ہفتہ، 26 جنوری، 2019
زندگی کے لیے سات مفت مشورے

یاسر پیر زادہ
ہر نیا دن ایک نئی مصیبت کا آغاز ہوتا ہے یا رحمت کا، اس بات کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کے پاس کتنی دولت ہے، مگر کیا محض دولت کا ہونا کافی ہے؟ جی نہیں، میں آپ کو اس قسم کی باتیں سنا کر بور نہیں کروں گا کہ زندگی میں پیسہ ہی سب کچھ نہیں بلکہ اصل چیز انسان کا اخلاق ہے، پیسے سے خوشی نہیں خریدی جا سکتی، غریب آدمی رات سکون کی نیند سوتا ہے، امیر کو اپنی دولت کی فکر رہتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ دراصل یہ افیون کی گولیاں دولت مند افراد ان لوگوں کو دیتے ہیں جو ان کی دولت سے حسد کرتے ہیں، اگر ایسی بات نہ ہوتی تو دینا کے تمام امیر لوگ سکون کی نیند کے عوض اپنی دولت کسی مطمئن غریب سے تبدیل کروا لیتے۔ کچھ باتیں البتہ امیروں، غریبوں اور سفید پوشوں کی زندگی میں مشترک ہوتی ہیں، ہر کسی کا ان سے پالا پڑتا ہے، ان باتوں کا کوئی لگا بندھا اصول نہیں، کوئی گھڑا گھڑایا حل نہیں، وقت اور تجربے کے ساتھ ہر انسان یہ باتیں سیکھتا ہے، انہیں آپ درس حیات(Life Lessons) بھی کہہ سکتے ہیں۔ کسی ہیڈ ماسٹر کی طرح آج میں نے زندگی کے یہ چنداسباق لکھے ہیں۔
پہلا سبق یہ ہے کہ صحت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں، اگر آپ صحت مند ہیں تو پھر دولت بھی کمالیں گے، حاسدین سے بھی نمٹ لیں گے، زندگی کی دوڑ بھی جیت لیں گے، خوشیاں بھی سمیٹ سکیں گے، اگر صحت نہیں تو پھر یہ سب بیکار ہے، پھر عہدہ، شہرت، امارت کسی کام کے نہیں، ایک بیمار شخص کو صحت مند دنیا زہر لگتی ہے، اسے لگتا ہے جیسے ہنستے کھیلتے لوگ اس کا مذاق اڑا رہے ہوں۔ بے شک بیماری پر کسی کا زور نہیں، ہم میں سے کوئی بھی کسی وقت بیمار ہو سکتا ہے مگر صحت کا خیال رکھنا ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے، بداحتیاطیوں اور بدپرہیزیوں سے اجتناب ہمارے اختیار میں ہے، ہم اتنے بھی مجبور نہیں کہ آٹھ ڈبل روٹیوں والے سینڈوچ کو انکار نہ کرسکیں جو پیٹ میں جاکر سائیکل کی گدی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ رہی بات یہ کہ صحت کا خیال کیسے رکھا جائے تو اس کے لیے دنیا جہان کا مواد انٹرنیٹ پر دستیاب ہے، روزانہ دس گلاس پانی پینے سے لے کر بیس منٹ واک کرنے تک، فقط عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی میرا نئے سال کا عہد نامہ یہی ہے کہ روزانہ کم ازکم دس ہزار قدم کی ٹہل کی جائے گی، دیکھئے اس برس پورا ہوتا ہے یا نہیں، ابھی تک تو نہیں ہوا!
دوسرا سبق یہ ہے کہ زندگی آپ نے اکیلے گزارنی ہے، اس کی مشکلات کا تنہا سامنا کرنا ہے، اس کی آزمائشوں سے خود ہی نمٹنا ہے، آپ کے ماں باپ، بہن بھائی، اولاد، دوست احباب ضرور آپ کا ساتھ دیں گے مگر جو تکلیف، پریشانی یا تناؤ آپ کے حصے میں آئے گا وہ آپ ہی کو سہنا پڑے گا، یہ بات جتنی جلد سمجھ آجائے اتنا ہی اچھا ہے، اگر آپ کے دوست رشتہ دار آپ سے مخلص ہیں تو آپ ایک خوش قسمت انسان ہیں، یہ آپ کی پریشانی میں کمی کا سبب بنیں گے، ایسے لوگو ں کی فہرست بنائیں، اگر تعداد پانچ سے زیادہ نکلے تو خود کو دنیا کا سب سے دولت مند شخص سمجھیں۔ دوسرے درجے میں ان لوگوں کو رکھیں جو یوں تو آپ کے خیر خواہ ہیں مگر برے وقت میں سوائے اظہار افسوس کے کچھ نہیں کر سکتے، فی زمانہ یہ بھی غنیمت ہے کہ ہر کسی کی زندگی بہت مصروف اور کٹھن ہو چکی ہے، تیسرے درجے میں وہ لوگ آتے ہیں جو آپ سے منافقانہ تعلق رکھتے ہیں، ان سے محتاط رہیں۔ تیسرا سبق یہ ہے کہ لوگوں کو اسی پیمانے پر پرکھیں جس پیمانے پر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کو پرکھیں، اگر آپ کا کوئی دوست بنیادی طور پر ایک اچھا انسان ہے، آپ کا مخلص اور خیر خواہ ہے تو یہ خوبی بہت ہے، آپ کی یہ توقع نہیں ہونی چاہیے کہ اس کے کپڑوں کا ذوق بھی اعلیٰ ہو، وہ ڈنر کے ادب آداب سے کسی نجیب زادے کی طرح واقف ہو اور اس کا علم و مطالعہ بھی وسیع ہو۔ ہر شخص میں ہر خوبی نہیں ہوتی بالکل اسی طر ح جس طرح ہم میں ہر خوبی نہیں۔ دنیا میں اچھے انسانوں کا قحط ہے، سو اگر آپ کو کسی اچھے انسان کی صحبت میسر ہے تو اس کا فائدہ اٹھائیں، چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے تعلق خراب نہ کریں۔ بعض اوقات آپ ہر ہاتھ ملانے والے کو اپنا اتحادی سمجھ لیتے ہیں اور ہر اجنبی کو ناقابل اعتماد، ضروری نہیں کہ ایسا ہو، لوگوں کو ان کے بلند بانگ دعوؤں کی روشنی میں نہیں بلکہ ان کے اعمال کی روشنی میں جانچیں، زندگی ہمیں اکثر حیران کرتی ہے جب ہمیں وہاں سے کمک ملتی ہے جہاں سے ہمیں ایسی کوئی امید ہی نہیں ہوتی اور وہاں سے گزند پہنچتی ہے جہاں سے نقصان کا ہم نے سوچا بھی نہیں ہوتا۔ ہر انسان دوسرے سے مختلف ہے،جس طرح دو لوگ ایک ہی قسم کے ماحول میں یکسر مختلف انداز میں اپنا ردعمل دیتے ہیں اسی طرح ہر شخص کا مختلف معاملات پر مختلف ردعمل ہوتا ہے، اگر ہم کسی مسئلے کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھ رہے ہیں تو ضروری نہیں باقی لوگ بھی آپ ہی کے ’’لینز‘‘ سے اس مسئلے کو دیکھیں، لہٰذا لوگوں سے امید نہ رکھیں کہ وہ محض اس وجہ سے آپ سے اتفاق کر لیں گے کہ آپ درست ہیں اور وہ غلط۔ اسے چوتھا سبق سمجھیں۔ انسانوں کو جھوٹ بولنے کی عادت ہوتی ہے، کچھ لوگ بلاوجہ جھوٹ بولتے ہیں، کچھ محفل میں اہمیت حاصل کرنے کے لیے،کچھ اپنی ناکامی چھپانے کے لیے، کچھ شیخی بگھارنے کے لیے، کچھ اپنے فائدے کے لیے، کچھ دوسروں کے نقصان اور بدنامی کے لیے اور کچھ محض عادتاً جھوٹ بولتے ہیں۔ لوگوں کی باتوں پر اعتبار کرنے سے پہلے ان کے دعوے کو پرکھ لیں، جن باتوں کے جھوٹ سچ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا انہیں بے شک نظر انداز کر دیں مگر جن باتوں کی روشنی میں آپ نے اپنی زندگی کا کوئی فیصلہ کرنا ہے انہیں محض اس وجہ سے درست نہ مان لیں کہ آپ کے کسی جاننے والے نے اس بابت کوئی بیان جاری کر دیا ہے۔ کسی کے جھوٹ کی وجہ سے اپنی زندگی کا کوئی فیصلہ غلط کر لینے کا پچھتاوا بہت برا ہوتا ہے، اس پچھتاوے سے بچنا آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے،یہ پانچواں سبق تھا۔
زندگی میں کوئی کلین چٹ نہیں ہوتی، کوئی گارنٹی نہیں ہوتی اور کوئی ایسی ضمانت نہیں ہوتی جس کے ملنے کے بعد آپ سمجھیں کہ اب کوئی پریشانی یا تکلیف نہیں آئے گی، اب میں نے اتنی دولت کما لی ہے کہ اب کوئی ٹینشن نہیں، شاید اکا دکا لوگوں کے بارے میں یہ بات درست ہو مگر اکثریت کے بارے میں زندگی سنگدلی سے ہی کام لیتی ہے، لہٰذا یہ سوچ دماغ سے نکال دیں کہ کوئی ایسا نسخہ آپ کو مل جائے گا جس سے آپ کی زندگی کی تمام مشکلات حل ہوجائیں گی، جو انسان ہمیں آسودہ اور مطمئن نظر آتے ہیں ان کی زندگی کی تمام مشکلات حل نہیں ہوئی ہوتیں بلکہ ان میں مشکلات سے نمٹنے کی ہمت اور حوصلہ ہوتا ہے۔ سو چھٹا سبق یہی ہے کہ زندگی میں کوئی کلین چِٹ تلاش کرنے کی بجائے خود میں وہ صلاحیت پیدا کی جائے جو زندگی کی پریشانیوں سے نمٹنے میں کام آئے۔
زندگی کا ساتواں سبق پھر کبھی سہی!
دکھ اپنے قتل کا نہیں

عباس مہکری
2014ء میں اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام کیا تھا۔ جولائی کی ابتدا سے اگست کے آخر تک تقریباً 50 دنوں کے عرصے پر محیط اسرائیل کی جارحانہ کارروائیاں جاری رہیں۔ غزہ میں اسرائیل نے فضائی بمباری کے ساتھ ساتھ زمینی حملے بھی کیے۔ اس قتل عام کی پوری دنیا نے مذمت کی تھی اور اس کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ اس دوران جو دردناک واقعات رونما ہوئے، انہیں شاید دنیا بھول چکی ہوگی لیکن اس وقت جن بچوں کے سامنے یہ واقعات رونما ہوئے، وہ آج تک نہیں بھول سکے۔ ان واقعات کا بچوں کے ذہنوں پر جو اثر ہوا، وہ آج کے فلسطین کے سماج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کیونکہ دہشت زدہ اور شدید نفسیاتی مسائل کا شکار وہی بچے جوان ہورہے ہیں۔ جن والدین نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بچوں کو قتل ہوتے ہوئے دیکھا، وہ سینہ کوبی کرکے ماتم کرکے یا غم ہلکا کرنے کا کوئی اور طریقہ اختیار کرکے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو سنبھال چکے ہیں لیکن جن بچوں نے اپنے والدین، بہن بھائیوں یا قریبی عزیز واقارب کو اپنے سامنے قتل ہوتے دیکھا، وہ نہیں سنبھل سکے ہیں۔ ان کی کربناک نفسیاتی کیفیت کو دیکھ کر ان کے اپنے یہ کہتے ہیں کہ کاش یہ بھی اس قتل عام میں مارے جاتے۔ ان 50 دنوں میں 2200 سے زائد فلسطینی قتل ہوئے، جن میں سے 500 بچے بھی شامل تھے۔ 2014ء کا المیہ ختم نہیں ہوا۔ بچوں کے ذہنوں اور آنکھوں میں وہ سارے مناظر محفوظ ہیں اور اسے اپنا ورثہ سمجھ کر اس کی حفاظت کرتے ہوئے جوان ہورہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک تخمینہ کے مطابق 3 لاکھ سے زائد بچوں کو نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے۔ راتوں کو چیخیں مار کر یہ بچے اٹھ جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں ’’میں نے قتل کردیا، میں نے قتل کردیا۔ تم نے کسی کو نہیں مارا۔‘‘ اسکول کی کاپیوں پر بمباری کرتے ہوائی جہازوں، زمین پر پڑی ہوئی لاشوں کی ڈرائنگز بنی ہوئی ہیں۔ گھروں کی دیواروں پر بندوقیں لیے فوجیوں اور خون میں لت پت لاشے کی تصویریں نظر آتی ہیں، جو ان بچوں نے بنائی ہوئی ہیں۔ یہ نہ ہنستے ہیں اور نہ کسی سے بات کرتے ہیں۔ بس آسمان اور دیواروں کو تکتے رہتے ہیں۔ ان کا علاج کرنے والی ماہر نفسیات ڈاکٹر زابیہ القرا کا کہنا یہ ہے کہ ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ ان بچوں کے جسموں میں زندگی واپس لانے والی روح کیسے ڈالیں۔ طبی طور پر ہم انہیں مردہ بھی قرار نہیں دے سکتے۔
ڈاکٹر زابیہ القرا بتاسکتی ہیں کہ عمیر اور اس کی دو معصوم بہنوںکا کیا بنے گا، جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے امی، ابو اور بہن کے ساتھ ساتھ ڈرائیور کو بے رحمی سے قتل کردیا گیا۔ ان بچوں نے جو کچھ دیکھا، اس کا تصور کرتے ہوئے ہماری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے اور دماغ سوچنا بند کردیتا ہے۔ الامان والحفیظ۔ یہ دردناک واقعہ فلسطین میں رونما نہیں ہوا بلکہ گزشتہ ہفتے پاکستان کے شہر ساہیوال میں پیش آیا۔ تین معصوم بچوں کے سامنے ان کے پیاروں کو قتل کسی اور نے نہیں، محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہل کاروں نے کیا، جو پنجاب پولیس کا حصہ ہے۔ اس واقعہ کو اب کوئی بھی رنگ دیا جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین اور ان کی بہن کو قتل کیا گیا۔ ان بچوں کے ذہنوں پر جو اثر ہوا ہوگا، اس کا اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں لیکن اس واقعہ نے پاکستان کے کروڑوں بچوں کو دہشت اور خوف میں مبتلا کردیا ہے۔عمیر اور اس کی دو چھوٹی بہنوں منیبہ اور جاذبہ کی آنکھوں میں جو مناظر محفوظ ہیں، انہیں کوئی جے آئی ٹی، کمیشن یا تحقیقات کے ماہرین دھندلا نہیں کرسکتے۔ یہ بچے سب جانتے ہیں کہ حقیقت میں کیا ہوا۔ کس طرح ان کے ابو خلیل، امی نبیلہ، بہن اریبا اور انکل ذیشان کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔
اس واقعہ نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور اس کے بعد ہی ہمیں یہ احساس ہوا ہے کہ اس طرح کے بے شمار واقعات پاکستان میں پہلے بھی رونما ہوچکے ہیں۔ جعلی مقابلوں میں کئی بے گناہ پاکستانی مارے گئے ہیں۔ پہلے والے واقعات کے بارے میں اب ہم نے اس لیے سوچا ہے اور زیادہ دکھی بھی ہیں کہ چھوٹے بچوں کے سامنے ایساواقعہ رونما ہوا۔ کہتے ہیں کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے۔ وہ اپنے شہریوں کو اپنا بچہ تصور کرتی ہے۔ وہ اپنے بچوں کی حفاظت کرتی ہے، انہیں قتل نہیں کرتی۔ یہ بات اس وقت سچ ہوتی ہے، جب ریاست نو آبادی یا استعماری خصوصیات کی حامل نہ ہوا اور اس کا اپنے شہریوں یعنی بچوں سے سوتیلی ماں یا غیریت والا تعلق نہ ہو۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت یا فلسطین میں اسرائیل اپنے نوآبادی اور استعماری عزائم کی تکمیل کے لیے قتل عام کرتے ہیں کیونکہ کشمیر یا فلسطین کے لوگوں سے ان کا اپنائیت والا کوئی رشتہ نہیں۔ امریکا اور یورپی ممالک میں بعض نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مقابلوں میں بے دردی سے مار دیا جاتا ہے جبکہ دوسرے نسلی گروہوں کے لوگوں کو مارنے کا تصور ہی نہیں ہے، جنہیں ریاست اپنا تصور کرتی ہے۔ مقابلوں میں جہاں بھی بے گناہ مارے جاتے ہیں، اس کا سبب ریاست کا نوآبادی یا استعماری رویہ ہوتا ہے۔ اس سے مزید کوئی بات کہنا مناسب نہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ ہماری فورسز نے دہشت گردی کے خلاف بڑی جنگ لڑی ہے اور قربانیاں بھی دی ہیں لیکن اس طرح کے واقعات سے دہشت گردوں کو ہی فائدہ ہوتا ہے۔ دہشت گرد خود لوگوں کو ماریں یا دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر لوگ مقابلوں میں مارے جائیں، دونوں صورتوں میں ریاست پر عوام کا اعتماد متزلزل ہوتا ہے اور یہی دہشت گردوں کا مقصد ہے۔ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ساہیوال جیسے واقعات مسلسل کیوں رونما ہوتے ہیں۔ یہ مائنڈ سیٹ ہمارے محافظوں میں کیونکر پیدا ہوا؟ ساہیوال کے واقعہ کے بعد ہمیں ضرور غور کرنا چاہئے۔ خلیل اور ان کی اہلیہ کو بھی اپنے قتل کا اتنا دکھ نہیں ہوگا، جتنا اپنے معصوم بچوں عمیر، منیبہ اور جاذبہ کے اداس چہرے دیکھ کر ہورہا ہوگا، جن کے سامنے ان کے والدین اور بہن کو قتل کردیا گیا۔
قائد اعظم بنام وزیراعظم

سہیل وڑائچ
ہائوس نمبر 786
جنت نگر، عرشِ بریں
ڈیئر عمران
السلام علیکم بہت دنوں سے پاکستانی احباب اصرار کر رہے تھے کہ میں آپ کو ایک خط لکھوں اور آپ کی حکومت کی خوبیاں اور خامیاں دونوں بیان کروں۔ اصل میں جب آپ کی حکومت آئی تو یہاں سب نے بڑی خوشیاں منائیں اور اس توقع کا اظہار کیا کہ اب نیا پاکستان اصلی راستے پر چل پڑے گا اور تو اور حسین شہید سہروردی اور مولوی فضل حق بھی مجھے مبارکباد دینے آئے اب جبکہ آپ کی حکومت کو 5ماہ گزر چکے ہیں تو یہاں کئی ذہنوں میں سوالات اٹھ رہے ہیں اور آپ کی ٹیم کی قابلیت پر چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔ کل ذوالفقار علی بھٹو جناح کیپ پہن کر میرے پاس آئے، ان کے ہمراہ نصرت بھٹو اور بے نظیر بھی تھیں۔ تینوں نے مل کر آپ کی حکومت کی شکایت لگائی کہ آپ پیپلز پارٹی کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔ میری بہن فاطمی (فاطمہ جناح) پاس ہی بیٹھی تھیں اس شکایت پر وہ زیر لب مسکراتی رہی اور پھر سب کے سامنے ہی کہا ’’مجھے تو عمران بہت پسند ہے وہ بھی میری طرح بہت کفایت شعار ہے اور اسے کرپشن سے چڑ ہے ابھی اتنی جلدی اس کی حکومت کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دینی چاہئے‘‘ ذوالفقار علی بھٹو پھر بھی خاموش نہ ہوئے اور تمہاری حکومت اور وزراء پر ایک چارج شیٹ پڑھ دی جس پر میں نے جنت نگر میں موجود سینئر پاکستانیوں کا اجلاس بلا لیا۔ یہ اجلاس ابھی ختم ہوا ہے اس کی تفصیلات اور آپ کے لئے ہدایات کا آگے ذکر ہو گا پہلے اس اجلاس کی کارروائی پڑھ لیں۔
تمہا رے وزیر خارجہ کے والد سجاد قریشی اور دادا مرید حسین قریشی نے خارجہ امور میں حالیہ کامیابیوں پر ایک بھرپور تقریر کی اور کہا ان کا بچہ شاہ محمود قریشی ایک سچا پاکستانی اور محب وطن ہے۔ سجاد قریشی نے تو یہ بھی کہہ ڈالا کہ شاہ محمود کی ان خدمات کی بناء پر یا تو اسے وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا جائے یا پھر حکومت تبدیل کر کے اقتدار کی باگ ڈور ہی اُس کے حوالے کر دی جائے۔ اس پر کونے میں بیٹھے چوہدری اویس جہلمی اور گورنر الطاف جہلمی بھڑک اٹھے اور کہنے لگے کہ وہ اصلی مسلم لیگی ہیں اچانک ممتاز دولتانہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے جہلمی چوہدری کے حق میں گواہی دی چوہدری اویس نے کہا کہ وزارت اعلیٰ اب ہمارا حق ہے۔ فواد چوہدری اور فرخ کو آگے بڑھایا جائے، فواد کو پنجاب کی باگ ڈور دیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اس پر شور مچ گیا، ایک طرف سے علیم خان اور دوسری طرف سے اسلم اقبال کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کے نعرے لگنے لگےعین اسی وقت محمد حسین چٹھہ پیر آف پگاڑو شریف مجمع میں آئے، شور کچھ کم ہوا تو محمد حسین چٹھہ بولے کہ ان کے بیٹے نعیم کا بیٹا عابد پی ٹی آئی میں ہے مگر عمران خان اس کا حال بھی نہیں پوچھتا، پیر پگاڑا نے ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں بیٹھا دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کھڑے ہو کر اونچی آواز میں کہا کہ عمران خان نے یحییٰ خان کے مشیر جنرل عمر کے بیٹے اسد کو وزیر خزانہ لگایا ہوا ہے اسی لئے معیشت بیٹھ رہی ہے ۔اس پر محمد خان جونیجو نے پیر پگاڑا سے اجازت لے کر اسد عمر کی تعریفیں کیں اور کہا کہ ابھی مشکلات ضرور ہیں لیکن آنے والے سالوں میں پاکستان ان مصیبتوں سے نکل آئے گا۔ سفید لباس میں ملبوس میاں شریف علامہ اقبال کی کرسی کے پیچھے کھڑے تھے، وہاں سے انہوں نے زور سے ہاتھ ہلایا اور بات کرنے کی اجازت طلب کی۔ علامہ اقبال نے گھوم کر دیکھا کہ ان کے پیچھے کون کھڑا ہے اور اس کے بعد سے دوبارہ آنکھیں موند لیں۔ میاں محمد شریف نے کہا کہ اشرافیہ نے اس کے دونوں بیٹوں کو جیلوں میں ڈال رکھا ہے، اس نے مجھ سے اپیل کی کہ اسے انصاف دلایا جائے۔ مجمع عام کی گفتگو سننے کے بعد سردار عبدالرب نشتر کی سربراہی میں بھٹو، نوابزادہ نصراللہ، لیاقت علی خان اور سہروردی پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی گئی جس نے ایک گھنٹے میں سفارشات اور ہدایات تیار کر لیں۔ یہ ہدایات آپ کی حکومت کی بہتری کے لئے ہیں۔
مسٹر عمران!
آپ اکثر میرا حوالہ دیتے ہیں میری جیسی اچکن بھی پہنتے ہیں، کیا ہی اچھا ہو اگر تم میری طرح جناح کیپ بھی پہنا کرو تاکہ ہمارا قومی تشخص بھی قائم رہے۔ ذیل میں سینئر کمیٹی کی سفارشات اور ہدایات آپ کی نذر کی جا رہی ہیں۔
(1)ہر زمانے میں احتساب ہوا ہے مگر اس میں ایک غلطی ہوتی ر ہی۔ احتساب ہمیشہ ماضی کی غلطیوں اور کرپشن کا ہوا جس دن حال کا احتساب ہو، برسراقتدار حکومت سے احتساب شروع ہوا اس دن اصلی احتساب ہو گا ۔ احتساب کو موثر بہ ماضی نہیں بلکہ اس کا اطلاق موثر بہ حال کرو اپنی حکومت اپنے وزیروں کا احتساب کرو گے تو نئی روایت بنے گی اور نیا پاکستان بنے گا وگرنہ ماضی کے حکمرانوں کو تو 70سالوں سے سزائیں ملتی رہی ہیں اس میں نیا کیا ہے؟
(2)کرپشن وبائی مرض نہیں، جینیاتی مرض ہے اس کے خلاف مہم چلا کر اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے خلاف نئے سرے سے قانون سازی ہونی چاہئےاور ہر وہ قانونی اور غیر قانونی راستہ روکنا چاہئے جس کی وجہ سے کرپشن ہوتی ہے۔
(3)پاکستان کا مالی سال ختم ہونے کو ہے، ماہرین معیشت کہہ رہے ہیں کہ پنجاب کے ترقیاتی بجٹ کا صرف 20فیصد حصہ خرچ ہوا ہے یہی حال وفاقی حکومت اور خیبر پختونخوا کا ہے ۔اس مسئلے کا فوراً حل نکالا جائے۔
(4)سندھ میں عدم استحکام پیدا نہ کیا جائے۔ زرداری اور پیپلز پارٹی کو ہٹا کر علیحدگی پرستوں، جاگیرداروں اور لسانی گروہوں کے بھان متی کے کنبے کو حکومت دینا ملک اور ریاست کے لئے ٹھیک نہیں ہو گا۔
(5)نواز اور شہباز کو سالوں تک قید رکھنا دانش مندی کے خلاف ہو گا ۔ یاد رہے کہ سہروردی سے معاملات طے نہ کرنے پر شیخ مجیب جیسے انتہاء پسند سامنے آئے اور پھر شیخ مجیب کو جیل بھیج کر معاملہ مکتی باہنی تک پہنچ گیا۔ پنجاب کی پُر امن فضا کو سیاسی اشتعال سے بچائیں اور پارلیمانی طریق کار سے کوئی حل اور کوئی راستہ نکالیں۔
(6)عمران حکومت کو پانچ سال پورے کرنے چاہئیں۔ دوسری طرف عمران حکومت کو پنجاب، وزارت خزانہ کے معاملات پر نظرثانی کرنی چاہئے اور فلاحی مملکت بنانے کے لئے لوگوں کو ریلیف دینا چاہئے۔
مسٹر عمران!
سینئر سیاستدانوں اور پاکستانیوں کا یہ ہدایت نامہ پاکستان کے مفاد میں ہے۔ یہ آپ کے بھی حق میں ہے اور آپ کے مخالفوں کے بھی حق میں ہے۔ آپ اس پر عمل کرتے ہیں تو پاکستان کا نقشہ بدل جائے گا اور واقعی نیا پاکستان بن جائے گا اور اگر آپ اس پر عمل نہیں کرتے تو پھر وہی 70سال پرانا پاکستان برقرار رہے گا بلکہ اور بھی خراب ہو جائے گا۔
والسلام ۔ایم اے جناح ۔ 27جنوری 2019ء
خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سُراغ

امتیاز عالم
ساحر نے ٹھیک ہی تو کہا تھا:
لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سُراغ
سازشیں لاکھ اُڑاتی رہیں ظلمت کی نقاب
لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
ساہیوال کے قریب پولیس گردی کے ہاتھوں خلیل اور اُس کے خاندان کے خون سے کھیلی گئی ہولی کا پردہ تو سہمے ہوئے بچے کی گواہی نے چاک کر دیا تھا۔ اپنے باپ، ماں اور بہن کا خون معصوم بچے کے ذہن پر جم گیا تھا اور وہ بول اُٹھا کہ اُس کے بابا خلیل نے پولیس والوں کی منتیں کیں، لیکن سب کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ تیرہ سالہ بہن نے باہر نکلنے کی کوشش بھی کی لیکن وہ بھی موت کی نیند سلا دی گئی کہ گواہی نہ دے پائے۔ ایک قومی شاہراہ پہ دن دیہاڑے نہتے شہریوں کے قتلِ عام کی شہریوں ہی نے جو ویڈیوز بنائیں وہ وائرل ہوگئیں۔ اور ہر کسی نے دیکھا کہ نہ فرار کی کوشش، نہ پولیس کی مزاحمت کی گئی، نہ مبینہ دہشت گردوں نے فائرنگ کی اور وہ بے بسی سے ریاستی قاتلوں کے ہاتھوں لقمۂ اجل بن گئے۔ خلیل، اُس کی بیوی اور بچی کو جس بے رحمی سے بھونا گیا، اُس نے ہر خاندان کو ہلا کر رکھ دیا ہے کہ یہ ہیں ہماری زندگیوں کے محافظ جو زندگیاں خون میں نہلانے پہ تُلے ہیں۔ سرکاری اداروں کے بے حس ترجمانوں کے بدلتے جھوٹے بیانات اور وزرا کی منافقانہ پردہ پوشیوں نے عوامی ردِّعمل کو اور بھڑکا دیا۔ کبھی کہا گیا کہ سوزوکی گاڑی میں داعش سے جُڑے دہشت گرد جا رہے تھے، دھماکہ خیز مواد اور خود کُش جیکٹس لے جائی جا رہی تھیں، بچے اغوا کیے جا رہے تھے۔ سب جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوا۔ اور وزیرِ داخلہ نے ایک مبینہ دہشت گرد کی نشاندہی کرتے ہوئے باقی مارے جانے والوں کو کولیٹرل ڈمیج قرار دے کر قصہ نمٹانے کی کوشش میں اپنی حکومت کی ساکھ گنوا دی۔ لے دے کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ فیصل اصغر نے پنجاب اسمبلی کو جو اِن کیمرہ بریفنگ دی اُس میں خون آشام کارروائی کا جواز ذیشان نامی شخص کے داعش کے ایک گروہ سے مبینہ تعلق سے جوڑنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ فرض کر لیتے ہیں کہ ذیشان کا کسی دہشت گرد گروہ سے کوئی تعلق بھی تھا تو ذیشان، جلیل اور اُس کے خاندان کے سرنڈر کر دینے کے باوجود کس قانون، کس اختیار اور کس کے حکم پر چار لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔ اس سب کا نہ کوئی جواز ہے اور نہ کوئی وضاحت۔ ماورائے عدالت قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ انٹیلی جنس کی بنیاد پہ کیے گئے نام نہاد پولیس مقابلوں کی صورت میں کب سے جاری ہے۔ کوئی پوچھنے والا ہے نہ کوئی بولنے والا۔
گزشتہ برسوں میں ہزاروں لوگ اس طرح کی کارروائیوں میں لقمہ اجل بن چکے ہیں، نہ کوئی تفتیش ہوئی نہ احتساب۔ دہشت گردی کے عفریت سے کڑے ہاتھوں سے نپٹنا جہاں ضروری تھا، وہیں بندوق بردار سرکاری اہلکاروں کو کسی قانونی ضابطے، جوابدہی اور ضابطۂ عمل کا پابند بنایا جانا بھی ضروری تھا۔ ریاست نے جو آستین کے سانپ پالے تھے پہلے اُنہوں نے ہزارہا پاکستانیوں کو اپنی دہشت کا نشانہ بنایا اور جب وہ ریاست پر پلٹ کر جھپٹے تو ریاست کو ہوش آیا اور اُن سے خلاصی پانے کی کوششوں میں جو آپریشنز کیے گئے ان میں دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ عام لوگ بھی مارے گئے، اُن کے گھر بار برباد ہوئے اور وہ اپنے آبائی گھروں سے بدر ہوئے۔ ہزاروں لاپتہ کر دیئے گئے اور اعلیٰ عدلیہ اور لاپتہ افراد کا کمیشن ان لوگوں کا سراغ لگانے میں بے بس پائے گئے۔ قبائلی علاقوں، بلوچستان اور سندھ میں تو یہ کام بڑے پیمانے پہ ہوا اور پنجاب میں ماورائے عدالت کے واقعات پراسرار خاموشی کے پردوں میں چھپے رہے۔ تاآنکہ ساہیوال میں پولیس گردی نے خفیہ آپریشنز کی ہولناکی سے پردہ اُٹھا دیا۔ شہریوں کے حقِ زندگی پہ ڈاکہ ڈالنے کا اختیار ریاست اور اس کے کسی انتظامی ادارے کو نہیں۔ نہ ہی اپنے ہی شہریوں کو اغوا کر کے غائب کر دینے کا اختیار کسی کو حاصل ہے۔ نہ ہی ریاست کو حق ہے کہ وہ کسی شہری کے ساتھ وہ سلوک کرے جو ساہیوال میں ایک معصوم خاندان کے ریاستی قتل کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ یہ ایک ایسا قومی المیہ ہے جس پر ہر شخص، ہر جماعت اور ہر ادارے کو غور کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ ریاستی دہشت گردی کے جواز ڈھونڈے جائیں کہ دہشت گردی کا خاتمہ کرتے کرتے ریاست ہی دہشت پسند ہو جائے۔ ایسے میں بے بس اور ہراساں شہری سیاستدانوں میں جاری بیہودہ الزام بازی پہ خون کے آنسو نہ روئیں تو کیا کریں۔ تحریکِ انصاف جو حکومت میں ہے اس پہ پردہ ڈالنے میں مصروف ہے اور مسلم لیگ نواز کو ماڈل ٹائون کا قتلِ عام یاد دلا رہی ہے اور مسلم لیگ نواز ہے کہ لاہور کے ایک خاندان کے قتل پہ عوام کی داد رسی کے لیے سڑکوں پہ احتجاج کے لیے تیار نہیں۔ نہ ہی پیپلز پارٹی والے کہیں عوام کے دُکھ سکھ میں شامل ہونے کو تیار ہیں۔ عدالتِ عظمی کراچی میں ہزاروں عمارتیں گرانے پہ تومصر ہے، لیکن ریاستی بربریت پہ انسانی حقوق کے دفاع پہ خاموشی طاری ہے۔ نقیب اللہ محسود کے نام نہاد پولیس مقابلے کی رپورٹ بھی سامنے آ گئی ہے اور مقتولین کو دہشت گردی کے الزامات سے تو بری کر دیا گیا ہے لیکن رائو انوار آزادانہ دندناتا پھر رہا ہے کہ وہ پولیس کا رول ماڈل ہے۔ ایسے میں پولیس اصلاحات کی باتیں لغو لگتی ہیں جب قانون کی پروانہ کرنے والے پولیس آفیسر دبنگ افسر کہلاتے ہیں۔ 100 ماڈل پولیس تھانوں کا قیام اور نیا پولیس قانون کیسے قانون نافذ کرنے والوں کے ذہن اور کیریکٹر کو بدل سکتا ہے؟ ریاستی جبر کے اداروں کا قیام برطانوی سامراج نے جنتا کو غلام بنانے اور دبانے کے لیے کیا تھا اور ان اداروں کا عوام دشمن کردار پاکستان کے خواص اور حکمرانوں کے لیے برقرار رکھا گیا۔ اس سے زیادہ المناک بات کیا ہوگی کہ جو خلیل اور اُس کے خاندان کے قاتل ہیں وہی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم میں ہیں۔ اس سے زیادہ مفادات کا ٹکرائو (Conflict of Interest) کیا ہوگا؟ جوڈیشل کمیشن بنائے جانے کے مطالبات بھی سامنے آ رہے ہیں، لیکن ماضی میں ایسے واقعات پر قائم کیے گئے کمیشنوں کے کوئی خاطر خواہ نتائج بھی تو سامنے نہیں آئے۔ ایسے میں کوئی کسے وکیل کرے اور کس سے منصفی چاہے
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)