جمعرات، 6 جولائی، 2023

گوشت مبارک




 جب قارئین اس تحریر کو پڑھ رہے ہوں گے عید گذر چکی ہو گی  پھر بھی عید مبارک۔عید منانے والی دنیا دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک حصہ سعودی عرب والوں کے ساتھ تو دوسرا حصہ اپنے کیلنڈر کے مطابق عید مناتا ہے۔ پاکستان میں آج عید ہے جبکہ سعودی عرب  سمیت کچھ ممالک میں کل عید تھی۔ مغربی ممالک بشمول امریکہ چند سال قبل تک عید اسی دن مناتے تھے جس دن سعودی عرب میں عید ہوتی تھی۔ کل صبح لندن میں مقیم بیٹے کو عید مبارک کہنے کے لیے کال کی تو معلوم ہوا کہ ان کی مسجد والے آج عید نہیں منا رہے بلکہ  (ہماری)  عید کل ہو گی۔  


میرے بچپن میں مشرقی پاکستان کے شہر چٹاگانگ میں چاند نظر آجاے تو پختون خواہ والے بھی عید کر لیا کرتے تھے۔ میری جوانی کے دنوں میں پختون خواہ اور بلوچستان میں الگ الگ دن عید ہوتے بھی دیکھی ۔ پھر ہم نے ایک لاکھ آبادی والے شہر میں تین تین عیدیں بھی دیکھیں۔


دارلعلوم دیوبند والے کہتے ہیں  (اصل خرابی کی جڑ ٹیکنالوجی ہے اگر چاند کے بارے میں ٹیلیفون سے سعودی عرب کی خبریں نہ معلوم کریں اور سیدہے حدیث شریف پر عمل کریں تو کوئی الجھن اور پریشانی نہ ہو گی)


سادہ سی بات ہے کہ آج پاکستان میں جمعرات ہے تو سعودیہ اور لندن میں بھی جمعرات ہی ہے۔ پاکستان میں دن کا آغاز ہونے کے دو گھنٹے بعد سعودیہ میں دن کا آغاز ہوا ہے۔ اس کے دو گھنٹے بعد لندن میں دن شروع ہوا۔  تاریخ البتہ تینوں جگہ ایک ہی ہے۔ عید منانے کے لیے دو گھنٹے کا فرق پورے ایک دن میں بدل جاتا ہے۔ 


علماء دین سنن النسائی کے حوالے سے روائٹ پیش کرتے ہیں کہ مدینہ میں موجود حضرت ابن عباس نے شام میں چاند نظر آنے کا اعتبار نہیں کیا تھا۔ دوسری طرف دین ہی کے علماء یہ بھی مانتے ہیں کہ ابن عباس کے دور میں مدینہ سے شام تک کا تیز ترین گھوڑے پر سفر بھی کم از کم  آٹھ دن کا تھا۔ علماء کرام نے یہ بھی لکھا ہے کہ  (چاند نظر آجائے یا نظر آنے کی اطلاع مل جائے تو عید کر لینی چاہیے) نبی اکرم  ﷺ  کی روایات اور امام ابو حنیفہ کی ہدایات یہ ہیں کہ چاند نظر آنے کے بعد عید کر لینی چاہیے۔ 2016 میں ترکیہ کے شہر استنبول میں دنیا بھر سے مسلمان اسکالر جمع ہوئے اور اس بات پر اتفاق کیا کہ پوری دنیا میں عید ایک ہی دن ہونی چاہیے۔ اور دلیل یہ دی گئی کہ دن کی ابتداء ہر ملک میں مختلف وقت میں ہوتی ہے۔ اگر جمعرات کے دن پاکستان میں صبح کی نماز سورج نکلنے سے پہلے تک ہو سکتی ہے تو سعودیہ اور لندن میں بھی یہی اصول نافذ ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودیہ میں دن دو گھنٹے بعد اور لندن میں مزید دو گھنٹے بعد شروع ہو گا۔ یہی وہ بنیادی دلیل ہے جس کو تسلیم کر کے او آئی سی نے دنیا بھر میں ایک ہی دن عید کرنے کی سفارش کی تھی۔ 


اپنی ننگی آنکھوں سے چاند دیکھ کر عید کرنے کی بجائے۔ دوسرے فرد کی شہادت کوتسلیم کرنے کی تاکید موجود ہے۔ فرد کی بجائے ادارے کی شہادت کو قوی تر مانا جاتا ہے۔ 


عید قربان پر حضرت ابراہیم کی عظیم قربانی پر خراج تحسین پیش کرنے پر کتنے جانور قربان کیے جاتے ہیں اور اس پر کتنی رقم صرف ہوتی ہے، کا حساب لگانے کی کوئی موثر طریقہ حساب موجود نہیں ہے۔ مگر اس سال صرف سعودیہ میں قربانی کے لیے بیرون ملک سے درآمد جانوروں کی تعداد گیارہ لاکھ ہے۔ اس تعداد میں وہ جانور شامل نہیں ہیں جومقامی طور پر پالے گئے تھے۔ اس تعدا د کو ذہن میں رکھ کر قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ہر سال عید قربان پر دنیا بھر میں کروڑوں ڈالر کی رقم خرچ کر کے، اللہ تعالی کے عظیم پیغمبر کی عظیم قربانی کی سنت پوری کی جاتی ہے۔ مسلمان قربانی کے جانور پر رقم خرچ کر کے اپنے دل کو مطمن کرتے اور اپنے ایمان کو تازہ کرتے ہیں۔ 


پچھلی عید الفطرپر ایک پروفیسر صاحب نے نجی محفل میں سوال اٹھایا تھا  (کیا دین کا مسلمانوں پر یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی تعلیمات اور علوم کی روشنی میں اپنے تہوار ایک ہی دن منائیں) اس سوال کا جواب طویل مدت سے تلاش کیا جا رہا ہے۔ مگریہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری نئی نسل کو اپنے سوالوں کے تسلی بخش جواب نہیں مل رہے۔ یہ شعر تو ایمان کی حدت کو دھکاتا ہے

مسجد تو شب بھر میں بنا دی ایمان کی حرارت والوں نے 

من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نماز ی نہ بن سکا


پچھلی عید الفطر پر ایک  گیارہ سالہ بچے نے کہا  تھاساری دنیا عید منا رہی ہے اور ہم نے شیطان کی طرح روزہ رکھا ہوا ہے۔


دین کے بارے میں نئی نسل کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات نہیں مل رہے۔ جو تشویش کی بات ہے۔ مگر جس طبقے کو تشویش میں مبتلاء ہونا چاہیے  وہ مسلمانوں کی عید کی بجائے  (ہماری)  عید کا اسیر ہے۔ ٹیکنالوجی اور علوم پر بھروسہ کرنے کی بجائے کٹ ہجتی کا سہارا لیتا ہے۔ 

جمہوری معاشروں میں اپنی سنائی جاتی ہے تو دوسروں کو سنا بھی جاتا ہے۔ اپنی دلیل منوائی جاتی ہے تو دوسروں کی مانی بھی جاتی ہے۔ عادل منصف وہی ہوتا ہے جو فیصلہ کرنے سے پہلے فریقین کا موقف سنتا ہے۔ ہمیں اس بات پر دکھ ہوتا ہے کہ خود کو حق کا راہی اور دوسروں کو گمراہی کا مسافر سمجھا جاتا ہے۔ مگر درد یہ ہے کہ اس روش کا شکار وہ دین کا علمبردار ہے جو خود کو پیغمبرانہ تعلیمات کا وارث گردانتا ہے۔ مگر فرماتا ہے 

(اصل خرابی کی جڑ ٹیکنالوجی ہے اگر چاند کے بارے میں ٹیلیفون سے سعودی عرب کی خبریں نہ معلوم کریں اور سیدہے حدیث شریف پر عمل کریں تو کوئی الجھن اور پریشانی نہ ہو گی)

عید گذر چکی ۔ قربانی ہو گئی۔ گوشت مگر باقی ہے۔ گوشت مبارک

منگل، 27 جون، 2023

اندر یا باہر






تسبیح ہر مذہب میں روحانیت کا لازمی جزو رہا ہے۔ تسبیح سے جڑے بے شمار قصے کتابوں میں درج ہیں۔ ایک قصہ پنجاب کے حکمران  مہاراجہ رنجیت سنگھ سے جڑا ہوا ہے۔ رنجیت سنگھ بارے کہا جاتا ہے کہ وہ اس قدر مذہبی تھا کہ میدان جنگ میں بھی گرنتھ صاحب کو ساتھ رکھا کرتا تھا مگر یہ تاریخی حقیقت ہے کہ وہ سیاسی میدان میں قابلیت کا قائل تھا۔ اس کے مشیروں میں عیسائی، سکھ، ہندو، مسلمان  بھی شامل تھے۔ یہی حال اس کی فوج کا تھا جس میں ہندوستان کی تمام مذہبی اکائیوں کے افراد اپنی خدمات مہیا کرتے تھے۔ اس کے مسلمان مشیروں میں ایک بڑا نام عزیزالدین( 1845-1780  ) کا ہے۔ عزیزالدین  ایک ماہرمعالج، سفارتکار اور سیاستدان تھا۔ دوسری ریاستوں اور ممالک سے رنجیت سنگھ کی طرف سے سفارتکاری اور معاہدے وہی کیا کرتا تھا۔ 1809 میں ایسٹ انڈیا کمپنی سے طے پانے والا مشہور معاہدہ امرتسر عزیزالدین کی سفارتکاری کا ہی نتیجہ تھا۔

عزیز الدین کی عادت تھی کہ وہ ہر وقت ہاتھ میں تسبیح رکھا کرتا تھا۔ اور تسبیح کے دانوں کو ہمیشہ اندر کی طرف لیا کرتا تھا۔ رنجیت سنگھ کے پاس  بھی ایک تسبیح تھی۔ جس کو وہ گرو کی عطا کردہ مالا کہا کرتا تھا۔ مہاراجہ کو گرو نے نصیحت کی تھی جب بھی مالا جپو اس کے دانے کو باہر کی طرف لینا۔ 

ایک بار مہاراجہ نے عزیزالدین کو کہا۔ مجھے تو گرو کی نصیحت ہے کہ دانے باہر کی طرف لیا کروں۔ کیا آپ کے گرو نے دانے اندر کی طرف لینے کی نصیحت کی ہوئی ہے۔ 

ہندی، فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں پر عبور رکھنے والے وسیع المطالعہ عزیزالدین جس نے بطور انکسار اپنے نام کے ساتھ فقیرکا  لاحقہ لگا لیا تھا، نے مہاراجہ کو جواب دیا۔آپ کے گرو کی نصیحت کے پیچھے حکمت یہ ہے کہ آپ مالا کے دانے باہر کی طرف لے کر شر کو دفع کرتے ہیں جبکہ میں دانے اندر کی طرف لے کر خیر کو دعوت دیتا ہوں۔ 

یہ تاریخی واقعہ بیان کرنے کا سبب یہ انکشاف ہے کہ ہمارے ایک سیاستدان کو اس کی مرشد نے اسلام آباد میں تسبیح دی تو نصیحت کی تھی کہ تسبیح کے دانے اندر کی طرف لینا مگر جب وہ سیاست دان لاہور منتقل ہونے لگا تو مرشد نے نصیحت کی لاہور پہنچنے کے بعد تسبیح کے دانے باہر کی طرف لینا۔ 

ہمارے نزدیک تسبیح کے دانے اندر کی طرف لیے جائیں یا باہر کی طرف یہ سیاسی حالات پر اثر انداز نہیں ہوتے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی  شخصیت نے جب سے دانے باہر کی طرف لینے شروع کیے ہیں ملک میں شر میں اضافہ ہو ہوا ہے۔اس شر کا پہلا شکار زمان پارک کے رہاشی ہوئے۔ پھر اس شر نے پنجاب اور اسلام آباد کے درجنوں پولیس کے ملازمین کو ہسپتالوں کا منہ دکھایا۔ کچھ کو موت کا فرشتہ اچک لے گیا۔اس شر کا شکار ایسی سیاسی شخصیات بھی ہوئیں  جن کو حالات کی تتی ہوا بھی چھو کر نہیں گزرتی تھی وہ جیل میں بند ہیں یا مفرور ہیں۔ کچھ جرنیل اور جج بھی اس شر کا مزہ چکھ چکے۔

روحانیت کی دنیا بھی عجیب ہے۔ میرے ایک دوست اپنے مرشد بارے بتاتے ہیں کہ ان کے ایک مرید نے یونین کونسل کا الیکشن لڑنے کا ارادہ کیا اور مرشد سے روحانی مدد کا طلب گار ہوا۔ مرشد نے مدد کا وعدہ کیامگر یہ وعدہ بھی لیا کہ الیکشن پر ایک روپیہ بھی خرچ کرو گے نہ کسی سے ووٹ مانگنے جاوگے۔ ہوا یہ کہ مخالف امیدوار الیکشن سے قبل ہی دسبردار ہو گیا یوں صاحب بلا مقابل جیت کر مرشد کی خدمت میں پیش ہوئے تو مرشد نے پوچھا۔الیکشن میں کتنے خرچ کا اندازہ تھا۔ مرید نے بتایا پانچ لاکھ۔ مرشد نے حکم دیا تین لاکھ رروپے فلاں درگاہ کی تعمیر کے لیے بجھوا دو۔ مرید نے وعدہ تو کر لیا مگر رقم نہ بجھوائی۔ اگلے سال صوبائی اسمبلی کے الیکشن تھے۔ مرید دوبارہ روحانی امداد کا طلب گار ہوا اور عرض کی الیکشن لڑوں گا مگر مجھے ووٹ مانگنے کے لیے جانا پڑے نہ روپیہ خرچ کرناپڑے۔ مرشد نے فرمایا وہ وقت گذرچکا  اس بار ووٹ مانگنے کے لیے جانا پڑے گا اور روپے بھی خرچ کرنا ہوں گے۔

روحانی معاملات کو سمجھنے والے بتاتے ہیں کہ روحانیت میں بھی ریڈلائن ہوتی ہے اگر اسے کراس کر لیا جائے تو صاحب روحانیت خود آزمائش کا شکار ہو جاتا ہے۔ روحانیت پر لکھی گئی کتابوں میں ایسے سیکڑوں واقعات ملتے ہیں۔ 

سیاسی شخصیت کی مرشد نے بھی شائد ایسی ہی کسی ریڈ لائن کو کراس کر لیا ہے۔ اور صاف طور پر بتا دیا ہے کہ دانے باہر کی طرف لیتے رہو گے تو شر پھیلتا ہی جائے گا مگر جس دن دان اندرکی طرف لیا ہم دونوں ہی گرم کڑاہی میں تلتی مچھلی کی طرح تلے جائیں گے۔ 

شنید ہے اس بار ایک ہم راز کو چین میں ایک بین الاقوامی مرشد کے پاس بھیجا گیا۔ مرشد نے فیس وصول کی مہمان کو چینی قہوہ پلایا اور بتایا معاملہ اندر یا باہر کی طرف لینے کا نہیں ہے۔ اصل مسٗلہ منہ میں موجود  (ڈانسر)  کا ہے۔ 


جمعہ، 9 جون، 2023

NATO phonetic alphabet

A - Alpha B - Bravo C - Charlie D - Delta E - Echo F - Foxtrot G - Golf H - Hotel I - India J - Juliet K - Kilo L - Lima M - Mike N - November O - Oscar P - Papa Q - Quebec R - Romeo S - Sierra T - Tango U - Uniform V - Victor W - Whiskey X - X-ray Y - Yankee Z - Zulu

These words are used to represent the letters of the English alphabet in order to improve clarity and avoid confusion when communicating letters over radio or telephone transmissions


جمعرات، 8 جون، 2023

نواز دور کے بجلی کے منصوبے


سب سے پہلے بات کرینگے
سب سےبڑے مسئلے بجلی کی۔
ن لیگ نے حکومت میں آتےہی بڑے مسائل میں سےایک لوڈ شیڈنگ تھا جس پر
ن لیگ نےقابو پایا اور سسٹم میں کم و بیش 11000 میگا واٹ بجلی شامل کی۔

ان پراجیکٹس کی فہرست دیکھتے ہیں
ہائیڈرو_پاور

1) نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ 969MW
2) تربیلہ ایکسٹینشن نمبر 4 1410 MW
3) گومل ذم ڈیم 17 MW
4) دبر خاور ہائیڈرو پاور پلانٹ 130MW
5) منگلہ ایکسٹینشن 320M
6) نلتر 5 14.4MW
7) ہرپو ہائیڈرو پاور 35MW
8) گولن گول ہائیڈرو چترال 108MW
9) دیا میر بھاشہ ڈیم ( فزیبیلٹی اینڈ پرچیز آف لینڈ )
10) کوہالہ ہائیڈرو
(انڈر کنسٹرکشن)
11) گل پور ہائیڈرو 102 MW

کوئلہ والے پاور پلانٹ

1) ساہیوال کول پاور پراجیکٹ (قادر آباد) 1320MW
2) پورٹ قاسم کول پاور پلانٹ 1320MW
3) اینگرو کول مائن تھر (بلاک نمبر 2) 330MW
4) اینگرو پاور جینریشن تھر 660MW
5) جامشورو کول پاور 660MW

نیچرل گیس پاور پلانٹ

1) بلوکی پاور پلانٹ قصور 1223MW
2) بھکی پاور پلانٹ شیخوپورہ 1180MW
3) حویلی بہادر شاہ پلانٹ 1230MW
4) جھنگ ایل این جی پاور پلانٹ 1263MW
5) نندی پور پاور پلانٹ 525MW

ونڈ_پاور

1)میٹرو ونڈ پاور جھمپیر50MW
2)گل احمد ونڈ پاور جھمپر 50MW
3) یونس ونڈ پاوری جنریشن جھمپیر50MW
4) سچل ونڈ پاور ٹھٹھہ 49.5MW
5)3 جارج ونڈ ملز جھمپیر 49.5MW
6) اے سی ٹی ونڈ پاور پلانٹ ٹھٹھہ30MW
7)سفایر ونڈ پاور ٹھٹھہ50MW
8)یو ای پی ونڈ پاور جھمپیر
99MW
9)ماسٹر ونڈ فارم52.5MW

نیوکلیئر

1)چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ 3
340MW
2)چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ4 342MW
3)کراچی نیوکلیئر K2&K3 پلانٹ 2117MW

سولر_پاور

1)قائد اعظم سولرپارک 1000MW
2) گاہرو سولر پاور سندھ 50MW
3) ہڑپہ سولر پاور 18MW
4) نیشنل اسمبلی سولر پراجیکٹ
5) پاکستان اسلحہ فیکٹری سولر پراجیکٹ

تھرمل_پاور

1) گڈو پاور پلانٹ 747MW
2) اچ 2 پاور پلانٹ 404MW
3) حب کول اینڈ تھرمل پاور پلانٹ 1320MW

آہنی گیٹ اور خانقاہ

 






پاکستان کے سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار اپنی تقریروں میں  بلنٹ  کا لفظ استعمال کیا کرتے تھے۔اگر انگریزی کے بلنٹ لفظ کو منہ پھٹ کہا جائے تو سیاست میں شیخ رشید کا مقام عمران خان سے بھی بڑھ کر ہے۔ یو ٹرن لینے میں البتہ عمران خان کا ریکارڈ شائد ہی کوئی توڑ سکے۔ شیخ رشید اپنے طویل سیاسی کیرئر میں ریلوے کے وزیر بھی رہے ہیں۔ ریل گاڑی پٹڑی بدل کراپنا راستہ تبدیل کر تی ہے تو ریل گاڑی کے اندر بیٹھے مسافروں کو محسوس ہی نہیں ہوتا اور پٹڑی بدلنے کے منظر کو دیکھتا انسان اس عمل سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ 

سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار، وزیراعظم عمران خان اوروزیر داخلہ شیخ رشید کی ٹرائیکا  نے، سابقہ وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں پاکستان کی سیاست کی ٹرین کو ایسی مہارت سے ایک پٹڑی سے دوسری پٹڑی پر منتقل کیا کہ  انپڑھ اور جاہل عوام کو محسوس ہی نہ ہوا اوردیکھنے والوں کو یہ منظر بھلا لگا۔

شیخ رشید صاحب جن کے والد کا نام شیخ احمد راولپنڈی کے بھابھڑا بازار کے تاجر بتائے جاتے تھے۔ بھابھڑا بازار کے مکینوں کے لیے البتہ یہ نام  نامانوس تھا۔ راولپنڈی کے پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ سے نکالے جانے کے بعدایک طلبہ تنظیم کے اثرو رسوخ پر گارڈن کالج میں داخلہ لینے کے عمل کے دوران ہی شیخ رشید نے دریافت کر لیا تھا کہ اس معاشرے میں زندہ رہنے کے لیے طاقتور سہارے کی ضرورت ہے۔ ان دنوں میں گورنمنٹ  ڈگری کالج اصغر مال کا طالب علم تھا۔ بھٹو کے دور میں ایشیا سرخ کا نعرہ لگتا تھا۔ مگر راولپنڈی کے دونوں بڑے اور تاریخی کالجوں کے لان سبز تھے۔ طلباء سیاست کا متحرک گڑھ مگر گورنمنٹ پولی ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ تھا۔ جب اس ادارے کے طالب علم  عبدالحمید کو راولپنڈی کے لیاقت باغ کے سامنے گولی مار کر گرا دیا گیا تو پولی ٹیکنیکل میں طلبہ سیاست بھی دم توڑ گئی۔ مضبوط سیاسی طلبہ تنظیم حکومت مخالف بیانئیے کے باوجود مضبوط تر ہو کر ابھری۔ پنجاب بھر میں اس تنظیم نے تاریخی کامیابی حاصل کی اور لاہور میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ جمیعت کے وسائل پر گارڈن کالج کی طلباء  یونین کے صدر منتخب ہونے والے شیخ رشیدسیاسی زمینی حالات سے باخبر ہو چکے تھے۔ جب ڈ گری کالج کے طالب علم محمد اختر قریشی کو زخمی حالت میں تھانے کے عقوبت خانے میں برف کی سل پر لٹا کر تشدد کیا جارہا تھا اس وقت شیخ رشید  جمیعت کے دفتر اور گیٹ نمبر چار کا فاصلہ ماپنے میں اس قدر مصروف تھا کہ ڈگری کالج کی طلبہ یونین کی تقریب حلف برداری کی تقریب میں شامل نہ ہوسکا۔او ر لاہور سے جاوید ہاشمی نے آ کر، کالج کے گیٹ پر لگے تالے کی وجہ سے دیوار پھلانگ کر اس خلاء کو پر کیاتھا۔ 

گیٹ نمبر چارکے اندر بنی ایک چھوٹی سی خانقاہ سیاسی مجاوروں کی مقصود تک رسائی کے لیے منزل ہوا کرتی تھی۔ خانقاہ، مجاور، مقام کا ذکر آئے تو ذہن میں چلہ آتا ہے۔ چلہ کا بنیادی مقصد ہی وفاداری کا امتحان ہوتا ہے۔ اور شیخ رشید نے یہ امتحان مرد آہن ضیاء الحق کے دور میں پاس کر لیا تو اسے پاکستان مسلم میں شامل کرا دیا گیا۔ عوامی سیاست کرنے والے لوگ جب مسند نشین ہوتے ہیں تو عوام کا خیال رکھنا ان کی اتنی بڑی سیاسی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ پھانسی کے پھندے پر تک لٹک جاتا ہے۔ جب نواز شریف اسی مجبوری کے باعث مردود درگاہ ہوا تو بہت سے لوگوں کے ساتھ شیخ رشید نے بیعت توڑ کر وفاداری کی ایک اور منزل عبور کر لی۔ صلہ میں ضیاء دور میں فتح جھنگ میں حاصل کردہ سو کنال  کا فارم ہاوس چھپانے کا کیس جب عدالت میں تھا تو ثاقب نثار والے ادارے نے اسے کلین چٹ عطا کر دی۔

لاہور کے صحافی رضوان رضی المعروف رضی دادا کا ایک جملہ بہت مشہور ہوا تھا " لمحہ موجود میں یہ لوگ جو جرم کررہے ہوتے ہیں اس کا الزام دوسروں پر لگا رہے ہوتے ہیں" ۔

 پاکستان میں عوام کے لیے سیاست کرنے والے کو پھانسی چڑہنا ہوتا ہے مگر پاہنچے اوپر کر کے سخت موسم میں حالات کے کیچڑ سے صاف نکل جانے والے کو کامیاب فن کارمانا جاتا ہے۔ 

پنجابی مرید کی گائے جب کھائی میں گرنے لگتی ہے تو وہ اپنے مرشد کو آواز دیتا  ہے۔ کامل مرشد وہی مانا جاتا ہے جو وقت پر پہنچ کر غریب کی گائے کو کھائی میں گرنے سے بچا سکے۔ گیٹ نمبر چار کے اندر چھوٹی سی خانقاہ  والا مرشد ایسا با اثر ہے کہ امریکہ میں مشکل میں گرفتار  یا  کینیڈا میں جہاز سے آف لوڈ ہوتے مرید تک کی مدد کو بر وقت پہنچتا ہے۔ پیر اور شرک دو ایسی اصطلاحین ہیں جو بے دریغ استعمال ہوتی ہیں مگر تجربہ ہی مفاد پرست سیاستدان کو مرشد کے قریب تر کرتا ہے۔ 

جھوٹ، چرب زبانی، ذاتی مالی منفعت، معاشرتی عیاشی، شاہانہ طرز زندگی، اور لوگوں پر حکمران بن کر حکم چلانے کی لذت  وہ  ولائت ہے جو گیٹڈ کمیونٹی کے اندر موجود خانقاہوں، آستانوں اور مراکز پر چلہ پورا کر نے والوں کو عطا کی جاتی ہے۔ انسان اشرف  مخلوق ہے اور یہ شرف علم کے ذریعے حاصل ہوتا ہے جبکہ پاکستان کے اکثر محمد اشرفوں کر جاہل اور انپڑھ پکارا جاتا ہے ۔ حالانکہ آئین میں جو لکھا ہوا ہے اس کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتا۔