جمعرات، 5 جون، 2025

دوسری بار




دوسری بار

 10 

مئی 

2025

 کا دن تاریخ کے اوراق میں سنہری الفاظ میں درج ہو چکا ہے۔ سیالکوٹ اور کشمیر کے محاذ پر جب بھارت نے ایک بار پھر بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معصوم پاکستانی بچوں اور خواتین کو نشانہ بنایا، تو پاکستانی قوم نے جو ردِ عمل دیا، وہ کسی فوجی حکمتِ عملی سے بڑھ کر تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب قوم اور فوج ایک ہو گئے — اور تاریخ نے ایک بار پھر خود کو دہرایا۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ عوام نے مسلح افواج کے ساتھ مل کر دشمن کا مقابلہ کیا ہو۔ جدید دنیا کی تاریخ میں ایے واقعات شاز ہی مگر جنم لیتے رہے ہین جب عوام نے صرف نعرے نہیں لگائے، بلکہ ہتھیار اٹھا کر افواج کا بازو بنے۔ اور جب ایسا ہوتا ہے تو فتح صرف وقت کی بات بن جاتی ہے۔

1775

 سے 1783 تک امریکہ کی جنگِ آزادی ہو، یا دوسری جنگ عظیم کے دوران فرانسیسی مزاحمتی تحریک، وارسا کی بغاوت ہو یا ویتنام کی گوریلا جنگ، اسٹالن گراڈ کی خونریز لڑائی ہو یا 1965 میں لاہور کی سڑکوں پر عوام کا جذبہ — ان سب میں ایک قدر مشترک تھی: قوم نے اپنی افواج کو تنہا نہیں چھوڑا۔

1965 

کی جنگ میں لاہور اور سیالکوٹ کے شہریوں نے جو جذبہ دکھایا تھا، وہی جذبہ اب ایک نئی نسل نے 10 مئی 2025 کو دہرا دیا۔ جب بھارتی میزائل شہری آبادی پر گرے، تو ردعمل میں صرف فوجی توپیں نہیں بولیں، عام نوجوان بھی توپوں میں گولے بھرنے لگے، خواتین نے کھانا پکا کر فوجیوں کو پیش کیے، اور شہریوں نے اپنی نقل و حمل کے ذرائع فوج کے سپرد کیے۔ یہ وہی جذبہ تھا جو قوموں کو ناقابلِ تسخیر بناتا ہے۔

دنیا کی تاریخ میں یہ ساتواں بڑا واقعہ ہے جب عوام نے براہِ راست عسکری میدان میں قدم رکھا۔ لیکن پاکستان کی تاریخ میں یہ دوسرا موقع ہے — اور اس بار جس طرح کی یکجہتی اور قومی غیرت کا مظاہرہ ہوا، اُس نے دشمن کو نہ صرف پسپا کیا بلکہ پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ یہ قوم پاکستان کے دفاؑع کے لیے متحد ہے۔

ہمیں اس اتحاد کو لمحاتی جوش کی بجائے مستقل قومی پالیسی بنانا ہوگا۔ عوام اور افواج کا یہ رشتہ صرف میدانِ جنگ تک محدود نہ رہے، بلکہ ہر میدان میں ایسا ہی ساتھ ہو۔ دفاع ہو یا معیشت، تعلیم ہو یا ٹیکنالوجی، ہم سب ایک قوم بن کر ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔

تاریخ کی گواہی ہے کہ جب عوام اور فوج ایک ہو جاتے ہیں، تو دشمن کے لیے شکست سے بچنا ممکن نہیں رہتا۔


راجہ کون

 





 1965

کی پاک بھارت جنگ کے دوران  شام کے اخبار میں اہک سرخی تھی  "پاکستانی کرشمہ ساز لوگ ہیں۔" یہ جملہ مجھےاس لیے یاد  ہے کہ میرے اردو کے استاد نے  کہا تھا، " کرشمہ ساز نہیں ہوتا، کرشمہ گر ہوتا ہے۔"

پرانی  باتیں کسی نہ کسی موقع پر  یاد آ ہی جآتی ہیں، خاص طور پر جب میں اپنی زندگی کے سفر پر نظر ڈالتا ہوں۔ 1976 میں روزگار کی تلاش نے مجھے وطن سے دور کر دیا۔ مختلف ممالک میں وقت گزرا، مختلف تہذیبوں سے واسطہ پڑا۔ بہت کچھ دیکھا، سیکھا، مگر جو کمال، جو صبر، جو ہنر، اور جو حوصلہ پاکستانیوں میں دیکھا، وہ کہیں اور نہ پایا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مٹی سے سونا کشید کرتے ہیں۔ سچ کہوں تو

، یہی ہیں اصل کرشمہ گر۔

ایسا ہی ایک کرشمہ میرے دوست کی زندگی میں بھی بسا ہوا ہے — جو آج کل امریکہ میں ایک کامیاب اور باوقار مقام پر فائز ہے۔ راولپنڈی کے مضافات میں پیدا ہوا۔ باپ کا سایہ بچپن ہی میں چھن گیا۔ ماں غیر ملکی تھی، مگر دل سے پاکستانی، اور حوصلے کا پہاڑ۔ جیسے جیسے حالات نے اسے جھنجھوڑا، ویسے ویسے وہ فولاد بنتی گئی۔

شوہر کی موت کے بعد رستے داروں نے وراثتی جائیداد پر قبضہ کر لیا ۔زمین کے لالچ  میں اپنے ہی رشتے داری دشمن بن گئے۔ حتیٰ کہ ایک دن بڑے بیٹے کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ وہ بیوہ ماں، ایک بیٹے اور خاوند کے بنائے  کرہوئے گھر کے ساتھ تنہا رہ گئی۔ زمین جا چکی  تھی، مگر حوصلہ باقی تھا۔  بیٹے سے کہا کرتی تھئ:
" عمران زمین  راجہ نہیں ہوتی، علم راجہ ہوتا ہے۔"

بیٹے کے دل میں یہ الفاظ جیسے پتھر پر لکیر ہو گئے۔ اس نے ماں کی آنکھوں کا خواب اور دل کا درد دونوں سمجھ لیا۔ وہ خاموشی سے سب سہتا رہا — رشتے داروں کی گالیاں، طعنے، دھتکار — مگر میٹرک کے امتحان میں وہ پورے بورڈ کے ٹاپ 10 طالب علموں میں شامل ہوا۔

ماں نے گھر کرائے پر دے دیا، خود ایک چھوٹے سے مکان میں منتقل ہوئی، مگر بیٹے کو کالج میں داخل کرا دیا۔ بیٹے نے ماسٹرز مکمل کیا، پھر جرمنی کی ایک یونیورسٹی سے اسکالرشپ پر پی ایچ ڈی کی۔ ماں کی خواہش تھی کہ وہ "پوسٹ ڈاکٹریٹ" بھی کرے۔ امریکہ سے اس نے اعلیٰ ترین ڈپلومہ کیا، تو گویا کامیابیوں کی بارش ہونے لگی۔ ملازمتیں، پیشکشیں، مشورے، شراکت دار — سب کچھ اُس کے قدموں میں آنے لگا۔

مگر وہ اب بھی اُسی راولپنڈی کی مٹی کو یاد رکھتا تھا، جہاں سے اس کا سفر شروع ہوا تھا۔ اس نے اپنے خاندانی گھر کو اپنی این جی او کے دفتر میں تبدیل کر دیا،  ماں کی ہدایت پر ان ہی رشتہ داروں کو اپنی تنظیم میں جگہ دی، جنہوں نے اس پر ظلم کیے تھے — کیونکہ ماں نے سکھایا تھا کہ معافی، انتقام سے بڑی فتح ہے۔

آج اس کے پاس امریکہ میں اپنا گھر اور اسائش بھری اندگی ہے اور پاکستان میں اس کا خاندان اور عزت ہے۔پاکستان میں اس کی تنظیم کو چلانے والے سارے ہی اس کے "شریک" ہیں

اسے اور اس کے خاندان کو ائرپورٹ چھوڑنے گیا ۔ راستے میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھی اس کی بیوئ نے کہا "عمران  کے سارے رشتے دار ڈفر ہیں ، ہر کوئی امریکہ جانا چاہتا ہے مگر تعلیم حاصل کرتے ہوئے انھیں موت پڑتی ہے 

میں نے بیک مرر میں دیکھا ۔عمران کا چہرے پر ملال تھا بولا میرے خاندان میں علم کو راجہ کہنے والی  

جورجیا کے قبرستان میں سو سوئی ہوئی ہے 

اسے الوداع کر کے واپس آ رہا  تھا تو میرے زہن میں چل رہا تھا صیح لفط "کرشہ ساز" ہوتا ہے یا "کرشمہ گر"  ، ذہن الجھ سا گیا ، یکایک خیال ایا "ساز" ہو یا "گر"۔ اصل  تو "کرشمہ" ہے ، پھر جیال آیا کرشمہ اسی گھر میں جنم لیتا ہے جس گھر میں عمران کی مان جیسی ماں ہو ۔اس کے خاندان میں تو سب زمین والے راجے ہیں

سعودی شہزادہ


 

عنوان: سعودی ولی عہد، ٹرمپ اور پاکستان: تعلقات کی وہ سچائی جو اکثر چھپائی جاتی ہے

تحریر: دلپزیر

سیاست میں تعلقات اکثر بیانات سے زیادہ اثر رکھتے ہیں، اور بین الاقوامی تعلقات میں تو یہ اصول اور بھی مضبوط ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں حالیہ برسوں میں جو ایک سب سے نظرانداز لیکن فیصلہ کن حقیقت رہی، وہ یہ ہے کہ امریکہ میں ہمارے حق میں جو چند نرم فیصلے یا مواقع پیدا ہوئے، وہ کسی پاکستانی لابنگ یا سفارتی حکمتِ عملی کا نتیجہ نہیں تھے—بلکہ سعودی ولی عہد۔

ڈونلڈ ٹرمپ جیسے خودرائے اور بےباک رہنما کو جو دنیا کی مخالفت کے باوجود فیصلے کرنے سے گریز نہیں کرتا، محمد بن سلمان کے ذاتی اثر و رسوخ کے سامنے بارہا جھکنا پڑا۔ اس اثر کی نوعیت رسمی یا سفارتی نہیں، بلکہ ذاتی اعتماد، باہمی مفادات اور خاندانی سطح کے روابط پر مبنی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس نے بعض مواقع پر پاکستان کو ایسی جگہ پر سفارتی تنفس دیا، جہاں معمول کے ذرائع ناکام ہو چکے تھے۔

پاکستان کی امریکہ میں موجودہ حیثیت یا اثر رسوخ کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ آخر امریکہ کو آج پاکستان میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ ہم نہ معاشی طاقت ہیں، نہ عسکری لحاظ سے وہ حیثیت رکھتے ہیں جو افغان جہاد کے دور میں تھی، اور نہ ہی جغرافیائی محلِ وقوع کا وہ کردار اب باقی رہا ہے۔

اگر کوئی وجہ باقی ہے، تو وہ ہے سعودی تعلقات — اور خاص طور پر محمد بن سلمان کا وہ اثر جو ٹرمپ پر قائم ہوا۔ ایک حالیہ مثال رچرڈ گرنیل کی سرگرمی ہے، جو ٹرمپ کے مشیر رہے اور پاکستان کے خلاف سخت بیانیے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ جب وہ پاکستان پر تنقید کر رہے تھے، تو نہ کسی سفارتکار کی تقریر مؤثر ہوئی، نہ یوتھیاؤں کی امریکہ میں لابنگ کامیاب ہوئی۔
لیکن پھر ایک کال — سعودی وزیرِ دفاع کی طرف سے — اور رچرڈ گرنیل کی آواز بند ہو گئی۔

یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ طاقت کے عالمی کھیل میں اصل بات تعلقات کی ہوتی ہے، اور ان تعلقات کو نبھانے کی ثقافتی سمجھ بھی ہونی چاہیے۔

یہاں ایک اور پہلو بھی غور طلب ہے — اور وہ ہے عمران خان اور محمد بن سلمان کے درمیان سرد مہری۔
سعودی ولی عہد کو عمران خان کی شخصیت سے خاصی ناپسندیدگی ہے، جس کی دو بڑی وجوہات سامنے آ چکی ہیں:
اول، وہ قیمتی گھڑی جو
 MBS
 کی جانب سے تحفے میں دی گئی تھی، بازار میں بیچ دی گئی۔
دوم، عمران خان کی کابینہ یا قریبی حلقے سے 
MBS
 کے خلاف نازیبا کلمات سعودی سفارتی ذرائع تک پہنچے، جسے ولی عہد نے ذاتی توہین کے مترادف سمجھا۔

نتیجہ یہ ہوا کہ سعودی چینل — جو ماضی میں پاکستان کو عالمی سطح پر تنفس دیتا رہا — غیر فعال ہو گیا۔ اور جہاں سے پاکستان کو مدد مل سکتی تھی، وہاں فاصلے پیدا ہو گئے۔

ڈونلڈ ٹرمپ جیسے رہنما اگر کبھی پاکستان کے لیے کسی نرم گوشے کا اظہار کرتے ہیں تو اس کی وجہ نہ اسلام آباد ہے، نہ واشنگٹن کی کوئی پالیسی۔
وہ صرف اور صرف
 MBS
 کی ذاتی خواہش کا احترام کرتے ہیں۔
یہی وہ تلخ حقیقت ہے جو ہمیں سمجھنی ہو گی۔

پاکستان کو مستقبل میں اگر دنیا میں کوئی حیثیت درکار ہے، تو اسے اپنے خارجی تعلقات کو انا، ضد اور ذاتی رویوں سے الگ رکھنا ہو گا۔
سفارت صرف بیانات اور تصویروں سے نہیں چلتی — یہ رشتوں، عزت داری، اور بھروسے سے چلتی ہے۔

یہی سبق ہے جو وقت بار بار ہمیں یاد دلاتا ہے — مگر شاید ہم ہر بار اسے نظرانداز کر دیتے ہیں۔


Field Marsha Asim Munir



 In a landmark decision that will be remembered in Pakistan’s military and political history for years to come, General Asim Munir has been promoted to the highest military rank of Field Marshal—a rare and symbolic honor. The move was initiated by Prime Minister Mian Muhammad Shahbaz Sharif, approved by the federal cabinet, and formally endorsed by the President of Pakistan, Asif Ali Zardari. This unanimous act of state reflects a powerful message of unity, national pride, and deep appreciation for military leadership.

The entire country witnessed this moment with respect and admiration. The Pakistan Army celebrated the promotion as a symbol of continuity, strength, and stability. Among civilians, the sentiment was no different—streets, homes, and digital spaces echoed with pride as people recognized the elevation of a General who has never shied away from duty or sacrifice.

Field Marshal Asim Munir, known for his calm yet resolute demeanor, did not take the occasion as a personal victory. In a humble and deeply touching statement, he said, "This promotion is not for me, but an appreciation of the sacrifices made by our military and civilian martyrs." He further declared, "A thousand Asims will sacrifice for Pakistan," a statement that has since captured the hearts of millions. These words carry the power of inspiration—reminding every soldier and citizen that the spirit of sacrifice and love for the motherland is eternal.

In recent years, Pakistan has faced multiple regional and global challenges. Whether it is the looming threat from across the eastern border or international diplomatic pressure, Field Marshal Asim Munir has stood his ground with dignity and resolve. His ability to take timely, bold decisions and stay at the war front alongside his troops has not gone unnoticed.

Where many choose to lead from behind, he chose to lead from the front, showing the courage and confidence of a true commander. His Command  has sent a strong message to adversaries: Pakistan may face a force ten times larger, but it will never bend, never break.

In Field Marshal Asim Munir, the nation sees the return of something it had long yearned for: a man who speaks clearly, acts decisively, and embodies the will of the people and the soldier alike. His rise is not just a military promotion—it is a revival of faith in leadership, strategy, and national defense.

His words have stirred the soul of a nation, his actions have strengthened the resolve of the armed forces, and his presence has reminded the Muslim world what it looks like when a general stands with unwavering will and a clean heart.

This historic promotion has not only strengthened the morale of the military but also brought a renewed sense of unity and confidence to the people. For the first time in years, Pakistanis across the board feel that the state has recognized a General who leads with vision and loyalty, not for personal gain but for the cause of the nation.

At this proud moment, the people of Pakistan salute this decision taken by Prime Minister Mian Muhammad Shahbaz Sharif and President Asif Ali Zardari. Their act has not only strengthened the institution of the Army but also demonstrated the power of democracy working in harmony with national defense.

: بھارت – ایک ابھرتی ہوئی دہشت گرد ریاست