ہفتہ، 11 نومبر، 2017

جواب آں غزل


ؑ عمل اور رد عمل ساتھ ساتھ چلتے ہیں ، بن سلمان کی تحریک کے رد عمل میں جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ بھی دلچسپ ہے ۔اور بات کرنے کا انداز بھی نیا ہے۔
بن سلیمان کے بارے میں کہا گیا ہے ان کے دل میں بھی خواہشیں جنم لیتی ہیں، اور وہ ان خواہشوں کی تکمیل میں دنیا بھر کے ملکوں کی سیر کرتے ہیں، ان کے دل کی دھڑکن بھی 
Serene 
(ایک کشتی کا نام ہے) کو دیکھ کر تیز ہو گئی تھی ، دل کی دھڑکن کو معمول پر لانے کے لیے پانچ سو ملین ادا کردیے گئے۔مزید یہ کہ کسی کو باپ کی وفات کے بعد ترکے میں دولت ملی ہے تو خود بن سلمان کے باپ کے اٹھارہ بلین ڈالر تو تقسیم بھی نہیں ہوئے ، ان کے پاس تین بلین ہیں ، یہ شکوہ آل سعود کے معتوب شہزادے کے ہمدرد کزن کا ہے جو خاندانی رقابت سے تنگ آ کریورپ میں جا بسے ہیں۔اور یہ بیان 
autoblog 

کے بلاگر کا ہے۔جو 1980 سے ان معاملات کے خود کو قریب سے دیکھنے کے دعویدار ہیں۔
Serene. 439.30ft Yacht , 8231 Tonnes, 25 knots speed
----------------------------------------------------------------------------

ولید بن طلال کے ایک کاروباری دوست کی دلیل ہے کہ ولیدکی گرفتاری کی خبر پر صرف منگل تک ولید کے اثاثوں کی قیمت گرنے سے ولید کو 
$ 855 Mn
کا نقصان ہوا ہے جو آل سعود اور سعودیہ ہی کا نقصان ہے۔

------------------------------------------------------------------------------



سابقہ مرحومیں بادشاہوں کی کرپشن کی کہانیوں کے جواب میں کہا گیا ہے کہ بن سلمان کے باپ کے پاس فٹ بال گراونڈ کی لمبائی کے برابر کشتی سپین میں لنگر انداز ہے جس پر بیس افراد کا مستعد عملہ ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔اور اس مین 30 آدمیوں کے اسانی سے راتیں گذارنے کے انتظامات ہیں۔ شاہ سلیمان کے اس محل کا ذکر بھی آیا ہے، جس محل میں سابقہ امریکی صدر اوباما کو خوش امدید کہا گیا تھا۔ اس محل میں رشتہ داروں کا داخلہ اس لیے بند ہے کہ اس کی آرائش کی نقل نہ کی جائے۔شاہ سلیمان جب مالدیپ میں چھٹیاں گزارنے  گئے تھے ان کے سو افراد کے محافظ دستے اور دوسرے
لوازمات کے ساتھ تیس ملین ڈالر کے اخراجات کی کہانی ابھی تازہ ہے۔ سوئیٹزر لینڈ میں ان کے محل کا نام بھی لیا گیا ہے۔


-------------------------------------------------------------------------------



بن سلیمان پر آل سعود کے اندر سے تیر اندازوں کا کہنا ہے کہ بن سلیمان کے الزام اس سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کی کامیابی کی صورت میں وہ خود بادشاہ بننے کا ارادہ کئے ہوئے ہیں، آل سعود میں روائت رہی ہے کہ وہ پچھلی عمر میں بادشاہ بنتے ہیں ، عزت کی زندگی گزارتے ہیں اور با عزت دفن ہوتے ہیں ، سارا خاندان مرحوم کے لواحقین سے تعزیت کرتا ہے۔ 
بن سلیمان کے امریکیوں اور اسرائیلیوں سے ذاتی تعلقات ہیں، اس کا ثبوت لبنان کے حالات اور بن سلیمان کی اس میں دلچسپی ہے۔


-------------------------------------------------------------------------------



جب النہار اخبار نے یہ خبر چھاپی کہ ولید بن طلال اور ان کی بیٹی ریم کو رہا کرنے کی بجائے شاہ سلیمان کے محل میں منتقل کر دیا گیا ہے تو شاہی خاندان کے یورپ میں مقیم ایک شہزادے کی یہ بات چیت منظر پر آئی کہ وہ دعا گو ہیں کہ ریم بلین ڈالر کے ازالہ عرفی کا دعویٰ نہ کر دے جس کا بن سلیمان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔کیونکہ باپ بیٹی کو بغیر ثبوت گرفتار کیا گیااور بغیر فرد جرم کے رہا کر دیا گیا۔
باعزت لوگوں کو یرغمال بنا کر تشدد کا نشانہ بنانا قانون کے مطابق نہیں ہے ۔ یہ صریح اعلان ہے اور بن سلیمان یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ شاہی خاندان کا بے قصور فرد ہو جیسے ولید بن طلال یا ایک با عزت تاجر جیسے الطیار ٹریول ایجنسی والا یا ایک باعزت روائتی خاندان کا فرد جیسے بکر بن لادن ، بکر کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ بن لادن ہے حالانکہ 
1931
میں اس کا باپ آل سعود کو پانی کے لیے ٹنکر بلا معاوضہ مہیا کیا کرتا تھا جب ان کے پاس پاس کرپشن کی زر نہیں ہواکرتی تھی۔اس کا قصور البتہ یہ ہے کہ وہ بن لادن ہے اور یہ نام کسی کو پسند نہیں ہے، کیا کسی کے پاس اس کا جواب ہے کہ مسجد میں توسیع کا کام ہو، ائر پورٹ کی تعمیر ہو یا کنگ عبدللہ اکنامک سٹی کی تعمیر ہو ، بکر نے اپنے پاس سے ادائیگیاں کر کے کام کو جاری رکھا اور جب وہ کئے گئے معائدہ کے مطابق بل کی ادائیگی کا مطالبہ کرتا ہے تو اس کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ رشوت دے کر کرپشن کا مرتکب ہو، یہ کرپشن کے خلاف کاروائی نظر نہیں ٓتی۔ 


--------------------------------------------------------------------------------




thenewkhalij.org
کی ایک رپورٹ کے مطابق خالد بن فرحان السعود جو جو جرمنی مین رہتے ہیں کا کہنا ہے بن سلیمان اپنے والد کے مرنے سے پہلے بادشاہ بننے کی جلدی میں ہیں،ان کی اس خواہش کی تکمیل میں چند شرطیں رکھی گئی ہیں ، مصر اور اردن کی سرحد
کے قریب نیا شہر بسانا اچھا کام ہے البتہ غزہ سے فلسطینوں کو لا کر یہاں بسانا اور سوئس کنال کے متبادل 
اسرائیلی منصوبے میں مدد کا وعدہ پورا کرنا ایسے محرکات ہیں جس پراختلافات ہیں 

2015 

میں شاہ عبدللہ بن عبد العزیز کی وفات سے قبل آل سعود اس مسئلہ پر تقسیم کا شکار ہو چکے ہیں۔
---------------------------------------------------------------------------------


بوری کی مالیت کیا ہے


آل سعود میں شہزادوں کی تعداد نامعلوم ہے ۔البتہ ایک بلاگ کا عنوان ہے
What happening in the land of ten thousand princes
ایک دوسرے بلاگر 
Dorian de Wind
Retired U.S. Air Force Officer and Writer
کا دعویٰ ہے کہ شہزادوں کی تعداد پندرہ ہزار ہے، 
شہزادوں کی تعداد جو بھی ہوتمام شہزدے ماہانہ وظیفے سےنوازے جاتے ہیں ، ذاتی جہازوں میں سفر کرتے ہیں، اعلیٰ ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں اور کوئی بھی ایسا نہیں جس کے اثاثے اور ملین مین نہ ہو۔ ان کی کارکردگی کا اندازہ اس خبر سے ہوتا ہے کہ ایک شہزادے کو کہا گیا کہ وہ ایسی تعمیر کریں جو عوام کے لیے فائدہ مند ہوتو انھون نے اپنے لیے ایک اور محل کھڑا کر لیا۔

Huffpost 

کی ایک رپورٹ کے مطابق اس کرپشن کی مالیت
1.4 Trillion American Dollars
ہے 
بن سلیمان کے متحرک ہونے کے بعد الزام اور جوابی الزامات کے بعد دو کام ہوئے ہیں ایک آل سعود کے اندرونی اختلافات کھل کر دنیا کے سامنے آ گئے ہیں دوسرا اس بوری کا منہ کھل گیا ہے جس میں زر کی مالیت ٹریلین میں ہے، یہ کرپشن کی ایسی بوری ہے جس کا منہ کھل جائے تو ارد گرد کی ہوا بد بودار ہو جاتی ہے۔
--------------------------------------------------------------------------------


آل سعود
شاہ عبدلعزیز جو آل سعود کے بانی ہیں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی 17 بیویاں تھے اور ان کی اولاد کی تعداد 100 کے قریب بیان کی جاتی ہے ، ان میں 45 شہزادے تھے۔ شاہ سعود، شاہ فیصل ، شاہ خالد کی مجموعی اولاد کی تعداد 115 ہے۔
                                  --------------------------------------------------------------------------------

امریکہ اور سعودیہ

امریکہ کی اس خطے میں بہت بڑی سرمایہ کاری بصورت دفاع، معاشیات، سفارت اور سراغ رسانی پائی جاتی ہے۔ عشروں میں اس نے بااعتماد افراد ، ادارے اور ملکوں کے سربراہ دوست بنا لیے ہوئے ہیں۔امریکیوں کے بارے میں یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنی ذات کے دوست ہیں ، اس کے بعد وہ امریکہ کی ریاست کی دوستی کو خیالات اور نظریات پر ترجیح دیتے ہیں۔جیسے عرب علاقوں کو فتح کرنے والے غیر مسلم انجام کار مسلمان ہو جاتے رہے ہیں ایسے ہی امریکہ معاشرہ باہر سے آ کر وہاں بس جانے والوں کی اگلی نسل کو مکمل طور پر خود میں سمو لیتا ہے۔ امریکہ کا نظام اور قانون اپنے شہریوں کو جو شخصی آزادی اور انفرادی تحفظ مہا کرتا ہے وہ فرد کو سلطنت کا ممنون بنا دیتا ہے ۔ یوں حاکم و محکوم باہمی اعتماد کے رشتے میں جڑ جاتے ہیں، مشرق وسطیٰ میں ذاتی تحفط ناپید ہے، یہ وہ مجبوری ہے جو فرد کو دوسروں کا آلہ کار بننے پر مجبور کرتی ہے، مشرق وسطی میں اسرائیل اور ایران کے سوا ہر جگہ ہر قسم کے آلہ کار دستیاب ہیں۔

امریکہ کو اس خطے میں اسرائیل کا تحفظ بہت پیارا ہے اور جو فرد یا ادارہ یا ملک اس کے پیار میں معاون ہو گا ہووہ امریکہ کو خود کا دوست پائے گا ۔فلسطین ، اردن، مصر، شام ، عراق اور لبنان میں امریکہ اپنا یہ پیار نبھاتا رہا اور نبھاتا رہے گا۔

سعودی عرب میں گو بادشاہت ہے مگر دراصل مطلق العنان بادشاہت کی بجائے آل سعود کی حکمرانی ہے، بادشاہ آل سعود کے مفادات کا محافظ بن کر اپنی طاقت شہزادوں کے ذریعے عوام سے حاصل کرتا ہے۔ دوسرا عنصر مذہبی رہنماوں کا ہے جو ایک معاہدے کے تحت حکومت میں شامل ہو کر بادشاہ کو اپنی حمائت سے 
نوازتے ہیں اور بدلے میں اپنے نظریات کی ترویج کا حق پاتے ہیں۔
سعودیہ کے بادشاہ کو اپنے مذہبی ساتھیوں کے تحفظ میں 1979 سے مشکلات کا سامنا ہے جس کے باعث بادشاہ کے مذہبی حلیفوں میں بے چینی پائی جاتی ہے ۔ سعودیہ اس بے چینی کا سبب 1979 کے ایرانی اسلامی انقلاب کر گردانتا ہے ۔ یوں ایران کے خلاف سعودی اور امریکی مفادات ایک دوسرے کو جوڑے ہوئے ہیں، امریکہ بڑی طاقت ہونے کے سبب سعودیہ سے بعض اوقات اپنے ْ پیارے ْ اسرائیل کے لئے نا جائز مفادات بھی حاصل کرتا رہا ہے، مگر اب وہ حد فاصل آ چکی ہوئی ہے کہ سعودی بادشاہ کے لئے اس حد کو عبور کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا ۔ اس حقیقت کا امریکہ کو بھی ادراک ہے ۔ ممالک گھی نکالنے کے لیے انگلی ٹیڑہی نہیں کرتے مگر اپنے خفیہ اداروں اور سازشوں کے ذریعے گھی نکالنے کی کوشش کرتے ہیں

to be continued

جمعہ، 10 نومبر، 2017

کیا کرپشن کا وجود ہے؟






سعودی عرب کی انٹی کرپشن کمیٹی نے جن لوگوں کو اپنی تحویل میں لیا ہے ان میں ایک نام شہزادہ بندر بن سلطان کا ہے ، بندر امریکہ میں سعودیہ کے سفیر تھے۔انھوں نے لندن کے علاقے
Costwold 
کے مقام پر پورا ایک گاوں خریدا، اس کے علاوہ لندن ہی میں انھوں نے دو ہزار ایکڑ اراضی بھی خریدی، اس کے علاوہ ان کے واشنگٹن کے 
Riggs Bank 
کے اکاونٹ میں پندرہ ملین برطانوی پونڈ جمع کرائے گئے ، انٹی کرپشن کمیٹی کا کہنا ہے کہ یہ ساری دولت اس کرپشن کی آمدن ہے جو سعودی حکومت اور برطانیہ کے درمیان ایک دفاعی سودے میں کی گئی ہے۔ یہ دفاعی جنگی جہازوں کی خریداری کا ایک سودا تھا جس کی کل مالیت 
43
بلین برطانوی پانڈ تھی ۔ بندر بن سلطان پر کرپشن کا الزام لگا ، واشنگٹن اور لندن میں بندر کے خلاف تحقیقات بھی ہوئی مگر اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم جناب ٹونی بلیر کے کہنے پر ان کے خلاف کاروائی کو روک دیا گیا ۔ یہ معلومات نیٹ پر موجود ہیں

     * * *                                                    
                                               
                                                   
شاہی خاندان کے چار با اثر شہزادے بھی عتاب کا شکار ہیں، ان میں مرحوم شاہ فہد کے بیٹے، مرحوم شاہ عبدا للہ کے بیٹے، شہزادہ سلطان اور شہزادہ نائف بھی شامل ہیں، شاہ فہد مرحوم 
ٓAsturion Founddtion
کے نام سے ایک خفیہ ٹرسٹ چلاتے تھے، انھوں نے پچیس سال تک اس ٹرسٹ کے ذریعے بہت بڑی رقم سرکاری خزانے سے خرد برد کی، ان کو اپنے عہدے کی وجہ سے عدالتی تحفظ حاصل تھا اور ہے مگر اس اکاونٹ کے موجودہ بینی فشریز ان کے بیٹے ہیں، اس اکاونٹ کے علاوہ شاہ کے وقت میں دنیا بھر میں خریدی گئی پراپرٹی کے وارث بھی ان کے صاحبزادے ہیں۔ اور یہ ساری رقم سعودی سرکاری خزانے سے خرد برد ہوئی ہے اس کا اندازہ امریکہ ڈالروں میں تین ٹریلین ہے ۔ایسی ہی 
کہانیاں دوسرے تین با اثر شہزادوں کے بارے میں بھی ہے۔ 
   

* * *                                                              

    
                                                 
گرفتار شدگان میں ایک نام شہزادہ ولید بن طلال کا ہے ، ان کی بیٹی ریم کو بھی حراست میں لیا گیا ہے، اس پکڑ دھکڑ میں ریم واحد خاتون ہین جس کو حراست مین لیا گیا ہے۔ ولید کے معلوم کاروبار کے علاوہ کچھ خفیہ اثاثے بھی ہیں جیسے 
Rotana
جو ٹی وی کی بہت بڑی کارپوریشن ہے۔ولیدکی بیٹی پر ریم پر بھی کرپشن کے سنگین الزامات ہیں۔


* * *                                                    

                                             
گرفتار شدگان میں بن سلیمان کے کچھ اپنے ساتھی بھی ہیں ، مثال کے طور پر پلاننگ کے وزیر مسٹر عادل ، جس کو بن سلمان نے ترقی دی ، 
vision 2030 & NEOM 
جیسے بڑے منصوبوں میں شامل تھے ، وہ اس سے پہلے جدہ کے گورنر تھے ، ان پر بھی کرپشن کے انتہائی سنگین الزامات ہیں۔
* * *
عادل نام کے اور وزیر جن کا پورا نام عادل التوریفی ہے اور بن سلیمان کے وزیر اطلاعات تھے، ان کو گرفتار کر کے ریاض کے ہوٹل 
Ritz Carlton
میں لایا گیا ہے ۔یہ وہی ہوٹل ہے جہاں چند ہفتے پہلے ہی ان لوگوں کی موجودگی میں نئے منصوبوں کا اعلان کیا گیا تھا۔
نیویارک کے ایک با اثر اخبار کے مطابق پانچ صد سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے ، سعودیہ میں اس سارے معاملے کو قریب سے دیکھنے والے ایک صاحب نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ اس سے دگنی لوگوں سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔
ان چند دانوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بوری میں ہے کیا ہے اور اس کی مالیت کتنی ہو سکتی ہے۔ منگل تک مملکت میں 
1200لوگوں کے اکاونٹ منجمد کرنے کی خبر کی تصدیق کر دی گئی تھی ۔ اس دن بھی ذرائع کا اصرار تھا 
کہ منجمد ہونے والے اکاونٹس کی تعداد 

1350 
سے بھی زیادہ ہے اور بقول شخصے یہ عام کم وزن کی مچھلیاں نہیں ہے بلکہ جسیم وہیل ہیں۔
یہ چند مثالیں واضح کرتی ہیں کہ یہ من گھڑت کہانیاں نہیں ہیں بلکہ مملکت میں ترقی کی شاہراہ پر گہرے گڑہے ہیں ان گڑہوں کو پاتے بغیر ترقی کی شہراہ پر سرمایہ کاروں کے اعتماد کی گاڑی کا دوڑنا ممکن ہے نا ہی اکیسویں صدی میں سفر ممکن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                       
نوٹ ۔ یہ مضمون دراصل ۔۔( سعودیہ ۔ آج اور آنے والا کل ) کی دوسری قسط ہے۔ میرے اس قسط وار بلاگ کی پہلی قسط 
DJANJUA.BLOGSPOT.PE
ُپر دیکھی جا سکتی ہے، باقی اقساط بھی جلد اپ لوڈ ہوں گی

سعودی ولی عہد کا تعارف




سعودی عرب میں مجوزہ تبدیلیوں کے علمبردار ، شہزادہ محمد بن سلیمان متحرک تو ہو گئے ہیں مگر انھوں نے بھی خبر باہر نہ نکلنے دینے کی روائت کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ ا س کا اثر یہ ہوتا ہے کہ سنی سنائی باتوں پر انحصار بڑھ جاتا ہے ، سعودی عرب میں 
خبروں کی رسمی تصدیق کے بارے میں یہ بیانیہ عام ہے کہ ْ فوتیدگی کی خبرکی تصدیق میت کوفنانے کے بعد کی جاتی ہےْ 
اس روائتی معاشرے کو ملک شاہ سلیمان کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان نے بدل ڈالنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ولہ عہد جن تبدیلوں کے داعی ہیں ان کا ذکر ان کے
vision 2030
کے علاوہ انکے میڈیا کو دیے گئے انٹرویو یا پھر مملکت کے اندر اور باہر ماہرین کے اندازوں سے اب تک جو نکھر کر سامنے آیا ہے یہ ہے

ٌ* مملکت کے اندر حالات کی بے یقینی کو ختم کرنا *
ٌ* جامد معاشرے کو فرسودہ خیالات سے آزاد کرانا*
* عورتوں کو ان کے حقوق دینا*
*نوجوانوں کو ذمہ داریوں میں حصہ دار بنانا*
*مذہبی حوالے سے قائم سختی کو نرمی میں تبدیل کرنا*
* شہزادوں سمیت حکومتی اداروں میں کرپشن کا خاتمہ*
* بدلتے معاشی حالات کے چیلیج کو قبول کر کے متبادل تلاش کرنا*
* مملکت اور علاقے میں انتہا پسندی اور جہادی تنظیموں کا قلع قمع کرنا*
* مغرب میں پھیلی اسلامی انتہا پسندی کو لگام دینا*
* خطے میں ایران کے بڑہتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنا*
اس ایجنڈے پر غور و خوض تو چند مہینوں سے جاری تھا مگر آغاز کار کے طور پر یہ طے ہوا کہ ابتداء کرپشن کے خاتمے سے کی جائے۔اس کے کام کی ابتداء خادم الحرمین شریفین نے اپنے ایک فرمان کے ذریعے فرمائی کہ انھوں نے اپنے ولی عہد کی سربراہی میں ایک کمیٹی کو وسیع اختیارات دے کر یہ کام اس کے سپرد کر دیا۔
اس کمیٹی کی کارکردگی، اس کے اثرات ، معیشت کے اس پر اثرات ، ممکنات اور نا ممکنات ، مملکت کے اندر عوام پر اس کے اثرات، ؑ علاقے میں تبدیلی کے لوازمات ، اور ممکنہ رد عمل پر مختلف لوگوں اور ماہرین کی رائے مملکت کے اندر سے اور دنیا بھر سے پیش کی جائے گی ۔مگر آج کی قسط میں شہزدہ محمد بن سلیمان کا ذاتی تعارف پیش کیا جائے گا ۔ اس مقالے میں طوالت سے بچنے کے لیے القابات سے صرف نظر کرتے ہوئے شہزدہ محمد بن سلیمان کے لیے ْ بن سلیمانْ اور خادم الحرمین شریفین کے لیے ْ شاہ سلیمانْ کا تخفیف شدہ نام استعمال کریں گے۔

بن سلیمان 13 اگست 1985 کو ریاض میں پیدا ہوئے
ان کی والدہ کا نام فضہ بنت فلاح بن سلطان ہے ان کا تعلق سعودیہ کے ایک با اثر قبیلے عجمان سے ہے ، اس قبیلے کے سرادر راکان بن ہیثلیم نامی بزرگ ہیں ۔ 
بن سلیمان کی 2008 میں شادی ہوئی ان کے3 بچے ہیں ، ان کی زوجہ کا نام شہزادی سارہ بنت مشہور بن عبد العزیر السعود ہے
سعودی شاہی خاندان کی روایات یہ رہی ہے کہ وہ اپنے شہزادوں کو تعلیم کے لیے برطانیہ ، امریکہ یا دوسرے ممالک میں بھجتے ہیں مگر ان روایات کے بر عکس بن سلیمان کی ساری تعلیم مملکت کے اندر ہی کی ہے۔
بن سلیمان نے کنگ سعود یونیورسٹی سے قانون میں ڈگری حاصل کی ہوئی ہے، یونیورسٹی کی تعلیم سے قبل ثانویہ (سکول کی مکمل ۲۱ سالہ تعلیم) بھی ریاض ہی کے ایک سکول سے مکمل کی تھی ۔اور پرائمری تعلیم بھی ریاض ہی کے ایک مقامی سکول سے حاصل کی تھی۔
اپنی تعلیم کے آخری ایام میں انھوں نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر
MiSK
کے نام سے ایک ادارہ بھی تشکیل دیا تھا۔ جس کا مقصد سعودی نوجوانوں کی خوبیوں کو اجاگر کرنا تھا۔اس ادارے کی اچھی کار کردگی پر انھیں 
Forbes Middle east 
ْ نے ْ سال کی شخصیت ْ کا خصوصی ایوارڈ پیش کیا تھا۔
ان کی سب سے پہلی تعیناتی ریاض کی مسابقاتی کونسل میں بطور سیکر ٹری جنرل تھی
وہ شاہ عبد العزیز فاونڈیشن کے بورڈ کے چیرمین کے خصوصی مشیر بھی رہے 
مملکت میں البیر سوسائٹی برائے ترقی ایک معروف ادارہ ہے، بن سلیمان اس کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔
2007
میں انھیں کونسل آف منسٹرز کا مشیر بنا دیا گیا وہ دو سال اس عہدہ پر قائم رہے حتیٰ کہ
2009
میں وہ شاہ سلیمان کے مشیر مقرر ہوئے ، شاہ سلیمان اس وقت ریاض کے گورنر تھے ، ان ذمہ داریوں کے ساتھ وہ جز وقتی طور پر کونسل آف منسٹرز سے بھی وابستہ رہے، شاہ سلیمان کے مشیر کی حیثیت سے بن سلیمان نے اپنے والد کا اعتماد جیتا اور وہ اپنے والد کے دست راست ثابت ہوئے۔انھوں نے گورنر ریاض کے دفتر میں کئی بنیادی تبدیلیاں کی جن سے دفتر کی کار کردگی مزید مثبت ہو ئی
2015
میں جب شاہ سلیمان نے سعودی عرب کا تخت سنبھالا تو بن سلیمان کو وزیر دفاع اور نائب ولی عہد بنا دیا گیا۔
2016
جون کے مہینے میں وقت کے ولی عہد بن سلیمان کے حق میں اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے۔
اس وقت 
32 
سالہ بن سلیمان مملکت سعودی عرب کے تخت و تاج کے مالک 
81 
سالہ خادم الحرمیں شریفیں صاحب جلالہ ملک سلیمان بن عبد العزیز السعود کے ولی عہد، وزیر دفاع ، انسداد کرپشن کے چیرمین ، کونسل برائے مالی امور کے چیرمین ، 
Vision 2030
کے خالق ، جدیدیت کے داعی ، سعودی معاشرے میں دور رس تبدیلیوں کے مبدی کے طور پر مملکت  سعودی 

عرب کے نوجوانوں اور خواتین کے مقبول رہنماء ہیں۔

.....جاری ہے

فاصلہ

فاصلہ 
1970 
کے الیکشن کا زمانہ تھا ، لاہور سے اٹھی پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماء ذوالفقار علی بھٹو کا پورے ملک میں طوطی بولتا تھا ، پیپلز پارٹی کا نعرہ تھا
روٹی، کپڑا ، مکان
نا انصافی اس وقت بھی تھی مگر اتنی نہ تھی کہ سیاسی پارٹی اپنے نعرے میں اس کا ذکر کرتی ۔ شائد موٹر سائیکلوں کی کمی کے باعث سڑکوں پر کرپشن کے مظاہرے نایاب تھے، جاگیر داروں اور صنعتکاروں کے ظلم میں پسی عوام نے اس نعرے کو ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ بھٹو کی پیپلز پارٹی نے اگر حلقے میں کھمبے کو ٹکٹ دیا تو عوام نے اسے بھی ووٹ دے کر کامیاب کرایا ۔ کھمبے کی اصطلاح بھی اسی زمانے کی ایجاد ہے ۔ مثال کے طور پر راولپنڈی کی ضلع کچہری میں خورشید حسن میر نام کے ایک وکیل ہوا کرتے تھے ، مقدموں کی نایابی کا شکار مگر پیپلز پارٹی کے ٹکٹ نے انھیں پاکستان کی قومی اسمبلی کا ممبر بنوا دیا۔پہلے وہ وزیر بے محکمہ بنائے گئے ، جی ہاں اس زمانے میں ایسے وزیر بھی ہوا کرتے تھے جن کے پاس کوئی وزارت نہیں ہوا کرتی تھی ایسے وزیروں کو وزیر بے محکمہ کے نام سے لکھا اور پکارا جاتا تھا۔ خورشید حسن میر صاحب بعد میں ریلوے کے وزیر بنا دئے گئے اس زمانے میں ہم اخبار میں دلچسپی سے پڑہا کرتے تھے کہ ریل کا پورا انجن کیسے غائب کیا جاتا ہے۔ خود بھٹو صاحب البتہ امین تھے ۔ سیاستدان کے لیے صادق ہونا ممکن ہے یا نہیں ، یہ تو لال حویلی والے شیخ صاحب ہی بتا سکتے ہیں ۔
بھٹو صاحب نے اپنی مدت بھی پوری کی اور دوسرا الیکشن بھی کامیابی سے لڑا، مگر ان کی چاند جیسی شکل کے مقابلے میں پہلے نو اور پھر گیارہ ستارے لائے گئے ۔ در اصل بھٹو مخالف اتحا د بنانے والوں کے جھنڈے میں گیارہ ستارے تھے۔کیونکہ اس وقت سیاسی پارٹیاں ہی اتنی تھیں۔ چوبیس گھنٹے چلنے والے درجنوں ٹی وی چینلوں کی جگہ صرف ایک سرکاری ٹی وی ہوتا تھا جو مخصوص وقت پر کھلتا اور بند ہو جاتا تھا۔ ایف ایم ریڈیو سے لوگ نامانوس تھے۔ سوشل میڈیا کا تصور بھی نہیں تھا جلد ہی عوام کو یقین ہو گیا کہ ان کے ووٹ چوری ہو گئے ہیں۔ بھٹو کے خلاف ایک بلند آواز ریٹائرڈ ائر ماشل اصغر خان کی ہوا کرتی تھی ان کی پارٹی کا نام جسٹس پارٹی تھا، جیسے آج کل نواز شریف کے مقابلے میں عمران خان صاحب ہیں اور ان کی پارٹی کا نام تحریک انصاف ہے۔جلسے کم اور جلوس زیادہ نکلا کرتے تھے ۔ ایک دن راولپنڈی میں جلوس نکلا کسی نے جی ایچ کیو کے سامنے بینر لٹکایا جس پر لکھا تھا ْ خلقت مٹ جائے گی تب انصاف کرو گےْ عوام کی فریاد سن لئی گئی ۔ بھٹو کے ساتھ جو ہوا سو ہوا مگر خلقت خدا کے مطالبے پرملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا۔ مارشل لا لگ جانے پر شیریں بانٹنے کی روائت کی ابتداء بھی ہوئی ، ورنہ اس سے قبل مارشل لاء کی أمد پر شیرین تقسیم نہیں ہوتی تھی،عام طور پر مانی ہوئی منت کے پورا ہو جانے پر شیرین تقسیم کی جاتی ہے، عوام کی منت پوری ہوئی اور پاکستان کو جنرل ضیاء الحق کی صورت میں ایسا مرد مومن نصیب ہوا جو کھلی استین والا کرتاپہنتا ، نیو یارک میں اللہ کے اس بندے نے اللہ کی کتاب کی تلاوت کی ریت ڈالی، اللہ نے اسے اپنے گھر بلایا تو امام کعبہ مقام امامت سے یہ کہہ کر ہٹ گئے کہ آپ امت کے رہنماء ہیں امامت فرمائیں، پھر انھوں نے تلاوت کی خود بھی گریہ کیا اور اپنے مقتدیوں کو بھی رلایا ، ایسے ہی بتایا جاتا ہے ، شہادت کی موت مرے اور ان کی باقیات فیصل مسجد کے باہر دفن ہیں، پھر سیاستدان آئے کبھی بے نظیر تو کبھی نواز شریف ، مگرعوام راولپنڈی کے جی ایچ کیو کے باہر پھر بینر لگا چکے تھے۔ ہاتھ دعا کے لئے اٹھے تو فضاوں سے شرف قبولیت اترا ۔
یہ ساری تمہید اس لیے بیان کی کہ اس دن ایک بالکل ہی نوجوان، گل خان ، مسکراتاہو�آیا
ْ آپ نے رات کو خطاب سنا ْ پھر خود ہی کہنے لگا ْ اب ہمیں صیح آدمی ملا ہے ْ 
میں اس کی خوشی پہ خوش تھا
ْ آپ بھی کچھ کہیں ْ 
میں کہنا چاہتا تھا ْ برخوردار تم نے یہ خطاب زندگی میں پہلی بار سنا ہے ْ میں چپ رہا کہ گل خان کے چہرے پر آئی امید بھری مسکرائٹ اچھی لگ رہی تھی
آج جمعہ کی نماز پڑھ کر راولپنڈی اور اسلام آباد کو ملانے والی مرکزی شاہراہ کے پل پر کھڑا ہوا ہوں میرے ساتھ گل خان بھی ہے میں نے پوچھا گل خان بتا سکتے ہو یہاں سے جی ایچ کیو کا فاصلہ کتنا ہے
ْ ْ جتنا ان لوگوں ْ گل خان نے مجمع کی طرف اشارہ کر کے کہا ْ اور عوام میں ہے ْ 

 Islamabad.  10 November 2017

جمعرات، 9 نومبر، 2017

والیم 10

ایک بزرگ ہیں ، بندہ ان کا دلی عقیدت مند ہے ، صبح فون پر یاد فرمایا ، ننگے پاوں بغیر ناشتہ کئے حاضرہوا۔ سلام کیا فرمایا بیٹھو، خادم سے کہا جو سلیپر میری الماری کے نیچے والے خانے میں رکھے ہپیں لے کر آو, کمال شفقت سے بندہ کو عنائت فرمائے، گل خان کو ناشتہ لانے کا کہا ۔۔ انھین معلوم ہو گیا کہ میرا عقیدت مند بغیر ناشتہ کے اور ننگے پاوں آیا ہے .. میں اللہ کے ساتھ شرک نہیںکرتا مگر میرے بزرگ واقعِ پہنچے ہوئے ہیں , ساری رات اللہ اللہ کرتے ہیں ، ٹی وی وہ نہیں دیکھتے، اخبار ان کا وقت ضاءع کرتا ہے , فون بھی کسی عقیدت مند نے دے دیا وہ ہاتھ بھی نہیں لگاتے البتہ گل خان کا بھلا ہو رابطہ کر لیتا ہے۔۔۔ ناشتہ کر کے دست بستہ ہوکر عرض کیا کہ آپ نے خاکسار کو یاد فرمایا ہے .. حکم ۔۔ متبسم ہوئے فرمایا '' والیم 10 " کیا ہے ..."میں نے ابلیس کو پسینے میں شرابور دیکھا ہے"