جمعہ، 25 جنوری، 2019

چیف جسٹس پاکستان نثار کے دور کا تجزیہ

تحریر: بابر ستار                    


ہمارے کلچر میں گزر جانے والے شخص کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا برا سمجھا جاتا ہے۔ ہم ان کے لیے صرف بخشش کی دعا کرتے ہیں۔ کسی کے چلے جانے کے بعد اس کے کارناموں کو نظر انداز کر دینا بھی غلط ہے۔ لیکن ریٹائرڈ چیف جسٹس ثاقب نثار کی تعریف میں کچھ لکھنا کوئی ذاتی معاملہ نہیں ہے۔ جس شخص نے بغیر دباؤ کے ہمارے ملک کے معاملات پر حکومت کی ہو، تو سبق لینے کے لیے اس کے رویے اور اعمال پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ ایک تقویت پسند وفادار شہری کے طور پر ہم میں سے ہر ایک کے لیے ان کے کارناموں کے کچھ اثرات واقع ہوئے ہیں جن سے واقفیت لازمی ہے۔
اہم سوالات جو پوچھے جانے کے قابل ہیں یہ ہیں: کیا ان کا سو موٹو اختیارات کا استعمال آئینی تھا (اور اس کے نتائج سود مند تھے؟) کیا انہوں نے عدلیہ کی آزادی کی مدد کی یا اسے مجروح کیا؟ کیا انہوں نے عدلیہ کی بطور غیر جانب دار ثالث کی تصویر پیش کی؟ کیا انہوں نے آئین کی اختیارات کی درجہ بندی کی سکیم کو تقویت دی یا اسے کمزور کیا؟ کیا وہ توجہ پانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے یہ نرم رویہ اپنانے کی وجہ سے جانے جاتے تھے؟ کیا ان کا رویہ ایک جج کے عہدہ کے مطابق تھا؟ کیا ان کی بحیثیت مجموعی کارکردگی سے وہ ایک ایسا ملک چھوڑ کر گئے جو پہلے سے بہتر اور زیادہ مستحکم ہو؟
سپیریئر کورٹ جج کے طور پر اٹھارہ سال کے کام کرنے کے بعد جسٹس نثار کو ایک قانون فہم اور سنجیدہ ذہنیت کے حامل شخصیت کے طور پرجانا جاتا تھا اور ان سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔ جسٹس افتخار چوہدری کی طرف سے اختیارات کے غلط استعمال پر ثاقب نثار کی ناراضگی کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی۔ جب جسٹس نثار نے کرسی سنبھالی تو توقع تھی کہ وہ عدالتی اصلاحات لائیں گے، اپنے ہاؤس کو ٹھیک کریں گے، عدالتی مہم جوئی کو کنٹرول کے لیے مناسب اقدامات کریں گے اور ملک کی سب سے اعلی عدالت میں سنجیدگی کا ماحول پیدا کریں گے۔ لیکن چیف جسٹس بننے کے 10 ماہ کے اندر ہی وہ اپنی سمت کھو بیٹھے۔
چیف جسٹس نثار نے عوامی سطح پر وعدہ کیا تھا کہ آرٹیکل 184 (3) کی حدود اور سکوپ کو اپنی نگرانی میں تعین کریں گے۔ وہ اپنی بات پر پورے نہ اترے بلکہ 184 (3) کا لگا تار استعمال کرتے رہے۔ جس طرح سے انہوں نے اس اختیار کا استعمال کیا اور اپنی عدالت کو چلایا اس سے قانون کی حکمرانی اور مردوں کی حکمرانی کے بیچ کا فرق ختم ہو نے لگا۔ وہ ایک بادشاہ کے دربار کا منظر پیش کرنے لگے۔ انہوں نے اپنی مرضی سے انصاف فراہم کرنے کی روش اپنائی۔
اس کی کیا اہمیت ہے؟ امریکی سپریم کورٹ کے جسٹس الیٹو ایک حالیہ کیس میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”ایک جج کسی خاص کیس میں کسی ترجیحی بنیاد پر نتیجہ نہیں نکال سکتا۔ جج کا واحد فرض قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہے۔” ”ہم ایک آئین کے تابع ہیں، لیکن آئین وہ ہے جو جج کہتے ہیں،” چارلز ہیوز نے مزاح کرتے ہوئے کہا تھا۔ لیکن قانونی متن اور عدالتی کارناموں کو اس نقطہ نظر سے دیکھنے کے عمل کو ایک جاہلیت سمجھا جاتا ہے۔ کسی لفظ کا مطلب کسی خاص نقطہ نظر سے ہٹ کر نہیں نکالا جا سکتا، کم از کم کسی سادہ سی بات کا حلیہ بگاڑ کر تو بالکل بھی نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نثار نے مصطفی امپیکس میں کہا کہ وفاقی حکومت کا مطلب کابینہ ہے اور یہ کہ وزیر اعظم کے پاس حکومت کے نام پر اکیلے ہی کارروائی کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ بیانیہ اختیار کر کے انہوں نے یہ تعین کر دیا کہ سپریم کورٹ سے مراد بھی پوری عدالت ہے نہ کہ صرف چیف جسٹس۔ پھر بھی انہوں نے 184 (3) کا استعمال صرف چیف جسٹس کے اختیارات کے اندر شامل کر کے کیا۔ جب ایک کارروائی کے دوران جسٹس فائز عیسی نے سوال کیا کہ 184 (3) کو کیسے استعمال کیا جائے تو چیف جسٹس پاکستان نے اچانک اس بینچ کو توڑ کر نیا بینچ ترتیب دے دیا (جسٹس فائز عیسی کا اختلافی نوٹ اور حال ہی میں سامنے آنے والا جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ جس میں انہوں نے اس عمل کو عدالتی آزادی کا غلط استعمال قرار دیا ریکارڈ پر موجود ہے۔)
صرف یہ موقع نہیں ہے جب چیف جسٹس پاکستان نثار نے 184 (3) کو استعمال کرتے ہوئے عدلیہ کی آزادی کو مجروح کیا ہو۔ ان کے دور میں آئینی طور پر خودمختار اعلی عدالتوں کو ماتحت عدالتوں کی طرح ٹریٹ کیا گیا اور ان کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اختیار کیا گیا۔ انہوں نے کیسز کا از خود نوٹس لیا اور ان کا فیصلہ کیا جب کہ اصل معاملات ابھی ہائی کورٹس کے سامنے زیر التوا پڑے تھے۔ انہوں نے ہائی کورٹ کے بینچ خود بنائے جو کہ صرف ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا دائرہ اختیار تھا۔ ہم نے انہیں سیشن کے دوران کورٹ کا معائنہ کرتے اور ایک ڈسٹرکٹ کورٹ جج کو بے عزت کرتے دیکھا جب کہ یہ اختیار صرف ہائی کورٹ کے پاس ہوتا ہے نہ کہ سپریم کورٹ کے پاس۔
چیف جسٹس نثار کی ایکٹوازم سے عدلیہ کو جو نقصان پہنچا (عوام کا عدالتوں پر سے اعتماد ختم ہونا، قانون کی حکمرانی سے بد دلی، ملک میں سیاسی، معاشی اور قانونی عدم استحکم پیدا کرنا وغیرہ ) اس کے اثرات کافی عرصۃ تک ہمارا پیچھا کرتے رہیں گے۔ چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری کی ایکٹوازم سے ہونے والے نقصانات اس کے مقابلے میں پھیکے پڑ گئے ہیں۔ مشرف کے ججوں کو نظر بند کرنے اور گھر بھیجنے کے بعد جب افتخار چوہدری بحال ہوئے اور انہوں نے جو اپنی کارکردگی کے ذریعے عدلیہ کو ایک اعلی مقام دلوایا۔ اب اگر اختیارات کی تقسیم میں تیسری طاقت تھی تو وہ عدلیہ تھی۔
ان کے دور میں مشرف کو غاصب قرار دیا گیا، عدالت میں لاپتہ افراد کو سٹریچر پر ڈال کر پیش کیا گیا، اصغر خان کیس پر فیصلہ ہوا اور جرنیلوں کو سیاسی انجینئرنگ پر احتساب کے عمل سے گزارا گیا۔ اس سے لگتا تھا کہ عدلیہ کا اسٹیبلشمنٹ کے لیے کام کرنا اب ماضی بن چکا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کےدور میں یہ تاثر محو ہو گیا۔ مسنگ پرسنز کے معاملے میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ ایک طرف بڑے بڑوں کی پگڑیاں اچھالی گئیں تو دوسری طرف راؤ انوار کو خاص عزت افزائی سے نوازا گیا۔ اصغر خان کیس دفن ہونے سے بمشکل بچ سکا۔
سیاسی کیسز کی ٹائمنگ جن کے گہرے سیاسی اثرات دیکھنے کو ملے، ججز کے عدالت میں ریمارکس اور اس کے ذریعے میڈیا ٹرائل بہت اہمیت کے حامل رہے (جیسے کہ نئے منتخب شدہ سینیٹرز کی غیر ملکی قومیتوں کا سوموٹو اور سینیٹ انتخابات سے پہلے حلف لینے کے احکامات)۔ چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کے دور میں ہم نے 184 (3) کے تحت آرٹیکل 62/63 کو ایک خطرے کے طور پر دیکھا اور دھمکی آمیز رویہ نے آرٹیکل 58 (2) (بی) کی ناخوشگوار یادیں تازہ کر دیں۔
اگر چیف جسٹس افتخار چوہدری نے سٹیل ملز کی نجکاری ختم کر کے معاشی عدم استحکام پیدا کیا تو جسٹس ثاقب نثار نے اس ایکٹوازم کو اگلے لیول تک پہنچا دیا۔ اگر چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری نے عدالتی نظر ثانی کے نام پر معائدوں کی روح پر اثر انداز ہونےکی کوشش کی جیسا کہ ریکو ڈک کیس)، تو چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے اپنے ہیی ماضی کے فیصلوں کو ڈی گریڈ کرتے ہوئے ججوں کو اپنی چائس کا پالیسی بنانے پر وارننگ دی اور خود اپنی مرضی کی پالیسیوں پر کاربند رہے۔
پھر انہیں خیال آیا کہ وہ اپنے اختیارات استعمال کر کے ڈیم بنانے کی جدو جہد کریں۔ یہ فیصلہ کر کے انہوں نے نہ صرف حکومت کے دائرہ کار میں دخل دیا بلکہ انہوں اپنے عدالتی اختیارات کو استعمال کر کے جرمانے بھی بٹورنے شروع کیے اور حکم دیا کہ وہ جرمانے ڈیم فنڈ میں جمع کیے جائیں گے۔ انہوں نے ڈیم کی افادیت کے بارے میں تنقیدی رائے رکھنے والوں کے لیے غداری کے قانون کے ذریعے کارروائی کرنے کی دھمکی دی۔ انہوں نے سب کو یہ بتا دیا کہ اگر ان کی نظر میں عزت دار بننا ہے تو ڈیم فنڈ میں حصہ ڈالنا ضروری ہو گا۔
ان کے دور میں، عدالتی ماہرین کی کمی کی وجہ سے کیا ہو سکتا ہے اور عدلیہ کے دائرہ کار میں کیا آتا ہے اور کیا نہیں آتا کے بارے میں سوالات بے معنی ہو کر رہ گئے۔ انہوں نے ایگزیکٹو کو حکم دیا کہ وہ ان کی مرضی کے مطابق پالیسیاں بنائے اور قانو ن سازی کے ذریعے ان کی من مانی سفارشات کو قانونی شکل دے۔ (اس میں ایسے فیصلے بھی شامل تھے کہ کونسے ٹیکس لگائے جائیں اور ان کی وصولی کیسے کی جائے۔ ) جس طرح کا رویہ سیمنٹ، ڈیری اور مشروبات کی صنعتوں کے ساتھ اپنایا گیا، اور پرائیویٹ ہسپتالوں اور سکولوں سے جو سلوک کیا گیا اس کے بعد ان تمام شعبوں میں جو لوگ اب بھی سرمایہ کاری کر رہے ہیں انہیں خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے۔
چیف جسٹس پاکستان نثار کی عدالت میں داخل ہونے والا ہر شخص اپنی گارنٹی پر ہی داخل ہو سکتا تھا۔ ہماری اعلی ترین عدالت میں اس طرح کی بد دیانتی دیکھ کر شرمندگی محسوس ہوتی تھی۔ بد تمیزی اور بد تہذیبی کی کوئی حد نہ تھی۔ اپنا نقطہ بیان کرنے والے کی تضحیک کی جاتی تھی اور بڑے بڑے بیوروکریٹس کی ٹانگیں کانپتی تھیں اور وہ دعا کرتے تھے کہ ان کی عزت بچی رہے اور ذلت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ سینئر وکلا ایسے کیس لینے سے گریزاں تھے جن کی سماعت کرنے والے ججز میں ثاقب نثار موجود ہوں۔ یہ نئے معمول کے حالات تھے۔
ایک بات جب ہو چکی اسے واپس کیا جا سکتا ہے؟ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے 184 (3) کے غلط استعمال کی بنیاد رکھی۔ جب ایسا ہو چکا تو اگلے چیف جسٹس ثاقب نثار سے یہی توقع تھی کہ وہ اس غلط استعمال کو اگلی سطح تک لے جائیں گے۔ ثاقب نثار نے ایک شتر بے مہار کی طرح کا رویہ اپنائے رکھا۔ ایسا رویہ اختیار کرنے سے سب سے زیادہ خطرہ قانون کی حکمرانی کو تھا جسے اپنے ذاتی مقاصد اور شہرت کی خاطر قربان کر دیا گیا۔ اور مزید افسوسناک یہ حقیقت تھی کہ اس پر کسی طرف سے رد عمل کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ نہ سول سوسائٹی کی طرف سے، نہ کورٹ بار کی طرف سے اور نہ میڈیا اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے کوئی رد عمل آ سکا۔
آئیں چیف جسٹس پاکستان نثار کو الوداع کہتے ہوئے ان کے جانشین چیف جسٹس پاکستان کے وہ الفاظ دہراتے ہیں جو انہوں نے خلیل جبران کا حوالہ دیتے ہوئے ذکر کیے تھے: “قابل رحم ہے وہ قوم جو زبردستی اور دھونس کا رویہ اپنانے والے کو اپنا ہیرو مانتی ہے۔ ”

حضور جان کی امان ملے گی؟

بابا ڈیم ...

اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ایسے سیاستدانوں کی بہتات ہے جنہیں اپنے تجربے کی بنیاد پر ایمان کی حد تک یقین ہے کہ تمام لوگوں کو ہمیشہ کیلئے بیوقوف بنایا جا سکتا ہے۔ (امریکی مصنف اور کالم نگار، فرینکلن پی ایڈمز)
وطنِ عزیز میں بے وقوف بنانے کے مشغلے پر محض سیاستدانوں کی اجارہ داری نہیں بلکہ جج ہوں یا جرنیل حسب توفیق سب مسیحا اور نجات دہندہ بن کر قوم سے شغل لگانے اور دل لگی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ البرٹ ہوبرڈ نے زمینی حقائق کا اِدراک کرتے ہوئے کہا تھا، ہر شخص روزانہ کم از کم پانچ منٹ کیلئے بے وقوف بنتا ہے مگر عقلمندی یہ ہے کہ بیوقوفی کا دورانیہ بڑھنے نہ پائے۔ ہمارا قومی المیہ مگر یہ ہے کہ بیوقوفی کا دورانیہ بتدریج بڑھتا ہی چلا گیا کیونکہ بقول آئن اسٹائن، عقل و دانش محدود ہو سکتی ہے مگر بے وقوفی اور حماقت کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں حکومتوں نے کئی بار عوام کے سامنے جھولی پھیلانے کی شعبدہ بازی کی اور لوگوں نے ہر بار ایسی مہمات میں نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ کتے کے منہ میں ہاتھی دانت اُگنے کی امید بھی لگا لی۔ 1965ء کی جنگ میں بھارت نے لاہور سیالکوٹ سیکٹر سے بین الاقوامی سرحد عبور کی تو فیلڈ مارشل ایوب خان نے ٹینکوں کی خریداری کیلئے عوام سے تعاون کی اپیل کی۔ لوگوں نے ’’ٹیڈی پیسہ ٹینک مہم‘‘ میں قومی جوش و جذبے سے حصہ لیا۔ 17دن بعد اقوام متحدہ کے ذریعے جنگ بندی کا راستہ تلاش کیا گیا اور ٹیڈی پیسہ دینے والوں کا جذبہ معاہدۂ تاشقند کے ذریعے سرد کر دیا گیا۔
یادش بخیر! قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے بھی گھاس کھا کر ایٹم بم بنانے کے بعد دورِ اقتدار کے آخری برس لوگوں کو اپنی مدد آپ کے تحت ترقی کرنے کا خواب دکھایا، ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کے ذریعے اپیل کی گئی کہ روزانہ ایک روپیہ وزیراعظم کے ترقیاتی فنڈ میں جمع کروائیں تو ملک ترقی و خوشحالی کی منازل طے کر سکتا ہے لیکن آج تک لوگ روٹی، کپڑا، مکان کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ مردِ مومن مردِ حق، جنرل ضیاء الحق تشریف لائے تو انہوں نے تعلیمی انقلاب کے پیش نظر عوام سے چندہ مانگنے کے بجائے زبردستی رقم وصول کرنے کیلئے اقراء سرچارج لگا دیا۔ یکم جولائی 1985ء سے 30جون 1994ء تک اس مد میں 65ارب روپے کا ’’بھتہ‘‘ وصول کیا گیا لیکن ان پیسوں سے کونسی آکسفورڈ اور کیمرج یونیورسٹی بنی؟ اگر آپ کو معلوم ہو تو ضرور میرے علم میں اضافہ کیجئے گا۔ میاں نواز شریف کی ’’قرض اتارو، ملک سنوارو‘‘ مہم کسے یاد نہیں۔ 2672ارب روپے کے ملکی و غیر ملکی قرضے اتارنے کیلئے کشکول پھیلایا گیا تو سالہا سال کی تگ و دو کے بعد چندہ، قرض حسنہ اور ٹرم ڈیپازٹ شامل کرکے مجموعی طور پر 2ارب 80کروڑ روپے جمع ہوئے۔ ایک ارب 70کروڑ روپے داخلی قرضوں کی مد میں ادا کر دیئے گئے جبکہ باقی ماندہ ایک ارب 10کروڑ روپے اب بھی اکائونٹس میں موجود ہیں۔ 2017ء میں اسٹیٹ بینک نے کمرشل بینکوں کو یہ رقوم واپس کرنے کیلئے کلیم جمع کرنے اور ادائیگی کرنے کیلئے ایک سرکلر بھی جاری کیا لیکن کوئی پیشرفت نہ ہو سکی۔ پھر جنرل پرویز مشرف کے دور میں 2005ء کے زلزلہ زدگان کیلئے صدارتی ریلیف فنڈ تو کل کا قصہ ہے۔ تب بھی سرکاری دبائو پر سرکاری ملازمین کی تین دن کی تنخواہیں اینٹھ لی گئیں، زور و شور سے چلائی گئی مہم کے نتیجے میں بلاناغہ اہم شخصیات کی جانب سے عطیات دیئے جانے کا اعلان ہوتا رہا مگر زلزلہ متاثرین کی آباد کاری کا مسئلہ تب تک حل نہ ہوا جب تک غیر ملکی امداد کا چھابہ نہ آ گیا۔
محولا بالا تجربات کے باوجود سابقہ چیف جسٹس، جسٹس ثاقب نثار نے دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کیلئے اپنی نگرانی میں فنڈ قائم کیا تو لوگ ایک بار پھر جھانسے میں آگئے۔ میں نے گزشتہ برس 26جولائی کو لکھے گئے کالم میں واضح حساب کتاب کی روشنی میں یہ بتانے کی کوشش کی کہ چندہ جمع کر کے ڈیم بنانا کسی دیوانے اور مجذوب کا خواب ہی ہو سکتا ہے کیونکہ حقیقت میں ایسا ممکن نہیں۔ میں نے لکھا ’’مہمند ڈیم کو چھوڑیں، فی الحال صرف دیامیر بھاشا ڈیم کی بات کرتے ہیں۔ اس منصوبے کی لاگت 1450ارب روپے ہے۔ صرف پانی ذخیرہ کرنے یعنی ڈیم بنانے کیلئے 650ارب روپے درکار ہیں جبکہ باقی ماندہ رقم بجلی پیدا کرنے کیلئے ٹربائن لگانے اور اس سے متعلقہ دیگر انفرااسٹرکچر کیلئے درکار ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 2018ء میں اس منصوبے کی منظوری دی تو زمین کی خریداری اور متاثرین کی آباد کاری کیلئے 101ارب روپے مختص کئے گئے۔ اس میں سے 72ارب روپے جاری کر دیئے گئے جس سے زمین کے حصول کا 85فیصد کام مکمل کر لیا گیا ہے۔ فی الوقت تو ڈیم بنانے کیلئے کھولے گئے اکائونٹ میں اوسطاً یومیہ ایک کروڑ 60لاکھ روپے آ رہے ہیں جو کچھ عرصہ بعد بتدریج کم ہونا شروع ہو جائیں گے لیکن فرض کریں عطیات دینے کا یہ جذبہ ماند ہونے کے بجائے بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ اگر روزانہ 2کروڑ روپے آئیں تو 1450ارب روپے جمع ہونے میں کتنا عرصہ درکار ہو گا؟ 199سال۔ اچھا چلیں! ایک اور پہلو سے نہایت مثبت اور قابلِ عمل انداز میں اس کارِ خیر کا جائزہ لیتے ہیں، یہ منصوبہ خیراتی انداز میں مکمل نہیں کیا جا سکتا تو کیا ہوا؟ حکومت سے تعاون کرنے کیلئے آٹے میں نمک کی حد تک تو فنڈز جمع کر کے دیئے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈیم کیلئے زمین کے حصول اور متاثرین کی آباد کاری کیلئے جو 101ارب روپے درکار ہیں، وہ عطیات کی صورت میں جمع کر لئے جائیں۔ لیکن یہ آٹے میں نمک برابر رقم اکٹھی کرنے میں بھی 5050دن یعنی تقریباً 13سال لگ جائیں گے اور تب تک یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا تو لاگت بھی کئی گنا بڑھ چکی ہو گی‘‘۔
بہرحال ڈیم فنڈ کیلئے 6ماہ کے دوران ٹی وی چینلز اور اخبارات نے 13ارب روپے کے مفت اشتہارات چلائے اور اس کے بدلے میں صرف 9ارب روپے جمع ہو سکے۔ جس روز جسٹس ثاقب نثار چیف جسٹس کے طور پر سبکدوش ہو رہے تھے، ڈیم فنڈ اکائونٹ میں 9ارب 28کروڑ موجود تھے اور اب 9ارب 42کروڑ موجود ہیں یعنی 7دن میں محض 13کروڑ کا اضافہ ہوا۔ اب جبکہ نئے چیف جسٹس برملا کہہ چکے ہیں کہ وہ مقدمات کے فیصلوں میں غیر ضروری تاخیر کے خلاف ڈیم بنانا چاہتے ہیں، جو ان کے فرائض میں شامل ہے تو کیوں نہ اس ڈیم فنڈ کو ختم کردیا جائے تاکہ ہم جیسے بلڈی ڈیم فول خوابوں کی دنیا سے نکل آئیں اور ڈیم بنانے کیلئے کوئی حقیقی تدبیر کی جا سکے۔ 

نعیم الحق کا شہبازشریف کو غصیلہ ٹویٹ

نعیم الحق کا شہبازشریف کو غصیلہ ٹویٹ
نعیم الحق صاحب تحریک انصاف کے قیام کے دنوں ہی سے عمران خان کے معتمدِ خاص ہیں۔ غصیلے آدمی ہیں۔ کئی بار ٹاک شوز میں سیاسی مخالفین کو طیش میں آکر تھپڑمارتے اور ان پر گلاس پھینکتے رہے ہیں۔ اپنی جماعت کے اقتدار میں آجانے کے پانچ ماہ بعد بھی انہیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا مگر دشوار محسوس ہو رہا ہے کہ اب ان کی جماعت حکومت میں ہے اور حکمرانوں سے دل بڑارکھنے کی توقع رکھی جاتی ہے۔بدھ کی شام وزیر خزانہ اسد عمر ملکی معیشت کے سانس بحال کرنے کا دعویٰ کرنے کے بعد اسے بستر سے اُٹھ کر چلنے اور پھر دوڑنے کے قابل بنانے کے لئے تیار کردہ نسخہ متعارف کروانے کے لئے اُٹھے تو پاکستان مسلم لیگ نون کے اراکینِ اسمبلی نے ہنگامہ برپا کردیا۔ ان کے شور سے صحیح معنوں میں پریشان ہم صحافی ہوئے۔ پریس گیلری یا لائونج میں بیٹھ کر اسد عمر کی تقریر کا ایک فقرہ بھی سننا محال ہوگیا۔
ہماری اسمبلی میں ایسا ہنگامہ مگر پہلی بار نہیں ہوا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے دو ادوار گزرجانے کے بعد بھی جنرل مشرف نے جس پارلیمان کو ابھرنے دیا۔ اس کے اجلاسوں میں اپوزیشن کے شور شرابے کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ وہاں کا معمول ہوئے ہنگامے کی وجہ سے جنرل مشرف ایک بار بطور صدر پارلیمان سے سالانہ خطاب کرنے تشریف لائے تو ہوا میں مکا لہراتے ہوئے اپنی طاقت کے اظہار پر مجبور ہوئے۔
مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے درمیان ’’مک مکا‘‘ کے الزامات کے باوجود یوسف رضا گیلانی کے گرد کئی بار اسمبلی کے ایوان میں گھیرا ڈال کر ان سے سپریم کورٹ سے آئے ایک فیصلے کی وجہ سے استعفیٰ مانگا گیا۔ نواز شریف کی تیسری حکومت کے دوران تحریک انصاف نے پارلیمان کو مسلسل ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کی آماجگاہ قرار دیا۔ اسے دھاندلی کی پیداوار ٹھہراتے ہوئے 126دنوں تک پھیلادھرنا بھی ہوا۔
ماضی کے تناظر میں بدھ کی شام ہوا شور شرابہ کافی ’’مہذب‘‘ دکھائی دیا۔ نعیم الحق صاحب مگر اسے بھی برداشت نہ کر پائے۔ غصے میں ایک ٹویٹ لکھ کر شہباز شریف کو یاد دلایا کہ اصولی طورپر وہ ان دنوں نیب کے بنائے مقدمات کی وجہ سے جیل میں رکھنے کے قابل قیدی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے سپیکر نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے انہیں ایوان میں لانے کی اجازت دے رکھی ہے۔شہباز شریف مگر اپنے ’’چمچوں‘‘ کو ہنگامہ آرائی سے روک نہیں رہے ہیں۔بہتر یہی ہے کہ فیصلہ کرلیں کہ اسپیکر کی مہربانی سے ایوان میں آنے کی سہولت حاصل کرنا ہے یا جیل میں رہنا ہے۔

نعیم الحق کے لکھے اس ٹویٹ سے ثابت ہوگیا کہ تحریک انصاف کے رہنمائوں کی اکثریت اس بات پر بضد ہے کہ ان کے سیاسی مخالفین ہر صورت سرجھکاکر ان کے اقتدار کے دنوں میں غلامانہ خاموشی اختیار کر لیں وگرنہ ۔۔۔
قومی اسمبلی کے قواعد وضوابط واضح الفاظ میں سپیکر کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ کسی مقدمے میں زیر حراست رکن اسمبلی کو پارلیمان کی کارروائی میں حصہ لینے کے لئے تھانے یا جیل سے ایوان میں لانے کا حکم جاری کرے۔ یہ روایت دنیا کی کئی پارلیمانوں میں ہے۔ اس کے پیچھے یہ اصول کارفرما ہے کہ قومی اسمبلی کی کارروائی میں حصہ لینا ایک منتخب نمائندے کا حق ہے کیونکہ لوگوں نے اسے اپنے خیالات کی نمائندگی کے لئے منتخب کیا ہے۔
تحریک انصاف مگر ’’سیاستِ کہنہ‘‘ کے اس اصول کو ناپسند کرتی ہے۔ کرپشن سے شدید نفرت کا دعویٰ کرنے والے بضد ہیںکہ ’’چور اور لٹیرے‘‘ اگر رائے دہندگان کی ’’جہالت‘‘ کی وجہ سے پارلیمان کے رکن منتخب ہوجائیں تو بھی ’’چور اور لٹیرے‘‘ ہی رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیے جو عام ’’چور اور لٹیرے‘‘ کے ساتھ ہوتا ہے۔ شہباز شریف یا خواجہ سعد رفیق کا اصل مقام جیل کی کوٹھری ہے۔ انہیں ’’مقدس‘‘ ایوان میں بیٹھنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔
شہباز شریف کو ’’مقدس‘‘ ایوان سے دور رکھنے کے لئے راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراط نے بھی کافی شور مچایا تھا۔ ان کا مچایا شورکسی کام نہیں آیا تو کئی بار ٹی وی کیمروں کے روبرو یہ وعدہ کرتے رہے کہ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو ’’مقدس‘‘ ایوان سے دور رکھنے کے لئے وہ اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کریں گے۔اس دعوے پر عملد رآمد کی زحمت اٹھانے کا اگرچہ انہوں نے تردد نہیں کیا۔
راولپنڈی کے بقراطِ عصرایک جہاں دیدہ سیاست دان ہیں۔ کئی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوچکے ہیں۔ محترمہ کی دوسری حکومت میں انہیں اپنی لال حویلی میں ممنوعہ بور کی بندوق رکھنے کے الزام میں سزا بھی ہوئی تھی۔ مجھ ایسے کئی بدنصیب ان دنوں بہت تواترسے حکومت کو اپنے کالموں کے ذریعے یاد دلاتے رہے کہ جیل میں ہونے کے باوجود قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت شیخ رشید کا حق ہے۔
آصف علی زرداری کے لئے اس حق کے حصول کے لئے پیپلز پارٹی نے کئی مہینے ایک طویل پارلیمانی جنگ لڑی تھی۔ اس دور کے وزیر اعلیٰ سندھ جام صادق مرحوم مگر بہت ڈھٹائی سے یہ اعلان کرتے رہے کہ وہ ’’اپنے قیدی‘‘ کو سندھ کی جیل سے اسلام آباد آنے نہیں دیں گے۔ ان کی ڈھٹائی کو ان دنوں کے صدر غلام اسحاق خان کی مکمل سرپرستی حاصل تھی۔ بالآخر قومی اسمبلی کے سپیکر گوہر ایوب خان سے محترمہ بے نظیر بھٹو کی ایک طویل ملاقات ہوئی۔اس ملاقات کے بعد قومی اسمبلی کے قواعد وضوابط میں صراحت سے لکھ دیا گیا کہ سپیکر جب کسی زیر حراست رکن کی پارلیمان میں موجودگی کا حکم جاری کرے تو اس کی تعمیل میں لیت ولعل نہیں برتی جائے گی۔ہماری سیاسی تاریخ کا ایک تلخ واقعہ یہ بھی ہے کہ شیخ رشید کے ضمن میں پیپلز پارٹی اپنی کوششوں سے متعارف کردہ اس ضابطے کی تذلیل کرتی نظر آئی۔
اس بے اصولی کو ایمان داری کی بات ہے یوسف رضا گیلانی نے بطور سپیکر ہضم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ وزیر اعظم کو صاف الفاظ میں بتادیا کہ اگر شیخ رشید کوقومی اسمبلی کے اجلاسوں میں نہیں لایا گیا تو وہ اس کی صدارت چھوڑ دیں گے۔ یوسف رضا گیلانی کی ضد ہی بالآخر شیخ رشید کو جیل سے اسمبلی کے اجلاس میں لائی۔
اس سہولت سے بذاتِ خود فائدہ اٹھانے کی تاریخ طے ہوتے ہوئے بھی راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراط شہباز شریف کے زیرحراست ہونے کے باوجود قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں آنے پر چیں بہ جبیں رہتے ہیں۔اب نعیم الحق صاحب نے بھی اس ضمن میں ’’لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو‘‘ مارکہ ٹویٹ لکھ دیا ہے۔
جان کی امان پاتے ہوئے تحریک انصاف کے غصیلے اصول پسندوں کو یاد فقط یہ دلانا ہے کہ آج کی قومی اسمبلی میں ان کی جماعت کو اکثریت حاصل ہے۔ اگرواقعتا وہ کسی ’’چور اور لٹیرے‘‘ٹھہرائے رکنِ پارلیمان کی ’’مقدس‘‘ایوان میں موجودگی گوارہ نہیں کرسکتے تو اسمبلی کے قاعدہ نمبر103کو ختم کردیں۔اس قاعدے کے اطلاق ہی سے سپیکر رکن اسمبلی کی ایوان میں موجودگی کا حکم جاری کرتا ہے۔ خوامخواہ کی بیان بازی اور تڑیاں لگانے کے بجائے اس قاعدے کے خاتمے کے لئے عملی قدم اٹھائیں اور ’’مقدس‘‘ ایوان کو ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ سے پاک کردیں۔