بدھ، 14 نومبر، 2018

زندگی اور موت

زندگی ، خالہ جی کے گھر بيٹھ کر لقمہ شيريں کھانے کاہ نام نہيں، بلکہ زندہ رھنے کے ليے محنت و کوشش، مقابلہ و کشمکش، سعی و محنت اور خوف و تفکرات سے ہر لمحہ نبردآزما رھنا پڑتا ھے ، اور یہ مہينوں اور سالوں کا معاملہ نہيں بلکہ انسان کی ساری زندگی ھی اس جينے کی نزر ھو جاتی ھے ۔ اور مشکل تريں لمحہ وہ ھوتا ھے جس کا نام موت ھے ۔ زندگی مشکل ھے تو موت مشکل تر ۔ ليکن ان دو حقيقتوں سے چھٹکارا نہيں کيونکہ کوئی اور 
Option 
موجود ھی نہيں ھے ۔ نسل انسانی نے اپنے طويل تجربہ کے بعد اپنی مشکلات کو کم کرنے کا کچھ ادراک حاصل کر ليا ھے ۔ اہل علم اور عقل مندوں کی نصائع کارگر رھيں ، اور ابن آدم کی خاکساری پر ترس کھا کر مالک کائنات نے بھی کچھ 
Hints 
عطا فرما ديے، جن پر عمل پيرا ھو کر زندگی ميں امن و سکون اور اطمينان حاصل کر کے موت کی سختی سے بھی بچا جا سکتا ھے ۔ جب انسان اپنی ذاتی زندگی ميں سچائی، شفافيت اور سادگی پر عمل پيرا ھونے کا فيصلہ کر ليتا ھے تو اس کی زندگی آسان ھونا شروع ھو جاتی ھے، سچائی 'حق' کی حقيقت کو اجاگر کرتی ھے اور ذھن کے بند دريچے کھولتی ھے، اشياء و کلمات و اعمال کی حقيقت اجاگر ھونا شروع ھو جاتی ھے ۔ انسان صيح وغلط، حق و باطل کو ' تاڑ' ليتا ھے [اسی کو فراست کہا جاتا ھے] ۔ فراست حاصل ھونے کے بعد ذاتی زندگی ميں دوڑدھوپ اور محنت و کوشش کی موجودگی ميں ھی ايثار و قربانی کے جذبات خوف و تفکرات کو کم کرنا شروع کر ديتے ھيں ۔ گويا زندگی کے بھنور ميں سکون آ جاتا ھے ۔ اس عمل [سچائی کو اپنی ذات پر لاگو کرنا ] کی ابتدا متوجہ ھونے اور نيت کرنے سے ھوتی ھے ، نيت یا ارادہ کرنا سہل ترين عمل ھے ،جبکہ نيت ھی عمل کی بنياد بنتی ھے کيونکہ ''اعمال کا دارومدار نيتوں پر ھے'' اور اسی کا نام توبہ ھے ۔ اور اللہ کا حکم ھے ''اللہ توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ھے''۔[البقرہ:222] توبہ خود کو بدلنے کا ايسا ارادہ ھے جس کو بار بار کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ھے۔ ايک بزرگ عالم لکھتے ھيں کہ انھوں نے 40 بار توبہ کی اور ہر بار استقامت حاصل ھونے ميں ناکام رھے آخر کار 41 ويں بار توبہ پر استقامت حاصل ھوئی ۔ 'مکہ جانے کے عمل کی ابتداء مکہ جانے کی نيت ھی سے ھوتی ھے '' ۔ سمندر ميں موجود متلاطم امواج کو اللہ ھی سکون ديتا ھے مگر ذاتی زندگی ميں سکون و اطمينان پيدا کرنا خود انسان کے ذمہ ھے اور یہ حقيقت ان قرآنی احکام ميں پنہاں ھے ''بےشک اللہ کا ذکر ھی دلوں ميں اطمينان کا باعث ھے'' اور '' اللہ ذکر کرنے والوں کو محبوب رکھتا ھے'' ۔ اللہ کو ہر لمحہ ہر موقع پر ياد رکھنا کہ وہ مالک و خالق ھے، اس کے عائد کردہ فرائض ادا کر کے اس کی رضامندی و مشيت کے آگے سر خم اطاعت کر دينے کا نام ذکر ھے ۔ ذاکر انسان کوسکون و اطمينان عطا کرنے کا وعدہ خود مالک دو جہان نے کر رکھا ھے ۔ يہ دوسرا آزمودہ اور تير بہدف نسخہ ھے ۔ زندگی ميں توبہ پر عمل پيرا ھو کر ، ذکر کےعمل سے ليس ھو جانا ، اورخدمت خلق کے ليے کوشاں رھنا موت کو آسان کر ديتا ھے ۔ ''آسانی کی موت چاھتے ھو تو دوسروں کی زندگيوں ميں آسانی پيدا کرتے رھو''

پیر، 12 نومبر، 2018

دیتے ہیں پہرہ ملک سرکار کے روضے پر


ان کی وجہ شہرت تو ان کی فتوحات، بہادری، عدل ، غریب پروری اور خاندانی وجاہت ہے۔ ان کے بارے میں مشہور مورخ ابن اثیر نے لکھا ہے ْ میں نے اسلامی عہد کے حکمرانوں سے لے کر اس وقت تک کے تمام حکمرانوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے مگر خلفائے راشدین اور عمر بن عبد العزیزکے بعد نورالدین سے بہترکوئی حکمران میری نظر سے نہیں گذرا ْ 
نور الدین زنگی کا زیر نظر واقعہ اسلامی تاریخ میں محبان رسول اللہ ﷺ کے قلوب کو حرارت حب النبی سے گرماتا ہے۔ اس واقعہ کو مشہور عالم حضرت شیخ محمد عبدالحق محدث دہلوی نے اپنی کتاب ْ تاریخ مدینہْ میں نقل فرمایا ہے۔
ہجری 557 میں عیسائیوں نے مراکش میں یہ سازش کی کہ مدینہ المنورہ کی مسجد نبوی میں موجود قبر رسول اللہ ﷺ سے جسد مبارک کو چوری کیا جائے۔ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے دو آدمیوں نے خود کو مختص کیا اور سازش کی تکمیل کے لیے حجاج کے ساتھ مراکش سے مکہ آئے۔ رسوم حج کی مکہ میں تکمیل کے بعد وہ دونوں مدینہ المنورہ آئے اور مسجد نبوی کے جنوب مغرب میں مسجد کی دیوار سے متصل ایک مکان لے کر رہائش رکھ لی۔مکان کے فرش سے انھوں نے قبر مبارک تک سرنگ کھودکر جسد انور ﷺ تک پہنچنا تھا۔ وہ حب النبی کا لبادہ اوڑھ کر اپنے کام میں مشغول ہو گئے۔ سرنگ کی کھدائی سے جو مٹی نکلتی اسے تھیلوں میں ڈال کر شام کے وقت جنت البقیع میں موجود قبور پر بکھیر دیتے۔ وہ اپنے منصوبے پر عمل پیرا تھے۔ مدینے میں کسی کو ان پر شک تک نہ ہوا ۔ مدینہ المنورہ اس وقت دمشق میں موجود سلطان نورالدین زنگی کی سلطنت میں شامل تھا۔ 558 ہجری میں سلطان اپنے گھر میں سو رہا تھا کہ اسے خواب میں دو اشخاص دکھا کر حکم دیا گیا 
ْ ہمیں ان کے شر سے بچاو ْ 
سلطان نے بیدار ہو کر وضو کیا ۔ دو رکعت ادا کی اور اپنے مشیر خاص جمال الدین اصفہانی کو بلایا ۔ اصفہانی سے مشورے کے بعد اس نے اسی وقت بیس آدمی منتخب کیے اور مدینہ المنورہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ اس نے اس تیز رفتاری سے سفر کیا کہ 25 دنوں کا سفر 16 دنوں میں طے کر کے شام سے پہلے مدینہ المنورہ پہنچ کر مسجد البنوی میں نماز ادا کی اور زیارت قبر مبارک سے فارغ ہو کر حاکم مدینہ کے ذریعے اعلان کرایا کہ مدینے میں موجود تمام بیرونی زائرین آ کر وقت کے سلطان کی طرف سے اپنا اپنا تحفہ وصول کر یں۔ لوگ آتے گئے اور تحائف وصول کرتے رہے حتیٰ کہ سب لوگ تحفہ وصول کر چکے۔ مگر سلطان کو وہ دو شخص نظر نہ آئے جو خواب میں دکھاٗے گئے تھے، سلطان نے پوچھا 
ْ کیا مدینہ کا ہر شخص مجھ سے مل چکا ْ 
جواب ہاں مین پا کر سلطان نے دوبارہ پوچھا
ْ کیا ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے ْ حاکم مدینہ نے کہا ْ سوائے دو آدمیوں کےْ 
دو آدمی ۔۔۔ ْ وہ کون ہیں اور تحفہ لینے کیوں نہیں آئے ْ 
مراکش کے دو متقی ہیں، درود پڑہتے ہیں اور ہر ہفتے مسجد قبا جاتے ہیں ، فیاض اور مہمان نواز ہیں ، کسی کا دیا نہیں لیتے ْ 
سلطان نے کہا ْ سبحان اللہ ْ اور تحفہ لینے انھیں بلا بھیجا 
ْ الحمداللہ ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور ہمیں کسی سے تحفہ یا خیر خیرات لینے کی ضرورت نہیں ْ 
جب سلطان تک یہ جواب پہنچا تو بردبار سلطان اپنے ادمیوں کے ساتھ ان کے مکان پر جا پہنچا۔ان کو دیکھتے ہی سلطان نے انھیں پہچان لیا
تم کون ہو اور کیوں آئے ہوْ 
ہم مراکش کے رہنے والے ہیں۔ حج کے لیے آئے تھے، اب روضہ رسول کے سائے میں زندگی گذارنا چاہتے ہیںْ 
سلطان نے کہا ْ تم نے جھوٹ بولنے کی قسم کھا رکھی ہےْ 
سلطان کی عقابی نگاہ فرش پر بچھی جائے نماز کے نیچے بچھی چٹائی پر جم کر رہ گئی۔ چٹائی ہٹانے کا حکم ہوا۔ چٹائی کے نیچے بڑا پتھر ظاہر ہوا ۔ پتھر کو ہٹایا گیا تو وہ سرنگ ظاہر ہو گئی جو فرش میں کھودی گئی تھی اور اس کا رخ قبر مبارک کی طرف تھا۔ سلطان کے آدمی نے سرنگ میں اتر کودیکھا اورحقیقت حا ل سے سلطان کو آگاہ کیا۔سلطان غصے مین لرز رہا تھا۔ مگر اس کی زبان سے صرف اتنا نکلا
ْ کیا اب بھی سچ نہ بولو گے ْ 
سچ بولنے کے سوا چارہ ہی نہیں تھا۔ سازش بے نقاب ہو چکی تھی۔ وہ فرمانروا جس کا نام سن کر حکمرانوں کے دل دہل جاتے تھے ۔ دونوں کے مکان میں طیش بھرے جذبات کے ساتھ موجود تھا۔ اپنے جرم کی سنگینی کا بھی انھیں ادراک تھا، انھوں نے اقرار کیا کہ وہ مسیحی ہیں، اور مراکش میں تیار کی گئی اس سازش کا حصہ ہیں جس کا مقصد رسول اللہ ﷺ کے جسد مبارک کو سرنگ لگا کر چرانا تھا۔سلطان جس سرعت سے دمشق سے مدینہ پہنچا تھا ۔ اس سے زیادہ سرعت کے ساتھ اس مقدمہ کا فیصلہ ہوا۔ دونوں مجرمین کے سر تن سے جدا کر دیے گئے۔ اس موقع پر سلطان نورالدین زنگی نے بلند آواز میں کہا ْ میرا نصیب ! پوری دنیا میں اس خدمت کے لیے اس غلام کو چنا گیا ْ 
سلطان نورالدین زنگی نے 15 مئی 1174 کو 58 سال کی عمر میں وفات پائی۔ اس نے 1146 سے 1174 تک 28 سال حکمرانی کی۔ 1977 میں شام کے شہر حمص میں مجھے اس نامور اور معزز حکمران سلطان نورالدین زنگی کی قبر پر حاضری اور فا تحہ خوانی کا شرف حاصل ہوا۔سفید سنگ مرمر کی قبر کے نیچے محو استراحت اس عظیم حکمران کی کامرانیاں تاریخ کی کتابون میں رقم ہیں مگر یہ منفرد واقعہ اہل ایمان کے دلوں پر رقم ہے۔

آنکھین ، کان اور دماغ


پاکستان کی عمر کے لحاظ سے پاکستانیوں نے کچھ زیادہ ہی حکومتیں بگھتائی ہیں ۔ اس کا سبب کھوجتے کھوجتے لوگوں نے
موٹی موٹی کتابیں تخلیق کیں ۔ مقالے لکھے اور لیکچردیے. حالانکہ حل ہمیشہ سادہ سا ہوتا ہے۔ گھر کے سربراہ کو اپنا مقام قائم رکھنے کے لیے اپنی اولاد اور ان کی اولاد کے خیالات کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے ورنہ نوجوان سوچ دادا یا نانا کو اوقات دکھا دیتی ہے ۔ بات ایک ہی ہے اور اٹل ہے “ مان لو یا منا لو “ بات چیت ، مکالمہ اسی کو کہا جاتا ہے۔میں ایک ایسے شخص کو جانتاہوں جس نے اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک بجھوایا ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ بیٹی نے فون پر ماں کو بتایا کہ وہ اپنے ایک کلاس فیلو پاکستانی سے شادی کا فیصلہ کر چکی ہے ۔ ماں نے رات کو اپنے خاوند کو بتایا ۔ باپ صاحب فرست ہی نہیں جہان دیدہ بھی تھا اس کا جواب تھا کہ جب بیٹی کو یونیورسٹی میں داخل کرا رہےتھے تو ہمارا مقصد تعلیم کے ساتھ اسے خود اعتمادی دلانا بھی تھا۔ اس وقت وہ تعلیم  کے لحاظ سے ہم دونوں سے آگے ہے ، زندگی اس کی اپنی ہے مگر ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں کچھ روایات ہیں ۔ بیٹی کو بتاو ہمیں اس کی پسند پر بھروسہ ہے مگر لڑکے کو چاہیے اپنے والدین کو ہمارے پاس رشتہ مانگنے بھیجے ۔ دوسرے دن ماں نے لڑکی تک بات پہچائی جو شادی تین دن بعد بدیسمیں ہونے والی تھی  ملتوی ہو ئی ۔ اب لڑکی اپنی ماں سے بات کرتی تو لڑکا بھی اپنی ہونے والی ساس سے بات کرتا۔اور یہ بات لڑکے نی اپنی ہونے والی ساس کو بتائی کہ وہ دوماہ بعد پاکستان آکر شادی کریں گے۔میں اس شادی میں موجود تھا دونوں خاندان شیر و شکر تھے، دلہا اور دلہن فرحان تھے ۔ ایک باپ کی فراست نے دو خاندانوں کو جوڑ دیا تھا۔ ایسے شادیوں کے بعد جان لینے اور دینے کے واقعات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
ملک بھی گھر ہی کی طرح ہوتے ہیں ، حکمرانی اور رہنمائی میں وہی فرق ہے جو موت اور حیات میں ہوتا ہے۔
پاکستان میں جناب عمران خان صاحب کی حکومت ہے ، ان کے مشیر ان و وزراء ان کے کان اور آنکھیں ہیں۔ انسان کانوں سے سنتاہے اور آنکھون سے دیکھتا ہے مگر فیصلہ دماغ کرتا ہے۔ خان صاحب اگر فیصلہ کرنے والا دماغ ہیں تو ان کے کان اور آنکھیں دو مناطر پیس کر رہی ہیں ۔ دونوں مناظر پیش کرنے والے ان کے اپنے ہی ہیں ۔ ان کی مدد گار ٹیم دو گروہوں مین بٹی ہوئی ہے ۔ ایک گروہ خاموشی سے عوام کی خدمت کا راہ دکھا رہا ہے ۔ دوسرا بے چین گروہ ہے جو ہر مخالف کو لٹکا دینے کا مبلغ ہے ۔اکہتر سالہ پاکستان ، قرضوں میں جکڑا، انصاف کے لیے عدالتوں کی چھوکٹوں پر دھکے کھاتا ہوا ، بچوں کی تعلیم کو ترستا ، تعلیم یافتہ اولاد کے لیے نوکریوں کا سوالی، تقسیم در تقسیم معاشرے میں دشمنیوں سے اکتایا ہوا، رہنے کے لیے اپنی چھت کو ترسا ہوا، اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے لیے امن اور خود داری کی آس لگائے وزیر اعطم ہاوس کی طرف دیکھ رہا ہے ۔یہ فیصلہ عمران خان نے کرنا ہے کہ وہ حکمران بنیں گے یا رہنماء ۔ رہنماء صاحب فراست ہو تو دشمنی کی دہلیز پر کھڑے دو خاندانوں کو شیر و شکر کر دیتا ہے ۔ پاکستان کی عمر کے لحاظ سے پاکستانیوں نے کچھ زیادہ ہی حکومتیں بگھتائی ہیں ۔ کوئی تو ہو جو فراست کی راہ چنے کان اور آنکھیں دو مختلف مناطردکھا رہی ہیں فیصلہ مگر دماغ نے کرناہے ۔ اور حکومت کا دماغ وزیر اعظم ہی ہیں

اتوار، 11 نومبر، 2018

سیاسی طغیانی کے بعد مٹی میں دھنسا ہوا ڈرم


لاہور ہائیکورٹ کا راولپنڈی بنچ پہاڑی پر واقع ہونے کی وجہ سے ، جی ٹی روڈ 
کے ذریعے راولپنڈی سے لاہور جانے والوں کو دور سے نظر آتا ہے۔ اسی پہاڑی کے نیچے سواں بس اڈہ ہے اور اس اڈے سے متصل ایک پل کانام بھی سواں پل ہی ہے جس کے نیچے سے دریاے سواں گذرتا ہے اورراولپنڈی سے آنے والا نالہ لئی بھی اسی مقام پر ان پانیوں میں گڈمڈ ہو جاتا ہے۔بالائی علاقوں میں بارش کے بعد سارا پانی اسی پل کے نیچے سے طغیانی بن کر گذرتا ہے ۔ راہ گیر اس پل پر کھڑے ہو کر بپھرے پانیوں کی طاقت کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اور پل کے نیچے سے گذرتے بپھرے پانیونوں کی طاقت کے شاہد بنتے ہیں۔اسی پل پر کھڑے ہو کر ایک سیلاب کے دوران میں نے دیکھا تھا کہ پانی بڑے بڑے ڈرم دبوچ کر اپنے ساتھ لے جا رہا تھا۔ ایک ہفتے بعد راولپنڈی سے چک بیلی خان جاتے ہوتے میں نے ایک ڈرم اسی دریا کے پاٹ میں زمین میں دھنسا ہوا دیکھا تھا۔میرا خیال ہے کہ انفرادی طور پر لوگوں نے لوہے کے اس ڈرم کو جو تارکول سے بھرا ہوا تھا ، نکالنے کی ناکام کوشش کی ہو گی مگر اجتماعی طاقت سے یہ ڈرم باہراور زیر قبضہ آسکتاتھا ۔ شاہد ہماری اجتماعی خلاقیات ابھی اس قدر نہیں گری ہے۔

سیاسی واقعات بھی طغیانی کی مانند ہوتے ہیں ۔ سیلاب اتر جانے کے بعد کئی ْ ڈرمْ مٹی میں دبے رہ جاتے ہیں ۔ پاکستانی سیاست میں ایک طغیانی 2014 میں اسلام آباد میں آئی تھی۔126  دن کے دھرنے اور ماڈل ٹاون میں معصوم لاشوں کی یادگار کی صورت میں کئی ْ تارکول بھرے ڈرم ْ اہل بصارت کو دعوت نظارہ دے رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے اس سیاسی سیلاب کا منبع لندن تھا اور مقدار و والیم کے والو چند افراد کے ہاتھ میں تھے۔ اس مصنوعی طغیانی کے بہاو میں جن کوآنا تھا ان میں پاکستان چین معاشی رہداری کی نیم سوختہ اینٹیں اور نون لیگ کے وزیر اعظم کی کرسی شامل تھی۔

عوامی تحریک کے جنرل سیکرٹری خرم نواز گنڈا پور نے ’’دنیا ‘‘ ٹی وی کے اینکر معیز پیر زادہ کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ لندن پلان کے حوالہ سے جو خبریں آتی رہی ہیں وہ درست ہیں ۔ ہمارے سربراہ طاہر القادری صاحب سے لندن میں عمران، چودھری پرویز اٰلہٰی اور چودھری شجاعت حسین نے ملاقات کی تھی اور یہ طے ہوا تھا کہ نواز حکومت کو گرانا ہے۔

 ایم کیو ایم کے ممبر قومی اسمبلی سید علی رضا عابدی نے گنڈا پور صاحب کے بیان کی تائید میں بیان دیاتھا کہ قادری صاحب نےایم کیو ایم  لندن کے سیکرٹریٹ کو فون کر کے پیشکش کی تھی کی حکومت گرانے میں ان کا ساتھ دیا جائے توبدلے میں کراچی 
ایم کیو ایم 
کےحوالے کر دیا جائے گا

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نےلندن پلان بارے ایک نجی ٹی وی کو آنٹر ویو یتے یوئے   
 تصدیق کی  کہ لندن پلان موجود تھا  ۔
انہوں نے کہا کہ 2014ء میں لندن پلان تشکیل دیا گیا اور ہم اس پلان کے اہم کردار تھے۔ ہمارا مقصد ملک میں نظام کی تبدیلی تھا اس لیے ہم لندن پلان میں شامل ہوئے۔ 
لیکن ہمیں یہ نہیں علم تھا کہ اس پلان کو عملی جامعہ پہنانے والے نظام تبدیلی نہیں صرف نواز شریف حکومت ہٹانا چاہتے تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ پاکستان میں نظام کی تبدیلی وقت کی اہم ضرورت ہے جس میں سب کا کڑا احتساب ہو اور موجودہ پارلیمانی نظام کو بھی تبدیل کیا جائے۔ 
یہ نظام ملک میں کرپشن اور بد امنی کی بڑی وجہ ہے۔ جس کے بعد ہم نے لندن پلان میں شامل ہونے کا حتمی فیصلہ کیا

مخدوم جاوید ہاشمی صاحب نے بھی اس سخن کو اپنا موضوع بنایا اور کہا 
خود عمران خان نے ان سے لندن میں رابطوں کی تصدیق کی تھی۔ہاشمی صاحب نے تو پلان بی، سی اور ڈی کی موجودگی کا بھی ذکر کیا تھا۔اور جیو نیوز سے وابستہ مرتضیٰ علی زیدی کی یہ شہادت بھی موجود ہے کہ 28, 29۔  اور 30 جون کو برطانوی شہری زلفی بخاری کے دفتر میں یہ ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ 

ان ملاقاتوں کو میڈیا مین لندن پلان کا نام دیا گیااور روزنامہ امت نے اس بارے میںلکھا تھا  
 کہ لندن پلان کا مقصد اقتصاد ی راہداری کی تعمیر میں رکاوٹ ڈالنا ہے ۔قادری کے منصوبے میں برطانیہ ، امریکہ بھارت اور ایران کے نام سامنے آئے  ۔ طاہر القادر ی کو کلبھوشن کی گرفتاری کے بعدپاکستان بھیجنے کا منصوبہ بنایاگیا ۔اسی سال مارچ کے آخری عشرے میں طاہر القادری صوفی کانفرنس کی آڑ میں بھارت گئے تھے۔ جہاں 18مارچ کو ان کی ملاقات بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی راکے اعلیٰ افسران سے کرائی گئی اخبار  کے مطابق ملاقات کا مقام دہلی میں راکا ذیلی ادارہ انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفینس اسٹڈیز اینڈ اینالیسز تھا اور قادری کو منصوبے کے بارے میں انسٹی ٹیوٹ کے ڈپٹی چیئرمین بریگیڈئر (ر) رومل ڈاھیا نے بریف دی تھی ۔ اور طاہر القادری کو یہ مشن سونپا گیا کہ پاکستان میں کسی بھی صورت فرقہ ورانہ کشید گی کو ہوا دی جائے ۔ تاکہ پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر اتنی سست ہوجائے کہ چین اس منصوبے سے اکتا جائے ۔  طاہر القادری بظاہر پاناما لیکس کے دبائو کا شکار نواز حکومت ایک دھکا اور دینا چاہتے تھے ، لیکن اس موقع پر بھارتی حکومت کی توجہ کا مرکز طاہر القادری تھے ۔ جو پاکستان کے لیے ایک نیا منصوبہ 
importance of moderate islam for south east asia 
کے عنوان سے بھارتی انسٹی ٹیوٹ میں پیشکر چکے تھے ۔ طاہر القادری نے پاکستان میں بھارتی دہشت گردی اور مداخلت کے حوالے سے پاکستان کے موقف کی تائید کرنے کی بجائے مذمت کی اور بھارتی ٹی وی چینل اے بی این کو انٹرو یو دیتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان کے موقف کو درست نہیں سمجھتے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ پاکستان کی جانب سے بھارت پر لگائے جانے والے کسی بھی الزا م کی تائید نہیں کرتے اور پاکستان کو بھارت کے تحفظات پر غور کرنا چاہئے ۔  مارچ 2016میں طاہر القادری کو پورے بھارت کا دورہ کرایا گیا ۔ اس دوران وہ راجستھان ، آندھراپردیشن اور حیدر آباد دکن بھی گئے بھارتی حکومت کی جانب سے طاہر القادری کی جماعت منہاج القرآن کے نام سے پورے بھارت میں شاخیں کھولنے کی اجازت دی گئی ہے ۔
   
نمائندہ ایکسپریس کے مطابق شہباز شریف نے  19 ستمبر 2014 کوکہا کہ لندن پلان کے پیچھے وہی لوگ ہیں جنھوں نے 
قرضے معاف کرائے اور پنجاب بینک میں ڈاکے ڈالےہیں

  نواز شریف نے کہا کہ لندن پلان بےنقاب ہوگیا ۔ عمران خان اور طاہر القادری کی لندن ملاقات کا حال سب کے سامنے ہے ۔

اسلام آباد میں مسلم لیگ ن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیف کوارڈینیٹر پاکستان مسلم لیگ ن محمد صدیق الفارق نے کہا کہ لندن پلان بنانے والوں کا منصوبہ ہے کہ لاشیں گرا کر اور مظلوم بن کر عوام کی ہمدردیاں حاصل کی جائیں۔ لندن پروگرام بے نقاب ہونے کے ڈر سے قادری چودھری گٹھ جوڑ نے  
عدالتی کمیشن کے بائیکاٹ کا علان کیا ہے۔
ہ
کچھ لوائی کورٹ نے 1990 میں  طاہر القادری کو جھوٹا مکار قرار دیا ۔ ہےگوں کا اس پر اتفاق ہے  کہ لندن پلان اسٹبلشمنٹ نے تیار کیا ہے اور اس کی وجہ نواز شریف کی جانب سے افغانستان اور بھارت بارے ڈیپ سٹیٹ یا تزویراتی گہرائی کی پالیسی سے اتفاق نہ کرنا اور مشرف کے ٹرائل پر اصرار  کرنا ہےاور پاکستان میں ملٹری بزنس کے مفادات کے آڑے آنا ہے

جاوید چودھری نے اپنے ایک کالم میں اشاروں کی صورت میں  قادری و عمران کے
 دھرنوں و انقلاب کو انھوں نے بھی ملٹری اسٹبلشمنٹ اور سابق و موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی شجاع پاشا اور ظہیر الاسلام کے  ذھن کا مشترکہ منصوبہ قرار دیا لندن پلان کے شور ہی میں لاہور میں سانحہ ماڈل ٹاؤن رونما ہوا تھا
محمد صدیق الفاروق نے کہاتھا
  سانحہ ماڈل ٹاون  سازش ہے

 سلیم صافی کے بقول “لندن پلان ” کا بلیو پرنٹ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور سی آئی اے نے تیار کیا اور اسے کینیڈین حکام کے حوالے کیا – یہ لندن پلان مغربی ملکوں نے پانچ سال پہلے تیار کرلیا تھا اور اس کی بنیادی وجہ مغربی ملکوں کا یہ یقین تھا کہ دیوبندی سلفی انتہا پسند عالمی جہاد پاکستان سے بیٹھ کر چلارہے ہیں اور ان کو روکنے کے لیے ان کا ٹکراؤ سنی صوفی بریلوی اور شیعہ سے کرانا بہت ضروری ہے – بقول سلیم صافی مغربی طاقتوں نے نے یہ کام ڈاکٹر طاہر القادری کے سپرد کردیا اور ڈاکٹر قادری نے اس پلان پر عمل درآمد کرنے کے لیے ایک طرف تو پاکستان میں شیعہ تنظیم مجلس وحدت المسلمین اور سنّی بریلوی تنظیم سنّی اتحاد کونسل کا سہارا لیا اور بعدازاں اس میں چوہدری شجاعت حسین ، چوہدری پرویز الہی بھی شامل ہوگئے- سلیم صافی کے بقول اس کی کچھ کڑیاں جو مل نہیں رہی تھیں وہ جاوید ہاشمی نے ملادیں کہ عمران خان بھی اس پلان میں شامل تھے اور لندن میں ان کی قادری اور چودھری شجاعت سے ملاقات ہوئی تھی سلیم صافی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس معاملے میں آصف زردای کا ڈبل رول ہے اور ان کے کہنے پر چودھری برداران، قادری کے ساتھ ہوئے اور اب تک ان کے ساتھ ہیں


سیاسی طغیانی کے بعد لندن پلان ایسا تارکول بھرا ڈرم ہے جو سیلابی مٹی میں پھنسا ہوا ہے انفرادی قوت اس کو نکالنے میں ناکام ہے ۔ کیا ہمارا اجتماعی سیاسی شعور اس قابل ہے کہ اس پھنسے ہوے ڈرم کو نکال کر کنارے لگائے تاکہ سیاسی پانی کا بہاو رواں دوان رہے اور ایک اور جمہوری حکومت کسی اور پلان کے نتیجے میں گرنے پر مجبور نہ ہو  

ہفتہ، 3 نومبر، 2018

اونچا شملہ اور چاں چاں کرتی چپل


اکلوتی ، سب سے بڑی، حافظہ بیٹی کے سر پر چادر ڈالی، اس کا جسم غصے سے کانپ رہا تھا مگر اس کے دماغ نے کام کرنا نہیں چھوڑا تھا۔ وقت جو ستم کر کے گذر گیا تھا اس کو واپس موڑنا اس کے بس میں نہیں تھا۔پہلی بار ، زندگی میں پہلی بار، اس کے گھر والوں ، پوتوں اور نواسوں نے سفاک لہجے میں سنا ْ عبد الطیف کو بلاو میں نے عشاء کے بعد فیصلہ کرنا ہےْ 
حاجی حاحب ، جو حج کرنے سے پہلے سارے گاو ں کے ماسٹر جی تھے، گاوں کی سب سے باعزت شخصیت تھے۔ مگر اج اس عزت کا جنازہ گھر سے ملحقہ کھیت میں نکلنے لگا تھا ۔ عشاء کے بعد ان کے چھ بیٹے، اکیس پوتے، تیرہ نواسے اور گھر کی ساری خواتین موجود تھیں جب عبدالطیف کی چیختی چپلوں نے اس کی آمد کا اعلان کیا۔ عبد ا لطیف نے چپل اتارے اونچے لہجے میں السلام علیکم کہاسوتیلے والد کے ساتھ جھک کرمصافحہ کیا اور ہاتھ باندھ کر سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔حاجی صاحب نے فیصلہ کن اور گرجدار میں کہا ْ عبدالطیف تینڈی جتی دی چاں چاں کدن مکیسی ْ 
یہ واقعہ خود اسی سالہ مولانا لطیف نے نوشہرہ کے اکوڑہ خٹک سے واپسی پر سنایا۔ ہم ملک کے نامور عالم دین مولانا سمیع الحق کا جنازہ پڑھ کر واپس آ رہے تھے۔ مولانا مرحوم کے علم کے شجر تناور تھے ایسا شجر جس کے سائے میں نام ور ہستیاں راحت پاتی تھیں ان کی روادار فطرت کی مثال ہے کہ بھٹو کے وقت مین تشکیل پانے والی آئی جے آئی جس کے سربراہ مرحوم قاضی حسین احمد تھے اور جب مولانا سمیع الحق کی سربراہی کی باری آئی تو وہ ازخود اس سے دستبردار ہو گئے اس شجر کی شاخیں شہبازوں سے خوف زدہ چڑیوں کو گھونسلہ بنانے میں کبھی بھی مانع نہیں ہوئیں۔وہ تین بار پاکستان کی پارلیمان بالا کے ممبر رہے ۔ ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔ ملا عمر اور جلال الدین حقانی خود کو ان کا شاگرد بتاتے اور مولانا فضل الرحمن بتاتے ہیں کہ انھوں نے آٹھ سال ان کے مدرسہ حقانیہ میں تعلیم حاصل کی ہے۔امریکہ کا سفیر ان کے در پر حاضر ہوتا تھا۔ سعودیہ والے اس کی اقتداء میں نماز پڑہتے تھے ، پاکستان کے علماء ان کی بات مانتے تھے مغرب نے انھیں طالبان کے باپ کا خطاب دیا تو طالبان کو فرحت ہوئی ۔ وہ اول و آخر پاکستانی تھے ۔ ان کے والد مولانا عبدالحق نے تحریک پاکستان میں حصہ ڈالا تھا۔ اس علمی گھرانے نے سیاست میں قدم رکھا تو لوگوں نے نہ صرف مولانا سمیع الحق کے والد صاحب کو بلکہ بیٹے مولانا حامد الحق کو بھی قومی اسمبلی میں اپنی ترجمانی کے لیے منتخب کیا۔ایک مسلمان ملک پر روس نے قبضہ کیا تو وہ حکومت پاکستان کی پالیسیوں کے سب سے بڑے خیر خواہ کے طور پر سامنے آئے۔ امریکہ نے اپنے پنجے گاڑہے تو بھی وہ حکومت پاکستان کی پالیسوں کے ہم نوا بنے ۔ ۲۰۱۴ میں امریکہ کے ساتھ بات چیت کے لیے طالبان نے ان کا نام لیا۔ دینی مدرسوں کے نصاب میں بہتری لانے کی ہر حکومتی آواز کی انھوں نے تبلیغ کی۔جو لوگ ان کے نزدیک تھے ان کے دلوں میں ان کے لیے احترام تھا، جو ان سے ملاقات کرتا ان کی شخصیت سے مرعوب ہوتا ۔ دور کے نکتہ چین بھی ان کی سیاسی زندگی میں کوئی سکینڈل ڈھونڈے میں ناکام ہی رہے۔
میں نے مولانا لطیف سے سوال یہ کیا تھا کہ ہمارے علماء اپنے اپنے مقام پر قوی ہونے کے باوجود اسلام کی طاقت میں اضافہ کیوں نہیں کر پاتے ہیں ۔تو مولانا نے اپنا ذاتی واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ میں ایسا خطیب ہوں کہ دور دور سے لوگ مجھے خطاب کے لیے لینے آتے ہیں ۔ مگر میں اپنے دادا کی بنائی ہوئی مسجد میں نماز نہیں پڑہتا تھا ۔ میری وجہ سے میرے دادا کا خاندان دو حصوں میں بٹ گیا۔ میں اپنے چاچا( سوتیلے باپ) سے نفرت کی وجہ سے تعلیم مکمل نہ کر سکا مگر بھائیوں کا معاشرتی مقابلہ کرنے کے لیے خطیب پاکستان بن بیٹھا ۔ میں نے اسلام کو چھوڑ کر مسلک کو اپنالیا ۔ میں ہنسے مجمع کو رلانے کے فن سے آشنا ہو گیاتھا ۔ میں نے اونچا شملہ اور چیختی چپل کو صرف اس لیے اپنا لیا تھا کہ دو دونوں چیزیں میرے چاچے کو پسند نہ تھیں۔اس دن میں بہت خوش تھا جس دن ایک معمولی تنازعے پر جرگہ منعقد ہوا اورمیں نے چاچے کو سر پنچ ماننے سے انکار کر دیا ۔ اس کے بعد جب بھی کوئی مسٗلہ میرے چاچے کے سامنے آتا ۔ میرا چاچا لوگوں کو تھانے کی راہ دکھاتا۔ میں خود سے شرمسار رہنے لگا مجھے چاچے کا کوئی ایسا عمل یاد نہ تھا جو نفرت کا باعث ہوتا۔ اب میں کسی بہانے کا انتظار کر رہا تھا ۔ پھر وہ واقعہ ہو گیا جس نے سارے گاوں کو ششدر کر دیا کسی نے میری بھتیجی کے سر سے چادر کھینچنے کی کوشش کی تھی ۔ میں گیا تو چاں چاں کرتی چپل پہن کے اور اونچا شملہ رکھ کے تھا ۔ مگر میں نے شملہ چاچے کے قدموں میں رکھ دیا تھا اور واپس ننگے پاوں آیا تھا۔ پھر میں نے اس بد بخت کو ڈہونڈ نکالا ۔ سارا گاوں متفق تھا کہ فیصلہ جرگے میں ہو اور چاچا جو فیصلہ کرے سب کو منظور ہو گا۔ عین موقع پر چاچے نے کہا میں تو فریق ہوں تم فیصلہ کرو۔ میرا فیصلہ غصہ بھرا تھا ، مگر گاوں والوں کو منظور تھا۔ میرا چاچا اٹھ کھڑا ہو اکہا میں بطور فریق مجرم کو معاف کرتا ہوں، معافی نہ مجھے منظور تھی نہ گاوں والوں کو۔ چاچے سے اپنا کرتا اتار کر پیٹھ ننگی کر لی ۔کہا اپ لوگوں نے سزا دینی ہے تو مجھے دو۔ سب کے ساتھ میری نظریں بھی جھک گئیں۔ بغاوت پر آمادہ مجرم ایسے جھکا کہا اس کی زندگی کا رخ ہی بدل گیا ۔ مولانا لطیف نے میرے کندہے پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔ اللہ اس لیے خدا ہے کہ وہ احسان کرتا ہے۔چند لمحے کی خاموشی کے بعد کہا جس شخص کا جنازہ پڑھ کر آرہے ہیں وہ میرے چاچے جیسا تھا وہ کہتا تو نہیں تھا کہ مگر اس کا مدعا یہی ہوتا تھا کہ دیندار بننا ہے تو دستار کاشملہ اونچا کرنے اور چاں چاں کرتی چپل سے پرہیز کرو۔