ہفتہ، 26 جولائی، 2025

صیہونیت کا ارتقاء:




صیہونیت کا ارتقاء:
تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ
تاریخ کے صفحات میں کچھ تحریکیں ایسی ہوتی ہیں جو وقت کے ساتھ بدلتی نہیں بلکہ اپنے اندر کئی چہرے  اور روپ چھپائے ہوتی ہیں۔ صیہونیت 
ایسی ہی ایک تحریک ہے، جو مذہبی نعرے سے ابھری، سیاسی مقصد میں بدلی، اور بالآخر ایک جنگی نظریے میں ڈھل گئی۔
صیہونیت کا نام آج بھی دنیا بھر میں تنازع، نسل پرستی، اور جارحیت کی علامت کے طور پر لیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ہمیشہ ایسی نہ تھی۔ اس کا آغاز کہاں سے ہوا؟ اس نے کس طرح عالمی حمایت حاصل کی؟ اور آج یہ کس رخ پر کھڑی ہے؟ آئیے اس ارتقائی سفر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
 صیہون کیا ہے؟
لفظ "صیہون"
 (Zion)
 دراصل یروشلم کے قدیم پہاڑی علاقے کا نام ہے، جسے یہودیوں کے نزدیک روحانی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔
جب "صیہونیت" کی اصطلاح استعمال ہوئی، تو اس کا مطلب تھا: یہودیوں کی اپنے آبائی وطن (فلسطین) میں واپسی کی تحریک۔
لیکن یہ محض واپسی کی بات نہیں تھی، بلکہ ایک سیاسی نظریہ تھا جو جلد ہی ایک ریاست کے قیام کی بنیاد بن گیا۔
 مذہب سے بغاوت پر مبنی آغاز
حیرت کی بات یہ ہے کہ صیہونی تحریک کے بانی تھیوڈور ہرزل
 (Theodor Herzl)
 اور اس کے ساتھی مذہبی یہودی نہیں تھے، بلکہ وہ مغربی یورپ کے سیکولر، لبرل، اور قوم پرست یہودی تھے۔
ہرزل نے اپنی مشہور کتاب
 "Der Judenstaat"
(یہودی ریاست) 1896 میں لکھی، جس میں اس نے کہا:
"یہودیوں کو سیاسی و سماجی تعصب سے نجات دلانے کے لیے انہیں ایک علیحدہ ریاست درکار ہے۔"
یعنی یہ ایک پناہ گاہ کا تصور تھا، نہ کہ دینی حکم۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت کے بہت سے مذہبی یہودی علما نے اس تحریک کی مخالفت کی، کیونکہ وہ اسے "خدا کے فیصلے میں مداخلت" تصور کرتے تھے۔
 مغربی سامراج کی چھتری تلے
صیہونی تحریک کی عالمی شناخت اس وقت بنی جب اسے مغربی سامراجی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہوئی:
1917
 میں برطانیہ نے بالفور اعلامیہ کے ذریعے فلسطین میں یہودیوں کے "قومی گھر" کے قیام کا وعدہ کیا — حالانکہ فلسطین نہ خالی تھا، نہ برطانیہ کی ذاتی جاگیر۔
صیہونی رہنما برطانوی اور فرانسیسی سفارت کاری کے ماہر بن گئے، اور انہوں نے بین الاقوامی ہمدردی کو سیاسی منظوری میں بدل دیا۔
 ہولوکاسٹ کے بعد اخلاقی جواز
دوسری جنگ عظیم اور ہولوکاسٹ کے بعد عالمی برادری، خاص طور پر یورپ، یہودیوں کے ساتھ ہمدرد ہو گئی۔ صیہونیوں نے اس موقع کو خوب استعمال کیا اور کہا:
’’ہمیں اپنی سرزمین دی جائے جہاں ہم محفوظ رہ سکیں۔‘‘
لیکن جس سرزمین کی بات کی جا رہی تھی، وہ فلسطینیوں کی تھی، جن کا اس قتل عام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
یوں ظلم کے ازالے کے نام پر ایک نئی قوم پر ظلم کا دروازہ کھول دیا گیا۔
 اسرائیل: صیہونیت کا سیاسی ظہور
1948
 میں جب اسرائیل قائم ہوا تو صیہونیت نے اپنی تکمیل کا پہلا ہدف حاصل کر لیا۔ لیکن اصل ہدف فلسطین پر مکمل کنٹرول تھا۔
صیہونیت نے صرف "وطن کی واپسی" کا خواب نہیں دیکھا تھا، بلکہ ایک نسلی برتری پر مبنی ریاست کا قیام چاہا تھا، جہاں صرف یہودی کو "حقِ حکمرانی" ہو۔
باقی اقوام — خصوصاً فلسطینی — اس تصور میں "غیر موجود" سمجھی گئیں۔
 جدید صیہونیت: ایک جارح نظریہ
آج صیہونیت محض ایک تحریک نہیں، بلکہ ایک نظامِ فکر بن چکا ہے:
یہ صرف فلسطین نہیں، پورے مشرقِ وسطیٰ کو اپنے کنٹرول میں لینے کا نظریہ رکھتا ہے۔
اس کا جدید چہرہ انتہاپسند مذہبی صیہونیت ہے، جو یہودی شریعت کو ریاستی قانون بنانا چاہتی ہے۔
یہ نظریہ آج غزہ، غرب اردن، اور القدس میں ظلم و بربریت کے ذریعے نافذ کیا جا رہا ہے۔
 عالم اسلام کی غفلت
صیہونیت کے ارتقاء کی داستان صرف یہودیوں کی چالاکی نہیں، مسلمانوں کی غفلت، تقسیم اور بے عملی کی بھی ایک المناک داستان ہے۔
عرب ریاستیں مفادات کے پیچھے لگیں، کبھی امریکہ کی گود میں، کبھی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی لوری میں۔
کچھ نے اسرائیل کو تسلیم کر کے "تاریخی سمجھوتہ" کیا، جبکہ اصل میں وہ نظریاتی شکست تھی۔
صیہونیت کا ارتقاء محض ایک قوم کی وطن واپسی کی داستان نہیں، بلکہ یہ مذہب کے لبادے میں چھپا ایک سیاسی منصوبہ ہے، جس نے فلسطین کو ملبے میں بدلا، انصاف کا منہ چڑھایا، اور عالمی ضمیر کو آزمائش میں ڈال دیا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا دنیا صیہونیت کے اس ننگے چہرے کو پہچانے گی؟
کیا مظلوم فلسطینیوں کی آواز کبھی اس شور میں سنی جائے گی؟
اور کیا اسلام کی امت خواب غفلت سے جاگے گی؟

استنبول کے مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلنے کی پیشگوئی؟



استنبول کے مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلنے کی پیشگوئی؟ — ایک صیہونی فریب


کچھ عرصے سے ایک عجیب قسم کی پیشگوئی سوشل میڈیا، یوٹیوب چینلز اور خود ساختہ مذہبی تجزیہ کاروں کے ذریعے پھیلائی جا رہی ہے کہ ’’استنبول (قسطنطنیہ) ایک مرتبہ پھر مسلمانوں سے چھن جائے گا‘‘۔ بعض اسے قیامت کی نشانیوں سے جوڑتے ہیں تو بعض اسے احادیث کا مفہوم بنا کر پیش کرتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب صیہونی منصوبہ بندی کا حصہ ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کو ان کی روحانی اور تاریخی شناخت سے کاٹنا اور انہیں مایوسی، بدگمانی اور بےعملی کی طرف لے جانا ہے۔
اسلام میں قسطنطنیہ (استنبول) کے متعلق سب سے معروف اور متفق علیہ حدیث یہ ہے
(تم ضرور قسطنطنیہ فتح کرو گے، اور کیا ہی بہترین ہوگا وہ امیر، اور کیا ہی بہترین ہوگا وہ لشکر)
(مسند احمد، حدیث نمبر: 18189)
یہ حدیث بلا شبہ سلطان محمد فاتح اور ان کے لشکر پر پوری ہو چکی ہے۔ اس کے بعد، نہ قرآن میں اور نہ کسی صحیح حدیث میں یہ کہا گیا ہے کہ قسطنطنیہ (استنبول) دوبارہ غیر مسلموں کے قبضے میں چلا جائے گا۔ بلکہ کسی بھی حدیث میں اس کے مسلمانوں سے چھننے کی کوئی وضاحت یا اشارہ بھی موجود نہیں۔
یہ بیانیہ ایک گہری نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے جسے صیہونی تھنک ٹینکس اور ان کے زیرِ اثر میڈیا چینلز منظم طور پر پھیلا رہے ہیں۔ ان کا مقصد
مسلمانوں میں مایوسی پیدا کرنا،
ان کے تاریخی فخر اور روحانی وابستگی کو مشکوک بنانا،
ترکی جیسے ممالک میں اسلام پسندی کے بڑھتے رجحان کو روکنا،
اور خلافتِ عثمانیہ کی تاریخ کو متنازعہ بنانا ہے۔
یاد رہے، یہ وہی سوچ ہے جو بیت المقدس کو مکمل صیہونی ریاست کا دارالحکومت قرار دینے کے لیے کوشاں ہے اور چاہتی ہے کہ مسلمان اپنے ہی تاریخی مراکز سے لاتعلق ہو جائیں۔
امام سیوطیؒ، ابنِ کثیرؒ اور قاضی عیاضؒ جیسے جید مفسرین اور محدثین نے قسطنطنیہ کی فتح کو آخر الزمان کی علامات میں سے ایک بڑی خوشخبری کے طور پر بیان کیا ہے — مگر دوبارہ کھونے کی کوئی بات نہیں کی۔
شیخ یوسف القرضاویؒ نے بھی ایک بار بیان کیا کہ:
’’قسطنطنیہ کی فتح نبی کریم ﷺ کی سچائی کا زندہ ثبوت ہے، اور جو لوگ اس کی دوبارہ چھن جانے کی جھوٹی افواہیں پھیلاتے ہیں، وہ اسلام کی روح کو نہیں سمجھتے۔‘‘
کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ استنبول کے دوبارہ غیر مسلم قبضے کی ’’آسمانی کتابوں‘‘ میں پیشگوئی ہے۔ مگر جب عہدِ قدیم (Old Testament) اور عہدِ جدید
 (New Testament)
 کو تحقیق سے پڑھا جائے تو ایسی کوئی پیشگوئی استنبول سے متعلق موجود نہیں ملتی۔
یہودیوں کی سب سے اہم مذہبی کتاب تلمود ہو یا عیسائیوں کی کتابِ مکاشفہ 
(Book of Revelation)
— دونوں میں استنبول کے حوالے سے کوئی مخصوص پیشگوئی نہیں۔
ہاں، مسیحی صلیبی روایات میں روم کو دوبارہ مسیحی مرکز بنانے کی خواہش ضرور بیان کی گئی ہے، مگر وہ بھی علامتی اور غیر مستند روایات پر مبنی ہے۔
کچھ افراد نے استنبول کے دوبارہ کھو جانے کی جھوٹی پیشگوئیوں کو غیر مسلم مصنفین کے تجزیاتی ناولوں، افسانوی کتابوں یا
 "End Times Prophecies"
 پر مبنی یوٹیوب چینلز سے لیا ہے۔ ان میں
Hal Lindsey
کی کتاب 
The Late Great Planet Earth
Tim LaHaye 
کی مشہور ناول سیریز
 Left Behind
اور
 Evangelical Christians
 کی ویب سائٹس شامل ہیں۔
یہ سب تاریخی حقیقت کے بجائے مذہبی افسانویات 
(mythologies)
 اور مذہبی شدت پسندی کی عکاس ہیں۔
آج کا استنبول ایک بار پھر اسلامی شناخت کی طرف لوٹ چکاہے
  ترک نوجوانوں میں خلافتِ عثمانیہ سے محبت، اور ترکی میں اسلامی اقدار کی واپسی — یہ سب کچھ صیہونی منصوبہ سازوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
لہٰذا وہ ’’استنبول کھو جائے گا‘‘ جیسے افسانے پھیلا کر مسلمانوں کو بددل کرنا چاہتے ہیں۔
استنبول کے مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکلنے کی کوئی پیشگوئی نہ قرآن میں ہے، نہ کسی صحیح حدیث میں، نہ تورات یا انجیل میں۔ یہ بیانیہ صیہونی دماغوں کی گھڑی ہوئی سازش ہے تاکہ مسلمانوں کو مایوس اور تقسیم کیا جائے۔
مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ ایسے افسانوی بیانیات کو رد کریں، اسلامی تعلیمات اور اپنی تاریخ پر بھروسہ کریں، اور استنبول سمیت ہر اسلامی مرکز کے تحفظ و وقار کے لیے فکری و عملی جدوجہد جاری رکھیں۔




جمعہ، 25 جولائی، 2025

اپنے آپ سے محبت کرنا سیکھیں۔

اپنے آپ سے محبت کرنا سیکھیں۔
ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں انسانی صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ نہ بھوک ہے، نہ بیماری — بلکہ مایوسی ہے۔ یہ مایوسی محض ذاتی کیفیت نہیں رہی، بلکہ ایک اجتماعی وائرس بن چکی ہے، جو ہماری سوچوں، رویوں، سوشل میڈیا اور یہاں تک کہ عبادات تک میں در آیا ہے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اس بیماری کے پھیلاؤ میں سب سے بڑا کردار وہ لوگ ادا کر رہے ہیں جو خود کو فکری رہنما یا روحانی انسان سمجھتے ہیں۔
روحانی زندگی میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر زہد و تقویٰ کی علامت بنے بیٹھے ہوتے ہیں، مگر درحقیقت وہ اپنی زندگی سے بدظن ہو چکے ہوتے ہیں۔ نہ اچھا لباس پہنتے ہیں، نہ صحت مند کھانا کھاتے ہیں، نہ صفائی ستھرائی کا خیال رکھتے ہیں، اور نہ ہی اپنے چہرے پر زندگی کی کوئی رمق باقی رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ نہ صرف خود اندر سے خالی ہو چکے ہوتے ہیں، بلکہ دوسروں کو بھی جینے کا حوصلہ چھین لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں نا:
"مایوسی ایک ایسی آگ ہے جو صرف جلانے والے کو نہیں، آس پاس کے سب کو جلا دیتی ہے۔"
یہ لوگ نہ صرف حقیقی زندگی میں، بلکہ سوشل میڈیا پر بھی نظر آتے ہیں۔ ان کی وال پر جائیں تو ہر پوسٹ میں ایک ہی راگ ہوتا ہے:
دنیا تباہ ہو چکی ہے، مسلمان ناکام ہو چکے ہیں، سب کچھ برباد ہو چکا ہے، اگر فلاں یوں کر لیتا تو یوں ہو جاتا، اگر 57 ملک مل کر خلافت قائم کر لیں تو… اگر فلاں پارٹی اقتدار میں آ جائے تو انقلاب آ جائے… وغیرہ وغیرہ۔
یاد رکھیے!
"اگر" کے سہارے جینے والے ہمیشہ "کاش" کے دکھ میں مرتے ہیں۔
یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود کوئی عمل نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی عمل سے روکتے ہیں۔ علامہ اقبال نے ایسے ہی لوگوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا:
"باقی نہیں ہے بندۂ حر مست"
یعنی وہ انسان جو جوشِ عمل کھو بیٹھا ہو، وہ حقیقتاً مردہ ہے، چاہے جسمانی طور پر زندہ ہو۔
ایسے میں سب سے پہلی ذمہ داری آپ کی اپنی ذات ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ زندگی میں بہتری آئے تو سب سے پہلے اپنے آپ سے محبت کرنا سیکھیں۔
صاف ستھرا لباس پہنیں، متوازن غذا کھائیں، جسم کی صفائی کا خاص خیال رکھیں، خوشبو لگائیں، خوش اخلاقی اپنائیں۔
یہ سب چیزیں نہ صرف ظاہری خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ باطنی سکون، خود اعتمادی اور روحانی تازگی کا باعث بھی بنتی ہیں۔
دوسری بات یہ کہ اپنے اردگرد ایسے لوگوں کو تلاش کریں جو زندگی کے پیامبر ہوں۔ وہ جو ہر وقت ماضی کے زخموں کو کریدنے کے بجائے حال کو سنوارنے اور مستقبل کو روشن کرنے کی بات کریں۔
سوشل میڈیا پر بھی صرف اُن صفحات اور افراد کو فالو کریں جو آپ کو آگے بڑھنے، مثبت سوچنے، اور جینے کا حوصلہ دیں۔
جو صرف ماضی کے جھگڑوں، فرقہ واریت، سیاسی نفرت یا عالمی سازشوں کی دہائی دیتے ہوں، ان سے ایسے دور ہو جائیں جیسے کوا غلیل سے بھاگتا ہے۔
ایک خوبصورت قول ہے:
"Man is known by the company he keeps"
اور اسی طرح یہ بھی سچ ہے کہ:
"زندگی اُن کے ساتھ بسر کریں جو آپ کو جینا سکھائیں، مرنے کا نہیں"
لہٰذا، فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے:
آپ زندگی کے سفیر بننا چاہتے ہیں یا مایوسی کے سوداگر؟
آپ وہ چراغ بننا چاہتے ہیں جو روشنی پھیلاتا ہے یا وہ سایہ جو ہر روشنی کو نگل جاتا ہے؟
یاد رکھیں،
جو وقت کی قدر نہیں کرتا، وقت اُسے مٹی میں ملا دیتا ہے۔
زندہ رہنے کا سلیقہ اپنائیے، اپنی ذات سے محبت کیجیے، اور دوسروں کو بھی جینے کا حوصلہ دیجیے۔


نیتن یاہو کی بربریت اور مغرب کی منافقت





 نیتن یاہو کی بربریت اور مغرب کی منافقت

غزہ کی گلیوں میں بھوک سے بلکتے بچے، ملبے تلے دبے لاشے، ماں کے رحم میں پلتی ہوئی زندگی تک کو دہشت گرد قرار دے کر مار دیے جانے والے مناظر، دنیا کے سامنے کسی فلمی منظر کی طرح بار بار پیش کیے جا رہے ہیں — مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔

یہ صرف جنگ نہیں، یہ نسل کشی ہے۔ ایک ایسی منظم مہم، جسے نیتن یاہو جیسے ظالم سیاسی رہنما نے انسانیت کے خلاف آغاز کیا، اور امریکہ، جرمنی جیسے مہذب کہلانے والے ممالک نے اس کی سرپرستی کی۔

جس فلسطینی کا گھر چھینا گیا، جس کی مسجد شہید ہوئی، جس کی ماں، بہن، بیٹی کا جنازہ اس کے کندھوں پر اٹھا، وہ اگر آواز اٹھائے تو "دہشت گرد"۔ اور جو بندوق اٹھا کر اس کا سب کچھ چھینے، وہ مغرب کا "محافظ"؟

نیتن یاہو نے جس دیدہ دلیری سے غزہ پر بمباری کی، اسپتالوں، اسکولوں، پناہ گاہوں تک کو نہ بخشا، وہ کسی نفسیاتی بیماری نہیں بلکہ ایک نظریاتی ظلم کا عکاس ہے۔ ان کے نزدیک فلسطینی، انسان نہیں — صرف "دہشت گرد" ہیں، اور ان کا قتل "دفاع" کے زمرے میں آتا ہے۔

آج کا غزہ ایک کھلی جیل ہے۔ خوراک، پانی، بجلی، ادویات، سب کچھ بند۔ حاملہ خواتین بے علاج، معذور بچے بے آسرا، مگر اسرائیل کی جارحیت پر دنیا خاموش۔ اور یہ خاموشی کسی لاچاری کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک دانستہ خاموشی ہے — ایک مجرمانہ خاموشی۔

امریکہ ہر سال اربوں ڈالر کی فوجی امداد اسرائیل کو دیتا ہے۔ جرمنی اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرتا ہے۔ اقوامِ متحدہ میں فلسطین کے حق میں آنے والی ہر قرارداد کو امریکہ ویٹو کرتا ہے۔ اور یہی وہ منافقت ہے جس نے انسانی حقوق کی علمبرداری کے دعوے کو محض ایک نعرہ بنا دیا ہے۔

دنیا میں انصاف کا پیمانہ بھی مذہب، نسل، اور مفاد کے تابع ہو چکا ہے۔ اگر ایک اسرائیلی فوجی مارا جائے تو پوری دنیا ہل جاتی ہے، مگر جب سیکڑوں فلسطینی بچے ایک دن میں دفن کیے جائیں تو عالمی میڈیا اسے "collateral damage"
 کہہ کر گزار دیتا ہے۔

اسلامی دنیا بھی اس ظلم پر ندامت کے سوا کچھ نہ کر سکی۔ بیان بازی، قراردادیں، اور "شدید مذمت" سے آگے نہ بڑھ سکی۔ کئی مسلم حکمران اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر چکے ہیں، اور کچھ اس کے لیے راہ ہموار کر رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر آج ہم نے اس ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائی، تو کل تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ فلسطینی اپنے گھر، اپنی زمین، اپنے حق، اور اپنی عزت کے لیے لڑ رہے ہیں — اور اگر یہ جرم ہے، تو پھر انسانیت کا ہر اصول بے معنی ہو گیا۔

دنیا کو فیصلہ کرنا ہوگا: مظلوم کا ساتھ دینا ہے یا ظالم کی صف میں کھڑا ہونا ہے۔
خاموش رہنا اب جرم بن چکا ہے۔


جمعرات، 24 جولائی، 2025

کشمیر —پاکستان کی شاہ رگ




کشمیر — تین طرفہ تنازع اور عالمی امن کی آزمائش

کشمیر ایک بار پھر عالمی منظرنامے پر ابھر چکا ہے — ایک ایسا خطہ جو اب صرف پاکستان اور بھارت کا تنازعہ نہیں رہا، بلکہ چین کی شراکت اور عالمی طاقتوں کی مداخلت نے اسے کثیر الجہتی 
 بنا دیا ہے۔ مئی 2025 میں ہونے والی بھارت اور پاکستان کے درمیان مختصر مگر شدید جھڑپ نے اس حقیقت کو آشکار کر دیا ہے کہ جنوبی ایشیا کا امن محض دو ممالک کی مرضی سے مشروط نہیں رہا۔

پہلگام میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے  کے بعد، بھارت نے  بغیر کسی ثبوت کے اس کا الزام پاکستان پر لگایا، اور سرحد پار کارروائیوں کا آغاز کیا۔ پاکستانی فوج نے جوابی کارروائی کی، اور چند دنوں میں دونوں جانب درجنوں فوجی اور سویلین جانیں ضائع ہو گئیں۔ عالمی برادری کی فوری مداخلت کے نتیجے میں عارضی جنگ بندی تو ہو گئی، مگر کشیدگی اب بھی فضا میں ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ جو 2024 میں دوبارہ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے، اس بار کشمیر کے مسئلے پر زیادہ واضح، متوازن اور امن پر مبنی موقف کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔ ان کے مطابق:
“کشمیر اب صرف ایک سرحدی جھگڑا نہیں رہا، یہ دنیا کے دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایک خطرناک بارود کا ڈھیر ہے۔ میں دونوں فریقوں کو امن کی میز پر لانے کے لیے تیار ہوں۔”
ٹرمپ نے اقوامِ متحدہ کی زیرِ نگرانی امن مذاکرات کی تجویز بھی دی ہے اور چین، روس، یورپی یونین اور خلیجی ممالک سے کہا ہے کہ وہ اس عمل کو تقویت دیں۔

بھارت نے حسبِ روایت کشمیر کو داخلی معاملہ قرار دیتے ہوئے ٹرمپ کی پیشکش اور عالمی ثالثی کو مسترد کر دیا ہے۔ مگر اب حالات 2019 جیسے نہیں۔ دنیا اب دیکھ رہی ہے کہ:
بھارت جموں و کشمیر پر سخت کنٹرول رکھ کر بنیادی انسانی حقوق کو محدود کر رہا ہے۔
نئی دہلی کا رویہ نہ صرف پاکستان بلکہ چین کے ساتھ بھی کشیدگی کو بڑھا رہا ہے۔
سب سے اہم بات یہ کہ چین اب کشمیر تنازعے کا فعال فریق بن چکا ہے۔


لداخ اور اکسائی چن کے علاقوں میں چین کی فوجی موجودگی، اور چین-پاکستان اکنامک کاریڈور 
 کی کشمیر سے گزرنے والی راہداری نے چین کو عملاً ایک اسٹیک ہولڈر بنا دیا ہے۔ بھارت چاہے جتنا بھی انکار کرے، اب کشمیر پر چین کی جیو اسٹریٹیجک شمولیت ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔

چین نے ٹرمپ کی امن پیشکش کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ "کشمیر کا پرامن حل پورے ایشیا کے مفاد میں ہے"۔
پاکستان ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کا حامی ہے، اور کئی بار اقوامِ متحدہ سے اپیل کر چکا ہے کہ کشمیر پر حقِ خود ارادیت کی قراردادوں پر عمل درآمد کرایا جائے۔

روس اور یورپی یونین نے بھی اس خطے میں امن کو عالمی استحکام سے جوڑتے ہوئے سفارتی مداخلت پر زور دیا ہے۔

گو کہ ٹرمپ کو اکثر ایک منفعت پسند سیاست دان سمجھا جاتا ہے، مگر کشمیر کے مسئلے پر ان کا حالیہ موقف ایک نئے چہرے کو ظاہر کرتا ہے — ایک ثالث، ایک مصلح۔ اگر وہ چین، روس، پاکستان اور یورپی یونین کو ساتھ لے کر بین الاقوامی امن کانفرنس منعقد کروا سکیں، تو نہ صرف کشمیر، بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں ایک نئے سیاسی توازن کا آغاز ممکن ہے۔

بھارت کی انکاری پالیسی اب سفارتی تنہائی کا باعث بن رہی ہے۔ ایک طرف وہ کشمیر میں آزادی کی تحریک کو "دہشت گردی" قرار دیتا ہے، دوسری جانب چین کی فوجی پیش رفت، عالمی ثالثی کی اپیلیں اور مقامی کشمیریوں کے حقوق کا سوال اُس کے موقف کو غیرمتوازن بنا رہا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت حقیقت کا سامنا کرے:
کشمیر تین ممالک کے بیچ ایک تاریخی، جغرافیائی اور سیاسی حقیقت بن چکا ہے۔
عالمی برادری اب مزید خاموش تماشائی نہیں بن سکتی۔
اگر بھارت امن مذاکرات سے انکار کرتا رہا، تو کشمیر کا مسئلہ مزید بین الاقوامی رنگ اختیار کرے گا۔
کیا ٹرمپ واقعی امن کا دروازہ کھول سکتے ہیں؟ یا وہ بھی ماضی کی طرح صرف بیانات اور تصاویر تک محدود رہیں گے؟
فی الحال دنیا دیکھ رہی ہے، اور کشمیری انتظار کر رہے ہیں۔