جمعرات، 18 ستمبر، 2025

سعودی عرب – پاکستان دفاعی معاہدہ: حقیقت یا علامت؟



سعودی عرب – پاکستان دفاعی معاہدہ: حقیقت یا علامت؟

حال ہی میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان ایک دفاعی معاہدہ طے پایا ہے جسے بعض مبصرین "نیٹو طرز کا باہمی دفاعی معاہدہ" قرار دے رہے ہیں۔ اس کے تحت اگر کسی ایک ملک پر حملہ کیا جائے تو اسے دونوں پر حملہ سمجھا جائے گا اور دونوں ممالک مشترکہ طور پر دفاع کریں گے۔ بظاہر یہ معاہدہ مسلم دنیا کے اتحاد کی علامت اور خطے میں ایک نئی حکمتِ عملی کی صورت میں سامنے آیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاہدہ عملی طور پر بھی اتنا ہی طاقتور ہوگا جتنا کاغذ پر دکھائی دیتا ہے؟

پاکستانی اور سعودی عوام کے ایک بڑے طبقے نے اس معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر متعدد پیغامات میں اسے وقت کی اہم ضرورت اور امتِ مسلمہ کے اتحاد کی طرف ایک بڑا قدم قرار دیا گیا۔ کئی صارفین نے جذباتی انداز میں کہا کہ اب اگر اسرائیل نے قطر یا سعودی عرب پر حملہ کیا تو پاکستان ایٹمی قوت ہونے کے ناطے فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ کچھ نے اسے "اسلامی دنیا کی بقا کا اعلان" قرار دیا، تو کچھ نے کہا کہ "پاکستان ہمیشہ سعودی عرب کے ساتھ کھڑا رہا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ یہ رشتہ مزید مضبوط کیا جائے۔"

تاہم، ایک دوسرا زاویہ زیادہ حقیقت پسندانہ ہے۔ ناقدین کے مطابق سعودی عرب ماضی میں ایسے معاہدوں کو ہمیشہ انتخابی انداز میں برتتا رہا ہے۔ پاک–بھارت تنازعات کے دوران ریاض کا کردار زیادہ تر ثالثی اور مالی امداد تک محدود رہا، عسکری مداخلت تک نہیں پہنچا۔ اس پس منظر میں امکان یہی ہے کہ اس بار بھی سعودی عرب علامتی حمایت تو دے گا لیکن عملی سطح پر عسکری شمولیت محدود رہے گی۔

معاشی پہلو اس معاہدے کی حقیقت کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔ سعودی عرب کے لیے بھارت ایک بڑی تجارتی منڈی اور سرمایہ کاری کا اہم ذریعہ ہے، جو پاکستان کے مقابلے میں کہیں زیادہ پرکشش ہے۔ اسی لیے مبصرین کا ماننا ہے کہ ریاض کی پالیسیاں زیادہ تر تیل کی منڈیوں، توانائی کے سودوں اور امریکہ و چین کے ساتھ تعلقات سے متاثر ہوں گی، نہ کہ کسی دفاعی معاہدے کے متن سے۔

کچھ تجزیہ نگاروں نے یہ بھی کہا کہ سعودی عرب ایسے معاہدوں کو بڑی طاقتوں کے ساتھ سودے بازی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یوں یہ معاہدہ ایک جانب پاکستان کے لیے سفارتی سہارا ہے، تو دوسری جانب سعودی عرب کے لیے ایک سفارتی کارڈ بھی ہے۔

بین الاقوامی میڈیا نے اس معاہدے کو مختلف زاویوں سے دیکھا۔ مغربی میڈیا نے اسے زیادہ تر ایک "سیاسی علامت" کے طور پر پیش کیا اور کہا کہ اس کا مقصد خطے میں سعودی اثرورسوخ بڑھانا اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں دباؤ ڈالنا ہے۔ کچھ یورپی تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس معاہدے سے خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ اور کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب خلیجی میڈیا نے اسے "مسلم اتحاد کا سنگ میل" قرار دیا اور کہا کہ یہ معاہدہ اسلامی ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لا سکتا ہے۔ بھارتی میڈیا نے متوقع ردعمل دیتے ہوئے اسے جنوبی ایشیا کے لیے خطرہ قرار دیا اور خدشہ ظاہر کیا کہ پاکستان اس معاہدے کو بھارت کے خلاف سیاسی دباؤ کے طور پر استعمال کرے گا۔

پاکستانی عوام نے اس معاہدے کو اپنی قومی خود اعتمادی کی بحالی کے طور پر دیکھا ہے۔ ایک عام پاکستانی کے لیے یہ نہ صرف سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے وقار میں اضافہ بھی ہے۔ کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ معاشی بحران سے گزرنے والے پاکستان کے لیے یہ معاہدہ ایک نفسیاتی سہارا ہے، جو عوام کو یہ احساس دلاتا ہے کہ ملک اب بھی خطے میں ایک اہم کھلاڑی ہے۔
تنقید اور بدگمانی

کچھ حلقوں نے سعودی پالیسیوں اور ماضی کے کردار پر بھی سوال اٹھایا۔ وہابی ازم کے ذریعے انتہا پسندی کے فروغ کا ذکر کیا گیا اور کہا گیا کہ سعودی عرب دوبارہ ایک "شدید مذہبی دور" کی طرف جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بدگمانی بھی ظاہر کی گئی کہ اگر مستقبل میں اسرائیل سعودی اثاثوں کو نشانہ بنائے یا بھارت پاکستان پر حملہ کرے تو یہ شراکت داری کھوکھلی ثابت ہو سکتی ہے۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ معاہدہ ایک اہم علامت ضرور ہے۔ پاکستان کے لیے یہ سفارتی کامیابی اور اندرونی معاشی دباؤ کے دنوں میں حوصلہ افزا پیش رفت ہے، جبکہ سعودی عرب کے لیے یہ پیغام ہے کہ وہ اپنی سلامتی کے لیے امریکہ کے سائے سے نکل کر نئے راستے تلاش کر رہا ہے۔ تاہم اس معاہدے کا حقیقی امتحان تب ہوگا جب خطے میں کسی بحران کی صورت پیدا ہوگی۔

فی الحال یہ معاہدہ زیادہ تر علامتی اہمیت رکھتا ہے، لیکن اگر خطے میں حالات بگڑتے ہیں تو اس کی عملی حیثیت سامنے آئے گی۔ تاریخ کے تناظر اور موجودہ عالمی سیاست کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ معاہدہ سفارتی انشورنس اور طاقت کے کھیل کا حصہ ہے — اتحاد کی ایک پراثر علامت، مگر مشروط حقیقت۔


نیا پاکستان



نیا پاکستان

گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان نے عالمی سطح پر جو کامیابیاں سمیٹی ہیں، وہ نہ صرف خطے بلکہ دنیا بھر میں اس کی اہمیت کو نئی جہتوں سے اجاگر کر رہی ہیں۔ آج ایران سے لے کر ملائشیا تک، اور سعودی عرب سے ترکی تک، ہر جگہ پاکستان کے ذکر میں عزت اور اعتماد جھلکتا ہے۔

ایران کے گلی کوچوں میں "تشکر پاکستان" کے نغمے گونج رہے ہیں، تو سعودی عرب کے ایوانوں میں "انا الباکستان ما فی خوف" کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ چین میں پاکستان کو اسی سالہ تقریبات کا خصوصی مہمان بنایا جانا، بیجنگ کے ساتھ تعلقات کی گہرائی اور اسٹریٹجک اعتماد کا عکاس ہے۔ آذربائیجان کی گلیوں میں "دل دل پاکستان" کے ترانے سنائی دیتے ہیں اور ترکی کے ساتھ دفاعی تعلقات تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔

امریکہ میں پاکستان نے وہائٹ ہاؤس تک اپنا اثرورسوخ منوا لیا ہے۔ جنگ بندی کی امریکی درخواست قبول کر کے پاکستان نے نہ صرف واشنگٹن کے ساتھ سفارتی تعلقات میں نیا رخ پیدا کیا بلکہ یہ باور کرایا کہ پاکستان اب عالمی فیصلوں میں ایک مرکزی کردار ادا کر سکتا ہے۔ دوسری جانب روس اور وسطی ایشیائی ریاستیں بھی 10 مئی کے بعد پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ایک نئے تناظر میں دیکھنے لگی ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام آباد خطے میں ایک متحرک طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے۔

پاکستان کی سفارتی کامیابیوں میں ایک اور بڑا قدم آرمینیا کو چونتیس برس بعد بطور خودمختار ریاست تسلیم کرنا ہے، جس نے قفقاز کے خطے میں نئی راہیں کھول دی ہیں۔ افریقہ میں نائیجیریا پاکستان سے جہاز اور اسلحہ خرید رہا ہے، جو پاکستان کی دفاعی صنعت پر بڑھتے ہوئے اعتماد کا واضح اظہار ہے۔

مشرقی بعید کے ممالک، بشمول ملائشیا اور انڈونیشیا، پاکستان کے جرات مندانہ مؤقف کو عزت و پذیرائی کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ دوسری طرف بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات ایک تاریخی بلندی پر پہنچ گئے ہیں۔ عوامی سطح پر ہمدردی اور حکومتی سطح پر اعتماد نے بھارت نواز لابیوں کو وہاں کمزور کر دیا ہے۔ 10 مئی کی جنگ کے دوران بنگلہ دیشی اور نیپالی عوام کی مکمل ہمدردیاں پاکستان کے ساتھ رہیں، جس نے جنوبی ایشیا میں ایک نیا بیانیہ تشکیل دیا۔

آج پاکستان ایک نئے مقام پر کھڑا ہے—جہاں دنیا اسے صرف ایک ریاست نہیں بلکہ ایک مضبوط سفارتی اور عسکری حقیقت کے طور پر تسلیم کر رہی ہے۔ ایران سے لے کر ترکی تک، خلیج سے لے کر وسطی ایشیا تک، اور مشرق بعید سے لے کر افریقہ تک، پاکستان کے پرچم تلے اتحاد اور اعتماد کی ایک نئی دنیا جنم لے رہی ہے 

بدھ، 17 ستمبر، 2025

ہندوتوا پریشان





ہندوتوا پریشان


نئی دہلی نے سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان ہونے والے تاریخی دفاعی معاہدے پر محتاط ردعمل دیا ہے، جس کے تحت کسی ایک ملک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔
بھارتی وزارتِ خارجہ  نے ایک مختصر بیان میں کہا:
“ہم خطے میں حالیہ پیش رفت پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اگرچہ ممالک کو اپنے باہمی تعلقات اور سیکیورٹی انتظامات طے کرنے کا حق حاصل ہے، تاہم بھارت کی بنیادی تشویش جنوبی ایشیا اور وسیع تر خطے میں امن، استحکام اور دہشت گردی کے خلاف جدوجہد ہے۔”
  میڈیا نے اس معاہدے پر بے چینی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے پاکستان کو اپنے علاقائی مؤقف میں تقویت مل سکتی ہے، خاص طور پر گزشتہ برس کی سرحدی جھڑپوں اور سعودی۔بھارت توانائی شراکت داری کے بڑھتے تعلقات کے پس منظر میں۔
 سینئر بھارتی سیکیورٹی تجزیہ کار نے ہندوستان ٹائمز سے کہا: “سعودی عرب بھارت کا سب سے اہم توانائی اور سرمایہ کاری کا شراکت دار رہا ہے۔ ریاض اور اسلام آباد کے بڑھتے فوجی تعلقات ایک نئی پیچیدگی پیدا کرتے ہیں۔ اب بھارت کو اپنی تزویراتی شراکت داری کو اس حقیقت کے ساتھ توازن دینا ہوگا کہ سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ دفاعی ذمہ داریاں رسمی طور پر طے کر لی ہیں۔”
نئی دہلی کے ماہرین نے معاہدے کے وقت کو بھی قطر پر اسرائیل کے حالیہ حملے سے جوڑا ہے، جس نے خلیج میں واشنگٹن کی بطور سیکیورٹی ضامن حیثیت پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔
بھارت کے سابق سفارتکار کنول سبل نے کہا: “یہ دفاعی معاہدہ پاکستان بمقابلہ بھارت سے زیادہ ریاض کا واشنگٹن کی سیکیورٹی ضمانتوں سے آزادی کا اعلان ہے۔ اس کے باوجود بھارت نظرانداز نہیں کر سکتا کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور سعودی عرب نے اب اس کے ساتھ دفاعی ذمہ داریاں طے کر لی ہیں۔”
اپنی تشویش کے باوجود بھارت کے لیے امکان کم ہے کہ وہ سعودی عرب کو عوامی سطح پر چیلنج کرے، کیونکہ ولی عہد محمد بن سلمان بھارت کی توانائی سلامتی اور سرمایہ کاری کے منصوبوں میں کلیدی شراکت دار ہیں۔


منگل، 16 ستمبر، 2025

حقیقی آزادی




دنیا کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ ہر بڑی تبدیلی یا انقلاب کے پیچھے اکثر ایک فرد کا وژن اور حوصلہ کارفرما رہا ہے۔ اگرچہ قومیں اجتماعی طور پر ترقی کرتی ہیں، لیکن ابتدا میں یہ سفر اکثر کسی ایک شخصیت کے خواب اور جدوجہد سے شروع ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر مشرقِ وسطیٰ میں صلاح الدین ایوبی کی مثال لیجیے۔ بیت المقدس کی بازیابی کوئی آسان کام نہ تھا، لیکن ایک شخص کی بصیرت، صبر اور عسکری حکمتِ عملی نے تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔  ایران میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں انقلاب آیا جس نے پورے خطے کی سیاست پر اثر ڈالا۔
پاکستان کی تاریخ بھی ایک فرد کے وژن کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام کا بیج بویا اور اسے قومی بقا کا ضامن قرار دیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی محنت اور صلاحیت سے اس خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔
میاں نواز شریف نے بھٹو کے خواب اور عبدالقیرخان کی محنت کو حقیقت میں بدل دیا۔
 زرعی میدان میں گرین ریولوشن کی بنیاد زرعی ماہرین کی بصیرت کا نتیجہ تھی، جس نے ملک کی غذائی ضروریات پوری کرنے میں مدد دی۔ 
میاں نواز شریف نے جدید سڑکوں اور ریل کے منصوبے شروع کیے، جنہوں نے ملک کی معیشت اور روابط کو نئی جہت دی۔ فلاحی میدان میں عبدالستار ایدھی کی جدوجہد اس بات کی مثال ہے کہ ایک فرد کی سوچ پورے معاشرے میں تبدیلی لا سکتی ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح  نے برصغیر کو آزادی دلانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ امریکہ میں ابراہم لنکن نے غلامی کے خاتمے کا جو فیصلہ کیا، وہ ایک فرد کی بصیرت تھی جس نے امریکی معاشرے کی بنیاد بدل دی۔ چین میں ماؤ زے تنگ نے ایک نئی سیاسی و سماجی فکر کے ذریعے ملک کو استحکام اور طاقت کی طرف گامزن کیا۔ جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کی جدوجہد نسل پرستی کے نظام کو ختم کر کے دنیا کے لیے مثال بنی۔
زندہ رہنے کے لیے دو ہی طریقے ہیں: غلامی یا آزادی۔ بقول عمر بن خطابؓ، ہر بچہ آزاد پیدا ہوتا ہے، غلامی بعد میں اپنائی جاتی ہے۔ یہی غلامی آج بھی اردن، لبنان اور شام سمیت کئی حکمرانوں نے قبول کر رکھی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان نے اسرائیل اور بھارت کے حملوں کا جوانمردی سے جواب دے کر نہ صرف اپنی قوم میں نیا ولولہ پیدا کیا ہے بلکہ عربوں اور مسلمانوں کے دلوں میں آزادی کی امید کی نئی چنگاری بھی بھڑکا دی ہے۔ یہ  کوشش دراصل اتحاد اور حقیقی آزادی کی بنیاد رکھتی ہے۔
  یہ بھی ایک شخص کا وژن
جس نے جنگ جیت کر پاکستانیوں کا اعتماد بحال کیا۔ یہ اعتماد کی چنگاری ہی ہے جس نے عربوں میں بھی حقیقی آزادی کی بناید رکھ دی ہے ۔ 
پاکستان اور پاکستانی اس وقت امید کی کرن بن چکے ہیں ۔ 

ٹھکانے دو ہی تو ہیں آزاد منش انسانوں کے
 تخت، جگہ آزادی کی یا تخت، مقام آزادی 

پیر، 15 ستمبر، 2025

صیہونی نظریہ اور فلسطینی شناخت کا خاتمہ

صیہونی نظریہ اور فلسطینی شناخت کا خاتمہ
فلسطین کی زمین پر اسرائیل کا قیام محض ایک سیاسی منصوبہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی مہم تھی، جسے "صیہونیت" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس نظریے کی جڑیں مذہب، نسل، سیاست اور استعمار کے گٹھ جوڑ میں پیوست ہیں۔ صیہونی منصوبہ محض ایک یہودی ریاست کا قیام نہیں بلکہ ایک ایسے پورے معاشرے کو مٹانے کی کوشش ہے جو صدیوں سے فلسطین میں رچ بس چکا تھا — زبان، ثقافت، زمین، تاریخ، مذہب اور شناخت سمیت۔
صیہونی تحریک کی بنیاد انیسویں صدی کے اواخر میں تھیوڈور ہرزل نے رکھی۔ اس کا ابتدائی ہدف صرف فلسطین میں یہودی وطن کا قیام تھا، لیکن رفتہ رفتہ یہ ایک توسیع پسندانہ منصوبے میں ڈھل گیا۔ برطانیہ کی سرپرستی میں 1917 کا بالفور اعلامیہ اور 1948 میں اسرائیل کا قیام اسی منصوبے کا حصہ تھے۔ فلسطینیوں کی سرزمین پر ایک الگ قوم کی بنیاد رکھنے کے لیے، مقامی آبادی کی زمینیں چھینی گئیں، گاؤں جلائے گئے، اور لاکھوں افراد کو زبردستی بے دخل کیا گیا — جسے فلسطینی "نقبہ" یعنی تباہی کہتے ہیں۔
صیہونی نظریے کی سب سے خطرناک شکل وہ ہے جو شناخت کے خلاف ہے۔ فلسطینیوں کی زبان عربی، ان کی تاریخ، ان کے شہروں کے نام، حتیٰ کہ ان کی کھانوں اور ملبوسات کو بھی صیہونی ثقافت میں ضم کرنے کی شعوری کوشش کی گئی۔ یافا کے سنترے، القدس کی زیتون کی شاخیں، نابلس کی کُنافہ — یہ سب کچھ اب اسرائیلی شناخت میں ضم کرنے کی مہم کا حصہ ہے۔

اسرائیلی نصاب میں فلسطینی وجود کو سرے سے تسلیم نہیں کیا جاتا۔ فلسطینی بچوں کی کتابوں سے ان کی تاریخ مٹا دی گئی، دیہات کے نام بدلے گئے، حتیٰ کہ قبرستانوں پر بھی اسرائیلی بستیاں کھڑی کر دی گئیں۔ یہ سب کچھ ایک نسل کو ان کی جڑوں سے کاٹنے کے لیے کیا گیا تاکہ آنے والے وقت میں فلسطینی وجود ایک "ماضی کی کہانی" بن جائے۔
عالمی خاموشی اور مغربی حمایت

فلسطینی شناخت کے خلاف یہ جنگ صرف اسرائیل نہیں لڑ رہا۔ مغربی میڈیا، تعلیمی ادارے، اور سیاسی طاقتیں اس بیانیے کو پھیلا رہی ہیں کہ فلسطینی دہشت گرد ہیں اور اسرائیل ایک مظلوم ریاست ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا ہے، اور جو فلسطینی اپنی شناخت بچانے کے لیے مزاحمت کرتے ہیں، انہیں دہشت گرد کہا جاتا ہے۔
فلسطینی مزاحمت: شناخت کا دفاع

اس سب کے باوجود فلسطینی عوام، خواہ وہ غزہ میں ہوں یا مغربی کنارے میں، اپنی شناخت کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ان کے گیت، ان کی شاعری، ان کا لباس اور ان کی یادگاریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ مٹنے والے نہیں۔ محمود درویش جیسے شاعر، غسان کنفانی جیسے ادیب، اور شیخ جراح کے رہائشی — سب شناخت کی بقاء کی علامت ہیں۔

صیہونی نظریہ، درحقیقت، ایک استعماری ذہنیت کی جدید شکل ہے جس کا ہدف صرف زمین پر قبضہ نہیں بلکہ ایک قوم کی روح، اس کی شناخت، اس کا ماضی اور اس کا مستقبل چھیننا ہے۔ لیکن یہ نظریہ جتنا بھی طاقتور ہو، وہ ایک زندہ قوم کی مزاحمت اور اس کے عزم کو کبھی مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتا۔