منگل، 14 نومبر، 2017

ہمارا مولا






امریکہ کے صدر جناب ٹرمپ صاحب نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کے صدر نے ان کو ْ بڈھا ْ کہہ کر ان کی توہین کی ہے مگر وہ شمالی کوریا کے صدر جناب کم کو ْ ٹھگنا ْ یا ْ موٹا ْ نہیں کہیں گے ۔ 

اس کو کہتے ہیں کچھ بھی نہ کہنے کا دعویٰ اور کہہ بھی دینا ۔ 

الفاظ کا چناو ایک فن ہے ، اور الفاظ چننے میں کچھ لوگ بڑے فنکار ہوتے ہیں ۔بڑ ے لوگ مگر عام طور پر فنکار ہی ہوتے ہیں۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں امریکی صدر بڑے فنکار ہیں۔ یہ بھی غلط نہ ہو گا اگر ہم کہیں فنکار لوگ بڑ ے ہوتے ہیں۔بڑے ہونے کے لیے کسی نہ کسی فن کا کاریگر یا ماہر ہونا لازمی ہے ۔موجودہ دور میں 
خطابت بڑا ْ زر آمدْ فن ہے، اس فن میں کچھ لوگ بغیر پی ایچ ڈی کے ماسٹر ہوتے ہیں جیسے ہمارے
مولانافضل الرحمن صاحب ۔ اس فن میں کوئی دوسرا مولانا، ان کی ہم سری کا دعویٰ نہیں کر سکتا ۔ 

دوسرے کی جیب سے روپیہ نکالنا بھی ایک فن ہے ۔ ہمارے کئی فن کار یہ کام کرتے ہیں اور اس روپے کو عوام کے لئے نفع رسان ادارے بنا کر داد بھی پاتے ہیں۔ایسا ہی ایک فنکار عبدالستار ایدھی بھی تھا ۔ اللہ تعالیٰ اپنی جنت میں ، اس بھیک مانگنے والے اور لوگوں کے ناجائز بچے پالنے والے ، کی روح کو سکون دے اور درجات بلند کرے۔وہ عمر کے آخری حصے تک ْ بڈھا ْ ہوا نہ اس کا قد ْ ٹھگنا ْ تھا ۔ البتہ وہ مولانا ضرور تھا ۔ مولانا عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے
ْ ہمار ا مولا ْ 

فیصلہ اور وقت کا چناو




میں نے 1976 میں کالج کی تعلیم کے بعداپنی عملی زندگی کا آغاز مشرق وسطیٰ سے کیا تھا۔  سادہ، مہمان 
نواز عربوں کے معاشرہ اور انفرادی تبدیلوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے، بہت سی تبدیلیاں مثبت ہیں اور مگر کچھ حقائق سدا بہار ہوتے ہیں ، جیسے صدیوں پرانا یہ قول  ْ دولت اپنا سر اونچا کیے بغیر نہیں رہتی ْ  دولت نے شاہراہوں پہ بھاگتی گاڑیوں کو جس قدر تیز رفتاری عطا کی ہے ، عوامی مشکلات کو حل کرنے والے ادارں کی کارکردگی کو اتنا ہی سست بھی کیا ہے، رویات سے جڑی انسان دوستی کو وطنیت کے افتخار نے پچھاڑ دیا ہے، دین سے جڑی انکساری کوآسائش نے مات دے دی ہوئی ہے۔ اور سوچ کا یہ انداز غالب ہے کہ  ْ زر سے سب کام ممکن ہیں ْ اور جب زر ہی کار گر ہے تو پھر کا ر (محنت )کیوں کیا جائے۔ ترقی کا معیار عمارت کا جاذب نظر اور بلند تر ہونا ہے ، فرد اور معاشرہ مغرب  سے متاثر ہو چکا ہے ، مشاورت امریکہ کی مقبول ہے ، اور بن سلیمان کی آنکھوں کوخیرہ کیا ہے متحدہ امارات میں جاری کاروباری سرگرمیوں ، تفریحی مراکز ، چکاچوند کر دینے والے نظاروں، اور اڑان بھرتے مسافر طیاروں کی کثرت نے۔ 


اگر امارات میں یہ ہو سکتا ہے تو سعودیہ میں کیوں نہیں ، عرب کلچر ، قبائلی روایات تو ایک جیسی ہی ہیں۔



سعودی شہزادے کے مددگار اماراتی حکمران ہیں، مشیر کمپنی بھی امارات والوں کی
Recomended 
ہے ۔

2015
  میں محسوس کیا گیا کہ ْ عمر رسیدہ ْ مذہبی عنصر ترقی کی راہ روکے ہوئے ہے ، ایسی رکاوٹوں کو برطرف ہی نہیں کیا گیا بلکہ نوجوان علماء کو سامنے لایا گیا ۔ جن کا بات کرنے کا انداز بدلا ہوا ہے 
بن سلیمان نے اپنے معاشرے کو دوبئی سے بھی آگے دیکھنے کا خواب دیکھا ہے۔
Vision 2030 & Dream city NEOM
اسی سوچ کے مظہر ہیں۔اور اس کا عربی میں نام روئیت سعودی 2030 ہے۔جون 2018 سے عورتو ں کو ڈرائیونگ کی اجازت دینا اسی تبدیلی کا ابتدائی حصہ ہے۔


NOEM
کا شہر بسانے کا ارادہ ، جس میں سارا کام ہائی ٹیک کمپیوٹر اور روبوٹ کریں گے، خوش لباس مرد اور خوبصورت عورتیں کام کریں گے۔ تفریحی مراکز ایسے ہوں گے جہاں خواتین بکنی پہن کر گھوم سکیں گی، کاروبار کے لئے یہ شہر تین براعظموں کے تاجروں کا گڑھ ہو گا ، ہر قسم کی آسائش�آرام اور تفریح موجود ہو گئی۔ مستقبل کے شہر کی ایک خیالی ویڈیو سعودیہ سے باہر کسی دوسرے شہر میں بنائی گئی ہے اور اس ویڈیو کو بنانے والی مشیر کمپنی نے اس کو دکھانے کا انتظام اسی 
Ritz Carlton Riyadh

ہوٹل میں کیا گیا تھا، اس میں بن سلیمان کے وزیر خزانہ ابراہیم العساف، شہزادہ ترکی بن ناصر، شہزادہ فہد بن عبدللہ، شاہی محل کے نگران خالد التویجری ہی نہیں ، متعب بن عبداللہ اور دوسرے شہزداے بھی شامل تھے ، جن کو ۴ نومبر کی شام کو اسی ہوٹل میں گرفتار کر کے لایا گیا تھا، کچھ لوگ گاڑیوں میں بھر کر لائے گئے، ولید بن طلال اپنے سپر بوئنگ پر بدیس سے بن سلیمان کی ذاتی دعوت پر آئے تھے، متعب بن عبدللہ کو بتایا گیا تھا کہ اہم اجلاس میں شامل ہونا ہے وہ اپنے فارم ہاوس سے خود اجلاس میں شرکت کے لئے پہنچے تھے، گرفتاریوں کا سارا عمل زبردست تیاری اور کمال رازداری سے کیا گیا ، اس کاروائی کو قریب سے دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ شاہی خاندان کے اس وقت پانچ ہزار سے زیادہ افراد نہ صرف نظر یا قید ہیں بلکہ ان کے اکاونٹ بھی منجمد ہیں۔آل سعود کے علاوہ دوسرے کرپٹ لوگ جو حراست میں لیے گئے ہیں اور مسلسل لئے جارہے ہیں ان کی تعداد کبھی بھی معلوم نہ ہو پائے گی۔
چار
 نومبر کی تحریک میں بن سلیمان کو اپنے دوست کشنیر ( امریکی صدر کے یہودی داماد اور مشیر ) کی مشاورت اورخود امریکی صدر کی اشیر باد حاصل ہے۔ امریکی طاقت کی دنیا معترف ہے اور سعودی بھی دنیا ہی کے باسی ہیں۔

ایک معاشی ماہر نے بتایا کہ روس میں
2003
 ولادمیر پیوٹن نے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا ارادہ کیا تو روس کے سب سے دولت مند شخص میخائیل خوردورکووسکی کو گرفتار کیا ، اور اس کوسائبیریا کے ایک لیبر کیمپ میں بجھوایا تو راتوں رات روس سے سارے سرمایہ کار بھاگ گئے۔اور ہوا یہ کہ پیوٹن اپنی ہی طاقت ور بیوروکریسی کے یرغمال بن گئے ۔ لیکن مغربی مبصرین یہ بھول جاتے ہیں کہ بادشاہت کا انجن تو چلتا ہی بیورو کریسی کی پٹڑی پر ہے۔ اور سعودیہ میں شاہی بیوروکریسی اس قدر طاقت ور ہے کہ وہ بادشاہت کے ادارے کا تو ہرسطح پر بھرم قائم رکھ سکتی ہے مگر بن سلیمان کی تبدیلی کے لئے وہ ساتھ دے پائے گی یا نہیں

بن سلیمان کے سعودی نوجوان کے سامنے آل سعود کی کرپشن کھول کر رکھ دینے کے بعد اپنی ذات کو ملک کے اندر مستحکم کر لیا ہے ، اس کرپشن کہانی سے جڑے دولت کے انبار کس کو کس کا دشمن بنائے گی یہ وقت بتائے گا کیونکہ دولت کی اوصاف میں یہ بھی ہے کہ وہ ْ دشمن پیدا کرتی ہے ْ ۔ اور ایسے دشمن بنانے میں یہی مشیر ، سعودیوں ہی کے خرچے پر مددگار ہوں گے۔

سعودی معاشرہ پرکرپشن ان کی دولت ہی کے سبب اثر انداز نہ ہو سکی مگر سعودی میں بہنے والا خون ْ ثارْ کا طلب گار رہے گا۔
Vision 2030 
کا پہلا پڑاو
2020
 ہے، اس سال معلوم ہو جائے گا کہ اس بس سے کتنی مطمن سواریاں اتری ہیں اور بس میں کتنے نئے مسافر چڑہانے کی گنجائش ہے۔
یہ بیان کر دینا بھی مناسب ہے کہ میڈیا کا ایک حصہ داعی ہے کہ سعودی خواب ( روئت السعودی 2030) بیرونی دباو کا شاخسانہ ہے۔


ٓاصل بات یہ ہے کہ
بن سلیما ن کے دو اقدام اپنی ٹائمنگ کی وجہ سے گڈ مڈ ہو گئے ہیں ، کرپشن کے خلاف اقدامت کی خبریں اولیت پر آ گئی ہیں جب کہ ترقی کے خوابکی خوش کن خبریں دب گئی ہیں۔ 

پیر، 13 نومبر، 2017

مثبت پیش رفت


مثبت پیش رفت
کیا آل سعود اپنے اختلافات پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے ، اس کا فیصلہ آئندہ چند ہفتوں میں سامنے آ جائے گا مگر شاہ سلیمان کا مدینہ المنورہ سے ریاض واپس پہنچ کر شہزادہ خالد بن عائف المقرن سے وزارت الحرس الوطنی کا حلف لینا ایک مثبت پیش رفت کا پیش خیمہ ثابت ہو رہا ہے ، برطانیہ میں مقیم شاہی خاندن سے منسلک ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ ملزمان کے مقدمات کا فیصلہ ایک غیر جانب دار اور آزاد عدلیہ کرے گی ، ریاض میں خبروں کا مکمل بلیک آوٹ ہے ۔
یہ امید بھی اچھی ہے کہ لبنان کو جنگ سے بچا لیا جائے گا مگر اسلحہ کے ڈیلر انگاروں پر تیل ڈالنا جاری رکھے ہوئے ہیں،البتہ وہ میزائل جو یمنی حوثیوں نے ریاض ائر پورٹ پر داغا تھا اس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ امریکہ ساختہ ہے۔

اتوار، 12 نومبر، 2017

سعودیہ اور لبنان


مشرق وسطیٰ انسانیت کا قبرستان ہونے کا منطر پیش کر رہاہے، بیماری، بھوک، بے انصافی اور طرح طرح کی مظلومیت اکیسویں صدی کے اس عشرے میں انسان کو شرمندہ کرنے کا لیے کافی ہے مگر اب تو شرمندگی بھی منہ چھاتی ہے، حالانکہ یہ وسائل سے مالا مال ہی نہیں بلکہ اہل کتاب کے مذہبی عقیدتوں کے مراکزکا بھی خطہ ہے۔اور حیران کن طور پر اسلام، عیسائیت اور یہودیت تینوں مذاہب امن اور در گذر کا سبق دیتے ہیں۔ 
لبنان میں فریق سنی، شیعہ، عیسائی اور دروز ہیں۔ اور اصل حریف سنی اور شیعہ ہیں۔میدان لبنان میں سجایا جارہا ہے مگر اصل مقابلہ ایران ور سعودیہ میں ہے اور اسرائیل منڈھیر پر بیٹھ کر فیصلہ کرے گا کہ کون سا فریق کمزور پڑھ رہا ہے تاکہ وہ میزان کے اوپر اٹھ جانے پلڑے میں اتنا وزن ڈال دے تاکہ مقابلہ جاری و ساری رہے اور شیعہ ایران یا سنی سعودیہ میں سے ایک مجبور ہوجائے کہ اس کے ساتھ اسی کی شرائظ پر دوستی کی بھیک کا طالب ہو۔ اورامریکہ اس سارے عمل کا ضمانتی ہے۔ہماری بحث کا محورچونکہ سعودیہ کے بن سلیمان ہیں اور

                                    

لبنانی سنی وزیر اعظم کا ریاض میں بیٹھ کر استعفیٰ کا اعلان کرنا ، بن سلیمان کا یمن پر حملہ کرنے جیسا ہی ایڈونچر مانا جاتا ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حزب اللہ ملیشیا کو ایران سمجھتا ہے اور لبنانی حکومت کو حزب اللہ، اب حریری نے استعفیٰ دے کر اسرائیل کو موقع میسر کر دیا ہے کہ وہ چاہے تو حزب اللہ سے نمٹ سکتا ہے ،
                            

مگر مسئلہ یہ ہے کہ حزب اللہ کے زخمی ہونے کی صورت میں اس پر مرہم ،یمن سے ریاض پر میزائل داغ کر ، رکھی جائے گی، اور ریاض کے ہوائی اڈے کے قریب ایک میزائل داغ کر وارننگ دے دی گئی ہے۔ ریاض کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر میزائل گرا تو 
vision 2030 
کی تباہی نوشتہ دیوار ہے جس کے مطابق بن سلیمان ریاض میں بیرونی سرمایہ کار لانا چاہتے ہیں۔
سعودیہ کا لبنان میں کردار نئی بات نہیں ہے مگر یہ بات نئی ہے کہ سعودیہ آل سعود کی خاندانی گرفت سے نکل کر مطلق العنان بادشاہ کے ہاتھ میں آیا ہی چاہتا ہے ۔
بن سلیمان کی حکمرانی کے لیے یمن کا کمبل ریچھ کا روپ دھار چکا ہے، اندرونی خاندانی خلفشار پریشانی کا موجب بن رہا ہے، لبنانی محاذ گرم ہونے کے لیے تیار ہے ۔ 
ان تما م چیلنج اور رکاوٹوں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ سعودیہ کے اندر نوجوان اس قوم پرست شہزادے کو اپنے مستقبل کا محافظ اور خواتین تبدیلی کا علمبردار مانتی ہیں۔

 بن سلیمان اس حمائت کو کیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں اس کا جواب بھی جلد مل جائے گا ۔
کیونکہ
امریکہ کے اسرائیل میں سابق سفیر 

                                           

Mr Dan Shapiro                                                    
کا کہنا ہے ْ محمد بن سلیمان بے صبرا شخص ہے ْ

ہفتہ، 11 نومبر، 2017

اسرائیل کا ذکر

اسرائیل کا ذکر


اسرائیل کے نقشے کو دوبارہ دیکھیں ۔ پھیلتا سفید اور سکڑتا سبز رنگ اس حیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل پاوں پسار رہا ہے۔عرب اسرائیل کو وہ اونٹ گردانتے ہیں جس کے مالک نے بارش سے بچنے کے لیے اونٹ کو اپنا منہ خیمے کے اندر کر لینے کی اجازت دی تھی مگر ہوا یہ کہ تھوڑی دیر بعد ہی اونٹ اندر اور بدو خیمے کے باہر کھڑا تھا۔
اسرائیل کی دفاعی حکمت عملی، معاشی ترقی، فنی مہارت کا سبب وہ تین درجن یو نیورسٹیاں ہیں جو ماہرانہ تحقیق کا مرکز ہیں (اسرائیل کی آبادی ملین سے بھی کم ہے )۔
اسرائیل مسلمانوں کا غیر جذباتی حریف ہے اس کے عزائم ہیں، عوام اور حکومت میں اعتماد کا رشتہ قائم ہے۔ اس کے ہمسائیوں میں جو اس کو کچل دینے کے نعرے لگاتے تھے مگر اپنوں ہی کے ہاتھوں کچلے گئے۔ لے دے کے خطے میں دو ہی مسلمان ممالک ہیں ایک شیعہ ہونے کا دعوے دار ہے دوسرا سنی ہونے کی پہچان کراتا ہے مگر اسرائیل دونوں کو مسلمان مانتا ہے ، اسرائیل چاہتا ہے کہ وہ اپنا شہری مروائے بغیر دونوں میں ے ایک کو ختم کر دے تاکہ اس کے دشمنوں میں سے ایک تو کم ہو۔
3
 نومبر 2017 کو اسرائیلی وزیراعظم کا بیان تھا ْ اسرائیل کوشش کر رہا ہے، بہت کوشش کر رہا ہے کہ خطے کی کسی سنی ریاست کا اسے ساتھ حاصل ہو جائے تاکہ وہ ایران کے خطرے سے نمٹ سکے ْ 5 نومبر کو پھر کہا  ْ جب عرب اور اسرائیل ، تمام عرب اور اسرائیل ، ایک سوچ پر متفق ہیں تو پھر عوام کو بھی اس سوچ کا ساتھ دینا چاہیے ْ 
اسرائیل سالوں سے کوشش کر رہا ہے کہ اسے سعودیہ کا ساتھ حاصل ہو جائے۔لیکن سعودیہ کے لیے یہ 
ممکن نہیں ہے