جمعرات، 25 جنوری، 2018

قاضی اور مولوی

تحریر: مظہر چوہدری


نہ جانے کیوں آج مجھے لودھراں کی وہ مظلوم خاتون یاد آرہی ہے جو اپنے شوہر اور دیگر اہلخانہ کیساتھ کراچی گئی۔اسے مزار قائد کے سیکورٹی منیجر نے موقع پاکر اغواکرلیا اور اپنے دفتر لے جاکر بے حرمت کر دیا۔ معاملہ مزار قائد کا نہ ہوتا تو شاید دب جاتا مگر بابائے قوم کے مزار پر ایسی گھنائونی حرکت پر پولیس بھی متحرک ہو گئی۔ ملزم پکڑے گئے ان کا ڈی این اے میچ کر گیا ۔جس طرح آج ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ اب ملزم کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے گا اسی طرح دس برس قبل پیش آنے والے واقعہ سے متعلق بھی استغاثہ کا یہی خیال تھا لیکن ایڈیشنل سیشن اینڈ ڈسٹرکٹ جج شرقی جناب ندیم احمد خان نے یہ کہتے ہوئے ملزموں کو باعزت بری کر دیا کہ عدالت ڈی این اے کو بطور شہادت تسلیم نہیں کرتی اگر مدعیہ کے پاس تذکیۃالشہود کے عین مطابق چار گوا ہ موجود ہیں تو پیش کیا جائے ۔جج صاحب نے اپنے اس فیصلے کی تائید میں نہ صرف قرآن کی ایک آیت پڑھی بلکہ مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کا حوالہ بھی دیا ۔15مارچ 2008ء کو سرزد ہونے والے اس جرم کا فیصلہ اپریل 2013ء میں سنایا گیا جبکہ تین ماہ بعد جولائی 2013ء میں اسلامی نظریاتی کونسل نے اس فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے یہ فتویٰ صادر فرمایا کہ ڈی این اے کو زنابالجبر کے مقدمات میں بطور شہادت تسلیم نہیں کیا جا سکتا

کرپشن پر تنقید


منفی سیاست
زینب کے والدمحمد امین انصاری صاحب، جو ایک سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں کی طرف سے شروع میں بتایا گیا تھا کہ قصور کے اس وقت کے ڈی پی او نے ان سے دس ہزار روپے رشوت طلب کی تھی ۔ اور ٹی وی چینلوں پر اس الزام کی بار بار تشہیر کی گئی، اور ایک ممبر قومی اسمبلی نے اپنے ایک ٹی وی انٹر ویو میں بھی اس کا ذکر کیا ۔ اب محمدامین صاحب نے اپنے ہی الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ ڈی پی او ایک ایمان دار افسر تھا ، اصل قصور وار قصور کی ڈی سی ہے، ان کے خلا ف کاروائی ہونی چاہیے۔ اس سے قبل محمد امین صاحب نے جے آئی ٹی کے سربراہ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا تو فوری طور پر ان کو سربرائی سے ہٹا دیا گیا تھا۔
انھوں نے وزیر اعلیٰ کی پریس کانفرنس میں اپنا مائیک بند کرنے کے عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں تو علاقے کی ضرورت کے مطابق یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ جہاں زینب کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا وہاں زینب کے نام سے منسوب ہسپتال بنایا جائے۔
قصور میں ہونے والے درندگی کے واقعات میں متاثرہ لڑکیوں کے لواحقین میں سے عقب معراج کے والد سلامت کا کہنا ہے کہ ْ ہمارے دل کو تسلی تب ہی ہو گی جب بچی کا قاتل ہمارے سامنے اپنے گناہ کا اعتراف کرے ْ

نور فاطمہ کے چچا آصف رضا کا کہنا ہے ْ اگر یہی مجرم ہے تو ڈی این اے میچ کرنے کی کاپی ہمیں دی جائے ْ

عاٗشہ کے والد محمد آصف کا کہنا ہے ْ جب تک خود ملزم سے مل کر تسلی نہ کر لیں اس وقت تک پولیس کا دعویٰ تسلیم نہیں کریں گےْ ْ
یہ چند خیالات ہیں جو ان شخصیات کی ہمارے دوست شہریار صاحب سے بات چیت کے دوران سامنے آئے ہیں

پولیس کا کردار
ْ بد سے برا بد نام ْ کی سولی پر لٹکتی پنجاب پولیس کے خلاف بطور ادارہ اور اہلکاروں ک خلاف بطور فرد اس قدر منفی پروپیگنڈہ کیا گیا ہے کہ اخلاق و حدود کی تمام فصیلیں ہی ڈھا دی گئی ہیں ۔یہ الزام تو آپ نے بھی سنا ہو گا کہ قصور کے سابقہ ڈی پی او نے زینب کے لواحقین سے دس ہزار روپے رشوت طلب کی تھی، بدھ والے دن زینب کے والد محمد امین انصاری نے اسی ڈی پی او کے بارے میں شہریار سے گفتگو میں کہا ہے کہ وہ ایک ایمان دار پولیس افسر تھا اور یہ کہ اسے قصور میں واپس لایا جائے۔
پکڑے گئے ملزم عمران کو جب پولیس نے گرفتار کرنا چاہا تو اس وقت کہا گیا کہ پولیس اس کیس میں ہمارے عزیزوں کو ملوث کرنا چاہتی ہے اور مقامی تھانیدار کے بارے میں ان کے کرپٹ ہونے کی پوری داستان پیش کی گئی۔اور جب میں نے اس وقت عرض کیا کہ پولیس کو اپنا کام کرنے دیا جائے تو ْ معززین ْ نے نون لیگی اور پولیس کا ْ ہمدردْ ہونے کا طعنہ دیا ۔ اور یہاں تک کہا گیا کہ ہم کسی صورت ْ اپنے بندےْ کو گرفتار نہ ہونے دیں گے۔بالآخر وہی ْ اپنا بندہ ْ ہی درندہ نکلا۔
ہمارے جذباتی معاشرے میں انسانی سانحات کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا نئی بات نہیں ہے مگر یہ عمل غیر پسندیدہ ہی نہیں بلکہ قابل اصلاح ہے اور معاشرے کے ہمدردوں کو اس کے لیے اپنی آواز جہاں بھی اور جیسے بھی ممکن ہو بلند کرنی چاہیے۔
عوام سے خوف زدہ اشرافیہ
قصور میں زینب کے والدین کی عدم موجودگی میں نماز جنازہ کے بعد دوران دعا جو الفاظ اور لہجہ اختیار کیا گیا اس کے فوری اثرات شام تک ہی ٹی وی کی سکرینوں کی زینت بن چکے تھے ، ان عوامل نے مگر خوف زدہ اشرافیہ کو نہ صرف دیوار کے ساتھ لگا دیا بلکہ مقامی سیاسی اشرافیہ کے ڈیرے پر آتش زنی کے واقعہ نے سیاسی رہنماوں کی زبان کو بھی خاموش کرا دیا۔یہاں مقامی نون لیگی منتخب رہنماء اپنے سیاسی وزن کے بھاری بھر کم ہونے کے مغالطے کا شکار ہو گئے ۔ اور یہ تلخ حقیقت سامنے آئی کہ وہ اپنے منصب کی بے توقیری کے خود ہی مجرم بن گئے۔ 
یہ پہلا اور آخری واقعہ نہیں ہے ہمارے منتخب رہنماوں کو ، ان کا تعلق کسی بھی علاقے یا پارٹی سے ہو، اس حقیقت کو ہر صورت مد نظر رکھنا چاہئے کہ علاقے کی اکثریت ان کو منتخب کر کے اپنا سیاسی وزن ان کے ہاں گروی رکھتی ہے اور ووٹ کی طاقت سے چنے گئے لیڈر ایسے موقع پر اپنا قد و وزن قائم نہیں رکھ پاتے تو ان کے بارے میں ان کی پارٹیوں کے سربراہ کو سوچنا چاہئے ۔ 
بے خوف اور نڈر لیڈر شپ کے بغیر ْ نادیدہ عناصر ْ لوگوں کو قوی دکھائی دیتے ہیں اور معاشرتی رہنمائی میں ْ طاقت ور ْ رہنا ہی اصل لیڈر شپ ہوتی ہے ۔ سیاسی کھیل میں ْ بھٹو ْ کو جب عوام نے بے بس مان لیا تب ہی ان کو پھانسی کے پھندے پر لٹکادیا گیا تھا۔ نواز شریف قانونی طور پر نا اہل ہو کر بھی ْ سخت ہڈی ْ اسی لئے ہے کہ انفرادی طور پر
ْ بہادر ْ ہے ۔
عمران خان کے خلاف اداروں کے سمن، وارنٹ اور اشتہاری قرار دینا محض اس لئے کاغذ کے ٹکڑے ثابت ہوئے کہ وہ اپنے سیاسی قد کا احساس دلانے میں کامیاب رہے۔ ووٹ کی طاقت کا ادراک کرنا اور اس کو انفرادی بہادری کا چارہ بنانا ہی سیاست کی اصل ہے اور قصور میں عوام کی ووٹ کی طاقت کے علمبردار اس امتحان میں بالکل بھی کامیاب نہیں ہوئے۔ضلع بھر کے ممبران قومی و اسمبلی کو اگر ْ بکری ْ گردانا جاے تو رانا ثنا اللہ صاحب کو سیاسی ْ سانڈ ْ ہی کہا جائے گا ۔
اصل سبق ، جس کی باربار اور ہر بار نشان دہی کی جاتی ہے ، جو ہمارے معاشرتی بگاڑ کا اصل سبب ہے ، اور جو خرابیوں کی جڑوں میں سب سے موٹی جڑ ہے۔ہم اپنی نجی محفلوں میں اس کو خرابی مانتے بھی ہیں مگر اجتماعی فیصلوں میں ہماری انفرادی سوچ ابھر نہیں پاتی۔
پنجاب پولیس یا سندھ پولیس کو بطور ادارہ مطعون کرنا زیادتی ہے تو یونیفارم پہن کر غیر قانونی اعمال کا مرتکب اہلکاروں اور افسران کا کھوج لگانا اور بے نقاب کرنا معاشرتی جہاد ہے۔ عدلیہ ہماری پگڑی کا شملہ ہے تو ججوں کے ذاتی فیصلوں پر تنقید خود ہمارے چیف جسٹس صاحب نے کر کے اس عمل کی حوصلہ افزائی کی ہے،سیاسی جماعتیں ہمارے معاشرتی ادارے ہیں ۔ ان میں شامل کسی فرد کے نظریا ت سے اختلاف کو زندگی و موت کا مسئلہ بنا لینا حماقت کے سوا کیا ہے۔ 
اپنے اداروں پر تنقید میں اس اصول کو مد نظر رکھنا چاہے کہ کرپٹ افراد پر کھل کر تنقید کریں مگر ملکی اداروں کے تقدس کو مجروح نہ ہونے دیں ، ہمارے ادارے ہمارے معاشرے ہی کا حصہ ہیں، ان میں بھی کالی بھیڑیں ہیں ۔ ہمیں ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چائیے جو ان کالی بھیڑوں کے خلاف میدان عمل میں اتر کر ثبوت سامنے لاتے ہیں۔
مگر حقیقت یہی ہے کہ معاشرے میں جس ادارے کا جو کام ہے اسے پوری ذمہ داری سے کرنے دیا جائے۔

اتوار، 21 جنوری، 2018

مریکہ اور پاکستانی پولیس

امریکہ نے نائن الیون کے واقعے کو دہشت گردی قرار دے کر اس کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا تواس کے عزم کا رخ مسلمان ممالک کی طرف تھا۔ جب حکمرانوں پر دباو بڑھا اور ان کی سانس پھولنا شروع ہوئی تو دھیمے لہجے میں استفسارشروع ہوا کہ دہشت گردی کی تعریف کر کے بتائی جائے ۔ تعریف تو نہ بتائی گئی مگر ملکوں ملکوں دہشت گردی کے خلاف قانون بننا شروع ہو گئے۔ پاکستان میں بھی یہ قانون بنا کر رانجھا راضی کر لیا گیا۔ اگرامریکہ نیاسلامی ممالک پر اس قانون کو دہاندلی سے استعمال کیا تو مسلمان ممالک کے حکمرانوں نے دہشت گردی کے خلاف بنائے گئے مقامی قانون کو اپنے عوام پر نافذ کرکے اپنا کلیجہ ٹھنڈا کیا۔ مگر اس ناقص حکمت عملی کوجہاں امریکہ نے اپنے کرپٹ حلیف حکمرانوں کے ذریعے نافذ کرکے بے گناہوں کے خون مین ہاتھ رنگے وہاں پاکستان میں اس قانون کو پولیس نے اس عجلت میں بنائے گئے قانون کے نفاذ میں اتنا خون بہایا کہ دہشت گرد ہی ختم ہو گئے مگر پولیس کا جذبہ مانند نہیں پڑہا ۔ شروع میں جب کہا گیا کہ دہشت گردی کی آڑ میں پیسہ بنانے اور ذاتی مخالفتوں کو مٹانے کا دہندا شروع ہو گیا ہے تو اس آواز پر کسی نے کان ہی نہ دہرے ۔ پھر یہ تماشا شروع ہوا کہ پولیس دہشت گردی کے الزام میں بندہ مارتی اور وہ بعد میں بے گناہ ثابت ہوتا مگر سرکار نے ْ مٹی پاو ْ کی پالیسی جاری رکھی اور قاتلوں کا حوصلہ بڑہتا گیا۔ان کیسوں میں قاتل سرکاری اہل کار اور مقتول بے دست و پا و وسائل سے عاری عوام ہے۔ مگر عوام کی سنائی سرکار کے ہاں نہیں ہے، موم بتی مارکہ سول سوسائٹی کو مخصوص نوعیت کے کیس کی حمائت سے فرصت نہیں ہے، عجب تماشہ ہے ہمارے ادارے دوسرے اداروں کو تو ٹھیک کرنے کے لیے مضطرب نظر آتے ہیں مگر اپنی ادارتی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے نظر آتے ہیں۔
عوام کی چیخ و پکار اہمیت ہی کھو چکی ہے۔نا امیدی سے منع فرمایا گیا ہے ورنہ حالات مایوس کر دینے والے ہی ہیں۔برطانیہ کے گارڈین اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف سال 
2015
میں پاکستان میں پولیس مقابلوں میں 
2018
افراد مارے گئے ہیں۔پاکستان کے ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق سال
2016
صرف سندھ میں مارچ اور جولائی کے دوران صرف چھ ماہ میں 
732
پولیس مقابلوں میں 
160
بندے پولیس کے ہاتھوں مارے گئے تھے
اعداد و شمار کی فہرست طویل ہے ، اور انسانی زندگی مختصر ، اور قیمتی بھی ،آدم کی اولادزمین پر اللہ کا نائب ہے۔ اخلاق، قانون، منت سماجت، نصیحت کو نہیں مانتے ہو ۔ خدا کی پکڑ مگر بہت سخت ہے

ہفتہ، 20 جنوری، 2018

اپنی ذات کا عاشق

یاسر پیرزادہ کی تحریر

ابن عربی اور رومی کی صوفیانہ تعلیمات نے اس مرد با کمال کو سلوک کی تمام منازل
 ایک ہی جست میں طے کروا دی ہیں، یہ اپنی ذات کا عاشق اور خود اپنا ہی محبوب ہے، یہ بولے تو منہ سے پھول جھڑتے ہیں، یہ روزانہ صبح آئینے میں خود کو دیکھ کر سوال کرتا ہے کہ تمہارے والدین کس قدر خوش قسمت لوگ تھے جنہوں نے تمہیں جنم دیا، اس کا ہر عمل اس کا ہر فعل اس کا ہر قول ابن عربی اور رومی کے فلسفے کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ ابن عربی کا پرتو، رومی کا معشوق اگر کسی نے دیکھنا ہو تو پاکستان کے اس ہیرو میں دیکھ لے، من کی مراد پا لے گا۔ من کی مراد پانے کے لئے ہمارے اس ہیرو نے درویشی کی ایک نئی جہت متعارف کروائی ہے، جس کے مطابق یہ اور اس کے پیروکار اس شخص پر لعنت بھیجتے ہیں، جو ان کی خواہشات میں رکاوٹ بنتا ہے، یہی درویشی ہے یہی عیاری۔

مجیب الرحمن اور نواز شریف



نواز شریف نے اپنے ایک بیان میں مجیب الرحمن کا ذکر کر کے جہاں پاکستانیوں کے زخموں کو تازہ کر دیا ہے وہاں سیاسی مجمع بازوں نے اس موضوع کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ 
16 December 1971 
کے بعد پاکستان کی سیاست میں کافی تبدیلیاں نمودار ہوئیں اور بعض تبدیلیوں کی ابھی تک مزاحمت جاری ہے۔ پاکستان میں مقتدر قوتوں اور عوام نے اس عرصہ میں بہت کچھ سیکھا ہے اور ہمارے ایسے سیاستدان جو ڈرائنگ روم کی سیاست والی اشرافیہ لیگ کے ممبر ہیں اور پاکستان میں کرسی کی سیاست کے علمبردارہیں , نوجوانوں کو گمراہ کرنے میں ماہر ہیں اور تاریخی حقیقتوں سے چھیڑ چھاڑ کر کے کوے کے کالے رنگ کو متنازعہ بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔شائد اسی لئے بنگلہ دیش نے ایسے پاکستانی سیاست دانوں کے مجیب الرحمن کی ذات کے متعلق بیانات پر تبصرہ بھی کیا ہے۔ 

شیخ مجیب الرحمن جو بنگلہ دیش کے پہلے وزیراعظم تھے ، نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 
1940
میں آل انڈیا مسلم سٹوڈنس فیڈریشن سے کیا تھا. 
1943
میں مسلم لیگ میں شامل ہو کر حسین شہید سہروردی کے معتمدبن گئے، اور تحریک پاکستان کی جدو جہدمیں بنیادی کردار ادا کرنے والے کارکنوں میں شامل تھے۔
1947
میں قیام پاکستان کے وقت وہ حسین شہید سہروردی کے قریبی قانون دان ساتھی تھے۔پاکستان بننے کے بعد انھوں نے مشرقی پاکستان سٹوڈنس بنائی ۔
1948
میں قائد اعظم کے دورہ مشرقی پاکستان کے دوران اردوکو پاکستان کی قومی زبان قرار دینے کی مخالف آواز مسلم لیگ کے اندر سے سب سے توانا آواز مجیب الرحمن کی تھی۔
1958
میں ایوب خان کے مارشل لاء کی مخالفت کی اور ۸ ۱ ماہ جیل میں رہے۔
1963
میں سہروردی اور
1964
میں خواجہ ناظم الدین کی وفات کے بعد سیاسی خلا کو مجیب ہی نے پر کیا 
1965
میں ایوب خان کے خلاف مشرقی پاکستان میں مادر ملت فاطمہ جناح کی انتخابی مہم چلائی اور ۵۶ کی جنگ میں پاکستانی افواج کے ساتھ یک جہتی اور حمائت کا اعلان کیا۔
1966
میں لاہور میں چوہدری محمد علی کی معاہدہ تاشقند کے خلاف بلائی گئی ایک میٹنگ کے دوران مجیب نے اپنے چھ نکات کا اعلان کیا۔
مجیب کے چھ نکات
۔ ملک مین پارلیمانی نظام ہو گا اور مرکز میں قانون سازی کے لیے نمائندگی کے لیے بنیاد آبادی پر ہو گی۔
۔ مرکز کے پاس خارجہ، دفاع ، کرنسی اور خارجہ کے محکمے ہوں گے، مالی معاملات کو صوبے طے کریں گے۔
۔ مشرقی اور مغربی صوبوں کے لیے الگ الگ فیڈرل ریزرو مالیاتی سسٹم ہوں گے یا کرنسی علیحدہ علیحدہ ہو گی۔
۔ ٹیکس اکٹھا کرنا صوبائی معاملہ ہو گا البتہ مرکز کو دفاع سمیت دوسرے محکمے چلانے کے لیے خاطر خواہ فنڈ مہیا کیا جائے
گا۔
۔ دونوں صوبوں کے لیے علیحدہ علیحدہ فارن کرنسی ونگ ہوں گے۔
۔ مشرقی ونگ کے لیے علیحدہ پیرا ملٹری فورس ہو گی۔

مجیب نے اپنے مغربی پاکستان کے ایک دورے کے دوران ایک بیان میں کہا تھا کہ اس کو اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو آتی ہے۔ یہ بیان اس دور کی سیاست کا اہم موضوع بنا ، سول اور عسکری معاشی اخراجات پر بحث ہوئی، اور سوشل ازم کے عروج کے دور میں یہ سیاسی بیان امیر اور غریب کی تقسیم کو اجاگر کرنے کی بجائے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان
1200
میل کے فاصلے کو اجاگر کرے کا سبب بنا ۔ علاقی تعصب بمقابلہ ادارتی تعصب عروج پر پہنچا ۔الیکشن کے نتیجے میں 
169
میں سے 
167
نشستیں جیتنے والے ، اور اعلان کے باوجود اقتدار مجیب کے حوالے نہ ہو سکا تو عوامی لیگ نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کردی، فوجی کاروائی شروع ہوئی ، مکتی باہنی کی آڑ میں مسلح جتھے بھارت سے آنا شروع ہوئے۔
10 Aril 1971
کو ْ مجیب نگر ْ نامی آزاد حکومت بنی اور 
16 December 1971
آزاد بنگلہ دیش بن گیا۔

ہم یہاں ایک ایسے کردار پر بحث کر رہے ہیں جو پاکستان بنانے والوں میں شامل تھا مگر سیاسی اور معاشی نا انصافیوں نے اسے ملک توڑنے والی قوتوں کا سر غنہ بنا دیا۔ مجیب کو ملک دشمن، غدار یا جو بھی کہیں ، کہنے والوں کو حق ہے ۔اور اس کا دفاع کرنا بنگلہ دیشی حکومت کا حق ہے مگر ہمار حق ہے کہ ہم اپنے حالات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں۔ اور پاکستان کے اور خود پاکستانی عوام کے مفاد میں اس حقیقت کا ادراک کریں
۔ ملک کے اندر ادارے اپنے طے شدہ آئینی دائروں کے اندر رہ کر اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
۔ ملک کے اندر دولت کی غلط تقسیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والی محرومیوں کو بلا دست طبقے سیاسی اور مذہبی اختلاف میں
ڈہال کر عوام کو تقسیم در تقسیم کر کے اپنا مفاد حاصل کرتے ہیں۔ اس تقسیم کی اصلاح کی کوشش کرنے والوں کے خلوص
کے ادراک کی ضرورت ہے۔
۔ معاملات اقراء پروری اور ذاتی مفادات کی بجائے میرٹ پر نمٹائے جائیں۔ 
۔ ملک میں انصاف کا بول بالا ہونا چاہئے اور حکومت بالا دست طبقات کی لونڈی بننے کی بجائے غریب اور بے سہارا لوگوں کو انصاف کی فراہمی کے لیے زیردست کا بازو بنے۔
۔ ہمیں اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن و دوستی کو فروغ دینا چاہیے ۔

عوام کے خوابوں کی تعبیر اور خواہشات کی تکمیل ملک کے جغرافیائی تحفظ کے احساس اور استعداد کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوریت اور اسلام کے دفاع کے امین اداروں کو خالص اسی مقصد کے لئے فارغ کر کے ہی ہم اپنی منزل حاصل کر سکتے ہیں۔

ملک کے اندر شہریوں کو دہشت گرد ، غدار وطن اور کافر قرار دینے کی روش جاری و ساری ہے، جاتی امراٗ کے حکمرانوں کو غدار وطن قرار دینا، عمران خان کو یہودی ایجنٹ ثابت کرنا، مولانا فصل الرحمن کو زر کا پجاری بتانا ، زرداری کو کمیشن ایجنٹ مشہور کرنا سستی شہرت حاصل کرنے کے ہتھ کنڈے ہیں ۔ اور ہتھ کنڈے نہ پہلے کامیاب ہوئے ہیں نہ اب ہوں گے۔ البتہ معاشی محرومی ایسا عنصر ہے جو غداراور کافر بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسی لیے محسن انسانیت ، نبی اکرم، خاتم المرسلین صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غربت سے پناہ مانگنے کی ہدایت فرمائی ہے۔