ہفتہ، 24 دسمبر، 2022

موتی اور قیراظ



میزان اور پیمانے ہر معاشرے میں مقدس ہوتے ہیں۔ ان کی حفاظت کی تلقین بے شک آسمانوں سے نازل ہوتی رہی ہے مگر یہ پیمانے خود انسان بناتا ہے۔ ناقص میزان میں پیمانہ کلو ہو یا قیراط، بے اطمینانی ہی پیداہوتی ہے۔

ان کو پہنانے جائین گے سونے کے کنگن اور موتی  اور وہاں ان کی پوشاک ریشم ہے"  (الحج:23)

 سونا موتی اور ریشم خوشحالی کی علامات ہیں۔ خوشحال ہو کر انسان دو میں سے ایک قسم کا رویہ اپنا لیتا ہے۔ پہلی قسم کے لوگ اپنی انکساری کے معترف ہو کر شکرگذاری میں اضافہ کرلیتے ہیں۔اس حالت کی ترجمانی حضرت ابو حریرہ ؓ کی روائت میں بخاری شریف میں ذکر ہوئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ نبی اللہ حضرت ایوب علیہ السلام  برہنہ ہو کر نہا رہے تھے کہ ان پر سونے کی ٹڈیاں گرنا شروع ہو گئیں۔ ایوب نے انھیں کپڑے میں اکٹھا کرنا شروع کر دیا تو ان کے رب عزوجل نے آواز دی اے ایوب کیا میں نے تجھے اس چیز سے جو دیکھ رہے ہو بے نیاز نہیں کر دیا؟ عرض کیا ہاں کیوں نہیں، اور تیری عزت کی قسم تیری برکتوں سے مجھے استغنا ء نہیں ہے۔

غربت اور قناعت دو مختلف چیزیں ہیں۔ صبر او ر محرومی میں واضح فرق ہے۔ ہوس اور استغناء کا اکٹھ ممکن ہی نہیں ہے۔ خواہش ہر دل میں پیدا ہوتی ہے۔ ان کی پیدائش پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ البتہ ان پر مٹی ڈالنے کو تعلیمات کی تاویلات سے جوڑا جاتا ہے۔ 

میرا ایک دوست ہے جس کی رہائش گیٹیڈ کمیونٹی کی ایک کالونی میں ہے۔ آرام دہ گھر ہے۔ برآمدے کے سامنے کئی گاڑیاں بمعہ ڈرائیور ہر لمحہ خدمت بجا آاوری کے لیے مستعد ہیں۔ دفتر اچھے علاقے میں ہے۔ چلتے کاروبار میں سے اس نے سیکڑوں ایکڑ زمین خریدی ہوئی ہے۔ اس کے گھر میں ہم بچپن کے دوست اکثر اکٹھے ہو کر اس کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس کے گھر سے واپسی پر ہر بار ہمارا موضوع سخن اس کی دولت ہوتی ہے۔ اکثر دوست میری اس توضٰیح سے اتفاق نہیں کرتے کہ جب ہم ڈاکٹر اور انجینئر بننے کو کامیابی کا یقین بنائے ہوئے تھے۔ اس وقت اس نے کمپیوٹر سیکھنے کا ڈول ڈالا ہوا تھا۔ جب ہم ٹی وی خریدنے کو دنیا کی سب سے بڑی عیاشی گردانتے تھے۔ اس نے وقت وہ کمپیٹوٹر خریدنے کے خواب دیکھا کرتا تھا۔ ایک بار اس کی گاڑی میں سفر کرتے ہوئے اسی کے ڈرائیور نے بتایا   "وہ ولی اللہ ہے" ۔  گھریلو ملازم کی شہادت بہت وزنی ہوتی ہے۔ اس شہادت کے بعد میں نے تنقیدی عینک پہن کر اس کو دیکھنا شروع کیامگر سالوں بعد بھی قابل بیان قابل گرفت عمل نہ ڈہونڈ پایا تو اعتراف کرنا پڑا کہ ذاتی انکساری کا معترف ہو کر شکر ادا کرنا ایسا عمل ہے جس کے باعث اسے ہر ماہ ڈالر میں چیک وصول ہوتا ہے۔ 

میرے دوستوں میں سے ایک بے کاروباری کساد بازاری کا ایسا شکار ہواکہ ایک باراس نے مجھ سے مالی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے اپنی "دعاوں کی نا مقبولیت" کا گلہ کیا تو اچانک میرے منہ سے نکلا کام بدل لو شائد تمھارے حالات بدل جائیں۔ اگلے ہفتے وہ مجھ سے ملنے آیا تو اس کے پاس رکشہ تھا۔ میں نے پوچھا رکشہ چلاتے شرم نہیں آتی  اس نے مجھے ایسے دیکھا کہ میری نظرشرمندگی سے نیچی ہو گی۔ آج وہ اچھے علاقے میں رینٹ اے کار کا دفتر کھولے بیٹھا ہے۔ وہ اپنی دینی، معاشرتی اور اخلاقی ذمہ داری پوری کرنے کے ساتھ ساتھ احسان کی رسم بھی پوری کر رہا ہے۔ آخری بار عمرہ کر کے آیا تو اس کا کہنا تھا  "اللہ بندے کی ہر دعا قبول کرتا ہے"  تو مجھے سالوں قبل اس کا گلہ یاد آیا کہ دعا قبول نہیں ہوتی  "بس انسان کو دعا مانگنے کا سلیقہ آنا چاہئے"۔ 

سلیقہ وژن سے آتا ہے اور وژن  علم کے ساتھ ساتھ میل جول، بات چیت، سفر اور معاملات سے حاصل ہوتا ہے۔ 

دوسری قسم میں وہ لوگ شامل پوتے ہیں جو نصیحت والی کتابیں پڑہتے ہیں۔ الفاظ کا من پسند مطلب نکالتے ہیں۔ تقابلی علم کو ناقص گردانتے ہیں۔ یہ اعمال انھیں کام چور بنا دیتے ہیں۔ اور وہ قسمت، رازق کی تقسیم، نصیب  اور اللہ کا لکھا  جیسے مضبوظ قلعوں میں پناہ گزین ہو جاتے ہیں۔ خالق کائنات کا حکم ہے  "اور اللہ چاہتا تو تمھیں ایک ہی امت کرتا  لیکن اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہے اور راہ دیتا ہے جسے چاہے۔ اور ضرور تم سے تمھارے کام پوچھے جائیں گے " (النحل:93)۔  سونا، موتی اور  ریشم اگر جنت میں نعمت ہیں تو دنیا میں بھی نعمت ہی کہلائیں گے۔

میزان اور پیمانے ہر معاشرے میں مقدس ہوتے ہیں۔ ان کی حفاظت کی تلقین بے شک آسمانوں سے نازل ہوتی رہی ہے مگر یہ پیمانے خود انسان بناتا ہے۔ ناقص میزان میں پیمانہ کلو ہو یا قیراط، بے اطمینانی ہی پیداہوتی ہے۔


جمعرات، 22 دسمبر، 2022

رحم اور نرم دل



ذعلب یمنی نے حضرت علی سے سوال کیا تھا کہ کیا آُ پ نے خدا کو دیکھا ہے۔حضرت علی نے جواب میں خدا کی صفات گناتے ہوئے فرمایا تھا کہ "وہ رحم کرنےوالا ہے مگر اس صفت کونرم دلی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا

پاکستان کی سپریم کورٹ میں توہین عدالت  کے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران بنچ کے ایک ممبر جج نے ملزم  (عمران خان) بارے کہا کہ ہو سکتا ہے ہمارا حکم ان تک پہنچا ہی نہ ہو۔ یہ رحم ہے  مگر جب خطبہ جمعہ کے دوران ایک پھٹے لباس والا پردیسی مسجد میں آکر بیٹھنے لگے  اور اسے کہا جائے کھڑے ہو کر دو رکعت ادا کر لو اور خطبہ بھی روک دیا جائے تو تمام نمازیوں کی نظرین لامحالہ اس کھڑے ہو کر دو رکعت ادا کرنے والے پر ہی ہوں گی۔ نمازکے خاتمے پر کئی افراداسے لباس لا کر پیش کریں تو واعظ کا عمل نرم دلی اور لباس لا کر دینے والوں کا عمل رحم دلی ہے۔ نرم دلی کا تعلق احسان سے ہے۔ جبکہ رحم کا تعلق انصاف سے ہے۔ 

اللہ تعالی بہترین منصف ہے۔ بہترین اس لیے کہ وہ انصاف کرتے وقت رحم کو اپنے دائیں ہاتھ میں رکھتا ہے۔ اپنے لخت جگر کو ماں ڈانٹتی اور سزا بھی دیتی ہے مگرسزا پر مامتا غالب رہتی ہے۔ اللہ تعالی جب اپنے ہی بندے کی سرکشی پر اس کا محاسبہ کرتا ہے تو اسے پکر کر جہنم  (جیل) میں نہیں ڈال دیتا۔ انصاف کے لیے جو عدالت سجاتا ہے اس کا آخری فیصلہ خود کرتا ہے۔ گواہوں کو سنتا ہے۔ کہہ مکرنیوں کو تسلیم کرتا ہے۔ 

قاضی یحیی بن اکثم  بن قطن المزروی   ((775-857  جو اپنے وقت کے نامی گرامی چیف جسٹس تھے۔کے بارے میں کئی کتب میں درج ہے کہ ان کی موت کے بعد ان کی بخشش کا معاملہ الجھ گیا تو انھوں نے اللہ تعالی سے عرض کیا کہ میں نے زندگی میں عبد الرزاق بن حسام سے سنا تھا اور انھوں نے معمر بن راشد سے، انھوں نے ابن شہاب زہری، انھوں نے انس بن مالک، انھوں نے آپ کے نبی سے اور انھوں نے جبریل سے سنا کہ آپ کا حکم ہے  کہ میرا وہ بندہ جسے اسلام  میں بڑھاپا آجائے اسے عذاب دیتے ہوئے مجھے حیا آتی ہے۔ میں دنیا میں اسی سال گذار کر آیا ہوں۔ اللہ نے کرم کیا اور مجھے جنت میں لے جانے کی حکم صادر فرما دیا۔۔

حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ ایک بدو  نے پوچھا  یا رسول اللہ قیامت کے دن مخلوق کا حساب کون لے گا  اسے بتایا گیا کہ اللہ تعالی تو بدو نے قسم کھا کرکہا پھر تو ہم نجات پا گئے۔ 


دنیا بھر میں عدالتیں ملزم کو شک کا فائدہ دیتی ہیں۔چھوٹے  منصف (مجسٹریٹ)  بعض اوقات کسی نوجوان گناہ گار کو معاف کر کے اسے سدھرنے کا موقع دیتا ہے۔ سیشن جج ثبوت مہیا ہو جانے پر قاتل کی سزا اتنے بھاری دل سے لکھتا ہے کہ اس کا قلم ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ ایک ریٹائرڈ جج نے ایک بار مجھے بتایا تھا مجرم اپنے خلاف اتنے قوی ثبوت چھوڑ جائے کہ جج پھانسی چڑھانے پر ایسے مجبور کر دیا جائے کہ وہ انصاف سے جڑا رحم والا عنصر بھی لاگو نہ کر سکے تو جج  قلم نہیں توڑے گا تو کیا اپنا سر پھوڑے گا۔بے شک اللہ تعالی  رحم کرنے والا ہے مگر اس صفت کونرم دلی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ 


منگل، 20 دسمبر، 2022

ایک اور خط



چند عشرے قبل تک خط رابطے کا موثر ذریعہ ہوا کرتے تھے۔ملک کے اندر عام طور پر خط تین دن میں پہنچ جاتا تھا  اور بیرون ملک خط سات دنوں میں تقسیم ہو جاتا تھا۔ لیکن تاریخ میں خط کا استعمال سیاسی مقاصد کے لیے بھی کیا جاتا رہا ہے۔کربلا میں شہید کر دیے جانے والے نواسہ رسول حضرت امام حسین کے نام اہلیان کوفہ کے لکھے گئے خطوط کا ذکر کیے بغیر واقعہ کربلا مکمل ہی نہیں ہوتا۔

 اس سے قبل خلفائے راشدہ دور کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان بن عفوان کی شہادت میں خطوط نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ خلیفہ کے مخالفین کی سیاسی حکمت عملی کے تحت ہوا یہ کہ بصرہ کے لوگ مصر والوں کو خطوط میں بتاتے کہ مدینہ منورہ  میں خلیفہ وقت کرپشن،  اقربا پروری میں مبتلا ہو کر بے انصافی کر رہے ہیں۔ اسی مضمون کے خطوط مصر والے بصرہ والوں کو اور بصرہ والے کوفہ والوں کو لکھتے۔ جس سے مدینہ سے دور بسنے والے مسلمانوں میں بھائی چارے کے جذبے تحت مدینہ میں بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی پیدا ہوئی اور مختلف شہروں سے نوجوان مدینہ المنورہ پہنچنے شروع ہوگئے۔ تاریخ نویسوں نے واقعہ شہادت عثمان میں خطوط کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا۔

موجودہ دور میں خط لکھنا متروک عمل ہے مگر سیاسی مقاصد کے لیے یہ کام  2022میں کیا گیا۔ ہوا یہ کہ پاکستان کے ایک صحافی ارشد شریف ((1973-2022  کینیا میں قتل کر دیے گئے۔ارشد شریف کے قتل کا الزام ایک سیاسی جماعت ایک پاکستانی ایجنسوں پر لگاتی اور جواب میں یہی الزام ایک سیاسی رہنما پر لگایا جاتا۔ البتہ حکومت نے ایک تفتیشی ٹیم بنائی مگر سیاسی جماعت بضد تھی کہ اس قتل کا مقدمہ درج کیا جائے اور مقدمے میں ان افراد کو نامزد کیا جائے جن کا نام وہ لیتے ہیں۔ پہلے یہ مہم سوشل میڈیا پر چلائی گئی۔ سوشل میڈیا پر اس مہم کی ناکامی کے بعد یہ مہم  خطوط کے ذریعے چلائی گئی۔ اس مہم کے تحت عدالت عظمی کو خطوط لکھے گئے ۔خط لکھو مہم کامیاب ہوئی،  عدالت عظمی نے ان خطوط کا نوٹس لیا اور پولیس کو مقدمہ درج کرنے کا حکم دیدیا۔ یوں اس ڈیجیٹل دور میں خطوط کو ایک بار پھر سیاسی طور پر کامیابی سے استعمال کیا گیا۔


پیر، 19 دسمبر، 2022

متھ تھن جن



شسط کا لفظ ہم نے پہلی بار اپنے نوجوانوں کے مبینہ لیڈر جناب عمران خان نے اپنے ایک لیکچر میں استعمال کیا تھا۔ عمران خان کا دعوی ہے کہ وہ قوم کی تربیت کر رہے ہیں اس لیے ان کی سیاسی،  تقریر کم اور لیکچر زیادہ ہوتی ہے۔ اوراپنے لیکچرز میں ایک ہی بات کو بار بار دہرا کر اپنے زیر تربیت نوجوانوں کو ازبر کرا دیتے ہیں۔ اور آفرین ہے ان نوخیز ذہنوں پر جو تعلیی مواد تو ازبر نہیں کر پاتے مگر ان لیکچروں میں دیے گئے بیانیوں کو فوری ازبر کر لیتے ہیں۔ ہم نے سنجیدگی سے، تعلیم سے وابستہ اپنے دوست اساتذہ کو مشورہ دیا تھا کہ وہ خان صاحب کی تیکنیک سمجھیں پھر اس پر عمل کر کے اس کامیاب عمل سے اپنی اپنی کلاس کو مستفید کریں۔ لیکن میرے دوستوں نے بھی میرے مشورے کو سیاسی مذاق ہی جانا۔ 

آمدم بر سر عنوان، تو عرض کر رہا تھا کہ لفظ شسط پنجابی زبان کا لفظ ہے۔ اردو ہماری نہ عمران خان کی مادری زبان ہے۔ ہم  اکسفورڈ سے کسی بھی مضمون میں ڈگری حاصل کر لیں مگر رہیں گے وہی جہاں کے ہیں۔اور انگریزی بولنے کی فوجی تکنیک یہ ہے کہ جہاں آپ کو انگریزی کا لفظ نہ یاد رہے تو گفتگو کو روکیے نہیں بلکہ کسی بھی دوسری زبان کا لفظ استعمال کر لی جئے۔ اس تکنیک کو ہم نے فوجی اس لیے کہا ہے کہ ایک بار ہم نے دیکھا فوج کا ایک صوبیداراپنے سپاہوں کو انسپیکشن کے لیے تیار کر رہا تھا۔انسپیکشن فوجیوں کی نہیں بلکہ ان کے زیر استعمال ہتھیاروں  (ٹولز) کی تھی۔ صوبیدار نے ہدائت کی اگر آپ اپنے سینئر افسر کے سامنے نروس ہوکر ٹول کا انگریزی نام بھول چکے ہیں تو بھی آُ پ نے خاموش رہنا ہے نہ جواب کا تسلسل توڑنا ہے۔ بلکہ ایک لفظ ابھی سے ازبر کرنا شروع کر دیں۔ متھنجن۔ متھ  تھن جن ۔ اور مزید تشریح کی کہ جب آپ متھ انجن کا لفظ استعمال کریں گے تو سینئر افسر آپ کو کچھ کہنے کی بجائے میری طرف دیکھے گا۔ جب اس نے مجھے دیکھ لیا تو آپ کا کام ختم میرا کام شروع اور مجھے معلوم ہے کہ صورتحال کو کیسے قابو میں رکھنا ہے۔ 

عمران خان صاحب جو دوسری بہت ساری باتوں کی طرح اردو کو بھی سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ مگر بھول چوک ابن آدم کی مٹی میں شامل ہے۔ ہمیں فخر ہے خان صاحب رکے یا ٹھٹھکے نہیں بلکہ انھوں نے اپنی تقریر میں متھ تھن جن استعمال کر کے ثابت کر دیا کہ وہ اردو کو بھی دوسروں سے زیادہ جانتے ہیں۔


اتوار، 18 دسمبر، 2022

گنجا




ہالی وڈ میں  Yul Bryner (1920-1085)   نام کا ایک  روسی نژاد  اداکار تھا۔اس نے روس سے امریکہ ہجرت کی اپنے اداکاری کے فن کو چارہزار سے زیادہ سٹیج  پر ومارمنس کے ذریعے منوایا اور کامیاب اداکاری کر کے کئی ایوارڈ جیتے۔ اس نے انیس سو اکیاون میں ایک فلمی کردار  King and Iکے لیے اپنا سر منڈوا لیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے مرتے دم تک ہمیشہ ٹنڈ ہی کرائی۔ اس کے مشکل نام کی وجہ سے لوگوں نے اس کا نام گنجا رکھ لیا تھا۔ 

اس نے اپنی زندگی میں ایک انٹر ویو میں بتایا تھا  اس نے کہا میرا تعلق روس کے ایک قبیلے سے ہے اور قبیلے کی روائت تھی کہ دوسرے قبیلے کے ساتھ جنگ میں اگر ہمارا قبیلہ ہار جاتا تو قبیلے کے سارے مرد اپنا سر منڈوا کر ٹنڈ کرا لیتے اور اس وقت تک ٹنڈ کرواتے رہتے جب تک قبیلہ اپنی شکست کا بدلہ نہ لے لیتا۔ اس نے مزید کہا  1915 میں جب میرا قبیلہ جنگ کر کے ختم کر دیا گیا تو میں نے ٹنڈ کرا لی۔