اتوار، 27 اپریل، 2025

ایک سچا انسان

 

علم کی دو بنیادی اقسام ہیں: ایک وہ علم جو محنت، جستجو اور کوشش سے حاصل کیا جاتا ہے، اور دوسرا وہ جو اللہ کی خاص عطا کے طور پر دل کی آنکھوں کو روشن کرتا ہے۔ پہلا علم ڈگریوں، اسناد اور رسمی تعلیم کے ذریعے حاصل ہوتا ہے، جب کہ دوسرا علم براہِ راست الہام و بصیرت کا نتیجہ ہوتا ہے، جو دل کی گہرائیوں میں اتر کر انسان کو حقیقت کا مشاہدہ کراتا ہے۔

ہم اللہ کے برگزیدہ رسولوں کے علم پر لب کشائی کی جسارت نہیں کرتے، کیونکہ وہ علم الہٰی کی براہ راست امانت ہے۔ تاہم، علی ابن ابی طالبؓ کے علم پر بات کرنا ممکن ہے، کیونکہ ان کے دہن سے نکلے ہوئے گوہر بار، حکمت سے بھرپور، اور عقل و شعور کو جھنجوڑنے والے اقوال آج بھی کتابوں میں جگمگا رہے ہیں، اور  انسانیت  

کو راہ دکھا رہے ہیں۔

حضرت علی نے ولی اللہ کی کچھ نشانیاں بتائی تھی ولی اللہ وہی ہوتا ہے جو علم و عمل کا جامع ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ جاہل اور لاعلم کو اپنا دوست نہیں بناتا۔ ولایت کے لیے حقیقت شناس اور باعمل ہونا شرط ہے۔ جب علم و عمل کا نور دل میں اتر جائے تو پھر اللہ کی عطا کا دروازہ کھلتا ہے۔

یہ بات عشروں برس پرانی ہے، جب ایک ہندوستانی نے ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے بارے میں کہا: "ڈاکٹر اسرار سچے انسان ہیں۔" یہ جملہ میرے لیے باعثِ حیرت و تجسس بنا۔ ایک غیر مسلم کی زبان سے ایک قرآنی اسکالر کی سچائی کا اعتراف میرے دل میں ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کو قریب سے جاننے کی جستجو پیدا کر گیا۔ میں ان کے حلقہ احباب سے قریب ہوا، ان کی تحریروں کا مطالعہ کیا، ان کی تقریریں سنیں۔

اگرچہ ان کے بعض سیاسی نظریات میری طبیعت سے ہم آہنگ نہ ہو سکے، تاہم میرے دل نے یہ گواہی دی کہ یہ شخص بے غرض، مخلص اور سچائی کا پرستار ہے۔ اسی سوچ نے مجھے مجبور کیا کہ میں ان کی ہر بات کو تنقیدی نظر سے جانچوں، مگر سچائی کی روشنی ہمیشہ غالب رہی۔

 ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد میں نے ان کے لیے دل کی گہرائیوں سے مغفرت کی  دعا کی مگر یہ دعا  اللہ کے حضور درجات کی بلندی میں بدل گئی

  میں نے اپنی آنکھوں سے ان کی پیش گوئیوں کو حقیقت بنتے دیکھا تھا۔ وہ سچا انسان اب اپنے سچے رب کے حضور ہے۔ ان کی کئی پیش گوئیاں — خصوصاً یہ کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان آئندہ جنگ پانی کے مسئلے پر ہوگی اور میدان کارزار کشمیر ہوگا — آج قریب الوقوع محسوس ہوتی ہیں۔


ہفتہ، 26 اپریل، 2025

بی بی پاک دامن

 

بی بی پاکدامنؒ — لاہور کی روحانی اور تاریخی نشانی

لاہور، جو صدیوں سے علم، روحانیت اور محبت کا مرکز رہا ہے، اپنے دامن میں بے شمار اولیاء اللہ کی قبروں اور خانقاہوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ انہی بزرگ ہستیوں میں بی بی پاکدامنؒ کا نام نہایت عقیدت سے لیا جاتا ہے۔ ان کا مزار آج بھی محبت، عقیدت اور روحانی سکون کا سرچشمہ ہے۔


بی بی پاکدامنؒ کا تاریخی پس منظر

تاریخی روایات کے مطابق، بی بی پاکدامنؒ کا اصل نام بی بی رقیہؓ تھا۔ آپ اہلِ بیتؑ میں سے تھیں اور حضرت امام موسیٰ کاظمؑ کی اولاد یا قریبی رشتہ دار سمجھی جاتی ہیں۔ بعض روایات میں ان کے ساتھ دیگر خواتین کا بھی ذکر ملتا ہے، جن کی تعداد 35 سے 40 بتائی جاتی ہے۔
یہ نیک بیبیاں عباسی خلافت کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے اپنے وطن (عراق) سے ہجرت کر کے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں آئیں۔ آخر کار لاہور کو اپنا مسکن بنایا۔ یہاں انہوں نے نہایت سادگی، پردے اور عبادت میں زندگی گزاری۔

"پاکدامن" لقب کا پس منظر

آپ کی پاکیزگی، عبادت گزاری، اور دنیا سے بے رغبتی دیکھ کر اہلِ لاہور نے انہیں "بی بی پاکدامن" کا لقب دیا۔ "پاکدامن" کا مطلب ہے وہ عورت جس کا دامن ہر طرح کی آلائش سے پاک ہو۔

لاہور میں آمد اور قیام

کہا جاتا ہے کہ جب بی بی پاکدامنؒ اور ان کی ساتھی بیبیاں لاہور پہنچیں تو یہ شہر ایک غیر مسلم اکثریتی بستی تھا۔ وہ یہاں ایک نسبتاً پر سکون جگہ پر قیام پذیر ہوئیں۔ ان کی شبانہ روز عبادات، ذکر الٰہی، اور صبر و شکر کی کیفیت نے اردگرد کے ماحول پر گہرا اثر ڈالا۔

روایات کے مطابق، بی بی پاکدامنؒ اور ان کے ساتھیوں نے اپنی زندگی کو گوشہ نشینی میں گزارتے ہوئے دینِ اسلام کے پیغام کو اپنی سیرت اور کردار سے عام کیا۔ انہوں نے کبھی ظاہری دعوت نہیں دی، بلکہ اخلاق و کردار سے لوگوں کے دل جیتے۔

شہادت یا وفات؟

کچھ پرانی روایات کے مطابق بی بی پاکدامنؒ اور ان کے ساتھیوں کو مقامی مخالفین نے شہید کر دیا تھا، جب کہ بعض دیگر روایات کے مطابق وہ طبعی موت مریں۔
بی بی پاکدامنؒ کی قبر کا مقام وہی ہے جہاں آج ان کا مشہور مزار واقع ہے۔ تاریخی حوالے بتاتے ہیں کہ یہ جگہ صدیوں سے زیارت گاہ ہے اور اسے صوفیاء، درویشوں اور عام مسلمانوں کی عقیدت حاصل رہی ہے۔


مزار کی تعمیر و توسیع

بی بی پاکدامنؒ کے مزار کی موجودہ شکل کئی بار مرمت اور توسیع کے عمل سے گزری۔
مغل دور میں، اور بعد میں سکھ حکمرانوں کے زمانے میں بھی، مزار کی حفاظت کا اہتمام کیا گیا۔ سکھ دور میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس مقام کو خصوصی تحفظ فراہم کیا تھا، کیونکہ مقامی لوگ اسے روحانی مقام تسلیم کرتے تھے۔

مزار کے اندرونی حصے میں ایک قدیم برگد کا درخت بھی ہے جسے مقامی روایات میں بڑی روحانی اہمیت دی جاتی ہے۔ زائرین مزار پر چادریں چڑھاتے ہیں، دعائیں مانگتے ہیں اور نذر نیاز پیش کرتے ہیں۔

جمعہ، 25 اپریل، 2025

اگر بھارت پاکستان کا پانی روک دے...!

 


اگر بھارت پاکستان کا پانی روک دے...!

جنوبی ایشیا کی سیاست میں پانی اب بارود کی طرح خطرناک ہو چکا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت دریاؤں کے پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا تھا، جسے دنیا کے کامیاب ترین آبی معاہدوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
لیکن اگر بھارت آج اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے حصے کا پانی روک لے، تو اس کے نتائج محض ایک علاقائی تنازع نہیں، بلکہ پاکستان کے وجود پر براہِ راست حملہ ہوں گے۔

سوچیے! پاکستان کی زراعت کا انحصار دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں پر ہے۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی زمینیں اسی پانی سے زندہ ہیں۔ اگر بھارت ان دریاؤں پر بند باندھ کر یا پانی روک کر پاکستان کو خشک سالی میں دھکیل دے تو سب سے پہلے ہماری زرعی معیشت دھڑام سے نیچے گرے گی۔ گندم، چاول، کپاس اور گنا جیسی بنیادی فصلیں تباہ ہو جائیں گی، اور ملک کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہو گا۔

صرف اتنا ہی نہیں، پانی کی بندش کا مطلب بجلی کی بندش بھی ہے۔ منگلا اور تربیلا جیسے ڈیم پانی کے بغیر بے جان ہو جائیں گے۔ بجلی کی پیداوار میں نمایاں کمی آئے گی، جس کا براہ راست اثر صنعت، تجارت اور روزگار پر پڑے گا۔
جب صنعتیں رکیں گی، جب کھیت سوکھیں گے، تو بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ناگزیر ہو گا۔

دوسری طرف، شہری علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی کمی ایک نئی انسانی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔ اسپتالوں میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا سیلاب آ جائے گا۔ بچے، بزرگ اور خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔

اور یاد رکھیے، جب پیاس بڑھتی ہے تو احتجاج کی چنگاری شعلوں میں بدل جاتی ہے۔ پانی کی قلت پاکستان کے اندرونی امن کو تہہ و بالا کر سکتی ہے۔ دیہی اور شہری علاقوں میں بدامنی پھیل سکتی ہے۔
یہ صورتحال پاکستان کے سیاسی استحکام کو بھی خطرے میں ڈال دے گی۔

بین الاقوامی سطح پر بھی معاملہ آسان نہ ہو گا۔ اگر بھارت نے معاہدے کی خلاف ورزی کی، تو پاکستان عالمی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے، لیکن عدالتی کارروائی سست ہوتی ہے، جب کہ زمین پر لوگ پانی کے لیے تڑپ رہے ہوں گے۔
خطے میں جنگ کا خطرہ بڑھ جائے گا، کیونکہ پاکستان پانی کے لیے ہر حد تک جا سکتا ہے۔

اصل سوال یہ ہے: کیا بھارت سمجھتا ہے کہ پانی کی بندش کا بوجھ صرف پاکستان پر پڑے گا؟
نہیں! پانی کی جنگ کی آگ پورے برصغیر کو جلا سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک سمجھداری سے کام لیں، اور انڈس واٹر ٹریٹی جیسے معاہدوں کی پاسداری کریں۔

کیونکہ پانی زندگی ہے — اور زندگی پر سیاست نہیں کی جا سکتی۔

تاریخ کروٹ لینے والی ہے



دنیا میں کچھ جرائم بارود سے کیے جاتے ہیں، اور کچھ خاموشی سے —  پانی، جو زندگی کا استعارہ ہے، جب ہتھیار بن جائے تو یہ صرف کھیتوں کو نہیں، انسانیت کو بھی ویران کر دیتا ہے۔

پاکستان کی زمین، جو دریاؤں کے سائے میں پروان چڑھی، آج ایک ایسے خطرے کی دہلیز پر کھڑی ہے جس کا تعلق  پانی  سے ہے۔
اگر بھارت، سیاسی یا انتقامی سوچ کے تحت، اپنے علاقے سے نکلنے والے دریاؤں — جہلم، چناب، سندھ — کا پانی پاکستان کی طرف روکنے کی کوشش کرے، تو یہ محض معاہدے کی خلاف ورزی نہیں، انسانیت کے خلاف  جرم ہو گا۔پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی تاریخ نئی نہیں۔

بلکہ انسانیت کے ماتھے پر سب سے گہرا داغ کربلا میں لگا تھا —
جب نہرِ فرات کو بند کر دیا گیا۔
حسینؑ کے ننھے علی اصغر کی پیاس صرف جسمانی نہیں تھی، وہ پیاس انصاف کی تھی، شرافت کی تھی، اور انسانیت کی آخری سانس تھی۔

پانی روکا گیا… اور تاریخ نے کروٹ بدلی تھی۔ 


جمعرات، 24 اپریل، 2025

کبوتر


 

کبوتر: قدرت کا ہوشیار قاصد

کبھی آسمان پر پرواز کرتا ایک معصوم سا کبوتر دیکھا ہے؟ شاید آپ نے اسے صرف ایک عام پرندہ سمجھا ہو، لیکن حقیقت اس سے کہیں زیادہ حیران کن ہے! کبوتر نہ صرف خوبصورتی اور محبت کی علامت ہیں بلکہ ذہانت، وفاداری اور حیران کن صلاحیتوں کے مالک بھی ہیں۔

دماغی صلاحیتیں: آئینے میں پہچان اور یادداشت کا کمال

کبوتر وہ نایاب پرندہ ہے جو آئینے میں اپنی شبیہ پہچان سکتا ہے — یہ صلاحیت صرف چند جانوروں کو حاصل ہے۔ یہی نہیں، وہ مختلف چہروں اور تصویروں کو طویل عرصے تک یاد بھی رکھ سکتے ہیں، یہاں تک کہ دوسرے کبوتروں میں فرق بھی پہچان سکتے ہیں۔

راستہ شناس: ہزاروں میل دور سے گھر واپسی

کبوتروں کی "ہومنگ" صلاحیت ایک معجزہ لگتی ہے۔ چاہے انھیں کتنی ہی دور چرا لیا جائے، وہ سینکڑوں میل دور سے اپنے آشیانے کا راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں — جیسے ان کے ذہن میں گوگل میپ انسٹال ہو!

بصارت، سماعت اور پرواز: حیرتوں بھری دنیا

ان کی نظر نہ صرف تیز ہے بلکہ وہ سطحوں کو 3D میں دیکھ سکتے ہیں۔ ان کی سماعت بھی غیر معمولی ہے، جو انسانوں کے سننے کی حد سے کہیں کم فریکوئنسی والی آوازوں کو بھی سن سکتی ہے۔ پہاڑ کی چوٹی سے یہ سینکڑوں میل دور سے ہواؤں کی سرگوشی سن لیتے ہیں، اور 26 میل دور تک دیکھ سکتے ہیں۔

کبوتروں کی پرواز بھی اپنی مثال آپ ہے۔ یہ ایک دن میں سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پندرہ سو سے سترہ سو کلومیٹر کا سفر طے کر سکتے ہیں! ان کے دس ہزار پر، تیرہ انچ کی لمبائی، اور چھے سو دھڑکنیں فی منٹ ان کی طاقتور بناوٹ کا ثبوت ہیں۔

تاریخ کے قاصد: میدانِ جنگ میں ہیرو

پانچ ہزار سال پہلے یونانیوں نے کبوتروں کو پیغام رسانی کے لیے تربیت دینا شروع کیا۔ جنگ عظیم اول اور دوم میں بھی یہ خاموش سپاہی بن کر اُبھرے۔ ایک کبوتر، جس کا نام "چر آمی" (Cher Ami) تھا، زہریلی گیسوں سے بچتا ہوا، سینے اور ٹانگ پر گولیاں کھا کر بھی پیغام پہنچا گیا اور کئی زندگیاں بچا گیا۔ اسے اعزازی میڈل سے نوازا گیا — کیا انسان ایسا کارنامہ انجام دے سکتا ہے؟

محبت، ہمدردی اور ایثار

کبوتر صرف ذہین نہیں، دل والے بھی ہیں۔ کھانے کے وقت اگر کوئی بچہ پاس ہو، چاہے وہ ان کا ہو یا نہیں، یہ اسے دانہ کھلا دیتے ہیں۔ نر اور مادہ دونوں برابر کی ذمہ داری اٹھاتے ہیں۔ ایک نر کبوتر کی محبت اور وفاداری بھی قابلِ مثال ہوتی ہے۔

آج بھی خدمات جاری

فرانس، چین، اسرائیل، سویڈن اور دیگر ممالک میں آج بھی کبوتر فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ کبوتر ریس ایک مہنگی تفریح بن چکی ہے — سب سے مہنگا کبوتر 2,25,000 ڈالر میں فروخت ہوا!

روحانی اہمیت

اسلام، ہندو مت، سکھ مت اور بدھ مت — ہر بڑے مذہب میں کبوتروں کو دانہ ڈالنا باعثِ ثواب سمجھا جاتا ہے۔ یہ پرندے صرف زمین پر نہیں، دلوں میں بھی جگہ رکھتے ہیں۔


کبوتر کو اب صرف "پرندہ" کہنا شاید اس کی توہین ہو۔ وہ تو ایک ذہین، باوفا، خاموش قاصد ہے — جو صدیوں سے انسان کے ساتھ چل رہا ہے، کبھی چھاؤں، کبھی پیغام، کبھی دعا بن کر۔