اتوار، 23 نومبر، 2014

مسکرانا صدقہ ہے



مسکرائٹ خوشی کا اظہار ہی نہیں ہے۔بلکہ خوشیاں بکھیرنے کا سبب بھی ہے۔یہ آپ کی شخصیت کو ہر دل عزیز بناتی ہے۔مسکراتے چہرے پسندیدگی کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔مسلمانوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ مسکرائٹ صدقہ ہے۔ کسی صاحب اقتدار اور بزرگ کا مسکرا کر دیکھنا زیر دستوں اور کم سنوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بنتا ہے۔گھر میں مسکرائٹ خوشیاں بکھیرتی ہے،دوستوں کے مابین رشتوں کو مضبوط کرتی ہے۔مسکرانا انسان کے خوش اور مطمن ہونے کا اظہار ہے۔اور مذہبی نقطہ نظر سے شکر میں داخل ہے۔ ایک عقلمند نے کہا ہے کہ دن کو مسکرایا کرو کہ مسکرائٹ لوگوں کو پسند ہے اور رات کو رویا کرو کہ رونا اللہ کو پسند ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جماعت میں مسکرایا کرو کہ یہ شکر کا اظہار ہے اور تنہائی میں رویا کرو کہ اللہ سبحان تعالی کی نعمتوں کا شکر بجا لانا ممکن ہی نہیں ہے اور اپنی اس بے بسی پر آنسو بہانا اظہار خاکساری اور عبودیت ہے۔اور شکر میں داخل ہے۔ اللہ سبحان تعالی کے شکر کا بہترین اور چنیدہ وقت قبل سحر کا ہے۔کہ یہ فیصلوں پر عمل درآمد کا وقت ہے۔دشمن عام طور پر اسی وقت یلغار کرتا ہے۔مجرموں کو تختہ دار پر اسی وقت لٹکایا جاتا ہے اور انسان کی قسمت کے فیصلوں پر عمل درآمد کا وقت بھی یہی ہے۔ جو لوگ اس گھڑی خوف زدہ اور چوکنا رہتے اور عجز و انکسار چہروں پر سجا کر بے بسی اور محتاجی کے آنسو وں کے ساتھ مالک کے حضور کھڑے ہو جاتے ہیں ان کو معاف کیا جاتا ہے۔ انسان کی کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنے اور اللہ سبحان تعالی کے مابین رشتے کی حقیقت کو پا جائے اور کامیابی کی معراج یہ ہے کہ انسان یہ ادراک حاصل کر لے کہ کریم کے کرم کا شکر بجا لانا اس کے بس میں ہی نہیں ہے۔ جب انسان اس ذہن کے ساتھ علیم کے دربار میں کھڑا ہوتا ہے تو دہ علم کی حقیقت سے روشناس کر دیا جاتا ہے۔

جمعہ، 21 نومبر، 2014

انسان کی زندگی بھی ایک سوال ہے

a=1 m=13 z=?

جن لوگوں کو سوال سمجھ آ گیا ہے، ان کے لے جواب مشکل نہیں ہے۔ لیکن جو سوال کو سمجھ ہی نہ سکے ان سے صیح جواب کی توقع عبث ہے۔
انسان کی زندگی بھی ایک سوال ہے، جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ 
 زندگی کے بارے میں سمجھنے والے سوال تین ہیں ۔ پہلا اور لازمی یہ کہ میں کون ہوں ، دوسرا یہ کہ میں کیوں ہوں اورتیسرا یہ کہ کامیابی کا رستہ کون سا ہے۔
 ان تینوں سوالوں کو سمجھانے کے لیے ماہرین نے بہت کچھ لکھا ہے۔صلحاء اور علماء نے اپنے اپنے طریقے سے سمجھایا ہے، انبیاء اور رسل نے بھی کوئی کسرنہیں چھوڑی ۔اور خود مالک کائنات نے ، جو انسان اور زندگی کا خالق ہے، نے بھی کھلے الفاظ میں اس کی تشریح کر دی ہے۔ قرآن کا مطالعہ بتاتا ہے کہ بادشاہ تو اللہ ہی ہے، مگر وزارت عظمی کی مسند انسان ہی کےلیے مخصوص ہے ۔اللہ نے یہ فرما کر کہ اپنی مخلوقات مںا انسان کو شرف والا بنا کر اپنا نائب کاا ہے۔اس کی مسند اعلی کو آئیے اور قانونی تحفظ بھی فراہم کر دیا۔اور نبو ں اور رسولوں کو اس پر گواہ بھی کر دیا۔ مگر انسان ہے کہ اس اعلی عہدے سے جڑی عظمت ، بزرگی ، اعلی اختانرات اور اللہ تعالی کی وسع مخلوقات پر حکمرانی کا حق پانے کے باوجود اس اعلی اختا رات کی حامل کرسی کی رفعت دیکھ اور محسوس کر کے خود کو حراان و پریشان پاتا ہے تو اللہ تعالی ینپا دلاتا ہے ' کات تو غور نہں کرتا زمنا مں جو کچھ ہے ، ان کو تمھارے لےم مسخر کر دیا ہے'۔ (الحج :65) انسان جب اپنے ان اختا رات پر ششدر ہوا تو بادشاہ دائم نے حوصلہ افزائی مں مزید اضافہ کر دیا ' اس نے تمہارے لےھ رات و دن۔شمس و قمر اور ستارے بھی مسخر کر دیے۔ اور یہ اس کے حکم سے ہے'۔(النحل:12) لکنے انسان کو ینن ہی نہں آ رہا کہ 'جو کچھ زمنا مںو ہے ۔ اس کے لے پددا کاز گا ہے'۔(البقرہ:29)۔یہ ہے وہ سوال جو انسان کی سمجھ مںی آ جائے تو جواب مشکل نہں ہے۔ انسان اپنی مجبوری اور بے بسی کا شکار نہںک ہے بلکہ وہ اپنے ہی اختا(رات اور مقام سے خوف زدہ ہے۔نو آموز مقرر سامعن کی تعداد کثرش سے خوف زدہ ہوتا ہے لکنب ایک مقام پر خطبس کو ینائ ہو جاتا ہے کہ اس کے سامعنض پھول ہںر۔ انسان کا اپنی ذات کا ادراک، نوآموز مقرر اور خطبو کے سفر کے درماکن معلق ہے۔ کورں کا جواب سادہ ہے کہ اشرفتا کی مسند کی اہلتن کے تواتر کا معاعر قادر مطلق سے ہر حال منو وابستگی ۔اور اس کا ینقر وہ خود دلا رہا ہے۔'مں نے جن و انس کو اپنی عبادت ہی کے لےہ تخلقک کاا ہے' اور عبادت کا پہلا مقام ہی وفاداری ہے۔انسان کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنے ارد گرد دیکھے کہ ہر ہر شے وفاداری کے دریائے عمقخ مںا غوطہ زن ہے۔' کاپ تو نے نہںف دیکھا کہ اللہ کے آگے سر جھکاتا ہے ، جو کچھ آسمان مںر ہے اور جو کچھ زمنے مںی ہے۔اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان۔ اور بہت سے انسان ہںم، جن پر عذاب ٹھہر چکا'۔(الصبح:18) یہاں ان بد بختوں کا بھی ذکر کر دیا جو وفاداری کے دائرے سے خود کو باہر کر بٹھےا۔خدا کے ہاں سب سے بڑی مراٹ اس کی قدرت، طاقت، استعداد اور بڑائی کا اعتراف ہے۔اور سب سے بڑی وفاداری اس کی ذات کے اعلی اور مقتدر ہونے کےاعتراف کے عقد ے سے چمٹ جانا ہے۔ حکائت: اس واقعہ نے بھارت کے ایک گاوںمیں جنم لیا اور ایک سنجیدہ شخصیت نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہےکہ ایک ہندو مزدور کا بیٹا عرصہ سے بضد تھا کہ با پو سائیکل لے کردو، غربت میں لتھڑا باپ بیٹے کی خواہش کو پورا نہ کر سکا البتہ شفقت پدری میں بیٹے کو وعدہ فردا پر ٹرخا دیتا۔وقت کے ساتھ ساتھ بیٹے کا مطالبہ زور پکڑتا گیا۔ایک دن جب رات گئے والد گھر آیا تو بیٹے نے باپ کا پلو پکڑ لیا اورپوچھا۔' تم میرے باپو ہو۔بتاو میں سائیکل کس سے مانگوں'۔باپ کی غیرت پدری جھاگ اٹھی ۔ اس وقت وہ گھر سے باہر چلا گیا لیکن واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک نئی سائیکل تھی۔ حضرت محمد رسول اللہ کہ ان کے صادق ہونے کی گواہی ان کے دشمنوں نے بھی دی ہے (اور ان پر صلوات و سلام خاکی، آتشی اور نوری مخلوق اور خود خالق ارض و سماوات بھی بھجتال ہے)۔نے اپنی جان کی قسم کھا کر فرمایا کہ جب بندہ اللہ کو پکارتا ہے اور اللہ بندہ سے ناراض ہوتا ہے تو اس کی آواز سن کر منہ پھرل لتاھ ہے۔اور جب تسرگی بار بندہ پکارتا ہے تو اللہ ملائک کو ندا کرتا ہے کہ فرشتو دیکھو اڑا رہا مررا بندہ اس پر کہ جو کچھ ہو اللہ کے سوا کسی اور کو نہ پکاریں گے، اس لے مں نے قبول کاہ اس کی دعا کو۔ اللہ اپنے بندوں پر اپنے باپوں سے بڑھ کر کریم ہے۔اور ماوں سے بڑھ کر ہمدرد و غمگسار ہے۔لکن غر ت انسانی کا بھی تقاضا ہے کہ اگر فرمان بردار نہ بھی بنں تو کم ازکم دشمنوں کی حمائت سے تو باز رہںس۔ اگر کلمہ شکر ادا نہںی کرتے تو شکوہ مںو زبان درازی سے تو بچںل۔ نبی اکرم کے احترام و محبت کے دعووں کے باوجود اگر محمد کی سنت پر نہںز چلتے تو کم ازکم ابلس کی پرکوی ہی کو ترک کر دیں۔یاد رہے غریت مند معاشروں مںر غرمت کے نام پر خون بہہ جاتا ہے۔ اور غرتت مںہ خدا کا مقابلہ کون کر سکتا ہے۔ کامایبی کا رستہ: کامامبی خدا کا اعتماد اور رعائت حاصل کر لنےا ہی مںک ہے۔ اور رعائت مانگنے پر رعائت بھی ملے اور ساتھ محبت بھی عطا ہو جائے تو کاا کہنا نعمت کی زیادتی کا۔کبھی غور تو کرو اللہ بندے سے محبت کے لے کس قدر بے تاب ہے۔ ایک دن حضرت جبرائلن بارگاہ نبوت مںم حاضر تھے، اور واقعہ باکن کار کہ ایک بت کا پجاری اپنے بت کے رو بہ رو یا رب یا رب پکار رہا تھا کہ مقام ربوبتج سے ندا آئی ' لبیک یا عبدی'۔ مں نے عرض کات اے مالک یہ آپ نے کسا جواب دیا۔ اللہ نے کہا کہ مراا بندہ بھول گات کہ رب مں ہی ہوں تو بطور رب مںع تو اس حققت سے آگاہ ہوں اللہ اپنے بندے کے ایک ایک عمل کو گن کر بتا رہا ہے کا اے مربے بندے اگر تو نے احسان (المائدہ: 13) کاا تو مر ی محبت تر ے لےل ہے۔ اور اگر تو توبہ(البقرہ:222) کا امدےوار ہوا تو بھی مںم تجھ سے محبت کروں گا۔اور اگر تو نے مجھ پر توکل(آلعمران: 159) کال تو بھی تو مجھے محبت کرنے والا ہی پائے گا۔اور اگر تو نے زیردستوں کے ساتھ انصاف (المائدہ:42) کام تو بھی مرنا تجھ سے محبت کا اعلان ہے۔اگر تو نے تقوی(توبہ:4) اختا۔ر کاو تو بھی مں تم سے محبت کروں گا۔اور اگر تو مرگی راہ مںک مجائد بن کر جہاد(آلعمران:146) کرے گا تو بی: مرتی طرف سے بدلہ مںت محبت ہی پائے گا۔اگر تو نے پاکزرگی ( توبہ:108) اختایر کی تو بھی مںا تجھ سے محبت کروں گا۔اور اگرتو نے اپنے روزمرہ کے معاملات کے دوران مرکا ذکر جاری رکھا تو بھی مرہی محبتوں کے خزائن تجھ پر نچھاور ہںھ۔احسان ہوتا ہے جب بن مانگے دیا جائے۔ اس حققتن سے کس کو انکار کی جسارت ہےکہ محسن اعظم اللہ ہی ہے۔عطا بدون استحقاق عطا کرنے کو کہتے ہںن تو اللہ جسا عطا کرنے والا اللہ کے سوا کون ہے۔ایسے رحمم و کریم، رحمان و رحمہ کا دل کی گہرائوسں سے شکر ادا کرنا، اس کی طاقت و استعداد کا ادراک کرنا ، اس کے عائد کردہ واجبات کو ادا کر کے اس کی مخلوق کی خدمت مںی جت جانا ہی کاماکبی کا راستہ ہے۔

جمعہ، 7 نومبر، 2014

عافیت سے جینا سکون سے مرنا



زندگی ، خالہ جی کے گھر بيٹھ کر لقمہ شيريں کھانے کاہ نام نہيں، بلکہ زندہ رھنے کے ليے محنت و کوشش، مقابلہ و کشمکش، سعی و محنت اور خوف و تفکرات سے ہر لمحہ نبردآزما رھنا پڑتا ھے ، اور یہ مہينوں اور سالوں کا معاملہ نہيں بلکہ انسان کی ساری زندگی ھی اس جينے کی نزر ھو جاتی ھے ۔ اور مشکل تريں لمحہ وہ ھوتا ھے جس کا نام موت ھے ۔ زندگی مشکل ھے تو موت مشکل تر ۔ ليکن ان دو حقيقتوں سے چھٹکارا نہيں کيونکہ کوئی اور
Option
موجود ھی نہيں ھے ۔ نسل انسانی نے اپنے طويل تجربہ کے بعد اپنی مشکلات کو کم کرنے کا کچھ ادراک حاصل کر ليا ھے ۔ اہل علم اور عقل مندوں کی نصائع کارگر رھيں ، اور ابن آدم کی خاکساری پر ترس کھا کر مالک کائنات نے بھی کچھ
Hints
 عطا فرما ديے، جن پر عمل پيرا ھو کر زندگی ميں امن و سکون اور اطمينان حاصل کر کے موت کی سختی سے بھی بچا جا سکتا ھے ۔ جب انسان اپنی ذاتی زندگی ميں سچائی، شفافيت اور سادگی پر عمل پيرا ھونے کا فيصلہ کر ليتا ھے تو اس کی زندگی آسان ھونا شروع ھو جاتی ھے، سچائی 'حق' کی حقيقت کو اجاگر کرتی ھے اور ذھن کے بند دريچے کھولتی ھے، اشياء و کلمات و اعمال کی حقيقت اجاگر ھونا شروع ھو جاتی ھے ۔ انسان صيح وغلط، حق و باطل کو ' تاڑ' ليتا ھے [اسی کو فراست کہا جاتا ھے] ۔ فراست حاصل ھونے کے بعد ذاتی زندگی ميں دوڑدھوپ اور محنت و کوشش کی موجودگی ميں ھی ايثار و قربانی کے جذبات خوف و تفکرات کو کم کرنا شروع کر ديتے ھيں ۔ گويا زندگی کے بھنور ميں سکون آ جاتا ھے ۔ اس عمل [سچائی کو اپنی ذات پر لاگو کرنا ] کی ابتدا متوجہ ھونے اور نيت کرنے سے ھوتی ھے ، نيت یا ارادہ کرنا سہل ترين عمل ھے ،جبکہ نيت ھی عمل کی بنياد بنتی ھے کيونکہ ''اعمال کا دارومدار نيتوں پر ھے'' اور اسی کا نام توبہ ھے ۔ اور اللہ کا حکم ھے ''اللہ توبہ کرنے والوں کو محبوب رکھتا ھے''۔[البقرہ:222] توبہ خود کو بدلنے کا ايسا ارادہ ھے جس کو بار بار کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ھے۔ ايک بزرگ عالم لکھتے ھيں کہ انھوں نے 40 بار توبہ کی اور ہر بار استقامت حاصل ھونے ميں ناکام رھے آخر کار 41 ويں بار توبہ پر استقامت حاصل ھوئی ۔ 'مکہ جانے کے عمل کی ابتداء مکہ جانے کی نيت ھی سے ھوتی ھے '' ۔ سمندر ميں موجود متلاطم امواج کو اللہ ھی سکون ديتا ھے مگر ذاتی زندگی ميں سکون و اطمينان پيدا کرنا خود انسان کے ذمہ ھے اور یہ حقيقت ان قرآنی احکام ميں پنہاں ھے ''بےشک اللہ کا ذکر ھی دلوں ميں اطمينان کا باعث ھے'' اور '' اللہ ذکر کرنے والوں کو محبوب رکھتا ھے'' ۔ اللہ کو ہر لمحہ ہر موقع پر ياد رکھنا کہ وہ مالک و خالق ھے، اس کے عائد کردہ فرائض ادا کر کے اس کی رضامندی و مشيت کے آگے سر خم اطاعت کر دينے کا نام ذکر ھے ۔ ذاکر انسان کوسکون و اطمينان عطا کرنے کا وعدہ خود مالک دو جہان نے کر رکھا ھے ۔ يہ دوسرا آزمودہ اور تير بہدف نسخہ ھے ۔ زندگی ميں توبہ پر عمل پيرا ھو کر ، ذکر کےعمل سے ليس ھو جانا ، اورخدمت خلق کے ليے کوشاں رھنا موت کو آسان کر ديتا ھے ۔
 ''آسانی کی موت چاھتے ھو تو دوسروں کی زندگيوں ميں آسانی پيدا کرتے رھو''

خوشی کے راستے

پاکستان میں موٹر وے نئی نئی معرض وجود میں آئی تھی ۔ اسلام آباد سے لاھور کے درمیان سفر کے لیے حد رفتار ایک سو بیس کلو میٹر فی گھنٹہ طے تھی ، جو اس ملک میں نیا تجربہ تھا ۔ یہ رفتار ڈرائیور کی توجہ concentration کی متقاضی ھوتی ھے ۔ موٹر وے سے چھوٹی سڑکیں یا ذیلی راستے نکلتے ھیں، ان ذیلی راستوں پر رفتار کم ھوتی ھے ۔ اگر موٹر وے سے نکل کر ڈرائیور ذیلی راستے پر آ جائے تو رفتارکے کم ھونے پر اس کی concentration بھی کم ھو جاتی ھے اور خود کو ھلکا پھلکا محسوس کرتا ھے ، مزید ارد گرد کی حرکات و الوان اور نظاروں سے بھی زیادہ لطف اندوز ھو سکتا ھے ۔ زنرگی کی موٹروے پر ، ھم اپنا سفر منزل کی جانب جاری رکھتے ھوے ، کبھی کبھار ذیلی راستوں پراتر کر زندگی کی لذت ، مٹھاس اور خوشی سے لطف اندوز ھو سکتے ھیں ۔ خوشی کشید کرنے والے لمحات زندگی کی ان پگڈنڈیوں میں ھی پنہاں ھوتے ھیں ۔ خوشیاں ھمارے ارد گرد موجود ھوتی ھیں اور ھم خوشی کے مواقع حاصل کر سکتے ھیں، حقیقت تو یہ ھے کہ خوشی ھمارے وجود کے اندر موجود ھوتی ھے لیکن ھمیں اس کو کشید discover کرنا ھوتا ھے ۔ خوشی کا تعلق ذھنی حالت سے وابستہ ھے ، اگر ھم فیصلہ کر لیں تو یہ ممکن ھے کہ ھم ھر وقت خوش رھیں ۔ ھر چیز کی ایک قیمت ھوتی ھے اور خوشی کی قیمت یہ ھے کہ ھم زندگی میں سے کشید کرکے خوشی کے مواقع حاصل کريں اور ان سے لطف اندوز ھوں ۔ خوش ھونا اور خوشی سے لطف اندوز ھونا دو مختلف چیزیں ھیں ۔ سمجھنے والی بات یہ ھے کہ جب ھمیں خوشی میسر ھو توھم اس سے لطف اندوز بھی ھوں ۔ ماھرین بتاتے ھیں کہ انسانی ذھن ایک وقت میں ایک ھی سوچ کو قبول کر سکتا ھے ۔ اگر ھم ذھن کو ماضی کی تلخ یادوں اور مستقبل کے نادیدہ خدشات میں مصروف رکھیں گے تو ھمارا ذھن سامنے آنے والی خوشیوں کا موقع گنوا دے گا کیونکہ ذھن تو ایک ھی سوچ 'لمحہ موجود' ھی کو قبول کر سکتا ھے ۔ مایوس اور ذھنی انتشارکے گرداب میں پھنسا ھوا شخص کبھی بھی لمحہ موجود کی خوشی سے لطف اندوز نہیں ھو سکتا کیونکہ وہ موٹر وے پر پوری توجہ مبذول کر کے ایک سو بیس کی رفتار کے باعث ذیلی راستوں اور پگڈنڈیوں کو دیکھ ھی نہیں رھا ۔

حزن اور خوف



اللہ سبحان تعالی کا قرآن پاک ميں ارشاد ھے ' بے شک اللہ کے دوستوں کو نہ کوئی 
خوف ھو گا نہ حزن' [يونس:62] ماضی کی تلخيوں،تقصيروں،غلطيوں اور محروميوں کو 'حزن' اور مستقبل ميں پيش آنے والے واقعات اور خسارے کے ڈر کا نام 'خوف' ھے ۔ اللہ کے دوست وہ ھيں جو حزن کو پچھتاوہ بنا کر حال کو بھولتے نہيں ھيں بلکہ وہ اس کو اپنے حال کی تعمير کے ليے بنياد بناتے ھيں ۔ ماضی ھماری گرفت سے نکل چکا ھوتا ھے،اس پر پچھتاوا وقت کے ضياع کے علاوہ کچھ نہيں ھے اور خوف کا سبب بھی حال کی بے عملی ھی کی وجہ سے ھی ھوتا ھے ۔ اللہ کے دوست حزن و خوف سے بالاتر ھو کر حال کے بہتر استعمال کا فيصلہ کرتے ھيں ۔ انسان کا خالق انسان کو عمل کے ليے متحرک کرنا چاھتا ھے اور اسے اپنے حال یعنی آج کی بہتری کے ليے ترغيب دے رھا ھے ۔ آج کے فيصلے ھی انسان کے بس ميں ھيں ۔ آج کا عمل ھی خوف سے بچا سکتا ھے اور حزن کا مداوا بن سکتا ھے ۔ دينی تعليمات کا توبہ کے عمل پر بہت زور ھے اور يہ عمل آج ھی ممکن ھے ۔ جس کا آج بے عمل ھے بے شک اس کے ليے خوف ھے ۔ فیصلہ، ارادہ اور سوچ ھی عمل کو جنم ديتے ھيں ۔ کہا گيا ھے کہ اعمال کا دار و مدار نيتوں پر ھے ۔ اچھے عمل کی نيت کرنا قابل ستائش ھے اور یہ آج ھی کرنے کا عمل ھے ۔ کہاوت ھے کہ کل کس نے ديکھا ۔ ھر وہ عمل جو ماضی کے تجربے سے کشيد کيا جائے بہتر مستفبل کی نويد لاتا ھے ۔ مشہور ماھر نفسيات ڈاکٹر صوائن ڈائر نے کہا تھا کہ ''جب آدمی موجودہ وقت [آج] ميں اپنے دل و دماغ [سچائی] کے ساتھ کوئی کار انجام ديتا ھے تو اسکی کاميابی کے سامنے کوئی ديوار کھڑی نہيں رہ سکتی'' ۔ تسليم شدہ حقيقت ھے کہ ذاتی زندگی ميں شفافيت اور سچائی اختيار کرنا ، اپنی نيت اور ارادے کو اپنی ذات کے فائدے کے ليے مثبت رکھنا، اپنی ذمہ دارياں پوری کرنا اور دوسروں کے بارے سوچ کو مثبت رکھنا کاميابی کا راستہ ھے ۔ اور اسی کا نام 'توبہ' ھے ۔ یہ آج کرنے والا عمل ھے جو حزن کا مداوا کرتا اور خوف سے بھی محفوظ رکھتا ھے اور اللہ خود توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ھے [البقرہ:222]