بدھ، 28 مئی، 2025

قرآن – ایک بند دروازہ یا کھلا راستہ؟

 قرآن – ایک بند دروازہ یا کھلا راستہ؟

کبھی آپ نے سوچا کہ ہم قرآن سے کیسا رشتہ رکھتے ہیں؟

کیا وہ صرف الماریوں میں لپٹا ہوا ایک مقدس کاغذی صحیفہ ہے؟
یا وہ واقعی ہماری زندگی کی کتاب ہے؟

قرآن ہمارے گھروں میں موجود ہے، مگر ہماری زندگیوں سے دور۔ رمضان میں اسے چوم کر پڑھ لیا جاتا ہے، مگر دلوں میں اس کی روشنی کم ہی اترتی ہے۔ ہم اسے حفظ تو کر لیتے ہیں، مگر سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کا ارادہ شاذ و نادر ہی رکھتے ہیں۔

کیا قرآن صرف ثواب کی نیت سے پڑھنے کے لیے نازل ہوا تھا؟
نہیں!
یہ کتاب آئی تھی سوئے ہوئے انسان کو جگانے کے لیے، گرتی ہوئی انسانیت کو سنبھالنے کے لیے، اندھیروں میں چراغ جلانے کے لیے۔

یہ وہ کتاب ہے جس نے بکریاں چرانے والوں کو دنیا کے امام بنا دیا۔ جس نے غلاموں کو سردار، اور جاہلوں کو استاد بنا دیا۔ جس نے عورت کو عزت، مظلوم کو حق، اور انسانیت کو وقار دیا۔

قرآن کی آیات زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں پکارتی ہیں:

"اے انسان! تجھے تیرے ربِ کریم نے کس چیز نے دھوکے میں ڈالا؟" (سورہ الانفطار)

لیکن افسوس، ہم جواب دینے کے بجائے نظریں چُرا لیتے ہیں۔

قرآن صرف نماز کی تلاوت نہیں، یہ فیصلہ ہے!
یہ کتاب صرف قبر کے لیے نہیں، زندگی کے لیے بھی ہے!
یہ صرف مرنے کے بعد نہیں، جیتے جی بھی رہنمائی کرتی ہے۔

ہم نے اپنی زندگی کے فیصلے میڈیا، معاشرے، اور مادیت پرستی کے حوالے کر دیے۔ قرآن تو کہتا ہے کہ سچ بولو، ہم کہتے ہیں "چالاکی کرو"۔
قرآن تو کہتا ہے عدل کرو، ہم کہتے ہیں "کام نکالو"۔

یقین کریں، اگر ہم قرآن کو سمجھ کر پڑھنا شروع کر دیں تو ہر آیت ہمیں خود سے مخاطب لگے گی۔
ہمیں لگے گا جیسے اللہ ہم سے بات کر رہا ہے۔

آج بھی دیر نہیں ہوئی۔
قرآن کا دروازہ آج بھی کھلا ہے۔
بس ہم نے دل کے بند دروازے کھولنے ہیں۔

آئیے، قرآن کو زندگی میں اتاریں۔ صرف آنکھوں سے نہیں، دل سے پڑھیں۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن قرآن ہم سے کہے:

"اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا!"
(سورہ الفرقان: 30)


شق القمر

 واقعہ شق القمر (چاند کا دو ٹکڑے ہونا) ایک معجزہ ہے جو نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کے دستِ مبارک سے پیش آیا۔ یہ واقعہ اسلامی روایات میں اہم مقام رکھتا ہے اور اسے قرآن مجید، احادیثِ نبویہ، اور سیرت کی کتب میں ذکر کیا گیا ہے۔:

مکہ مکرمہ میں حضور نبی کریم ﷺ کے دورِ نبوت میں کفارِ قریش نے آپ سے کوئی معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا تاکہ آپ کی نبوت پر یقین کرسکیں۔ ان کے اس مطالبے پر اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے ہاتھ پر یہ عظیم معجزہ ظاہر فرمایا۔

روایات کے مطابق، نبی کریم ﷺ نے اللہ سے دعا کی اور پھر آپ ﷺ نے چاند کی طرف اشارہ کیا، تو چاند دو واضح حصوں میں تقسیم ہو گیا، یہاں تک کہ لوگوں نے حراء پہاڑ کو ان دونوں کے درمیان دیکھا۔ کچھ لمحوں کے بعد وہ دوبارہ جُڑ گیا۔

یہ واقعہ سورۃ القمر کی آیت نمبر 1 میں مذکور ہے:

اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ
’’قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا۔‘‘ (سورۃ القمر، 54:1)

یہ واقعہ کئی معتبر احادیث میں بھی بیان ہوا ہے، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

  • حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

    ’’چاند نبی ﷺ کے زمانے میں دو حصوں میں پھٹ گیا، ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر تھا اور دوسرا اس کے پیچھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: گواہ رہو۔‘‘ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

کفارِ قریش نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا، لیکن ایمان لانے کے بجائے انہوں نے اسے "جادو" کہا اور یہ دعویٰ کیا کہ اگر یہ واقعی سچ ہے تو باہر سے آنے والے قافلے بھی اس کی تصدیق کریں گے۔ بعد میں جب دوسرے مقامات سے آنے والے لوگوں نے بھی اس منظر کو دیکھا ہونے کی تصدیق کی، تب بھی کفار نے انکار ہی کیا۔

واقعہ شق القمر صرف ایک معجزہ نہیں، بلکہ ایک انتباہ بھی تھا کہ قیامت قریب ہے اور انسان کو اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ یہ واقعہ حضور ﷺ کی صداقت کی دلیل ہے اور اسلام کے معجزاتی پہلوؤں میں سے ایک روشن مثال۔


مفاد کا سراب

 مفاد کا سراب

پاکستان میں صحافت کبھی سچ کی روشنی تھی، آج وہ کئی حوالوں سے دھندلا سا عکس بن چکی ہے۔ جس قلم کو صداقت کا آئینہ ہونا چاہیے تھا، وہ اب مفاد کا آئینہ خانہ بنتا جا رہا ہے۔ چند صحافی حضرات نے صحافت کو محض ایک "ٹرانزٹ ویزہ" بنا لیا ہے—ایک ایسا راستہ جو انہیں مغربی اداروں کی رکنیت، کانفرنسوں کی چمک، یا فیلوشپ کے نام پر ملنے والی داد و دہش تک پہنچا دے۔

بات تلخ ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ آج ہمارے کچھ نامور صحافی اپنی تحریروں، تجزیوں اور ویڈیوز میں ایسا بیانیہ ترتیب دے رہے ہیں جو مغرب کے پالیسی سازوں کو بہت مرغوب ہوتا ہے، مگر ہمارے قومی مفادات کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ان کی "منزلِ مقصود" اب خبر دینا نہیں، بلکہ ایسی رائے ترتیب دینا ہے جو مغرب کے پالیسی تھنک ٹینکس کو "قابلِ حوالہ مواد" مہیا کر سکے۔

ذرا نظر ڈالیں،
حامد میر صاحب جیسے جید صحافی، جن کی پیشہ ورانہ خدمات سے انکار ممکن نہیں، اب اکثر اوقات ایسے بیانات دے بیٹھتے ہیں جو نہ صرف قومی اداروں کی ساکھ کو مجروح کرتے ہیں بلکہ دشمن ریاستوں کے پروپیگنڈے سے مشابہت رکھتے ہیں۔ ریاستی اداروں کے خلاف ان کا لہجہ اور عالمی پلیٹ فارمز پر پاکستان کو "آزادیٔ اظہار کا قاتل" قرار دینا محض ایک اظہار نہیں بلکہ ایک رجحان بن چکا ہے۔

پھر آتے ہیں اعزاز سید صاحب، جن کی رپورٹنگ میں تحقیق کم اور تاثر زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کئی حساس نوعیت کی رپورٹس میں واقعات کو اس انداز سے پیش کیا کہ ان کی سچائی پس منظر میں چلی گئی اور مغرب پسند بیانیہ نمایاں ہو گیا۔ یوٹیوب پر ان کا اندازِ گفتگو، ویڈیوز کا انتخاب، اور اصطلاحات کا استعمال بھی اکثر ایسا ہوتا ہے جو بآسانی مغربی تھنک ٹینکوں کے فریم میں فِٹ آتا ہے۔

مبشر زیدی جیسے سینئر صحافی کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ ان کی تنقید اکثر ریاستی اداروں اور مذہبی و تہذیبی اقدار کے گرد گھومتی ہے، اور ان کی تحریریں بیرونی اداروں کے لیے ایک سازگار حوالہ بن جاتی ہیں۔

سیرل المیڈا کی ڈان لیکس رپورٹ نے تو گویا ریاست کے اندر موجود فاصلوں کو سرخیوں میں بدل دیا۔ ایک رپورٹ نے قومی سلامتی کو عالمی تماشہ بنا دیا، اور نتیجہ؟ مغرب میں آزادیٔ صحافت کے ایوارڈز اور اندرونِ ملک اداروں پر انگلیاں۔

یہ سب مثالیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ پاکستان کی صحافت کے کچھ کردار اپنی "منزلِ مقصود" سے بھٹک چکے ہیں۔ جب خبر کا مقصد سچ بتانا نہیں بلکہ کسی ایوارڈ کے لیے بیانیہ تراشنا ہو، تو صحافت نہیں رہتی، لابنگ بن جاتی ہے۔

یہ درست ہے کہ صحافی کو آزاد ہونا چاہیے، مگر آزادی کے نام پر مفاد پرستی کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ سچ کی تلاش ضرور کیجیے، مگر اپنی شناخت، اپنے وطن، اور اپنے اداروں کو بے بنیاد الزامات کی بھینٹ نہ چڑھائیے۔

قلم جب امانت ہو تو معاشرے کو راستہ دیتا ہے،
اور جب تجارت بن جائے تو صرف راستے بیچتا ہے۔

امن ہی راستہ ہے

 

اگر پاکستان نے دہلی پر ایٹمی حملہ کر دیا تو؟ – ایک خوفناک مفروضہ

دنیا ایٹمی ہتھیاروں کی ایجاد کے بعد ایک نازک توازن پر قائم ہے — ایسا توازن جو خوف، حکمت، اور ذمے داری سے جڑا ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت، دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں، اور ان کے درمیان جاری کشیدگی ایک ایسا آتش فشاں ہے جو اگر پھٹ پڑے تو کروڑوں جانوں کو نگل سکتا ہے۔

آئیے اس سوال کا سنجیدگی سے مفروضاتی جائزہ لیں:
اگر پاکستان دہلی پر ایٹمی حملہ کر دے، تو کیا ہوگا؟

🧨 پہلا مرحلہ: حملے کا لمحہ

فرض کریں کہ پاکستان نے کوئی درمیانے درجے کا ایٹمی ہتھیار (مثلاً 100–150 کلوٹن) دہلی پر گرا دیا —
کیا ہوگا؟

  • دہلی، جس کی آبادی تقریباً 3 کروڑ کے لگ بھگ ہے، ایک لمحے میں جلتی ہوئی راکھ بن جائے گی۔

  • فوری ہلاکتیں: اندازاً 5 سے 10 لاکھ افراد فوراً ہلاک ہو سکتے ہیں۔

  • شدید زخمی: لاکھوں افراد جھلس جائیں گے، اندھے ہو جائیں گے یا تابکاری کی زد میں آ جائیں گے۔

  • شہر کا انفراسٹرکچر — اسپتال، اسکول، سڑکیں، بجلی — مکمل تباہ ہو جائے گا۔

  • تابکاری (Radiation) کے اثرات کئی دہائیوں تک نسل در نسل منتقل ہوں گے۔

🇮🇳 بھارت کا ردعمل: جوابی حملہ

بھارت، جس کے پاس ایک مضبوط ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ اور جدید دفاعی نظام موجود ہے، "Second Strike Capability" رکھتا ہے — یعنی اگر اس پر حملہ ہو، تو وہ بدلے میں ایٹمی جوابی حملہ کر سکتا ہے۔

ممکنہ جوابی حملے:

  • پاکستان کے بڑے شہر — اسلام آباد، کراچی، لاہور، راولپنڈی — نشانہ بن سکتے ہیں۔

  • فوجی تنصیبات، اڈے، اور دفاعی مراکز تباہ کیے جا سکتے ہیں۔

  • جوابی حملے میں بھی لاکھوں افراد مارے جائیں گے۔

🌍 تیسرا مرحلہ: ایٹمی جنگ اور عالمی اثرات

🔥 جنوبی ایشیا میں ایٹمی جنگ:

اگر دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر مکمل ایٹمی حملے کیے تو:

  • 2 سے 4 کروڑ افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔

  • طبی نظام مکمل مفلوج ہو جائے گا۔

  • خوراک، پانی، دوائیں، سب کچھ نایاب ہو جائے گا۔

  • لاکھوں لوگ مہاجر بن جائیں گے۔

🌫️ ماحولیاتی تباہی – "جوہری سرما" (Nuclear Winter):

  • ایٹمی دھماکوں سے اٹھنے والی راکھ سورج کی روشنی کو روک دے گی۔

  • درجہ حرارت کم ہو جائے گا، بارشیں متاثر ہوں گی، قحط پھیل جائے گا۔

  • پوری دنیا متاثر ہو گی، نہ صرف پاکستان اور بھارت۔

🌐 بین الاقوامی ردعمل: دنیا کا رویہ

  • اقوامِ متحدہ میں ہنگامی اجلاس ہوں گے۔

  • امریکا، چین، روس، یورپی یونین مداخلت کریں گے۔

  • دونوں ممالک پر مکمل اقتصادی پابندیاں لگ سکتی ہیں۔

  • عالمی برادری پاکستان اور بھارت دونوں کو الگ تھلگ کر دے گی۔

📉 پاکستان اور بھارت: مکمل تباہی کی راہ پر

  • معیشت تباہ ہو جائے گی، کرنسی ختم، نظامِ حکومت درہم برہم۔

  • لاکھوں مہاجرین ہمسایہ ممالک کی سرحدوں پر جمع ہو جائیں گے۔

  • معاشرتی نظام ختم، خانہ جنگی، جرائم، افرا تفری

🕊️ نتیجہ: ایٹمی جنگ کا کوئی فاتح نہیں ہوتا

ایٹمی جنگ کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ اس میں کوئی جیتتا نہیں، سب ہارتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں قوموں کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔

ایٹمی ہتھیار آخری دفاع ہوتے ہیں، پہلا حملہ نہیں۔

📢 پیغام: امن ہی راستہ ہے

یہ تحریر کسی جنگی خواہش یا اشتعال انگیزی کے لیے نہیں، بلکہ ایک سنگین یاد دہانی ہے —
کہ قوموں کو اختلافات کا حل بات چیت، سفارتکاری، اور انصاف سے نکالنا ہوگا، ورنہ نتیجہ سب کے لیے تباہ کن ہو گا۔


کشمیر کا بحران: جبر، خاموشی اور جنگ کے سائے

 

کشمیر کا بحران: جبر، خاموشی اور جنگ کے سائے

پاکستان کے ہاتھوں فوجی شکست کے بعد، بھارتی افواج نے مقبوضہ کشمیر میں اپنی گرفت مزید سخت کر دی ہے۔ ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے، گھروں کو نذرِ آتش کیا گیا اور کئی بستیاں ملیا میٹ کر دی گئی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ کشمیری لڑکیوں اور خواتین کو فوجی کیمپوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ وادی، جسے کبھی ایشیا کی سوئٹزرلینڈ کہا جاتا تھا، اب ایک محصور جنگی زون کا منظر پیش کر رہی ہے۔

صحافیوں کا داخلہ بند ہے، اور انٹرنیٹ تک رسائی صرف چُنے گئے افراد کو دی گئی ہے۔ جو خبریں باہر آ رہی ہیں وہ ظلم اور ریاستی جبر کی سنگین تصویر پیش کرتی ہیں۔

22 اپریل کو پہلگام کے قریب ایک سیاحتی مقام پر حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے۔ بھارت نے فوراً الزام پاکستان اور ایک غیر معروف گروپ "دی ریزسٹنس فرنٹ" پر عائد کیا، مگر گروپ نے اس کی تردید کی۔ اس واقعے نے ایک بار پھر الزامات اور جوابی حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔

چند دنوں بعد بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا، جس میں خواتین اور بچے جاں بحق ہوئے۔ پاکستان نے بھرپور جواب دیا اور ان بھارتی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جہاں سے میزائل داغے گئے تھے۔ بھارت نے درجنوں لڑاکا طیارے، جن میں فرانسیسی ساختہ رافیل بھی شامل تھے، حملے کے لیے روانہ کیے، مگر پاکستان نے ان میں سے پانچ طیارے مار گرائے۔ بعد ازاں، امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت پر جنگ بندی ہوئی۔

کشمیر ہی وہ بنیادی مسئلہ ہے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا سبب رہا ہے۔ 1947 میں تقسیم کے وقت ریاست جموں و کشمیر کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ بھارت یا پاکستان میں شامل ہو۔ اکثریتی مسلم آبادی کے باوجود ہندو حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق کا فیصلہ کیا، جسے کشمیری عوام نے مسترد کر دیا اور موجودہ آزاد کشمیر کو آزاد کروایا۔

آج کشمیر تین حصوں میں بٹا ہوا ہے: وادی، جموں اور لداخ بھارت کے زیرِ انتظام؛ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پاکستان کے زیرِ انتظام؛ جبکہ اکسائی چن اور شکسگام وادی چین کے کنٹرول میں ہیں۔

2019 میں بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35A منسوخ کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔ اس کے بعد سے 85 ہزار سے زائد غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل جاری کیے گئے، جن میں زیادہ تر بھارتی فوج کے ریٹائرڈ اہلکار اور ہندو آبادکار شامل ہیں، جس سے آبادی کا تناسب بدلنے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔

2024 کے انتخابات میں عمر عبداللہ کی حکومت قائم ہوئی، مگر عملی طور پر تمام اختیارات بھارتی فوج کے پاس ہیں۔ یہ جمہوریت صرف ایک دکھاوا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ہزاروں نوجوان جیلوں میں قید ہیں، اظہارِ رائے، مذہب اور اجتماع کی آزادی سلب کر لی گئی ہے۔ احتجاج کو جرم بنا دیا گیا ہے، اور سوشل میڈیا پر بھی قدغن لگا دی گئی ہے۔ حملے کے بعد 8 ہزار سے زائد اکاؤنٹس بند کر دیے گئے، جن میں صحافیوں، کارکنوں اور عام شہریوں کے اکاؤنٹس شامل تھے۔

بھارت کشمیری مزاحمت کو دہشت گردی قرار دیتا ہے، مگر اصل صورتحال کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ کشمیریوں کے لیے یہ صرف سیکورٹی کا معاملہ نہیں، بلکہ ان کی شناخت اور آواز کو دبانے کا عمل ہے۔

میڈیا، جو کبھی سچ کا ساتھی تھا، اب ریاستی پراپیگنڈا کا ذریعہ بن چکا ہے۔ آزادانہ رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو ہراساں یا گرفتار کیا جا رہا ہے۔

کشمیر اب صرف ایک علاقائی تنازعہ نہیں رہا، یہ ایک انسانی المیہ ہے جو دنیا کی خاموشی میں پروان چڑھ رہا ہے۔

جب تک دنیا اس المیے کو سننے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتی، کشمیر ظلم، جبر اور جنگ کی لپیٹ میں ہی رہے گا، اور کشمیری عوام ان سیاسی کھیلوں کی قیمت چکاتے رہیں گے جو ان کی سرزمین سے بہت دور کھیلے جا رہے ہیں۔