منگل، 29 جولائی، 2025

انسانیت کی بے بسی کا نوحہ




انسانیت کی بے بسی کا نوحہ

غزہ… ایک نام، جو آج صرف ایک علاقے کا نہیں، بلکہ انسانیت کے اجتماعی ضمیر پر لگے بدنما داغ کا استعارہ بن چکا ہے۔ یہ زمین کا وہ ٹکڑا ہے جسے دنیا نے تین سو پچاس مربع کلومیٹر میں قید کر رکھا ہے، مگر یہاں بستے اکیس لاکھ انسانوں کو زندگی کی تمام بنیادی سہولتوں سے محروم کر کے دنیا نے گویا کھلی جیل میں ڈال دیا ہے — ایسی جیل جس میں قیدیوں کو بھی جینیوا کنونشن کے تحت دی جانے والی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں، مگر غزہ کے باسیوں کے لیے یہ سہولتیں خواب بن چکی ہیں۔

دو مارچ 2025 سے غزہ میں خوراک اور ادویات کی فراہمی بند ہے۔ بازار ویران ہیں، اسپتال راکھ کا ڈھیر ہیں، اسکولوں کی جگہ قبریں بن چکی ہیں اور گھروں کی چھتیں ملبے میں دفن ہو چکی ہیں۔ اس سنگین محاصرے کے نتیجے میں نو لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ان میں ستر ہزار ایسے معصوم ہیں جنہیں اب طبی امداد بھی نہیں دی جا سکتی — جیسے وہ زندگی کی دوڑ سے نکال دیے گئے ہوں۔

خوراک کی تقسیم کے مراکز، جو کبھی امید کے چراغ ہوا کرتے تھے، آج موت کی گلیاں بن چکے ہیں۔ ایک ہزار پچاس افراد کو انہی مراکز پر شہید کر دیا گیا، جب کہ چھ ہزار پانچ سو گیارہ افراد شدید زخمی ہو چکے ہیں۔ یہ وہ اعداد نہیں جنہیں پڑھ کر بھلا دیا جائے، یہ وہ کہانیاں ہیں جن کے پیچھے ٹوٹے خواب، اجڑی گودیں، سسکتی مائیں، اور انتظار کرتی نگاہیں چھپی ہوئی ہیں۔

غزہ آج ایسی جیل بن چکا ہے جہاں انسانوں کو جانوروں سے بھی بدتر حالات میں رکھا گیا ہے۔ دنیا بھر میں اگر کوئی پالتو جانور بھوک سے مر جائے تو قانون حرکت میں آتا ہے، مجرم کو سزا دی جاتی ہے، انصاف مانگا جاتا ہے۔ لیکن غزہ کے انسان — وہ انسان جو ہمارے جیسے خواب دیکھتے ہیں، جن کے سینے میں بھی دل دھڑکتا ہے — ان کے لیے دنیا کے ضمیر میں کوئی جنبش تک پیدا نہیں ہوتی۔

آٹھ ارب انسانوں کی اس زمین پر، دو سو سے زائد ملکوں کی موجودگی کے باوجود غزہ کے لیے کوئی آواز بلند نہیں ہوتی۔ عالمی ادارے خاموش، انسانی حقوق کی تنظیمیں مفلوج، اور مسلم دنیا کی قیادت بے حس ہو چکی ہے۔

یہ وقت ہے کہ ہم صرف اعداد و شمار نہ گنیں، بلکہ ان کے پیچھے چھپی انسانیت کو پہچانیں۔ ہم آنکھیں بند کر کے یہ نہ سمجھیں کہ یہ مسئلہ صرف فلسطین کا ہے۔ یہ انسانیت کا امتحان ہے — اور اگر آج ہم اس میں ناکام ہوئے، تو کل یہ آگ ہمارے اپنے آنگن تک آ سکتی ہے۔

غزہ چیخ رہا ہے، فریاد کر رہا ہے، رو رہا ہے۔ ہمیں اس کی آواز سننی ہے، اس کے درد کو محسوس کرنا ہے، اور ظالم کے خلاف بولنا ہے — ورنہ ہماری خاموشی بھی ایک دن ظلم کا ہتھیار بن جائے گی۔

غزہ صرف ایک قید خانہ نہیں — یہ انسانیت کی بے بسی کا نوحہ ہے۔

پیر، 28 جولائی، 2025

ہیکلِ سلیمانی کو دوبارہ تعمیر




صیہونی ہیکلِ سلیمانی کو دوبارہ کیوں تعمیر کرنا چاہتے ہیں؟


ہیکلِ سلیمانی کی تعمیرِ نو صیہونی تحریک کے اُن بنیادی اہداف میں سے ایک ہے، جو بظاہر مذہبی نظر آتا ہے، مگر درحقیقت یہ ایک گہری سیاسی، نظریاتی اور عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ یہ منصوبہ محض ایک عبادت گاہ کی تعمیر نہیں، بلکہ "عظیم اسرائیل"  کے خواب، مذہبی تسلط، اور عالمی طاقت پر قبضے کی ایک چال ہے۔ سوال یہ ہے کہ صیہونی اس قدیم ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے اتنے بےتاب کیوں ہیں؟ آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
 مذہبی عقیدہ اور مسیحی-یہودی پیشگوئیاں
یہودی روایات میں ہیکل سلیمانی کو خدائی قربت کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق
تین ہیکل تعمیر ہونے ہیں
پہلا ہیکل — حضرت سلیمان علیہ السلام کا
دوسرا ہیکل — زروبابل اور ہیرودیس کا
تیسرا ہیکل — جو "مسیح"
 کی آمد سے پہلے تعمیر ہونا ضروری ہے
کئی صیہونی یہودی گروہ اور عسکریت پسند تنظیمیں جیسے 
Temple Institute 
اور 
 Faithful
 اس عقیدے پر کام کر رہی ہیں کہ مسجد اقصیٰ کی جگہ تیسرا ہیکل تعمیر کر کے "موعودہ نجات دہندہ" (Messiah)
 کی راہ ہموار کی جائے۔
یہی نظریہ بعض عیسائی بنیاد پرست فرقوں
 (Christian Zionists)
 میں بھی مقبول ہے، جو سمجھتے ہیں کہ تیسرا ہیکل بننے سے دنیا کے آخری دور
 (End Times)
 کا آغاز ہوگا۔
 صیہونی سیاسی ایجنڈا: مذہب کے پردے میں قبضے کی چال
صیہونیت صرف ایک مذہبی عقیدہ نہیں بلکہ ایک سیاسی نظریہ ہے جس کا ہدف 
"Greater Israel"
 کا قیام ہے — یعنی نیل سے فرات تک ایک صیہونی ریاست۔ ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر:
مسلمانوں کے قبلہ اول (مسجد اقصیٰ) کی جگہ پر ہو گی
فلسطینیوں کے مذہبی، تاریخی اور سیاسی وجود کو مٹانے کی علامت ہو گی
دنیا بھر میں یہودی طاقت کے غلبے کا نفسیاتی اظہار ہو گی
یہ تعمیر اُن صیہونی نظریات کو تقویت دے گی جو بیت المقدس کو نہ صرف اسرائیل کا دارالحکومت بلکہ "یہودیوں کا عالمی روحانی مرکز" بنانے کے درپے ہیں۔
 مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے کی کوششیں
ہیکل کی جگہ کو خالی کرنے کے لیے انتہا پسند یہودی مسلسل مسجد اقصیٰ کے نیچے سرنگیں کھود رہے ہیں۔
اس کے مقاصد میں شامل ہیں
مسجد کی بنیادوں کو کمزور کرنا
مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو اشتعال دلانا
عالمی ردِ عمل سے فائدہ اٹھا کر یہ ثابت کرنا کہ "یہ جگہ متنازع ہے"
پھر ایک عالمی تنازع کھڑا کر کے کسی موقع پر مسجد کو شہید کرنا
یہ سب ایک گہری سازش کا حصہ ہے، جس کا مقصد الاقصیٰ کے تقدس کو مٹا کر، یہودی روحانیت کا نیا مرکز قائم کرنا ہے۔
 صیہونیت اور دجالی نظام
کئی اسلامی مفکرین، محققین اور مفسرین اس نظریے کو "دجالی نظام" سے جوڑتے ہیں۔ ان کے مطابق
تیسرا ہیکل ایک دجالی عالمی حکومت کے آغاز کی بنیاد ہو گا
عالمی معیشت، میڈیا، اور سیاست پہلے ہی صیہونی اثر میں ہے
اب مذہبی مرکز پر قبضہ کرنا باقی ہے — جس کے لیے ہیکلِ سلیمانی ایک علامت بنے گا
یعنی یہ منصوبہ نہ صرف مذہب بلکہ انسانیت کے خلاف ایک روحانی، سیاسی اور نظریاتی حملہ ہے۔
 عالمی مسیحی حمایت: "ایوانجیلیکل کرسچینز" کا کردار
امریکہ اور یورپ میں موجود کچھ مسیحی گروہ، خاص طور پر 
Evangelicals
، ہیکل کی تعمیر کو حضرت عیسیٰؑ کی دوبارہ آمد سے جوڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ
امریکی حکومتیں اکثر اسرائیل کے مذہبی عزائم کی حمایت کرتی آئی ہیں
ٹرمپ کے سابقہ دورمیں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا
اس حمایت کے پیچھے سیاسی فائدہ اور عقیدہ دونوں شامل ہیں
 مسلمانوں کے نزدیک
مسجد اقصیٰ محض ایک مسجد نہیں بلکہ اسلامی تاریخ، روحانیت، اور اتحاد کی علامت ہے۔ اس پر حملہ
امت مسلمہ کے قبلہ اول پر حملہ ہے
فلسطینی مزاحمت کی بنیاد کو ختم کرنے کی کوشش ہے
ایک عالمی مذہبی جنگ کو دعوت دینے کے مترادف ہے
صیہونی ہیکلِ سلیمانی کو دوبارہ اس لیے تعمیر کرنا چاہتے ہیں کہ وہ مذہب کے نام پر ایک عالمی نظریاتی، روحانی اور سیاسی غلبہ چاہتے ہیں۔ اس ہیکل کی تعمیر صرف ایک عبادت گاہ کی بازیابی نہیں بلکہ اسلام، مسیحیت، اور پوری انسانیت پر صیہونی ایجنڈے کی فوقیت کا اعلان ہو گا۔



سچ کا محاصرہ



سچ کا محاصرہ

دنیا کی ہر جنگ صرف میدان میں نہیں لڑی جاتی، ایک جنگ شعور، بیانیے، اور خبروں کی بھی ہوتی ہے — اور اس جنگ کا سب سے بڑا ہتھیار ہے: میڈیا۔
صیہونیت کو جب اپنی بقا کے لیے زمین، اسلحہ اور اتحادیوں کی ضرورت تھی، تو اسے مغربی استعمار نے دیا۔اور جب صیہونیت کو اپنی حقیقت چھپانے اور مظالم کو “دفاع” کہنے کے لیے ایک پردہ درکار تھا، تو وہ پردہ مغربی میڈیا نے مہیا کیا۔
مغربی میڈیا فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کو رپورٹ کرنے کا جو انداز اپناتا ہے، وہ سادہ قارئین کو بھی گمراہ کر دیتا ہے۔
مثالیں ملاحظہ ہوں:
فلسطینی شہید ہوتا ہے:
"A Palestinian dies in a clash"
اسرائیلی فوجی زخمی ہوتا ہے:
"An Israeli soldier was brutally attacked by militants"
گویا فلسطینی خود بخود مر جاتے ہیں، جبکہ اسرائیلی زخمی ہونے پر “brutally” کا لفظ شامل ہو جاتا ہے۔
مغربی میڈیا نے ہمیشہ فلسطینی مزاحمت کو دہشت گردی کے لیبل سے پیش کیا، خواہ وہ مزاحمت ایک پتھر ہو یا ایک آواز۔ حماس یا دیگر تنظیموں کو "Militants" یا "Islamist Extremists" کہا جاتا ہے۔ جبکہ اسرائیلی فوج کے لیے ہمیشہ "Israel Defense Forces" یعنی دفاعی فوج کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے — حالانکہ دفاع سے زیادہ یہ "جارحیت" کی علامت بن چکی ہے۔
بی بی سی، سی این این اور فاکس نیوز کی پالیسی
بی بی سی: نسبتاً "غیر جانب دار" سمجھی جاتی ہے، لیکن فلسطین کے حوالے سے اس کی زبان اکثر غیر متوازن ہوتی ہے۔
بی بی سی ہمیشہ "Clashes" یا "Violence between Israelis and Palestinians" جیسے مبہم الفاظ استعمال کرتی ہے — حالانکہ حقیقت میں یہ یک طرفہ ظلم ہوتا ہے۔
سی این این:
امریکہ کی نمائندہ نیوز ایجنسی — اور امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا حمایتی۔سی این این نے متعدد بار فلسطینی مزاحمت کو "Hamas-led terrorism" کہا، جبکہ اسرائیلی بمباری کو "response to rocket fire" کے تحت ہضم کیا۔
فاکس نیوز:انتہائی دائیں بازو کی صیہونی نواز میڈیا، جو اسرائیل کو “ایک روشن جمہوریت” اور فلسطینیوں کو “شدت پسند اسلامی گروہ” کہنے میں پیش پیش ہے۔
تصویر کا فریب: جب اسرائیل غزہ پر بمباری کرتا ہے اور سیکڑوں بچے جاں بحق ہوتے ہیں، تو مغربی میڈیا ان تصویروں کو یا تو دکھاتا ہی نہیں، یا صرف یہ لکھ کر گزارا کرتا ہے:
"Palestinian casualties reported amid escalating conflict"
لیکن جب اسرائیل پر راکٹ گرتا ہے، تو متاثرہ گھر، روتے ہوئے یہودی بچے، اور زیر زمین پناہ گاہیں ہیڈ لائن بن جاتی ہیں۔
صیہونیت کے میڈیا نیٹ ورک: پیچھے کون ہے؟
دنیا کے بڑے میڈیا ہاؤسز کے پیچھے موجود افراد اور سرمایہ کاروں میں صیہونی حمایت یافتہ شخصیات شامل ہیں:
Rupert Murdoch (فاکس نیوز): کھلا صیہونی حمایتی
Jeff Zucker (سابق صدر سی این این): اسرائیل نواز موقف رکھتے ہیں
New York Times کا ادارتی عملہ اور کئی سینئر صحافی یہودی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں
اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہر یہودی صحافی بددیانت ہے، لیکن ادارتی پالیسی اکثر صیہونیت کے حق میں ہوتی ہے۔
فلسطینی صحافیوں کی جدوجہد: اسرائیل نے درجنوں فلسطینی صحافیوں کو شہید یا گرفتار کیا۔ معروف رپورٹر شیرین ابو عاقلہ کو اسرائیلی فوج نے گولی مار کر قتل کیا، اور مغربی میڈیا کئی روز اس قتل کو بھی "disputed death" کہتا رہا ۔ یہ واقعہ دنیا کے سامنے واضح ثبوت تھا کہ سچ صرف بولنے کا نہیں، سہنے کا نام بھی ہے
سوشل میڈیا: ایک نیا محاذ: جب روایتی میڈیا اسرائیل کا دفاع کرتا ہے، تو فلسطینی عوام نے سوشل میڈیا کو اپنا ہتھیار بنایا۔انسٹاگرام، ٹوئٹر (X)، فیس بک پر لاکھوں افراد نے فلسطینی مظالم کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کیں
مگر Meta اور دیگر پلیٹ فارمز نے بھی کئی بار "community guidelines" کے نام پر فلسطینی مواد ہٹا دیا
گویا یہ جنگ صرف ٹینکوں کی نہیں، الفاظ، تصاویر اور الگورتھم کی بھی ہے
صیہونیت اور مغربی میڈیا کا رشتہ صرف ہمدردی کا نہیں، بلکہ مفادات، پراپیگنڈہ، اور بیانیہ سازی کا رشتہ ہے۔ جب ایک ریاست ظلم کرے اور میڈیا اسے امن کہے، تو سمجھ لیجیے کہ سچ کا محاصرہ کر لیا گیا ہے ۔

خطرناک گٹھ جوڑ




دنیا بھر کی سیاست، معیشت، ابلاغ، حتیٰ کہ سائنسی و فکری حلقوں میں ایک طاقتور، منظم اور بااثر گروہ کی موجودگی کئی دہائیوں سے موضوع بحث ہے — یہ گروہ ہے صیہونی لابی۔ اس کا نیٹ ورک اتنا مضبوط اور منظم ہے کہ یہ نہ صرف مشرق وسطیٰ کی سیاست بلکہ اقوامِ متحدہ، امریکی کانگریس، یورپی یونین اور عالمی میڈیا پر بھی گہرے اثرات ڈال رہا ہے۔
صیہونیت صرف ایک یہودی نظریہ نہیں، بلکہ ایک سیاسی منصوبہ تھا جس کا آغاز انیسویں صدی کے اواخر میں "تھیوڈور ہرزل" نے کیا۔ اس کا مقصد دنیا بھر کے یہودیوں کو جمع کر کے فلسطین کی سرزمین پر ایک علیحدہ قومی ریاست قائم کرنا تھا۔ یہ تحریک مذہب سے زیادہ قوم پرستی پر مبنی تھی۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد، صیہونی تحریک نے اپنے ایجنڈے کو عالمی سطح پر پھیلانے کے لیے لابیئنگ اور خفیہ تعلقات کے جال کو استعمال کیا۔
امریکہ میں صیہونی لابی کی سب سے نمایاں تنظیم AIPAC (American Israel Public Affairs
ہے، جو امریکی سیاست پر اثر انداز ہونے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرتی ہے۔ ہر امریکی صدارتی انتخاب میں یہ لابی فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ بہت سے امریکی سینیٹرز اور کانگریس مین اسرائیل کی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتے۔
ریاستہائے متحدہ کی خارجہ پالیسی میں فلسطین مخالف فیصلے، ایران کے خلاف پابندیاں، شام میں مداخلت، اور حزب اللہ و حماس کو دہشت گرد قرار دینا — یہ سب صیہونی اثرات کی جھلکیاں ہیں۔
یورپی ممالک، خاص طور پر برطانیہ، فرانس، اور جرمنی میں صیہونی لابی مضبوط بنیاد رکھتی ہے۔ ہولوکاسٹ کے احساس جرم کو بطور ہتھیار استعمال کر کے ان حکومتوں کو اسرائیل کی غیر مشروط حمایت پر مجبور کیا جاتا ہے۔ میڈیا، اکیڈمیا، اور مالیاتی اداروں میں صیہونیوں کی موجودگی اس اثر کو مزید گہرا کرتی ہے۔
صیہونی لابی کا سب سے مؤثر ہتھیار عالمی میڈیا ہے۔ CNN، BBC، Fox News، New York Times، Washington Post
اور دیگر بڑے ادارے فلسطینی بیانیے کو دبانے اور اسرائیلی مظالم کو چھپانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر فلسطینیوں کی آواز کو دبانا، اکاؤنٹس بند کرنا، اور پوسٹس ڈیلیٹ کرنا معمول بن چکا ہے۔
جب بھی غزہ پر بمباری ہوتی ہے، تو اسے "دفاعی کارروائی" کہہ کر پیش کیا جاتا ہے، اور جب فلسطینی مزاحمت کرتے ہیں، تو اسے "دہشت گردی" کہا جاتا ہے۔ یہی صیہونی پروپیگنڈہ ہے جو دنیا کو حقیقت سے دور رکھتا ہے۔
بینکاری، وال اسٹریٹ، اور عالمی مالیاتی ادارے جیسے IMF اور World Bank
پر صیہونی اثرات کوئی راز نہیں۔ مشہور صیہونی بینکار خاندان، جیسے
Rothschilds
، کئی صدیوں سے یورپ اور امریکہ کی معیشت پر اثر انداز رہے ہیں۔ اسرائیل کو ہر سال اربوں ڈالر کی امداد صرف اسی مالیاتی دباؤ کی بدولت ملتی ہے۔
اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف متعدد قراردادیں منظور ہوئیں، مگر عملی اقدامات شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ جیسے ویٹو پاور رکھنے والے ممالک اسرائیل کے محافظ کے طور پر کھڑے ہوتے ہیں۔ یہی صیہونی لابی کا کمال ہے کہ وہ انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی مخصوص دائرے میں محدود رکھتی ہے۔
صیہونی لابی صرف ایک قوم یا ریاست کی بقا کی جنگ نہیں لڑ رہی، بلکہ ایک ایسے عالمی نظام کی تشکیل چاہتی ہے جو صرف اسرائیلی مفادات کے گرد گھومے۔ یہ لابی آزادی اظہار، انسانی حقوق، اور جمہوریت جیسے نعروں کو اپنے ایجنڈے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

وہ جو چیخ نہ سکے، مر گئے




عنوان: غزہ میں بھوک، پیاس اور دوا کی کمی سے مرتے بچے اور انسانیت کا سویا ہوا ضمیر

دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی، انسان کے چاند اور مریخ پر پہنچنے کے دعوے، اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر، اور عالمی عدالتِ انصاف کے موجود ہونے کے باوجود اگر کہیں بچے بھوک، پیاس اور دوا کی کمی سے مر رہے ہوں، تو یہ پوری انسانیت کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ غزہ، جہاں کے بچوں کے پیٹ میں نوالہ نہیں، زخموں پر مرہم نہیں اور پیاس بجھانے کے لیے پانی تک نہیں، وہاں انسانی زندگی کی تذلیل نے انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے بجائے سلادیا ہے۔

غزہ پٹی کو اکثر "دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل" کہا جاتا ہے۔ ایک طرف اسرائیلی ناکہ بندی، دوسری طرف مصر کی سرحدی بندش، اور تیسری طرف خاموش عالمی برادری۔ یہاں کی آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ بچے ہیں، جن کے لیے تعلیم، غذا، دوا اور صاف پانی جیسی بنیادی ضروریات خواب بن چکی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے ادارے UNICEF اور WHO
 کی رپورٹس کے مطابق
2024
 کے اختتام تک غزہ کے 95 فیصد پانی کے ذرائع آلودہ ہو چکے تھے۔
غذائی قلت کی وجہ سے ہر دوسرا بچہ جسمانی اور دماغی طور پر متاثر ہو رہا ہے۔
طبی سہولیات کی تباہی نے زچگی، بچوں کی ویکسینیشن اور عام بیماریوں کے علاج کو ناممکن بنا دیا ہے۔

بھوک، پیاس اور دوا کی قلت سے مرنے والے بچے نہ تو کسی جنگی محاذ پر ہیں، نہ انہوں نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ فلسطینی ماں کے بطن سے پیدا ہوئے، ایک ایسی سرزمین پر جہاں زمین سے زیادہ قبرستان آباد ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی افواج کی جانب سے اسپتالوں، ایمبولینسوں اور طبی مراکز کو نشانہ بنانا کسی حادثے کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک منظم نسل کشی کی کوشش ہے۔ خوراک کی ترسیل کو روکا گیا، فلاحی اداروں کے قافلوں پر حملے کیے گئے، اور بجلی و ایندھن کی بندش نے اسپتالوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

غزہ میں دوا نہ ہونا صرف بیماریوں کا نہ علاج ہونا نہیں، بلکہ موت کی باقاعدہ اجازت ہے۔ نیو بارن یونٹ میں آکسیجن ختم ہو جائے تو وہ نومولود جو ماں کی آغوش میں کھیلنے سے پہلے دنیا کو الوداع کہہ دے، وہ انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ کینسر، گردے کی بیماری، شوگر، ہارٹ اور دیگر لاعلاج مریض دم توڑ رہے ہیں، کیونکہ یا تو دوا نہیں، یا ڈاکٹر مار دیے گئے۔

جب ایک بچہ بھوک سے بلک بلک کر دم توڑتا ہے اور دنیا صرف سوشل میڈیا پر تصویریں شیئر کر کے جذباتی ہو کر خاموش ہو جاتی ہے، تو یہ ضمیر کی نیند کی دلیل ہے۔ اقوامِ متحدہ، عالمی عدالتِ انصاف، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اسلامی دنیا کی حکومتیں، سب کے سب صرف مذمتی بیانات سے آگے نہیں بڑھے۔ انسانیت کے علمبردار ممالک نے اس ظلم کے خلاف نہ تو کوئی ٹھوس اقدام اٹھایا اور نہ ہی اسرائیل پر کوئی پابندیاں لگائیں۔
"جو ظلم کو دیکھ کر خاموش رہے، وہ بھی ظالم کے جرم میں شریک ہوتا ہے۔"

غزہ کا یہ ظلم آنے والی نسلوں کے لیے انسانی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہوگا۔ یہ وہ وقت ہے جب دنیا دو طبقوں میں بٹ گئی ہے: ایک وہ جو ظالم کے ساتھ ہے، اور دوسرا وہ جو مظلوم کا ساتھ دینے کی جرات نہیں رکھتا۔ تیسرا طبقہ، جو واقعی بیدار اور باعمل ہے، نہایت کمزور اور بےاثر بنا دیا گیا ہے۔

"وہ جو چیخ نہ سکے، مر گئے
ہم جو سن نہ سکے، زندہ ہیں؟"