#Sh_Rashid #gateno4 #Rawalpindi #Fatehjhang #PTI #PakArmy لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں
#Sh_Rashid #gateno4 #Rawalpindi #Fatehjhang #PTI #PakArmy لیبل والی اشاعتیں دکھا رہا ہے۔ سبھی اشاعتیں دکھائیں

جمعرات، 8 جون، 2023

آہنی گیٹ اور خانقاہ

 






پاکستان کے سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار اپنی تقریروں میں  بلنٹ  کا لفظ استعمال کیا کرتے تھے۔اگر انگریزی کے بلنٹ لفظ کو منہ پھٹ کہا جائے تو سیاست میں شیخ رشید کا مقام عمران خان سے بھی بڑھ کر ہے۔ یو ٹرن لینے میں البتہ عمران خان کا ریکارڈ شائد ہی کوئی توڑ سکے۔ شیخ رشید اپنے طویل سیاسی کیرئر میں ریلوے کے وزیر بھی رہے ہیں۔ ریل گاڑی پٹڑی بدل کراپنا راستہ تبدیل کر تی ہے تو ریل گاڑی کے اندر بیٹھے مسافروں کو محسوس ہی نہیں ہوتا اور پٹڑی بدلنے کے منظر کو دیکھتا انسان اس عمل سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ 

سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار، وزیراعظم عمران خان اوروزیر داخلہ شیخ رشید کی ٹرائیکا  نے، سابقہ وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں پاکستان کی سیاست کی ٹرین کو ایسی مہارت سے ایک پٹڑی سے دوسری پٹڑی پر منتقل کیا کہ  انپڑھ اور جاہل عوام کو محسوس ہی نہ ہوا اوردیکھنے والوں کو یہ منظر بھلا لگا۔

شیخ رشید صاحب جن کے والد کا نام شیخ احمد راولپنڈی کے بھابھڑا بازار کے تاجر بتائے جاتے تھے۔ بھابھڑا بازار کے مکینوں کے لیے البتہ یہ نام  نامانوس تھا۔ راولپنڈی کے پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ سے نکالے جانے کے بعدایک طلبہ تنظیم کے اثرو رسوخ پر گارڈن کالج میں داخلہ لینے کے عمل کے دوران ہی شیخ رشید نے دریافت کر لیا تھا کہ اس معاشرے میں زندہ رہنے کے لیے طاقتور سہارے کی ضرورت ہے۔ ان دنوں میں گورنمنٹ  ڈگری کالج اصغر مال کا طالب علم تھا۔ بھٹو کے دور میں ایشیا سرخ کا نعرہ لگتا تھا۔ مگر راولپنڈی کے دونوں بڑے اور تاریخی کالجوں کے لان سبز تھے۔ طلباء سیاست کا متحرک گڑھ مگر گورنمنٹ پولی ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ تھا۔ جب اس ادارے کے طالب علم  عبدالحمید کو راولپنڈی کے لیاقت باغ کے سامنے گولی مار کر گرا دیا گیا تو پولی ٹیکنیکل میں طلبہ سیاست بھی دم توڑ گئی۔ مضبوط سیاسی طلبہ تنظیم حکومت مخالف بیانئیے کے باوجود مضبوط تر ہو کر ابھری۔ پنجاب بھر میں اس تنظیم نے تاریخی کامیابی حاصل کی اور لاہور میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ جمیعت کے وسائل پر گارڈن کالج کی طلباء  یونین کے صدر منتخب ہونے والے شیخ رشیدسیاسی زمینی حالات سے باخبر ہو چکے تھے۔ جب ڈ گری کالج کے طالب علم محمد اختر قریشی کو زخمی حالت میں تھانے کے عقوبت خانے میں برف کی سل پر لٹا کر تشدد کیا جارہا تھا اس وقت شیخ رشید  جمیعت کے دفتر اور گیٹ نمبر چار کا فاصلہ ماپنے میں اس قدر مصروف تھا کہ ڈگری کالج کی طلبہ یونین کی تقریب حلف برداری کی تقریب میں شامل نہ ہوسکا۔او ر لاہور سے جاوید ہاشمی نے آ کر، کالج کے گیٹ پر لگے تالے کی وجہ سے دیوار پھلانگ کر اس خلاء کو پر کیاتھا۔ 

گیٹ نمبر چارکے اندر بنی ایک چھوٹی سی خانقاہ سیاسی مجاوروں کی مقصود تک رسائی کے لیے منزل ہوا کرتی تھی۔ خانقاہ، مجاور، مقام کا ذکر آئے تو ذہن میں چلہ آتا ہے۔ چلہ کا بنیادی مقصد ہی وفاداری کا امتحان ہوتا ہے۔ اور شیخ رشید نے یہ امتحان مرد آہن ضیاء الحق کے دور میں پاس کر لیا تو اسے پاکستان مسلم میں شامل کرا دیا گیا۔ عوامی سیاست کرنے والے لوگ جب مسند نشین ہوتے ہیں تو عوام کا خیال رکھنا ان کی اتنی بڑی سیاسی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ پھانسی کے پھندے پر تک لٹک جاتا ہے۔ جب نواز شریف اسی مجبوری کے باعث مردود درگاہ ہوا تو بہت سے لوگوں کے ساتھ شیخ رشید نے بیعت توڑ کر وفاداری کی ایک اور منزل عبور کر لی۔ صلہ میں ضیاء دور میں فتح جھنگ میں حاصل کردہ سو کنال  کا فارم ہاوس چھپانے کا کیس جب عدالت میں تھا تو ثاقب نثار والے ادارے نے اسے کلین چٹ عطا کر دی۔

لاہور کے صحافی رضوان رضی المعروف رضی دادا کا ایک جملہ بہت مشہور ہوا تھا " لمحہ موجود میں یہ لوگ جو جرم کررہے ہوتے ہیں اس کا الزام دوسروں پر لگا رہے ہوتے ہیں" ۔

 پاکستان میں عوام کے لیے سیاست کرنے والے کو پھانسی چڑہنا ہوتا ہے مگر پاہنچے اوپر کر کے سخت موسم میں حالات کے کیچڑ سے صاف نکل جانے والے کو کامیاب فن کارمانا جاتا ہے۔ 

پنجابی مرید کی گائے جب کھائی میں گرنے لگتی ہے تو وہ اپنے مرشد کو آواز دیتا  ہے۔ کامل مرشد وہی مانا جاتا ہے جو وقت پر پہنچ کر غریب کی گائے کو کھائی میں گرنے سے بچا سکے۔ گیٹ نمبر چار کے اندر چھوٹی سی خانقاہ  والا مرشد ایسا با اثر ہے کہ امریکہ میں مشکل میں گرفتار  یا  کینیڈا میں جہاز سے آف لوڈ ہوتے مرید تک کی مدد کو بر وقت پہنچتا ہے۔ پیر اور شرک دو ایسی اصطلاحین ہیں جو بے دریغ استعمال ہوتی ہیں مگر تجربہ ہی مفاد پرست سیاستدان کو مرشد کے قریب تر کرتا ہے۔ 

جھوٹ، چرب زبانی، ذاتی مالی منفعت، معاشرتی عیاشی، شاہانہ طرز زندگی، اور لوگوں پر حکمران بن کر حکم چلانے کی لذت  وہ  ولائت ہے جو گیٹڈ کمیونٹی کے اندر موجود خانقاہوں، آستانوں اور مراکز پر چلہ پورا کر نے والوں کو عطا کی جاتی ہے۔ انسان اشرف  مخلوق ہے اور یہ شرف علم کے ذریعے حاصل ہوتا ہے جبکہ پاکستان کے اکثر محمد اشرفوں کر جاہل اور انپڑھ پکارا جاتا ہے ۔ حالانکہ آئین میں جو لکھا ہوا ہے اس کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتا۔