منگل، 7 جولائی، 2020

شہید جاتے ہیں جنت کو گھر نہیں آتے


برطانیہ کے ایک باسی کم  اے ویگنر کی2017 میں ایک کتاب شائع ہوئی تھی  جس کا عنوان تھا  عالم بیگ کی کھوپڑی۔ کتاب کے مطابق  1857 کے غدر میں 7 یورپین باشندوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والا، اتر پردیش  (انڈیا)  کا  باسی حوالدار عالم بیگ جس کو بطور سزا بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا، کی کھوپڑی اس کے پاس ہے۔ مصنف نے کتاب میں خواہش کی تھی کہ یہ کھوپڑی حوالدار عالم بیگ کے لواحقین تک پہنچ جائے اور اسے اپنے وطن میں احترام کے ساتھ دفن کر دیا جائے۔
فوجی تنازعوں میں جان قربان کرنے والے لوگ ایک طبقے کے مجرم ہوتے ہیں جبکہ دوسرے طبقے کے ہیرو ہوتے ہیں۔ 
فرانس کے شہر پیرس کے ایک عجائب گھر میں 24 انسانی کھوپڑیاں رکھی ہوئی تھیں جو فرانس کے بقول اس کے باغی تھے۔ مگر الجزائریوں کے نزدیک وہ محترم اور جنگ آزادی کے ہیرو تھے۔ طویل عرصے سے الجزائری اپنے ہیرو کی باقیات کی واپسی کے لیے فرانس سے بات چیت کر رہے تھے۔ جولائی 2020 کی صبح ایک طیارہ فرانس سے ان چوبیس ہیروز کی کھوپڑیاں لے کر الجزائر کی حدود میں داخل ہوا تو طیارے کو جنگی جہازوں نے اپنے حصار میں لے لیا۔ الجزائر کے قومی پرچم میں لپٹے تابوتوں میں بند ان باقیات کو اپنی سرزمین پر پہنچنے پر اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔ فوجی دستے  نے اعزازی سلامی دی اور ملک کے صدر نے ان تابوتوں کے سامنے اپنا سر نگوں کر کے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔اور سرکاری طور پر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ جنگ آزادی کے ہیرو اپنی سر زمین پر لوٹ آئے ہیں۔
 امریکہ نے  1846  میں میکسیکو پر حملہ کیا اور آدہے میکسیکو پر قبضہ کر لیا۔  ایروزونا، کیلی فورنیا، نیواڈا،اوٹا ، ویومنگ اور نیو میکسیکو کے نام سے ان علاقوں کو امریکہ میں شامل کر لیا۔اس جنگ میں امریکہ کے جو فوجی میکسیکو میں مارے گئے تھے ان کی باقیات  امریکہ نے 170  سال بعد واپس حاصل کر لیں کہ  اپنی سرزمین پر لوٹ آنا بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔
جرمنی اپنے نوآبادیاتی دور  (1884 ۔  1919) میں نمبیا سے  بیس انسانی کھوپڑیاں سائنسی تجربات کے لیے برلن لایا۔ مگر  2011 میں وہ  بنیادی انسانی حق کی بنیاد پر ان کھوپڑیوں کو  اپنی سرزمین پر لوٹانے پر مجبور ہوا۔
پاکستان نے چوبیس جون 2006 میں اپنے ایک غدار اور بنگلہ دیش کے ہیرو پائلٹ مطیع الرحمان جو  بیس اگست  1971 کو پاکستان ائر فورس کا جہاز اغوا کر کے بھارت لے جانے میں ناکام ہوا تھا کی باقیات کراچی کے مسرور ائر بیس کے قبرستان سے نکال کر بنگلہ دیش کے حوالے کی تھی۔ تو بھی وجہ بنیادی انسانی حق ہی بنی تھی۔
بنگالیوں نے اپنے ہیرو کی باقیات کو ڈہاکہ میں فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا۔ جیسور ائر بیس کو اس کے نام سے منسوب کیا اور اپنے ملک کا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز پیش کیا۔ اور ہر سال اس کے نام کی ٹرافی اپنے بہترین کیڈٹ کو پیش کرتا ہے۔
پاکستان کا مایہ ناز فوجی میجرمحمد اکرم  (1938۔ 1971) جنھوں نے مشرقی پاکستان میں غیر معمولی بہادری کا مظاہرہ کر کے پاکستان پر اپنی جان نچھاور کی تھی اور پاکستان نے انھیں نشان حیدر جیسے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا تھا۔ ان کا تعلق جہلم کے علاقے ڈنگہ سے تھا۔ جہلم شہر کے وسط میں ان کی یادگار بھی ہے مگر وہ خود بنگلہ دیش کے علاقے راجشاہی کے ایک گاوں بولدار میں دفن ہیں۔
جب جنرل مشرف بطور صدر مملکت بنگالی پائلٹ مطیع الرحمان کی باقیات بنگالیوں کے حوالے کر رہا تھا اور پاکستان میں میجر اکرم شہید نشان حیدر کے جسد خاکی کی واپسی کی آواز یں اٹھیں تھی مگر ہماری تاریخ ہے کہ ہم اپنے سویلین ہی نہیں فوجی ہیروز کو بھی بھول جاتے ہیں۔
نہ انتظار کرو ان کا اے عزادارو
(شہید جاتے ہیں جنت کو گھر کو نہیں آتے   (صابر ظفر

اتوار، 21 جون، 2020

آدمی ہر دل عزیز تھا


  
عبد العزیزپاکستانی جب جالندھر سے ہجرت کر کے پاکستان آیا تو اس منٹگمری (سائیوال) کے کربلا روڈ پر اسے رہنے کے  کے لیے ایک چھوٹا سا مکان الاٹ ہوا۔ بلوے کا دور تھا۔ طارق عزیز بن عبدالعزیز  نے غربت،  محرومی،  نا انصافی  اور انسان کے ہاتھوں انسانیت کو قتل ہوتے اپنی دیکھتی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ سنتے کان بھی رکھتا تھا اور  اس کے سینے میں انسان دوست دل بھی تھا ۔



   ایک دفعہ چندہ لینے کے لیے "اس" بازار میں گیا۔ایک طوائف نے اپنی ساری جمع پونجی اس کے حوالے کر دی۔ طارق نے بھرے بازار میں اس کے پاوں چوم لیے    طارق عزیز کے بارے میں یہ جملہ راجہ انور  (جو ذولفقار علی بھٹو کے مشیر تھے) نے اپنی کتاب جھوٹے روپ کے درشن میں لکھا ہے۔ 

طارق عزیز جب سائیوال سے لاہور کے لیے چلا  تو اس کی منزل فلمی دنیا تھی۔اس نے ہوٹلوں میں میز صاف کیے،  گاڑیوں کو 
دہویا،  لاہور کی سڑکوں پر سویا مگر اس نے ہار نہیں مانی۔اس نے خواب بڑا دیکھا ہوا تھا۔ قانون فطرت ہے کہ بار بار کی ناکامی انسان کو کامیابی کا رستہ دکھاتی ہے۔ طارق عزیز کو کامیابی کی راہ ریڈیو پاکستان لے گئی۔ ریڈیو پاکستان کی بغل میں جب صدر ایوب خان نے 1964 میں پی ٹی وی کا افتتاح کیاتو ٹی وی پر افتتاحی اعلان کرنے والا طارق عزیز تھا۔1975 میں پروڈیسر عارف رانا کے ساتھ مل کر ظارق عزیز نے نیلام گھر کی بنیاد رکھی۔ یہ کوئیز شو       ابتداء  ہے رب جلیل کے با برکت نام سے جو دلوں کے بھید جانتا ہے    سے شروع ہوتا اور    پاکستان زندہ باد   کے الفاظ پر ختم ہوتا مگر جمعرات کے دن ایک گھنٹے کا نیلام گھر اس لحاظ سے انقلابی ثابت ہوا کہ اس نے نوجوانوں میں علم سیکھنے  اور کتاب پڑہنے کی جوت ہی نہیں جگائی بلکہ اپنی اقدار و روایات سے بھی روشناس کرایا۔ طارق عزیز خود طالب علم، کتاب دوست،  صداکار، شاعر، کمپیئر ، ادب شناس ہونے کے ساتھ بڑا پاکستانی بھی تھا۔ اس نے نیلام گھر کے ناظرین میں وطن کی محبت جاگزیں کی۔
  
بچپن کی محرومیوں نے اسے ما وزے تنگ کی بائیں بازو کی ناو میں بٹھا دیا تھا۔ جب ذولفقار علی بھٹو نے لاہور میں ماو کی دی ہوئی ٹوپی لہرائی اور روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگایا تو طارق عزیز نے اکثر پاکستانیوں کی طرح بھٹو کا ساتھ دیا۔ مگر 1989  تک پیپلز پارٹی کی ناو کے لیے راوی کا پانی خشک ہو چکا تھا۔ اب قوم کا نجات دہندہ نواز شریف تھا۔ طارق عزیز نے قوم کا ساتھ دیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کے حق میں جب میڈیا میں پروپیگنڈہ شروع ہوا اور کپتان کو پاکستان کا نجات دہندہ بنا کر پیش کیا گیا تو طارق عزیز کی ہمدردیاں کپتان کے ساتھ ہو گئیں۔ یہ المیہ سب ہی پاکستانیوں کا ہے اور طارق عزیز  تو بڑا پاکستانی تھا۔دراصل  وہ ایک نظریاتی، اصول پرست،  عوام دوست اور ذہین انسان تھا۔اس نے کہاتھا۔
مڈھ  قدیم توں دنیا اندر  دو قبیلے آئے نے
اک جنھاں زہر نی پیتے  دوجے جنہاں زہر پیائے نے

طارق عزیز کے حاسد اسے سیکولر بتاتے وقت بھول جاتے ہیں کہ کہا کرتا تھا    خاک میں خاک ہونے سے پہلے اس خاک
 شفا  (قران)  کو اپنے ماتھے کا جھومر بنا لو۔ دنیا بھی خوش اگلا جہاں بھی خوش 

 اس نے انسانیت،  سالگرہ،  قسم اس وقت کی ، کٹاری ، چراغ کہاں روشی کہاں اور ہار گیا انسان جیسی کامیاب فلموں میں کام کیا مگر اس کو کامیاب انسان  نیلام گھر  نے بنایا۔ طارق عزیز کا بات کرنے کا،  لبا س پہننے کا  اور کام کرنے کا اپنا ایک انداز تھا۔ وہ جو کام کرتا  اس پر طارق عزیز کی چھاپ لگ جاتی۔آج مختلف چینلز پر کوئز پروگرام چل رہے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی نیلام گھر تک نہیں پہنچ پایا۔ نیلام گھر پر طارق عزیز کی چھاپ لگ چکی تھی۔

وہ لکھاری بھی تھا مگر اپنی ہی طرز کا۔ اس نے کالم بھی لکھے مگر دوسروں سے مختلف، اس کے کالموں کے مجموعے کانام  داستان  ہے۔  اس نے ہمزاد دا دکھ  کے نام سے پنجابی میں شاعری بھی کی مگر اپنے ہی انداز میں۔ 
طارق حسن پرست بھی تھا۔ اس کا کراچی سے شائع ہونے والا رسالہ   پندرہویں صدی    اس کی حسن پرستی کی بھینٹ چڑھ گیا۔مگر کراچی ہی میں اس نے  کے پی کے سے تعلق رکھنے والی ہاجرہ سے شادی کر لی ۔ ایک بیٹا بھی تھا جو فوت ہو گیا۔

اس کی موت پر انور شعور نے کہا تھا

وہ دیکھنے کی چیز دکھانے کی چیز تھا
طارق عزیز آدمی ہر دل عزیز تھا

ہفتہ، 30 مئی، 2020

درد لا دوا

1968
ءمیں ایوب خان نے ”ترقیاتی جشن“ پورے پاکستان میں منانے کا اعلان کردیا 


 عوامی لیگ کے طلباءتنظیم ”چھاترو لیگ“ نے احتجاجی تحریک شروع کررکھی تھی۔ عوام بھی ان کا ساتھ دے رہے تھے۔ مغربی پاکستان میں شکر کی کمی نے صورتحال کو مزید خراب کردیا۔ جس کے نتیجہ میں لاہو اور گوجرانوالہ میں کرفیو لگا دیا گیا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک شدت اختیار کرتی جارہی تھی۔1969ء میں مشرقی پاکستان کا شمالی شہر ” پار بتی پور“ میں ایک سازش کے تحت ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک کو توڑنے کے لئے بنگالیوں اور غیر بنگالیوں کے درمیان تصادم کرا دیا گیا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کی سنگین سیاسی صورتحال کو سنبھالنے کے لئے ایوب خان نے لاہور میں ”راﺅنڈ ٹیبل کانفرنس“ کا انعقاد کیا اور شرکت کے لئے جیل سے مجیب الرحمن کو رہا کردیا۔ بھٹو نے کانفرنس کا بائیکاٹ کیا۔ شیخ مجیب الرحمن اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے درمیان مذاکرات ناکام رہے۔ ملک میں شدید سیاسی بحران آگیا جس کے نتیجہ میں جنرل ایوب خان نے 25 مارچ 1969 کو اقتدار سے علیحدہ ہو کر جنرل آغا محمدیحیٰ خان کو سونپ دیا۔ جنرل یحی ٰ خان نے مارشلاءنافذ کردیا اور جلد الیکشن کرانے کا اعلان کردیا۔


شیخ مجیب الرحمن کے ”اعلان آزادی “ سے چند گھنٹہ قبل 25 اور 26 مارچ 1971ء کی رات کو پاکستانی افواج نے ملک دشمنوں کے خلاف ایکشن شروع کردیا ایک ایک انچ پر دوبارہ حکومتی رٹ قائم کرنے کےلئے پاکستان بچانے کےلئے پاکستانی فوج کی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کے چپہ چپہ پر پھیل گئے اور سرحدوں کو محفوظ بنانے کےلئے اقدامات کرنے شروع کر دیئے۔ اگست 1971ءتک حالات معمول پر آنا شروع ہوئے۔ حکومت نے ”عام معافی“ کا اعلان کیا۔ مکتی باہنی، لال باہنی، راکھی باہنی اور دیگر نیم عسکری و عسکری اداروں کے افراد جنہوں نے پاک افواج سمیت دیگر محب وطن پاکستانیوں کا قتل عام کیا تھا۔ وہ تمام معافی کے ذریعہ ہندوستان سے واپس آکر مزید مستحکم ہونے لگے۔ دسمبر 1971ءکی جنگ پہلے ہفتہ میں ہی فضائی اڈے تباہ کر دیئے گئے۔ پہلے ہی سے تیار بھارتی فوج اندر آگئی تھی۔ پاکستانی فوج اپنے اپنے علاقوں میں محصور ہو گئی تھی۔ پاکستانی افواج اور ان کے ساتھ محب وطن پاکستانیوں نے دفاع پاکستان میں گرانقدر قربانیاں دیتے ہوئے شہید کا رتبہ پا رہے تھے۔ فضائی برتری ختم ہونے سے ان کی حالت مخدوش سے مخدوش ہوتی جا رہی تھی۔ ایڈمرل احسن کے بعد جنرل ٹکا خان اور پھر کمانڈر ایسٹرن کمانڈ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی (اے اے کے نیازی) اور گورنر مشرقی پاکستان جناب مالک بنے لیکن بین الاقوامی سازش ہندوستان کی کارفرمانیاں ہمارے سیاسی اکابرین خصوصاً مغربی پاکستان کے زعمائے ملک اور سیاسی اکابرین اور حکمرانوں نے نوشتہ دیوار نہ پڑھ سکے اور 16 دسمبر 1971ءکو ڈھاکہ غروب ہو گیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا دنیا کے سامنے ہے۔ اَنا‘ ضد اور تکبر نے ہمیں بحرالکاہل میں ڈبو دیا۔ حب الوطنی کو ”جرم“ بنا کر پیش کیا گیا۔ محصور پاکستانی آج بھی بنگلہ دیش کے 66 کیمپوں میں قید و بند کی زندگی گذار رہے ہیں اور پاکستان آنے کی آس میں موت کو گلے لگا رہے ہیں۔

اتوار، 24 مئی، 2020

اچھوتی تقسیم‎



ارجنٹائن نے اپنی آزادی کی سالگرہ  کی تقریب کے موقع پر اسرائیلی وزیر اعظم کو دعوت دی کہ وہ اس تقریب مین شرکت کے لیے اپنا سفارتی نمائندہ ارجنٹائن بھیجے جو اسپین سے ارجنٹائن کی آزادی کی  150 ویں سالگرہ کی تقریب میں شرکت کرے۔اسرائیلی سفارتی وفد  ایک خصوصی طیارے کے ذریعے بیونس آئرس کے ہوائی اڈے پر اترا۔ سفارتی وفد اپنی مصروفیات میں مشغول ہو گیا جبکہ طیارے کا عملہ شہر کی طرف روانہ ہو گیا۔ اور اس وقت لوٹا جب طیارے نے واپسی کا سفر شروع کرنا تھا۔ ہوائی اڈے کے عملے نے خوشدلی سے سفارتی وفد کو الوداع کہا۔
دو دنوں کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنی پارلیمنٹ کو بتایا     اڈولف ایکمان، جو نازی جرمن رہنماوں کے ساتھ اس امر کے عمل درامد میں مصروف رہا تھا، جسے یہودیوں کا حتمی حل کہتے تھے    وزیر اعظم کا اشارہ یورپ میں مار دیے جانے والے ساٹھ لاکھ یہودیوں کی طرف تھا جنھیں  نازی دور میں مار دیا گیا تھا ۔    اس کو اسرائیل کی سیکورٹی سروس نے ڈھونڈ نکالا ہے، وہ اسرائیل میں زیر حراست ہے اور جلد ہی اسے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاٗے گا  
ہوا یہ تھا کہ سفارتی وفد کے طیارے میں واپسی کے سفر میں اجنٹائن سے ایک فرد کو اغوا کر کے اسرائیل لایا گیا تھا۔ ارجنٹائین کی حکومت نے اسرائیل کے اس عمل پر احتجاج کیا اور اغوا کنندہ کی واپسی کا مطالبہ کیا جسے اسرائیل نے رد کر دیا۔ ارجنٹائین یہ معاملہ اقوام متحدہ میں لے گیا۔ اقوام متحدہ نے اسرائیلی اقدام کی مذمت کی اور دونوں ملکوں کو یہ قضیہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ہدائت کی۔ ایکمان پر اسرائیل مین مقدمہ چلا اور اسے سزائے  مو ت دے دی گئی۔
 اسرائیل کے اس وقت کے وزیر اعظم ڈیوڈ  بن گورین  نے ایکمان کے اغوا پر اعتراض کے جواب میں کہا تھا    جو رستہ اختیار کیا گیا وہ اخلاقی طور پر غلط تھا مگر پکڑے جانے والے کا جرم بہت بڑا تھا  
 دنیا نے اسرائیل کا ہاتھ پکڑا نہ اقوام متحدہ مذمتی بیان سے آگے بڑہی نہ ہی کسی انسانی حقوق کے ادارے نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ ایکمان کو اسرائیلی ججوں سے انصاف نہیں مل پائے گا۔دنیا کی اس خاموشی کا سبب یہ تھاکہ اسرائیلی دنیا کو باور کرا چکے تھے کہ نازی جرمنی میں مارے جانے والے یہودی دنیا کے پر امن اور مظلوم ترین لوگ تھے اور نازی جرمن بنی نوع انسان کے بد ترین مجرم تھے۔
یہودیوں نے نظر آتے  کالے کوے   کو سفید ثابت کرنے کا فن اپنے دشمن نازیوں ہی سے سیکھا تھا۔1895 میں ایک  جرمن دانشور گشتاولی بون نے اپنی کتاب    دی لراڈڈ    مین اس امر پر بحث کی تھی کہ کسی معاشرے میں اگر رائے عامہ کو کنٹرول کرنا ہے تو منظم پروپیگنڈہ کے ہتھیار کو استعمال کرنا ہو گا۔ اڈولف ہٹلر کی پرپیگنڈہ ٹیم کے روح رواں جوزف گوئبلز نے لی بون کے اس قول کو سچا کر دکھایا۔ اس نے ریڈیو، اخبارات اور مختلف حربوں سے جرمنی میں ہٹلر کے  ذاتی تشخص کو اس حد تک ابھار ا اور مبالغہ آرائی کی کہ ہٹلر کو عبادت کے لائق ہستی کی سطح تک پہنچا دیا۔
یہ پروپیگنڈہ ہی ہے جو فلسطینیوں کو دہشت گرد اور ظالم مگر یہودیوں کو امن کی فاختہ بنا کر پیش کرتا ہے۔ کشمیر کے نہتے نوجوانوں کے تازہ خون، معصوم بچوں کی چیخوں اور خواتین کے سر کی چادروں کے سرکائے جانے پر انسانیت کو خاموش رکھتا ہے۔یہ پروپیگنڈہ ہی تھا جس نے صدام حسین کو پھانسی کا پھندہ اپنے گلے میں ڈالنے پر مجبور کیا تھا۔ اس ظالم پروپیگنڈے کی مثالیں لیبیاء سے گوانتوناموبے تک پھیلی ہوئی ہیں۔ آپ احساس کے گھوڑے پر بیٹھ کر عقل کی آنکھوں سے دیکھیں تو آپ کو اللہ تعالی کی یہ زمین ایسا گلوبل ویلیج نظر آئے گی۔ جہاں بھکاری سے لے کر شکاری۔ سب نے ہی اپنا اپنا پروپیگنڈے کا بھونپو اٹھایا ہوا ہے۔  اس گلوبل ویلج کے سارے ہی باسی مگر دو پارٹیوں میں منقسم ہیں۔ ایک پرپیگنڈہ کرنے والی جبکہ دوسری اس پروپیگنڈے کا شکار ہونے والی پارٹی ہے۔

پیر، 18 مئی، 2020

ہم سے پنگا ۔۔ ناٹ چنگا


پاکستان اور امریکہ میں وہی فرق ہے جو علامہ خادم حسین رضوی اور اور پاکستان کے مقتدرادارے میں ہے ، علامہ صاحب تاجدار ختم النبوت کا علم لے کر اٹھے اور راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم فیض آباد میں دھرنا نمبر ایک  دیا عاشقان رسول ﷺ میں سے درجن بھر کا خون بہا ، ایک وفاقی وزیر کی قربانی منظور ہوئی ، الیکشن میں حصہ لیا اور اب ان کے پیروکار چھوٹے علاموں کا کردار اتنا رہ گیا تھا کہ وہ جمعہ کے اجتماع کے بعد دعا مانگتےتھے  ْ یاالہی، گستاخان رسول ﷺ پر ٓآپ کا قہر نازل ہو چکا مگر ابھی ان میں جان باقی ہے ، کربلاء کے شہیدوں کے صدقے ان کو مکمل نیست ونابود فرما اور نئے حکمرانوں کو توفیق بخش کہ وہ پانچ سال تک تیرے دین کی خدمت کر سکیں ۔ مولا کریم ان کو گستاخی رسول کی ہمت نہ دینا ورنہ ہمارے امیر المجاہدین کسی وقت بھی سر پر کفن باندھ کر نکل سکتے ہیں ْ 
مقتدر ادارہ دھرنے کے دوران غازیوں کا پشت بان بنا تھا ۔ سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے ایک وفاقی وزیر کی قربانی قبول فرما کر ثابت کیا تھا کہ  گستاخ اپنے انجام کو پہنچ چکے اور غازیوں کو واپشی کے لیے زاد راہ دے کر فارغ کر دیا دیا گیا تھا ۔ یہ ادارہ  عمران خان کے دھرنے کے دوران انگلی تو کھڑی نہیں کرتا مگر عوام کو کھڑا نظر آتا ہے۔اور عوام سے زیادہ خواص موجودگی سے اپنی آئندہ کی راہ منور کرتے ہیں۔
سیاست میں " کلہ" عوامْ ہوا کرتے ہیں،امریکی سیاست دانوں کا ْ کلہ ْ کس قدر مضبوط ہے اس کا اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے مگر مجھے یہ کہنے میں باک نہیں ہے کہ پاکستانی معاشرے میں کم ہی لوگوں کو امریکی سیاستدانوں کے کلے کی مظبوطی کا ادراک ہے
پاکستان میں عوام کا تجربہ یہ ہے کہ اختیارات کا محور و مرکز ْ طاقت ْ ہی ہے۔ اور طاقت کے لحاظ سے امریکہ کے سیکرٹری پاکستان کے وزیر اعظم کو فون مبارک باد کا فون کریں تو اخباروں میں سرخی اور ٹی وی پر ہیڈ لائنس بنتی ہیں۔اور پاکستان کے وزیرخارجہ کے کہنے پر ہمار ا دفتر خارجہ کوئی وضاحت بھی جاری کرے گا تو اس کو ملک کے اندر نہ باہر سنجیدہ لیا جاتا ہے۔
پی ٹی آئی کے ایک ڈاکٹر صاحب کا یہ فرمان کہ پاکستان کے دفتر خارجہ کی ہدائت کے بعد امریکہ کو سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان میں اب اس کی ایک فون پر لیٹ جانے والوں کی حکومت نہیں ہے۔ معلوم نہیں ڈاکڑ  صاحب کے ذہن میں لیٹ جانے والوں کے بارے میں کس کی تصویر ہے مگر مشرف اینڈ باقیات کے پیٹ میں اس بیان سے ایسا مروڑ اٹھاتھا جو ڈاکٹر کے کھڈے لائن لگ جانے کے بعد ہی ٹھیک ہوا ۔وزیر اعظم  وزارت خارجہ گئے اور بیان دیا کہ ْ کسی بھی ملک سے خواہ مخواہ کا الجھاو نہیں چاہتے . اور جوشیلے پارٹی ورکروں کو مناسب پیغام دیا۔یاد دھانی کراتے رہنا ہمارافرض ہے کہ امریکہ کا ْ کلہْ پاکستان میں بھی مضبوط ہے اور اس کلے کے رکھوالے کلے کی مضبوطی کے لیے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔ نواز شریف کی جیل یاترا کے بعد جوشیلے لوگوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ سیاسی جماعت کوئی بھی ہو، حکمران جس نام کا بھی ہو، عوام کا ووٹ جس کے پاس بھی ہو پہلا اور آخری پیغام یہی ہے کہ کھاو پیو موج اڑاو مگر ْ ہم سے پنگا ۔۔ ناٹ چنگا ْ