جمعہ، 1 اگست، 2025

متکبر سازشی نا فرمان گروہ







یہ کالم بنی اسرائیل کی اسلام دشمنی کے تاریخی، مذہبی، سیاسی اور عسکری پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر اسرائیل کے قیام (1948) اور پھر جدید دور میں بھارت کے ساتھ اسرائیلی اتحاد تک، اس کالم میں قرآن، تاریخی واقعات، سیاسی تجزیے اور عالمی رپورٹس کی روشنی میں یہودی ذہنیت، سازشی طرزِعمل اور اسلام کے خلاف مسلسل منصوبہ بندی کا علمی و دستاویزی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔


بنی اسرائیل کا تذکرہ قرآنِ مجید میں 40 سے زائد بار آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو انبیاء، آسمانی کتابیں اور ہدایت جیسی عظیم نعمتوں سے نوازا، مگر اس کے باوجود انہوں نے نافرمانی، حسد، اور تکبر کے ساتھ ان نعمتوں کا انکار کیا۔ اسلام کی آمد کے بعد بنی اسرائیل نے اسی معاندانہ رویے کے ساتھ اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ یہ کالم اس دشمنی کے اسباب، مراحل، اور موجودہ اثرات کو تاریخی اور 
معروضی تناظر میں بیان کرتا ہے۔

قرآنی تناظر میں بنی اسرائیل کی روش
قرآن کریم بنی اسرائیل کو اللہ کی نعمتوں کی یاد دہانی کراتا ہے
"اے بنی اسرائیل! میری اُس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر کی"
(البقرہ: 40)
لیکن ساتھ ہی ان کی نافرمانیوں کو بھی بے نقاب کرتا ہے
"جب کبھی تمہارے پاس کوئی رسول ایسی چیز لے کر آیا جو تمہارے دلوں کو پسند نہ تھی، تو تم نے ایک گروہ کو جھٹلایا اور دوسرے کو قتل کر ڈالا"
(البقرہ: 87)
قرآن میں یہ بھی ذکر ہے کہ اہل کتاب (خصوصاً یہود) اسلام کے خلاف دل میں حسد رکھتے ہیں
"اہلِ کتاب میں سے بہت سے چاہتے ہیں کہ کاش وہ تمہیں تمہارے ایمان کے بعد پھر کافر بنا دیں، صرف اپنے دلوں کے حسد کی وجہ سے"
(البقرہ: 109)

عہد نبوی میں یہودی قبائل کا طرزِ عمل
نبی کریم ﷺ کے مدینہ تشریف لانے کے بعد وہاں موجود تین بڑے یہودی قبائل — بنو قینقاع، بنو نضیر، اور بنو قریظہ — سے میثاقِ مدینہ کے تحت پرامن بقائے باہمی کا معاہدہ کیا گیا۔ تاہم:
بنو قینقاع (2 ہجری): مسلم خاتون کی بے حرمتی اور مسلمان کے قتل پر ان کا محاصرہ کیا گیا، اور انہیں مدینہ سے جلاوطن کر دیا گیا۔
بنو نضیر (4 ہجری): نبی ﷺ کے قتل کی سازش بے نقاب ہوئی، اور انہیں خیبر کی طرف نکال دیا گیا۔
بنو قریظہ (5 ہجری): غزوہ خندق کے دوران قریش سے ساز باز کر کے غداری کی، جس پر حضرت سعد بن معاذؓ کے فیصلے کے مطابق ان کے مرد قتل اور عورتیں و بچے قید کیے گئے۔
جلاوطن قبائل نے خیبر کو اپنا مرکز بنایا اور وہاں سے مسلسل فتنہ پردازی جاری رکھی۔ 7 ہجری میں نبی ﷺ نے خیبر فتح کیا، اور سیاسی طور پر ان کا زور توڑ دیا گیا۔ حضرت عمرؓ نے آپ ﷺ کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے جزیرۃ العرب سے باقی یہودیوں کو بھی نکال دیا
"دو دین جزیرۃ العرب میں جمع نہیں ہو سکتے"
(سنن ابی داؤد: 3035)

1948 
کے بعد: اسرائیل کا قیام اور مسلم دنیا پر حملے
اسرائیل کی ناجائز ریاست کے قیام کے بعد یہودی قیادت کی اسلام دشمنی نے ریاستی شکل اختیار کی
1. فلسطین
لاکھوں فلسطینی بے دخل، مستقل پناہ گزین
غزہ کی ناکہ بندی، اسکولوں و اسپتالوں پر حملے
اقوام متحدہ (2024): 9 لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار، 70,000 بچے علاج سے محروم
2. لبنان، شام، ایران
حزب اللہ کے خلاف جنگیں (2006، 2014)
شام میں داعش کو خفیہ مدد، فضائی حملے
ایرانی سائنسدان محسن فخری زادہ کا قتل (2020)
3. اردن و مصر میں سیاسی مداخلت

پاکستان کے خلاف اسرائیل–بھارت گٹھ جوڑ
پاکستان کا ایٹمی پروگرام اسرائیل اور بھارت دونوں کے لیے ایک مستقل تشویش کا باعث رہا ہے۔ اسی تناظر میں:
1990 کی دہائی:
اسرائیل–بھارت "پری ایمپٹو سٹرائیک" کی تجویز
پاکستان کی جوہری صلاحیت نے منصوبے کو روک دیا
مئی 2025 کا حملہ:
بھارت نے پاکستان پر محدود حملہ کیا
اسرائیلی ڈرون اور آپریٹرز استعمال ہوئے
کچھ اسرائیلی ماہرین بھارت میں "لاپتہ" ہو گئے
بھارت کا کردار: ایک اسٹریٹیجک آلۂ کار
اسرائیلی ہتھیاروں، سائبر ٹیکنالوجی اور جاسوسی آلات کا خریدار
کشمیر میں اسرائیلی نگرانی ٹیکنالوجی کا استعمال
مسلمانوں کے خلاف نفسیاتی جنگ اور سفارتی محاصرہ میں پیش پیش

یہودی نظریہ برتری: ایک مذہبی و سیاسی ذہنیت
قرآن مجید کے مطابق یہودی اپنے آپ کو "اللہ کے بیٹے اور پیارے" سمجھتے ہیں:
"وہ کہتے ہیں: ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں"
(المائدہ: 18)
ان کی توقع ہے کہ دنیا:
ان کے وجود کا احسان مانے
ان کے ظلم پر خاموش رہے
ہر تنقید کو "یہود دشمنی" قرار دے

نتیجہ: اسلام کا موقف اور موجودہ حکمتِ عملی
اسلام نے کبھی دشمنی کی ابتدا نہیں کی، بلکہ ہمیشہ عدل، صلح، اور دعوت کو ترجیح دی:
"اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی مائل ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسا رکھو"
(الأنفال: 61)
لیکن یہودی قیادت نے ہر دور میں مسلمانوں کے خلاف سازشیں کیں، انبیاء کو جھٹلایا، اور مسلمانوں کو نقصان پہنچایا۔ آج یہ دشمنی ریاستی، عسکری، میڈیا، اور سائبَر سطح پر جاری ہے۔

پاکستان کا مؤقف:
ایٹمی دفاع، انٹیلیجنس صلاحیت، عسکری چوکسی
قومی اتحاد، حب الوطنی اور بیداری ہی سب سے مؤثر جواب

مسلمان دنیا کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ:
یہ دشمنی صرف ماضی کا قصہ نہیں بلکہ آج کا فعال خطرہ ہے



جمعرات، 31 جولائی، 2025

سورہ الحدید ایت 25

لوہا زمین پر کہاں سے آیا؟
انسانی تاریخ اگر کسی دھات کے ساتھ سب سے زیادہ جڑی ہوئی ہے، تو وہ "لوہا" ہے۔ پتھروں کے دور سے لے کر خلائی دور تک، لوہے نے انسان کی ترقی، طاقت، تحفظ، معیشت، سائنس اور دفاع — ہر شعبے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ لوہا زمین کے اندر پیدا نہیں ہوا، بلکہ یہ آسمان سے اترا خزانہ ہے؟
لوہے کا ماخذ : سائنس کے مطابق، لوہا زمین پر ابتدائی طور پر موجود نہیں تھا۔ یہ ایک ایسا بھاری عنصر ہے جو صرف بہت بڑے ستاروں کے اندر "نیوکلئیر فیوژن" (Nuclear Fusion) کے عمل سے بنتا ہے۔ جب یہ ستارے اپنی زندگی کے اختتام پر "سپرنووا" کے ذریعے پھٹتے ہیں، تو وہ بھاری دھاتیں خلا میں بکھیرتے ہیں۔ انہی دھاتوں میں لوہا بھی شامل ہوتا ہے۔
بعد ازاں، جب زمین کی تخلیق ہوئی تو وہی لوہا خلا سے آ کر زمین کی سطح اور گہرائیوں میں جذب ہو گیا۔ آج زمین کا مرکز (core) زیادہ تر لوہے اور نکل پر مشتمل ہے۔
قرآن کریم سورۃ الحدید (آیت 25) میں ارشاد ہوتا ہے: "اور ہم نے لوہا اتارا جس میں سخت ہیبت (قوت) ہے اور لوگوں کے لیے فائدے ہیں۔"
یہاں "أنزلنا" کا مطلب جسمانی طور پر نازل کرنا بھی ہو سکتا ہے — اور جدید سائنس اس کی تائید کرتی ہے۔ قرآن صدیوں پہلے بتا چکا تھا کہ لوہا زمین پر "اتارا گیا"، اور آج کی فلکیاتی تحقیق بھی یہی کہتی ہے۔
انسان نے لوہے کو کس طرح اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوہے میں "بأس شدید" (زبردست طاقت) اور "منافع للناس" (انسانوں کے لیے فائدے) ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ انسان نے واقعی اسے ہر میدان میں استعمال کیا
دفاعی طاقت میں: انسان نے لوہے سے تلواریں، نیزے، ڈھالیں، بکتر بند لباس بنائے۔ آج کے دور میں ٹینک، ہوائی جہاز، آبدوزیں، میزائل — سب میں فولادی حصے لازمی ہیں۔
تعمیرات میں: پل، عمارتیں، ریل کی پٹریاں، ڈیم، کارخانے — ان سب میں لوہا بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ جدید شہروں کا انفراسٹرکچر لوہے کے بغیر ممکن نہیں۔
معیشت میں: صنعت و حرفت میں لوہے نے انقلاب برپا کیا۔انڈسٹریل ایج
کا آغاز ہی لوہے اور اسٹیل کی بدولت ہوا۔
طب میں: انسانی جسم کو بھی لوہے کی ضرورت ہے۔ خون میں موجود ہیموگلوبن آکسیجن کو جسم کے مختلف حصوں تک پہنچانے میں لوہے کی مدد سے کام کرتا ہے۔ آئرن کی گولیاں آج بھی خون کی کمی
کے علاج میں استعمال ہوتی ہیں۔
ٹیکنالوجی میں: الیکٹرانک اشیاء، گاڑیاں، مشینری — ہر جگہ لوہے کے بغیر ترقی ناممکن ہے۔
خلا میں بھی مصنوعی سیارے اور راکٹ لوہے اور اسٹیل سے ہی تیار کیے جاتے ہیں۔
لوہے کی علامتی حیثیت: انسان نے نہ صرف لوہے کو استعمال کیا بلکہ اسے طاقت، عزم، اور استقلال کی علامت بھی بنا دیا
لوہا محض ایک دھات نہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے انسان کے لیے ایک نعمت ہے۔ سائنس اسے خلا سے آیا ہوا قیمتی خزانہ مانتی ہے، اور قرآن اسے نازل کردہ منافع بخش چیز کہتا ہے۔
انسان نے اس نعمت کو پہچانا، اسے ڈھالا، اور اسے اپنی دنیا کی تعمیر میں استعمال کیا۔
اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اسے تخریب کے لیے استعمال کریں یا تعمیر کے لیے۔

قید میں سسکتی انسانیت



قید میں سسکتی انسانیت
کبھی سوچا ہے، وہ قیدی کیسا جیتا ہو گا جس پر کوئی مقدمہ نہیں؟
وہ بچہ کیسا سوتا ہو گا جو صرف احتجاج کی پاداش میں جیل میں ڈال دیا گیا ہو؟
وہ ماں کیسی تڑپتی ہو گی جس کا بیٹا برسوں سے کسی اذیت گاہ میں لاپتہ ہے؟
اگر آپ نے کبھی یہ سوال نہیں سوچے، تو شاید آپ بھی اس دنیا کی اس خاموش اکثریت میں شامل ہیں جو ظلم دیکھتی ہے، مگر آنکھیں پھیر لیتی ہے۔
آج اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی انسان صرف قیدی نہیں، وہ مظلوم انسانیت کی زندہ مثالیں ہیں — مگر افسوس، دنیا کے کانوں تک ان کی چیخیں نہیں پہنچتیں۔
جولائی 2025 تک اسرائیل کی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی تعداد 11,000 سے تجاوز کر چکی ہے۔ ان میں شامل ہیں:
350 سے زائد بچے 21 خواتین اور 3,400 سے زیادہ قیدی جنہیں بغیر فردِ جرم یا عدالتی کارروائی کے صرف شک کی بنیاد پر میں رکھا گیا ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جن پر نہ الزام ثابت ہوا، نہ مقدمہ چلا، نہ رہائی ملی — بس قید ہے، اندھی قید۔
انتظامی حراست کا مطلب ہے کسی کو بغیر مقدمے کے، صرف خفیہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر جیل میں ڈال دینا۔ اس قانون کا سہارا لے کر اسرائیل ہزاروں فلسطینیوں کو برسوں تک جیل میں بند رکھتا ہے، بغیر کسی عدالت، وکیل یا صفائی کے حق کے۔
یہ انصاف کا نہیں، انصاف کے نام پر استبداد کا بدترین نمونہ ہے۔
اکتوبر 2023 سے جون 2025 تک 73 فلسطینی قیدی اسرائیلی جیلوں میں زندگی کی جنگ ہار چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر وہ تھے جو بیمار تھے، مگر انہیں دوا نہ ملی۔
کئی وہ تھے جنہوں نے بھوک ہڑتال کی — مگر ان کی فریاد سننے والا کوئی نہ تھا۔
خضر عدنان نے 87 دن بھوک ہڑتال کی، انصاف مانگا — جواب میں اسرائیل نے انہیں موت دے دی۔
یہ وہ موت ہے جو خاموش ہوتی ہے، مگر اندر سے پوری انسانیت کو کھا جاتی ہے۔
جنوبی اسرائیل کا Sde Teiman کیمپ قیدیوں کے لیے جیل نہیں، اذیت گاہ ہے۔ وہاں قیدیوں کو:
برہنہ کر کے جانوروں کی طرح باندھا جاتا ہے زخموں پر نمک چھڑکا جاتا ہے
کھانے کے بجائے گالیاں دی جاتی ہیں اور انسان کے بجائے صرف ایک سیریل نمبر سمجھا جاتا ہے یہ کیمپ انسانیت کے چہرے پر وہ داغ ہے جو شاید صدیوں تک نہ مٹے۔
اسرائیلی جیلوں میں اس وقت 350 سے زائد بچے قید ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جنہوں نے نہ بندوق چھوئی، نہ بم دیکھا — ان کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ فلسطینی ہیں۔
انہیں تنہائی میں رکھا جاتا ہے والدین سے ملاقات کا حق چھین لیا جاتا ہے
اور ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے یہ وہ بچپن ہے جو قید میں جوان ہو رہا ہے، اور شاید قید میں ہی دفن ہو جائے۔
اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں، بین الاقوامی میڈیا — سب کو علم ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں کیا ہو رہا ہے۔لیکن سب خاموش ہیں۔ کیوں؟
کیوں کہ اسرائیل ایک طاقتور ریاست ہے۔
کیوں کہ مظلوم کا نام "فلسطینی" ہے۔
کیوں کہ دنیا کے ضمیر پر سیاسی مصلحتوں کی دبیز چادر پڑ چکی ہے۔
اتنا بھی نہیں کہا جاتاکہ
اگر قیدی مجرم ہیں، تو مقدمہ کیوں نہیں؟
اگر بے گناہ ہیں، تو رہا کیوں نہیں؟
اور اگر انسان ہیں، تو انسانوں جیسا سلوک کیوں نہیں؟
فلسطینی قیدیوں کی حالت دیکھ کر جو سب سے زیادہ اذیت ناک چیز محسوس ہوتی ہے، وہ قید نہیں — بلکہ دنیا کی خاموشی ہے۔
یہ وہ خاموشی ہے جو ظالم کے ہاتھ مضبوط کرتی ہے اور مظلوم کی آواز دبا دیتی ہے۔
قید اگر جسم کی ہو تو روح آزاد رہتی ہے، مگر جب ضمیر قید ہو جائے، تو پوری انسانیت مر جاتی ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم بولیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم لکھیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم دنیا کو جھنجھوڑیں —
یہ وہی اسرائیلی ہیں جو ہٹلر کے یہودیوں پر ڈھائے گئے ظلم کے نام پر دنیا بھر سے ہمدردی سیٹتے ہیں مگر ان کا خود کا کردار ہٹلر کے کردار سے بڑھ کر ظالمانہ ہے ۔ فلسطین میں انسانیت سسک رہی ہے، بھوک ، اذیت اورطلم ہے مگر اج کا مہذب انسان سب دیکھ کر بھی ،سن کر، پڑھ کر بھی خا،وش ہے کیا یہ خاموشی طلم نہیں

منگل، 29 جولائی، 2025

انسانیت کی بے بسی کا نوحہ




انسانیت کی بے بسی کا نوحہ

غزہ… ایک نام، جو آج صرف ایک علاقے کا نہیں، بلکہ انسانیت کے اجتماعی ضمیر پر لگے بدنما داغ کا استعارہ بن چکا ہے۔ یہ زمین کا وہ ٹکڑا ہے جسے دنیا نے تین سو پچاس مربع کلومیٹر میں قید کر رکھا ہے، مگر یہاں بستے اکیس لاکھ انسانوں کو زندگی کی تمام بنیادی سہولتوں سے محروم کر کے دنیا نے گویا کھلی جیل میں ڈال دیا ہے — ایسی جیل جس میں قیدیوں کو بھی جینیوا کنونشن کے تحت دی جانے والی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں، مگر غزہ کے باسیوں کے لیے یہ سہولتیں خواب بن چکی ہیں۔

دو مارچ 2025 سے غزہ میں خوراک اور ادویات کی فراہمی بند ہے۔ بازار ویران ہیں، اسپتال راکھ کا ڈھیر ہیں، اسکولوں کی جگہ قبریں بن چکی ہیں اور گھروں کی چھتیں ملبے میں دفن ہو چکی ہیں۔ اس سنگین محاصرے کے نتیجے میں نو لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ان میں ستر ہزار ایسے معصوم ہیں جنہیں اب طبی امداد بھی نہیں دی جا سکتی — جیسے وہ زندگی کی دوڑ سے نکال دیے گئے ہوں۔

خوراک کی تقسیم کے مراکز، جو کبھی امید کے چراغ ہوا کرتے تھے، آج موت کی گلیاں بن چکے ہیں۔ ایک ہزار پچاس افراد کو انہی مراکز پر شہید کر دیا گیا، جب کہ چھ ہزار پانچ سو گیارہ افراد شدید زخمی ہو چکے ہیں۔ یہ وہ اعداد نہیں جنہیں پڑھ کر بھلا دیا جائے، یہ وہ کہانیاں ہیں جن کے پیچھے ٹوٹے خواب، اجڑی گودیں، سسکتی مائیں، اور انتظار کرتی نگاہیں چھپی ہوئی ہیں۔

غزہ آج ایسی جیل بن چکا ہے جہاں انسانوں کو جانوروں سے بھی بدتر حالات میں رکھا گیا ہے۔ دنیا بھر میں اگر کوئی پالتو جانور بھوک سے مر جائے تو قانون حرکت میں آتا ہے، مجرم کو سزا دی جاتی ہے، انصاف مانگا جاتا ہے۔ لیکن غزہ کے انسان — وہ انسان جو ہمارے جیسے خواب دیکھتے ہیں، جن کے سینے میں بھی دل دھڑکتا ہے — ان کے لیے دنیا کے ضمیر میں کوئی جنبش تک پیدا نہیں ہوتی۔

آٹھ ارب انسانوں کی اس زمین پر، دو سو سے زائد ملکوں کی موجودگی کے باوجود غزہ کے لیے کوئی آواز بلند نہیں ہوتی۔ عالمی ادارے خاموش، انسانی حقوق کی تنظیمیں مفلوج، اور مسلم دنیا کی قیادت بے حس ہو چکی ہے۔

یہ وقت ہے کہ ہم صرف اعداد و شمار نہ گنیں، بلکہ ان کے پیچھے چھپی انسانیت کو پہچانیں۔ ہم آنکھیں بند کر کے یہ نہ سمجھیں کہ یہ مسئلہ صرف فلسطین کا ہے۔ یہ انسانیت کا امتحان ہے — اور اگر آج ہم اس میں ناکام ہوئے، تو کل یہ آگ ہمارے اپنے آنگن تک آ سکتی ہے۔

غزہ چیخ رہا ہے، فریاد کر رہا ہے، رو رہا ہے۔ ہمیں اس کی آواز سننی ہے، اس کے درد کو محسوس کرنا ہے، اور ظالم کے خلاف بولنا ہے — ورنہ ہماری خاموشی بھی ایک دن ظلم کا ہتھیار بن جائے گی۔

غزہ صرف ایک قید خانہ نہیں — یہ انسانیت کی بے بسی کا نوحہ ہے۔

پیر، 28 جولائی، 2025

ہیکلِ سلیمانی کو دوبارہ تعمیر




صیہونی ہیکلِ سلیمانی کو دوبارہ کیوں تعمیر کرنا چاہتے ہیں؟


ہیکلِ سلیمانی کی تعمیرِ نو صیہونی تحریک کے اُن بنیادی اہداف میں سے ایک ہے، جو بظاہر مذہبی نظر آتا ہے، مگر درحقیقت یہ ایک گہری سیاسی، نظریاتی اور عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ یہ منصوبہ محض ایک عبادت گاہ کی تعمیر نہیں، بلکہ "عظیم اسرائیل"  کے خواب، مذہبی تسلط، اور عالمی طاقت پر قبضے کی ایک چال ہے۔ سوال یہ ہے کہ صیہونی اس قدیم ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے اتنے بےتاب کیوں ہیں؟ آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
 مذہبی عقیدہ اور مسیحی-یہودی پیشگوئیاں
یہودی روایات میں ہیکل سلیمانی کو خدائی قربت کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق
تین ہیکل تعمیر ہونے ہیں
پہلا ہیکل — حضرت سلیمان علیہ السلام کا
دوسرا ہیکل — زروبابل اور ہیرودیس کا
تیسرا ہیکل — جو "مسیح"
 کی آمد سے پہلے تعمیر ہونا ضروری ہے
کئی صیہونی یہودی گروہ اور عسکریت پسند تنظیمیں جیسے 
Temple Institute 
اور 
 Faithful
 اس عقیدے پر کام کر رہی ہیں کہ مسجد اقصیٰ کی جگہ تیسرا ہیکل تعمیر کر کے "موعودہ نجات دہندہ" (Messiah)
 کی راہ ہموار کی جائے۔
یہی نظریہ بعض عیسائی بنیاد پرست فرقوں
 (Christian Zionists)
 میں بھی مقبول ہے، جو سمجھتے ہیں کہ تیسرا ہیکل بننے سے دنیا کے آخری دور
 (End Times)
 کا آغاز ہوگا۔
 صیہونی سیاسی ایجنڈا: مذہب کے پردے میں قبضے کی چال
صیہونیت صرف ایک مذہبی عقیدہ نہیں بلکہ ایک سیاسی نظریہ ہے جس کا ہدف 
"Greater Israel"
 کا قیام ہے — یعنی نیل سے فرات تک ایک صیہونی ریاست۔ ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر:
مسلمانوں کے قبلہ اول (مسجد اقصیٰ) کی جگہ پر ہو گی
فلسطینیوں کے مذہبی، تاریخی اور سیاسی وجود کو مٹانے کی علامت ہو گی
دنیا بھر میں یہودی طاقت کے غلبے کا نفسیاتی اظہار ہو گی
یہ تعمیر اُن صیہونی نظریات کو تقویت دے گی جو بیت المقدس کو نہ صرف اسرائیل کا دارالحکومت بلکہ "یہودیوں کا عالمی روحانی مرکز" بنانے کے درپے ہیں۔
 مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے کی کوششیں
ہیکل کی جگہ کو خالی کرنے کے لیے انتہا پسند یہودی مسلسل مسجد اقصیٰ کے نیچے سرنگیں کھود رہے ہیں۔
اس کے مقاصد میں شامل ہیں
مسجد کی بنیادوں کو کمزور کرنا
مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو اشتعال دلانا
عالمی ردِ عمل سے فائدہ اٹھا کر یہ ثابت کرنا کہ "یہ جگہ متنازع ہے"
پھر ایک عالمی تنازع کھڑا کر کے کسی موقع پر مسجد کو شہید کرنا
یہ سب ایک گہری سازش کا حصہ ہے، جس کا مقصد الاقصیٰ کے تقدس کو مٹا کر، یہودی روحانیت کا نیا مرکز قائم کرنا ہے۔
 صیہونیت اور دجالی نظام
کئی اسلامی مفکرین، محققین اور مفسرین اس نظریے کو "دجالی نظام" سے جوڑتے ہیں۔ ان کے مطابق
تیسرا ہیکل ایک دجالی عالمی حکومت کے آغاز کی بنیاد ہو گا
عالمی معیشت، میڈیا، اور سیاست پہلے ہی صیہونی اثر میں ہے
اب مذہبی مرکز پر قبضہ کرنا باقی ہے — جس کے لیے ہیکلِ سلیمانی ایک علامت بنے گا
یعنی یہ منصوبہ نہ صرف مذہب بلکہ انسانیت کے خلاف ایک روحانی، سیاسی اور نظریاتی حملہ ہے۔
 عالمی مسیحی حمایت: "ایوانجیلیکل کرسچینز" کا کردار
امریکہ اور یورپ میں موجود کچھ مسیحی گروہ، خاص طور پر 
Evangelicals
، ہیکل کی تعمیر کو حضرت عیسیٰؑ کی دوبارہ آمد سے جوڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ
امریکی حکومتیں اکثر اسرائیل کے مذہبی عزائم کی حمایت کرتی آئی ہیں
ٹرمپ کے سابقہ دورمیں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا
اس حمایت کے پیچھے سیاسی فائدہ اور عقیدہ دونوں شامل ہیں
 مسلمانوں کے نزدیک
مسجد اقصیٰ محض ایک مسجد نہیں بلکہ اسلامی تاریخ، روحانیت، اور اتحاد کی علامت ہے۔ اس پر حملہ
امت مسلمہ کے قبلہ اول پر حملہ ہے
فلسطینی مزاحمت کی بنیاد کو ختم کرنے کی کوشش ہے
ایک عالمی مذہبی جنگ کو دعوت دینے کے مترادف ہے
صیہونی ہیکلِ سلیمانی کو دوبارہ اس لیے تعمیر کرنا چاہتے ہیں کہ وہ مذہب کے نام پر ایک عالمی نظریاتی، روحانی اور سیاسی غلبہ چاہتے ہیں۔ اس ہیکل کی تعمیر صرف ایک عبادت گاہ کی بازیابی نہیں بلکہ اسلام، مسیحیت، اور پوری انسانیت پر صیہونی ایجنڈے کی فوقیت کا اعلان ہو گا۔