پیر، 5 مئی، 2025

صحرا میں جہنم





نیگیو کے سنسان میدان میں، جہاں سورج بھی زخم دیتا ہے اور راتیں بھی بےرحم ہوتی ہیں، وہاں ایک جیل ہے – کیتسیوت۔ مگر یہ جیل عام نہیں، بلکہ وہ جگہ ہے جہاں قانون خاموش ہے اور ظلم مسلسل گونج رہا ہے۔

ہم اکثر سننے کے عادی ہو چکے ہیں کہ فلاں دہشت گرد پکڑا گیا، فلاں شدت پسند زیرِ حراست ہے، لیکن فلسطینی قیدیوں کی بڑی تعداد کو نہ کبھی جرم بتایا جاتا ہے، نہ عدالت بلاتی ہے۔ ان کے حصے میں صرف قید آتی ہے — وہ بھی صحرا کی دھول بھری جیل میں، جسے دنیا کی بدنام ترین جیلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

جیل یا خیمہ بدبو کا؟

کیتسیوت جیل، جسے اسرائیل “Ketziot Prison” کے نام سے جانتا ہے، 1988 میں قائم کی گئی تھی۔ یہ جیل اس قدر وسیع ہے کہ ہزاروں فلسطینی قیدی یہاں خیموں میں ٹھونس دیے جاتے ہیں۔ گرمیوں میں جھلسا دینے والی تپش اور سردیوں میں ہڈیوں میں اترتی یخ بستگی — یہ قیدی ان دونوں موسموں سے بھی زیادہ اندرونی اذیت سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔

اسرائیل اسے سیکیورٹی جیل کہتا ہے، مگر یہاں قید بیشتر فلسطینی نوجوان، طلبہ، کسان اور عام شہری ہوتے ہیں، جن پر نہ کوئی فردِ جرم ہوتی ہے، نہ کوئی مقدمہ۔ یہ قید صرف ایک تحریری حکم پر قائم ہے — جسے "ایڈمنسٹریٹو ڈیٹنشن" کہتے ہیں۔

بغیر جرم کے قید — سچی داستانیں چیخ چیخ کر بولتی ہیں

محمود السرسک: فٹبالر جو 92 دن بھوکا رہا

محمود، فلسطینی قومی ٹیم کا رکن، 2009 میں میچ کھیلنے جا رہا تھا۔ اسرائیلی فوج نے "مشکوک" کہہ کر دھر لیا۔
تین سال وہ کیتسیوت کی قید میں رہا — بغیر کسی جرم، بغیر کسی عدالت۔
اس نے 92 دن کی بھوک ہڑتال کی، اور بالآخر 2012 میں رہائی ملی۔
اس کی حالت ایسی تھی کہ وہ چل بھی نہیں سکتا تھا، مگر کہتا تھا:

"انہوں نے جسم تو توڑ دیا، پر میرے خواب نہیں چھین سکے۔"

خلیل عواد: لاٹھی کے سہارے چلنے والا قیدی

پولیو زدہ خلیل کو 2014 میں رات کے اندھیرے میں اُٹھا لیا گیا۔
اس کی بیساکھی بھی چھین لی گئی۔
کیتسیوت میں وہ خیمے میں فرش پر سوتا رہا — ایک ایسا شخص جس کا نہ جرم تھا نہ طاقت۔
ایسا لگتا تھا جیسے فلسطینی ہونا ہی جرم کافی ہے۔

محمد عدنان: جسے باپ کا جنازہ نصیب نہ ہوا

محمد قید میں تھا جب اسے خبر ملی کہ اس کے والد وفات پا گئے ہیں۔
اس نے درخواست کی کہ جنازے میں شرکت کی اجازت دی جائے، لیکن اسے صرف قبر کی ایک تصویر بھیجی گئی۔
یہ وہ ظلم ہے جو صرف کیتسیوت جیسے قید خانوں میں ہوتا ہے — جہاں جذبات بھی سیکیورٹی رسک بن جاتے ہیں۔

قانون کی آنکھ بند، ضمیر کا سوال باقی

اقوامِ متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ بارہا کیتسیوت جیل کے حالات پر تحفظات ظاہر کر چکی ہیں۔
مگر عالمی ضمیر اب بھی سیاسی مصلحتوں کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔
کیا انصاف صرف طاقتوروں کا ہتھیار رہ گیا ہے؟

 صحرا کی خاموشی، جو چیخ بن چکی ہے

کیتسیوت کوئی جغرافیائی نقطہ نہیں — یہ ظلم کا ایسا افسانہ ہے جس کا ہر صفحہ قیدیوں کے آنسوؤں سے بھیگا ہوا ہے۔
یہاں ہر خیمہ ایک کہانی سناتا ہے، ہر قیدی ایک سوال چھوڑتا ہے، اور ہر چیخ عالمی ضمیر پر دستک دیتی ہے۔

کاش ہم سن سکیں۔

جب غریب کا بیٹا وزیر اعظم بنا

 

جب غریب کا بیٹا وزیر اعظم بنا

کبھی کبھی تاریخ کا دامن ایسے کرداروں سے بھر جاتا ہے جو ظاہری طور پر عام سے ہوتے ہیں، مگر ان کی سادہ زندگی، خالص نیت، اور مسلسل محنت انہیں غیرمعمولی بنا دیتی ہے۔ ملک معراج خالد بھی ایک ایسا ہی کردار تھے — ایک کسان کا بیٹا، جو دودھ بیچ کر تعلیم حاصل کرتا رہا، اور بالآخر پاکستان کا وزیر اعظم بن گیا۔

ملک معراج خالد 20 ستمبر 1916 کو پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن نہایت سادگی میں گزرا۔ تعلیم کے لیے روز ڈیڑھ میل دور پرائمری اسکول جاتے، پھر مدل اسکول جو ان کے گاؤں سے آٹھ کلو میٹر دور تھا، پیدل طے کرتے۔ چھٹی جماعت میں وظیفہ ملا، مدل اسکول میں بھی تعلیم کے ساتھ ساتھ وظیفہ حاصل کیا — یہ اس بات کی علامت تھی کہ محنت اور صلاحیت کبھی چھپ نہیں سکتی۔

جب لاہور کے مادل اسکول میں میٹرک کے لیے داخلہ لیا تو اخراجات اٹھانے کے لیے گاؤں سے روزانہ دودھ لاتے، اور شہر میں بیچتے۔ ان کے گاہکوں میں مظفر قزلباس کی حویلی بھی شامل تھی۔ 1935 میں میٹرک اور 1939 میں بی اے آنرز کیا — تمام تعلیمی اخراجات خود اٹھائے۔ بی اے کے بعد باٹا کمپنی میں کلرک کی نوکری کی، اور ساتھ ہی قانون کی تعلیم جاری رکھی۔ 1946 میں ایل ایل بی مکمل کیا، اور 1950 میں وکالت شروع کی۔

1965 میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1970 میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر مظفر قزلباس کے بھائی کے مقابل الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے۔ وقت نے کیسا پلٹا کھایا کہ جس حویلی میں دودھ بیچتے تھے، وہاں سیاسی برابری پر آ پہنچے۔ 1971 میں وفاقی وزیر، 1972 میں پنجاب کے وزیر اعلی، 1973 میں وزیر قانون، اور 1976 میں وزیر بلدیات و دیہی امور بنے۔ دو بار قومی اسمبلی کے اسپیکر بنے، اور چار سال انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اور پھر 1993 میں، وہ وقت بھی آیا جب وہ پاکستان کے عبوری وزیر اعظم بنے۔

ان کی زندگی میں سادگی تھی، مگر اصولوں پر سمجھوتہ کبھی نہیں کیا۔ وہ بڑے عہدوں پر بھی ایسے زندگی گزارتے جیسے عام لوگ جیتے ہیں۔ سیاست کو خدمت سمجھا، اور اختیار کو امانت۔

یہ سرگزشت ایک ہیرو کی ہی ہے، مگر جس جانب توجہ دلانا مقصود ہے وہ یہ کہ اُس وقت پیپلز پارٹی کے بھٹو نے صرف میرٹ کا نعرہ نہیں لگایا تھا — اس پر عمل بھی کیا تھا۔ اسی عمل کا نتیجہ تھا کہ ایک عام مگر غریب خاندان کا بیٹا پاکستان کا وزیر اعظم بن گیا۔ دنیا کے وہی ممالک ترقی کرتے ہیں جہاں میرٹ غالب ہو — جہاں چائے والا وزیر اعظم بن سکتا ہے یا گہرے رنگ والا صاف رنگ والوں کا صدر۔ وہاں میرٹ فیصلہ کرتا ہے، نہ کہ حسب نسب۔

پنجاب میں آج پھر ایک وزیر اعلیٰ نے میرٹ کا ڈول ڈالا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ لاہور اور پنجاب باقی صوبوں سے آگے نکل گئے ہیں۔ اگر اگلے پانچ سال میرٹ کی رسی نہ کاٹی گئی، تو اس ڈول سے جو کہانیاں نکلیں گی، ان میں کئی ملک معراج خالد ہوں گے — جن کی کامیابی نہ کسی خاندان کی مرہون منت ہو گی، نہ کسی سفارش کی، بلکہ صرف قابلیت، محنت اور اخلاص کی بنیاد پر ہو گی۔

اتوار، 4 مئی، 2025

ہوئے تم دوست جس کے ۔۔۔


 

 دوستی اور دھوکہ 

پاکستان کی تاریخ میں فوجی آمروں کو عمومی طور پر منفی نظر سے دیکھا جاتا ہے، لیکن بعض اوقات تجربے کی بھٹی سے گزرے ہوئے ان کرداروں کی زبان سے ایسے جملے ادا ہو جاتے ہیں جو دہائیوں بعد بھی عالمی سیاست کی نبض کو چھوتے ہیں۔ انہی میں سے ایک قول جنرل محمد ضیاء الحق سے منسوب ہے:

"امریکہ کے دوستوں کو امریکہ سے ڈرنا چاہیے، کیونکہ وہ اپنے دشمنوں سے بعد میں اور دوستوں سے پہلے نمٹتا ہے۔"

یہ جملہ پاکستان کے امریکی تجربے کی تلخ میراث کا نچوڑ ہے۔

اس سے بھی پہلے "بابائے آمریت" مانے جانے والے جنرل ایوب خان نے اپنی خودنوشت کا نام رکھا تھا "Friends Not Masters" 

(دوست، آقا نہیں)

 — ایک فکری اعلان تھا کہ پاکستان اب امریکی بالادستی کو تسلیم نہیں کرے گا۔ 

یہ  تمہید اس لیے نہیں کہ ہم آمریت کو تقدیس دیں، بلکہ یہ سمجھنے کے لیے کہ پاکستان، دوستوں کے بھیس میں آئے "ماسٹروں" کو پہچاننے کا تجربہ رکھتا ہے۔ یہی تجربہ آج بھارت کو درکار ہے۔

امریکی وزیر خارجہ کا حالیہ بیان اور پرانی یادیں

حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ — وہی سابق سینیٹر جن پر ماضی میں بھارت نے خاصا "چمکایا " تھا — نے بیان دیا کہ بھارت کو "ہلگام واقعہ"  کی تحقیقات کرنی چاہیے، اور پاکستان کو ان تحقیقات میں تعاون کرنا چاہیے۔ 

یہ وزیر خارجہ وہی ہیں جنہوں نے بطور سینیٹر ایک بل کی حمایت کی تھی، جس کے تحت اگر بھارت کشمیر میں کسی کارروائی کو پاکستان سے جوڑ دے، تو امریکہ پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگا سکتا ہے — اور یہ پابندیاں اس وقت تک برقرار رہیں گی جب تک پاکستان خود کو "معصوم" ثابت نہ کر دے!

مودی سرکار کی یہ غلط فہمی رہی ہے کہ امریکہ اب ان کا "دیرینہ دوست" ہے، اور واشنگٹن اب دہلی کے ہر اشارے پر چلے گا۔ مگر بھارت نے شاید وہ سبق نہیں سیکھا جو پاکستان نے دہائیوں پہلے سیکھ لیا تھا — کہ امریکہ کبھی کسی کا مستقل دوست نہیں ہوتا، وہ صرف اپنے مفادات کا وفادار ہے۔

پاکستان کا سبق، بھارت کی بھول

پاکستان نے 1980 کی دہائی میں افغانستان کی جنگ لڑی، امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بنا، لاکھوں مہاجرین کو سنبھالا، مگر جنگ کے بعد وہی امریکہ تھا جس نے پاکستان پر ایٹمی پابندیاں لگا دیں۔ دوست بن کر آیا، مگر آقا بن کر برتاؤ کیا۔

آج بھارت امریکی اسلحہ خریدتا ہے، اس کے ساتھ مشترکہ مشقیں کرتا ہے، اور چین کے خلاف واشنگٹن کی بیانیہ جنگ میں اس کا "اسٹریٹجک پارٹنر" بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ مگر امریکہ کی اس دوستی کی حقیقت تب سامنے آئے گی جب کوئی بڑا بحران سر اٹھائے گا — اور وہی بھارت جسے آج امریکہ دفاعی سہارا دیتا نظر آ رہا ہے، کل کو اس پر بھی کڑی شرائط عائد کرے گا۔

امریکہ کی دوستی بظاہر سنہری دکھتی  ہے، مگر اندر سے لوہے کی زنجیروں جیسی ہے — جو وقت آنے پر جکڑ بھی لیتی ہے اور چھوڑ بھی دیتی ہے۔ بھارت کو اب سوچنا ہو گا کہ وہ کب تک اس خوش فہمی میں رہے گا کہ امریکہ صرف اس کا ہے۔

پاکستان نے اس دوستی کو بھگتا ہے، اور اس لیے آج بھی امریکی سفارتکاری کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے۔ بھارت کو یہ سبق اگر آج نہیں ملا، تو کل شاید بہت مہنگا پڑے۔


ہفتہ، 3 مئی، 2025

جنگ یا امن ۔ کنجی پاکستان میں





"جنگ یا امن "کنجی پاکستان میں
تحریر:دلپذیر

آج کی دنیا میں جس کے ہاتھ ٹیکنالوجی ہے، اسی کے پاس طاقت ہے—اور اس طاقت کی بنیاد ایک خاموش سی معدنیاتی دولت پر ہے جسے نایاب ارضی عناصر
 (Rare Earth Elements)
کہا جاتا ہے۔ یہ 17 عناصر نایاب نہیں بلکہ منتشر ہیں، لیکن ان کے قابلِ عمل ذخائر بہت کم اور صرف چند ممالک میں ہیں جو انہیں نکال کر قابلِ استعمال بنا سکتے ہیں۔
ان عناصر کی اہمیت موبائل فونز، برقی گاڑیوں، سیٹلائٹس، اور دفاعی نظاموں میں اتنی ہے کہ اب یہ عالمی سیاست اور طاقت کے نئے کھیل کا حصہ بن چکے ہیں۔ اور اسی خاموش دوڑ میں ایک نیا مرکز بن کر ابھرا ہے: بلتستان۔

نایاب ارضی عناصر کیا ہیں؟

نایاب ارضی عناصر میں 15 "لانتھینائیڈز" کے ساتھ اسکینڈیم اور ییٹریئم شامل ہوتے ہیں۔ یہ عناصر مخصوص مقناطیسی، روشنی جذب کرنے والے، اور کیمیائی خصوصیات رکھتے ہیں جو جدید ٹیکنالوجی کے لیے نہایت ضروری ہیں۔
اگرچہ یہ زمین کی سطح پر کئی جگہ پائے جاتے ہیں، مگر ان کا نکالنا مہنگا، پیچیدہ، اور ماحولیاتی طور پر خطرناک ہوتا ہے۔ ان عناصر کی اصل اہمیت صرف دریافت میں نہیں، بلکہ پروسسنگ اور کنٹرول میں ہے۔

بلتستان:  خاموش خزانہ

پاکستان کے شمال میں واقع بلتستان، جو گلگت بلتستان کا حصہ ہے، قدرتی معدنیات سے بھرپور علاقہ ہے۔ ہمالیہ اور قراقرم کے درمیان واقع یہ خطہ نایاب ارضی عناصر کے ممکنہ ذخائر رکھتا ہے، جو ابھی مکمل طور پر دریافت نہیں ہوئے۔

چین کے تعاون سے چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے تحت یہاں سڑکیں، بنیادی ڈھانچہ، اور ممکنہ کان کنی کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے ترقی کا موقع ہو سکتا ہے، مگر بھارت اور امریکہ کی طرف سے شدید تشویش کا باعث بھی ہے۔

امریکہ کی خواہشات

ماضی میں امریکہ نایاب ارضی عناصر میں خود کفیل تھا، لیکن وقت کے ساتھ زیادہ تر پروسیسنگ اور پیداوار چین کے ہاتھ میں چلی گئی۔ اب امریکہ اپنی تکنالوجی اور دفاعی ضروریات کے لیے چین پر انحصار کرتا ہے، جو قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔
اسی لیے امریکہ اب نئے وسائل کی تلاش، ری سائیکلنگ، اور اتحادی ممالک سے معاہدوں پر زور دے رہا ہے، لیکن میدان میں چین بہت آگے نکل چکا ہے۔

 حکمتِ عملی کا بادشاہ

چین اس وقت دنیا کے 60 فیصد سے زائد نایاب ارضی عناصر کی پیداوار اور اس سے بھی زیادہ پروسیسنگ پر قابض ہے۔ اس کی حکمت عملی سادہ ہے:
وسائل پر قبضہ، مکمل سپلائی چین پر کنٹرول، اور عالمی سطح پر معاشی دباؤ کا استعمال۔

چین نے CPEC کے ذریعے نہ صرف پاکستان سے تعلق مضبوط کیا، بلکہ بلتستان جیسے معدنیاتی خزانے تک رسائی حاصل کر لی۔ یہ نہ صرف اقتصادی بلکہ علاقائی اسٹریٹیجک طاقت کا مظہر ہے۔

بھارت کا خوف

بھارت کے پاس بھی آندھرا پردیش اور اوڈیشہ جیسے علاقوں میں نایاب ارضی عناصر کے ذخائر موجود ہیں، اور وہ ان پر تحقیق اور پیداوار میں اضافہ کر رہا ہے۔
مگر جب بات گلگت-بلتستان کی آتی ہے، بھارت اسے اپنے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کا حصہ سمجھتا ہے۔ چین کی وہاں موجودگی، خاص طور پر معدنیات نکالنے کے لیے، بھارت کو سیکیورٹی اور خودمختاری دونوں لحاظ سے خطرہ محسوس ہوتی ہے۔

پاکستان: موقع اور دباؤ کے درمیان

پاکستان کے لیے نایاب ارضی عناصر ایک معاشی موقع ہیں۔ قرضوں اور تجارتی خسارے سے پریشان پاکستان ان معدنیات کو اقتصادی ترقی کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ چین کے ساتھ اشتراک اس ترقی کی کنجی بن سکتا ہے۔

مگر ساتھ ہی، پاکستان کو ایک نرم مگر نازک توازن قائم رکھنا ہوگا۔ امریکہ کی تشویش، بھارت کی مخالفت، اور خطے کی حساسیت—یہ سب ایسے عوامل ہیں جو صرف معاشی فیصلے نہیں، بلکہ سفارتی مہارت بھی مانگتے ہیں۔

 امن کی راہ یا جنگ کا میدان؟

نایاب ارضی عناصر صرف معدنیات نہیں، یہ طاقت، اختیار اور عالمی پالیسی کا ہتھیار بن چکے ہیں۔
بلتستان اس دوڑ میں ایک نیا میدان بن چکا ہے، جو اگر عقلمندی سے سنبھالا جائے تو ترقی اور تعاون کا ذریعہ بن سکتا ہے، ورنہ یہ علاقہ مزید تنازعات، بے چینی، اور ممکنہ جنگ کی طرف جا سکتا ہے۔



جمعہ، 2 مئی، 2025

2019 کی خواہش 2025 میں بھی حسرت



فائٹر جیٹ رافیل اور سورس کوڈ کی اہمیت

فائٹر جیٹس انتہائی پیچیدہ اور جدید مشینیں ہوتی ہیں جو فضائی برتری اور دفاعی صلاحیتوں کے لیے تیار کی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک مع روف طیارہ رافیل ہے، جو فرانس کی کمپنی ڈاسو ایوی ایشن نے تیار کیا ہے۔ رافیل کو بھارت نے فرانس کے ساتھ ایک بڑے دفاعی معاہدے کے تحت اپنی فضائیہ میں شامل کیا۔ اگرچہ رافیل ایک طاقتور اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس طیارہ ہے، لیکن اس معاہدے میں ایک اہم پہلو سورس کوڈ کی عدم فراہمی بھی ہے۔

سورس کوڈ کیا ہوتا ہے؟

سادہ الفاظ میں، سورس کوڈ وہ اصل کمپیوٹر پروگرام ہوتا ہے جو کسی سافٹ ویئر یا سسٹم کو چلانے کے لیے لکھا گیا ہوتا ہے۔ فائٹر جیٹ کے حوالے سے، سورس کوڈ مختلف اہم نظاموں کو کنٹرول کرتا ہے جیسے:

  • ریڈار کا نظام

  • میزائل نشانہ لگانے اور فائر کرنے کا طریقہ

  • الیکٹرانک وار فیئر

  • محفوظ مواصلاتی نظام

  • نیویگیشن اور پرواز کنٹرول

سورس کوڈ تک رسائی کسی ملک کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ اپنے طیارے کے سسٹمز میں خود تبدیلی یا بہتری کر سکے، بغیر اس کمپنی کے محتاج ہوئے جس نے طیارہ بنایا ہو۔

فرانس نے بھارت کو رافیل کا سورس کوڈ کیوں نہیں دیا؟

جب بھارت نے فرانس سے رافیل طیارے خریدے، تو اس معاہدے میں سورس کوڈ کی فراہمی شامل نہیں تھی۔ اس کی کئی وجوہات ہیں:

  1. قومی سلامتی اور دانشورانہ ملکیت:
    سورس کوڈ فرانس کی فوجی ٹیکنالوجی کا راز ہوتا ہے۔ اسے شیئر کرنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور فرانس کے اپنے دفاعی سسٹمز کو کمزور کر سکتا ہے۔

  2. تجارتی تحفظ:
    سورس کوڈ میں وہ خاص ٹیکنالوجی اور الگورتھم شامل ہوتے ہیں جو طیارے کو برتری دیتے ہیں۔ اس کو شیئر کرنے سے دوسرا ملک اس ٹیکنالوجی کو کاپی یا چوری کر سکتا ہے۔

  3. تزویراتی اثر:
    سورس کوڈ اپنے پاس رکھ کر فرانس اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ بھارت کو مستقبل میں اپ گریڈز یا اسلحہ انضمام کے لیے فرانس پر انحصار کرنا پڑے۔

  4. نیٹو اور برآمداتی قوانین:
    یورپی دفاعی کمپنیاں مخصوص برآمداتی اصولوں کی پابند ہوتی ہیں، جو نیٹو سے باہر کے ممالک (جیسے بھارت) کو حساس ٹیکنالوجی کی فراہمی پر پابندی لگاتے ہیں۔

کیا رافیل سورس کوڈ کے بغیر مکمل طور پر کارآمد ہو سکتا ہے؟

جی ہاں، رافیل طیارے سورس کوڈ کے بغیر بھی مکمل طور پر کارآمد اور جنگی طور پر فعال ہو سکتے ہیں، لیکن اس میں کچھ پابندیاں ضرور ہوں گی:

  • اسلحہ کا انضمام: بھارت رافیل میں اپنے میزائل (جیسے برہموس) کو بغیر فرانسیسی مدد کے شامل نہیں کر سکتا۔

  • اپ گریڈز اور تخصیص: ہر سافٹ ویئر اپ ڈیٹ یا نئے فنکشن کے لیے بھارت کو فرانس پر انحصار کرنا پڑے گا۔

  • خودمختاری میں کمی: بھارت کو ان اہم سسٹمز پر مکمل اختیار حاصل نہیں ہوگا جو لڑائی کے دوران فیصلہ کن ہوتے ہیں۔

تاہم بھارت نے کچھ حد تک حسبِ منشا تبدیلیاں کروائی ہیں، جیسے اسرائیلی ہیلمٹ ڈسپلے یا مستقبل میں بھارتی "استرا" میزائل کا انضمام، لیکن یہ بھی فرانسیسی منظوری کے بغیر ممکن نہیں۔

رافیل طیارہ بھارت کے دفاعی نظام میں ایک بڑی پیش رفت ہے، جو فضائی جنگ کی اعلیٰ صلاحیتیں فراہم کرتا ہے۔ لیکن سورس کوڈ کی عدم دستیابی بھارت کی خودمختاری کو محدود کر دیتی ہے۔ طیارہ اپنے موجودہ سافٹ ویئر کے ساتھ مکمل طور پر کام کرتا ہے، لیکن دفاعی آزادی کے لیے ضروری ہے کہ یا تو مقامی طور پر مکمل طیارے تیار کیے جائیں یا مکمل ٹیکنالوجی (بشمول سورس کوڈ) حاصل کی جائے۔ مستقبل میں بھارت کو چاہیے کہ وہ ایسی ٹیکنالوجی میں خودکفیل ہو جائے تاکہ کسی بیرونی ملک پر انحصار نہ کرنا پڑے۔