جمعہ، 28 دسمبر، 2018

جنات کی اصلیت


جنات کا وجود قران مجید اور احادیث نبوی سے ثابت ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کا قول ہے کی 
انسان کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے جنات کو تخلیق کیا گیا تھا۔حضرت عبداللہ بن عباس کا کہنا ہے کہ آگ کی گرم لو جو شعلے میں نظر نہیں آتی اس لو سے جنات کو تخلیق کیا گیا ہے۔ مولاناابواعلی مودوی نے بھی ابن عباس کے قول کی تصدیق کی ہے۔
جنات عام طور پر انسانوں کو نظر نہیں آتے ۔ مگر ہمارے ارد گرد رونما ہونے والے واقعات ہمیں جنات کی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ جنات پر کھل کر علمی بحث ایک مسلمان ماہر حیوانات اورمحقق جناب عمر بن بحر بن محبوب نے کی ہے جو بصرہ کے رہنے والے تھے۔انھیں لوگ ان کی کنیت ابو عثمان کی بجائے ْ جاحظ ْ کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے۔ اس کا سبب ان کے چہر ے اور آنکھوں کی غیر معمولی بناوٹ تھی۔ ان کی کتاب ْ حیوان جاحظ ْ میں جنات پر بحث کی گئی ہے۔ مصنف کے مطابق جنات کی کئی اقسام ہیں، کچھ جن ادمیوں مین مل جل کر رہتے ہیں اور کسی کو کوئی ضرر یا تکلیف نہیں پہنچاتے۔ ایسے جنا ت کو عامر کہا جاتا ہے۔ شرارتی جنات جو لوگوں کو ڈراتے ہیں مگر نقصان نہیں پہنچاتے ایسے جنات کوروح کہا جاتا ہے۔زیادہ شرارتی اور تنگ کرنے والون کو شیطان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سب سے خطرناک جنات کو عفریت کہا جاتا ہے۔ یہ آبادیوں سے انسانوں کو اٹھا لے جاتے ہیں۔حضرت علی کے بڑے بھائی کا نام طالب تھا۔ ان کے بارے میں سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ بچپن میں انھیں جن اٹھا کر لے گئے تھے اور وہ کبھی بھی واپس نہیں آئے۔ عربوں میں عمرو بن عدی لحمی نام کا ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ اس کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ اسے جنات اٹھا کر لے گئے تھے۔اورکئی سال گذر جانے کے بعد اسے واپس بھی کر گئے تھے۔ خرافہ نام کے ایک شخص کا ذکر بھی ملتا ہے جسے جن اٹھا کر لے گٗے تھے اور جب اسے واپس کیا تو وہ بہکی بہکی باتیں کیا کرتا تھا۔ انسانوں میں بھی کچھ لوگوں نے جنات کے ساتھ تعلقات بنا رکھے تھے۔ اہل یمن میں ایک گروہ کا یقین ہے کہ ملکہ بلقیس جننی ( سعلاۃ) کی اولاد تھی۔ عربوں کی کتابوں کے حوالے سے علامہ سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ عمرو بن یربوع نامی شخص نے ایک سعلاۃ کے ساتھ شادی کی تھی اور اس کی اولاد بھی ہوتی تھی۔تابط شرا نام کا ایک عامل تھاجس کی جنات کے ساتھ دوستیاں تھیں۔ ایک نام ابوالبلاد طہوی کا ہے جس نے ایک بھوت کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
جنات کے بارے میں علمی تحقیق کم اور سنے سنائے قصے زیادہ ہیں۔ ان قصوں میں عاملین جنات ایک بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اسلام آباد کے مضافات میں ایک عامل ہوا کرتے تھے۔ ان کے پاس جو بھی آتا اسے بتاتے کہ اس پر جنات کے ذریعے کالا جادو ہوا ہوا ہے۔ اور وہ اپنے عمل کے ذریعے چند منٹوں میں دور دراز کے شہروں اور قصبوں کے قبرستانوں میں دبائے تعویز جنات کے ذریعے نکال کر د دیتے۔ اسی کی دہائی میں ان کا نذرانہ یا فیس گیارہ سو روپے ہوا کرتی تھی۔ میرے دیکھتے دیکھتے انھوں نے سڑک کنارے پلاٹ خرید کر مکان بنا لیا۔
کشمیر میں ایک عامل سے میری دوستی تھی۔ وہ فوج مین ملازم تھا اور مشرقی پاکستان میں پوسٹنگ کے دوران اس نے کچھ عملیات سیکھے تھے۔ اس نے ایک بار خود مجھے بتایا کہ اس نے اس عمل سے دو کروڑ کے اثاثے بنائے ہیں۔ 
انسان کے اندر حسد اور کینہ دو خصلیں ہیں ۔ عامل لوگ انسان کی ان خصلتوں کو اپنی میزان کے ایک پلڑے میں رکھتے ہیں اور دوسرے پلڑے کو متاثرہ شخص کو اپنی دولت سے برابر کرنے کا کہتے ہیں۔ میں نے اچھے خاصے تعلیم یافتہ لوگوں کو عاملوں کا معمول بنتے دیکھا ہے۔
میرا ذاتی تجربہ ہے کہ کمزور قوت ارادی کے لوگ آگ کی پیداوار اس مخلوق کا ایندہن بنتے ہیں۔ ان کے وہم کی پرورش عاملین جنات کرتے ہیں اور ان کو کھلی آنکھوں سے جنات دوڑتے بھاگتے نظر آتے ہیں
۔ 

جمعرات، 27 دسمبر، 2018

مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی شادی کیسے ہوئی؟ 1

اعزاز سید

اسلام آباد : 6 اگست1990 کو عین اسی دن جس دن صدر غلام اسحاق خان نے وزیر اعظم بے نظیر کی حکومت کو برطرف کیا پاکستان فوج کے111 بریگیڈ کے ایک نوجوان کپتان محمد صفدر کی عبوری وزیر اعظم جتوئی کےلیے بطور اے ڈی سی تعیناتی ہوئی۔ اسی دن وہ صدارتی محل پہنچے جہاں بریگیڈیئر نثار نے ان کا استقبال کیا۔ اسی روز حلف برداری کی روایتی تقریب کے بعد انہیں عبوری وزیر اعظم سے متعارف کرایا گیا۔ وزیر اعظم ہاؤس میں دیگر حکومتی ارکان کے ساتھ تعارف کے علاوہ وہ نئے تعینات ہونے والے ڈپٹی ملٹری سیکرٹری لیفٹیننٹ کرنل اشفاق پرویز کیانی سے بھی ملے جنہوں نے بعد میں بغیر مارشل لاء لگائے پاکستانی فوج کی طویل ترین سربراہی کی۔ ان دونوں کو اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل اسلم بیگ کی جانب سے تعینات کیا گیا اور بعد ازاں یہ دونوں ہی اپنے اپنے طور پر اہم اور با اثر ثابت ہوئے۔
کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ وہ میرے استاد جیسے تھے۔ میں نے بہت سی چیزیں انہیں سے سیکھیں۔ ہم دونوں نے بہت اچھا وقت ایک ساتھ گزارا۔ مجھے یاد ہے کہ ہم دونوں نیو جتوئی میں تھے جہاں سے اس وقت نگران وزیراعظم مصطفیٰ جتوئی قومی اسمبلی کا انتخاب لڑ رہے تھے ۔ کچھ عرصہ ایک ساتھ کام کرنے کے بعد لیفٹیننٹ کرنل کیانی کو دوبارہ فوجی ذمہ داریاں دے دی گئیں تاہم کیپٹن صفدر نے وزیراعظم ہاؤس میں اے ڈی سی کی حیثیت سے اپنی خدمات جاری رکھیں۔ تقریباً 21 سالوں بعد ان کی دوبارہ ملاقات صدارتی محل میں ہوئی جہاں 5 جون 2013 کو وزیراعظم نواز شریف اپنے عہدے کا حلف اٹھا رہے تھے۔
نوجوان کیپٹن صفدر 27 سال کے تھے۔ وہ نہایت وجیہہ صورت تھے۔ خصوصاً جب وہ وردی میں ہوتے تو اطراف کے لوگوں کی توجہ کا مرکز ہوتے تھے۔ کیپٹن صفدر اپنی یاداشتیں بتاتے ہوئے کہتے ہیں۔
” میں جب بھی وردی میں اپنے آبائی شہر مانسہرہ جاتا تھا تو عورتیں اپنے مکانوں کی چھتوں پہ چڑھ کر مجھے دیکھا کرتی تھیں۔ ”
وزیر اعظم ہاؤس میں فرائض کے آغاز پر کیپٹن صفدر کو علیحدہ رہائش گاہ دی گئی۔ انہوں نے وزیر اعظم کے عملے سے ایک الماری کا تقاضا کیا جہاں وہ اپنی استری شدہ وردی کو ٹانک سکیں۔ جلد ہی انہیں ایک تالہ لگی الماری دے دی گئی انہیں بتایا گیا کہ اس کا انتظام سندھ ہاؤس سے کیا گیا ہے جہاں یہ محترمہ بے نظیر بھٹو کےزیر استعمال تھی، جب وہ وزیر اعظم کے عہدے پر تھیں۔ جب نوجوان کیپٹن نے اس الماری کے تالے کو کھولا تو انہیں اس میں سفید سونے کے زیورات اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی خاندانی تصاویر کے کچھ البم ملے ۔
کیپٹن صفدر نے فی الفور وزیر اعظم ہاؤس کے ملٹری آفیسر کو مطلع کیا اور یہ قیمتی زیورات اور تصاویر باضابطہ طریقہ کار سے ایک تحریر ی نوٹ کے ہمراہ واپس کردیں۔ ملٹری آفیسر نے یہ معاملہ وزیر اعظم کےسامنے رکھا اور انہوں نے یہ تمام چیزیں بے نظیر بھٹو صاحبہ تک پہنچانے کا فی الفور حکم دیا۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور یہ تمام اشیاء بے نظیر بھٹو تک پہنچا دی گئیں، انہیں یہ بتایا گیا کہ یہ تمام اشیاء فوج کے ایک نوجوان کپتان کو ملی تھیں۔
کیپٹن صفدر بتاتے ہیں کہ مجھے بتایا گیا کہ بے نظیر بہت خوش تھیں ۔ کچھ دن بعد اسی الماری کے دوسرے دراز سے ہیرے کی انگوٹھیاں ملیں۔ صفدر نے دوبارہ وہی طریقہ کار اپنایا اور یہ تمام چیزیں بے نظیر بھٹو تک پہنچا دی گئیں۔
یہ تمام خصوصیات وزیر اعظم سمیت اعلیٰ عہدیداران کے علم میں تھیں کہ نوجوان کیپٹن نہ صرف پیشہ ور انہ صلاحیتوں کا حامل افسر ہے بلکہ ایمان دار اور اعلیٰ اقدار کا مالک انسان بھی ہے۔ جلد ہی ان کے نگراں وزیر اعظم جتوئی سے قریبی تعلقات قائم ہوگئے۔ 24 اکتوبر 1990 کے عام انتخابات کے بعد نواز شریف نے بحیثیت اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔
نئے وزیر اعظم اپنا عہدہ سنبھالنے والے تھے۔ نوجوان کپتان نے فوج کے اہم پیشہ ورانہ تربیتی کورسسز پورے نہیں کیے تھے۔ انہوں نے وزیر اعظم سے درخواست کی کہ انہیں سول سروسز میں بھیج دیا جائے۔ قانون کے مطابق وزیر اعظم جسے چاہے سول سروسز میں بھیج سکتا ہے تاہم فوج کے اس مقصد کے لیے اپنے قواعد و ضوابط ہیں۔
نگران وزیر اعظم جتوئی نے چیف آف آرمی اسٹاف اسلم بیگ کو خط لکھا جس میں سفارش کی گئی کہ کیپٹن صفدر کو سول سروسز میں تعینا ت کیا جائے۔ 6 نومبر 1990 کو جس روز میاں نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا، رخصت ہونے والے نگران وزیر اعظم جتوئی نے میاں نواز شریف کو کیپٹن صفدر کا تعارف کرواتے ہوئے کہا۔
” کیپٹن صفدر صرف میرے اے ڈی سی ہی نہیں بلکہ خاندان کے ایک فرد اور ایک بیٹے کی طرح ہیں۔ ”
تقریب حلف برداری کے بعد کیپٹن صفدر نے نئے وزیر اعظم سے اجازت مانگی کہ انہیں رخصت ہونے والے نگران وزیر اعظم کو خدا حافظ کہنے کے لیے کراچی جانے کی اجازت دی جائے۔ نئے وزیر اعظم کو خوشگوار حیرت ہوئی کہ جب دارلحکومت میں ہر کوئی نئے وزیر اعظم کی قربت چاہ رہا ہے، یہ کیپٹن سابقہ نگران وزیر اعظم کو عزت سے روانہ کرنا چاہ رہاہے۔ کیپٹن صفدر نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہا۔
” میں نے غلام مصطفیٰ جتوئی صاحب کو خدا حافظ کہا اور انہیں جہاز میں کراچی تک چھوڑنے گیا۔ جتوئی صاحب اس غیر معمولی احترام پہ بہت خوش تھے۔ ”
واپس آکر کیپٹن صفدر نے اپنی ذمہ داریاں نئے ویر اعظم نواز شریف کے اے ڈی سی کی حیثیت سے نبھانا شروع کر دیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ کام کرتے ہوئے کیپٹن صفدر خاتون اول بیگم کلثوم نواز کی نظروں میں بھی آئے۔ انہوں نے جلد ہی اس نوجوان اور وجیہہ صورت کپتان کو پسند کرنا شروع کردیا، جو بہت تابعدار تھا اور اپنی دیانت اور اقدار کے سبب مقبول تھا۔ ایک روز کیپٹن صفدر نے وزیر اعظم کے ملٹری سیکرٹری سے یہ کہہ کر اپنے آبائی شہر مانسہرہ جانے کی چھٹی لی کہ ان کی والدہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اسی روز جب وزیر اعظم نے محسوس کیا کہ وہ ڈیوٹی پر نہیں ہیں تو ان کے متعلق دریافت کیا۔ انہیں بتایا گیا کہ وہ اپنی والدہ کی بیماری کے سبب چھٹی پر گئے ہیں۔
کیپٹن صفدر پہلی بار دو نوں خاندانوں کی گفتگو کو یادکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں اس روز گھر گیا ہوا تھا۔ فون کی گھنٹی بجی۔ میرے والد صاحب نے فون اٹھایا تو دوسری طرف سے آپریٹر نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف بات کریں گے۔ انہوں نے میرے والد سے فون پہ گفتگو کی اور میری والدہ کی صحت کے متعلق بات چیت کی۔ ہم سب بہت حیران تھے کہ وزیر اعظم اپنے عملے سے کس قدر باخبر ہیں۔ اگلے روز بیگم کلثوم نواز نے فون کیا اور میری والدہ سے ان کی صحت کے متعلق دریافت کیا۔ ہمیں ان دونوں کا رویہ بہت پسند آیا کیونکہ یہ ان دونوں کی بہت مہربانی تھی۔
جون 1990 میں وزیر اعظم نواز شریف کا موٹر کیڈ اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے اور آج کل کے خیبر پختونخوا کے ضلع ناران کی وادی کاغان کی جانب رواں تھا۔ ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پہ وجیہہ صورت کیپٹن صفدر براجمان تھے۔ اس روز گاڑی میں وزیر اعظم کے ہمراہ ان کی اہلیہ کلثوم نواز بھی موجود تھیں۔ مانسہرہ سے گزرتے ہوئے اے ڈی سی وزیر اعظم اور خاتون اول کو علاقے کے متعلق آگاہ کررہے تھے کہ اچانک خاتون اول نے کہا۔
” یہ وادی کس قدر خوبصورت ہے۔ ”۔
”جی میڈم۔ یہ وادی بہت خوبصورت ہے۔ میرا بچپن اسی جگہ کھیل کود میں گزرا ہے۔ ” کیپٹن صفدر نے بے تکلفی سے کہا۔
” اوہ واقعی، یہاں سے آپ کا گھر کتنا دور ہے؟ ” بیگم کلثوم نواز نے اشتیاق سے پوچھا۔
” میڈم، یہاں سے بہت قریب ہی ہے۔ ” کیپٹن صفدر نے جواب دیا۔
” تو پھر چلیے۔ ہمیں اپنا گھر دکھائیے۔ ” بیگم کلثوم نواز نے کہا اور وزیر اعظم نے بھی اپنی اہلیہ کی تجویز سے اتفاق کیا۔
حاری ہے

مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی شادی کیسے ہوئی؟ 3

اعزاز سید

”جی سر۔ مجھے جانا ہوگا کیونکہ مجھے پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے۔ ” کیپٹن صفدر نرم روی سے جواب دیتے ہیں۔
” تم اپنی نوکری چھوڑ کیوں نہیں دیتے اور ہمارے ساتھ ہمیشہ کے لیے کیوں نہیں رہ جاتے؟ ”۔ نواز شریف صفدر کو مشورہ دیتے ہیں۔ جبکہ ریل گاڑی لاہور سے راولپنڈی کا سفر طے کررہی ہے۔
” سر۔ مجھے اپنے والد سے اجازت لینا ہوگی۔ ”۔ کیپٹن صفدر آہستگی سے کہتے ہیں۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ وہ اپنے والد سے اجازت لے لیں اور پھر انہیں مطلع کریں۔
کیپٹن صفدر اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب وہ وزیر اعظم کے کیبن سے نکل رہے تھے تو ان کے پرانے خدمتگار تیزی سے ان کے پاس آئے اور کہا کہ مت جاؤ۔ ملک کا وزیر اعظم تمہیں روک رہا ہے۔ تم مت جاؤ۔
وزیر اعظم ہاؤس پہنچ کر کیپٹن صفدر اپنے والد کو فون کرتے ہیں اور وزیر اعظم کی رائے سے آگاہ کرتے ہوئے ان سے اجازت مانگتے ہیں۔
” ٹھیک ہے تم وہی کرو جو میاں نواز شریف کہتے ہیں۔ ” ان کے والد اسحاق مسرور نے ان سے کہا۔ کیپٹن صفدر نے وزیر اعظم کو مطلع کیا تو وہ مسکرانے لگے اور کہا کہ اپنے والد کا شکریہ ادا کریں۔ اس وقت اندازہ ہوگیا کہ وزیر اعظم نواز شریف اور خاص طور پر ان کی اہلیہ کلثوم نواز کیپٹن صفدر پہ بہت مہربان ہیں۔
” مجھے بعد میں پتہ چلا تھا کہ بیگم کلثوم نواز نے اسٹاف کے عملے سے قمر زمان کو مانسہرہ بھیجا تھا کہ وہ وہاں خاموشی سے پتہ کریں کہ میرا مزاج اور طور طریقہ اور ہمارے خاندان کا رہن سہن اور شہرت کیسی ہے۔ اب کی بار وزیر اعظم کے روکنے پہ ایسا ہوا کہ ان کی زندگی کی ڈگر ہی بدل گئی۔ ” کیپٹن صفدر یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔ 1992 کی گرمیوں میں کیپٹن صفدر اے ڈی سی وزیر اعظم اپنی ہفتہ وار چھٹی پہ گھر آئے ہوئے تھے۔ ان کے والد66 سالہ اردو شاعر اسحاق مسرور جو کہ اپنی اہلیہ حاجرہ بی بی کے ہمراہ بیٹھے تھے نے اپنے بیٹے صفدر کو بلایا۔
”صفدر، میرا خیال ہے کہ وزیر اعظم کا خاندان اپنی بیٹی کے لئے تمہارا رشتہ مانگ رہا ہے۔ ”۔ اسحاق مسرور نے صفدر سے کہا۔
” میرا نہیں خیال کہ ایسا ہوسکتا ہے اباجی۔ آپ نے ایسا یہاں تو کہہ دیا لیکن کہیں اور مت کہیے گا میری نوکری چلی جائے گی۔ ” کیپٹن صفدر نے اپنے والد کو جواب دیا۔
” میں نے اپنی عمر گزاری ہے اور میں تجربہ کار ہوں۔ بیگم کلثوم نواز نے تمہاری والدہ حاجرہ بی بی کو فون کیا ہے اور تمہارا رشتہ مانگا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمیں آپ کا بیٹا چاہیے۔ ” باپ اپنے بیٹے کو سمجھاتا ہے۔
اس موقع پر جواں سال کیپٹن صفدر 28 سال کے تھے جبکہ مریم نواز نے 23 اکتوبر 1991 کو اپنی اٹھارہویں سالگرہ منائی تھی۔ دونوں کے مابین دس سال کا فرق تھا جو کہ قابل قبول تھا۔ کیپٹن صفدر سے بات کرتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ وجیہہ صورت کیپٹن سے اپنی ٹین ایج میں ضرور متاثر ہوں گی۔
اس کے بعد دونوں خاندانوں نے شادی کی تیاری شروع کردی اور مریم اور صفدر کی شادی 25 دسمبر 1992 کو نواز شریف کی 42 ویں سالگرہ کے موقع پر رکھی گئی۔ اتفاق ہے کہ سالوں بعد ان کی بڑی بیٹی مہرالنساء کی شادی کی تاریخ بھی یہی رکھی گئی جس میں ہندوستان کے وزیر اعظم مودی بھی افغانستان کے دورے سے واپس آتے ہوئے شریک ہوئے تھے۔
کیاآپ کو توقع تھی کہ آپ کی شادی مریم نواز سے ہوگی؟ میں نے کیپٹن صفدر سے ایک سیدھا سوال پوچھا۔
” نہیں بالکل نہیں۔ میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کیونکہ دونوں خاندانوں کا کوئی جوڑ ہی نہیں تھا۔ ” کیپٹن صفدر نے جواب دیا۔ کیا آپ شادی سے پہلے مریم سے ملے تھے؟ یہ میرا دوسرا سوال تھا۔ ” وہ دونوں بہنیں مریم اور عاصمہ وزیر اعظم ہاؤس میں گھومتی پھرتی تھیں۔ میں نے انہیں دیکھا تھا۔ لیکن میرا ان سے کوئی رابطہ نہیں تھا جیسا کہ بعض اپوزیشن کی جماعتوں نے مشہور کیا۔ جولوگ فوج کو جانتے ہیں انہیں پتہ ہے کہ ہماری تربیت کیسی ہوتی ہے۔ ہم لوگ ایسی جرات نہیں کرسکتے کہ اپنے باس کے خاندان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھیں اور پھر وزیر اعظم کا خاندان؟ انہوں نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
کیپٹن صفدر بتاتے ہیں کہ شادی کے بعد بیگم کلثوم نواز( جنہیں اب وہ امی جان کہتے ہیں) نے بتایا کہ مریم کے لیے سرمایہ داروں اور سیاستدانوں کے گھروں سے بہت سے امیدوار تھے لیکن ہمیں امیر خاندانوں کی تلاش نہیں تھی، ہمیں تو اچھے اور شریف لوگوں کی تلاش تھی سو ہم نے تمہیں منتخب کرلیا۔
مترجم شوذب عسکری۔
بشکریہ تجزیات ڈاٹ کام۔

مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی شادی کیسے ہوئی؟ 2

اعزاز سید

وزیر اعظم کا موٹر کاروان کیپٹن صفدر کے گھر کے قریب جا رکا۔ کیپٹن صفدر گاڑی سے نکل کر دوڑے کہ وہ وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ سے پہلے ہی اپنے گھر پہنچ کر اپنے والدین کو اطلاع کریں کہ وی وی آئی پی مہمان آئے ہیں۔ ان کی والدہ کسی بزرگ کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے گئی تھیں۔ ان کے والد جو کہ مطالعہ کے شوقین اور اردو کے شاعر تھے، وہ اپنی لائبریری میں بیٹھے کتاب پڑھ رہے تھے۔
” ابا جان ، وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ آئے ہیں۔ ” یونیفارم میں ملبوس کیپٹن صفدر نے دس مرلے کے مکان میں واقع مطالعے کے کمرے میں موجود اپنے باپ کو حیران کرتے ہوئے سرگوشی کی۔
اسحاق مسرور، جو کہ یوٹیلیٹی سٹور سے ریٹائرڈ ملازم تھے جلدی سے اپنے گھر سے باہر آئے۔ جلدی میں وہ کتاب رکھنا بھی بھول گئے جسے وہ اپنے مطالعے کے کمرے میں بیٹھے پڑھ رہے تھے۔ ان کی ایک انگلی ان دوصفحوں کے درمیان ہی تھی جہاں وہ پڑھتے ہوئے رکے تھے۔
کیپٹن صفدر نے اپنے والد کو میاں صاحب اور ان کی اہلیہ سے تعارف کروایا۔ ان کے والد نے دونوں میاں بیوی کا استقبال کیا اور انہیں گھر لے جاتے ہوئے کہا کہ اگر وہ پہلے سے اطلاع کردیتے تو ان کے لئے باقاعدہ انتظامات کیے جاتے۔
گھر میں داخل ہوکر بیگم کلثوم نواز نے جائزہ لیا۔ مہمانوں کو برآمدے میں بٹھایا گیا۔ مہمانوں نے کیپٹن صفدر سے ان کی والدہ کا پوچھا تو انہیں بتایا گیا کہ وہ کسی بزرگ کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لئے گئی ہیں۔
پنجرے میں بند ایک خوبصورت طوطے پر خاتون اول کی نگاہ گئی تو وہ اس کے پاس چلی گئیں۔ کیپٹن صفدر نے بیگم کلثوم نواز کی دلچسپی کو بھانپتے ہوئے بتایا کہ یہ طوطا ان کی والدہ کا پالتو ہے اور یہ باتیں بھی کرتا ہے۔ ” میاں مٹھو، یہ بی بی جی ہیں۔ ” کیپٹن صفدر نے طوطے کو مخاطب کرکے کہا۔
جی بی بی جی۔ جی بی بی جی۔
طوطا رٹالگانے لگا۔ بیگم کلثوم نواز حیران رہ گئیں۔ وزیر اعظم بھی اپنے اے ڈی سی کے والد سے ملاقات پر خوش ہوئے۔ کیپٹن صفدر اپنے والدین کے چار بیٹوں میں تیسرے نمبر پہ ہیں۔ جبکہ ان کی کوئی بہن نہیں ہے۔ اتفاق یہ کہ جب وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ وہاں آئے تو کوئی بھی بھائی گھر پہ نہیں تھا۔
چونکہ ان کی والدہ بھی گھر پہ نہیں تھیں، لہذا وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ وہاں دس سے پندرہ منٹ رکے اور پھر وادی کاغان کی طرف اپنے اے ڈی سی کے ہمراہ روانہ ہوگئے۔ وادی کاغان پہنچے تو وہاں میاں شہباز شریف بھی اپنے پروگرام کے مطابق پہلے سے موجود تھے۔ بیگم کلثوم نواز نے میاں شہباز شریف کو بتایا کہ وہ کیپٹن صفدر کے گھر رکے تھے۔

وزیر اعظم کے ساتھ روزمرہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے کیپٹن صفدر نے جولائی 1990 میں سول سروسز کے ٹریننگ پروگرام کا خط وصول کیا جس میں انہیں ضلعی انتظامیہ کے اٹھارہویں کامن کورس میں شرکت کا کہا گیا۔
صفدر نے اپنے افسران بالا بشمول وزیر اعظم کو مطلع کیا کہ اب یہاں سے روانہ ہوں گے اور سول سروسز میں شامل ہوں گے۔ اس وقت وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں یہ کہہ کر روک لیا کہ میں چاہتا ہوں کہ تم میرےساتھ یہیں ڈیوٹی کرو۔ صفدر ر ک گئے اور ایسے انتظامات کر لیے کہ وہ آئندہ سال یہ ٹریننگ مکمل کرسکیں۔ ان کا فوجی کیریر ختم ہورہا تھا اور یہ وقت فوج سے سول ادارے میں منتقل ہونے کا وقت تھا۔ تاہم وہ ابھی تک وزیر اعظم کے اے ڈی سی کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔
صفدر نے وزیر اعظم کے ساتھ ذمہ داری جاری رکھی۔ وزیر اعظم کے چاروں بچوں بشمول سب سے بڑی بیٹی مریم اس جوان سال وجیہہ صورت کیپٹن کو وزیر اعظم ہاؤس میں دیکھتے تھے۔ ایک سال گزر گیا اور جواں سال کیپٹن کی سول سروسز ٹریننگ کا مرحلہ دوبارہ آن پہنچا تو اس نے ایک پھر وزیر اعظم کو اپنی روانگی کا بتایا۔
وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی اہلیہ براستہ ٹرین لاہور جارہے تھے۔ کیپٹن صفدر اپنے ڈبے میں تھے جب عملے نے انہیں بتایا کہ انہیں وزیراعظم نے طلب کیا ہے۔ وہ وزیر اعظم کے ڈبےمیں آتے ہیں۔ اپنے ڈبے میں وزیراعظم اپنی اہلیہ کلثوم نواز اور بزرگ گھریلو خدمتگار صوفی بیگ کے ہمراہ ہیں۔
وزیر اعظم انہیں بیٹھ جانے کو کہتے ہیں۔ صفدر بیٹھ جاتے ہیں تو کلثوم نواز انہیں میز پر رکھی ٹوکری سے پھل کھانے کا کہتی ہیں۔ صفدر احترام سے نہ کرتے ہیں۔
”کیا تم ہمیں چھوڑ رہے ہو؟ ” نواز شریف پوچھتے ہیں۔
جاری ہے

منگل، 25 دسمبر، 2018

سیاسی بھنڈی


جب دارلخلافہ کراچی سے اسلام آباد منتقل ہو رہا تھا تو اسلام آباد میں کہا جاتا تھا ۔ شہر بستے بستے بستا ہے۔ ہماری سمجھ میں یہ آیا تھا کہ شہر بسانے کے لیے جو انفرا سٹرکچر اور باسیوں کے رہنے کے لیے کو مکانات درکار ہوتے ہیں ، ان کو مکمل ہونے میں وقت لگتا ہے۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے اس محنتی قوم نے اسلام آباد کو بسا لیا۔پاکستان کی بہترین شاہرائیں اور عمدہ عمارتیں تیار ہو گئیں اور نفیس سرکاری ملازمین اس شہر کی رونق ہو چکے۔البتہ ترقی کا عمل جاری و ساری ہے میٹرو کی شکل میں بین الاقوامی معیار کے ذرائع آمد رفت مہیا ہو گئے ۔ ہوائی اڈہ چھوٹا پڑ گیا تو کھلے مقام پر وسیع اور جدید سہولیات سے آراستہ ہوائی اڈہ آپریشنل ہو گیا۔ سر سبز اسلام آباد میں مزید شجر کاری کر کے مزید شاداب بنا دیا گیا۔ تاریخ بیان کرتی یادگار بھی عوام نے دیکھ لی۔ بچوں کے لیے رنگ برنگے چڑیا گھر تو باسیوں کے لیے باغات اور پارک بھی موجود ہیں۔ دوکانیں ائر کنڈیشنڈ اور آسائش زندگی سے بھری ہوئی ہیں۔ اس شہر کے بارے جو خواب بنانے والوں نے دیکھا تھا شہری اس کی تعبیر پا رہے ہیں۔ اس شہر میں ایسی کشش ہے کہ اندرون اور بیرون ملک سے لوگ آ کر یہاں بس گئے ہیں۔ اس شہر کو دیکھنے باہر سے آیا ہوا شخص سار ا شہر گھوم کر ہوٹل کی بالکونی میں پڑا انگریزی کا اخبار پڑھ کر فرحت سی محسوس کرتا ہے۔ اس شہر میں زیادہ لوگ اردو کا اخبار پڑہتے ہیں ۔کچھ لوگ شام کا اخبار شوق سے پڑہتے ہیں۔اردو کے اخبار سے پتا چلتا ہے کہ اس شہر میں ایک صنعتی علاقہ بھی ہے جس میں کام کرنے والے مہینوں اپنی تنخواہ کا انتظار کرتے ہیں۔ ایک سبزی منڈی بھی ہے جہان سنگل دیہاڑی سولہ گھنٹے کی ہوتی ہے۔ ان پر شکوہ رہائشی عمارتوں میں گھریلو ملازمین بھی بستے ہیں۔ جو چوبیس گھنٹے کے ملازم ہوتے ہیں۔ ہر سیکٹر میں ایک تھانہ بھی پایا جاتا ہے، جس میں حوالات بھی ہوتی ہے اورحوالاتیون کی کہانیاں دل چیرتی ہیں۔ ایک ڈی چوک بھی ہے جہاں ہر قسم کی زبان درازی ، اظہار رائے کے نام پر کی جاتی ہے۔شام کے اردو اخبار کے قارئین کی دنیا اسلام آباد میں ہونے کے باوجود وکھری ہی ہے۔ اس وکھری دنیا میں بھی سبزی منڈی کا اپنا ہی حسن ہے۔ یہاں دیر کا عبدالخبیر ، خیر پور کا محمد اسلم، مظفر گڑھ کا کرم الہی، نواب شاہ سے آیا مکھوبھی ہے۔ یہاں آپ پاکستان کی کوئی بھی زبان بولیںآپ کو بات کرنے والا لازمی مل جائے گا۔ منڈی میں زندگی ظہر کے بعد انگڑائی لیتی ہے۔ رات کو دن ہوتا ہے اور سورج سوا نیزے پر آ جائے تو مزدور کی دیہاڑی پوری ہوتی ہے۔ ان کے پاس گرمیوں میں ایک چادر اور سردیوں میں ایک رضائی ہوتی ہے۔ ان کی زندگی کی ضرورت دیہاڑی اور مجبوری نیند ہوتی ہے۔ یہ کبھی شاہرہ دستور پر چڑھے ہیں نہ قصر صدارت سے انھیں کوئی سروکار ہے۔ وزیر اعظم ہاوس کو دیکھنے کے متمنی ہیں نہ پارلیمان کو۔ حوالات سے وہ پناہ مانگتے ہیں۔ انصاف سے وہ مایوس ہی نہیں بلکہ دور بھاگتے ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیوں کو وہ حسرت اور نفرت سے نہیں دیکھتے اونچی عمارتوں سے انھیں کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ 

سبزی منڈی میں پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ مزدوری کے لیے آنے کا نام بدل دیا جاتا ہے ۔بوڑھا معراج دین ْ باباماجھا ْ ۔ محمد اسلم ، اسلو ۔ جاوید خان ، جیدا کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ یہان عزت صرف گاہک پاتا ہے اور صاحب کہہ کر پکارا جاتا ہے ۔ گاہک کے علاوہ بھی بہت لوگ یہاں آتے ہیں ، نام ان کے بھی بدل جاتے ہیں ۔ جیسے ڈنڈا، مکھی ، بجلی ، شرمن ٹینک ۔۔۔
یہاں اخبارات شام ہی کے مقبول ہیں ، ایک پڑہتا ہے ، سننے والے سر دھنتے ہیں ۔ سیاسی بیانات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی البتہ بیان بازوں کے نام انھوں نے اپنے ہی رکھے ہوئے ہیں ۔ کوئی ٹماٹر ہے تو کوئی بینگن، کسی کانام کریلا رکھا ہوا ہے تو کسی کا آلو۔ میں نے پہلی بار سنا کوئی بھنڈی بھی ہے ۔ ذہن پر بہت زور دیا۔ آخر پوچھ ہی بیٹھا،یہ بھنڈی کون ہے ؟ ْ نئے سیزن کی تازہ پیداوار ہے ْ سمجھ نہ پایا ۔ اچھا اتنا ہی بتا دو مذکر ہے کہ مونث ۔۔۔ ْ مذکر اور مونث کا تو پتہ نہیں لیکن ہے لیس دارْ