پیر، 21 اپریل، 2025

61 ہارلے صتریٹ راولپنڈی



 "تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی" — یہ جملہ جب بھی ذہن میں آتا ہے، تو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نام بے اختیار ذہن پر دستک دیتا ہے: آغا محمد یحییٰ خان۔ یہ وہ جرنیل تھا جس نے ایک خودمختار قوم کی باگ ڈور سنبھالی اور بدترین سیاسی ناپختگی، ذاتی کمزوریوں اور اقتدار کے نشے میں ایک ایسا فیصلہ کیا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ سقوطِ مشرقی پاکستان صرف ایک جغرافیائی سانحہ نہ تھا، بلکہ یہ ہماری اجتماعی سوچ، رویے اور حکمرانی کی ناکامی کا اعتراف بھی تھا۔ یحییٰ خان نے اقتدار جنرل ایوب خان سے 1969 میں سنبھالا۔ ابتدا میں یوں لگا جیسے وہ واقعی ایک راست باز جرنیل ہے، جو پاکستان کو جمہوری عمل کی طرف لے جائے گا۔ 1970 میں ملک کے پہلے عام انتخابات کروانا یقیناً ایک بڑا فیصلہ تھا۔ مگر اصل آزمائش اُس وقت شروع ہوئی جب عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں واضح اکثریت حاصل کی، اور یحییٰ خان کے لیے اقتدار کی قربانی دینا مشکل ہو گیا۔ یحییٰ خان نے اقتدار عوامی نمائندوں کو سونپنے کے بجائے بندوق کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی۔ آپریشن سرچ لائٹ کے نام پر ہزاروں بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ لاکھوں افراد نے اپنی جان، مال اور عزت گنوائی۔ بنگالیوں کے لیے یحییٰ خان کا نام آج بھی ظلم، جبر اور استبداد کی علامت ہے۔ وہ اسے ایک ایسا مغرور اور بے رحم حکمران مانتے ہیں، جس نے عوامی مینڈیٹ کو کچل کر پاکستان کو دو لخت کر دیا۔ یہی نہیں، بلکہ حمود الرحمٰن کمیشن نے بھی یحییٰ خان کو اس قومی المیے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ رپورٹ کے مطابق وہ ایک اقتدار پرست، غیر سنجیدہ اور بدعنوان شخص تھا۔ کمیشن نے اس کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی سفارش کی، مگر افسوس! طاقتور حلقوں کے درمیان حساب کبھی پورا نہیں ہوتا۔ یحییٰ خان کی شخصیت کا تضاد یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر چین اور امریکہ کے مابین سفارتی تعلقات قائم کرنے میں اس نے کلیدی کردار ادا کیا، مگر اندرونِ ملک وہ ایک ناکام حکمران، بے سمت لیڈر اور اخلاقی دیوالیہ پن کی مثال ثابت ہوا۔ بنگلہ دیش میں آج بھی تعلیمی نصاب اور عوامی بیانیے میں یحییٰ خان کو ایک ظالم فاتح اور جمہوریت کش آمریت کی علامت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ وہ انہیں یاد آتا ہے تو آنکھوں میں نفرت اور دل میں درد اُمڈ آتا ہے۔ یحییٰ خان کا انجام بھی عبرت ناک تھا — اقتدار سے محرومی کے بعد اپنے ہی گھر 61 ہارلے سٹریٹ میں نظر بندی، عوامی بے زاری، اور بالآخر خاموشی سے موت۔ نہ عزت، نہ معافی، نہ دفاع۔ یہ ایک جنرل کی کہانی ہے، جو سپاہی تو اچھا تھا، مگر حکمران بننے کی صلاحیت اس میں نہ تھی۔ آج جب ہم جمہوریت، آئین اور اداروں کی بالادستی کی بات کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ ماضی کے ان کرداروں کا جائزہ لیں جن کی شخصی غلطیوں نے قومی زخموں کو جنم دیا۔ یحییٰ خان کی کہانی ہمارے لیے آئندہ کے لیے ایک عبرت ہے، شرط صرف یہ ہے کہ ہم سبق لینا چاہیں۔

سُمیترا سنگھ کی حیران کن کہانی



1968 

کے قریب، ضلع اٹاوہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں انگد کا نگلا میں سُمیترا سنگھ پیدا ہوئیں۔ والد کا سایہ نہ تھا، ماں کا بھی جلد انتقال ہو گیا، سو سُمیترا نے بچپن کزن کے ساتھ گزارا اور وہیں سے کچھ پڑھنا لکھنا سیکھا۔

تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی شریف پورہ کے جگدیش سنگھ سے ہوئی۔ تین سال بعد ایک بیٹا پیدا ہوا، مگر اسی دوران سُمیترا پر عجیب کیفیت طاری ہونے لگی۔ وہ بے ہوش ہو جاتیں، آنکھیں الٹی ہو جاتیں، دانت بھینچ لیتیں اور کبھی خود کو "سنتوشی ماتا" یا کسی دوسری روح کا حامل بتاتیں۔ علاج کی ہر کوشش ناکام رہی۔

پھر 19 جولائی 1985 کو ایک ایسا لمحہ آیا جس نے سب کو چونکا دیا۔ سُمیترا اچانک بے ہوش ہو گئیں، سانس اور نبض بند، چہرہ زرد۔ سب نے سمجھا وہ مر چکی ہیں۔ مگر چند منٹ بعد وہ زندہ ہو گئیں—مگر اب وہ "سُمیترا" نہیں تھیں۔ ہوش میں آتے ہی خود کو "شیوا تریپاٹھی" کہنے لگیں، ایک ایسی خاتون جسے ان کے سسرالیوں نے قتل کیا تھا۔

نئی شناخت، نئی یادداشت

سُمیترا نہ اپنے شوہر کو پہچانتی تھیں، نہ بیٹے کو۔ البتہ وہ شیوا کے خاندان، دوستوں، بچوں اور یہاں تک کہ روزمرہ تفصیلات تک سے واقف تھیں—جیسے شیوا کی زرد ساڑھی، ہاتھ کی گھڑی، محلے کے نام اور حتیٰ کہ اسکول کا پتہ۔

ان کی شخصیت، بول چال، لباس، عادات سب بدل گئے۔ وہ اپنے اصل شوہر کو کمتر سمجھتیں، اور صرف "شیوا" کہلانا پسند کرتیں۔ بعد میں انہوں نے جگدیش اور اپنے بیٹے کو قبول تو کیا، مگر شیوا ہونے کا دعویٰ کبھی نہیں چھوڑا۔

تحقیقات اور حیران کن انکشافات

یہ غیر معمولی کیس محققین ایان اسٹیونسن اور ڈاکٹر ستونت پاسریچا کی نظر میں آیا۔ انہوں نے 1985 سے 1987 تک دونوں خاندانوں، علاقوں اور گواہوں سے کئی بار ملاقات کی، اور نتیجہ یہ نکالا کہ سُمیترا نے کم از کم 19 ایسی باتیں کہیں جو شیوا کے قریبی لوگوں کے سوا کوئی نہیں جان سکتا تھا۔

مزید تحقیق میں انکشاف ہوا کہ سُمیترا نے واقعے سے پہلے کبھی مکمل ہندی نہیں سیکھی تھی، مگر اب وہ رواں دستخط اور تحریریں لکھنے لگی تھیں، بالکل شیوا کی طرح۔

مابعد زندگی کا بیان

سُمیترا کا کہنا تھا کہ مرنے کے بعد انہیں یم راج کے دربار میں لے جایا گیا، جہاں دیوی سنتوشی ماتا کی مداخلت پر انہیں سات سال کے لیے واپس زمین پر بھیجا گیا—شیوا کی روح کے ساتھ۔

علمی و نفسیاتی بحث

ماہرین اس واقعے کو "ری پلیسمنٹ ری انکارنیشن" یعنی بغیر موت کے روح کی تبدیلی کہتے ہیں۔ کچھ نے اسے نفسیاتی کیفیت یا ممکنہ طور پر سماجی پوزیشن بہتر بنانے کی کوشش بھی قرار دیا۔ تاہم تحقیقات اس بات پر متفق تھیں کہ سُمیترا نے کبھی بھی یہ دعویٰ ترک نہیں کیا کہ وہ شیوا ہیں۔

خاتمہ

سُمیترا 1998 میں اور ان کے شوہر 2008 میں وفات پا گئے۔ ان کی زندگی کا یہ پہلو—جنم نو یا قبضہ؟—آج بھی انسانی شعور، روح اور زندگی کے بعد کے سوالات کو جنم دیتا ہے۔

جو لوگ مزید تفصیل جاننا چاہیں ۔ اس لنک پر کلک کر کے پڑھ سکتے ہیں

https://psi-encyclopedia.spr.ac.uk/articles/sumitrashiva-replacement-reincarnation-case

بدبخت کو موت بھی نہیں آتی



انسانی جذبات میں ایک جذبہ ایسا بھی ہے جو نظر نہیں آتا، مگر اندر ہی اندر روح کو جلا کر خاکستر کر دیتا ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو دوسروں کی خوشی، کامیابی، دولت یا حسن کو دیکھ کر دل میں چبھن کی صورت جاگتا ہے۔ یہ چبھن بظاہر خاموش ہوتی ہے، لیکن انسان کو اندر ہی اندر کھا جاتی ہے۔ یہی وہ کیفیت ہے جسے حسد کہا جاتا ہے — اور اسی لیے کہا گیا ہے:

انسانی تاریخ میں اگر جھانکا جائے تو حسد نے نہ صرف افراد کو بلکہ پوری قوموں کو برباد کیا ہے۔ رشتے ناتوں میں دراڑیں ڈالیں، اور دلوں میں زہر گھولا۔ قابیل کا ہابیل کو قتل کرنا انسانی تاریخ کا پہلا قتل تھا، اور اس کے پیچھے محرک حسد ہی تھا۔

دنیا کے ہر بڑے مذہب نے حسد کو بُرا اور تباہ کن قرار دیا ہے:

تورات میں کہا گیا:

"تو اپنے پڑوسی کے گھر کا لالچ نہ کر... اور نہ کسی چیز کا جو اس کی ہو۔"

انجیل کہتی ہے:

"پرامن دل جسم کو زندگی دیتا ہے، لیکن حسد ہڈیوں کو گلادیتا ہے۔"

بھگوت گیتا میں ہے:

"جو سب کے لیے خیر خواہ ہو، حسد سے پاک ہو، وہی میرا سچا بھکت ہے۔"

قرآن پاک میں سورہ الفلق میں ارشاد ہوتا ہے:

"اور حسد کرنے والے کے شر سے، جب وہ حسد کرے، میں پناہ مانگتا ہوں۔"

احادیثِ مبارکہ

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔"

اہلِ علم کی نظر میں

حسد کے بارے میں مفکرین نے بھی کڑی تنقید کی ہے:

ارسطو نے کہا:

"کسی کی خوشی کو دیکھ کر جو درد دل میں ہو، وہی حسد ہے۔"

فرانسس بیکن کے مطابق:

"حسد سب سے بدترین جذبہ ہے۔"

حضرت علیؓ فرماتے ہیں:

"حسد نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔"

شیخ سعدیؒ نے کہا:

"حسد علم سے پیدا ہو تو علم وبال بن جاتا ہے۔"

ایک مسلسل پیچھا کرنے والا سایہ

حسد نہ دن دیکھتا ہے، نہ رات، نہ موسم، نہ موقع۔ یہ چھٹی نہیں کرتا — نہ جمعہ، نہ اتوار، نہ تعطیلات۔ ہر وقت، ہر لمحہ یہ انسان کا پیچھا کرتا ہے۔ اور اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو یہ انسان کو جیتے جی مار دیتا ہے۔

بدبخت کو موت بھی نہیں آتی — 

اتوار، 20 اپریل، 2025

میں ڈرتا ہوں

 



جب علم، عمل سے خالی ہو جائے

یہ بظاہر علم کا دور ہے۔ ہر طرف کتابیں چھپ رہی ہیں، تقاریر ہو رہی ہیں، منبر گونج رہے ہیں، ڈگریاں تقسیم کی جا رہی ہیں، اور ہر سڑک و گلی میں اقوالِ زریں جگمگا رہے ہیں۔ مگر افسوس، دل و دماغ پر سنّاٹا چھایا ہے۔ کردار زبانوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے،عمل، شخصیت کی اصل علامت، بےرنگ ہو چکے ہیں۔

علم کی گونج تو ہے، لیکن عمل کی روشنی ندارد۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے چشمہ تو ہے مگر اس کے کنارے خشک ہیں، اور پیاسے راہ بھول چکے ہیں۔ یہی وہ وقت ہے جب قرآن ہمیں جھنجھوڑتا ہے:

"پھر تمہارے دل سخت ہو گئے، تو وہ پتھروں کی مانند ہو گئے یا اس سے بھی زیادہ سخت۔ اور بعض پتھر ایسے ہیں جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں، اور بعض ایسے ہیں جو پھٹ پڑتے ہیں، پھر ان سے پانی نکل آتا ہے، اور بعض ایسے ہیں جو اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں۔ اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں۔"
(سورۃ البقرہ، آیت 74)

یہ آیت فقط بنی اسرائیل کی سرگزشت نہیں، بلکہ آج کے مسلمان کا عکس ہے۔ وہ شخص جو علم تو رکھتا ہے، مگر اس کے دل پر نہ خدا کا خوف ہے، نہ عمل کی رمق۔ جس کی زبان پر دین کی باتیں ہیں، مگر اس کے قدم گناہوں کی راہ پر رواں ہیں۔ جو دوسروں کو نصیحت کرتا ہے، مگر خود اس پر عمل کرنے سے قاصر ہے۔

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

"قیامت کے دن ایک پڑھے لکھے کو لایا جائے گا، جس نے علم حاصل کیا، قرآن پڑھا، سکھایا، مگر اس پر خود عمل نہ کیا۔ تو اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔"
(صحیح مسلم)

امام حسن بصریؒ کی بصیرت افروز بات ہمارے دلوں کو جھنجھوڑتی ہے:

"علم بغیر عمل پاگل پن ہے، اور عمل بغیر علم گمراہی۔"

آج ہم نے جھوٹ، غیبت، خیانت، حسد، ریاکاری، اور خودغرضی جیسے عیوب کو معمولی سمجھ کر اپنی شخصیت کا حصہ بنا لیا ہے۔ یہی وہ گناہ ہیں جو دل کو سخت، کردار کو کھوکھلا، اور معاشرے کو مفلوج کر دیتے ہیں۔

ابنِ خلدون نے سچ کہا تھا:

"جب کسی قوم کے صاحبان علم،  علم رکھتے ہوں مگر کردار نہ ہو، تو اس قوم کا زوال یقینی ہو جاتا ہے۔"

آج ہم اسی خطرناک موڑ پر کھڑے ہیں۔ استاد، مبلغ ، لیڈر کا قول اس کے فعل سے میل نہیں کھاتا، واعظ کی زندگی اس کی تقریر کی نفی کرتی ہے، اور رہنما کے فیصلے اس کی زبان سے متضاد ہوتے ہیں۔ ہم نے علم کو صرف رٹنے، بولنے اور سنانے کی چیز بنا دیا ہے، عمل کو زندگی سے نکال پھینکا ہے۔ دل ایسی زمین بن چکے ہیں جن پر نہ نصیحت اثر کرتی ہے، نہ عبادت۔

مسئلہ صرف اجتماعی نہیں بلکہ انفرادی بھی ہے۔ ہم میں سے اکثر کا رویہ یہ بن چکا ہے
"میری ایک چھوٹی سی بدعملی سے کیا فرق پڑے گا؟"
مگر یہ سوچ دراصل بگاڑ کی جڑ ہے۔ معاشرہ افراد سے بنتا ہے، اور جب ایک فرد خود کو درست کرتا ہے، تو ایک چراغ جلتا ہے، جو اور چراغوں کو روشن کر سکتا ہے۔ بہتری کا آغاز خود سے ہی ممکن ہے۔

علم دراصل وہ چراغ ہے جو تبھی روشنی دیتا ہے جب اس میں عمل کا تیل ہو۔ اگر یہ تیل نہ ہو تو علم، اندھیرے کو اور گہرا کر دیتا ہے۔ اور بےعمل ، صاحب علم، وہ پہلا شخص ہوگا جو قیامت کے دن اپنے ہی علم کی آگ میں جھلسے گا۔

شیخ سعدی نے کہا تھا

"میں دو ہستیوں سے ڈرتا ہوں: ایک اللہ سے، دوسرا اُس شخص سے جو اللہ سے نہیں ڈرتا۔"

آج ہمیں رک کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہمارے دل اس قابل رہ گئے ہیں کہ اللہ کے خوف سے لرزیں؟ یا ہم ان پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہو چکے ہیں جن کی مثال قرآن نے دی؟ اگر ہاں، تو وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے دلوں کو نرم کریں، اپنی نیتوں کو خالص کریں، اور علم کو عمل سے جوڑیں۔

۔کیونکہ یہی وہ راہِ مستقیم ہے جس پر چل کر انسان سرخرو ہو سکتا ہے 

اقبال کی فریاد بھی پڑھ لیں:

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نوری ہے نہ ناری ہے

ہفتہ، 19 اپریل، 2025

ماضی کے آئینے میں قید معاشرہ

 


ماضی کے آئینے میں قید معاشرہ

تحریر: دلپذیر

ہر قوم کا ماضی اُس کی پہچان کا ستون، اُس کے شعور کا دریا، اور اُس کی اجتماعی یادداشت کا خزانہ ہوتا ہے۔ یہ ماضی کبھی عروج کی داستانیں سناتا ہے، کبھی زوال کے اسباق۔ مگر جب کوئی معاشرہ صرف انہی بیتے دنوں میں اُلجھ کر رہ جائے، تو حال کی حقیقتیں اور مستقبل کے امکانات اُس کی نظر سے اوجھل ہونے لگتے ہیں۔ تب ماضی چراغِ راہ نہیں رہتا—وہ ایک چمکتا ہوا قید خانہ بن جاتا ہے، جہاں فکر کی پرواز ساکت ہو جاتی ہے۔

ہماری تاریخ میں سنہری باب موجود ہیں۔ عباسی دور میں بغداد کی "بیت الحکمت" علم و تحقیق کا ایک ایسا مرکز تھی جہاں مختلف مذاہب کے علما اکٹھے بیٹھ کر سائنس، فلسفہ، طب اور ریاضی پر تحقیق کرتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب خوارزمی الجبرا کی بنیاد رکھ رہے تھے، ابن الہیثم روشنی اور بصریات پر تجربات کر رہے تھے، اور ابن سینا "القانون" جیسی طبی کتابیں لکھ رہے تھے جو صدیوں تک یورپ کی جامعات میں پڑھائی جاتی رہیں۔

اسی طرح اندلس، جہاں قرطبہ کی لائبریریاں اور غرناطہ کے تعلیمی مراکز علم کا سمندر بن چکے تھے، تہذیب، رواداری اور تخلیقی قوت کی عظیم مثال تھے۔ مسلمان معلم فقہ و حدیث کے ساتھ ساتھ فلکیات، موسیقی، فنِ تعمیر، اور طب میں بھی مہارت رکھتے تھے۔

لیکن آج ہم اُن کارناموں کو آگے بڑھانے کے بجائے اُن کا ماتم کرتے نظر آتے ہیں۔ ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ "جب ہم حکمران تھے..."، یا "ہم نے سائنس ایجاد کی تھی..."۔ سوال یہ ہے کہ ہم آج کیا کر رہے ہیں؟ کیا ہم نے علم کی وہ مشعل نئی نسل کو تھمائی ہے؟ کیا ہم نے تحقیق و اجتہاد کی وہ روش برقرار رکھی ہے؟

ہمارے خطیب، مقرر، دانشور، اور بعض دینی رہنما آج بھی ماضی کی عظمت پر خطبے دیتے ہیں، مگر حال کی سائنس کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ زمین کو چپٹا قرار دینا، سورج کو ساکن کہنا، اور سائنسی ایجادات کو بدعت سمجھنا—یہ رویے اُسی ماضی پرستی کی علامت ہیں، جو ترقی کا سب سے بڑا دشمن ہے۔

برصغیر کی تحریکِ آزادی بھی ماضی کا ایک روشن باب ہے۔ سر سید احمد خان نے تعلیم کی شمع روشن کی، اقبال نے خودی اور تجدیدِ فکر کی دعوت دی، اور قائداعظم محمد علی جناح نے اصول پسندی، قانون اور فہم و فراست کے ساتھ ایک قوم کو بیدار کیا۔ مگر آج اُن کی بصیرت کے بجائے صرف تصویریں، اقوال اور قومی تقاریر باقی رہ گئی ہیں۔

سچ یہ ہے کہ ماضی کو دیوتا بنا کر پوجنا فکر کا زوال ہے۔ ہم نے لاوڈ اسپیکر کو کفر کہا، پرنٹنگ پریس کو حرام سمجھا، اور ٹیلی ویژن کو فتنہ قرار دیا۔ آج جب دنیا مصنوعی ذہانت، بائیوٹیکنالوجی، اور خلائی تحقیق کے میدان میں دوڑ رہی ہے، ہم آج بھی پرانی فتووں میں الجھے بیٹھے ہیں۔

وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ماضی سے سبق ضرور لیں، مگر اس میں قید نہ ہو جائیں۔ نوجوانوں کو صرف داستانیں نہ سنائیں، اُنہیں سوال کرنے، تحقیق کرنے، اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیں۔ اقبال نے فرمایا تھا:

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

یہ "نم" صرف ماضی کی یاد میں آنکھ نم کرنے سے نہیں آتا۔ یہ نم تحقیق، تخلیق، اور تدبر سے آتا ہے۔ اگر ہم نے آج کے سوالوں کے جواب نہ دیے، تو کل ہماری نسلیں بھی صرف بیتے وقت کی تصویریں سجانے میں مصروف رہیں گی، کچھ نیا نہ سوچ سکیں گی۔

تاریخ بنانے والی اقوام آگے دیکھتی ہیں۔ جو صرف پیچھے دیکھیں، وہ آخرکار ماضی کا حصہ بن جاتی ہیں—خاموش، بےآواز، اور عبرت ناک۔