروں، اور اڑان بھرتے مسافر طیاروں کی کثرت نے۔ 


اگر امارات میں یہ ہو سکتا ہے تو سعودیہ میں کیوں نہیں ، عرب کلچر ، قبائلی روایات تو ایک جیسی ہی ہیں۔



سعودی شہزادے کے مددگار اماراتی حکمران ہیں، مشیر کمپنی بھی امارات والوں کی
Recomended 
ہے ۔

2015
  میں محسوس کیا گیا کہ ْ عمر رسیدہ ْ مذہبی عنصر ترقی کی راہ روکے ہوئے ہے ، ایسی رکاوٹوں کو برطرف ہی نہیں کیا گیا بلکہ نوجوان علماء کو سامنے لایا گیا ۔ جن کا بات کرنے کا انداز بدلا ہوا ہے 
بن سلیمان نے اپنے معاشرے کو دوبئی سے بھی آگے دیکھنے کا خواب دیکھا ہے۔
Vision 2030 & Dream city NEOM
اسی سوچ کے مظہر ہیں۔اور اس کا عربی میں نام روئیت سعودی 2030 ہے۔جون 2018 سے عورتو ں کو ڈرائیونگ کی اجازت دینا اسی تبدیلی کا ابتدائی حصہ ہے۔


NOEM
کا شہر بسانے کا ارادہ ، جس میں سارا کام ہائی ٹیک کمپیوٹر اور روبوٹ کریں گے، خوش لباس مرد اور خوبصورت عورتیں کام کریں گے۔ تفریحی مراکز ایسے ہوں گے جہاں خواتین بکنی پہن کر گھوم سکیں گی، کاروبار کے لئے یہ شہر تین براعظموں کے تاجروں کا گڑھ ہو گا ، ہر قسم کی آسائش�آرام اور تفریح موجود ہو گئی۔ مستقبل کے شہر کی ایک خیالی ویڈیو سعودیہ سے باہر کسی دوسرے شہر میں بنائی گئی ہے اور اس ویڈیو کو بنانے والی مشیر کمپنی نے اس کو دکھانے کا انتظام اسی 
Ritz Carlton Riyadh

ہوٹل میں کیا گیا تھا، اس میں بن سلیمان کے وزیر خزانہ ابراہیم العساف، شہزادہ ترکی بن ناصر، شہزادہ فہد بن عبدللہ، شاہی محل کے نگران خالد التویجری ہی نہیں ، متعب بن عبداللہ اور دوسرے شہزداے بھی شامل تھے ، جن کو ۴ نومبر کی شام کو اسی ہوٹل میں گرفتار کر کے لایا گیا تھا، کچھ لوگ گاڑیوں میں بھر کر لائے گئے، ولید بن طلال اپنے سپر بوئنگ پر بدیس سے بن سلیمان کی ذاتی دعوت پر آئے تھے، متعب بن عبدللہ کو بتایا گیا تھا کہ اہم اجلاس میں شامل ہونا ہے وہ اپنے فارم ہاوس سے خود اجلاس میں شرکت کے لئے پہنچے تھے، گرفتاریوں کا سارا عمل زبردست تیاری اور کمال رازداری سے کیا گیا ، اس کاروائی کو قریب سے دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ شاہی خاندان کے اس وقت پانچ ہزار سے زیادہ افراد نہ صرف نظر یا قید ہیں بلکہ ان کے اکاونٹ بھی منجمد ہیں۔آل سعود کے علاوہ دوسرے کرپٹ لوگ جو حراست میں لیے گئے ہیں اور مسلسل لئے جارہے ہیں ان کی تعداد کبھی بھی معلوم نہ ہو پائے گی۔
چار
 نومبر کی تحریک میں بن سلیمان کو اپنے دوست کشنیر ( امریکی صدر کے یہودی داماد اور مشیر ) کی مشاورت اورخود امریکی صدر کی اشیر باد حاصل ہے۔ امریکی طاقت کی دنیا معترف ہے اور سعودی بھی دنیا ہی کے باسی ہیں۔

ایک معاشی ماہر نے بتایا کہ روس میں
2003
 ولادمیر پیوٹن نے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا ارادہ کیا تو روس کے سب سے دولت مند شخص میخائیل خوردورکووسکی کو گرفتار کیا ، اور اس کوسائبیریا کے ایک لیبر کیمپ میں بجھوایا تو راتوں رات روس سے سارے سرمایہ کار بھاگ گئے۔اور ہوا یہ کہ پیوٹن اپنی ہی طاقت ور بیوروکریسی کے یرغمال بن گئے ۔ لیکن مغربی مبصرین یہ بھول جاتے ہیں کہ بادشاہت کا انجن تو چلتا ہی بیورو کریسی کی پٹڑی پر ہے۔ اور سعودیہ میں شاہی بیوروکریسی اس قدر طاقت ور ہے کہ وہ بادشاہت کے ادارے کا تو ہرسطح پر بھرم قائم رکھ سکتی ہے مگر بن سلیمان کی تبدیلی کے لئے وہ ساتھ دے پائے گی یا نہیں

بن سلیمان کے سعودی نوجوان کے سامنے آل سعود کی کرپشن کھول کر رکھ دینے کے بعد اپنی ذات کو ملک کے اندر مستحکم کر لیا ہے ، اس کرپشن کہانی سے جڑے دولت کے انبار کس کو کس کا دشمن بنائے گی یہ وقت بتائے گا کیونکہ دولت کی اوصاف میں یہ بھی ہے کہ وہ ْ دشمن پیدا کرتی ہے ْ ۔ اور ایسے دشمن بنانے میں یہی مشیر ، سعودیوں ہی کے خرچے پر مددگار ہوں گے۔

سعودی معاشرہ پرکرپشن ان کی دولت ہی کے سبب اثر انداز نہ ہو سکی مگر سعودی میں بہنے والا خون ْ ثارْ کا طلب گار رہے گا۔
Vision 2030 
کا پہلا پڑاو
2020
 ہے، اس سال معلوم ہو جائے گا کہ اس بس سے کتنی مطمن سواریاں اتری ہیں اور بس میں کتنے نئے مسافر چڑہانے کی گنجائش ہے۔
یہ بیان کر دینا بھی مناسب ہے کہ میڈیا کا ایک حصہ داعی ہے کہ سعودی خواب ( روئت السعودی 2030) بیرونی دباو کا شاخسانہ ہے۔


ٓاصل بات یہ ہے کہ
بن سلیما ن کے دو اقدام اپنی ٹائمنگ کی وجہ سے گڈ مڈ ہو گئے ہیں ، کرپشن کے خلاف اقدامت کی خبریں اولیت پر آ گئی ہیں جب کہ ترقی کے خوابکی خوش کن خبریں دب گئی ہیں۔ 

پیر، 13 نومبر، 2017

مثبت پیش رفت


مثبت پیش رفت
کیا آل سعود اپنے اختلافات پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے ، اس کا فیصلہ آئندہ چند ہفتوں میں سامنے آ جائے گا مگر شاہ سلیمان کا مدینہ المنورہ سے ریاض واپس پہنچ کر شہزادہ خالد بن عائف المقرن سے وزارت الحرس الوطنی کا حلف لینا ایک مثبت پیش رفت کا پیش خیمہ ثابت ہو رہا ہے ، برطانیہ میں مقیم شاہی خاندن سے منسلک ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ ملزمان کے مقدمات کا فیصلہ ایک غیر جانب دار اور آزاد عدلیہ کرے گی ، ریاض میں خبروں کا مکمل بلیک آوٹ ہے ۔
یہ امید بھی اچھی ہے کہ لبنان کو جنگ سے بچا لیا جائے گا مگر اسلحہ کے ڈیلر انگاروں پر تیل ڈالنا جاری رکھے ہوئے ہیں،البتہ وہ میزائل جو یمنی حوثیوں نے ریاض ائر پورٹ پر داغا تھا اس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ امریکہ ساختہ ہے۔